الإثنين، 21 صَفر 1446| 2024/08/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

سوال و جواب

 

سوال: اسامہ بن لادن کے مجرمانہ قتل کے متعلق امریکہ اور پاکستان کے موقف میں تضاد ہے،کچھ بیانات کے مطابق یہ آپریشن پاکستانی انتظامیہ کی مرضی اور تعاون سے کیا گیا جبکہ کچھ بیانات اس بات کی مکمل یا جزوی تردید کررہے ہیں۔ براہ مہربانی اس معاملہ کی وضاحت کریں ۔ اگر یہ آپریشن پاکستان کے تعاون سے کیا گیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپریشن کے وقت کا تعین پاکستانی انتظامیہ کی مرضی سے کیا گیا؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

 

جواب: اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ یہ آپریشن پاکستانی انتظامیہ کی آگاہی اور تعاون کے ذریعے کیا گیا ۔ یہ تعاون انٹیلی جنس کے تبادلے اور امریکہ کو ا س آپریشن کے اجازت دے کر کیا گیا۔ ان میں سے چند شواہد درج ذیل ہیں:

 

۱۔ 25اپریل2011کو چکلالہ کے ہوائی اڈے پر ایساف کمانڈر جنرل پیٹریاس اور جنرل کیانی کے درمیان ہونے والی انتہائی اہم اور غیر معمولی ملاقات ۔اسی رات جنرل پیٹریاس نے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے وائٹ ہاوس میں ہونے والی ایک میٹنگ میں شرکت کی جس کی صدارت بارک اوبامہ نے کی تھی۔ اس کے اگلے ہی دن پاکستان کی انتہائی اعلی سطحی فوجی رابطہ کمیٹی،جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا ششماہی اجلاس منعقد ہوا جس میں دوسروں لوگوں کے ساتھ آئی۔ایس۔آئی چیف جنرل شجاع پاشا نے بھی شرکت کی جبکہ وہاس کمیٹی کے مستقل رکن نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ میٹنگ اچانک بھی بلائی گئی تھی۔ اوبامہ نے اس میٹنگ کے متعلق اشارتاً ذکر بھی کیا جب اس نے اسامہ کے موت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ''اور آخر کار،پچھلے ہفتے،میں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ہمارے پاس آپریشن کرنے کے لیے کافی انٹیلی جنس موجود ہے اور آپریشن کی اجازت دی تاکہ اسامہ بن لادن کو گرفتار کیا جائے اور اس کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘‘ ( روزنامہ ڈان 3مئی 2011)۔


۲۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہ اسامہ بن لادن ،بلال ٹاون میں رہ رہا تھا جو کہ آرمی کنٹونمنٹ کا علاقہ ہے اور پاکستام ملٹری اکیڈمی کے انتہائی قریب واقع ہے اور فوج کی چیک پوسٹوں میں گھرا ہوا ہے۔


۳۔ زرداری نے آگرچہ آپریشن میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی تردید کی لیکن اس بات کا اقرار کیا کہ یہ قتل دو طرفہ تعاون کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ زرداری نے واشنگٹن پوسٹ میں کہا کہ ''اگرچہ اتوار کے واقعات کوئی مشترکہ آپریشن نہیں تھا لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک دہائی کے تعاون اور شراکت داری کا نتیجہ اسامہ بن لادن کے خاتمہ پر منتج ہوا جو کہ تہذیب یافتہ دنیا کے لیے مستقل خطرہ تھا‘‘۔


۴۔ اوبامہ کابیان جس میں اس نے اس قتل میں پاکستان کی معاونت کو چھپانے کی کوشش کی لیکن اس بات کا اقرار کیا کہ پاکستان کی معاونت کے نتیجے میں اوسامہ کے ٹھکانے کا پتہ چل سکا۔اوباما نے کہا کہ ''اس بات کو نوٹ کرنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سرگرمیوں میں ہماری پاکستان کے ساتھ شراکت نے ہمیں اسامہ بن لادن اور اس مکان تک پہنچنے میں مدد کی جس میں وہ چھپا ہوا تھا‘‘۔


۵۔ القاعدہ کے اکثر اہم اراکین جیسے ابو فراج ال لببی،خالد شیخ محمد،احمد خلفان اسی طرح کے علاقوں جیسے فوجی علاقوں کے قریب موجود پوش علاقوں سے گرفتار کیے گئے تھے۔ اور القاعدہ کے یہ انتہائی اہم اراکین پھر امریکہ کے حوالے کیے گئے تھے۔


یقیناً پاکستانی انتظامیہ اس قتل میں پوری طرح سے ملوث ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ امر یکہ نے اس قتل کے لیے جس وقت کا تعین کیا اس سے پاکستان کی انتظامیہ آگاہ بھی ہو۔ پاکستانی انتظامیہ کا کردار ایک جاسوس کا ہے جو کہ ایک اپنے آقا کو کسی کو مارنے کے لیے ضروری معلومات مہیا کرتا ہے تاکہ مارنے کے لیے صحیح وقت کا تعین ہوسکے۔ جاسوس کو مقررہ وقت کے متعلق بتایا جاتا ہے یا نہیں یہ جاسوس کے لیے غیر ضروری ہے کیونکہ وہ پہلے ہی انتہائی گھٹیا قیمت پر بک چکا ہوتا ہے۔


آخر میں ہم عمومی طور پرپاکستان کے عوام اورخصوصی طور پر پاکستان کی فوج کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروائیں گے کہ اس انتظامیہ کا چلتے رہنا تمام بیماریوں کی وجہ اور پاکستان کے لیے ناسور ہے۔ یہ معاملہ صرف بن لادن(اللہ اس پر رحم فرمائیں اور جنت میں داخل فرمائیں) کے قتل پر نہیں رکے گا بلکہ یہ انتظامیہ مستقل مسلمانوں کا خون بہاتی رہے گی۔ شریعت کا یہ حکم ہے کہ اس انتظامیہ کو اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی حرمتوں کو محفوظ بنایا جاسکے اور کفار کو ذلیل کیا جائے۔

 

((وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ))
اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں(یوسف۔21)

1جمادی الثانی 1432ھ
4مئی2011

ایبٹ آباد کے وقعہ نے ثابت کر دیا کہ سیاسی اور فوجی قیادت میں کوئی فرق نہیں!! امریکی فوج میں کمی کا مطالبہ کر کے فوجی قیادت نے درحقیقت امریکی فوج کو پاکستان میں رہنے کا لائسنس دے دیا

کل ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں کیانی کا بیان سیاسی بصیرت رکھنے والوں کے لئے ایبٹ آباد میں امریکی حملے سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مسلم دنیا کی سب سے بڑی فوج کا سپہ سالار امریکہ سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو محدود کرے۔ اس بیان سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکی فوجوں کی کثیر تعداد پاکستان میں موجود ہے اورایبٹ آباد جیسے حملوں میں عملاً کردار ادا کر رہی ہے بلکہ اس بیان کے ذریعے بین السطور کیانی نے عوام کو یہ عندیہ دیا ہے کہ امریکی فوج پاکستان میں مستقبل میں بھی موجود رہے گی۔ پاکستانی مسلمانوں کواپنے ہی سپہ سالار سے امریکہ کو نکالنے، ایمبسی، فوجی اڈے بند کرنے ، سپلائی لائن کاٹنے اور امریکی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا بیان سننے کے بجائے امریکی فوج کی پاکستان میں غیر معینہ مدت تک موجودگی کا بیان سننے کو ملا۔ ایسے الم ناک بیان کی عوام کو ہر گز توقع نہ تھی۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ جنرل کیانی ہی تھا جس کی آئی ایس آئی کی سربراہی کے دوران جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کا خون کیا گیا۔ یہ کیانی ہی تھا جس نے سوات، باجوڑ، جنوبی وزیرستان اور اورکزئی میں امریکہ کے کہنے پر ہزاروں مسلمانوں کا خون کیا اور ان کے گھر بار اور کاروبار تباہ کئے۔ چنانچہ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ جنرل کیانی اور فوجی قیادت، جنرل پرویز مشرف سے کسی طور بھی کم نہیں بلکہ اس سے ایک ہاتھ آگے ہی ہیں۔ حزب التحریر فوج میں موجود مخلص عناصر سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس بزدل جرنیل کی اطاعت کے بجائے اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کریں جو انہیں امریکہ جیسے دشمن ملک کی چاکری کرنے کے بجائے خلافتِ راشدہ قائم کرتے ہوئے اسلام کے نفاذ کا حکم دیتے ہیں۔ یہ افواجِ پاکستان میں موجود ان مخلص افسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی اور فوجی قیادت میں موجود اسلام اور مسلمانوں کے غداروں کو اکھاڑ کر خلافتِ راشدہ کے لئے حزب التحریر کو نصرت دیں تاکہ امت کو اس ذلت کی زندگی سے نکالتے ہوئے عزت اور شرف بخشا جاسکے۔ افواجِ پاکستان کے افسروں کو اس عظیم فرض کی طرف بلانے کے لئے میڈیا کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور اس پیغام کو اہل طاقت تک پہنچائے۔


نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

 

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بعد ''متبادل میڈیا‘‘ میں بھی حزب التحریر پر پابندی لگائی جا رہی ہے امریکی ہدایات پر فیس بک پرحزب التحریر اور اس کے کارکنان کے سر گرم اکاؤنٹ دنیا بھر میں بند، آزادی اظہار کے دعووں کی قلعی پھر کھل گئی

امریکہ کی سرکردگی میں فیس بک نے دنیا بھر میں حزب التحریرکے مختلف شاخوں ، میڈیا آفسز (Media Offices) اور دیگر کئی ممبران کے اکاؤنٹ منجمد کر دئیے۔ اس سلسلے میں حزب التحریرکے پاکستان میں ترجما ن نوید بٹ کے دو صفحات، سینٹرل میڈیا آفس کے ڈائرکٹر عثمان بخاش، حزب التحریر فلسطین، تیونس اور مختلف ممالک میں مختلف ممبران کے اکاؤنٹ منجمد کر دئیے گئے۔ یاد رہے کہ نوید بٹ کے اکاؤنٹ کو تیسری بار منجمد کیا گیا ہے۔ جبکہ میڈیا آفس حزب التحریرکے زیر انتظام امریکی انٹیلی جنس، افواج اور پرائیویٹ افواج کو پاکستان سے نکالنے سے متعلق بعض فیس بک گروپوں کو بھی پہلے منجمد کیا گیا۔ یہ وہی فیس بک ہے جس نے امریکی تائید سے رسول اللہ ﷺکے خاکوں، قرآن پاک جلانے کے دن منانے اور اس طرح کی انتہائی شرمناک اور رذالت پر مبنی صفحات کو آزادی اظہار کے دعوؤں کی بنا پربند کرنے سے انکار کیا۔ لیکن حزب التحریرکے صفحات کو بند کر دیا گیا ، جو کہ دنیا بھر کو مغربی آئیڈیالوجی جیسے جمہوریت ، آزادیوں اور اس کے ملحقہ بیمار نظریات کی خباثت سے آگاہ کر رہے تھے اور امت کو اسلام کے نظام خلافت اور اس کے تفصیلات کی فہم دینے میں مصروف تھے۔ اس واقعے نے مغرب کے آزادی اظہار کے دعوؤں کی قلعی ایک بارپھر چاک کر دی ہے۔ اور ثابت کر دیا ہے کہ مغربی بیمار آئیڈیالوجی امت کے پاکیزہ اور خالص دل و دماغ جیتنے کی جنگ میں شکست کھا چکی ہے ۔ اور یہ شکست انھیں اپنے حقیقی خبیث اقدار پر لے آئی ہے جو کہ سنسر ، پابندیاں،جبر، دھونس ،تشدد، دہشت گردی اور قتل عام ہے۔ انٹرنیٹ پر نظر آنے والی یہ وہی اقدارہیں جن کا مشاہدہ ہم نے اس سے قبل قلعہ جنگی، فلوجہ اور گوانٹاناموبے میں کیا۔ ان واقعات سے آزادی اظہار کے پجاریوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے۔ وہ مغرب جن سے مسلمان عورت کے نقاب کا ایک فٹ کپڑے کا ٹکڑا برداشت نہیں ہوتا ان سے یہ طمع رکھنا کہ ان کے پاس انسانیت کو دینے کیلئے کچھ ہے، دیوانے کی بڑ ہے۔ پاکستان کی فکری دیولیہ اور ایجنٹ حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے۔ جنہوں نے صرف پچھلے مہینے حزب التحریر کی جانب سے اسلام کے نظاموں کی تفصیل پر مبنی کتابوں کی نمائش پر چڑھائی کر ڈالی اور اسلام آباد پریس کلب کو روند کر پروگرام سبوتاژ کر ڈالا۔ اور اس کے صرف تین دن بعد حزب التحریر کی پرامن ریلیوں کے شرکاء پر وہ تشدد کیا جیسے کہ وہ امریکی دشمن افواج ہیں۔ آج بھی ان ریلیوں سے گرفتارسیاسی کارکنوں کی ایک تعداد حراست میں موجود ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری جان لیں ؛ ان بچگانہ اور اپنے آپ کو بے نقاب کرنے والی حرکتوں سے وہ امت سے اسلام کی آئیڈیالوجی نہیں چھپا سکتے۔ ہاں اس سے وہ اپنے فالج زدہ بیمار آئیڈیالوجی کو قبر میں ضرور جلدی پہنچا سکتے ہیں۔

عمران یوسفزئی
پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان

 

قتل وغارت کے لیے امریکہ اسلامی علاقوں میںیوں دندنارہا ہے جیسے یہ اس کے اپنے صوبے ہوں!

پیر2مئی 2011ء کی صبح اوبامہ نے متکبرانہ انداز میں اعلان کیا کہ اُس نے پاکستان میں موجود ایک محفوظ گھر پر حملہ کیا...اس گھرمیں موجود مرد ، عورتیں اور بچے ہلاک کردئیے گئے... ہلا ک ہونے والوں میں بن لادن بھی تھا۔ اورحملہ آور امریکی فورسز اُس کی لاش اپنے ساتھ لے گئیں...بعد ازاں ایک امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ انہوں نے بن لادن کی لاش کو اسلامی طریقے کے مطابق سمندر برد کردیا ہے ! جو کہ اسلام پر کھلا بہتان ہے، کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔

اگر واقعی بن لادن کو شہید کردیا گیا ہے تو یہ اُس کے لیے باعثِ نقصان نہیں ہے۔ بن لادن کو یقیناًکفار کے ہاتھوں دو اچھے نتائج یعنی فتح یا شہادت میں سے ایک حاصل ہوا، اور اُسے قیامت کے دن کفار کی اُس نماز کی ضرورت نہ ہوگی جو انہوں نے اس پر پڑھی۔
تاہم جہاں تک اوبامہ کا تعلق ہے تواِسے اس واقعہ سے دو ہری شکست حاصل ہوئی:

اول: امریکہ، اپنی فوج کے علاوہ، اتحادیوں کی افواج اورمسلم ممالک کے غدار حکمرانوں کی تمام ترمدد کے باوجود تقریباً ایک دہائی تک ایک شخص کی تلاش میں لگا رہا، جس کی طاقت اِن افواج کی کسی بٹالین کی طاقت کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں، ...اور اگر اتنی مدت بعدانہوں نے اس حالت میں بن لادن کو پکڑ بھی لیا تو بہادر لوگوں کی نظر میں یہ امریکہ کی ہار ہے، اور یہ فتح ہرگزنہیں ...

دوم: اوبامہ کھلے میدانِ جنگ میں بن لادن کو قتل نہیں کرسکابلکہ اُس کا قتل ایک گھر کے اندر کیا گیا! جنگ کے بہادر ہیروز کی نظروں میں یہ ایسی کامیابی نہیں کہ جس پر اوبامہ اِس قدر فخر کا مظاہرہ کر رہا ہے...
صلیبی کفارجو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں، کے ہاتھوں مسلمانوں کی شہادت کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم نئی اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ امریکہ اسلامی ممالک میں آزادی سے دندناتا پھررہا ہے، ان ممالک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گھروں پر بمباری کرکے اُن کی چھتوں کو مکینوں کے سروں پر گرارہا ہے، اس بات سے قطع نظرکہ وہاں بچے، عورتیں یا بوڑھے رہتے ہوں!! اور امریکہ یہ سب کچھ ان ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے کسی قسم کی روک ٹو ک کے بغیرکر رہاہے!! ہمارے حکمران ،جو خود امریکہ کی نظر میں بھی حقیر اور بے وقعت ہیں، اپنی غداری کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ اُنہیں جاسوس کے طور پراستعمال کرتا ہے جواُسے مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے انٹیلی جنس فراہم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر امریکہ اُن کے اپنے ہی گھروں کے اندر قتل وغارت گری کا فیصلہ کرلے، تو یہ حکمران امریکہ کی خاطر اس ذلت واہانت کوبھی پورا کریں گے!

یہ سب اس امر کے علاوہ ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا اعلان شک و شبہات میں گھرا ہوا ہے۔ متضاد انٹیلی جنس رپورٹیں، وہ صورتِ حال جس میں یہ آپریشن کیا گیا اور اس آپریشن کی تفصیلات شکوک و شبہات میں لپٹی ہوئی ہیں۔ وقت ہی اس واقعہ اور امت پر ٹوٹنے والے دیگر کئی تکلیف دہ واقعات کی اصل حقیقت کو آشکار کرے گا...
اِس موقع پر حزب التحریرمندرجہ ذیل نکات کو بیان کرنا اہم سمجھتی ہے:

(1 مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی صلیبی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور بلا شبہ یہ ایک صلیبی جنگ ہے خواہ اوبامہ یہ جھوٹ بولتا رہے کہ ''امریکہ نہ تو اسلام کے خلاف ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا‘‘۔
امریکہ اور اُس کی اتحادی افواج افغانستان میں کیا کررہی ہیں؟ امریکہ اور اُس کی اتحادی افواج عراق میں کیا کررہی ہیں؟ کیا یہ امریکہ نہیں جس نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا اور مسلسل بہا رہا ہے؟ اور کیاکافر مغرب نے چیچنیا، کشمیر ا ور دیگر اسلامی علاقوں میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر مشکوک خاموشی اختیار نہیں کر رکھی؟ کیا یہ سب کافر صلیبی مغرب کا کام نہیں ہے، خواہ یہ براہِ راست ہو یابلواسطہ ؟! اس کے علاوہ اورکیا کچھ نہیں ؟!
یہ ایک مسلسل اور سفاک صلیبی جنگ ہے !! جس کا اعلان سابقہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2001ء میں کیا تھا کہ یہ ایک صلیبی جنگ ہے اور جسے مغرب کے سینئر سیاست دانوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔


2) اب وہ وقت آچکا ہے کہ پاکستان کے مسلمان مندرجہ ذیل اعمال سرانجام دیں:
۰ ان مجرم حکمرانوں کے ہاتھوں سے اقتدار چھین لیں جنہوں نے ،امریکہ کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ،پاکستان کو امریکہ کے ہاتھوں گروی بنا رکھاہے! یہ اُن کے لئے جائز نہیں کہ وہ چین سے بیٹھیں جب تک کہ وہ اس مجرم حکومت کو اکھاڑ نہ دیں جو اللہ اور امتِ مسلمہ کے دشمنوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔
۰ پاکستانی فوج کے افسران اور قبائلیوں میں سے وہ لوگ جو قوت رکھتے ہیں،ان پر لازم ہے کہ وہ اُس کردارکو ادا کریں جسے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اُن پر فرض کیا ہے۔ ہم اُن سے پوچھتے ہیں: کیا اسلام اور مسلمانوں کا تحفظ کرناآپ کے عظیم دین کا حصہ نہیں ہے؟ آپ لوگ امریکہ کی طرف سے مسلط کی جانے والی اِس ذلت کو کیسے قبول کرسکتے ہیں، کہ وہ بے دریغ خون بہاتا پھرے اور اپنی مرضی سے آزادانہ دندناتا رہے اور آپ کی سرزمین پر حرمتوں کو پامال کرتا رہے اور شر پھیلاتا رہے؟!

اے اہلِ قوت ! عقل سے کام لو ، اور حزب التحریرکے ساتھ مل کر ان حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکو،تاکہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کیا جائے،جو اسلام کو نافذ کرے گی ، اس ملک کے لوگوں کو امریکہ کی غلامی سے نجات دلائے گی، اور اسلام کے نور کو پوری دنیا تک پھیلائے گی۔

اے مسلمانانِ عالم!
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سفاکی اور جرائم اس وقت تک جاری رہیں گے اور ان میں اضافہ ہوتا رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتِ مسلمہ کو اس کی ڈھال یعنی خلافت عطا نہیں ہو جاتی۔
پس اے لوگو آگے بڑھو ، اے اللہ کے بندو !اللہ کے دین کی مدد کے لیے آگے بڑھو، اس امر کے لیے آگے بڑھو کہ یہ دین دوبارہ دنیا کی قیادت ورہنمائی کرے، اور دنیا کو امریکہ اور یورپ کے ظلم و ناانصافی سے نکال کر اسلام کی روشنی اور انصاف سے بھردے، وہ روشنی اور انصاف کہ اس کی مثل دنیا نے کبھی نہیں دیکھی۔
پس آگے بڑھو اوردنیا و آخرت کی بھلائی کے حصول کے لیے حزب التحریر کا ہاتھ تھام لو۔

(يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ * هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ)
''یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اﷲکے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔مگر اﷲاپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اﷲ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کر دے، خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘(التوبہ: 32-33)

 

عثمان بخاش
ڈائیریکٹر مرکزی میڈیا آفس
حزب التحریر

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک