الخميس، 24 صَفر 1446| 2024/08/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

خلافت کا قیام امریکی راج کا اختتام راحیل-نواز حکومت امریکی خواہش پر جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے

راحیل-نواز حکومت امریکی خواہش پر افغانستان میں جاری امریکی صلیبی افواج کے خلاف جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے۔ اس حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نےلندن میں ایک بیان میں امریکی صدر اوبامہ کی واشنگٹن کانفرنس  کی تقریر کو بہادرانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ہمیں دہشتگردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے لئے صدر اوبامہ کے پیغام کے پیچھے اکٹھے ہونا چاہیے" اور اگلے ہی سانس میں یہ بھی کہہ دیا کہ "11/9 سے قبل دہشت گردی اور خودکش حملے نہیں ہوتے تھے"۔

درحقیقت 11/9 کے واقع کو بہانہ بنا کرامریکہ نے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ برپا کردی  کیونکہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد اسلام ہی وہ واحد نظریہ حیات ہے جو سرمایہ داریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سابق امریکی صدر بش جونئیر کا اس جنگ کو صلیبی جنگ قرار دینا ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ امریکہ کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہیں اسی لئے اس جنگ کا شکار صرف مسلم ممالک ہی ہورہے ہیں۔ لیکن صلیبی جنگ کی اصطلاح کے خلاف ہونے والے شدید ردعمل نے امریکہ کو دہشت گردی کی اصطلاح کے استعمال پر مجبور کردیا۔

امریکہ یہ جانتا ہے کہ اس جنگ کولڑنے کے لئے اس کے پاس کوئی جواز نہیں اسی لئے اُس کے حملوں کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کررہا ہے۔ مسلمانوں کا امریکی صلیبی افواج سے لڑنا اسلام کی رو سے  جہاد ہے ۔  اس حقیقت کو جانتے ہوئے امریکہ نے مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینے اور انہیں اسلام اور جہاد سے دستبردار کرانے کے لئے سیاسی محاذ پر عالمی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کی ابتداء 19فروری کو واشنگٹن میں ہونے والی کانفرنس سے کیا جس میں ساٹھ ممالک نے شرکت کی۔ اپنے اس مقصد میں کامیابی کے لئے غدار مسلم حکمرانوں کو بھی اس نے ایسی کانفرسوں کو منعقد کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اس سلسلے کی پہلی کانفرنس 22 فروری کو مکہ میں"اسلام اور دہشت گردی کو روکنا "کے نام سے منعقد کی جاچکی ہے۔

راحیل-نواز حکومت بھی اپنے آقا امریکہ کے حکم پر جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔  اسی لئے حکمرانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ اب اچھے اور برے طالبان کی کوئی تخصیص نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان ،جو یقیناً امریکی ایکشن پلان ہے ،  کے تحت ملک بھر سے صرف پچھلے دو مہینوں میں تقریباً بیس ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ  خود حکومت نے مطلوب دہشت گردوں کی جو فہرست جارہی کی ہے وہ صرف تقریبا چھ سو افراد پر مبنی ہے۔

حزب التحریران غدار حکمرانوں کی یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ امت جہاد کرنے والوں اور  معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے مجرموں میں فرق کو بہت اچھے طریقے سے جانتی ہے  اور جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کی اُن کی کوئی بھی کوشش ان کے لئے اس دنیا  اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث بنےگی۔ انشاءاللہ  کفر کی طاقتوں کےخلاف جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور یہ امت اسلام اور اس کی عظمت جہاد سے کبھی دستبراد نہیں ہوگی۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ للَّهِ

"اور اُن سے لڑو جب تک فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ کا دین غالب نہ آجائے" (البقرۃ:193)

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان

Read more...

سوال کا جواب نائیجیریا میں انتخابات  موخر  کرنے کے حوالے سے

سوال :

نائیجیریا میں الیکشن کمیشن  نے 8 فروری 2015 کو  صدارتی اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو اندرونی امن و امان  کی صورت حال کی خرابی کے بہانے  28 مارچ تک موخر کر دیا گیا  جو 14 فروری کو ہونے والے تھے۔ کیا بات ایسی ہی ہے ؟ یا اس تاخیر کے بین الاقوامی اسباب ہیں ؟ اگر یہ بات ہے تو  اس تاخیر پر اثر انداز ہونے  والے ممالک کون ہیں؟ ان انتخابات کے بارے میں اب کیا توقع ہے ؟

میرا یہ مشاہدہ ہے کہ  حزب  کے مطبوعات  تقریباً  نئیجیریا  کے مسائل سے خالی ہیں حالانکہ  یہ آبادی کے لحاظ سے افریقہ میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے ، جو سمندر  تک پھیلا ہوا ہے،یہ تیل سے بھی مالا مال ہے، اس کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے ؟ میں معذرت چاہتا ہوں کہ  سوال کرنا اگرچہ میرا حق ہے مگر شاید  نوٹ لکھنے کا حق نہیں تھا  ۔۔۔اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔

 

جواب :

پہلے : میں ملاحظہ سے شروع کر تا ہوں اور  یہ کہتا ہوں :

اللہ آپ کے اس ادب میں اضافہ فرمائے ، آپ  ایک ایسے امر پر بھی معذرت کر رہے ہو جو تمہارا حق ہے  اور یہی ادب کا حسن ہے۔۔۔

رہی بات نئیجیریا کو اہمیت دینے کی  تو یہ اللہ کے اذن  ہونے والا ہے اطمینان رکھئیے ، آپ نے جو کچھ کہا ہمیں اس کا ادراک ہے ،اس کے علاوہ بھی ہمیں  کئی امور کا  ادراک ہے اور ہم اس پر احسن انداز سے گامزن ہیں، اللہ سبحانہ وتعالٰی ہی توفیق دینے والا ہے۔۔۔

 

جہاں تک مطبوعات کا تعلق ہے  تو اس میں ہم بعض پہلوں اور ترجیحات  کی رعایت رکھتے ہیں۔۔۔اس کے باوجود ہم نے ایک سے زیادہ بار  نئیجیریا کے بارے میں مواد شائع کیا ہے،مثال کے طور :

۔پر13 مارچ 2009 ہم نے ایک سوال کا جواب شائع کیا جو یہ تھا   کہ" کیا نئیجیریا میں اسلام کے آنے کے بارے میں  کچھ تاریخی معلومات ہیں   اور اس کے بعد  وہاں کیسے حکمرانی کی گئی ؟ پھر یہ بھی کہ نئیجیریا میں سیاسی صورت حال کیسی ہے ؟"۔

۔20 جنوری 2012 کو ہم نے  شباب کے لیے معلومات  "بوکو حرام" گروپ اور نئیجیریا میں اسلام کے خلاف  وحشیانہ جنگ " شائع کیا ۔

۔21 اگست 2012 کو  ہم نے ایک سوال کا جواب شائع کیا "  گزشتہ دنوں  میں نئیجیریا اور کینیا   کی صورت حال،کچھ واقعات اور کشمکش نے ان کے متعلق مشاہدہ کرنے والوں کو چونکا دیا ۔۔۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ یا برطانیہ یا کوئی اور طاقت  افریقہ کے طول و عرض میں  خانہ جنگی کو ہوا دینے  کی نئی پالیسی پر گامزن ہے  خصوصاً نئیجیریا میں  اور 2007 کے  عام انتخابات کے بعدکینیا میں  یا یہ  کہ ان واقعات  کا تعلق اندرونی عوامل سے ہیں؟"۔

۔یہ ایک تفصیلی جواب تھا جس میں ہم نے جو ناتھن اور ان کو 2011 صدر منتخب کرنے کا ذکر ہے ،اس جواب میں تھا کہ ، "اوبا سانجو ملک میں سب سے بڑا امریکی ایجنٹ ہے۔یہ نئیجیریا میں امریکی بالادستی   کے تسلسل کی ضمانت دینے اور برطانوی اثر ورسوخ کو  زائل کرنے کے بارے میں ذمہ دار ہے۔  اوباسانجو  ہی نے  جو ناتھن کو  2007 کے صدارتی انتخابات میں  صدر عمر کے نائب کے طور پر منتخب کیا۔  گڈلک جوناتھن  کے شخصی فائل میں  ہے جس کا ذکر بی بی سی ریڈیو نے کیا  کہ "جناب جو ناتھن  گورنر بن گئے اور اس کے دو سال بعد  ہی او سیجو اوبا سانجو ان کو  2007 کے صدارتی انتخابات  میں نئیجیریا   کا  نائب صدر نامزد کیا " ( گڈلک  جو ناتھن کا شخصی فائل : بی بی سی نیوز آن لائن  18 اپریل 2011)۔اس کے کچھ عرصہ بعد  اوبا سانجو نے  نے جو ناتھن کو صدر کے منصب  تک پہنچانے کا بندو بست کیا جیسا کہ الطلیعہ (ڈان) اخبار نے کہا  ہے کہ  جو ناتھن کو صدارتی منصب تک پہنچانے میں اوباسانجو  کا بنیادی کردار ہے ،اخبار نے کہا کہ  "جب  یارادوا     صدارتی مدت  میں جو کہ چار سال ہے کے  تقریبا دوسال میں ہی  بیمار  ہو گیا  اور اپنی صحتیابی سے نا امید ہو گیا  تو اوباسانجو نے  پہلی بار سعودی ہسپتال میں ان کی عیادت کے لیے گیا اور واپس آتے ہی گڈ لک جو ناتھن کے نائب صدر کے طور پر حلف برداری  کی مہم میں منہمک ہو گیا  تاکہ وہ نائب صدر کے طور پر صدر کا قائم مقام بن جائے  کیونکہ صدر یارادوا نے ملک سے باہر جاتے وقت  کسی کو اپنا نائب  مقرر نہیں کیا تھا  (کلیفور : اوباسانجو کا استعفی  : جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بعد کیا ہو گا ؟" اخبار الطلیعہ آن لائن 4 اپریل 2012 )۔

