السبت، 26 صَفر 1446| 2024/08/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

شام میں مسلمانوں کی مدد کرنا صرف طالبان کی نہیں بلکہ افواج پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے

روزنامہ ڈان نے 15جولائی2013کو یہ رپورٹ کیا کہ ''پاکستانی طالبان نے شام میں کیمپ قائم کر لیے ہیں اور سیکڑوں جنگجو صدر بشار الاسد کے خلاف باغیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے بھیجے ہیں''۔ یہ بھی کہا گیا کہ ''پاکستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان نے کہا ہے کہ پاکستان بھر میں صوبائی انتظامیہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جنگجو ملک سے شام کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ لیکن تین پاکستانی انٹیلی جنس حکام نے جو افغانستان سے منسلک قبائیلی علاقوں میں تعینات ہیں اور عسکریت پسندوں نے یہ کہا ہے کہ عسکریت پسند شام کی جانب روانہ ہوئے ہیں جن میں القائدہ، پاکستانی طالبان اور لشکر جھنگوی کے اراکین شامل ہیں''۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں کہ﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾''اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے'' (الانفال:72)اور شام کے لوگوں نے امت مسلمہ، اس کی افواج اور ان کے حکمرانوں کو ہزاروں بار پکارا کہ ان کی مدد کی جائے یہاں تک کہ وہ ان سے مایوس ہوگئے لیکن اپنے رب سے مایوس نہیں ہوئے۔ لہذا انھوں نے اپنے مقدس انقلاب میں شام کے جابر کے خلاف یہ نعرہ اختیار کیا کہ ''اے اللہ ہمارا تیرے سوا کوئی نہیں ہے''۔ اسلام امت مسلمہ سے ،جس میں پاکستان کے مسلمان بھی شامل ہیں، شام کے مسلمانوں کی حقیقی مددکے لیے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان اپنی افواج کو شام بھیجے جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے۔ وہ اپنے جنگی جہاز،ٹینک اور کمانڈوز بھیجے جو بشار کے قلعے کو مسمار کردیں اوراس کے غنڈوں، اور منافق ریاستوں میں سے جو کوئی بھی بشار کی مدد کررہے ہیں ان کو بھی برباد کردیں۔ پاکستان کے مسلمان اسلامی نقطہ نگاہ سے محض چند مجاہدین یا زکوة کی رقم یا کھانے کی اشیأ بھیج کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
جہاں تک وزارت خارجہ کی اس تردید کا تعلق ہے کہ طالبان کی چند عناصر شام میں اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے گئے ہیں تو یہ تردید اس بات کی تصدیق ہے کہ کیانی و شریف حکومت بشار کے ظلم و جبر کی حمائت کررہے ہیں۔ یہ حکومت اس بات کو جرم سمجھتی ہے جو چند مسلمان ایک دوسرے کی مدد کر تے ہیں اور انھیں ایسا کرنے سے روکتی ہے ۔ یہ تردید اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ یہ حکومت مغرب کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے جس نے مسلمانوں کی زمینوں کو تقسیم کیا اور پھران غداروں کو حکمران بنا کر ان مصنوعی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔یہ صورتحال اس بات کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ ہمارے حکمران اس عظیم امت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے﴿إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ﴾''یہ تمھاری امت، ایک امت ہے اور میں تمھارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کرو''(الانبیأ:92)۔
کیانی و شریف حکومت نے شامی انقلاب کے خلاف وہی شرمناک موقف اختیار کررکھا ہے جو کافر مغربی ممالک نے اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ بشار کی حکومت کی خفیہ اور کھلی حمائت کرتے ہیں اور ان میں سے سب سے کم برے وہ ہیں جو شام کے مظلوم لوگوں کو بشار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے انگلی تک نہیں ہلا تے بلکہ خاموشی سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی گنتی کررہے ہیں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان کی حکومت بشار الاسد کی حکومت کی طرح امریکہ کی حمائتی ہے۔ لہذا وہ طالبان جنگجوجو شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے گئے ہیں اس بات سے خبردار رہیں کہ ان میں اس ایجنٹ حکومت کے کارندے شامل نہ ہوجائیںتا کہ شام کے انقلاب کو کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے اور بشار اور کیانی و شریف حکومت کے اصل آقا امریکہ کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکے۔
افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! کیا تم نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں موجود حکومت نے افواج پاکستان کو دنیا بھر میں امریکی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے تا کہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور صرف صلیبیوں کے مفادات ہی کی تکمیل ہو؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ امریکہ نے افغانستان میں سویت یونین کو شکست دینے کے لیے ہماری افواج کو استعمال کیا تا کہ خطے میں امریکی راج کو قائم کیا جاسکے؟ اور انھوں نے استعمال کیا تھااور اب بھی افغانستان میں امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور ان تمام مزاحمتی قوتوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں جو خطے میں امریکی راج کی مخالف ہیں؟ تم امریکی حمائتی کہلائے جانے کو کیسے قبول کرسکتے ہو اور اس بات کو بھی کیسے قبول کرسکتے ہو کہ ایک طرف بزدل امریکیوں کو بچانے 1993میں صومالیہ جیسے دور دراز کے ملک پہنچ جاؤں اور شام کے مسلمانوں سے منہ موڑ لو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ((إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ)) ''اگر شام کے لوگوں میں بگاڑ آ گیا تو پھر تم میںکوئی خیر باقی نہیں رہے گی''(احمد)۔
شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اکھاڑ پھینکو اور اختیار حزب التحريرکے سپرد کردو، اس کے امیر ، مشہور فقیہ،عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قرآن و سنت کے نفاذپر بیعت کرو اور وہ تمھارے خلیفہ کے طور پر شام کے مسلمانوں کو جابر کے ظلم سے نجات کے لیے فوج کشی کریں اور افغانستان اور عراق کو امریکی قبضے سے نجات دلاتے ہوئے شام کی جانب بڑھیں۔ اللہ کی قسم تم اس قابل ہو اور تم اللہ کی مدد سے ایسا کرسکتے ہو اور آج کے بعد اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی سے اجتناب کرنے کے لیے تم میںسے کسی کے پاس اب کوئی حیلہ یا جواز نہیں ﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے''(یوسف: 21)

