اقوامِ متحدہ کے لئے سعودی سفیر عادل الجبیر نے جمعرات کی صبح 26 مارچ 2015 کو یمن کے حوثیوں کے خلاف عسکری آپریشن کا اعلان کردیا ۔ اس آپریشن کے دوران فضائی کاروائیوں میں حصہ لینے والا اتحاد دس ممالک پر مشتمل ہے، جس میں عمان کے سواء باقی تمام خلیجی ممالک شامل ہیں ۔ سعودی سفیر نے واضح کیا کہ سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے قبل امریکہ سے مشاورت کی تھی۔ مصر کے وزیر خارجہ نے اس آپریشن میں شرکت کا اعلان کیااور بتایا کہ چار مصری بحری جہاز خلیجِ عدن کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ جبکہ سوڈانی مسلح افواج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ"اپنی اسلامی ذمہ داری کی بنیاد پر سوڈان اس(حملے) میں شرکت کرے گا۔ہم ایسی صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے جبکہ مسلمانوں کے قبلہ اور وحی کے نزول کی سر زمین پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہوں"۔
یوں بجائے یہ کہ حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنےکے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئےحالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب واقع ہے!اس کاروائی کے لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ حرم شریف پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطریہ حکمران حرکت میں نہیں آتے!ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے، یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن قابض بنے بیٹھے ہیں!
ہر صاحب بصیرت شخص جانتا ہے کہ یمن میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ امریکہ اور اس کے حوثی حواریوں اور ان کے ہمنوا ؤں اوردوسری طرف برطانیہ اور اس کے حواریوں ہادی،عبد اللہ صالح اور ان کے ہمنواؤں کی باہمی کشمکش ہے ،جیسا کہ ہم نے اس معاملے کے متعلق سابقہ دستاویزات میں لوگوں پر یہ واضح کیا تھا کہ"حقیقت یہ ہے کہ یمن میں جاری جنگ دوفریقوں کے درمیان ہورہی ہے: فریق اول امریکہ ،اس کے حواری اور ایجنٹ اورفریقِ ثانی برطانیہ ، اس کے حواری اور ایجنٹ ۔ دونوں فریق اپنے اپنے وسائل اور اسالیب استعمال کررہے ہیں .... امریکہ یمن میں حوثیوں کی مادی قوت ، جنوبی علاقوں میں جاری تحریک اور ایران کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھارہا ہے اور مذاکرات کے میدان میں یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیرجمال بن عمرکو استعمال کر تا ہے۔جبکہ برطانیہ اپنی سیاسی مکاری کو بروئے کار لاتا ہے اورامریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت کے طور پر ہادی اور اس کی صدارت کو استعمال کررہا ہے اور اس بات کو یقینی بنارہاہے کہ کوئی امریکی حواری طاقت کے اہم مراکز میں سے کسی پربھی قابض نہ ہوسکے ۔ساتھ ہی ساتھ برطانیہ نے بذاتِ خود علی صالح اور اس کے آدمیوں کو حوثیوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی تا کہ اگر ہادی اپنے مقصد میں ناکام ہوجائے اور حوثی اقتدار پر قابض ہو جائیں تب بھی برطانیہ علی صالح کے ذریعے اقتدار کے کچھ حصے پر قابض رہ سکے ۔یہ ہے یمن کی صورتِ حال کی حقیقت ۔چونکہ برطانیہ اب پہلے کی طرح یمن پر اپنی بالادستی قائم رکھنےکے قابل نہیں رہا ،جبکہ دوسری طرف وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا عسکری طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہ اپنے ایجنٹ ہادی اور علی صالح کے ذریعے سیاسی مکاری پر ہی بھروسہ کرتا ہے،جنہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیاہے "(یکم اکتوبر 2014) ۔
امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیااور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پرحوثیوں کے ساتھ اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔ یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے تھے سوائے اس کے کہ علی صالح اور اس کے حواریان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی آثار دکھائی دے رہے ہیں ۔ پس عوامی نیشنل کانگریس ، جس کی سربراہی سابق یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کررہا ہے، نے اعلان کیا کہ "حوثی ملیشیا کی تحریک ، حوثیوں کی جانب سے جنوبی صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش اور ملک کی قانونی اتھارٹی کے خلاف بغاوت کرنے کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے "۔ عوامی کانگریس پارٹی کے پولیٹیکل آفس کی جنرل کمیٹی کی طرف سے بیان دیا گیا کہ "یمن میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ بعض دھڑوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہے، اور نیشنل کانگریس کا اس سے دور ونزدیک کا کوئی واسطہ نہیں"(العربیۃ26 مارچ 2015)۔ عوامی نیشنل کانگریس کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا حالانکہ کل تک وہ اس صلح یاجنگ میں حوثیوں کی حلیف تھی! اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ اگرمستقبل میں حوثیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے تو عوامی کانگریس دوبارہ حوثیوں کی اتحادی بن جائے۔ اِن ایجنٹوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت کے لحاظ سے اپنے آقا کے تیار کردہ کردار کے مطابق اپنےرنگ بدل لیتے ہیں!کیا ہی برا اُن کا یہ چلن ہے...!
جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم کر پارہے ہیں اور نہ ہی وہ شمال میں اپنے مرکزکی طرف واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں۔ پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے۔
جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے اس نے صورتحال کو واضح کردیا ہے۔ سعودی عرب نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ سے مشاورت کی ، اورامریکہ کے ایجنٹ ہی اس آپریشن میں پیش پیش ہیں یعنی سعودی عرب کا شاہ سلمان اورمصر کا جنرل سیسی ۔ جہاں تک باقی خلیجی ریاستوں اور اُردن ومراکش کا تعلق ہے تو ان کا کردار زیادہ تر سیاسی ہے ، ان کا رویہ برطانیہ جیسا ہے، کہ برطانیہ امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، تا کہ یہ نظر آئے کہ وہ بھی متحرک ہے اور عنقریب ہونے والے مذاکرات میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہو اور اس طرح جو بھی حل سامنے آئے اس کے نتیجے میں طاقت کے مراکز میں اس کا بھی اثرو رسوخ موجود رہے۔اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں یمن کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور اسے جنگ کی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یمن مستحکم اور خوشحال تھا جب اس کی پاک مٹی پر ایجنٹوں اور استعماری کفار کے ناپاک قدم نہیں پڑے تھے۔
اے مسلمانو! یہ ہیں ہمارے حکمران ۔ یہ حکمران ہی وہ سب سے بڑی مصیبت ہیں کہ جس سےآج ہم دوچار ہیں۔ اگر ہم نے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ان کے ظلم وستم سے نجات کے لیے کوشش نہیں کی تو یہ ہمارے لئے مزید تباہی و بربادی کا باعث بن جائیں گے۔ ہمارے ذخائر لوٹے گئے ،ہمارا خون بہایا گیا ،جبکہ ہم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےاس قول کواپنے سامنے نہیں رکھا کہ :
﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾،
" ڈرو اس فتنے سے جس کا شکار صرف وہ لوگ نہیں ہوں گے جو تم میں سے ظالم ہیں ، اور جان لو کہ اللہ کا عذاب شدید ہے"
اور آپ ﷺ کے اس ارشاد کو بھی کہ
«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ظَالِمًا، فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ»
"بے شک جب لوگ کسی کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں ، تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گھیر لے"(ترمذی)۔
یہ ہیں ہمارے حکمران ۔ کہ اسراء ومعراج کی سرزمینِ فلسطین اور قبلۂ اول فریاد کررہےہیں ،مگر وہ اس کی فریاد پر کان نہیں دھرتے ،وہ ان سے مددطلب کررہے ہیں ، مگر وہ مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتے گویا ان کے کانوں اور آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں...لیکن جب بات ہوتی ہے کفر یہ استعماری ریاستوں کے مفادات کی تکمیل اور نفاذ کی تو یہ ذلیل بن کر دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کواپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے طیارے ،ٹینک اور جنگی کشتیاں اسلام کی ترویج اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لئے حرکت میں نہیں آتے بلکہ بیرکوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ لیکن جب وہ مغربی استعماری طاقتیں کہ جنہیں ایمان والوں سے نفرت ہے،صرف اشارہ ہی کرتی ہیں تویہ حکمران اس وقت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور شیر کی طرح دھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ حکمران اہل وطن کے سامنے توبڑے تکبر سے آتے ہیں ،مگر دشمنوں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں ، اللہ ان کو غارت کرے۔
اے مسلمانو! امریکہ یا برطانیہ کی حمایت کر کے یا ان کے ایجنٹوں میں سے کسی ایک کی حمایت کر کےیمن کو تباہ کن صورتحال سے نہیں نکالا جاسکتا بلکہ یمن کو اس کے عوام اس صورت بچا سکتے ہیں اگر وہ بھر پور قوت کے ساتھ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ کے لئے متحرک ہوجائیں ، دونوں جانب کے جابروں کو ہٹا دیں، ملک کو ان کی خیانتوں سے محفوظ بنائیں اور یمن کو اس کی اصل کی طرف لوٹا دیں یعنی اسے دوبارا ایمان وحکمت کی سرزمین بنا دیں ، جو عقاب کے جھنڈے کو بلند کرے، جو اللہ کے رسول ﷺ کا جھنڈ ا ہے ، اور نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت کی موجودگی میں اللہ کی شریعت کے ذریعے فیصلے کیے جائیں
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾،
"اوراس روز مومن خوش ہوجائیں گے ،اللہ کی مدد سے ،وہ جسے چاہتاہے مدد دیتاہے اوروہ غالب اورمہربان ہے " (الروم : 4-5)
اے مسلمانو! اے یمن والو!حزب التحریر اخلاص اور صدق کے ساتھ آپ سے مخاطب ہے کہ آپ کو امریکہ کے تکبراور ان کے حواریوں کے غرور سے ہرگزخائف نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی برطانوی خباثت اور اس کے حواریوں کی فریب کاریوں سے دھوکہ کھانا ہے۔ یہی دشمن ہیں لہٰذا ان سے محتاط رہو! اور تم اللہ کے دین کی مدد کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔
(إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ)
"یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو یا جو حاضر دماغ بن کر کان دَھرے"(ق:37)