 

اس طرح  امریکہ  2011 کے صدرتی انتخابات میں  جو ناتھن  کے لیے وسیع مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ، کیونکہ جوناتھن  نئیجیریا کی عوام تک پہنچنے  کے لیے سوشل میڈیا کے ذرائع کو استعمال کیا  اور77.7فیصد ووٹ حاصل  کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔  یہ نتائج عمر یارادوا  کے ووٹ کے مقابلے  میں زیادہ تھے ۔۔۔") ختم شد

 

یوں ہم نے نئیجیریا کے بارے  مختلف مواقع پر مطبوعات شائع کیں ۔۔۔اگر چہ یہ اشاعت دوسرے بعض علاقوں کے بارے میں کی جانے والی  اشاعت سے کم ہیں  لیکن جیسا کہ پہلے میں نے کہا کہ  ہم "بعض  پہلووں اور ترجیحات  کی رعایت کر تے ہیں۔۔۔" ۔

بہر حال اللہ آپ کے اہتمام اور جستجو پر آپ کو بہترین جزا دے آپ کو توفیق دے اور مدد کرے ۔

 

دوسرا : انتخابات کی تاخیر کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب :

جواب کی وضاحت کے لیے میں مندجہ ذیل امور کا ذکر کروں گا :

1 ۔ حال ہی میں امریکہ نے نئیجیریا میں  اپنی بالادستی  کو مضبوط کرنے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ؛ جیسا کہ  نیو یارک ٹائمز نے 7 جون 2014 کو خبر دی کہ "امریکہ  نے  نئیجیریا کے شمال میں ایک ٹی وی چینل کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کو امریکہ براہ راست فنڈز دے گا اور یہ چینل 24 گھنٹے  نشریات نشر کرے گا ،اس کا مقصد  بوکو حرام  اور دوسری سخت گیر اسلامی  جماعتوں  کا مقابلہ کر نا ہے"۔ اسی اخبار نے ایک امریکی عہدیدار  کا یہ بیان بھی نشر کیا کہ "یہ منصوبہ 2012 میں بوکو حرام کے خلاف تعاون کے لیے  نئیجیریا  کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ ہے ،اس چینل کو نئیجیریا کے لوگ  چلائیں گے"۔ اخبار نے کہا کہ  "امریکی وزارت خارجہ میں اینٹی ٹیررازم آفس  اس چینل کے لیے فنڈز فراہم کرے گا  جو 6 ملین ڈالرز ہوں گے"۔

 

2 ۔ برطانیہ نے 1960 تک نئیجیریا کو  کالونی بنا کر رکھا اور  تب تک اسی کی وہاں  مکمل بالادستی تھی۔  اب بھی  اس کا کچھ نہ کچھ اثر ورسوخ وہاں باقی ہے  اگر چہ اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے کیونکہ امریکہ نے بالادستی حاصل کرنے میں اس کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس لیے انہی دونوں کا وہاں اثرو رسوخ ہے  اور انہی کے مابین مقابلہ ہے۔ برطانیہ اور اس کے ساتھ فرانس بھی حرکت میں آگیا  کیونکہ اس کو نئیجیریا کے  پڑوس  میں اپنی بالادستی  کی فکر دامنگیر تھی، چنانچہ  کیمرون کی سرحدھحدکے ساتھ موجود  چاڈ کے فوجی دستے  منگل3 فروری 2015 کو نئیجیریا میں داخل ہوئے۔  یہ فوج بوکو حرام کے اسلام پسندوں کے  ساتھ زبردست لڑائی کے بعد  نئیجیریا  کے شہر غامبور میں داخل ہوئی "(اے ایف پی 3/2/2015 )۔

یہ کہا گیا ہے  کہ اس جماعت نے ایک مہینہ قبل اس شہر پر قبضہ کیا تھا۔ چاڈ کی فوج   گزشتہ مہینے جنوری میں کیمرون میں داخل ہوئی تھی ۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے3 فروری 2015 کو خبردی کہ "فرانس کی فضائیہ بوکو حرام کے انتہا پسندوں کے خلاف  نئیجیریا  کی سرحد کے ساتھ واقع ممالک  کی مدد کے لیے  جاسوسی  کی ذمہ داری ادا کر رہی ہے ۔۔۔ جبکہ برطانیہ کی موجودہ پالیسی یہ ہے  وہ امریکہ کی اعلانیہ مخالفت نہیں کر تی  بلکہ  وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی مسائل میں اس کی شریک کار ہے  اور یوں وہ اپنے آپ کو امریکہ کے شر سے محفوظ رکھتی ہے۔  برطانیہ کھل کر امریکہ کی مخالفت نہیں کر تا کیونکہ  وہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچنے سے ڈرتا ہے  اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں  اپنی پرانی کالونیوں  میں رہے سہے اثرو رسوخ  سے بھی ہاتھ دھونا نہ پڑے،مگر ساتھ ساتھ اب بھی  فرانس کو اسی طرح حرکت میں لاتا رہتا ہے جیسا کہ زمانہ قدیم سے  اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فرانس کے ساتھ کرتا آرہا ہے۔ فرانس کھل کر  سامنے آنے کو پسند کر تا ہے  کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ بڑا اورنمایاں نظر آئے،اسی لیے برطانیہ  اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ فرانس سیاسی داؤ پیچ میں اتنا ماہر نہیں۔۔۔لے دے کر عملی رسہ کشی امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ہی ہے۔

 

3 ۔ رہی بات نئیجیریا کے اندر کی تو   نئیجیریا کی حکومت  مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے  جبکہ مسلمان اکثریت ہیں،   چنانچہ فروری 2014   سرکاری سکولوں میں  حجاب پر پابندی لگا دی گئی ۔ حکومت  ،جس کی قیادت نصاری ٰکے ہاتھ میں ہے،  نے جانبداری کا مظاہر کیا  اور اس حکومت کو مغرب  اور اس کے سر غنہ امریکہ کی آشیر باد حاصل ہے۔حکومت واضح طور پر نصاریٰ کی  طرفدار ہے ، مسلمانوں پر مغربی طرز تعلیم کو مسلط کر رکھا ہے اور  ریاست  مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہی ہے۔۔۔جب نئیجیریا کی فوج کے سپاہیوں نے  ان وحشیانہ کاموں سے انکار کیا جن کا ارتکاب  حکومت  مسلمان  شہریوں کے خلاف  کر تی ہے تو ان سپاہیوں کو سزائے موت دی گئی۔  سکائی نیوز نے 18 دسمبر 2014 کو خبر دی کہ " نئیجیریا کی ملٹری کورٹس نے   18 دسمبر 2014 کو اسپشل فورس کےان  54 عناصر کو سزائے موت دے دی جنہوں نے  بوکو حرام گرپ کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔  گزشتہ  ستمبر  میں 12 نئیجیرن فوجیوں کو ایک افسر پر فائرنگ کر کے الزام میں ملک کے مشرقی علاقے مایدوغوری میں  سزائے موت دی گئی ۔۔۔یہ سب عوام اور فوج کی جو ناتھن حکومت  سے  ناراضگی کو ظاہر کرتے ہیں اور اگر  انتخابات  اپنے مقررہ وقت پر ہوں تو یہ صورتحال ووٹ پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

 

4 ۔ یہ تو ایک پہلو سے تھا جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انتخابات میں  جو ناتھن  کا موجودہ مد مقابل  سابق صدر محمد بخاری ہے  جن کا تعلق  ھوسا قبیلے سے ہے  جو کہ سب سے بڑا قبیلہ ہے  اور ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے ،اس قبیلے  کے لوگوں کی بھاری اکثریت  مسلمان ہے اور شمالی نئیجیریا میں ان کو مقبولیت بھی حاصل ہے ۔  2011 کے انتخابات میں بھی اس نے  جوناتھن سے مقابلہ کیا تھا ۔ یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ محمد بخاری 32 فیصد سے جیت چکے ہیں ، انہوں نے انتخابات کی شفافیت پر شک کیا اور کہا کہ " نئیجیرین الیکشن کمیشن کے کمپیوٹر پروگرام  کے ذریعے  انتخابی نتائج سے کھیلا گیا  اور ان کو نقصان پہنچایا گیا "۔  یہ کہہ کر انہوں نے بلواسطہ طور پر امریکہ پر الزام عائد کیا  کیونکہ امریکہ نے ہی  اس الیکشن کمیشن  کو تکنیکی مہارت اور سرمایہ فراہم کیا   تھا اور وہی اس کی نگرانی  کر رہا تھا۔  امریکی وزیر خارجہ کے معاون جونی کارسون نے اس وقت اس الیکشن کمیشن کی تعریف کی تھی اور نئیجیرین عہدیداروں نے 9 دسمبر 2010 میں  واشنگٹن میں امریکی عہدیداروں کے ساتھ  اپریل 2011 میں ہونے والے انتخابات  ،اس کے لیے درکار تیکنیکی معاونت ، سرمایہ اور نگرانی کے حوالے سے  اعلیٰ سطحی بات چیت کی تھی۔

 

محمد بخاری برطانوی  ایجنٹوں میں سے ہے اور یہ سابق عسکری حکمران ہے ۔  انہوں نے 1983  میں شیخو شارجاری  کا تختہ الٹ دیا تھا جو 1979 سے سول حکمران تھا ۔۔۔محمد بخاری نے 1999 اور2003  کے انتخابات میں  ریٹائرڈ جنرل اولو سیگن اوبا سانجو  کے ساتھ مقابلہ کیا  جبکہ 2007 کے انتخابات میں اوباسانجو نے  اپنی پارٹی کی طرف سے عمر یارادوا کو امیدوار نامزد کیا  جو کہ ایک مسلمان قبیلے سے تعلق رکھتا ہے  اور اس کا مقصد  محمد بخاری سے مقابلہ کرنا تھا اور یہی ہوا آخر الذکر وہ انتخابات ہار گیااور اسی وجہ سے  اس حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا یا جس کی قیادت اوباسانجو کے پاس ہے۔  جیسا کہ ہم نے اوپر کہا کہ محمد بخاری کو کسی حد تک مقبولیت حاصل ہے خاص کر  شمالی نئیجیریا میں ، اس لیے وہ اور اس کی جماعت پروگریسیو کانگریس پارٹی  کے پاس جو ناتھن اور اس کی پارٹی عوامی جمہوری پار ٹی کو  اقتدار سے  ہٹانے کا  اچھا خاص موقع ہے۔

 

5 ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھانپ لیا کہ انتخابات اس کے مفاد میں نہیں  اس لیے امریکی سیکریٹری خارجہ کیری نے موخر کرنے کے لیے معاملات کو ترتیب دینا شروع کیا :

۔ اس نے برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہامونڈ سے 23 جنوری 2015 کو ملاقات کی  جیسا کہ فرانس پریس نیوز ایجنسی نے ذکر کیا ہے ، یہ ملاقات انتخابات کو موخر کرنے سے تقریباً دو ہفتے پہلے ہوئی تھی۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے درمیان سب سے بڑا موضوع انتخابات ہی تھے۔ امریکہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ نئیجیریا میں  برطانیہ کے  کارندے موجود ہیں۔۔۔

۔ اس کے بعد کیری نے  حزب اختلاف کی پروگریسیو کانگریس پارٹی کی قیادت اور ان کے نامزد امید وار محمد بخاری سے ملاقات کی۔  ملاقات کے بعد کیری نے کہا  کہ "صدر باراک اوباما  نے مجھ سے کہا  ہے کہ میں نئیجیریا  کی سیاسی شخصیات  کو یہ بتادوں کہ امریکہ  شریک ہونے اور نئیجیریا کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے ، لیکن جمہوری عمل تسلی بخش ہو نا چاہیے " (اے ایف پی 25 جنوری2015 )۔

۔ اس کے بعد کیری نے نئیجیریا کے صدر جو ناتھن  سےملاقات کی جس نے "آزادانہ ،شفاف اور تسلی بخش انتخابات کے اجراء کی حامی بھری" (اے ایف پی25 جنوری2015)۔

یوں یہ تمام ملاقاتیں  صدارتی انتخابات  کے حوالے سے تھیں ۔  فرانس پریس نے کیری کے نئیجیریا کے دورے کی خبر دیتے ہوئے 25 جنوری2015 کو کہا  کہ  " کیری  صدارتی اور قانون ساز اسمبلی  کے لیے  14 فروری کو ہو نے والے انتخابات  کے بارے میں بات چیت کرے گا" ۔

 

6۔ ایسا لگ رہا ہے کہ  کیری ان اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ملاقاتوں کے ذریعے  انتخابات کو کچھ عرصے کے لیے موخر کرنے  کے مسئلے کو حل کرنے  پر اتفاق کے لیے طرفین کو منانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن  وہ اس حل تک نہ پہنچ سکے  اسی لیے جو ناتھن  نے طرفین  کی رضامندی کا انتظار کیے بغیر ہی   انتخابات کو ڈیڑھ مہینے کے لیے موخر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے اور یو ں  نئیجیرین الیکشن کمیشن نے8 فروری2015 کو  14 فروری کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو 28 مارچ تک امن و آمان کی صورت حال کا بہانہ بنا کر موخر کر دیا۔ امریکہ نے حسب عادت اپنے آپ کو اس سے لاتعلق ظاہر کیا،گویا کہ یہ خود جوناتھن حکومت کا فیصلہ تھا،جس پر کیری نے یہ بیان جاری کیا کہ  " نئیجیریا کی جانب سے انتخابات کو موخر کرنے کے فیصلے پر واشنگٹن  کو مایوسی ہوئی" (رائٹر 8/2/2015 )۔  کیری نے تو یہ کہا مگر معاملہ ہر اس شخص کے سامنے واضح ہے جس کے پاس دو آنکھیں ہیں۔  اس کی ملاقاتوں میں بھی توجہ انتخابات کے موضوع پر مرکوز تھی جیسا کہ فرانس پریس  نیوز ایجنسی نے کہا ہے ۔ لازمی بات ہے کہ انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ امریکہ کا ہے کیونکہ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جو ناتھن امریکہ کی مخالفت کر ے  وہی امریکہ کا تابع فرمان  اور امریکی حمایت پر بھروسہ کرنے والا ہے۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے 8 فروری2015 کو خبر دی کہ  نئیجیرین الیکشن کمشن نے " حکمران  پیپلز پارٹی  کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے" ۔

 

7 ۔  حکومت نے انتخابات کو موخر کرنے  کا سبب امن وآمان کو قرار دیا  لیکن یہ عذر لنگ ہے ۔ جا ناتھن حکومت  کی جانب سے انتخابات کو موخر کرنے  کے بہانے  میں تضاد اور تردد نمایا ں ہے۔  چنانچہ    آزاد قومی الیکشن کمیشن کے سربراہ  اتا ھیرو جیجا نے وضا حتی بیان میں کہا  کہ "ملک کے سیکیورٹی قیادت کے مشوروں کو اتنے آسانی سے  نظر انداز کر نا ممکن نہیں ، ایسے حالات میں  نوجوانوں اور خواتین کو اپنا جمہوری حق  ادا کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکالنا ممکن نہیں  جہاں امن آمان کی کوئی ضمانت نہ ہو اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، اس کے نتیجے میں کمیشن نے انتخابات کے لیے نئی تاریخ مقرر کردی ہے ، عام انتخابات ،صدارتی انتخابات اور قومی اسمبلی کے انتخابات 28 مارچ 2015 کو ہوں گے جبکہ گورنروں اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات   11 اپریل کو ہوں گے"۔ جیجا نے کہا  کہ "قومی سلامتی کے مشیر نے  پچھلے ہفتے  الیکشن کمیشن کو ایک خط بھیجا جس میں  وضاحت کی کہ  انتخابات کا  مقررہ  اصل تاریخ   پر منعقد ہو نے کی صورت میں امن و  آمان کی ضمانت دینا ممکن نہیں ۔۔۔" انہوں نے مزید کہا  کہ "اس فیصلے پر ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا"۔  انہوں نے یہ ایسے انداز سے کہا  جیسا کہ ایک "مشکوک شخص کہے کہ مجھے پکڑو" ۔  انہوں نے مجبوری  کو چھپاتے چھپاتے مجبوری کو ثابت کیا  !صرف یہی نہیں بلکہ  اس سے قبل  گزشتہ مہینے قومی سلامتی کے مشیر  سامبو داسو کی نے کہا کہ  "انتخابات میں تاخیر کا سبب شناختی کارڈز بروقت فراہم نہ ہو نا ہے جو کہ ووٹنگ کے لیے لازمی ہے " ( رائٹرز 8/2/2015 )۔۔۔ یوں ایک مہینے پہلے قومی سلامتی کا مشیر  انتخابات میں تاخیر کا سبب  شناختی کارڈز کی عدم فراہمی کو قرار دے رہا ہے  جبکہ الیکشن کمیشن اس کا سبب امن آمان کے مسئلے کو گردانتا ہے ؟! دونوں بیانات میں واضح تضاد ہے !

یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں تاخیر ان اسباب کے بنا پر نہیں کی گئی جو جوناتھن حکومت نے بتا ئی ہے بلکہ یہ امریکی فیصلے کی بنا پر ہے کیونکہ  اس کے ایجنٹ  موجودہ صدر جوناتھن  کی پوزیشن خراب  اور اس کے ناکام ہونے کا خوف ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ  تجزیہ نگار اور مشاہدہ کرنے والے  اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ  محمد بخاری  اور اس کی پارٹی پروگریسیو کانگریس  کے پاس جو ناتھن اور ان کی پارٹی پیپلز  ڈیموکریٹک پارٹی کو  اقتدار سے ہٹا  نے  کا حقیقی موقع ہے۔

 

8 ۔  اب مندرجہ ذیل تین احتمالات کا امکان ہے:

ا ۔ جو ناتھن انتخابات کو موخر کرنے کی مدت کے دوران  امریکہ کی مدد سے کچھ کامیابیاں حاصل کر لے  اور امن و آمان کو بحال کرنے کچھ اقدامات کریں ،جس سے  پرتشدد کاروائیوں میں کمی آئے، اگر وہ  یر غمال بنائے گئے  سکول کی بچیوں  کے مسئلے کو امریکہ کی پشت پناہی   اوربین الاقوامی  تدابیر سے حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔۔۔

ب ۔ یا امریکہ  برطانیہ کے ساتھ کسی مصالحت تک پہنچے گا اور جوناتھن اور محمد بخاری کے درمیان شراکت ہو گی، ایک صدر بن جائے دوسر ا اس کا نائب مقرر ہو ، یعنی وہی فارمولہ آزمایا جائے  جس کو جو ناتھن نے ختم کر دیا تھا، جو یہ تھا کہ ایک نصرانی ہو اور دوسرا مسلمان۔  اس صورت حال کا دارومدار  نئیجیریا میں  رسہ کشی کرنے والے فریقین کی قوت پر ہو گا یعنی امریکہ اور برطانیہ ۔

ج ۔ انتخابات  کو موخر کرنے کو دہرایا جائے ، یا  نئے مقرر ہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ہو  مگر گزشتہ انتخابات کی طرح کمپیوٹر پروگرام کے ساتھ کھیل کر امریکی  امید وار کا پلڑا بھاری کیا جائے گا، دونوں صورتوں میں  پرتشدد کاروائیوں میں اضافہ ہو گا اور لوگ خاص کر مسلمان اس آگ  میں جلیں گے ۔۔۔

د ۔ یا پھر اللہ  اس امت پر اپنا فضل کر ے گا اور کسی مضبوط  اسلامی ملک میں  خلافت راشدہ قائم ہو جائے گی  ، جس سے استعماری کفار کے دلوں میں  رعب داخل ہو گا  اور وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں کی جرات نہیں کریں گے، بلکہ نئیجیریا اور دوسرے علاقوں میں  مسلمان غالب آئیں گے:

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

"جو اللہ کی مدد کرتے ہیں اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے  بے شک اللہ ہی  قوی اور غالب ہے"(الحج:40)۔

 

Read more...

خلافت کا قیام امریکی راج کا اختتام راحیل-نواز حکومت افغانستان میں امریکی قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے مجاہدین پر بھرپور دباؤڈال رہی ہے

راحیل-نواز حکومت افغانستان میں امریکی قبضے اور خطے میں امریکی راج کو مستحکم کرنے کے لئے امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین پر بھر پور دباؤ ڈال رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ عالمی اقتصادی بحران اور عراق و افغانستان کی دو انتہائی طویل جنگوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے  اور یہ صاف نظر آرہا ہے کہ افغان حکومت  کسی صورت  امریکی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتی، تو  راحیل-نواز حکومت نے خطے میں امریکی راج کو گرنے سے بچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا کیونکہ  حقانی نیٹ ورک سمیت امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے اہم ٹھکانے اسی علاقے میں موجود تھے اور پھر پشاور اسکول حملے کو جواز بنا کر نیشنل ایکشن پلان کے نام پر اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا دیا گیا۔حکومت  فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی مفادات کو یقینی بنانے کے لئے مجاہدین کے بعض گروہوں  پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے شدید دباؤ ڈال رہی ہے  اور پچھلے چند مہینوں میں راحیل-نواز حکومت کے سیاسی و فوجی اہلکاروں کی تواتر سے کابل یاترا اسی مقصد کے تحت ہے۔

راحیل-نواز حکومت کا یہ عمل پاکستان اور  افغانستان  کے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھوپنے کے مترادف ہے۔ اس وقت جب خطے کے مسلمان اپنی عظیم ترین قربانیوں کی بدولت اس علاقے میں امریکی عزائم کو ناکام کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں تو ایک بار پھر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے  مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائےکافر صلیبیوں  کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دی ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں صورتحال کمزور ہے  جس کی وجہ سے افغان حکام اور امریکی قانون ساز امریکی صدر سے محدودانخلاء کی تاریخوں میں ردوبدل کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لہٰذا نئے امریکی سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر نے  اپنے حالیہ  کابل کے دورے کے دوران یہ کہا ہے کہ امریکہ اس بات کے لئے تیار ہے کہ کچھ اڈوں کو بند کرنے میں تاخیر کردی جائے اور مزید فوج کو افغانستان میں  تعینات رکھا جائے۔

حالیہ دونوں میں امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری اور افغان صدر غنی کے جانب سے افغانستان میں نام نہاد امن کے قیام کے لئے راحیل -نواز حکومت کی کوششوں کی انتہائی تعریف و توصیف کرنااس بات کی واضح دلیل ہے کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے پاکستان کے سیاسی و فوجی وسائل مخلص مجاہدین کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے اور امریکی شرائط کو قبول کرنے  پر مجبور کرنے کے لئے لگا دیے ہیں۔ حزب التحریر پاکستان ا ور افغانستان کے عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ یہ سوچ انتہائی خطرناک ہے کہ اگر امریکہ کا مجاہدین کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوجائے تو اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا، ایسی سوچ رکھنے والوں کو عراق کی صورتحال کو سامنے رکھنا چاہیے جہاں آج کے دن تک مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ خطے میں امن امریکہ کی موجودگی کو ختم کرنے سے ہی قائم ہو گا اور ایسا صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

 

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان پولیس سول لائینز لاہور پر حملے کی شدید مذمت کرتی ہے پاکستان سے امریکی و بھارتی موجودگی کا خاتمہ کرو جو قتل و غارت گری کی وجہ ہے

آج 17 فروری 2015 کو لاہورپولیس کے ہیڈکواٹر ، پولیس سول لائینز قلع گجر سنگھ کے مرکزی دروازے کے پاس بم دھماکہ کیا گیا۔کم ازکم آٹھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غیر واضح لوگوں نے قبائلی مسلمانوں کی نمائندی کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلمانوں کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ حزب التحریر اس گھناؤنے جرم کی مذمت کرتی ہے اور یہ بتانا چاہتی ہے کہ یہ بم دھماکہ اس دن ہوا ہے جب آج اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے ایک بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جس میں پاکستان کے وزیر داخلہ بھی شریک ہیں۔ یقیناً اس بم دھماکے کا آج ہی ہونا محض اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ پاکستان میں امریکہ کے خونی عزائم کو پورا کیا جاسکے۔

اوبامہ انتظامیہ کبھی بھی پاکستان میں امن و سلامتی کو قائم نہیں ہونے دے گی اور حکومت کی جانب امریکہ کی اندھی تقلید پاکستان اور اس کے عوام کے لئے مزید دکھ اور مصائب کا ذریعہ ہی بنے گی۔ حزب التحریر مسلمانوں کو یاد دہانی کراتی ہے کہ اس قسم کے شیطانی حملے اور قتل و غارت گری امریکی و بھارتی انٹیلی جنس کرواتے ہیں تا کہ خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھا سکے۔ وہ لوگ جو معاملات سے باخبر ہیں اس بات کو جانتے ہیں کہ کئی سال قبل امریکی و بھارتی انٹیلی جنس کمزورقبائلی نیٹ ورکس میں داخل ہو گئی تھی اور ان میں موجود نا سمجھ اور ناآشنا لوگوں کو بھڑکاتے ہیں کہ وہ اپنی بندوقوں کا رخ افغانستان میں قابض صلیبیوں سے موڑ کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کرلیں۔ اس کے علاوہ حزب التحریر حکومت کی پر زور مذمت کرتی ہے کہ جس نے غیر ملکیوں کو ہماری سرزمین پر اپنے پنجے جمانے اور اس قسم کے حملے کروانے کی آزادی فراہم کررکھی ہے۔ ایک طرف تو حکومت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ امریکی و بھارتی ایجنٹوں سے لڑ رہی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت نے امریکہ و بھارت کو اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کی مکمل آزادی فراہم کررکھی ہے۔

حزب التحریر ان قبائلی مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہےجو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں کہ وہ اس قسم کے وحشیانہ حملوں کی بھر پور مذمت کریں۔ انہیں کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ ان کے وکیل بن کر وہ لوگ بات کریں جو اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہوئے امریکی و بھارتی منصوبے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افراد کو پکارتی ہے کہ آپ ہی ہیں جو اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ معاملات کو اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکام کے مطابق صحیح کردیں۔ سانپ کے سر کو کچل دیں اور پاکستان کو امریکی و بھارتی وجود سے پاک کردیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ عملی طور پر یہ اسی وقت ہو سکے گا جب آپ پاکستان میں خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرہ فراہم کریں گے۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...