تفسیر  سورہ البقرہ آیات  83 تا 86

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ﴾ (83)
﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ﴾ (84)
﴿ثُمَّ أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ (85)
﴿أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ﴾ (86)
" اور(وہ زمانہ یاد کرو)جب ہم نے (توریت میں)بنی اسرائیل سے وعدہ لیاکہ اللہ کے سوا( کسی اورکی) عبادت مت کرنا اورماں باپ کی اچھی طرح خدمت گذاری کرنااور قرابت داروں کی بھی اوریتیموںکی بھی اورغریب محتاجوں کی بھی اور جب عام لوگوں سے (کوئی)بات (کہناہوتو) اچھی طرح(خوش خلقی سے) کہنااورنماز کی پابندی کرنااورزکوٰة اداکرتے رہنا،لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھرگئے ،اورتمہاری تومعمول کی عادت ہے، اقرارکرکے ہٹ جانا ۔ اور(وہ زمانہ یاد کرو)جب ہم نے تم سے یہ وعدہ(بھی) لیا کہ (خانہ جنگی کرکے) باہم خونریزی مت کرنااورایک دوسرے کوجلاوطن مت کرنا،پھر( ہمارے اس اقرارلینے پر)تم نے اقراربھی کرلیا،اوراقراربھی (ضمناً نہیں بلکہ) ایساکہ گویاتم (اس پر)شہادت (بھی) دیتے ہو۔ پھراس (اقرارصریح کے بعد) تم (جیسے ہو)یہ(آنکھوں کے سامنے )موجود ہےکہ باہم قتل وقتال بھی کرتے ہواورآپس کے ایک فرقے کوجلاوطن بھی کرتے ہو(اس طورپر) کہ ان اپنوں کے مقابلہ میں (مخالف قوموںکی) طرف داری کرتے ہو،گناہ اورظلم کے کاموںمیں(سوان دونوں حکموں کوتویوں غارت کیا)اور(ایک تیسراحکم جوسہل سمجھااس پرعمل کرنے کوخوب تیاررہتے ہوکہ )اگران لوگوں میں سے کوئی قیدی ہوکرتم تک پہنچ جائے توایسوں کوکچھ خرچ کراکررہاکرادیتے ہولیکن ان کانکالناجوتم پر حرام تھا (اس کاکچھ خیال نہ کرتے)۔ کیاتم کتاب (توریت )کے بعض (احکام )پر ایمان رکھتے ہواوربعض (احکام)پرایمان نہیں رکھتے تواورکیاسزاہونی چاہئے ایسے شخص کی جو ایسی حرکت کرے ماسوائے دنیاوی زندگی میں رسوائی کے اور قیامت کے دن بڑے سخت عذاب کی مارکے اوراللہ تعالیٰ (کچھ) بے خبر نہیں تمہارے اعمال (بد )سے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیاکی زندگی کوآخرت کے بدلے مول لیاہے ان سے نہ توعذاب ہلکے ہوں گے اورنہ ان کی مدد کی جائے گی۔"
عطاءبن خلیل ابوالرَشتہ(امیرحزب التحریر)نے اپنی تفسیر التیسیر فی اصول التفسیرمیں ان آیات شریفہ کی تفسیریوں کی ہے:
-1 ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالی ٰ ہمیں یہ خبردیناچاہتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیاتھاکہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں گے ،یہاں ﴿لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ﴾ جوکہ نہی کے معنی میں ہے ،یعنی اللہ کےسوا کسی اورکی عبادت مت کرنا، اوریہ کہ اپنے والدین کی اچھی طرح خدمت گذاری کرنا ،یتیموں ،مسکینوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنا ، اوریہ کہ لوگوں کے ساتھ بات چیت میں خوش اخلاقی کامظاہرہ کں ۔ ان آیات میں حُسنًاآیاہے ،اس کودونوں طرح پڑھاجاسکتاہےحُسناًاور حَسَناًاور یہ دونوں متواتر قراءت ہے۔
اوریہ عہد لیاتھاکہ نماز قائم کریں اورزکوٰة دیاکریں،لیکن انہوں اس عہد کی پاسداری نہیں کی،بلکہ اس سے پھر گئے اورسب نے اس کوٹکرادیا،سوائے چند لوگوں کے جو ایمان لائے تھےاوراسلام قبول کیاتھا،یہ عہدوپیما ن تمام یہود سے لیاتھا،خواہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے یہودی ہوں ،یعنی جس دوران یہ معاہدہ کیا جارہا تھا،یاان کے بعد کے یہود ہوں ،اسی طرح یہ عہد ان یہودیوںکوبھی شامل ہے ،جورسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے ،توجوعہد ان کے اسلاف سے لیاگیاوہی ان کے خلف اورجانشینوں پربھی صادق ہوگااورجن یہود سے براہ راست یہ عہد لیاگیا،ان کی طرف سے عہدشکنی ان یہودیوں پربھی لاگوہوتی ہے، جورسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھے ،کیونکہ یہ لوگ بھی کلام الٰہی میں تحریف کے مرتکب تھے اوراپنی کتابوں میں مذکوررسول ﷺ کے اوصاف میں باوجود اس کے کہ انہیں اس بارے میں حق کاعلم تھا،تبدیلی کرتے تھے۔
﴿وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ﴾ یعنی تم ایسی قوم ہوجن کی عادت ہی اقرار کرکے ہٹ جانا اورمعاہدوں کی خلاف ورزی کرناہے ۔
-2 پھراللہ تعالیٰ ہمیں خبردیتے ہیں کہ اللہ نے ان سے میثاق (مضبوط وعدہ)لیاتھاکہ ایک دوسرے کوقتل نہیں کروگے اورایک دوسرے کوجلاوطن بھی نہیں کروگے ، جیساکہ اس آیت میں ہے کہ ﴿لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ﴾ یعنی دوسرے فریق کاخون بہانااوردوسرے فریق کے آدمیوں کوان کے گھروں سے نکال دینا۔ تو اللہ نے ان کے ایک ہی ملت(مذہب) سے ہونے کوایک ہی خون اورایک ہی جان سے تعبیر کیا۔
-3 ان آیات کے منطوق سے یہ واضح ہوتاہے کہ جس چیز پران سے عہد لیاگیاتھاوہ ایک دوسر ے کے قتل اور جلاوطن کرنے کوچھوڑناتھا ﴿لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ﴾ کایہی معنی ہے، اور آیات کے مفہوم سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ بھی عہد لیاتھاکہ ایک دوسرے کے خلاف دوسرے لوگوں کی پشت پناہی نہ کروگے اور قیدیوں کورہائی دلانے کے واسطے مالی معاوضہ دو گے ،یہی آیت کے اس حصے کا مفہوم ہے:﴿تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ ۔
﴿وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُم کاعطف وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ﴾ پر ہے،اوراس کے حکم کابیان بھی ہے ،لغت میں جب ایک فصیح عربی (جواہل لغت میں سے ہو)معطوف کواس کے معطوف علیہ یاصفت کواس کے موصوف سے الگ کرکے لائے،یاگفتگومیں جملوں کوآگے پیچھے لائے،وغیرہ،تواس کی گفتگومیں وہی کچھ مقصود ہوتا ہے جوکلام کی ترتیب کے خلاف ہو تاکہ وہ نمایاں ہو۔
یہاں بھی معطوف علیہ (یعنی جس کے بارے میں حکم کیاگیاہے: ﴿وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ ﴾ہے اور معطوف(یعنی حکم) ﴿وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ ہے،ان کے درمیان﴿ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ﴾ کولاکرجدائی کی ہے ،اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں کوئی ایسی چیزہے جسے اخراج(جلاوطنی)کے موضوع اوراس کے حکم کے حوالے سے ظاہرکرنامقصود ہے۔
ان آیات میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ جس چیز کااظہار ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کی اس بات پرسرزنش کی جائے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کرکے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں ،نہ یہ کہ ان کوامن کی حالت میں نکالتے ہیں،اس سے ان کی ملامت اور سرزنش میں اور اضافہ کیا گیاہے ۔ تواگرآیت یوں ہوتی وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ تو اخراج کی کیفیت کاپتہ نہ چلتا،کیونکہ ممکن ہے ،ان کوعام ذرائع سے نکال دیتے ہوں گے ،جوامن یاایک معاہدہ اورخرید وفروخت کی صورت میں بھی ہوسکتاہے،لیکن﴿تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ ﴾ کو درمیان میں لاکریہ بتایا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ لڑ کرہی ان کونکال دیتے تھے ،پھر اس کے بعد اس کاحکم آیا،تاکہ ان کی ملامت اس طرح کی جائے کہ ا ن کااپنے بھائیوںکونکالنالڑکرہوتاتھا،جوان کے ساتھ کسی بھی ذریعے سے مفاہمت کرکے ان کوراضی خوشی نکالنے کے مقابلے میں بہت سخت ہوتا تھا،اس لئے ان دونوں کے درمیان ےہ جملہ لایا گیا: ﴿وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ اور وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ جوآپس میں ناقابل انفصال ہے،جدائی کرنے کامقصد ان کی سرزنش اور ملامت کااظہار ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کوجنگ کے ذریعے نکالتے ہیں نہ کہ پرامن طریقے سے ۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے پہلے تین معاہدوںکوتوڑا(قتل نہ کرنا،ترک وطن کرانے کاعمل چھوڑنااورپشت پناہی یعنی اپنے بھائیوں کے خلاف تعاون نہ کرنا)ان معاہدوں سے منہ پھیرلئے ،ماسوائے چوتھے معاہدے کے کہ اس پرقائم رہے( یعنی قیدیوں کی رہائی کیلئے معاوضہ دینا)۔اس طرح انہوں نے بعض پرتوایمان لایااوربعض سے کفرکیا،اس لئے کہاگیا ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ﴾ کیاتم کتاب(توراة) کے کچھ حصے پر توایمان لاتے ہواور بعض سے کفر کرتے ہو،تویہ استفہام انکاری ہے،جبکہ ان کی بداعمالیوں پر ان کی سرزنش بھی کی گئی ۔
-4 اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بیا ن کرتے ہوئے آیت کوختم کیاہے کہ ایسے کردارکے حامل لوگوں کاانجام کیاہوتاہے ﴿خِزْيٌ﴾ ،ذلت وخواری اور دنیامیں بے عزتی ہوتی ہے اورآخرت میں شدید ترین عذاب ، اوریہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے گھناؤنے اعمال سے بے خبر نہیں،،بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کوگنتاہے اور ان کومحفوظ کرتاہے ،بالآخر ان کوان اعمال کی وہ سزادے گاجس کے وہ حقدار ہیں ،دنیامیں رسوائی اور ذلت اور آخرت میں شدید عذاب ﴿وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾
-5 یہ آیت مدینہ کے یہودیوں کی حالت کوبیان کرتی ہے، ان کے پاس اسلام کے آنے کے وقت، بنوقینقاع کا یہودی قبیلہ ، خزرج کا حلیف تھا اوربنونضیراوربنوقریظہ یہ دونوں یہودی قبیلے اوس کے حلیف تھے ،یہودی، اوس وخزرج کے درمیان جنگ بھڑکاتے اوران میں سے ہرفریق اپنے حلیفوں کی مددومعاونت کرتا،اس لئے ہرایک اپنے حلیف کاساتھ دیکر آپس میں لڑتا ،پھرجنگ کے نتیجے میں ایک دوسرے کوگھروں سے نکال دیتا لیکن یہودی آخرمیں اپنے قیدیوں کوچھڑوانے کیلئے ایک ہوجاتے ،چاہے بنوقینقاع والے ہوں یابنی نضیراوربنی قریظہ میں سے ہوں ،اس لئے فرمایا ﴿وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ﴾ اوراگرتمہارے حلفاءکے پاس دوسرے فریق کے یہودی قیدی آجائیں توتم ان کافدیہ دیتے ہواوران کی گردن چھڑاتے ہو،یہاں ﴿وَإِنْ يَأْتُوكُمْ﴾ کامعنی ہے کہ جب یہ یہودی تمہارے حلفاءکے پاس قیدی بن جاتے ہیں توگویاوہ تمہارے پاس قیدی بن کرآئے۔
تو جب ان سے کہاجاتاتھاکہ تم آپس میں کیوں کرایک دوسرے کوقتل کرتے ہوجبکہ اوس وخزرج کے ہاتھوں میں جانے والے تمہارے قیدیوں کے فدیہ کیلئے تم مل کرخرچ کرتے ہو،تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس لئے یہ کرتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جومیثاق لیاگیاتھا ،اس کی روسے قیدیوں کوفدیہ کے ذریعے چھڑواناتوہم پر فرض ہے،اوراس بات کوچھپاتے تھے کہ میثاق توقتل چھوڑنے اورملک بدرکرنے نیزایک دوسرے کے خلاف پشت پناہی نہ کرنے کابھی لیاگیاتھا،تووہ اوس وخزرج کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانے کیلئے یہ سب کچھ کرتے ،اوردنیوی مفاد کیلئے جومیثاق ان سے لیاگیاتھااس کی خلاف ورزی کرتے تھے،تاکہ مدینہ میں ان کی شان باقی رہے اوروہ اوس وخزرج کے درمیان ان کی بھڑکائی ہوئی آگ کے نتیجے میں ان کوکمزورکرناچاہتے تھے ۔
-6 اس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت کے اندران کی یہ حالت بیان کی کہ ان لوگوں نے اپنی آخرت کواپنے کھوٹے اورفانی دنیوی مصالح کے بدلے بیچ دی ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کے نتیجے میں ان کوایسے شدید عذاب کی دھمکی دی جس میں کوئی کمی نہیں کی جائیگی ،اورجس کوکسی طوربھی ان سے ہٹایانہیں جاسکے گا ﴿وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ﴾ کایہی معنی ہے۔

سوال وجواب : شام کے انقلاب اورحزب التحریر کے حوالے سے

(حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ کی جانب سے فیس بک پر ان کے صفحے کو وزٹ کرنے والوں کی طرف سے پوچھے گئےسوالات کے جوابات کا سلسلہ)

مامون شحادہ ۔ صحافی،رائٹر اور سیاسی تجزیہ نگار کی طرف سے علامہ عطابن خلیل ابو الرشتہ سے سوال

 

سوال:
سلام کے بعدمیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے حزب التحریر شام کے انقلاب میں شامل ہو گئی جبکہ باقی جگہوں پر ایسا نہیں کیاگیا؟

جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے بھائی ہمارا کام ،ہراس جگہ جہاں بھی ہمیں کام کرنے کا موقع ملے، ایک ہی ہے اور تبدیل نہیں ہوتا۔
ہمارا یہ کا م ہر وقت اور ہر جگہ رسول اللہ ﷺکے اس طریقے پر کاربند رہتے ہوئے جو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بعثت کے سے لے کر مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام تک اختیار کیاخلافت راشدہ کے قیام کے عمل کے ذریعے اسلامی زندگی کا دوبار احیا ہے،

ہم لوگوں کو حق کی دعوت دینے کے لیے ان سے روابط رکھتے ہیں،ان کو یہ بتاتے ہیں کہ خلافت ایک عظیم فرض ہے جس کے قیام کے لئے کام کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔اس حوالے سے ہم امت کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور امت کے ساتھ اور اس کے ذریعے اس عظیم مقصد کے حصول کی کوشش کر تے ہیں،اسی طرح ہم خلافت کے قیام کی خاطر نصرہ طلب کرنے کے لیے اہل قوت سے رابطہ کرتے ہیں اور ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ خود ساختہ سکیولر نظام کو ختم کیے بغیر صرف چہروں کو تبدیل کر کے اپنی محنت کو ضائع نہ کریں۔
بلکہ اپنی جد وجہد،اپنی طاقت اور اپنی قربانیوں کو انسان کے بنائے ہوئے اس نظام کو حکمرانوں اور قوانین سمیت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور خلافت کے قیام کے لیے صرف کریں۔
ہم ان کے لئے ایسی وضاحت کرتے ہیں جس طرح یہ اسلام میں ہے،جو ہماری بات سنتا ہے ہم درست سمت میں اس کی راہنمائی کرتے ہیں اورجو ہماری بات نہیں سنتا ہم اس کو مجبور نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔
یہ ہم انقلابات سے پہلےبھی کر رہے تھے اور ان کے دوران بھی کر رہے ہیں اور ان کے بعد بھی کرتے ر ہیں گے۔ تاہم ان انقلابات نے لوگوں کے لیے سکیورٹی اداروں کے خوف سے آزاد ہو کر کلمہ حق کو سننے کے وسیع مواقع فراہم کر دئے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا بلکہ لوگ سیکیورٹی اداروں کے خوف سے اس حق کو سننے سے کتراتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج لوگوں کا ہماری طرف متوجہ ہونا قابل دید ہے۔ہمارے اور ان کے درمیان ایک زبردست اور متحرک رابطہ ہے۔یوں لوگوں کے سامنے موجود خوف کی دیوار گرنے کے نتیجے میں اس دعوت کی وسعت کا ملاحظہ کیاجا سکتا ہے جس کے ہم علمبردار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے بھی امت کے اندر ہماری تحریک کی بڑھتی ہوئی قوت اور اس میں اضافے کو محسوس کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس سے پہلے ہم کام نہیں کر رہے تھے بلکہ انقلابات سے پہلے لوگ سیکیورٹی اداروں کے خوف کی وجہ سے ہماری طرف متوجہ ہونے سے خوفزدہ تھے کیونکہ سیکیورٹی ادارے ہر وقت ہمارا اور جو ہم سے رابطہ کرتا اس کا پیچھا کرتے تھے جو ہمارے کام میں رخنہ اندازی کا سبب بنتا تھا اور لوگوں کے ہمارے قریب آنے کی کوشش کے سامنے رکاوٹ بنتاتھا۔
یاد رہے کہ ہمارے کام کے زور پکڑنے کا ملاحظہ صرف ان علاقوں میں ہی نہیں کیا گیا جہاں انقلابات رونما ہوئے بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے،بلکہ بعض دفعہ یہ انقلابات والے علاقوں سے بڑھ کر ہے۔شاید آپ نے پاکستان میں ہماری سرگرمیوں کو دیکھا یا ان کے بارے میں سنا ہو گا جہاں ہمارے کام کا زورعیاں ہے اور شام کےمساوی یا اس جیسا ہی ہے ،حالانکہ موجودہ وقت میں پاکستان میں کوئی انقلاب برپا نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا کام انقلابات سے پہلے بھی جاری تھا لیکن انقلابات کے دوران اس کا زیادہ مشاہدہ کیا گیا،خصوصاً شام میں،کیونکہ ظلم اور سرکشی کے خلاف لوگوں کے بپھرنے سے خوف کی دیوار منہدم ہو گئی۔
بس یہ نئی بات ہے ورنہ ہم انقلابات سے قبل،اس کے دوران اور اس کے بعد ہمیشہ یہ کام کرتے رہے ہیں۔
تاہم، اگر ''شام کے انقلاب میں شریک ہونے‘‘سے آپ کی مراد یہ ہے کہ ہمارا کوئی عسکری ونگ بن گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارا کوئی عسکری ونگ نہ پہلے کھبی تھا نہ اب ہے۔ہم ایک ایسی سیاسی جماعت ہیں جس کی آیئڈیالوجی اسلام ہے،جو دعوت کے مرحلے میں کسی قسم کے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ بلکہ ہم صرف اہل قوت سے نصرہ طلب کرتے ہیں تا کہ اسلامی ریاست کو قائم کیا جاسکے۔ جیسا کہ عقبہ کی دوسری بیعت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوا۔ ان شاء اللہ یہ اللہ کے اذن سے قریب ہے،
إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۳)
''بے شک اللہ اپنا امر پورا کرنے والا ہے ،اللہ ہی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے‘‘۔
آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ
جواب کے لیے فیس بک پر حزب التحریر کے امیر کے صفحے کو ملاحظہ کیجئے

ملالہ یوسفزئی،ایک لڑکی جس کو مغرب اپنےمفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہا ہے

خبر:اپنی سولویں سالگرہ کے موقع پر ملالہ یوسفزئی ، جسے طالبان نے پاکستان میں لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے کی بنا پر سر میں گولی مار دی تھی ،نے اقوام متحدہ میں خطاب کیا اور عالمی رہنماوں سے ہر بچے کو ''مفت،لازمی تعلیم ‘‘ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس کا استقبال جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے کیا۔ بان کی مون نے نوجوانوں کی اسمبلی سے اس کا تعرف کرایا۔ بان کی مون نے کہا کہ ''ملالہ کو نشانہ بنا کر انتہا پسندوں نے یہ دیکھا دیا ہے کہ وہ ایک ایسی لڑکی سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں جس کے ہاتھ میں کتاب ہو‘‘۔ اس نے مزید کہا کہ ''ملالہ ہم سے اپنے وعدوں پر قائم رہنے کا مطالبہ کررہی ہے کہ ہم نوجوانوں پر خرچ کریں اور تعلیم کو پہلی ترجیع دیں‘‘۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم،گورڈن براؤن جو عالمی تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی بھی ہیں،نے ملالہ کا تعرف کرایا اور اقوام متحدہ میں ملالہ کے دن کو منانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
http://thelede.blogs.nytimes.com/2013/07/12/video-of-malala-yousafzai-at-u-n-calling-on-world-leaders-to-provide-education-to-every-child/
تبصرہ:
1۔ کافر مغرب جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ہمیشہ پہلے مسلمانوں کو قتل کرتا ہے اور پھر ان کے جنازوں میں شریک ہو کر ان کے قتل پر افسوس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ مغرب کی آزادی کا تصورعورت کو ایسا سامان قرار دیتا ہے جس کوبغیر کسی شرم و حیا کے بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن اسلام نے اس کے مقام کو بلند کیا اور اس کی عزت و آ بروکا محافظ ہے۔ یہ حقیقت سب کے سامنے آشکار ہو چکی ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو '' آزادی‘‘اور ''عورت اور مرد کے درمیان برابری‘‘ کی دعوت دیتے پھرتے ہیں۔ اسی چیز نے مغرب کو سیخ پا کر دیا ہے اور وہ انانیت کا شکار ہو کر مسلمان عورت کو حسد کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہےباوجود اس کے کہ آج مسلم عورت کسی مثالی اسلامی معاشرے میں زندگی نہیں گزار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے ایجنٹوں اور اپنی قاتل کمپنیوں ''بلیک واٹر‘‘وغیرہ کے ذریعے اسلامی علاقوں بشمول پاکستان میں وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر ان جرائم کو مسلمانوں کے سر تھوپتے ہیں تا کہ مغرب یہ کہہ کر اپنے صلیبی یلغار کا جواز پیش کر سکے کہ یہ لوگ رجعت پسند، ترقی کے دشمن اور جرائم پیشہ ہیں۔ یوں اقوام عالم کے سامنے مسلمانوں کے قتل اور ان کی نسل کشی کا جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف یہ صلیبی یلغاران رجعت پسندوں سے انسانیت کو بچانے کے لیے ہے۔
2۔ پاکستان میں تعلیم سے محروم افراد کی تعداد پچپن ملین ہے جو کہ کل آبادی کا تقریباً ایک تہائی کے برابر ہے۔ تو کیوں اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام نہیں کرتی اور صرف ملالہ کو تقلیم فراہم کرنے پر توجہ مبزول کرتی ہے؟ اس کے پاس اس بات کے لیے تو بے پناہ وسائل ہیں کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں ڈرون طیارے بھیج سکے جہاں ملالہ رہتی ہے لیکن پاکستان میں ناخواندگی کو ختم کرنے کے لیے وسائل کے کمی ہوجاتی ہے!
3۔ پچھلے سال پیچیاسی ہزار لوگوں نے ملالہ کو امن کا نوبل انعام دینے کے لیے نامزد کیا۔ ٹائمز میگزین نے ''سال کی شخصیت‘‘میں دوسرے نمبر پر قرار دیا۔ مغرب، مسلم دنیا میں اس کے ایجنٹ حکمران اور وہ لوگ جو اس کے دن کو منا رہے ہیں آخر کیوں ملالہ کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں؟ یقیناً ان کی حمائت لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ کہ جس کو حاصل کرنے کے بعد بھی روزگار یا نوکری نہ مل سکے جبکہ پاکستانی گریجویٹس میں بے روزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے؟ انھوں نے ملالہ کے مسئلے کو استعمال کیا ہے اور اس مسئلہ کو مغرب نے ہی پیدا کیا ہے تا کہ قدامت پسند علاقوں میں موجود مسلم عورتوں میں سے شرم و حیا کا خاتمہ کیا جائے اور اسلام کے تصوراور اس کی تہذیب کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے مسخ کیا جائے۔ اور ایسا اس وقت کیا جارہا ہے جب خود مغربی تہذیب بے نقاب ہوچکی ہے اور مغرب کے لوگ ایک متبادل کی تلاش میں ہیں۔ لہذا کرپٹ سرمایہ دارانہ اور مغرب پسند حکومتوں سے فائدہ اٹھانے والے اسلام کی تہذیب کو مسخ کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں اور ان لوگوں کو جو ایک متبادل تہذیب کی تلاش میں سرکردہ ہیں،اسلامی تہذیب سے دور کرنے کی کوشش کرنے رہے ہیں۔اسلام سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جو اپنی بقا کے لیے لوگوں کے خون کا محتاج ہے۔

ابو عمر و

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک