السبت، 26 صَفر 1446| 2024/08/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ:سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو امریکہ کےہاتھوں بیچ دیا ہے

تحریر: شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحرير کے ڈپٹی ترجمان
تاریخ:۱۷ جولائی۲۰۱۳

خبر : ۸ جولائی ۲۰۱۳ کو الجزیرہ نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ شائع کردی۔ یہ کمیشن ۲ مئی ۲۰۱۱ کو ایبٹ آباد پر ہونے والے امریکی حملے کی تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اب تک کیانی و شریف حکومت نے اس رپورٹ کے مندرجات کی تردید نہیں کی ہے بلکہ اس چیز کی تحقیقات ہورہی ہیں کہ کس نے اور کس طرح اس رپورٹ کو بے نقاب کردیا۔ اس رپورٹ کی اشاعت نے ملک میں ایک بار پھر یہ بحث شروع کردی ہے کہ سانحہ ۲ مئی کے ذمہ دار کون تھے۔

تبصرہ: حزب التحرير وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے اس عظیم سانحہ کی ذمہ داری براہ راست جنرل کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجو اس کے غدار ساتھیوں پر ڈالی تھی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آج بھی ایبٹ آباد اور سلالہ کے سانحات کے باوجود اکثر تجزیہ نگار اور دانشور ان جرائم کے ذمہ داروں کا نام لیتے ہوئے خوف کھاتے ہیں لیکن حزب نےفورابغیر کسی خوف کےًپاکستان کے عوام کواصل مجرموں سے آگاہ کیا تھا۔ کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں سے خوف کھانے کا یہ عالم ہے کہ اس کمیشن نے بھی براہ راست ان کا نام لینے سے مکمل گریز کیا لیکن ایسی زبان استعمال کی کہ ہر کوئی سمجھ جاتا ہے کہ اصل مجرم کون ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حزب التحرير ہی امت کی حقیقی نمائندہ اور ان کی رہنمائی کرنے کی حق دار ہے کیونکہ وہ کیانی اور اس کے غنڈوں سے خوفزدہ نہیں ہوئی تھی اور اس کی عظیم غداری کے خلاف ملک بھر میں زبردست مہم چلائی تھی اور آج کے دن تک اس کے جرائم کو بے باکی اور بہادری سے بے نقاب کر رہی ہے۔ نے اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی کی خوشی سے بھاری قیمت ادا کی تھی اور اب بھی اس قیمت کو بغیر کسی افسوس کی ادا کررہی ہے کیونکہ جابر حکمرانوں کا احتساب کرنے پر اللہ سبحانہ و تعالی نے بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ جب حزب نے کیانی کی غداری کو بے نقاب کیا تو اسلام آباد سے تین اور رحیم یار خان سے اس کے دو اراکین کو کیانی کے غنڈوں نےاغوا کرلیا اورانھیں بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اوربلترتیب چاراورنو ماہ تک ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ اور پھر مئی ۲۰۱۲ میں حزب التحرير کے پاکستان میں ترجمان نوید بٹ کو اغوا کرلیا گیا جو آج کے دن تک لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ سیکڑوں شباب کو گرفتار کیا گیا اور ان پر اس حد تک جبر کیا گیا کہ ان کے دفتر والوں کو مجبور کیا گیا کہ انھیں ملازمت سے فارغ کردیا جائے۔ لیکن ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود کیانی حزب التحرير اوراس کے شباب کی آوازوں کو ختم کرنا تو دور کی بات انھیں دبا بھی نہیں سکا۔
ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ حزب التحرير کے اس موقف اور یقین کو ثابت کرتی ہے کہ آج پاکستان کا اصل مسئلہ امریکی راج کا خاتمہ ہے کیونکہ اس امریکی راج کی وجہ سے پاکستان اور اس کے عوام کی سالمیت ایک مذاق بن کررہ گئی ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی سانحہ ایبٹ آباد کا مجرم جنرل کیانی نہ صرف افواج پاکستان کی قیادت کے منصب پر بیٹھا ہوا ہے بلکہ یہ امید رکھتا ہے کہ امریکہ کے لیے اس کے شرمناک جرائم کے عوض امریکہ اس کی مدت ملازمت میں توسیع یا فائیو سٹٓار جنرل بنا کر مزید تین سالوں کے لیے اسے افواج پاکستان پر مسلط کرادے گا۔
کمیشن کی رپورٹ حزب التحرير کے اس موقف کو بھی ثابت کرتی ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے لہذا ایک دشمن ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہیں رکھے جاسکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران خلافت کے قیام کے لیے حزب التحرير کو نصرۃ فراہم کریں تا کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا صفایا کیا جاسکے، ملک میں موجود امریکی سفارتی میشنزاوراڈوں کا خاتمہ، سفارتی و انٹیلی جنس اہلکاروں کو ملک بدراور امریکیوں کے بنائے ہوئے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ صرف اور صرف اسی صورت میں پاکستان اور اس کے عوام کی سالمیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

شام میں فوجی مداخلت کا اشارہ، جس کا چرچا ہے،ہر لحاظ سےشر انگیز ہے، یہ اسلام کی حکمرانی کو قائم ہونے سے روکنے اور اپنے ایجنٹ بشار کا کردار ختم ہونے پراس کے متبادل کا بندوبست کرنے کے لیے ہے

شام کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شام میں فوجی مداخلت کی خبریں گردش میں ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے لیے انسانی اور اخلاقی ذمہ داری کا پردہ استعمال کر رہے ہیں جبکہ وہ خود اس سے بے بہرہ ہیں۔ امریکہ،برطانیہ ، فرانس ،روس اور تمام کافراستعماری ممالک اپنے تنگ وتاریک عقوبت خانوں میں تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو اپنے پیروں تلے روند چکے ہیں،بگرام،گونتاناموبے اورابوغریب کےعقوبت خانے اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ پوری دنیا کی رسوائے زمانہ جاسوسی اس کے علاوہ ہے! یہی ممالک ایٹمی،بائیولوجیکل ،وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال اور وحشیانہ قتل و غارت میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں مشہور ہیں۔ اس کے شواہد ہیروشیما،ناگا ساکی اور عراق،افغانستان،وسط ایشیا،مالی اور چیچنیا میں برپا کیے جا نے والے شرمناک قتلِ عام کی شکل میں موجود ہیں۔
پھر انہی ممالک خاص طور پر امریکہ ہی نے بشارالاسد کو بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کوقتل کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا گرین سگنل دیا۔ اگر یہ گرین سگنل نہ ہوتا توشام کا سرکش حکمران کبھی بھی الغوطہ میں اس کے استعمال کی جرات نہ کرتا۔ بشار حکومت الغوطہ سے قبل بھی شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرچکی ہے بلکہ اس کے بعد بھی، جیسا کہ آج ہی حکومت کی جانب سے بعض علاقوں میں زہریلی گیس استعمال کرنے کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ یہ سب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے علم اورمرضی سے ہو رہاہے۔ اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی مداخلت کے لیے انسانی اور اخلاقی اقدار کا جو پردہ استعمال کر رہے ہیں وہ محض سفید جھوٹ اور انتہا درجے کا دوغلاپن ہے ۔ یہ وہ من گھڑت اور خودساختہ حجت بازی ہے جس کی حقیقت ہردیکھنے والےاور قلبِ سلیم رکھنے والے شخص کو معلوم ہے۔
رہی بات اس امریکی فوجی مداخلت کی حقیقت کی جو شرانگیز استعماری قوتوں کی قیادت کر رہا ہے، تویہ بشار کی ایجنٹ حکومت کی جگہ ایک اور ایجنٹ حکومت کا بندوبست کرنے کے لیے ہے ،یعنی عسکری مداخلت کے ذریعے دباؤ ڈال کراپنے منصوبے کے لیے حالات کو سازگار بنایاجائے۔ کیونکہ بشار تواپنا کردار ادا کرچکا،اور وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود قومی کونسل اور اتحاد میں اپنے کارندوں کو شام کے اندر اس قابل نہ بنا سکا کہ لوگ انہیں بشارحکومت کے متبادل کے طور پر قبول کر لیں۔ چنانچہ شرکے اس بلاک نے خوف محسوس کیا کہ اہل شام جواسلام کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں کہیں کفار اور منافقین کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ نہ دیں۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نےمخصوص مقامات پر فوجی مداخلت کے ذریعے اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کا ارادہ کیا،تاکہ اس فوجی مداخلت کے نتیجے میں حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات کوشروع کیا جائے،اور یوں ایک ایسی متبادل ایجنٹ حکومت ترتیب دی جائے جو بشار حکومت سے سوائے اس چیز کے کسی طرح مختلف نہ ہو کہ اس کا منہ کم کالا ہو!
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
اس عسکری مداخلت اور کفارکے ہلاکت خیز منصوبوں کو ناکام بنانے کی مقدور بھر کوشش کر نا فرض ہے۔ یہ سرکش تمہارے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے۔ تم اپنے ملک میں اسلام کی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہونے کے قریب ہو،جس سے تم اپنے دین،اپنی جان،اپنی عزت وآبرو اور اپنے اموال کو محفوظ کر سکو گے۔ ایک ایسی ہدایت یافتہ اور عادل حکومت جو ہر حقدار کو اس کا حق پہنچائے،ایسی خلافتِ راشدہ جو شام کو اس کا نور اور اس کا کردار لوٹادے،کیونکہ یہ اسلام کا مسکن ہے اور عنقریب ان شا ء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ صبر کرو ،صبر کی تلقین کرو اورظلم اور ظالموں کے مقابلے میں سرجوڑ کر یکجان ہو جاؤ۔ یاد رکھو کہ اپنے ملک کو بچا نا تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جتنی بڑی قربانی بھی تمہیں دینی پڑی ،یہ قربانی دنیا اور آخرت میں تمہارے حق میں اس چیز سے ہزار مرتبہ بہتر ہےکہ استعماری کفارتمہیں بچانے کے بہانے تمہارے ملک میں مداخلت کریں۔ یہ بچاؤ نہیں بلکہ ہر لحاظ سے موت اور تباہی ہے﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح اگر تم پر غالب آتے ہیں تو نہ قرابت کا پاس رکھتے ہیں نہ رشتہ داری کا لحاظ اپنی زبان سے تو تمہیں راضی کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس کا انکار کرتے ہیں ان میں اکثر فاسق ہیں"۔
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
بے شک اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافر استعماری ممالک سے مدد طلب کرنا عظیم گناہ اور شرہی شر ہے۔ یہ اللہ،اس کے رسولﷺ اور مومنین کے ساتھ خیانت ہے،ایسا کر کے تم اللہ قوی اور العزیز کے غضب کو دعوت دو گے،اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا﴾"اے ایمان والو !مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست مت بناؤ ،کیا تم اپنے ہی خلاف کھلی دلیل اللہ کو دینا چاہتے ہو"۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا«لَا تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِ»" مشرک کی آگ سے روشنی مت لو"اسے احمد نے انس سے روایت کیا ہے، جبکہ بیہقی کی روایت میں یوں ہے((لا تستضیئوا بنار المشرکین))"مشرکین کی آگ سے روشنی مت لو"۔ اسی طرح بخاری نے بھی اپنی تاریخ الکبیر میں اس حدیث کوانہی الفاظ سے نقل کیا ہے۔ یعنی مشرکین کی آگ کو اپنے لیے روشنی مت بناؤ،یہاں آگ کا لفظ جنگ کی طرف اشارے کے طور پر ہے۔ اس حدیث میں کنایہ کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگ میں مشرکین کوساتھی نہ بناؤ اور ان سے رائے بھی نہ لو۔ اس حدیث سے کفار سے مدد طلب کرنے کی ممانعت کا پتہ چلتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((فانا لا نستعین بمشرک))"ہم کسی مشرک سے مدد نہیں مانگتے"اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ کفار سےعسکری مداخلت کا مطالبہ کرنا حتی کہ ان سے اپنے مسائل کے بارے میں مشورہ لینا عظیم گناہ اور حرام ہے، ایسا کرنا صحیح اور جائز نہیں۔
یقینا یہ نہایت ہی اندوہناک بات ہے کہ استعماری کفار شام میں فوجی مداخلت کا الٹی میٹم اور دھمکی دینے کی جسارت کر رہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کے حکمران ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو چل رہا ہے اس سے اس طرح بے پرواہ ہیں گویا یہ ان سے مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ دور ہے۔گویا یہ حکمران گونگے اور بہرے ہیں اور اہلِ شام کی فریاد سُن ہی نہیں رہے۔ وہ اللہ کی اس پکار پر لبیک نہیں کہتے کہ﴿ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾"اور اگر وہ تم سے دین کی بنیاد پر مدد مانگیں تو تم پران کی مدد کرنا لازم ہے"۔ اگر ان کے اند ر ذرہ برابر بھی حیا ہوتی تو یہ اہل شام کی مدداور شام کے سرکش حکمران سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے بیرکوں میں پڑی مسلمان فوجوں کو متحرک کردیتے،کیونکہ اہلِ شام پڑوسی مسلمان ممالک میں موجوداپنے بھائیوں کی مدد سے ،اللہ کے اذن سے ، سرکش بشارکو اپنے انجام تک پہنچانے اور اس کی جگہ اسلام کے مسکن شام میں اسلامی حکومت قائم کرنے پر قادر ہیں۔ بجائے یہ کہ استعماری کافر ایک ایسی نئی حکومت قائم کرنے کے لیے، جو پرانی حکومت سے چہروں کی تبدیلی کے سوا مختلف نہ ہو،شام میں مداخلت کریں،اوریوں شام ایک بار پھر طاغوت کے پنجوں کی نذر ہوجائے، جبکہ شام میں اسلام کی حکمرانی کا سورج دوبارہ طلوع ہونے کے قریب پہنچ چکاتھا۔
استعماری کفار جس ملک میں بھی آئے انہوں نے اسے برباد کر کے رکھ دیا،اس کی بنیادیں ہی تباہ کرکے رکھ دیں اور اس کے چپے چپے کو ویران کردیا۔ جس ملک میں یہ داخل ہوئے ان کی پھیلائی ہوئی تباہی و بربادی کی نشانیاں اب بھی موجود ہیں اور ان کے جرائم اور کرتوتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شام میں ان کفار کی عسکری مداخلت بہت بڑا زلزلہ اور شر ہو گا،اے مسلمانو، اس سے چوکنے ہو جاؤ۔ خبردار یہ گمان کر کے کہ کفارہمیں بچالیں گے، ان سے مدد مانگنے میں جلدی مت کرو ،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا!
﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾
"تودیکھے گا ان لوگوں کو جن کے دلوں میں مرض ہے کہ اس بارے میں جلدی کریں گے اور کہیں گے ہمیں خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آئے گی۔ ممکن ہے اللہ فتح نصیب کرے گا یا اپنی طرف سے کوئی بھلائی کا معاملہ کرے گا، تب یہ لوگ اس پرشرمندہ ہوں گے جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے "
﴿ إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾"بے شک یہ عبادت گزار قوم کے لیے اعلان ہے"

کرنسی کی مضبوطی اور تباہ کن افراط زر کے خاتمے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرو شریعت کے طریقہ کار کے مطابق سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی ہی روپے کی گرتی قدر کا خاتمہ کرسکتی ہے

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ روپے کی گرتی قدر کی بنیادی وجہ مارکیٹ میں ہونے والی سٹے بازی ہےجس کی وجہ سے ملک کو تباہ کن افراط زرکا سامنا ہے جبکہ درحقیقت اس تباہ کن افراط زر کی بنیادی وجہ وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کو حکومت نافذ کررہی ہے۔
ڈالر، پاؤنڈ اور فرانک کی طرح روپیہ بھی کسی قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہوتا تھا۔ ڈالر کی صورت میں وہ قیمتی دھات سونا ہوتی تھی جبکہ روپے کی صورت میں وہ چاندی ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا یہ نظام مالیاتی نظام کو نہ صرف اس خطے میں اندرونی طور پر بلکہ بین الاقوامی تجارت میں بھی استحکام فراہم کرنے کا باعث ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زیر سایہ برصغیر پاک و ہند عالمی معیشت کے لیے ایک انجن کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔
لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جاری ہونے والے سودی قرضوں اور سٹاک مارکیٹ نے کرنسی کی اس قدر طلب پیدا کی جس کو سونے اور چاندی کی رسد(Supply) پورا نہیں کرسکتی تھی۔ لہٰذا ریاستوں نے قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہونے والی کرنسی کے نظام کو چھوڑ دیا اور زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپنے شروع کردیے جن کے پیچھے سونے اور چاندی کے ذخائر موجود نہیں تھے اور اس طرح ہر چھاپے جانے والا نوٹ پچھلے نوٹ سے قدر و قیمت میں کم ہوتا ہے۔ اور پھر جب ان نوٹوں سے اشیاء کو خریدا جاتا اور خدمات حاصل کی جاتیں تو یہ نوٹ اگر چہ اپنی مکمل قدر و قمیت تو نہیں کھوتے لیکن اس کا بڑا حصہ کھو دیتے ہیں۔اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اب اس قدر سرمایہ دارانہ نظام کاطرہ امتیاز بن چکا ہے کہ ہر ملک افراط زرکے پیمانے کا حساب رکھتا کہ وہ کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اسلام نے ریاست پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ قیمتی دھات کی بنیاد پر کرنسی نوٹوں کو جاری کرے اور اس طرح اسلام نے افراط زر کی بنیادی وجہ ہی کا خاتمہ کردیاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ریاست کی کرنسی کے طور پر سونے کے دیناراور چاندی کے درہم ڈھالیں جن کا وزن بالترتیب 4.25گرام اور 2.975گرام ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست خلافت ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک قیمتوں میں استحکام قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔ جو سب سے آسان کام جناب ڈار اور ان کے ساتھی کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیں تا کہ اسلام کا نفاذ کیا جاسکے۔ صرف خلافت کے زیر سایہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو نافذ کرکے ہی مسلمان پوری دنیا کی معاشی ترقی کے لیے ایک مثال قائم کرسکتے ہیں۔

سوال وجواب : امریکی پالیسی کے حوالے سے ایران کا کردار

 

سوال :امریکی پالیسی کے حوالے سے ایران کا کردار کیا ہے؟دوسرے لفظوں میں خطے میں رونما ہونے والے واقعات میں ایران کی امریکی پالیسی سے الگ اپنی کوئی پالیسی ہے؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران خطے میں ایک خاص فکر کا علمبردار ہیں جو کہ جعفری مذہب ہے؟آخری بات یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں امریکہ کا حقیقی موقف کیا ہے؟

جواب:اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں پہلے ایرانی حکومت کی حقیقت،انقلاب اور جمہوریت کا اعلان کرنےکے بعد سےاس کی پالیسی اور اس سب کا امریکہ کے ساتھ تعلق کا مختصر جائزہ لینا ہو گا:
1۔ ایرانی انقلاب کی ابتدا سے ہی اس میں امریکہ کا کردار نہایت واضح تھا۔خمینی کے فرانس''ٹوگل لوشاتو"میں موجودگی کے دوران ہی وائٹ ہاوس کے وفود ان سے ملتے رہے اور امریکہ کے ساتھ خمینی کے تعاون کا معاہدہ ہو گیا۔اس وقت کے امریکی اخبارات نے اس حوالے سے اور وہاں ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں خبریں شائع کی۔۔۔۔جس کا انکشاف بعد میں خود ایران کے پہلے جمہوری صدر ابوالحسن بنو صدر نے 12جنوری2000 کو الجزیرہ چینل سے بات کرتے ہوئے کیا کہ وائٹ ہاوس کے وفود "ٹوگل لوشاتو"فرانس آتے رہے جہاں خمینی مقیم تھے۔ان وفود کا استقبال یزدی،بازرکان،موسوی اور اردیبیلی کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔یہاں طرفین کی اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں جن میں سب سے مشہور اکتوبر کی وہ ملاقات ہے جو پیرس کی مضافات میں ہوئی جس میں ریگن اور بش کی پارٹی اور خمینی کی پارٹی کے درمیان ملاقات ہوئی،جس میں خمینی نے یہ کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اس شرط پر تعاون کے لیے تیارہے کہ وہ ایران کے اندونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔اس معاہدے کے بعد ہی خمینی کو فرانسیسی طیارے کے ذریعے تہران پہنچایا گیا،اس کے ساتھ ہی امریکہ نے شاہ پور بختیار پر اقتدار خمینی کے حوالے کرنے کے لیے دباوڈالا اور ایرانی فوجی قیادت کو بھی خمینی کا راستہ روکنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