امریکی راج کا خاتمہ کرو، خلافت کو قائم کرو معزز خواتین کی گرفتاری خلافت کے قیام کو روک تو نہیں سکتی لیکن ان حکمرانوں پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غضب کو دعوت ضرور دیگی

ایک ایسے وقت پر جب امریکہ کی ریپبلکن جماعت کے قائدین ، صدر اوبامہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اسلام کے خلاف جنگ قرار دینے کا مطالبہ کررہی ہے، راحیل-نواز حکومت واشنگٹن کی چاکری میں نئی پستیوں میں گرگئی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت، جس کا مقصد افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کو ختم کرنا اور پاکستان میں خلافت کے قیام کو روکنا ہے، 11 فروری کوحکومت نے جگرانوی خاندان کے مردوں کے ساتھ ساتھ ان کی خواتین کے خلاف گرفتاری کی چارج شیٹ جاری کردی۔ پھر 13 فروری کو نماز جمعہ سے قبل حکومت کے غنڈوں نے مظلوموں کی بد دعائیں لیں جن کی دعائیں اللہ سبحانہ و تعالٰی لازمی قبول فرماتے ہیں جب وہ جگرانوی خاندان کے گھر کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے دیواریں پھلانگ کر گھر میں داخل ہوئے اور ان کی ایک رشتہ دارخاتون کو اس وقت گرفتار کیا جب خاندان کے دیگر افراد و خواتین ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست جمع کروارہے تھے۔ یہ ماں اپنے چھوٹے سے معصوم بچے کے ساتھ اب جابروں کی کال کوٹھری میں ہے اورظلم کی انتہا یہ ہے کہ یہ بچہ معذور بھی ہے۔ حزب التحریر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ انتہائی گھٹیہ قدم وزیر داخلہ کے دورہ امریکہ کے اعلان کے فوراً بعداٹھایا گیا ہے تا کہ دنیا کی صفِ اول کی صلیبی قوم کی خدمت میں نذرانہ پیش کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ حزب التحریر اس بات کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ جس وقت گلبرگ میں جگرانوی خاندان کے گھر کے تقدس کو پامال کیا جارہا تھا ، گلبرگ میں ہی موجود امریکی پرائیوٹ تنظیم ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے اڈوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔


اے پاکستان کے مسلمانو! اے امت مسلمہ کے بھائیو، بہنو، بیٹو اور بیٹیو! جگرانوی خاندان ایک معزز مسلم خاندان ہے۔ نسل در نسل یہ خاندان حکمت کے پیشے سے وابستہ ہے اور بیماروں اور غریبوں کوعلاج کی فکر سے نجات دلاتا آرہا ہے۔ ان کے بڑے گھر میں کئی خاندان رہتے ہیں جو اسلام پر سختی سے عمل اور خواتین کی عزت و عفت کی حفاظت کرتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے کسی بھی خاندان میں مردوں کا اسلام کے لئے جدوجہد کرنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اسی طرح اس خاندان میں بھی کچھ حزب التحریر کے اراکین ہیں جو افواج سے خلافت کے قیام کے لئے نصرۃاور غیر ملکی قابضین کے خلاف حرکت میں آنے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ کچھ افراد دیگر دینی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں ۔
لیکن حکومت کی نگاہ میں اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے عائد کیے گئے فرائض کی ادائیگی جرم ہے۔ تواتر سے حزب التحریر کے اراکین کو گرفتار کیا جاتا ہے یہاں تک کے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور ان میں جگرانوی خاندان کا متقی بیٹا سعد جگرانوی بھی شامل ہے جو پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے چیرمین ہیں۔ ماضی میں بھی کئی بار حکومت کے غنڈے ان کےگھر کے باہر گھومتے پھرتے اور داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن گھر کے لوگوں نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنایا جن میں ان کی بہادر اور صابر خواتین اور معزز ہمسائے بھی شامل ہیں۔ لہٰذا انتقام کے طور پر حکومت نے مسلم خاندان کی روایات کو پامال کیا اور خواتین کی توہین کی اور ایمان والوں کی بد دعائیں لیں۔


اے پاکستان کے مسلمانو! اے محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان اور غازی علم الدین کی قوم! حکومت نے امریکہ کی اطاعت میں اس چیز سے اپنی نگاہ پھیر لی ہے جسے ہم اللہ کی اطاعت اور رضامندی کے حصول کے لئے انتہائی اہم تصور کرتے ہیں۔ اب وہ اچھے مسلمان خاندانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے تا کہ وہ اسلام کے نفاذکی جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں۔ یہ حکومت برطانوی راج کی پیروی کررہی ہے جس نے مسلمانوں کو اپنے سامنے جھکانے کے لئے بھر پور طاقت کا استعمال کیا لیکن مسلمانوں نے اپنے ایمان کی طاقت سے اسے اس خطے سے نکال باہر کیا۔ یہ حکومت امریکی راج کی پیروی کرتی ہے جبکہ جانتی ہے کہ امریکہ اسلام سے نفرت کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ

"اے ایمان والو! ایمان والوں کے سوا کسی اور کو اپنا دوست مت بناؤ، دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے، وہ چاہتے ہیں کہ تم مشکلات میں مبتلا ہو۔ نفرت ان کے چہروں سے واضح ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی زیادہ شدید ہے۔ ہم نے عقل والوں کے لئے اپنی آیات بیان کردیں"(آل عمران:118)۔

حکومت کفار کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کررہی ہے جبکہ وہ کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے جب تک مسلمان اسلام سے دستبردار نہ ہو جائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ

"یہود و نصاریٰ آپ سے کبھی راضی نہ ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی نہ کریں" (البقرۃ:120)۔


اے افواج پاکستان کے مخلص افسران!
ہم آپ کو اسلام کے حوالے سے آپ کی ذمہ داری کی یاد دہانی کروانا چاہتےہیں۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے لئے حرکت میں آنا ہے۔ یہ ذمہ داری وہ ہے جس کے تحت مسلم خواتین کی عزت و عصمت کا تحفظ کیا جاتا ہے اور ایمان والوں کی دعائیں لی جاتی ہیں۔حزب التحریر آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ خلافت کے قیام اور اس امریکی غلام حکومت کے خاتمے کے لئے نصرۃ فراہم کریں تا کہ آپ کو امریکہ و بھارت جیسے کھلے دشمنوں کے خلاف حرکت میں لایا جائے اور آپ اللہ کی خوشنودی کے لئے جہاد کریں اور شہید یا غازی کا رتبہ حاصل کریں۔

 

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...

حزب التحریر فلسطین نے ڈاکٹر مصعب ابو عرقوب کی گرفتاری پراپنا پہلا احتجاج کیا

حزب التحریر نے ارضِ مقدس فلسطین میں جنوب مغربی ہیبرون ( الخلیل) میں دورا کی عدالت کے سامنے اہم احتجاجی مظاہر ہ کیا۔ یہ احتجاجی مظاہرہ حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن ڈاکٹر مصعب ابو عرقوب کی گرفتاری کے خلاف کیا گیا۔ ڈاکٹر مصعب کو جمعہ کے دن 7 فروری 2015فلسطینی اتھارٹی کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے گرفتار کیا تھا۔
انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ان کی گرفتاری کے دوران اور اس کے بعد بھی دھوکہ دہی ، جھوٹ اور اتھارٹی کے قوانین کی مخالفت جیسے حربے استعمال کئےاورڈاکٹر ابوعرقوب کو ان کے گھر سےکسی عدالتی وارنٹ کے بغیراس بہانے گرفتار کرکے لے گئیں کہ ڈائریکٹر انٹیلی جنس سے صرف آدھا گھنٹہ کی ملاقات کرکے انہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔ اس کے بعد ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں غلط معلومات فراہم کیں اور بجائے اس کے کہ ان کو آج اتوار کے دن فلسطین اتھارٹی لاء کے مطابق علی الصبح عدالت میں پیش کرتے ،ان کو بغیر کسی ٹرائل کے اریحا جیل منتقل کردیا جس سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی سیکورٹی ادارے اہل ِفلسطین کے خلاف غنڈہ گردی کے مرتکب ہورہے ہیں اور ان پر ڈرانے دھمکانے اور دہشت گردی کاقانون نافذکررہے ہیں کیونکہ یہی ان کے آقاؤں امریکیوں اور یہودی قابض قوت کی خواہش ہے۔
حزب التحریر زباں بندی کے اس پالیسی کو مسترد کرتی ہے جس کو اتھارٹی آزماتی رہتی ہےاور بشمول حزب التحریر کے شباب کےتمام اہل فلسطین کی سیاسی گرفتاریوں کی مذمت کرتی ہےاور اتھارٹی کی بداعمالیوں کے انکار میں اپنا سیاسی حق استعمال کرے گی جو مسجد اقصیٰ اور فلسطینیوں پر جارحیت کے بالمقابل اختیار کی جاتی ہیں جبکہ اس کے سیکورٹی ادارے اہلِ فلسطین کو خوفزدہ کرتے ہیں ۔

 

مقدس فلسطین میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

 

Read more...

جمہوریت ایک انتہائی مہلک بیماری ہے اس کا علاج کئے بغیر"مذاکرات" اور "منصفانہ انتخابات " کے ذریعے ملک کا کوئی روشن مستقبل ممکن نہیں

حزب التحریر ولایہ بنگلا دیش نے ڈھاکہ شہر میں نمازِ جمعہ کے بعد مرکزی مساجد کے باہر عوامی بیانات منعقد کیے۔ یہ بیانات سیاسی افراتفری کے متعلق دیے گئے جس نے بنگلا دیش کو موت کی ایک خوفناک وادی میں تبدیل کردیا ہےاور جس کا سبب عوامی پارٹی اور بنگلا دیش نیشنل پارٹی کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی اور ان کی تباہ کن پالیساں ہیں ۔ مقررین نے کہا کہ سیاسی میدان ہو یا میڈیا پر مباحث کے پروگرام، سیمینارز ہوں یا گول میز کانفرنسیں ہر جگہ "مذاکرات" اور "منصفانہ انتخابات" کی اصطلاح عام ہےکہ اس طریقے سےسیاسی افراتفری کو حل کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت ان جیسی تمام تجاویزاس مسئلے کی ظاہری علامات کاعلاج ہے جبکہ اس مسئلے کی جڑ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔سچ یہ ہے کہ بنگلادیش جمہوریت کے طاعون میں مبتلا ہے، اور یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اگر اس مرض کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تو "مذاکرات" اور "منصفانہ انتخابات" کے ذریعے کسی روشن مستقبل کی امید نہیں کی جاسکتی ۔


جمہوریت نے کبھی بھی اچھے حکمران اور امن نہیں دیا ہے کیونکہ یہ نظام اللہ تعالیٰ کی شریعت کے بجائے مٹھی بھرمنتخب سیاسی اشرافیہ کو مطلق قانونی بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ اسی لئے باہمی مقابلے میں جمہوری سیاسی پارٹیوں کا ہدف اقتدار کا حصول اور اس کی حفاظت ہوتاہے ،خواہ کسی بھی قیمت پر ہی کیوں نہ ہوجبکہ عام لوگ اس سیاسی فریب کاری وعیاری کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں۔


یہ صورتحال اسلامی خلافت کے بالکل برعکس ہے جہاں حکمرانی کی بنیاد قرآن و سنت ہوتی ہے اور جہاں ذاتی مفاد کے حصول کے لئے سیاست کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔ خلیفہ ،سیاسی پارٹیاں ، اور سیاستدان اکٹھے کام کرتے ہیں ،آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئےاپنی تمام تر جد وجہد کو بروئے کار لاتے ہیں، نہ کہ ان کی زندگیوں کو اجیرن بنانے کے لئے۔

مقررین نے لوگوں کو عوت دی کہ وہ مادی طاقت کی حامل فوج کے مخلص افسران سے یہ مطالبہ کرنے کے لئے اپنی آواز بلند کریں کہ وہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃکے قیام کے لئےحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں۔ مقررنین نے عوام کو حزب التحریر کے ساتھ تعاون کرنے اور اس کے ساتھ مل کر مخلص فوجی افسران سے رابطہ کریں کہ وہ جابر حسینہ اور موجودہ حکومتی نظام اور ہٹانے اور خلافت کے قیام کے لئے ان کی تنظیم کریں۔


ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریرکامیڈیا آفس
https://www.facebook.com/PeoplesDemandBD2

Read more...

اہل شام کی ثابت قدمی صلیبی مغرب ،اس کے حمایتیوں اور آلہ کاروں  کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے

کسی بھی حقیقی تبدیلی ،ایجنٹ حکمرانوں اور ان کی حکومتوں کو جڑ سے اکھاڑنے  ،استعماری کافر،اس  کی کمپنیوں،سفارتخانوں اور عالم اسلام میں اس کے جاسوسوں کے ہاتھ کاٹنے  کی  تحریک سے برسر پیکار مغربی ممالک  بھر پور مال خرچ کر رہے ہیں۔۔۔ یہ ممالک اس  غلط فہمی میں مال خرچ کر رہے ہیں کہ یہ  نبوت کے طرز پر اس خلافت راشدہ  کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کےاحیاء کو روک لیں گے  یعنی جس خلا فت کی بشارت  اللہ کے بندے اور رسول محمد ﷺ نے دی ہے ۔۔۔ اب مغر ب  بے تحاشہ مال خرچ کر رہا ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی ،خواہ یہ بشار  حکومت کو نوٹوں  کی شکل میں یا  غذائی مواد اور ایندھن کی صورت میں یا پھر لبنان میں ایرانی تنظیم کو  اسلحہ فراہم کر کے تا کہ  وہ اہل شام کے خون بہانے کا سلسلہ جاری رکھے۔۔۔ جوں جوں یہ خباثت پر مبنی خرچہ بڑھ رہا ہے  شام کے مخلص لوگ بھی  اپنے کم وسائل کے ساتھ نظام کی تبدیلی کو روکنے کی  امریکہ اور اس کے کارندوں کے منصوبوں کے سامنے  چٹان  بنے ہوئے ہیں  ۔ وہ امریکہ  کی جانب سے خطے کو  خون میں نہلانے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت  شام،عراق،لیبیا،یمن اور مصر میں  قتل و غارت  اور خون کی ہولی کھیلنے کی سازشوں کے سامنے  سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں ! مغربی ممالک  جو کچھ خرچ کر رہے ہیں یہ ان کے لیے حسرت کا باعث ہوگا ،

﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ

"بے شک  کافر  اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے  اپنا مال خرچ کرتے ہیں  ،وہ خرچ تو کر لیں گے مگر  یہ ان کے لیے وبال ہو گا اور پھر وہ مغلوب کیے جائیں گے  اور کافروں کو جہنم میں ہانک دیا جائے گا"(انفال:36) ۔

روس اور ایران نے  شام کے دیہاتوں اور شہروں میں  اپنے  ماہرین کی موجودگی کا اعتراف کر چکے ہیں جو وسیع پیمانے کے  تباہ کن منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔  عراق میں ماہرین کی تحقیقات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ عراقی فوج   دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر  بھر پور عسکری قوت سے  پورے پورے دیہات اور بستیوں کو   صفحہ ہستی سے مٹارہی ہے ،جس کا اس کے سوا  کوئی عسکری اور اخلاقی جواز نہیں  کہ یہ امریکی حکم پر کیا جارہا ہے ،جس کو المالکی نے بھی  نافذ کیا اور  اس کا جانشین العبادی  اور اس کے شریک کار بھی یہی کر رہے ہیں۔ امریکہ  ہر اس چیز کو تباہ کر نا چاہتا ہے  جو اس کے خیال میں  عنقریب  اللہ کے اذن سے قائم ہو نے والی خلافت  کے  قیام،اس کی  بقا،اس کی ثابت قدمی اور ترقی میں   معاون ہو سکتی ہے۔ امریکہ یہ اس وجہ سے کر رہا ہے کہ ان کا بدبودار  سرمایہ دارانہ آئیڈیلوجی   کا پیمانہ  صرف  مادیت ہے ، اس لیے وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ اسلامی ریاست  بھی اسی چیز پر قائم ہو تی ہے جس پر  ان کی ریاستیں قائم ہیں۔  لیکن ان کے اندازے غلط ثابت ہوں گے،وہ نامراد ہوں گے اور ان کی امیدیں خاک میں مل جائیں گی۔ اسلام صرف اہل اسلام  کی جانفشانی اور اس کے  مخلص اور بیدار جوانوں کے عزائم کے بل بوتے پر قائم ہو تا ہے۔  رسول اللہ ﷺ  نے مدینہ منورہ  کی  ریاست قائم کرنے میں کسی موجودہ  انفراسٹریکچر یا  سپر اسٹریکچر  پر اعتماد نہیں کیا بلکہ    زبردست فکر کے علمبردار ایسے   جوان مردوں  پر اعتماد کیا  جن سے ریاست قائم ہو تی ہے اور وہی  اس کی صنعتی اور جنگی ڈھانچے کو  بام عروج پر پہنچاتے ہیں۔

اس لیے ہم امت کے حقیقی اور مخلص  انقلابیوں سے کہتے ہیں کہ ،

فکر ہی اسلحے  کا اساسی محرک ہے  وہی اسلحے کا لیے درست سمت کا تعین کرتی ہے ۔  اسی طرح ہم نے روم کو شکست دی  اور اسی طرح ہم نے فارس کی مجوسی سلطنت کو روند ڈالا۔  ہم نے ایسی منفرد  اسلامی ریاست قائم کی  جو تیرہ صدیوں تک  قائم رہی ۔  ہم اسلام کی زبردست ترقی یافتہ فکر  کے ذریعے ہی  مشرق اور مغرب کو  شکست کا مزہ چکا دیں گے۔  اسلحہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو  ان لوگوں کے ہاتھ میں ایک شر ہے جن کی کوئی فکر نہیں ۔  یہ درست فکر کے حاملین کے ہاتھ میں ہی اچھا لگتا ہے ،وہی  اس کے ذریعے اللہ کے اذن سے فتوحات حاصل کریں گے، اس اسلحے کے ساتھ ساتھ  مسلمانوں کے دل اپنے رب کے سامنے گڑ گڑا رہے ہوں گے اور ان کے باوضو ہاتھ اللہ کی مدد کی طلب میں  اٹھے ہوئے ہوں گے۔

حالیہ دنوں میں       جوبر ، الزبدانی اور شام کے دوسرے علاقوں  میں مخلص انقلابیوں  کی  کاری ضرب نے   حکومت اور اس کے کارندوں  کی جڑیں کھوکھلی کر دی  جس سے جن و انس میں سے سارے شیاطین  دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک ہوگئے( یورپی یونین کے وفد نے 1/2/2015 کو بغداد میں الجعفری سے ملاقات کی ) اور انہوں نے قتل و غارت اور  تباہی میں  شام اور عراق کے مجرموں  کے ہاتھ بٹانے کی یقین دہانی کی؛ اس لیے  دمشق کے سرکش کی جانب سے اپنے درندوں اور حقیقی دہشت گردوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے  الزبدانی  میں مائع بموں کی بارش پر کوئی حیرانگی نہیں ،جبکہ  ثابت قدمی کی علامت  جو بر پر کیمیاوئی ہتھیاروں سے حملے جاری ہیں۔

اے صداقت کے پیکر اور  اسلام کی عزت کے محاذوں  کے شہسوارو! تم نے اپنے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے ،تم نے اسلام کے دشمنوں کو حواس باختہ کر دیا ہے، تم نے سیکولر جمہوری ریاست کی ان کے سازشوں کو چکناچور کر دیا ہے ،  ہوشیار تمہارا دشمن تمہارے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کا میاب نہ  ہو ۔  قومی فوج بنانے کی امریکی اتحایوں کی دعوت تمہیں دھوکہ نہ دے  ایسی فوج  ان کے منصوبوں کو انجام دینے  اور تمہاری محنت پر پانی پھیرنے کا آلہ ہو گا  اور تم شام کو عمر بن عبد العزیز والا  شام بنانے میں کامیاب نہ ہو سکو گے،جب پرندوں کے لیے بھی پہاڑوں پر اناج ڈالا جاتا تھا۔  امانت کو ضائع مت کرو ورنہ  تم بھی اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے  جو کہ انشاء اللہ  تمہاری کامیابی کا ستون ہے۔  اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو   ،اسلام کے تمام دشمنوں کے ناکوں کو خاک آلود کر کے خلافت انشاء اللہ قائم ہونے والی ہے۔

﴿إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا وَنَرَاهُ قَرِيبًا

" ان کو وہ دور نظر آتا ہے اور ہم اس کو قریب دیکھتے ہیں "۔(المعراج:7-6)

 

حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس

Read more...

مرکزی میڈیا آفس ،حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک عالمی مہم بعنوان "خواتین اور شریعت،کیا حقیقت؟ کیا افسانہ؟"کا آغاز کررہا ہے جس کا اختتام ایک بین الاقوامی خواتین کانفرنس پر ہو گا

11فروری 2015، بروز بدھ،  کومرکزی میڈیا آفس حزب التحریر  کے شعبہ خواتین  نے وسیع پیمانے پر ایک عالمی مہم کا آغاز کیا ہے، جس کا عنوان"خواتین اور شریعت،کیا حقیقت ؟ کیا افسانہ؟" ہے۔ یہ مہم  ایک عظیم الشان بین الاقوامی خواتین کانفرنس پر منتج ہوگی جو  انشاء اللہ، 28  مارچ 2015 کو  منعقد کی جائے گی۔

یہ اپنی طرز کی ایک منفرد اور بے مثال کانفرنس ہو گی جو مشرق سے لے کر مغرب تک بیک وقت پانچ  ممالک میں اور مختلف برِ اعظموں میں الیکٹرانک ہال میں منعقد کی جائے گی۔نیز  اس میں شریک مقررین کی تقاریر کو دنیا بھر میں براہِ راست نشر کیا جائے گا۔

صدیوں تک،اسلامی شریعت پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ خواتین اور اسکے حقوق کی دشمن اور اس کی تذلیل،غلامی اور جبر کا سبب ہے۔بعد میں آنے والی نسلوں پر غلط معلومات اورافسانوں کی شدید دھند چھائی ہوئی ہے جس نے ان تصورات کوتقویت بخشی ہے اور  اس بارے میں خوف و شک کی فضا پیدا کی ہے  کہ مسلم دنیا میں خلافت کے تحت اسلامی حکومت کے قیام کی صورت میں خواتین کے ساتھ کیا ہوگا؟حالیہ کچھ برسوں سے آزادیِ نسواں  کی تحریکوں،سیکولر میڈیا اور اداروں نے اسلامی معاشرتی قوانین بشمول اسلامی لباس،وراثت کے قوانین اور ازدواجی حقوق و فرائض  پر تابڑ توڑ حملے کیے ہیں اور انہیں فرسودہ، ظالمانہ اور خواتین کے ساتھ امتیازی قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں،  خواتین سے متعلق اسلامی  احکامات کی 'اصلاح'  کے لیے ایک واضح مغربی سیکولر ایجنڈا موجود ہے جس پر مسلم دنیا میں سی ای ڈی اے ڈبلیوجیسے بین الاقوامی معاہدوں،این جی اوز  یا حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیموں  کی سرگرمیوں کے  ذریعے؛ نیز اس خطے کی حکومتوں کے ذریعے ؛قوانین کو مغربی بنانے کے لیے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔

یہ منفرد مہم اور کانفرنس  اسلامی شریعت کے تحت خواتین پر ہونے والے ظلم کی گھسی پٹی داستان کو چیلنج کرے گی اور  اسلام کی جانب سے خواتین  کے لئےمتعین کردہ اصل مقام،حقوق، کردار اور ان کی زندگیوں کا ایک واضح وژن پیش کرے گی؛جسے ریاستِ خلافت نافذ کرتی ہے۔یہ کانفرنس خواتین سے متعلق بعض اسلامی احکامات پر لگائے گئے الزامات کا نہ صرف جواب دے گی بلکہ اسلام کے منفرد معاشرتی نظام کی بنیاد، اقدار اور قوانین کی وضاحت کرے گی،نیز خواتین،بچوں، خاندانی زندگی اور بحیثیت مجموعی تمام معاشرے پر اس کے مثبت اثرات پر بھی روشنی ڈالے گی۔ یہ مغربی اور  'اسلامی' آزادیِ نسواں (فیمن اِزم) کے تصورات مثلاً صنفی مساوات اور لبرل آزادیوں کا بھی جائزہ لے گی، جنہیں اسلام میں خواتین کے ساتھ سلوک کی مذمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جبر سے خواتین کی نجات کے لیے درست راستے کی نشاندہی  بھی کی جائے گی۔ ہم اسلامی نصوص و تاریخ کے درست ترین حوالوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کی ریاست خلافت کے اداروں کی منظر کشی سے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی یکساں رہنمائی کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ شریعت کے زیرِ سایہ خواتین کی زندگیوں کی صحیح تصویر دیکھ سکیں اور یہ کہ معاشرے کے مختلف شعبوں میں شریعت کا نفاذ کس طرح ان لاتعداد مسائل کو حل کرتا ہے جن کا سامنا آج خواتین کو کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ مہم اور کانفرنس مسلم خواتین میں خلافت کے قیام کے لیے بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت اور سیاسی سرگرمیوں کو اجاگر کرےگی؛جو مسلم دنیا کی خواتین کے لیے واحد درست طریقہ ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو خواتین کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لئے مخلصانہ طور پر تشویش رکھتے ہیں ہے ؛ جوحقیقی طور پر اسلامی شریعت کے تحت خواتین کی حیثیت کے بارے میں سچائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ان کے لئے ایک مثبت، محفوظ اور باوقار مستقبل تخلیق کرنا چاہتے ہیں، ہم انہیں مندرجہ ذیل لنکس کے ذریعے اس اہم مہم کی حمایت اور اس سے آگاہی کی دعوت دیتے ہیں: www.facebook.com/womenandshariahA

آپ کیا مہم کے مواد کی رکنیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو، برائے مہربانی رابطہ کریں  This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.%20">This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مہم یا کانفرنس کے حوالے سے سوالات یا انٹرویو کے لئے، برائے مہربانی رابطہ کریں This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.">

This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

کانفرنس کی ترویجی  وڈیو کے لیے لنک کریں  http://youtu.be/tXuusEw7Pwg

 

ڈاکٹر نظرین نواز

مرکزی میڈیا آفس حزب التحرير

شعبہ خواتین

Read more...

روس میں رسُول اللہ ﷺ کی نُصرت کے لئے ایک اور سرگرمی

23 جنوری 2015 کو روس کے مسلمان محج قلعہ کی مرکزی مسجد میں اکٹھے ہوئے اور فرانسیسی جریدے میں رسول اللہﷺ اور امت مسلمہ کے بارے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی۔  انگوشیا اور چیچنیا میں ہوئے مظاہروں کے بعد داغستان میں  یہ تیسری سرگرمی تھی۔

شمالی قفقازکی ریاستوںمیں ہونے والی سرگرمیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ روس میں بسنے والے مسلمان اپنے دین اور عقیدے سے انتہائی مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ اس حقیقت کی ایک بڑی مثال چیچنیا میں  انسانوں کا  ٹھاٹیں مارتا سیلاب تھا ، جہاں  سرکاری اتھارٹیوں نے اس ریلی کے دن  چھٹی کا اعلان کرکے  اس میں مسلمانوں کی شرکت کے لئے تمام تر انتظامات کئے بلکہ اتھارٹیز نے لوگوں کو دعوت دی کہ جس کے لئے ممکن ہو  اس میں شرکت کر ے۔   اخباری رپورٹوں کے مطابق  گروزنی میں شرکاء کی تعداد دس لاکھ تھی اور ان میں وہ  مسلمانوں بھی شامل تھے جو روس کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔ یہ امر مسلمانوں کے اندر اسلامی جذبات کی مضبوطی اور پختگی  کا ثبوت ہے۔   اگر اس قسم کی اجتماعات پر دوسرے مواقع پر پابندی نہ لگائی گئی ہوتی  تو ہم دیکھتے کس طرح مسلمان ایک دوسرے کی مدد و حمایت میں اس وقت بھی باہر نکلتے جب اسکولوں میں حجاب پر پابندی لگائی گئی ، اور اسلامی ثقافت پر مبنی کتابوں کو ممنوعہ قراردیا گیا ، اور وہ دعوت کے حاملین پر جھوٹے الزامات تھوپنے  کی اسلام دشمن روسی پالیسیوں  کے خلاف  مشتعل ہوجاتے۔

مگر اس دفعہ حالات مختلف تھے کیونکہ  اسلام دشمن جذبات  مغربی ریاستوں سے پھوٹ پڑے تھےاور ہم جانتے ہیں کہ تازہ ترین حالات میں مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات  کشیدہ  ہیں، چنانچہ روس نے اس صورتحال کا فائدہ اُٹھایا۔ سب سے پہلے تواس نے یہ ظاہر کرنا چاہا کہ  گویا مغرب کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کا دفاع کرنے والا وہی ہے۔  اس کے  علاوہ یہ بھی کہ  اس باہمی عمل کا ملکی صورتحال کی بہتری پر مثبت اثرات مرتب ہوں گےجہاں مسلمان مختلف اتھارٹیوں کی جانب سے تسلسل  کے ساتھ دباؤ کا سامنا کرنے سے تنگ آچکے ہیں۔  ریلی میں موجود مقررین میں سے سرکاری ذمہ داروں نے  گستاخانہ خاکوں  سے  اپنی نفرت  کے اظہار کے ساتھ ساتھ  روس کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کی بھی کوشش کی بلکہ اس سے بڑھ کر روس کو وہ مقام دیا جو اس کے لائق نہیں تھا۔ انہوں نے  مسلسل  اس بات پر زور دیا کہ "روس نے مسلمانوں کے حق میں مثالی حالات پیدا کئے ہیں"۔  مگر دوسرے جانب سے روس کے اندر بسنے والے 20 ملین مسلمانوں کی تذلیل پر  خاموشی اختیار کرنے پر وہاں کی اتھارٹیز کو یہ  خوف دامن گیر ہے کہ کہیں موجودہ سیاسی حالات میں  کہیں اچانک ناپسندیدہ مظاہروں کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔   چنانچہ چیچنیاکے صدر رمضان قدیروف نے واضح کہا کہ "مسلمانوں کے لئے یہ بالکل ممکن نہیں کہ انہیں روس میں حالات کو خراب کرنے کے لئے استعمال کیا جائے، یقیناً ہم نےہمیشہ سے روس کاقابل ِاعتماد دفاع کیا ہے اور آج بھی ہم اپنے ملک پر کسی بھی جارحیت کا بھر پور جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں"۔  یقیناً روسی اتھارٹیز اپنی مرضی کے خلاف کسی بھی قسم کے احتجاج کو ناپسند کرتی ہیں کیونکہ   یہ ممکن ہے کہ اگر مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا تواس سے عوام میں موجود شدید عدم اطمینان ظاہر ہوجائے گا اور ملک کا استحکام متاثر ہوگا۔ اس لئے اتھارٹیز کی جانب سے اس اجتماع کا انتظام ایک ضروری اقدام تھا  جو مغرب کے ساتھ کشیدہ صورتحال  اور خراب سیاسی ماحول کا تقاضا تھا۔

اس سے قبل روس میں"دینی اتھارٹیز" کی شخصیات "روس میں ماڈرن  اسلام " کی طرف دعوت دینے پر مجبور تھیں ۔ آج انہیں کہنا پڑ ا کہ رسول کریم ﷺ کی بے حرمتی دنیا  کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی بے حرمتی  ہے۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ "دینی شخصیات " اچھی طرح جانتی ہیں کہ اسلام سب کا ایک ہے، یہ وطنیت اور قومیتوں کا تابع نہیں ۔  مگر عام حالات میں اس قسم کی باتیں کہنے  کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اب کئی سیاسی اور عوامی شخصیات  نے بھی حقائق کواصل نام دینے شروع کیا ، جیسے انگوشیامیں منعقد کی گئی  ریلی کے اختتامی بیان میں مغربی حکومتوں کو "تخریب کار" کا لقب دیا گیااور یہ کہ یہ حکومتیں"مذاہب کے درمیان تعلقات کشیدہ بنانے " میں مصروف ہیں۔    جمہوریہ انگوشیا کے صدر یونس بک اوکوروف نے کہاکہ "مسلمانوں کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ قابلِ احترام ہستی حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ کارٹونز کی اشاعت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ اس انتہا پسندی کا مظہر ہے جسے کچھ یورپی ریاستیں استعمال کرتی ہیں "۔  بہت سے لوگوں نے شروع میں اس واقعہ کی سرکاری  خبر پر سوالات اٹھائے اور ا س کو اشتعال اور کسی اور مقصد کے لئے راستہ ہموار کرنے کا کام قرار دیا۔  یوں موجودہ سیاسی صورتحال نے لوگوں کو  مغربی اقدار کے بارے میں کھل کر بات کرنے اور اسلام مخالف مغربی پالیسی کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرنے پر اُبھارا کیونکہ انہیں اپنی بات میں کریملن کے روایتی موقف کی مخالفت کا خوف نہیں تھا۔

جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تو نبی کریم ﷺ کی ناموس کے دفاع کے لئے حرکت میں آئے۔   ذمہ داروں نے  اسلام کو وطنیت اور قومیت کے ساتھ خلط ملط کرنے کی  کتنی ہی کوشش کی مگر یہ  واضح تھا کہ عوام کا ہدف ایک تھا یعنی: رسول اللہﷺ کے ساتھ محبت وعقیدت کا اظہار اور آپ ﷺ کی   حرمت کی حفاظت ۔   یہ بات ان ریلیوں کے اندر مسلمانوں کی کثیر تعداد میں شرکت ،  اپنی وحدت کے بارے میں گفتگوکرنے ،  اپنے دین کے حوالے سے غیرت کے اظہاراوراشرف المخلوقات حضرت محمد ﷺ کی عزت وناموس کے دفاع  کے عزم سے باآسانی معلوم ہوتی ہے ۔  ان ریلیوں کے دوران انہوں نے رسول ﷺ کے ساتھ اپنی محبت اور ان  کے ساتھ گہری عقیدت  اور اپنے دین کے ساتھ گہرے جذبات کا اظہار کیا۔   دفاعِ اسلام کی یہ استعداد ان کے اندر اتفاقاً نہیں آئی بلکہ  اس کی بنیاد ہمیشہ سے اسلامی عقیدہ رہا ہے جس پر ہر مسلمان ایک اعلی ٰ اقدار کی حیثیت سے ایمان رکھتا ہے۔ بے شک امت کا مفاد اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کسی بھی توہین وتحقیر کا واقعہ بغیر تنقید  کےاور اس کے بارے میں فکر مندی کے بغیر نہ چھوڑا جائے ۔ ہم شایدتب ہی ان لوگوں میں سے ہوجائیں گے جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «خِيَارُ أُمَّتِي أَوَّلُهَا وَآخِرُهَا، وَبَيْنَ ذَلِكَ ثَبَجٌ أَعْوَجُ لَيْسُوا مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُمْ». "میری  امت کے بہترین لوگ اس کے پہلے اور آخری زمانے کے لوگ ہیں، اس کے درمیان بے ڈول  اور ٹیڑھے لوگ ہیں ،ان کا اور میرا کوئی تعلق نہیں"۔

روسی  اتھارٹیز  کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات وافکار میں وحدت کو بھانپ لیں اور انہیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مسلمان ہر گز اپنے عقیدے سے الگ نہیں ہوسکتے۔   اور اگر روس حقیقی طور پر ملک کے اندر مذاہب کے درمیان  امن وسلامتی،  اطمینان اور سکون کا متمنی ہے تو اس کے لئے اسے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنی رائے اور موقف بدلنا پڑے گااور انہیں پر امن طریقے سے شعائر اسلام پر عمل کرنے کا حق دینا ہوگا۔

 

روس میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک