بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ نے جنگ بندی کے ذریعے یہودی جارحیت کے لیے دو اہم مقاصد حاصل کر لئے:
لیطانی دریا کے شمال میں ایرانی پشت پناہی میں حزب اللہ کے دستوں کا انخلاء، اور دو محاذوں کی علیحدگی!
)ترجمہ)
27 نومبر 2024ء کو یہودی وجود اور حزب اللہ کے درمیان لبنانی محاذ پر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ اس جنگ بندی کی شرائط کے تحت، یہودی وجود دو ماہ کے اندر اپنا قابض فوجی دستہ جنوبی لبنان سے واپس بلائے گا، جبکہ حزب اللہ اپنی افواج لیطانی دریا کے شمال میں منتقل کرے گی۔ اگر حزب اللہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے تو یہودی افواج کو جنوبی لبنان میں دوبارہ نقل و حرکت کرنے کی آزادی ہو گی۔ اس کے علاوہ دشمن کے طیاروں کو لبنانی فضائی حدود میں مسلسل پروازوں، نگرانی اور جاسوسی کی اجازت ہونا بھی اس معاہدے میں شامل ہے۔
[جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات، جس کو الجزیرہ نے 27 نومبر 2024 کو شائع کیا، درج ذیل ہیں:
فوجی انخلاء : 'اسرائیلی' فوج جنوبی لبنان سے بتدریج انخلاء کرے گی اور ساٹھ دن کے اندر یہ عمل مکمل کرے گی۔ حزب اللہ اپنی افواج کو لیطانی دریا کے شمال میں واپس لے جائے گی، جو 'اسرائیل' کی سرحد سے تقریباً تیس کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ لبنانی فوج لیطانی دریا کے جنوب میں پانچ ہزار فوجی تعینات کرے گی اور 'اسرائیل' کی سرحد کے ساتھ 33 مقامات پر اپنی چوکیاں قائم کرے گی۔
نگرانی کا نظام: معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے موجودہ سہ فریقی Tripartiteنگرانی کا نظام، جس میں اقوام متحدہ کی عبوری فورس برائے لبنان UNIFILلبنانی فوج، اور 'اسرائیلی' فوج شامل ہیں، کو استعمال کیا جائے گا۔ اس نظام کو مزید وسعت دی جائے گی، جس میں امریکہ اور فرانس کو شامل کیا جائے گا، جبکہ اس گروپ کی قیادت واشنگٹن کے سپرد ہو گی۔]
اس معاہدے کے باوجود، یہودی وجود نے چار افراد جو اپنے گاؤں میں واپس آئے ہوئے تھے، انہیں مزاحمت میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد یہودی وجود نے لیطانی دریا کے جنوب میں کرفیو نافذ کر دیا، گویا یہ علاقہ اس کے زیرِ کنٹرول ہو۔ الشرق الاوسط نے 27 نومبر 2024ء کو رپورٹ کیا:
[یہودی فوج نے آج (بدھ) جنوبی لبنان کے باشندوں پر لیطانی دریا کے جنوب کی جانب جانے پر کرفیو کا اعلان کیا...]
یہودی فوج کے عربی زبان کے ترجمان، أفيخاي أدرعي Avichay Adraee، نے آج (بدھ كے دن) بیان دیا:
[’ان علاقوں کی طرف کسی بھی قسم کی نقل و حرکت آپ کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم آپ کو اطلاع دیتے ہیں کہ آج شام 5 بجے سے کل صبح 7 بجے تک لیطانی دریا کے جنوب میں کسی بھی قسم کی نقل و حرکت سختی سے ممنوع ہے۔‘]
العربیہ نیٹ نے 27 نومبر 2024ء کو معاہدے کی تفصیلات شائع کیں، جس میں کہا گیا:
آزاد نقل و حرکت: 'اسرائیل' کو جنوبی علاقے میں خلاف ورزیوں کے ردعمل میں کارروائی کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اس علاقے کے علاوہ، اسے لبنان میں غیر قانونی ہتھیاروں کی اسمگلنگ سمیت ابھرتے ہوئے خطرات کا جواب دینے کا حق بھی حاصل ہوگا۔ ایسے معاملات میں، 'اسرائیل' ممکنہ حد تک امریکہ کو مطلع کرے گا۔ 'اسرائیلی' پروازیں لبنان کی فضائی حدود میں انٹیلیجنس، نگرانی، اور جاسوسی پر مرکوز رہیں گی، جن کے دوران وہ خاموشی سے اپنے آپ کو نمایاں کئے بغیر اپنا کام انجام دیں گی۔
یہ معاہدہ مؤثر طور پر لبنان اور غزہ کے محاذوں کو علیحدہ کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں غزہ یہودی وجود کے حملوں کے تحت بے یار و مددگار رہ جائے گا، اور لبنانی محاذ سے کسی بھی قسم کی مدد سے محروم ہو جائے گا۔ اس وقت، امریکہ، یہودی وجود، اور فلسطین کے اردگرد موجود غدار حکومتیں ایک ایسا معاہدہ ترتیب دے رہی ہیں جو غزہ پر یہودی وجود کی فتح کو یقینی بنائے، وہ بھی ان شرائط پر جو یہودی وجود مقرر کرے۔ یہ سب کچھ ایسے حکمرانوں کے عین سامنے ہو رہا ہے جو نہ تو اللہ کا خوف رکھتے ہیں اور نہ ہی حیا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا:
﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾
"اللہ انہیں غارت کرے، یہ کہاں بہکے جا رہے ہیں!" [المنافقون؛ 63:4]۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقصد غزہ کو مکمل طور پر کاٹ دینا ہے، تاکہ یہودی وجود کو غزہ، مغربی کنارے، القدس، اور پورے فلسطین پر غلبہ حاصل ہو جائے۔ محاذوں کو علیحدہ کرنے اور حزب اللہ کو لیطانی دریا کے شمال میں واپس بلانے کا معاہدہ مسلمانوں کے حکمرانوں، خاص طور پر فلسطین کے قریب موجود حکمرانوں جیسے مصر، اردن، سعودی عرب، ترکی، ایران، اور شام کی خاموش رضامندی سے ممکن ہوا ہے۔ یہ حکمران ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے یہودی اور مسلمانوں کے درمیان غیر جانبدار ہوں، لیکن حقیقت میں وہ یہودی وجود کے ساتھ کھڑے ہیں۔
حتیٰ کہ ایران نے بھی اپنی فوج کو حزب اللہ کی حمایت کے لیے لبنان میں متحرک نہیں کیا، تاکہ وہ معاہدے کی پابندی سے بچیں اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر غزہ کے لیے کھوکھلی حمایت کو ترک نہ کریں۔ اسی طرح، مصر اور اردن کی حکومتوں نے، جو جغرافیائی طور پر غزہ اور مغربی کنارے کے قریب ترین ہیں، اپنی افواج ان علاقوں کے دفاع کے لیے نہیں بھیجیں۔ اس کے بجائے، انہوں نے قاہرہ میں یہودی وجود کے ساتھ فلسطینی زمینوں پر مذاکرات پر بات چیت کرنے کے لیے اجلاس منعقد کیے، بجائے اس کے کہ اپنی افواج کو متحرک کریں اور ان استعمار کے بوئے ہوئے کانٹوں کو اکھاڑ پھینکیں جو مقدس سرزمین میں جڑ پکڑ چکے ہیں۔
جیسا کہ اخبار "الیوم السابع" نے اپنی ویب سائٹ پر 27 نومبر 2024ء کو نشر کیا:
'صدر سیسی اور اردن کے بادشاہ نے فلسطینی علاقوں میں پیشرفت پر پوزیشنوں کو مربوط کرنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا...'
یہ بات کرتے ہوئے، فلسطین کے دفاع کے لیے افواج کو متحرک کرنے کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا، جبکہ صیہونیوں کے ظلم و ستم نے انسانوں، درختوں اور پتھروں تک کو نشانہ بنا ڈالا ہے!
اے مسلمانو !
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہودی وجود حقیقی معنوں میں جنگ کی طاقت نہیں رکھتا، کیونکہ ان پر ذلت اور رسوائی مسلط کر دی گئی ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛
﴿وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ * ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ﴾
"اور یہ تمہیں خفیف سی تکلیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر ان کو مدد بھی (کہیں سے) نہیں ملے گی۔ یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت (کو دیکھو گے کہ) ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے کہ یہ اللہ اور (مسلمان) لوگوں کی پناہ میں آ جائیں" (آل عمران: 111-112)۔
بزدلی یہودی وجود کے دلوں میں پیوست ہے۔ یہودی وجود مضبوطی سے کھڑا نہیں ہو سکتا جب تک کہ انہیں اللہ کی طرف سے یا انسانوں کی طرف سے سہارا نہ دیا جائے۔ اللہ کے ساتھ تو ان کا تعلق انبیاء کے زمانے سے ہی منقطع ہو چکا ہے، جس کے بعد وہ صرف دوسروں کی مدد پر انحصار کرتے ہیں۔ آج یہودی وجود کا سہارا کفر کا سرغنہ، امریکہ ہے، اور مسلمانوں کے ممالک میں غدار حکمرانوں کی سازشیں ہیں۔ ان سہاروں کے بغیر یہودی وجود مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ بودا اور کمزور ہے۔
حقائق خود گواہ ہیں: 400 دن سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود، یہودی وجود اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا، حالانکہ ان کے مدِ مقابل ایسے گروہ ہیں جن کے پاس نہ فضائی طاقت ہے نہ ہی بکتر بند گاڑیاں۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہودی وجود کا خاتمہ اور اس کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنا صرف گروہوں کی کوششوں سے ممکن نہیں۔ اس کا واحد راستہ افواج کو جہاد کے لیے متحرک ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾
"پس اگر تم انہیں جنگ میں قابو پا لو تو ان کے پیچھے والوں کو بھگانے کے لیے ان کو ایسی سزا دو کہ شاید وہ نصیحت پکڑیں" (سورہ الانفال: 57)۔
استعماری طاقتیں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں، اسی لیے وہ مسلمانوں کے ممالک کے حکمرانوں کو سخت اور واضح احکامات دیتی ہیں کہ افواج کو ان کی بیرکوں میں مقید رکھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ استعماریوں کے نمائندے، خاص طور پر امریکہ کے نمائندے، پورے خطے کا سفر کرتے ہیں، قطر سے مصر، اردن، سعودی عرب، ترکی اور اس سے آگے تک، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے ایجنٹ حکمران ان کے احکامات کی پیروی کریں اور افواج اپنی جگہ سے حرکت نہ کرنے پائیں۔
اے مسلمانو ! اے اسلام کی افواج کے سپاہیو!
اس امت کی مصیبت اس کے حکمران ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے شہداء کے لاشے دیکھتے ہیں، اپنے کانوں سے بچوں کی چیخیں سنتے ہیں، اور اپنے سامنے دل دہلا دینے والے مناظر میں خاندانوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، جو اپنے بچوں اور خواتین کے ساتھ بے بسی کی حالت میں نظر آتے ہیں۔ حکمران یہ سب دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، لیکن ان کے دل میں معتصم جیسے غیرت مند شخص کی سی حمیت پیدا نہیں ہوتی!
یہودی وجود کو یہ حکمران اس طرح گھیرے ہوئے ہیں جیسے کنگن کلائی کو گھیرتا ہے، مگر وہ نہ فوج کو متحرک کرتے ہیں اور نہ ہی مدد کی پکار کا جواب دیتے ہیں۔ یہ حکمران اپنے آپ کو بے وقعت کر چکے ہیں، بالکل اس مردہ جسم کی طرح جس کو کسی زخم سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔
اے اسلام کی افواج کے سپاہیو !
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ فلسطین مبارک سرزمین ہے اور ایک اسلامی زمین ہے جس پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں۔ نام نہاد "دو ریاستی حل" کا اسلام میں کوئی وجود نہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو فتح کیا، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اس کی حفاظت کی، صلاح الدین ایوبیؒ نے اسے آزاد کرایا، اور سلطان عبدالحمید ثانیؒ نے اسے یہودیوں سے محفوظ رکھا۔ یہ زمین دوبارہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے مخلص سپاہیوں کی کوششوں سے حاصل کی جائے گی، جو رسول اللہ ﷺ کے رایۂ (علم) کے نیچے اپنے کمانڈر کی قیادت میں ہوں گے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی اس بشارت کو پورا کریں گے:
«تُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ»
"’تم یہودیوں سے قتال کرو گے اور تم انہیں قتل کرو گے"۔
یہی وقت ہے کہ آپ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، اپنے آپ کو ان غدار حکمرانوں کے تسلط سے آزاد کریں، اور اللہ کی نصرت کے ذریعے امت کی عزت کو بحال کریں۔
اے اسلام کی افواج کے سپاہیو!
کیا تم ان دونوں میں سے کسی ایک عظیم مقصد کے لیے آرزو نہیں رکھتے؟
﴿يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾
"وہ تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور دائمی جنتوں میں عمدہ مساکن۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور تمہیں ایک اور چیز ملے گی جسے تم پسند کرتے ہو، اللہ کی طرف سے فتح اور قریب آنے والی کامیابی۔ اور مومنوں کو خوشخبری دے دو" (الصف: 12-13)۔
تو اٹھو، اے اسلام کی افواج کے سپاہیو!
تاکہ تمہاری مدد سے یہ مبارک سرزمین دوبارہ اسلام کا گہوارہ بن جائے۔ اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں:
﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز﴾
’’اور اللہ یقیناً ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ بے شک اللہ بڑا قوی، عظمت والا ہے" (الحج: 40)۔
ہجری تاریخ :27 من جمادى الأولى 1360هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 29 نومبر 2024م
حزب التحرير