یوں خمینی مرشد اور حکمران بن گئے۔اس کے بعد عالم اسلام کے دوسرے ملکوں کے دستوروں کی طرح مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے مطابق ہی ایک دستور تیار کیا گیا۔ایران کا دستور بھی مغرب کے دستوروں کی ہی نقل ہے جیسا کہ نظام حکومت جمہوری اور وزارتی تقسیم،پارلیمنٹ کا کام،اختیارات کی تقسیم سب سرمایہ دارانہ نظاموں کے مطابق ہے۔جہاں تک دستور میں موجود اس بات کا تعلق ہے کہ ''ایران کا سرکاری مذہب اسلام اورمسلک جعفری اثنا عشری ہے"یہ بھی عالم اسلام کے اکثر ملکوں کے دستوروں میں موجود اس شق کی طرح ہے جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست اسلام کی بنیاد پر قائم ہے یا ریاست کا کام اسلام کا علمبردار بننا ہے،بلکہ اس کا تعلق رسومات اور تہواروں سے ہے اور لوگوں کے اعتقادات ، عبادات اوران کی زندگی کے بعض امورکو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ایران کے دستور میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ فلاں دین یا فلاں مذہب ریاست کا پیغام یا اس کی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے بلکہ یہ ہدف وطنیت اور قومیت ہے۔یہ ریاست موجودہ عالمی اصولوں اور پیمانوں کے مطابق ہی چلتی ہے ۔ریاست سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر قائم علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات جیسا کہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کی رکنیت، اسلام کی بنیاد پر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جاسکتا ہے کہ ایرانی ریاست کا کوئی خاص پیغام یاکوئی ایسا متعین پروگرام نہیں جو اسلام کی بنیاد پر ہو،بلکہ ایرنی حکومت پر قومیت اور وطنیت کا رنگ ہی غالب ہے،یہی قومیت اور وطنیت ہی اس کی موجودہ حکومت ،ریاستی ڈھانچے اور زمین کی حفاظت کا آئینہ دار ہے۔انقلاب کے ابتدائی دنوں میں ہم نے خمینی سے رابطہ کیا اور ان کوامریکہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ایک اسلامی دستور کا اعلان کرنے کی نصیحت کی ۔ہم نے ان کے سامنے اس دستور کے خدوخال رکھ دیے۔ان کو خط لکھ کرہم نے ایرانی دستورکے نقائص کو تفصیل سے بیان کیا لیکن انہوں نے ہماری نصیحت کو قبول نہیں کیا اور اسلام مخالف دستور اورسرمایہ دارانہ مغربی طرز کے جمہوری نظام پر ہی اصرار کیا ۔
2۔ رہی بات اس مسلک کی جس کو انہوں نے حکومت کا رسمی مسلک قرار دیا ہوا ہے،اس کو بھی انہوں نے ایک پیغام اور ایک ایسے منصوبے کے طور پرشامل نہیں کیا جس کا وہ علمبردار ہوں کیونکہ انہوں نے اپنے نظام حکومت کو اس مسلک کی بنیاد پر استوار نہیں کیا ہے،نہ دستور کو اس مسلک کی بنیاد پر وضع کیا ہے۔اسی طرح دستور کا مواد بھی اس مسلک سے اخذ نہیں کیا گیا ہے،بلکہ نظام حکومت،خارجہ پالیسی،فوج اور امن وامان سے متعلق سارا مواد سرمایہ دارانہ نظام سے ماخوذ ہے۔یہ سعودی نظام حکومت سے مشابہ ہے جو جزیرہ عرب میں پھیلے ''حنبلی مسلک"کو اپنی حکومتی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے،تاہم ایران مسلکی پہلو کو اپنا پیروکار اور حمایتی یاایسے لوگ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے جواس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں،جن کے ہاں تنگ نظر مسلکی نعرے کا راج ہو اور اسی وجہ سے ان کو اپنے وطن کے مفادات کے لیے استعمال کرنا آسان ہو۔یہ جعفری مسلک یا شیعیوں کی خدمت کے لیے نہیں ہوتا کیونکہ وہ شیعیوں جعفری مسلک کی مدد صرف اس وقت کرتا ہے جب وہ ایران کے قومی مفاد میں ہو،اگر سیکیولرازم اس کے مفاد میں ہو تو اسلام،شیعیت اور مسلک کو پس پشت ڈالتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ایران عراقی اور شامی حکومتوں کی مدد کر رہا ہے جو کہ سیکیولر اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔شیعہ سعودیہ کے مشرقی صوبوں میں بھی بڑی تعداد میں ہیں اور یہی علاقے سعودی آئل فیلڈز ہیں اس لیے ایران نے کئی موقعوں پر سعودیہ کو کمزور کرنے کے لیے یہاں افراتفری پھیلانے میں مدد کی اور بحرین میں بھی یہی پالیسی جاری رکھی جس پر سعودیہ نے اپنی فوج کو بحرین میں داخل کردیا۔۔۔۔۔
ایران مسلکی پہلو کو اس وقت جوتے کے نوک پر رکھتا ہے جب وہ اس کے قومی مفادات سے ٹکرائے،آذربائیجان کی مثال لیجئے جب اس نے 1989 کو سوویت یونین قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی اور لوگوں نے ایران کے ساتھ سرحدوں کو مٹاکر ایک ہو نے کا ارادہ کیا اور 1990 میں روسی حملہ آوروں کی طرف سے انکا قتل عام کیا گیا جو ایسی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیےتھی جو ان کی تابع نہ ہو۔ باکو شہر پر یلغار کی گئی،پھر انہوں نے اپنے پرانے کمیونسٹ ایجنٹوں کو ہی حکومت دے دی۔اس سب کے باوجود اس روسی یلغار کے مقابلے میں جس نے ان حریت پسند مسلمانوں کے حقوق کو پامال کر رکھا تھا ایران نے آذربائیجان کے لوگوں کی کوئی مدد نہیں کی جو روسی آگ اور کمیونسٹ پنجے سے بچنے کے لیے جائے پناہ کی تلاش میں تھے۔یاد رہے کہ آذربائیجان کے باشندوں کی اکثریت کا مسلک بھی وہی ہے جو ایران کا سرکاری مسلک ہے۔اسی طرح 1994 آرمینیا کی جانب سے روس کی مدد سے آذربائیجان پر حملے اور اس کے ٪ 20 علاقے پر قبضہ کرکے ایک ملین آذری مسلمانوں کو مہاجر بننے پر مجبور کرنے کے باوجود جو اب بھی ایسی ہی ناگفتہ بہ صورت حال سے دو چارہیں ایران نے ان کی کوئی مدد نہیں کی،بلکہ ایران نے آذربائیجان کی قیمت پر آرمینیا سے تعلقات کو مضبوط کیا!ایران نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی تحریکوں کی مدد کی جن کا اسلام سے کو تعلق نہیں جیسے میشل عون(Michel Aoun) کی تحریک یا سیکیولر تحریکوں کی جیسے لبنان میں نبیہ بری کی تحریک وغیرہ جو امریکہ کے کندھے پر سوار ہوکر نکلی تھیں۔
3۔ خطے میں ایران کے تمام سیاسی اقدامات امریکی منصوبوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگ اور ان کے مطابق ہیں:
ا۔ ایران نے لبنان میں اپنے مسلک کے لوگوں کی ایک جماعت(حزب اللہ)قائم کی جس کو اس قدر مسلح کیا کہ وہ لبنانی سرکاری فوج سے الگ ایک اور فوج بن گئی ،لبنانی حکومت نے بھی اس فوج اور اس کے اسلحے کا اعتراف کرلیا۔یہ سب کو معلوم ہے کہ لبنان کی سیکیولر حکومت امریکی پالیسیوں کی پیروکار ہے۔اس لبنانی حکومت نے اس جماعت(حزب اللہ)کے علاوہ کسی جماعت کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی نہ ہی کسی جماعت کے اسلحے کا اعتراف کیا۔لبنان میں یہ ایرانی حزب شام میں امریکی ایجنٹ حکومت کا ایران کی طرح معاون بن گئی۔امریکہ نے لبنان کی اس ایرانی حزب کو شام میں بشار کی سیکیولر حکومت کو سہارا دینے سے روکا بھی نہیں بلکہ امریکی موافقت سے ہی یہ حزب شام میں گھس آئی،لبنانی فوج نے بھی اس کا راستہ نہیں روکا۔
ب۔ جب امریکہ نے عراق پر قبضہ کیا تو اس کو ایسی مزاحمت کا سامنا ہوا جس کی اس کو توقع نہیں تھی،اس لیے امریکہ نے ایران کو عراق میں داخل کر دیا تا کہ وہ وہاں پر موجود اپنے مسلک کے لوگوں پر اثر انداز ہو کر ان کو امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت سے باز رکھے بلکہ مزاحمت کے مقابلے میں ان کو کھڑا کرے تاکہ وہ مزاحمت کاروں کو چیلنج کریں اور قبضہ کرنے والوں اور ان کی طرف سے بنائی گئی حکومت کو سہارا دیں،خاص کر2005 کے بعد جب امریکہ نے ایران نواز پارٹیوں کے اتحاد کوابراھیم جعفری اور پھر نوری المالکی کی قیادت میں حکومت کرنے کی اجازت دے دی۔یہ حکومتیں امریکہ کی بنائی ہوئی اور اسی کے اشاروں پر ناچنے والی ہیں۔مالکی کی یہ حکومت جس کو ایران کی حمایت حاصل ہے ، نے امریکہ کے ساتھ ایسے اسٹرٹیجگ سیکیورٹی معاہدے کیے کہ جن کی رو سے عراق سے رسمی طور پرنکلنے کے بعد بھی بالادستی امریکہ ہی کی ہوگی۔یہ ایرانی کردار سے امریکی رضامندی کی دلیل ہے جس کے عہدے دار خود عراق پر قبضہ کرنےاور وہاں پر امریکی بالادستی کو دوام دینے میں امریکہ کی مدد کا برملا اعتراف کرچکے ہیں۔امریکہ کی جانب سے عراق پر قبضہ کرنے کے فورا بعد ایران نے عراق میں اپنا سفارت خانہ کھولا، جعفری کے منتخب ہوتے ہی اس وقت کا ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی نے 2005 میں بغداد کا دورہ کیا جو کہ امریکی قبضے کا عروج کا زمانہ تھا،۔دونوں نے قبضے کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اس کی مذمت کی۔جعفری کی جانب سے ایران کا دورہ اور کئی معاہدے جن میں سیکیورٹی فورسز بھیجنے اورسرحدوں اورباڈرز کراسنگ کی نگرانی کے لیے انٹیلیجنس کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ،بصرہ کو ایرنی بجلی کے نیٹورک سے منسلک کر نا ،بصرہ اور عبدان کے درمیان تیل کی پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ۔ایرانی صدر احمدی نژاد نے 2008 کے شروع میں براہ راست قبضے کی تباہی کے سائے میں ہی عراق کا دورہ کیا،یہی احمدی نژاد امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈھینکیں مارتا رہتا تھا،جو صرف زبانی جمع خرچ سے کبھی عمل کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔اس عرصے میں امریکی قبضے کے سائے تلے عراق کا دورہ کر کے یہی احمدی نژاد امریکہ کا سب سے مقرب صدر بن گیا تھا۔اسی طرح صدارت سے فارغ ہونے سے دو ہفتے پہلے عراق کا دورہ کر کے امریکی راج کے محافظ مالکی حکومت حمایت کا اعادہ کیا۔اسی احمدی نژاد نے 2010 میں امریکی قبضے کے زیر سایہ امریکی خادم کرزی کی حمایت کے لیے افغانستان کا دورہ کیا۔
ج۔ یمن میں بھی یہی کیا حوثین کی جماعت بنا کر ان کو مسلح کرکے انگریز کے ایجنٹ علی عبد اللہ صالح کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا،جنوبی یمن کے سیکیولر تحریک جو کہ یمن سے الگ ہونے کے داعی ہیں اور اور امریکی ایجنٹ بھی ہیں کی مدد کر رہا ہے تاکہ جنوبی یمن میں امریکہ کی آلہ کار ایک سیکیولرحکومت قائم کی جاسکے۔
د۔ شامی حکومت کے ساتھ ایران کا تعلق پرانا ہے۔ جب سے گزشتہ صدی کے اسی کی دہائی میں پہلی مرتبہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک اٹھی تب سے ایران نے شامی حکومت کی جانب سے وہاں کے مسلمانوں کی نسل کشی کی حمایت کر رہا ہے۔یہ بھی امریکی منصوبے کے ضمن میں کر رہا ہے جو کہ آل اسد کی قیادت میں قائم حکومت کی پشت پناہ ہی کرنا ہے۔ایران کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ یہ بعثی سیکیولرقوم پرست غیر اسلامی حکومت صدام کی اس حکومت کی طرح ہے جس سے یہ لڑتے رہے ،بلکہ یہ حکومت تو اسلام اور اہل اسلام پر حملہ آور ہے۔یہ بھی اس کو معلوم ہے کہ یہ حکومت امریکہ کی آلہ کار ہے،اس کے باوجو ایران نے کبھی مسلمانوں کے حقوق کا دفاع نہیں کیا،بلکہ اس کے بر عکس مسلمانوں کے خلاف ہی لڑتا رہا اور مجرمانہ طور پر اس کافر حکومت کی ہمیشہ مدد کرتا رہا اور اب بھی کر رہا ہے۔ایرانی حکومت کی شامی حکومت کے ساتھ بھرپور تعلقات ہیں،اس میں عسکری،اقتصادی اور سیاسی تعلقات شامل ہیں۔ایران نے اسد حکومت کی مدد کرنے کے لیے بے تحاشہ اسلحہ فراہم کیا،شام میں تیل اور گیس کے ضروری ذخیرے نہ ہونے کی وجہ سے اس کو انتہائی سستے داموں تیل اور گیس فراہم کی۔جب اسد حکومت گرنے لگی تو ایران کی شامی انقلاب میں مداخلت اور ان کے سیاسی تعلقات بہت واضح طور پر نظر آنے لگے۔اگر ایران اپنے انقلابی گارڈ کے فورسز سے مداخلت نہ کرتا اور اس کی حزب اللہ اور زیر اثر نور المالکی کے ملیشیائیں نہ آتی تو بشار حکومت بہت پہلے گر چکی ہوتی۔القصیر اور حمص کے قتل عام اور اب الغوطہ پر کیمیائی حملہ ایرانی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ھ ۔ افغانستان میں ایران نے امریکی قبضے اور اس دستور کی حمایت کی جس کو امریکہ نے کرزائی کی قیادت میں وضع کیا تھا ۔جب امریکہ شمالی علاقوں میں طالبان کو شکست دینے میں ناکام ہو گیا تو ایران نے ہی ان علاقوں میں امریکہ کی مدد کی۔جمہوریہ ایران کے سابق صدر رفسنجانی نے اس کا ذکر بھی کیا،"اگر ہماری افواج طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد نہ کرتیں تو امریکہ افغانی دلدل میں غرق ہوجاتا"(اخبار الشرق الاوسط 09/02/2002 )۔اسی طرح ایران کے سابق صدر خاتمی کے قانون اور پارلیمانی امور کے لیے نائب محمد علی ابطحی نے خلیج اور مستقبل کے چیلنجز کے موضوع پر امارات کے شہر ابو ظہبی میں 13/01/2004 کو منعقد ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:"اگر ایرانی تعاون نہ ہوتا تو کابل اور بغدادکا سقوط اتنی آسانی سے نہیں ہوتا لیکن اس کا ہمیں یہ بدلہ ملا کہ ہمیں شَر (بدی)کا محور قرار دیا جارہاہے!"(اسلام آن لائن 13/01/2004 )۔سابق صدر احمدی نژاد بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک کے دورے کے دوران نیویارک ٹائمز سے 26/09/2008 کوبات چیت کرتے ہوئے یہ دہرایا اور کہا:"افغانستان کے حوالے سے ایران نے امریکہ کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایاجس کا صلہ ہمیں یہ دیا جارہا ہے کہ امریکی صدر ہم پر براہ راست عسکری حملے کی دھمکی دے رہا ہے،اسی طرح ہمارے ملک نے عراق میں امن وامان اور استحکام قائم کرنے میں امریکہ کی مدد کی"۔
4 ۔ رہی بات ایرنی ایٹمی پروگرام کی تو وہ بھی کئی سالوں سے اسی جگہ ہے باوجود اس کے کہ یہودی وجود یورپی اشیرباد سے ان چند سالوں کے دوران کئی بار حملے کی دھمکی دے چکا ہے مگر ہر بار امریکہ ہی اسرئیل کے آڑے آتا ہے اور اس کوایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔آج تک امریکہ نے ہی اسرئیل کو روکا ہوا ہے۔۔۔۔12/08/2013 کو امریکی جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اسی مقصد سے اسرائیل کا دورہ کیا ۔اس موقعے پر کویتی نیوز ایجنسی کونا نے 12/08/2013 کو ہی اسرئیلی فوجی ریڈیو کے حوالے سے خبر دی کہ''ڈیمپسی کادورہ امریکی فضائیہ کے سربراہ مارک ویلٹیچ کی جانب سے چند دن پہلے اسرائیل کے اسی قسم کے خفیہ دورے کے بعد ہوا ،طرفین کو اس دورے کے دوران زیر بحث آنے والے کسی موضوع کے بارے میں بات کرنے سے منع کیا گیا،ویلٹیچ کے دورے کو امریکہ مطالبے پر خفیہ رکھا گیا،یہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی دھمکی کی وجہ سے خطے میں غیر یقینی صورت کی وجہ سے ہوا"۔کونا ایجنسی نے مزید کہا :''تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی فوج کا سربراہ اپنے میزبان کو مستقبل قریب میں ایران کے خلاف کسی ڈرامائی فیصلہ کرنے سے پہلے ایرانی صدر روحانی کے تقرر کے بعد سفارت کاری کا موقع دینے پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا"۔امریکہ ہی نے 1981 میں صدام دور میں اسرائیل کو عراق کے ایٹمی تنصیبات، جوکہ بالکل ابتدائی مراحل میں تھیں، پر حملہ کرنے اجازت دی لیکن یہی امریکہ اسرئیل کو ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے سے باز رکھ رہا ہے جو یورینیم کی افزودگی بھی کر رہا ہے جوکہ ٪20 افزودہ کیا جاچکا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران کے نظام کو بچانا خطے میں اس کے مفادات کے لیے ضروری ہے۔وہ ایران کو ایک ایسی چڑیل کے طور پر باقی رکھنا چاہتا ہے جس سے خلیج کی ریاستوں کو خوف زدہ کرکے ان پر اپنے اثرورسوخ کو مستحکم کرتا رہے اور اس کو عالم اسلام پر اپنی بالادستی کو دوام دینے کے لیے استعما ل کرتا رہے۔
ذرا پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ان ایٹمی مذاکرات کی حقیقت کا بھی علم ہو تا ہے جو 2003 سے شروع ہوئے جن میں امریکہ کا مطمع نظر ایٹمی تنصیبات کے خلاف کوئی عملی اقدام کے بغیر صرف پابندیاں لگانا ہے۔اس طریقہ کار سے امریکہ نے یورپی کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا اور اسرائیل کو بھی زچ کر کے رکھ دیا۔ہر بار بات چیت کا اختتام امریکہ کی جانب سے کسی فوجی اقدام کے بغیر صرف چند اضافی پابندیاں لگانے کو مسئلے کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔امریکہ نے اسرئیل کی تشویش کو کم کرنے کے لیے کئی بار مداخلت کی ،یوں امریکہ ایرانی نظام برقرار رکھنا چاہتا ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ ایرنی ایٹمی پروگرام کا معاملہ اسی طرح چلتا رہے کہ وہ ایٹم بم بھی نہ بناسکے اور یہ پروگرام مکمل طور پر ختم بھی نہ ہو،بلکہ جیسا کہ ہم نے کہاکہ امریکہ ایران کو ایک خطرناک چڑیل کے طور پر پیش کر کے خلیجی ریاستوں کو ڈراتا ہے تا کہ ان پر امریکی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہے اور خلیج میں امریکہ کی عسکری موجودگی برقرار رہے۔ساتھ ہی امریکہ نے ترکی اور وسطی یورپ میں ایرانی ایٹمی اسلحے کے خطرے اور اس سے حفاظت کے بہانے سےاپنا میزائل ڈیفنس شیلڈ بھی نصب کر رکھا ہے!اپنی وزارت دفاع کے بجٹ کو بڑھانے کے لیے بھی اس کو بہانے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
5 ۔جہا ں تک امریکہ اور ایران کے درمیان بظاہر نظر آنے والی دشمنی کی بات ہےتو اس کو یوں سمجھنا ممکن ہے:
ا ۔انقلاب سے پہلے اور بعد میں بھی رائے عامہ امریکہ کے سخت خلاف تھی۔ لوگ امریکہ کو اپنی بدحالی کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔شاہ اور اس کے مظالم کا پشت پناہ امریکہ کو سمجھتے تھے اور اسے شیطان اکبر کا خطاب دیا ہوا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکمران دوطرفہ مذکرات کی بحالی اور سفارتی تعلقات کا اعادہ کرنے کا براہ راست اعلان نہ کر سکے،خاص طور پر پیرس میں خمینی کے ساتھ امریکی رابطے اور امریکہ کی جانب سے ایرانی فوج پر خمینی کے انقلاب میں روکاوٹ نہ بننے کے لیے دباو ڈالنے کے باوجود بھی۔۔۔۔۔یہ سب کوئی راز کی بات نہیں تھی،لہذا امریکیوں کے ساتھ بیٹھنے کاجواز پیدا کرنے کے لیےکچھ گرما گرم صورت حال کو پیدا کرنا ایرانی حکومت کی ضرورت تھی۔اسی مقصد کے لیے 04/10/1979 امریکی سفارت خانے میں یرغمالیوں کا واقع رونما ہوا جس کے نتیجے میں ایران اور امریکہ کے سفارتی تعلقات منقطع کیے گئے تاکہ خمینی کے موقف کو تقویت ملے اوراس کی ،مخالفت کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے اور یوں دوطرفہ تعلقات کی حقیقت پر پردہ ڈالا جاسکے اوربعد میں خود امریکی ذرائع نے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ یہ ایک سوچا سمجھا امریکی ڈراما تھا۔حسن بنو صدر نے بھی الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے مذکورہ ڈرامے کا ذکر کیا اور کہا کہ"یہ امریکیوں کے ساتھ اتفاق رائے سے رچایا گیا تھا اور یہ امریکیوں کا ہی منصوبہ تھا میں نے بھی خمینی کی جانب سے قائل کرنے پر اس کو قبول کیا"۔طرفین نے 20/01/1981 کو ایک معاہدے پر دستخط کیا جو الجزائر ایگریمنٹ کے نام سے مشہور ہوا جس کی رو سے یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔یہ اس دن ہوا جس دن امریکی صدر ریگن امریکہ کے صدر کی حیثیت سے اقتدار پر متمکن ہوا۔اس معاہدے کے ذریعے امریکہ نے خمینی کی نئی حکومت کو ضمنی طور پر تسلیم کر لیا جس کی رو سے طرفین ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور دونوں ملکوں کے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کسی تیسرے فریق کومقرر کیا جائے گا۔اس کے بعد ہی ایران کے ان 12 ارب ڈالرز کو واپس کیا جن کو اکاونٹز منجمد کر کے روکا گیا تھا۔۔۔
ب ۔ ایرانی حکمرانوں نے ان تعلقات کو بحال کرنے کے لیے ماحول بنانےکے لیے کافی عرصے سے کام کیا تھا ،اگر چہ دونوں کے درمیان خفیہ رابطے اور تعاون جاری تھا،جس کا انکشاف خود ایرانی عہدے داروں نے کیا ہے اوراب بھی اسی طریقہ کار پر گامزن ہیں۔۔۔۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اس طرح رکھنا دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ایران یہ ظاہر کرتا رہتا ہے کہ وہ امریکہ کا مخالف ہے اور اس کے استعماری منصوبوں میں اس کے شانہ بشانہ چلنے اور اس کے ساتھ سودے بازی کو چھپاتا رہتا ہے،حالانکہ یہ ان منصوبوں کو نافذ کرنے میں امریکہ کا دست وبازو ہے۔امریکہ بھی یہ دکھاتا ہے کہ وہ ایران سے عداوت رکھتا ہے اور اس کے خلاف کام کرتا ہے یوں وہ یورپ اور یہود کو لگام ڈالتا ہے،وہ خطے میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ اور مغرب میں ایرانی مخالف رائے عامہ کو دھوکہ دیتا ہے۔جمہوریہ کے اعلان کے بعد اعلی مناصب پر فائز ہونے والے بعض حکمرانوں کوایرانی عوام کی جانب سے امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا گیا جیسا کہ جمہوریہ کے سربراہ بنو صدر جس کو اس وقت امریکہ مخالف مضبوط لہر کی بنا پر برطرف کیا گیا۔لیکن جمہوریہ کے سربراہ رفسنجانی نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا انکشاف کر دیا جیسا ایران گیٹ اور ایران کونٹرا لیکن اس کو برطرف نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت وہ امریکہ مخالف لہر موجود نہیں تھی۔جمہوریہ کے کئی صدور کو کبھی اصلاح پسند اور کبھی اعتدال پسند کہہ کر سزادی گئی،کبھی ان کو قدامت پسند اور سخت گیر کہہ کر گوش مالی کی گئی لیکن اس کے باوجود ایرانی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں گئی بلکہ بدستور وہی شعلہ بیانی کا سلسلہ جارہی ہے جس کے ساتھ کوئی عمل نہیں اور جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ایران کے بارے میں امریکی موقف میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ کبھی ریپبلیکنز سخت لفاظی کرکے اس کو برائی کے محور ممالک میں سرفہرست قرار دیں تو ڈیموکریٹس کی جانب سے نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے،لیکن امریکہ نے ابھی تک ایران کے خلاف کوئی سنجیدہ اور سخت اقدام نہیں کیے۔نئے ایرانی صدر روحانی نے حکومت تشکیل دینے کے بعد کہا کہ:"اس کی حکومت خارجہ پالیسی میں دھمکیوں کوروکے گی اور کشیدگی کا خاتمہ کرے گی"(رائٹرز 12/08/2013 )۔اور اس نے" محمد جواد ظریف کو وزیر خارجہ مقرر کیا جو اقوام متحدہ میں سابق سفیر ہیں جس نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہوئی ہے واشنگٹن اور تہران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خفیہ مذاکرات کا یہ ایک بنیادی رکن رہ چکا ہے"(رائٹرز 12/08/2013 )۔روحانی صدر منتخب ہونے کے بعد انتہائی وضاحت سے کہہ چکے ہیں کہ :"ہم ایران اور امریکہ کے درمیان مزید تناؤاور کشیدگی دیکھنا نہیں چاہتے،حکمت ہمیں بتا تی ہے کہ دونوں ملکوں کو مستقبل کے بارے میں فکر کرنےگزشتہ مسائل کو حل کرنے کے لیے مل بیٹھنے اور معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے"( رائٹرز17 /06/2013 )،جس کا امریکی صدر اوباما نے یہ کہہ کر جواب دیا:"امریکہ ایرانی حکومت کے ساتھ سفارتی حل تک پہنچنے کے لیے براہ راست مذکرات کے لیے تیار ہے،تاکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کی تشویش کا ازالہ کیا جائے"۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ خفیہ طریقے سے چلنے کے مرحلے کو ختم کر کے اعلانیہ اس کے ساتھ چلنا چاہتا ہے لیکن یہ ذرا مختلف شکل میں ہو کہ اس کو ایک علاقائی بااثر ملک کے طور پر دکھایا جائے اور خطے کے فیصلوں میں اس کو شامل کیا جائے۔
6 ۔ جو کچھ ہم نے اوپر کہا اس کی بنیاد پر ہم یہ خلاصلہ نکالتے ہیں:
جس مسلک کو ایران نے سرکاری مسلک کے طور پر اختیار کررکھا ہے اس کو بطور ایک پیغام(رسالت)یاایک ایسی آیڈیالوجی کے طور پر اختیارنہیں کیا جس کا وہ علمبردار ہو،کیونکہ اس نے ملک کے نظام کی تاسیس اس مسلک کی بنیادپر نہیں کی ہے،نہ ہی انہوں نے اپنا دستور اس مسلک کی اساس پر وضع کیا ہے،نہ ہی اس کے دفعات اس سے ماخوذ ہیں،بلکہ نظام حکومت،خارجہ پالیسی،فوج،سیکیورٹی سے متعلق بنیادی دفعات سب سرمایہ دارانہ نظام سے ماخوذ ہیں۔یہ بالکل سعودی نظام حکومت کی طرح ہے جو ملک کے طول عرض میں پھیلے ''حنبلی مسلک"کو حکومتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔جہاں تک ایران کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے وہ خطے میں امریکی مفادات کے گرد گھومتی ہے، گریٹ مشرق وسطی اور اسلامی ملکوں میں بھی یہی حال ہے۔مثال کے طور پر تہران نےعراق اور افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنے میں گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ کی بھرپور معاونت کی،لبنان میں اپنی جماعت(حزب اللہ)کے ذریعے وہاں سیاسی منطرنامے کو امریکہ کے حق میں کرنے میں کردار ادا کیا،حال ہی میں شام میں بشار الاسد کی مدد کر کے امریکی بالادستی کی حفاظت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا،یوں ایران افغانستان،شام،لبنان اور عراق میں امریکہ کے خادم کا کردار ادا کررہا ہے۔خطے سے باہر بھی امریکہ ایرانی رویے کو جواز بنا کر اپنے میزائیل ڈیفنس شیلڈ کو نصب کرنے،خلیج تعاون کونسل کے ممالک کو غیر متوازن امن معاہدے میں مربوط کرنے اور خلیجی ریاستوں کوایران سے ڈراکر اربوں ڈالرکا اسلحہ فروخت کرنے میں کامیاب ہو گیا!
ایران امریکہ کے ساتھ چل رہا ہے اور اس ساتھ چلنے کا مطلب اور اپنی حدود بھی جانتا ہے اور ان حدود سے تجاوز بھی نہیں کرتالیکن گمراہ کرنے یا حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے کبھی کبھی شعلہ بیانی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے جیسا کہ احمدی نژاد کے دور میں ہوا جس نے عراق،افغانستان اور شام میں امریکہ کی خوب خدمت کی۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایران کی حکومت کو اپنے مفادات کا سب سے بڑاخادم کے طور پر دیکھتی ہے اور امریکی پالیسی ساز ادارے ایران میں نظام کو تبدیل کر نے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جس کی وضاحت 12 دسمبر 2008 کو روبرٹ گیٹس نے بحرین میں بین الاقوامی امن کانفرنس کے موقع پر امریکہ اور ایران کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کی اور کہا:"کوئی بھی ایران میں نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔۔۔۔ہم جو چاہ رہے ہیں وہ صر ف اتنا ہے کہ سیاست اور رویے میں اس طرح تبدیلی آنی چاہیے کہ ایران خطے کے ممالک کا اچھا ہمسایہ بن جائے نہ کہ عدم استحکام اور تشدد کا مصدر بن جائے"۔

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک