الخميس، 24 صَفر 1446| 2024/08/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حزب التحریر کو پاکستانی سفارت کار کے کرنسی فراڈ میں ملوث کرنے والی نام نہاد انٹیلی جنس رپورٹ جھوٹی، خودساختہ اور سیاسی مقاصد کی حامل ہے

03 فروری 2015 کو کچھ میڈیا اداروں نے ایک خبر حکومتی ایجنسی کی رپورٹ کی بنیاد پر جاری کی جس میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی سفارت کار، محمد مظہر خان ، کرنسی فراڈ کے منصوبے سے حاصل ہونی والی دولت کو مختلف تنظیموں میں تقسیم کرتا ہے جس میں حزب التحریر بھی شامل ہے۔ ہمارا اس بے بنیاد اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بنائی گئی انٹیلی جنس رپورٹ کے متعلق ردِعمل درج ذیل ہے اور ہم میڈیا کے اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ صحافتی اصولوں اور لوگوں تک سچ پہنچانے کے لئے ہمارے موقف کو شائع اور نشر کریں:

1۔ حزب التحریر کی بیان کردہ پالیسی، جو مشہور ومعروف ہے، یہ ہے کہ حزب کسی بھی سفارت خانے یا سفارت کار یا اس کے کسی نمائندے سے تعلقات قائم نہیں کرتی چہ جائیکہ یہ کہ وہ اُن سے پیسے یا مالی وسائل وصول کرے۔ حزب اپنے مالی اخراجات کے لئے صرف اپنے اراکین اور حمایت کرنے والوں کی جانب سے وصول ہونے والی مادی معاونت پر ہی بھروسہ کرتی ہے جسے وہ بخوشی حزب کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے دیتے ہیں کیونکہ وہ خلافت کے قیام کے اسلامی فریضے سے منسلک ہیں اور اپنی زندگیاں اس کے لئے وقف کرچکے ہیں۔

2۔ یہ بات بھی مشہورو معروف ہے کہ حزب التحریر پاکستانی حکومت کے خلاف ایک سخت سیاسی جدوجہد کررہی ہے۔ حزب پاکستانی حکومت کی امریکہ سے وفاداری، مسلمانوں سے غداری اور لوگوں کے امور کی دیکھ بحال میں ناکامی کو عوام کے سامنے بے نقاب کررہی ہے۔ حزب کی اس سیاسی جدوجہد کے جواب میں پاکستانی حکومت اس کے اراکین اور کارکنان کے خلاف ظلم و ستم کے پہاڑ توڑر ہی ہے ،انہیں گرفتار اور اغوا کرتی ہے یہاں تک کہ پاکستان میں اس کے ترجمان ، نوید بٹ کو اغوا ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور انہیں آج تک رہا نہیں کیا گیا۔ لہٰذا کسی بھی ایسے دعوے، کہ حزب پاکستانی حکومت کے سفارتی اہلکاروں سے تعاون کرتی ہے، کے متعلق بس یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک انتہائی بے ہودا الزام ہے۔

3۔ اس نام نہاد انٹیلی جنس رپورٹ کے متعلق جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے لائی گئی ہے جب حزب جابر حسینہ اور موجودہ حکومتی نظام کو فوراً ہٹانے اور خلافت کے قیام کے لئے عوام اور فوج میں موجود مخلص افسران کو منظم کرنے کے لئے ایک زبردست سیاسی مہم چلا رہی ہے۔ لہٰذا اس رپورٹ کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس مہم کو کامیابی کے حصول سے روکنے کے لئے حزب کو بدنام کیا جائے۔

لیکن حکومت اور اس کے چیلے یہ جان لیں کہ حزب التحریر اور اس کے اراکین عوام اور معاشرے کے مختلف حلقوں میں بہت اچھی طرح سے جڑے ہوئے ہیں۔ عوام اور مخلص فوجی افسران حزب کو اچھی طرح سے جانتے ہیں اور وہ حکومت کے جھوٹے پروپیگنڈے سے دھوکہ کھانے والے نہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی کے وعدے اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق خلافت انشاء اللہ جلد ہی قائم ہونے والی ہے چاہے حکومت جتنا بھی حزب کے خلاف جھوٹے الزامات اور ظلم و ستم کا بازار گرم کرلے۔

ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر میڈیا آفس

https://www.facebook.com/PeoplesDemandBD2

Read more...

حزب التحریر ولایہ ‫‏پاکستان‬ ‫‏شکارپور‬ بم دھماکے کی پُرزور مذمت کرتی ہے شکارپور بم دھماکے کو نیشنل (‫‏امریکی‬) ایکشن پلان کوآگے بڑھانے کے لئے استعمال کیا جائے گا

حزب التحریر ولایہ پاکستان ، صوبہ سندھ کے شہر شکارپور کی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کی پُرزور مذمت کرتی ہے اور جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت، بلند درجات اور ان کے لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا کرتی ہے۔

پشاور اسکول حملے کو گزرے تقریباً 44 روز ہی گزرے تھے کہ پاکستان کے مسلمانوں پر ایک اور قیامت گر پڑی۔ پشاور میں حملہ اسکول پر کیا گیا جہاں فرشتوں جیسی معصومیت رکھنے والے بچوں کا قتلِ عام ہوا تو اب شکارپور میں اللہ کے گھر میں حملہ کروایا گیا۔ انتہائی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ راحیل-نواز حکومت نے اب تک ان بم دھماکوں اور قاتلانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل کروانے والے ماسٹر مائنڈ امریکہ اور اس کے اتحادی بھارت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ ان حملوں کو جواز بنا کر ، نیشنل ایکشن پلان، جو کہ درحقیقت امریکی ایکشن پلان ہے، کے نام پر قبائلی علاقوں اور پورے ملک میں ان مجاہدین کو نشانہ بنانا شروع کردیا جو افغانستان سے امریکی قبضے اور اس کی قائم کی ہوئی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف جہاد کررہے ہیں یا ان لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو اس ملک پاکستان میں سیاسی وفکری جدوجہد کے ذریعے اسلام کےنفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک طرف راحیل-نواز حکومت کے میڈیا میں موجود چیلےعوام کو یہ باور کرارہے ہیں کہ ملک میں بدامنی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے جو افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف خفیہ جنگ کے لئے استعمال کررہا ہے لیکن جس امریکہ کی حمایت اور مدد کے بل بوتے پر بھارت پاکستان کے خلاف یہ خونی کاروائیاں کررہا ہے اس کے خلاف راحیل-نواز حکومت کوئی ایکشن نہیں لیتی۔

یہ محض اتفاق نہیں کہ پچھلے چند دنوں سے راحیل-نواز حکومت کے چیلوں نے میڈیا میں یہ واویلا کرنا شروع کر رکھا تھا کہ پشاور حملے کے بعد بننے والی فضاء میں کمی آتی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ہی شکارپور کی مسجد میں بم دھماکہ ہوجاتا ہے۔ اس حملے کا مقصد اس بات کے سوا کچھ نہیں کہ عوام کو نیشنل (امریکی) ایکشن پلان کی حمایت کرنے پر مجبور کیا جائے۔ پاکستان کے عوام اور فوج کے مخلص افسران کو جان لینا چاہیے کہ موبائل سموں کی رجسٹریشن، اسکول کے اساتذہ کو اسلحے کی فراہمی اور تربیت، اسکول کی چھتوں پر نشانچیوں کی تعیناتی اس مسئلے کا حل قطعاً نہیں ہیں بلکہ اس مسئلے کی جڑ پاکستان میں امریکہ اور بھارت جیسے دشمنوں کی موجودگی ہے۔ راحیل- نواز حکومت اگر چاہے تو یہ مسئلہ فوری حل ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے انہیں اپنے قبلہ واشنگٹن کو خیر باد کہنا ہوگا اور ملک سے امریکہ اور اس کی نئی دریافت شدہ محبت، بھارت، کی موجودگی کے ہر اُس نشان کو مٹادینا ہوگا جو اس قسم کے خوفناک درندگی سے بھر پور حملوں کے ماسٹر مائینڈ ہیں۔

راحیل-نواز حکومت جتنا امریکہ سے قریب ہوتی ہے پاکستان میں بد امنی اور قتل غارت گری اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان ، امت کو پکارتی ہے کہ وہ پاکستان کے دشمن امریکہ اور بھارت کے سفارت خانے بند ، ان کے سفارت کاروں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو ملک بدر اور ملک سے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کےخاتمے کے لئے حزب کی جدوجہدمیں شریک ہو جائیں۔ حزب افواج پاکستان کے مخلص افسران کو بھی پکارتی ہے کہ وہ حرکت میں آئیں اور سیاسی و فوجی قیادت کو غداروں سے پاک کردیں۔ اور ایسا صرف اسی وقت ہوگا جب خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں گے۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف مظاہرے کیے اے افواج پاکستان! گستاخیِ رسول کا جواب دو اور فرانسیسی سفیر نکال دو

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے فرانس کے رسالے چارلی ایبڈو کے جانب سے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی اور فرانسیسی حکومت کی جانب سے اس شیطانی عمل کی حمایت کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے۔مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ: "اے پاک فوج، گستاخیِ رسول کا جواب دو، فرانسیسی ایمبیسی بند اور سفیر نکال دو" ، "گستاخیِ رسول کا جواب، بذریعہ افواج منظم جہاد"۔

مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام عاشق رسولﷺ ہیں جبکہ حکمران ایسی شیطانی گستاخی کرنے والے کفار سے دوستیاں کرتے ہیں اور فخر سے گارڈ آف آنر اور تمغے وصول کرتے ہیں۔ اگر پہلے دن ہی پاکستان سمیت مسلمان ممالک فرانسیسی سفیروں کو مسلم دنیا سے نکال دیتے اور ان کے سفارت خانے بند کردیتے تو امت مسلمہ کو سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ مسلم حکمرانوں کا کمزور ردعمل فرانس اور دیگر مغربی طاقتوں کو اسلام ، رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل حملے کرنے کی ہمت فراہم کررہا ہے۔ مسلم حکمران اس حد تک گر چکے ہیں کہ وہ زبانی مذمت بھی نہیں کررہے بلکہ کفار سے توہین رسالت نہ کرنے کی التجا کررہے ہیں۔

مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کفار کو اسلام ، رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے خلاف سیاسی ، معاشی، تہذیبی، اور فوجی حملے کرنے کی ہمت صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی خلافت موجود نہیں ہے جو مسلم سرزمینوں، مسلم امہ اور ان کی افواج کو یکجا کرے اور کفار کے حملوں کا منہ توڑ جواب دے۔

مظاہرین نے افواج پاکستان کے مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکام کے مطابق فرانس اور ہر اس ملک کا سفارت خانہ بند اور اس کے سفیر کو ملک بدر کریں جو توہین رسالت کی حمایت کرتا ہے۔ مظاہرین نے افواج پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ نصرۃ فراہم کر کے خلافت کا قیام عمل میں لائیں تا کہ وہ ڈھال قائم ہوسکے جس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع ہوتا ہے اور دشمن کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیتا ہے۔

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس

تصویرکے لئے یہاں پر کلک کریں

Read more...

سوالات کے جوابات یمن کی پیش رفت - سعودیہ میں سلمان بن عبد العزیز کا حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا

سوال :

سعودیہ اور یمن میں  انتہائی اہم واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ حو ثیوں نے صنعا پر قبضہ کر لیا ہے  حکومت اور جمہوریہ کے سربراہ نے 22 جنوری 2015 کو استعفی ٰدے دیا ۔۔۔ساتھ ہی جمعہ کی صبح23 جنوری 2015 کو سعودی بادشاہ عبد اللہ کا بھی انتقال ہوا اور اس  کے نائب سلمان بن عبد العزیز  تخت نشین ہوئے۔  میرے سوال کے دو حصے ہیں:

اول: کیا یمن کے واقعات  بدستور  اسی نہج پر رونما ہو رہے ہیں جو حزب نےیکم  اکتوبر2014 کو  یمن   کے حوالے سے اپنے پمفلٹ میں کہا تھا؟اور متوقع حل کیا  ہے؟

دوم: کیا سلمان بن عبد العزیز کی جانب سے  عبد اللہ کے بعد زمام اقتدار  کا سنبھالنا  سعودیہ کی پالیسی کو تبدیل کرے گا یا معاملات اسی طرح ہی چلتے رہیں ہیں؟

معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے ایک سوال کی بجائے دو سوال پوچھ لیے، اللہ آپ کو بہترین اجر دے۔

 

جواب :

اول : یمن کے واقعات :

1۔  یمن کے واقعات کا جہاں تک تعلق ہے  تو ان پر غور کرنے والا  یہ دیکھ سکتا ہے کہ وہ ایسے ہی رونما ہو رہے ہیں جیسا کہ ہم نے اس سے قبل ہی یکم اکتوبر 2014 کو بتا یا تھا کہ امریکہ یمن میں  اپنے بدنام زمانہ غنڈہ گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے، یعنی  طاقت اور زبردستی سے ،حوثیین نے صنعاء  اور دوسری علاقوں پر قبضہ کر لیا  ہے اور وہ "عوامی انقلاب اور عوامی کمیٹی" کے نام پر  قتل و غارت اور گرفتاریاں کر رہے ہیں جبکہ انگریز  سیاسی مکاری سے یمن میں دو خطوط  پر کام کر رہا ہے : اول    ہادی  کی جانب سے  بحیثیت سربراہ جمہوریہ  سوچے سمجھے  منصوبے کے تحت  اپنے اختیارات کے استعمال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا ۔  جوں ہی حوثیوں نے  اس کو ہر طرف سے گھیر لیا  تو اس نے ان سے  معاہدوں کا وعدہ کیا  پھر ان کو عملہ جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کیا ۔۔۔اُس نے اِس کھیل کو اسی طرح جاری رکھا یہاں تک کہ  اس کی چالاکی کو حوثی سمجھ گئے اورایک بات پھر اسے ہر طرف سے  گھیر لیا  اور تمام معاہدوں  کو نافذ العمل  کرنے پر اصرار کیا  تو اس نے استعفی دے کر اُن کو حیران کر دیا ! اس لیے حوثی سنبھلتے سنبھلتے پھر ڈگمگا نے لگے۔۔

2۔ جہاں تک دوسری سطح کا تعلق ہے تو  وہ سابق صدر علی عبد اللہ صالح کے ذریعے تھا،جس  نے حوثیوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا،ان کے پاس گیا، ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا  حالانکہ  پہلے وہ اُن کا دشمن تھا۔اس نے ان کی  طاقت کے ذریعے اس قدر مدد کی کہ اب حوثیوں کے لیے اُس سے جدا ہو نامشکل ہو گیا۔اس دوسری سطح کا مقصد یہ تھا کہ اگر  صدر ہادی کے اقدامات حوثیوں کو تنگ کرنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوئے اور وہ  حکومت  حاصل کرنے کے قریب ہوگئے تو پھر علی عبد اللہ صالح  اور اس کی پارٹی  حوثیوں کے ساتھ اقتدار کی بندر بانٹ کر ے گی جس سے حکومت میں امریکہ کے ساتھ انگریز کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہو گا۔۔۔

3 ۔ یمن میں  یہ کچھ ہو رہا ہے۔  برطانیہ اب پہلے کی طرح  یمن پر اپنی بالادستی قائم کرنے  کے قابل نہیں رہا، ساتھ ہی وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں  کا عسکری طور پر بھی مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے اپنے ایجنٹ ہادی اور علی صالح کے ذریعے  سیاسی مکاری پر ہی بھروسہ کرتا ہے،جنہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا :

ہادی اپنا داؤ پیچ اور ٹال مٹول سے ایک عرصے تک  کام لیتا رہا  پھر استعفی ٰدے بیٹھا جس سے  ملک کے طول و عرض میں مظاہرے شروع ہوئے  اور حوثیین پھنس گئے،جبکہ وہ  صدارتی فیصلوں  کے ذریعے   بالادستی  حاصل کرنا چاہتے تھے  ،جس سے  بغاوت یا انقلاب کی چھاپ  لگے بغیر اُن کو  اقتدار مل جا تا ۔  اب اُن پر بغاوت کی چھاپ لگ گئی ہے اور صدارت کا منصب خالی ہونے کی وجہ سے وہ  مشکل  صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں  خاص کر ریاستی مرکز صنعاء میں ۔۔۔

جہاں تک علی صالح  کا تعلق ہے  اس کا حوثیین کے ساتھ گٹھ جوڑ  بھی ہر دیکھنے والے شخص کو نظر آرہا ہے۔ برطانوی ایجنٹوں اور اس کے ذرائع ابلاغ  نے علی صالح کی حوثیوں کے ساتھ سودےبازی کو  سامنے لانے میں حصہ لیا جس سے  حوثی عوام کے سامنے بے نقاب ہو گئے۔ عوام حوثیوں کے ساتھ ساز باز کرنے پر علی صالح کے خلاف بھی متحرک ہو ئے  اور یوں  وہ اور حوثی ایک ہی   پلڑے میں ہیں اور  حوثیوں کے لیے علی صالح سے الگ  ہونا مشکل ہے !انگریز کے میڈیا خصوصا الجزیرہ کو دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا ہے۔ اپنے پروگراموں میں وہ اس پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ  حوثی  کرپٹ لوگوں کے خلاف  جنگ کی بات کرتے ہیں  جبکہ خود سب سے بڑے کرپٹ علی صالح  کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں۔ اس کے بعد  ان کے پیرو کار   ایسی خبریں شائع کر تے رہتے ہیں کہ جن سے  علی صالح اور حوثیوں کے تعلقات  کا انکشاف ہو تا ہے۔۔۔چنانچہ الجزیرہ نے 21 جنوری 2015 کو  علی صالح اور حوثیوں کے ایک لیڈر عبد الواحد حوثی  ابو راس  کے درمیان آڈیو گفتگو  نشر کی  جس کے بارے میں کہا گیا   کہ کہیں سے ملی ہے !اس آڈیو  کی تاریخ گزشتہ اکتوبر کی ہے  جبکہ صنعاء  گزشتہ ستمبر میں ہی  حوثیوں کے قبضے میں آگیا تھا ۔ اس گفتگومیں علی صالح اور حوثیوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اپنے بعض پروگراموں میں الجزیرہ  نے یہ سوالات اٹھا ئے کہ حوثی  کہتے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف ہیں جب کہ انہوں نے کرپشن  کے بے تاج بادشاہ علی صالح  کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہوا ہے !

4 ۔ رہی یہ بات کہ حالات کیا رُخ اختیار کریں گے تو  کسی بھی  فریق کے لیے  یکطرفہ طور پر   معاملات کو سنبھالنا اور  یمن  پر بالادستی حاصل کرنا  آسان نہیں  بلکہ راجح یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ طریقے پر کوئی درمیانہ حل نکالا جائے گا، جس سے بحران ختم نہیں ہو گا بلکہ   متحارب فریقن کو سستانے کا موقع  ملے گا   یہاں تک کہ کوئی ایک فریق دوسرے کو پچھاڑ دے ۔۔۔اس بحران کو عدل اور احسان  کے ساتھ صرف خلافت ہی حل کرے گی  جس سے اسلام اور مسلمانوں کو عزت ملے گی  اور کفر اور کافر ذلیل ہوں گے  اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

5 ۔ یمن میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اختصار کے ساتھ ہم نے بتا دیا یہی وہ سیاسی رائے  ہے جس  کا اظہار ہم نے پہلے بھی یکم اکتوبر 2014  کے سوال کے جواب میں کیا تھا،تین مہینے پہلے ہم نے  جو کچھ کہا تھا  اسی میں  سے کچھ پیش کر رہا ہوں تا کہ  قاری کو ہماری رائے کی درستگی کا اندازہ ہو  :

بر طانیہ یہ جان چکا ہے  کہ امریکہ  یمن  کی حکومت    کو قابو کرنے کے لیے  طاقت کے استعمال میں سنجیدہ ہے،یہ بات بھی کہ حو ثیین  ایک موثر قوت ہیں جن کو امریکہ نے ایران کے ذریعے  اسلحہ اور کیل کانٹوں سے لیس کیا ہے۔۔۔ برطانیہ نے  یہ سمجھ کر  مزاحمت کے  لیے دو خطوط پر چلنا شروع کر دیا  : اول : ہادی بحیثیت صدر  حو ثیوں کو موثر  اقتدار حاصل کر نے سے روکنے کے لیے  اپنے عہدے  کا بھر پور استعمال کرے،دوم : صالح کو  حو ثیوں کا ایسا شریک کار بنانا کہ وہ  ہادی کی حکومت کا اپوزیشن لگے، اس کے بعض حمایتی   پہلے ہی حوثیوں میں شامل ہو گئے  تھے  جنہوں نے   عوامی نیشنل کانگریس "سابق یمنی صدر کی جماعت"  کا جھنڈا اٹھا یا ۔ جب برطانوی سفیر سے  سابق صدر علی عبد اللہ صالح  کے ساتھ رابطوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا : "میرے اور علی عبد اللہ صالح کے بلا واسطہ تعلقات نہیں  لیکن  عوامی نیشنل کانگریس کے ساتھ میرے تعلقات ہیں  جس میں اس کے قریبی  لوگ ہیں"  (27 نومبر 2014الشرق الاوسط)۔ اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ برطانیہ ہی نے  اپنے ایجنٹ علی صالح  کے کانوں میں یہ بات ڈال دی کہ وہ حوثیوں کے ساتھ  تعاون کرے،اسی لیے برطانیہ کے سفیر  نےعلی صالح  کی پارٹی سے رابطوں کا اعتراف کر لیا ۔ اس پارٹی کو چلاتا ہی علی صالح ہے وہی اس پارٹی کے سیاہ و سفید کا مالک ہے اس کا کوئی مقابل  یا مخالف اس پارٹی میں نہیں ۔۔۔برطانیہ کا یہ اقدام کہ علی صالح کو  حوثیین کے ساتھ کرنا اس لیے تھا کہ اگر  ہادی  بحیثیت صدر  امریکہ کے آلہ کاروں کو عملی حکمرانی تک پہنچنے سے باز رکھنے کے لیے  اپنے منصب کو استعمال کرنے میں ناکام رہا تو علی صالح  حو ثیوں کے ساتھ اقتدار میں حصہ دار ہو گا،  یوں یمن میں انگریز  کا اثرو نفوذ باقی رہے گا خاص طور پر  جب حوثیوں کو  اتنی عوامی مقبولیت حاصل نہیں کہ وہ یمن میں اکیلے حکومت کر سکیں ۔۔۔ختم شد

پھر ہم   نے جواب کا اختتام    اس طرح کیا تھا اور ہم نے یہ کہا تھا کہ :

اس کا یہ مطلب ہے کہ  یمن میں متوقع حل  امریکہ اور برطانیہ کے درمیان  سرمایہ داروں کے طریقے کے مطابق درمیان کا راستہ نکالا جائے گا  اور حکومت   میں طرفین شریک ہوں گے۔۔۔ ان کے ہاں درمیانی حل مستقل نہیں ہوتا  بلکہ صرف دو لڑنے والوں  کی لڑائی  کے دوران سانس لینے کی طرح ہو تی ہے  یہاں تک کہ امریکہ یا برطانیہ میں سے کوئی ایک  غالب آئے،یعنی یمن کے واقعات   منقلب ہو تے رہیں گے  کبھی پُرسکون اور کبھی بر انگیختہ ،یہ لڑنے والوں کی عسکری یا سیاسی  قوت  کے توازن  کے مطابق بدلتے رہیں گے۔

اس  بنا پر یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ یمن میں معاملات کے بگڑنے کا سلسلہ برقرار رہے گا  اس میں استحکام صرف دو صورتوں میں آئے گا : اول "امریکہ یا برطانیہ میں سے کوئی ایک   حالات کو  اپنے حق میں پلٹنے میں کا میاب ہو جائے،وہی یمن میں عملی بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا،لیکن یہ آسان نہیں جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں،دوم : اللہ اس امت کو خلافت سے نوازے  تو خلافت استعماری کافروں  کے اثرو رسوخ کو روندد ے گی  اوراسلامی علاقوں  سے ان  کی جڑوں کو اکھاڑ دے گی ،بندوں  کے خلاف ان کے شرارتوں کا قلعہ قمع کرے گی ،جس سے کافر ذلیل اور مسلمان اور اسلام عزت مند ہو جائیں گے اور اس دن مومنین اللہ کی مدد سے مسرور ہوں گے  ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾  "اس دن مومن خوش ہوں گے اللہ کی مدد سے  وہ جس کی مدد کر نا چاہے کر سکتا ہے وہی زبردست اور مہربان ہے" یہ بات اہل یمن جو کہ ایمان اور دانائی کی سرزمین ہے کے شایان شان ہے کہ وہ  خلافت کو قائم کریں  اور دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل کریں اور اللہ ہی نیکو کاروں کا کارساز ہے۔

ختم شد

یو ں معاملات اسی نہج پر ہی آگے بڑھ رہے ہیں  جیسا کہ ہم نے یکم اکتوبر 2014  کو اپنے تجزئیے میں  بیان کیا تھا۔

 

دوئم : سعودیہ کے واقعات:

رہی بات سعودیہ میں جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے تو اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ : کیا  نیا بادشاہ انہی  پرانی خطوط پر کاربند ہے جن پر عبد اللہ برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں  چلتا تھا  یا تبدیل کرے گا ؟ نئے شاہ سلمان کے لیے سیاسی صورت حال کیا ہے؟  جو کچھ ہوا اس کو سمجھنے کے لیے  مندرجہ ذیل امور کو  سمجھنا ضروری ہے :

1 ۔ سعودی شاہی خاندان میں  امریکی اور برطانوی  اثرو نفوذ موجود ہے۔ طرفین  کے پیرو کاروں کی قوت  کے مطابق ہی  سعودی حکومت  میں عملی  تاثیر  ہوتی ہے۔ اسی کے مطابق ہی سعودیہ کے برطانیہ یا امریکہ سے تعلقات ہو تے ہیں۔

2 ۔ ان تعلقات کو باریک بینی سے دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ  وزارت دفاع میں  امریکی نفوذ  بہت زیادہ ہے،خاص کر 1383 ہجری کے بعد جب سلطان بن عبد العزیز وزیر دفاع بن گیا ،وہ امریکہ کے آدمی ہونے کے لیے مشہور تھا ۔ اسی طرح سلمان بن عبد العزیز کی   طرف سے 9/12/1432 ہجری کو وزارت دفاع کا قلم دان سنبھالنے کے بعد بھی  وزارت دفاع میں یہی صورت حال رہی ۔  اس کے بعد اس کے بیٹے محمد بن سلمان بن عبد العزیز  اس وقت اس کا جانشین بنا جب 3/4/1436 ہجری کو جب  سلمان  بن عبد العزیز  سعودیہ کا بادشاہ بن گیا ۔

3 ۔ جبکہ سعودی عرب کے  نیشنل گارڈز میں انگریز کا اثر ونفوذ  نمایاں ہے، کم ازکم 1382 ہجری سے جب سابق شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز   نیشنل سیکیورٹی کے سربراہ تھے اور یہ صورت حال 1431 ہجری تک برقرار رہی  ۔ا س کے بعد اس کے بیٹے متعب بن عبد اللہ بن عبد العزیز  1431 ہجری سے 1434 ہجری تک اس کے سربراہ رہے ۔ 1434 ہجری کے بعد  یہ ادارہ  وزارت میں تبدیل ہوگیا اور متعب ہی آج تک وزارت   نیشنل گارڈ  کا وزیر ہے۔

4 ۔ خاندانی ترتیب کے مطابق  کون بادشاہ بنے گا  تو اس ترتیب   کے مطابق  اسی ادارے سے بادشاہ بننا کو ئی لازمی نہیں ۔ بادشاہ یا اس کا ولی عہد وزارت دفاع،نیشنل گارڈ یا کسی اور جگہ سے آسکتا ہے ۔۔۔یہ بات گزشتہ کئی دہائیوں سے مشہور ہے کہ  ان دو اداروں سے آنے والا ہی حکومت میں موثر ہو تا ہے کسی اور کا اتنا اثر نہیں ہو تا۔۔۔

5 ۔ سابق بادشاہ عبداللہ   نیشنل گارڈ کے ادارے سے آیا تھا  اسی وجہ سے سعودیہ میں انگریز کا نفوذ ہی غالب تھا  مگر  امریکہ کو بھی راضی رکھنے کے اسالیب  اختیار کیے جاتے تھے۔  اس لیے کبھی امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوتے تھے، کبھی اس میں گرمجوشی دیکھنے میں آتی لیکن عمومی پالیسی  برطانوی رنگ میں رنگی ہوتی تھی  مگر  امریکہ   کی مخالفت بھی کھل کر نہیں کی جاتی تھی  بلکہ اس کو راضی کرنے کے لیے برطانوی اسالیب اختیار کیے جاتے تھے  جن  کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہو تا ہے۔۔۔

رہی بات موجودہ بادشاہ کی  تو یہ  وزارت دفاع سے آیا ہے اس لیے توقع اس بات کی ہے کہ اس کے عہد میں  امریکی اثرو رسوخ کا ہی غلبہ ہو گا۔ شاہ عبدا للہ یہ جانتا تھا  اس لیے  اس نے سعودیہ میں ایک نئی روایت بھی قائم کی تھی  اور وہ یہ کہ بادشاہ نے صرف ولی عہد مقرر نہیں کیا بلکہ  ولی عہد کا ولی عہد بھی مقرر کیا ۔  وہ یہ جانتا تھا کہ سلمان بن عبد العزیز  امریکہ کے ساتھ چلے گا ،اس لیے اس نے اس کے لیے ولی عہد کا انتخاب بھی خود کیا  حالانکہ  رواج یہ تھا کہ بادشاہ صرف اپنا ولی عہد مقرر کرتا تھا ۔مگر عبد اللہ نے  ولی عہد کے لیے ولی عہد مقرر کر کے  نئے بادشاہ  کے لیے امریکہ کے آدمیوں میں سے کسی کو ولی عہد بنا نے کا راستہ بند کر دیا ۔ یوں شاہ عبد اللہ نے  پیش بندی کرتے ہوئے  ولی عہد سلمان کے لیے ولی  عہد مقرن کو  مندرجہ بالا مقصد کے لیے  مقرر کیا۔

7 ۔مقرن انگریز کے ساتھ تعلقات کے لیے مشہور ہے۔ وہ برطانیہ کے  مشہور  کالج " کرن ویل  " سے  فارغ التحصیل ہیں۔   یہی شاہ عبد اللہ کے لیے قابل اعتماد  بلکہ اس کے مقربین میں سے تھے۔ سابق  شاہ نے امریکی  تسلسل کو روکنے کے لیے ہی ولی عہد سلمان بن عبد العزیز  کا ولی عہد بھی مقرر کر لیا ۔ شاہ عبد اللہ نے ولی عہد کے لیے اس ولی عہد کے تقررکو  کالعدم کرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے  ایک حکم نامہ بھی جاری کیا جس کی رو سے اس کو معزول نہیں کیا جاسکتا  !

8 ۔ اس بنا پر سیاسی صورت حال کچھ یوں ہے :

ا ۔ موجودہ بادشاہ امریکہ کا وفادار ہے مگر اس کا ولی عہد  انگریز کا وفا شعار۔

ب ۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اثر ورسوخ امریکہ کا ہو گا مگر برطانیہ کی طرف سے مزاحمت جاری رہے گی۔

ج ۔ اس کے نتیجے میں امریکہ اور سعودیہ کے تعلقات  میں  کشیدگی میں کمی آئے گی ،یہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے تسلسل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے  کیونکہ سابق بادشاہ  اور اس کا پشت پناہ انگریز  تیل کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے  امریکہ کی جانب سے شل آئل سے فائدہ اٹھانے کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ شل آئل  کی قیمت  نسبتا مہنگی تھی تقریبا 70 ڈالر فی بیرل تھی، اگر تیل کی قیمت میں کمی بر قرار رہے  تو شل آئل کی پیداوار   مہنگی ہونے کی وجہ سے جاری نہیں رہے گی جبکہ قدرتی تیل کی پیداواری لاگت تقریبا "7 ڈالر فی بیرل " ہے  ،اس کو ہم نے 7/1/2015 کے اپنے جواب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

9 ۔ آخر میں  اس بات سے دل غمگین ہو تا ہے کہ  اسلام دشمن کفر ریاستوں کا   کس طرح اس  سرزمین میں اثرو رسوخ ہے   جہاں  مسلمانوں کا قبلہ ہے ، جہاں روح الامین وحی لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے۔۔۔جہاں دار الہجرہ ہے جو پہلی اسلامی ریاست  کا دار الحکومت ہے! لیکن اسلام  کے پاس بھی ایسے فرزند اور جواں مرد موجود ہیں  جو دن رات ایک کر رہے ہیں، اللہ کے اذن سے اسلامی ریاست  خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے لیے  اخلاص  اور صدق سے جدو جہد کر رہے ہیں،اللہ زبردست قدرت والے مہربان کے حکم سے وہ قائم ہونے ہی والی ہے ،اس دن مومن اللہ کی مدد سے مسرور ہوں گے ،کفار اپنے بلوں میں گھس جائیں گے اگر ان کا کوئی بل باقی رہا۔۔۔

Read more...

افغانستان میں معاشی جمود قابضین اور استعمار کی جانب سے سرمایہ داریت کو نافذ کرنے کا نتیجہ ہے

حال ہی میں گیلپ سروے کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 67 فیصدافغان یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی شرح نمو میں کمی افغانستان کے لیے مسلح تصادم سے زیادہ خطرناک ہے۔


استعمار نے سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام مسلط کر کے فری مارکیٹ "مارکیٹ کو اپنا کام کرنے دو" کا نعرہ لگا کر گزشتہ تیرہ سالوں کے دوران افغان عوام کو قتل،بحران،کرپشن،بے حیائی ،ظلم،معاشرے میں طبقاتی تقسیم،بے روز گاری،غربت،اجارہ داری اور مافیا ۔۔۔وغیرہ کے سوا کچھ نہیں دیا ؛ یہاں تک کہ 10فیصد افغان سرمایہ دار ملک کے 90 فیصد سرمائے کے مالک بن چکے ہیں اورغربت و بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ استعماریت نے افغان معیشت کو استعمار کا غلام بنا رکھا ہے اور افغان حکومت بھی قابض قوتوں کی مدد کے بغیر بجٹ تیار کرنے اور ملازمین کو تنخواہ دینے کے قابل بھی نہیں ہے۔


افغانستان میں صرف یہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی تعاون کی تنظیم "اوکسفام" کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 کے اختتام تک دنیا کے ایک فیصد مالدار افراد دنیا کی دولت باقی 99 فیصد افراد کے مجموعی دولت سے زیادہ ہوجائے گی۔ اس رپورٹ کے حقائق دل دہلا دینے والے ہیں جیسا کہ دنیا کے 80 مالدار ترین افراد کے پاس3.5 ارب غریب لوگوں کی مجموعی دولت کے برابر دولت ہے۔


ان تمام تباہ کاریوں اور مصائب وآلام کی وجہ ، جن کا مسلمانوں اور مجاہد افغان قوم کو سامنا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کا نفاذ اور ریاستی قوانین ہیں۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام افغان عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتا بلکہ اسی نے ان مسائل میں اضافہ اور ان کو زیادہ پیچیدہ کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام اپنے گڑھ مغرب میں بھی ناکام اور شکست خوردہ ہے اور اس کو موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ معاشی اور معاشرتی بحران اس نظام کے نفاذ کا نتیجہ ہیں جس نے مغربی اقوام کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور وہ اب اس نظام سے بیزار ہو چکے ہیں۔


اس کے مقابلے میں اسلام وہ نظام ہے جو انسان،کائنات اور حیات کے خالق کی جانب سے ہے اور یہ نظام زندگی کے تمام شعبوں میں احکام شرعیہ کونافذ کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے،جس میں معاشی نظام بھی شامل ہے۔ تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ اسلام نے ہی معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا اور لوگوں کے مابین دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنا یا ،جس سے لوگوں کے درمیان طبقاتی امتیاز کے بغیر خوشحال زندگی کا دور دورہ رہا۔

 

حزب التحریر کا میڈیا آفس
ولایہ افغانستان

 

Read more...

شامی قومی اتحاد کے سربراہ خالد خواجہ امریکی حل کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا﴾ " بہت بڑی بات ہے جو اُن کے منہ سے نکل رہی ہے یہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں بول رہے ہیں"(الکحف:5)

شام قومی اتحاد کے سربراہ خالد خواجہ نے18 جنوری2015 کو شامی عوام کے لیے ایک آڈیو پیغام جاری کیا۔ اس پیغام میں اس نے اپنی ذات اور اپنے اتحاد کی تشہیر اِن جھوٹے وعدوں کے ذریعے کی کہ وہ عوام کی خواہشات کا احترام کر تا ہے تاکہ تحریک کے اہداف کو حاصل کیا جاسکے جو عوام چاہتے ہیں۔ اُس نے اِس بات کو نظر انداز کیا کہ عوام رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق اسلامی خلافت چاہتے ہیں۔ شام کے سچے مسلمانوں نے بابنگ دہل اس کا اعلان کیا جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک نے اس کو ناکام بنانے کے لیے اُن کے خلاف سازشیں شروع کیں۔ بجائے اس کے کہ وہ شام کے سرکش اور اس کے کارندوں کے وحشیانہ جرائم پر محاسبہ کرتے جو وہ شام کے مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں، خواجہ، حکومت کےسرغنہ کے جانے کی تشہیر کر رہا ہے جو کہ ایک ایسی سودے بازی کے ضمن میں ہے جس میں شکار مسلمان ہوں گے اور وہ اور اُس کے معاونین اس ایجنٹ حکومت کے جانشین ہوں گے کیونکہ یہ حکومت نسل کشی اور قتل و غارت میں اپنا کردار ادا کر چکی ہے۔ وہ ایک ایجنٹ کی جگہ متبادل ایجنٹ کے آنے کو شامی انقلاب کی کامیابی قرار دیتا ہے!

ہم کہتے ہیں کہ اہل شام اس مجرم کو اس کے کیے کی سزا دیے بغیر جانے نہیں دیں گے۔ وہ اُس سے اپنے شہداء اور اپنی پاک دامن خواتین کی عزتوں کا قصاص لیے بغیر اس کو جانے نہیں دیں گے۔ہم خالد خواجہ سے بھی کہتے ہیں کہ تمہارے عوامی ریاست کے اس"انقلابی" منصوبے کو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے جانشین جہنم کی نظر کر دیں گے،تمہارے آقا اور اللہ کے دشمنوں کے تمام منصوبوں کو اپنے پیروں تلے رونددیں گے۔ تمام جنگجو گروپوں کو تمہاری یہ دعوت کہ سب متحد ہو کر عبوری حکومت کی وزارت دفاع سے معاونت کریں اوریہی عوامی جمہوری ریاست کے امریکی سیاسی منصوبے کی طرف پہلا قدم ہے ،جس کی رو سے دین کو زندگی سے جدا رکھا جائے گا۔ ان تمام منصوبوں کو وہ مخلص لوگ اللہ کے اذن سے ناکام بنادیں گے جو نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے قیام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو عملی شکل دینے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ تمہاری طرف سے تمام مجاہدین گرپوں کو امریکی منصوبے کے مطابق اعتدال کی راہ اختیار کرنےاور انتہاپسندی سے دور رہنے کی دعوت دینا اور بدبودار قوم پرستی اور اسلام کے دشمن فرانس کی طرف سے دیے گئے جھنڈے کو بنیاد بنانا، لیکن اس دعوت کا مقابلہ سچے اور برحق دین اسلام کے ساتھ کیا جائے گا۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے، اسی طرح توحید کے علم کو بلند کر کے جو کہ رسول اللہ ﷺ کا علم ہے جس کو ہمیشہ سربلند رکھنے کے لیے صحابہ کرام سردھڑ کی بازی لگاتے تھے،جب ان کے ہاتھ کٹ جاتے تو کندھوں کے سہارے اس کو بلند رکھتے اس کو کسی حال میں گرنے نہیں دیتے تھے۔

اے عزت والے شام کے مسلمانوں! شام کی تحریک کے خلاف امریکی پالیسی کو گہرائی سے دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئی محاذوں پر کس قدر خطرناک سازشوں کا جال بن رہا ہے۔ اس لیے تم اس کو اپنی قیادت سپرد کرو جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو،جو اسلام کے دین ہو نے پر راضی ہو ،جو قرآن کے دستور ہو نے پر راضی ہو ،نبی ﷺ کے قائد ہونے پر راضی ہو۔۔۔ استعمار ی کفار اور ان کے ایجنٹوں اور آلہ کاروں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ،اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ مت کروبلکہ حق پر ثابت قدم رہو ۔ اللہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا وہی تمہاری مدد کرے گا

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

"اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرتا ہے بے شک اللہ زبردست طاقتور اور غالب ہے"(الحج:40)۔


احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

اردن کی حکومت امت اور دین کے دشمنوں کی مکمل طرفدار بن گئی ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاء وَاتَّقُواْ اللَّهَ

مقامی اور عالمی میڈیا نے خبر دی ہے کہ اردنی حکومت کے سربراہ شاہ عبد اللہ الثانی چارلی ایبڈو میگزین پر ہونے والے حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے ہونے والے مظاہرے میں شرکت کریں گے ۔

یہ مظاہرہ اس وقت ہو رہا ہے جب فرانسیسی اخبار ات نے چارلی ایبڈو کے ساتھ یکجہتی کے لیے رسول کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکے کی دوبارہ اشاعت کی ہے ،جس کے ذریعے اسلام ،پیغمبر اسلام ﷺ اور مسلمانوں کے عزت پر حملہ کیا گیا ہے۔۔۔

مظاہرے میں شریک ہو کر اس گناہ کا ارتکاب ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب فرانسیسیوں نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے میگزین کی حمایت کر تے ہوئے "ہم سب چارلی ہیں "کا نعرہ لگا یا ہے۔ اس شرکت کے ذریعے اس حکمران نے عظیم الشان امت اسلامیہ کی توہین کی ہے اور اس کو اللہ کی مخلوقات میں سے سب سے ذلیل مخلوق کا ہدف بنا یا ہے۔۔۔

یہ شرکت ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جب خود فرانس کے سابق وزیر اعظم نے بڑھتی دہشت گردی کی ذمہ دار مغربی پالیسی کو قرار دیا ہے ،جبکہ ہمارے حکمران اسلام اور شریعت مطہرہ کو اس کا سبب قرار دے رہے ہیں !۔۔۔

یہ شرکت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب صلیبی اتحاد بشمول فرانس کے طیارے شام اور عراق کے مسلمانوں پر آتش و آہن کی بارش کر رہے ہیں اور یہ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اپنی سر زمین اور فضاء ان کو دینے کے بعد ہو رہا ہے۔۔۔

یہ شرکت ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جب فرانس مسلمان خواتین کو اسکارف اور حجاب پہنے سے روک رہا ہے ان کی تذلیل اور عزت وناموس پر حملہ کرنے کے لیے انہیں پردہ نہ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔۔۔

اے مسلمانو ! اردن کی حکومت جو کچھ کر رہی ہے یہ امت اور اسلام کے دشمنوں کی طرفداری کا ایک نیا اور واضح اعلان ہے،اس لیے چاپلوس حکومت اور اس کے ہرکارے لکھاری آپ کویہ یہ دھوکہ نہ دیں کہ یہ سیاست یا ڈپلومیسی ہے ! یہ کیسی ذلت آمیز سیاست اور رسواکن ڈپلومیسی ہے کہ جس سے امت کی کرامت خاک میں ملے اور کفار کو رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی اجازت ملے ،اور اس سے اسلام اور امت پر دست درازی ہو۔

اے مسلمانو ! کب تک تمہاری عزت تمہارے حکمرانوں اور تم پر مسلط حکومتوں کے کرتوتوں کے سبب خاک میں ملتی رہے گی؟!کب تک اللہ کے دین اور اس کے احکامات پر غیرت تمہاری مردانگی اور ایمان کو جوش دلائے گی آخر وہ کیا چیز ہے جو تمہاری غیرت کو جھنجوڑے گی وہ کیا چیز ہے جو تمہاری خاموشی توڑ دے گی؟!!

یاد رکھو اور یقین کر لو کہ اسلام کی حفاظت اس کی ریاست اور اس کے جواں مرد ہی کریں گے۔ تمہار ی عزت و آبرو اور خون کی حفاظت ریاست خلافت ہی کرے گی۔ تمہاری عزتیں صرف اس اسلامی نظام میں محفوظ ہوں گی جس کو اللہ نے تمہارے لیے پسند کیا ہے جو اس خلافت میں نافذ ہو گا جس کی خوشخبری نبی ﷺ نے دی ہے کہ یہ خلافت نبوت کے طرز پر ہو گی۔ اسی کے لیے کام کرنے کی ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں اللہ کی طرف بلانے والوں کی دعوت کا جواب دو اس سے پہلے کہ اللہ کا عذاب سب کو اپنے لپیٹ میں لے،

﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾

"اس عذاب سے بچو جو تم میں سے صرف ظالموں کو اپنے لپیٹ میں نہیں لے گا "(الانفال:25)۔

ہم اردونی حکو مت اور اس کے سربراہ سے پوچھتے ہیں کہ تم کو شرم نہیں آتی، تم تو اپنے آپ کو سید کہتے ہو ؟

ولایہ اردن میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

 

 

Read more...

شام کو بچانے کا روڈ میپ "کے جواب میں : ہم اپنے لیے روڈ میپ خود بنائیں گے اور اپنی قربانیوں کے نتیجے میں نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ قائم کر لیں گے

ملک سے باہر بیٹھی  شامی اپوزیشن ،(اور اس کے ساتھ کچھ جنگجو گروہ)اور وہ لوگ جوکے شام کی مجرم حکومت سے  منسلک ہیں شام کے مستقبل کی حکومت کے بارے میں ترجیحات کے حوالے سے مفاہمت پر پہنچ گئے ہیں۔  وہ "شام  کو بچانے کا روڈ میپ " پر معاہدہ کرنے کے لیے اس مہینے کے آخر میں 26 سے 29 کے درمیان  ماسکو جانے سے پہلے وفود کی تشکیل پر اتفاق کر لیا ہے، جہاں جنیوا (1) شقوں  کے مطابق  فیصلے ہوں گے اوریہ تین مہینے کے اندر ہوں گے۔ یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی مفاہمت بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کی شق نمبر چھ کے تحت ہوگی  جس میں بین الاقوامی   نگرانوں کی بات  بھی شامل ہوگی۔ اس مفاہمت کے تحت  عبوری ادارے کی تشکیل کی تجاویز بھی ہیں جس میں "عبوری حکومت"بھی شامل ہے جو   موجودہ دستور  کے مطابق   وزیر اعظم اور  جمہوریہ کے سربراہ کے اختیارات استعمال کرسکے گی ، اس کے ساتھ "ملٹری کونسل" بھی ہوگی جو دونوں گرپوں میں  برابر تقسیم ہوگی  تا کہ اس کے ذریعے  سیکیورٹی کے ڈھانچے کو بحال کیا جائے اور سرکاری فوج سے منحرف ہونے والوں کو دوبارہ شامل کر کے "آئی ایس آئی ایس" تنظیم  کے خلاف لڑا  جائے۔

اے عزت والے شام کے مسلمانوں ! بے شک کافر مغرب اور ایجنٹ حکومتوں اور سیاسی گروپوں میں سے اس کے آلہ کار  جو جھوٹ اور بہتان کے ذریعے اپنے آپ کو شام کے مسلمانوں کا نمائندہ کہتے ہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل چاہتے ہیں  اور شام کے مسلمانوں کو اس ناگفتہ بہ صورت حال سے نکلنے کے لیے اپنے چنے ہوئے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اگر کافر مغرب اس سرکش حکومت کی پشت پر نہ ہو تا  اور وہی ہر قسم کے وسائل  اور اسالیب سے  شام کی مبارک تحریک  کو نہ روکتا تو یہ اس کے سامنے  ڈٹنے کے قابل نہیں  تھی اور اب تک یہ سرکش اپنے گنہگار ہاتھوں کے کیے کی سزا بھگت چکا ہوتا۔

ہم پوچھتے ہیں ؟ان گروپوں کو کس نے ہمارے شہداء کے خون، ہماری پاک دامن خواتین کی آہ و بکا اور ہمارے بچوں کی چیخ و پکار پر مذاکرات کا حق دیا ہے؟کیا یہی  ماسکو   انتہائی بے شرمی  اور بدمعاشی سے اس مجرم حکومت  کے شانہ بشانہ کھڑا نہ  تھا اور اس کو ہر قسم کا اسلحہ فراہم کرتا تھا جس سے وہ آج تک ہر روز ہمیں مار رہا ہے اور اس کے عسکری ماہرین  ہمیں ذبح  کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں؟کیا یہ وہی ماسکو نہیں جس نے چیچنیا اور افغانستان میں  مسلمانوں کو ذبح کیا ؟کیا ماسکو  اور اس کا پشت بان کافر مغرب  بحران  کا کوئی ایسا حل نکالے گا جو مجرم بشار کے حق میں اور ہماری قربانیوں اور ہمارے شہداء کے خون کی قیمت پر نہ ہو؟بلکہ وہ تو ان مذاکرات کے ذریعے اسی مجرم حکومت   کوبحال کرنے کی کوشش  کرے گا جس نے شام کے مسلمانوں کو تکالیف اور مصائب کے سوا کچھ نہیں دیا ،اسی کو ایسے طریقے سے واپس لا یا جائے گا کہ اس کے اور اسلام دشمنوں کے مفادات پورے ہوں۔ جمہوریہ کے سربراہ کے اختیارات کے ساتھ عبوری حکومت  کے قیام سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ وہ بھی اس سرکش کی طرح ہی ایک خائن اور ایجنٹ حکومت ہو گی۔اس دستاویز کو لکھنے والوں نے  دہشت گردی کے پردے  میں اسلام کے خلاف جنگ  کو اپنے آقا  کافر مغرب کی خوشنودی کے لیے چھپایا بھی نہیں۔  اب ہر شخص یہ جانتا ہے کہ  دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے یہ ہر اس شخص کے خلاف جنگ ہے جو امریکہ  اور اس کے کارندوں کے اشاروں پر نہ ناچے۔

اے شام کے مسلمانو ! اللہ اپنی کتاب عزیز میں فرماتا ہے ،

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ

"یہو د اور نصاریٰ اس وقت تک ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک تم  ان کی ملت کی پیرو نہ کرو"(البقرہ :120)۔

کیا تم اپنے اور اپنے دین کے دشمنوں کے ساتھ بیٹھنے پر راضی ہو گے؟ کیا تم ان کو اجازت دو گے کہ وہ تمہارے مستقبل کے لیے روڈ میپ  اور طرز زندگی  کا تعین کریں ؟اللہ کی قسم یہ تو  کھلا نقصان ہو گا ۔ ہم حزب التحریروہ قائد جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا  تمہیں ہمارے ساتھ ایک ہی صف میں ہر اس شخص اور گروہ کے خلاف  کھڑے ہونے کی دعوت دیتے ہیں  جو ہمارے شہداء کے خون کی قیمت پر مذاکرات کرنے کی کوشش کر تا ہے۔ ہم ہر سازشی سے کہتے ہیں :ہم خود اپنا روڈ میپ کھینچیں گے  اور اپنی قربانیوں کے نتیجے میں خلافت راشدہ علٰی منہاج النبوۃ قائم کر لیں گے اور اپنے رب کو راضی اور دشمن کے اندر آگ لگا دیں گے۔اللہ فرماتا ہے ،

قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِير

"اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اگر تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کر لی  بعد اس کے کہ تمہارے پاس علم آچکا تو اللہ کے مقابلے میں تمہارا کو کارساز اور مدد گار نہیں ہو گا"(البقرۃ:120)

 

احمد عبدالوہاب

ولایہ شام میں حزب التحریر

کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

راحیل-نواز حکومت اور میڈیا میں ان کے ایجنٹ حزب التحریر کے خلاف مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں

حزب التحریر ولایہ پاکستان راحیل-نواز حکومت کی جانب سے حزب پر لگائے جانے والے الزامات اور خصوصاً 16 جنوری 2016 کو "دی نیوز" اور "جنگ" میں عامر میر کی رپورٹ "حزب التحریر کے داعش کے ساتھ تعلقات کی چھان بین" میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان جو دراصل امریکی ایکشن پلان ہے اور اس کا مقصد خطے میں امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنانا ہے۔ اس پلان کے تحت راحیل-نواز حکومت نے حزب التحریر کو نشانہ بنانے کے عمل میں اضافہ کردیا ہے۔ پچھلے حکمرانوں کی طرح ، حزب کی سیاسی و فکری اسلامی تحریک کا جواب موجودہ راحیل-نواز حکومت بھی حزب کوکلعدم قرار دے کر، طاقت یعنی گرفتاریاں، تشدد اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعےہی دے رہی ہے۔ اس حکومت کی جانب سے حزب کےخلاف تازہ ترین جھوٹے الزامات کوئی نئے الزامات نہیں ہیں بلکہ پرانےالزامات جیسا کہ حزب کے عسکریت پسندوں سے تعلقات ہیں، اس کا ہیڈکواٹر برطانیہ میں ہے، باہر سے فنڈز لیتی ہے، سیکوریٹی خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ کو ہی دوبارہ دہرایا گیا ہے۔

ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان الزامات کا جواب دینے سے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں پراور نہ ہی میڈیا میں موجود ان کے ایجنٹوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ سیاسی و اخلاقی طور پر بانجھ ہیں۔ ان کے لئے صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی کافی ہیں۔ ان جھوٹے الزامات کا یہ جواب ہم ان کے لئے قطعاً نہیں دے رہے۔ ہمارا یہ جواب ان لوگوں کے لئے بھی نہیں ہے جو پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور حزب کو جانتے ہیں کیونکہ وہ ان الزامات کے جھوٹا ہونے کے متعلق پہلے سے ہی اچھی طرح واقف ہیں۔ ہم یہ جواب صرف ان مخلص مسلمانوں کے لئے جاری کررہے ہیں جو میڈیا، سیاست دانوں اور افواج میں موجود ہیں اور جن کے اذہان میں شاید کچھ سوالات ہوں یا وہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہوں۔ اور ہم یہ جواب اس لئے بھی دے رہے ہیں کہ وہ لوگ جو یہ جھوٹ گھڑ اور پھیلا رہے ہیں شاید انہیں اللہ کا خوف آجائے اور وہ اپنے عمل پر اللہ سے معافی مانگ لیں۔ اس سلسلے میں حزب کے موقف کی وضاحت درج ذیل ہے:

1.  حزب ایک مکمل آزاد جماعت ہے جو خلافت راشدہ کے قیام اور اسلام کے نفاذ کے لئے رسول اللہﷺ کے طریقے پر اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک سختی سے کاربند ہے۔ حزب کا طریقہ صرف اور صرف سیاسی و فکری جدوجہد ہے۔ مختلف مسلم ممالک میں جابر حکمرانوں کی جانب سے اس کے خلاف کیے جانے والے بدترین ظلم و ستم کے باوجود حزب نے کبھی بھی اس طریقہ کار سے روگردانی نہیں کی ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تشدد اور غیر قانونی طاقت کے استعمال کا راستہ اختیار کرنا راحیل-نواز حکومت کا طرز عمل ہے ناکہ حزب کا۔

2.  حزب کی قیادت برطانیہ میں مقیم نہیں ہے۔ اس کی قیادت انتہائی مشہور و معروف فقہی اور رہنما شیخ عطا بن خلیل الرشتہ کے زیر سایہ مسلم دنیا میں مقیم ہے۔ اس کے علاوہ حزب کی مقامی قیادت بھی پاکستان میں ہی مقیم ہے جس میں پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ بھی شامل ہیں جنہیں حکومتی ایجنسیوں نے 11 مئی 2012 سے اغوا کر کے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ حزب اپنی جماعت سے باہر کسی سے مالی وسائل وصول نہیں کرتی چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی۔

3.  ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حزب پر غیر ملکی فنڈنگ کا الزام وہ لوگ لگا رہے جن کا غیر ملکی طاقتوں سے تعلق اور ان سے فنڈنگ لینا ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ حزب برطانیہ اور اس کی استعماری پالیسیوں کو برطانیہ اور پاکستان دونوں جگہ چیلنج کرتی ہے۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ راحیل-نواز حکومت اور اس کے سربراہان ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے مدد طلب کرتے ہیں اور فخریہ ان سے میڈل اور گارڈ آف آنر وصول کرتے ہیں ۔

4.  حزب کا داعش، القائدہ یا کسی بھی دوسرے گروہ سے، چاہے وہ عسکریت پسند ہیں یا نہیں، کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ داعش کے ساتھ تعلق ثابت کرنے کی کوشش تو انتہائی مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے کیونکہ حزبنے داعش کی جانب سے اسلامی ریاست کے قیام کو کھلم کھلا مسترد کیا ہے اور ان کی زیادتیوں پر ان کا بھر پور احتساب بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ چند ماہ قبل شام میں حزب کے سینئر رہنما مصطفٰی خیالی داعش کی قید میں تشدد کا شکار ہوئے اور ان کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ کیا راحیل-نواز حکومت نے حزب کا داعش کے ساتھ کوئی تعلق خواب میں دیکھ لیا ہے؟

5.  راحیل-نواز حکومت کی جانب سے حزب التحریر کو نشانہ بنانے کی وجہ "سیکورٹی مشکلات" نہیں ہیں بلکہ حزب کا اس حکومت کی امریکہ و مغربی طاقتوں کے سامنے غلامی اور اسلام اور امت کے خلاف غداریوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ یہ حکومت امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کو استعمال کر کے پاکستان کو تباہ کررہی ہے۔ اس حکومت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے سفارت خانے اور قونصل خانوں کو پاکستان میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرے۔ اس حکومت نے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو پاکستان میں کام کرنے، قبائلی علاقوں میں موجود گروہوں میں سرائیت کرنے اور پاکستان بھر میں بم دھماکے اور حملے کروانے اور ان کی منصوبہ بندی کرنے کی آزادی فراہم کررکھی ہے۔ ان تمام غداریوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم پشاور اسکول جیسے سانحات کا سامنا کررہے ہیں جہاں ہمارے معصوم بچوں کو اس طرح قتل کردیا جاتا ہے کہ ان کو بیان کرنے کے لئے الفاظ دستیاب نہیں ۔ یہ حزب ہے جو ان تمام غداریوں کو بے نقاب کرتی ہے اور نتیجتاً سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہے۔

6.  حزب راحیل-نواز حکومت کی ان گھٹیا حرکتوں اور الزامات سے نہ تو گھبرانے والی ہے اور نہ ہی خلافت کے قیام کی جدوجہد سے دستبردار ہونے والی ہے۔ ہمارا کا م اللہ کی مدد و نصرت سے جاری و ساری ہے اور دن بدن اس میں تیزی آتی جارہی ہے اور ہم صرف اسی کی رضا چاہتے ہیں۔ خلافت کا قیام صرف حزب کا ہدف اور خواہش نہیں اور یہ قائم ہو کر رہے گی چاہے امریکہ، یورپ اور پاکستان میں اس کے ایجنٹ اس کو روکنے کے لئے دنیا بھر میں کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کرلیں کیونکہ پاکستان اور پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا یہ مشترکہ ہدف اور خواہش ہے اور اس کا قیام اللہ کی جانب سے امت پر فرض ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ اللہ کا وعدہ ہے اور رسول اللہ ﷺ پہلے ہی امت کو اس کی واپسی کی خوشخبری سنا چکے ہیں۔ یقیناً وہ لوگ بہت ہی بدقسمت ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کو روک سکتے ہیں جس کو پورا کرنے کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کی پیشگوئی رسول اللہﷺ کرچکے ہیں۔

وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (•)وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ (•)

"پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کردیا گیا تھا اور ہم انہی کو پیشوا اور (زمین )کا وارث بنائیں۔ اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہیں ہیں"(القصص:6-5)

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس

Read more...

خلافت ھندو جارحیت کا خاتمہ کردے گی حکومت ِ پاکستان بھارت پر جارحیت کا الزام لگاتی ہے اور ساتھ ہی دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتی ہے

حزب التحریر بھارت کے ساتھ تعلقات اور معاملات کے حوالے سے حکومت پاکستان کے  غدارانہ طرز عمل کی مذمت کرتی ہے۔ وزیر اعظم  نواز شریف کے قومی سلامتی اور امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے 12 جنوری کو ڈان نیوز کے پروگرام "فیصلہ عوام کا"میں کہا کہ بھارت  افغانستان کی سرزمین کو پاکستان پر حملے کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ لیکن اسی انٹرویو میں سرتاج عزیز نے بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات کے قیام پر زور بھی دیا۔

قومی سلامتی  اور حکومتی حلقوں میں یہ بات تسلسل سے کی جارہی ہے  کہ  بھارت قبائلی علاقوں میں مداخلت کررہا ہے اور پاکستان کی افواج اور شہریوں پر حملے کروا رہا ہے۔  پھر ان حلقوں میں موجود اس رائے عامہ کو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کرنے کے لئے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر حکومت اپنے دعویٰ میں سچی ہوتی تو وہ  پاکستان میں بھارت کی سفارتی موجودگی کا خاتمہ کرتی کیونکہ بھارت ایک جارح ملک ہے اور اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے۔ سرد جنگ کے زمانے سے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں سفارت خانے جاسوسی اور تخریبی کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور  ان نگرانی کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اور جیسے یہی کچھ کم نہ تھا کہ حکمرانوں نے امریکہ سے وفاداری  کے تعلق کو برقرار رکھا ہے جس نے بھارت پر  افغانستان کے دروازے کھولے ہیں۔ امریکہ کی مدد و حمائت سے بھارت نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ افغانستان میں کئی قونصل خانے کھولے ہیں جہاں سے قبائلی علاقے انتہائی قریب ہیں۔  لیکن اس باوجود راحیل-نواز حکومت نے افغانستان پر امریکی قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے  نیٹو سپلائی لائن کو  برقرار رکھا ہے اور ان مجاہدین کے خلاف آپریشن کررہی ہے جوصلیبی  امریکی افواج  کے خلاف افغانستان میں جہاد کررہے ہیں۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت کی اس غداری کو ختم کریں۔ وہ انہیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ خلافت کے فوری قیام کےلئے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں جو اسلامی ریاست ہونے کے ناطے مسلم سرزمین پر دشمن کی موجودگی کا خاتمہ کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں خلافت کا قیام مسلم سرزمینوں کو یکجا کرنے کے لئے نقطہ آغاز ثابت ہوگا اور پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش کے مسلمان ایک عظیم متحد قوت کی صورت میں ہندو مشرکین کے خلاف یکجا ہوں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا

"ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں  اور مشرکوں کو پاؤ گے"(المائدہ:82)

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک