الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

نیشنل ایکشن پلان امریکی ایکشن پلان ہے راحیل-نواز حکومت خلافت کے قیام کی راہ میں روکاوٹ کھڑی کر کے غداری کی مرتکب ہو رہی ہے

آج 16 اپریل 2015 کی صبح ایک بجے دنیا ٹی وی سمیت تین چینلز نے بریکنگ نیوز نشر کی کہ سلمان جگرانوی کو گرفتار کرلیا ہے جس کا تعلق ایک کالعدم جماعت سے ہے اور کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے تحت پہلا مقدمہ درج کرلیا گیاہے۔ جیو نیوز نے ٹِکر نشر کیا کہ حال ہی میں قائم ہونے والے کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ نے سلمان جگرانوی کے خلاف نفرت انگیز مواد تقسیم کرنے پر پہلا مقدمہ قائم کرلیا ہے۔

یہ بات مشہور و معروف ہے کہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کا نظریہ اسلام ہے اور ہر رنگ، نسل، جنس اور مسلک کے لوگ اس میں شامل ہیں۔ حزب التحریر کا شائع کردہ کوئی بھی مواد کسی بھی طرح نفرت آنگیز نہیں ہوسکتا کیونکہ حزب مسلم امہ کی یکجہتی اور اس کو عملی شکل دینے کے لئے ایک خلافت کے قیام کی دعوت دیتی ہے۔اس کے علاوہ حزب اسلام اور امت مسلمہ کے مفاد کے تحفظ کے لئے حکمرانوں کا احتساب اور ان کی غداریوں کو بے نقاب کرتی ہے ۔ چونکہ حکمرانوں کے پاس اپنی غداریوں کے دفاع میں ایک بھی سچی دلیل  موجود نہیں تو اب انہوں نے سیاسی اختلاف رائے اور احتساب کو "نفرت انگیز" اور "دہشت گردی" قرار دینا شروع کردیا ہے تا کہ مسلمان رسول اللہﷺ کے اس قول پر عمل کرنا ہی چھوڑ دیں کہ بہترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔

سلمان جگرانوی کو نام نہاد نفرت انگیز مواد کو تقسیم کرتے ہوئے نہیں بلکہ 13 اپریل 2015 کو شام 5:30 بجے رائے ونڈ میں موجود ان کے مشہور خاندانی مطب، جگرانوی دواخانہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی گرفتاری کی رپورٹ پولیس ہیلپ لائن 15 پر کردی گئی تھی۔ یہ حقیقت ہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہےکہ راحیل-نواز حکومت کی ایجنسیوں نے اس بات کو جانتے ہوئے کہ ان کے پاس حزب کے خلاف کاروائی کرنے کا کوئی اخلاقی، قانونی اور سب سے بڑھ کر اسلامی جواز موجود نہیں جو انہوں نے ایک صریح جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ لیکن اس بھی بڑھ کر افسوس ناک بات یہ ہے ایک بار پھر میڈیا کے کچھ اداروں نے اپنی اخلاقی، پیشہ وارانہ اور اسلامی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا اور حکومتی ایجنسیوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کو پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالا جبکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،


إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا
"اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو" (الحجرات:6)۔

لیکن خبر چلانے والے میڈیا ہاوسز نے حزب سے اس خبر کی سچائی جاننے کے لیے رابطہ نہیں کیا جبکہ جگرانوی خاندان کا تو گھر ہی کئی میڈیا ہاوسز کے پڑوس میں واقع ہے۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان امریکی ایکشن پلان ہے۔ اس حقیقت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ چونکہ امریکہ خلافت کے قیام سے خوفزدہ ہے اس لیے کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے تحت پہلا مقدمہ حزب التحریر کے خلاف درج کیا گیا ہے جو خلافت کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق صرف سیاسی و فکری جدوجہد کرتی ہے ۔ انشاء اللہ امریکہ اور راحیل-نواز حکومت خلافت کے قیام کو روک نہیں سکیں گے کیونکہ یہ رسول اللہﷺ کی بشارت ہے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کا وعدہ ہے کہ وہ موجودہ ظالم حکمرانوں کو ہٹائے گا۔ حزب التحریر تمام تر مشکلات کے باوجود ظالم حکمرانوں کے سامنے مضبوطی سے کھڑی رہے گی اور امت کی نظروں میں باعزت رہے گی کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،


وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
"اور آخری کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں" (الاعراف:128)

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

یمن کا بحران یہ امریکہ ہی ہے جو راحیل-نواز حکومت کو یمن اوراِس  جیسے کسی بھی بحران میں فوجیں بھیجنے یا نہ بھیجنے کا حکم دیتا ہے

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ  منور محمد غرغاش کے بیان کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ "یہ بیان دھمکی آمیز، ناقابل قبول اور پاکستانی قوم کی توہین  ہے"۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے یمن کے بحران میں غیر جانبدار رہنے کی قرارداد منظور کرنے کے بعد انوار غرغاش نے پاکستان کو سنگین نتائج سے "خبردار" کیا تھا ۔ پاکستان اور اماراتی وزراء کی بیان بازی دونوں ریاستوں کی جانب سے سیاسی شعبدہ بازی ہے تا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے جرائم پر پردہ ڈال سکیں۔ دونوں ممالک کے وزراء کا ہدف یمن کے حوالے سے عوام میں پائی جانے والی غیر واضح صورتحال کو اپنے اصل عزائم پر پردہ ڈالنے  اور استعماری ریاستوں کے مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے استعمال کرنا  ہے۔

 

یمن کا حالیہ بحران امریکہ اور برطانیہ کے درمیان اس کشمکش کا نتیجہ ہے جس کے تحت دونوں اس اہم اسٹریٹیجک ملک کو اپنے اپنےحلقہ اثر میں رکھنے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔ برطانیہ اور اس کا ایجنٹ یمن کا صدر منصور الحادی امریکہ اور اس کے ایجنٹ حوثیوں کو اقتدار میں حصہ دینے سے انکار کررہے ہیں۔ ایک  پاور شیرنگ  معاہدے کے ذریعے حوثیوں کو اقتدار میں لانے کے لئے امریکہ نے سعودیہ کو حکم دیا کہ وہ بمباری شروع کریں تا کہ  بحران پیدا ہو  اور یمنی صدر اور اس کے آقا برطانیہ پر یمن میں پاور شیرنگ معاہدے میں شامل ہونے کے لئے دباؤ پیدا ہوسکے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے امریکہ نے خطے میں موجود اپنی ایجنٹوں کو متحرک کیا اور انہیں  مختلف کردار سونپ دیے۔ سعودیہ اور مصر  کو فوجی کردار ادا کرنے کو کہا جبکہ ایران، پاکستان اور ترکی کو "غیرجانبدار ثالث کار" کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری دی گئی تا کہ یمن کے اقتدار کی بندربانٹ کے لئے خطے کی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔   اور اگر مستقبل میں امریکہ پاکستان کے کردار کو تبدیل کردیتا ہے اور اسے یمن فوج بھیجنے  اور مصر کی طرح فوجی اتحاد میں شمولیت کا حکم دیتا ہے تو ہم دیکھیں گے کہ یہی حکومت اپنے امریکی آقاوں کا حکم پورا کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوگی اور افواج کو فوجی اتحاد میں شمولیت کے لئے بھیج دے گی۔

 

یمن کے بحران میں راحیل-نواز حکومت وہی کردار ادا کررہی ہے جو امریکہ نے اس کے لئے مختص کیا ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے مسلسل ایک سال تک لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے ہونے والی جارحیت پر کوئی بے عزتی محسوس نہیں کی تھی۔ یہ وہی حکومت ہے جو قبائلی  علاقوں میں پوری قوت کے ساتھ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے اور فوجی آپریشنز اور امن مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امریکی قبضے کو مستحکم کررہی ہے۔ اور یمن کے بحران میں بھی یہ پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے آقا امریکہ کی جانب سے دیا گیا کردار ادا کررہی ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اس حکومت کو مختلف تنازعات میں فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کا حکم دیتا ہے۔

 

حزب التحریرغدار حکمرانوں کی امریکی غلامی  اور اسلام اور مسلمانوں سے غداری کی مذمت کرتی ہے۔ ہم افواج میں موجود اسلام سے محبت کرنے والے افسران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان حکمرانوں اور ان کے جھوٹ سے خبردار رہیں۔ یہ صرف امریکہ کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ کسی بھی بحرانی صورتحال کو مخلص شخص ایک زبردست موقع کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ غدار اور بزدل ناکامی تسلیم کرلیتے ہیں۔ پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان آپ کو ایک اسلامی فوج کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ امت کو  موجودہ بحرانی  صورتحال سے نکال سکتے ہیں۔ اے بہادر اور اسلام سے محبت کرنے والے فوجی افسران! آگے بڑھو اور پاکستان کو  دوسری خلافت راشدہ کا نقطہ آغاز  بنانے کے لئے حزب التحریرکو نصرۃ فراہم کرو تا کہ تمہاری سربراہی ایک نیک خلیفہ کرے جو تمہاری قوت کو اللہ کے حکم کے  مطابق مشرق وسطیٰ کی ہیت  کو تبدیل کرنے کے لئے استعمال کرے  اور مسلمانوں کو ایک امت اور ایک ریاست  میں تبدیل کردے۔ آگے بڑھو اور حزب التحریرکو نصرۃ فراہم کرو تا کہ تم بھی وہی عزت و مقام حاصل کرو جو صلاح الدین ایوبی نے حاصل   کی تھی اورقبلا اول کو یہود کے قبضے سے نجات دلاؤ۔ اے افسران!حزب التحریرتمہیں دنیا اور آخرت کی بھلائی کی جانب بلاتی ہے تو کیا تم جواب نہیں دو گے؟

يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ ٱسْتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ ٱللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ ٱلْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

"اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جبکہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی جانب بلاتے ہوں۔ اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی آدمی اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جیا کرتا ہے اور بلاشبہ تم سب کواللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے"(الانفال:24)۔

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

Read more...

پاکستان کو  امریکی ہیلی کاپٹروں اور اسلحے کی ترسیل کا معاہدہ امریکی اسلحہ خطے میں امریکی مفادات کو پوراکرنے کے لئے خریدا جارہا ہے


8 اپریل 2015 کو تقریباً تمام پاکستانی اخبارات نے ایک ارب ڈالر کے امریکی حملہ آور وائیپر  ہیلی کاپٹروں اور ہیل فائر میزائیلوں کی خریداری کی خبر کو شائع کیا۔  اس بات کو خود امریکی انتظامیہ نے واضح کیا کہ پاکستان کو یہ اسلحہ بیچنا امریکہ کے قومی مفاد میں ہے اور امریکہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہ ہو۔  امریکی ڈیفنس کارپوریشن ایجنسی نے اس سودے کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ "یہ سودا امریکہ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے لئے سود مند ہوگا کیونکہ اس کے ذریعے اس ملک کی سیکورٹی بہتر ہو گی جو جنوبی ایشیا میں امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہداف کے لئے انتہائی اہم ہے۔۔۔۔اس صلاحیت کے حصول کے بعد پاکستان شمالی وزیرستان، فاٹا اور دیگر دوردراز  پہاڑی علاقوں میں،ہر قسم کے موسم اور دن ہو یا رات، آپریشن کرسکے گا"۔


یقیناً امریکہ پاکستان کا دشمن ہے  اور اس حقیقت کو پاکستان کے عوام اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کو پاکستان کے مفاد میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی اس کو شش میں وہ سب سے زیادہ اس دلیل کو استعمال کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی سیاسی و فوجی امداد کے بغیر بھارت کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ لیکن امریکی ڈیفنس کارپوریشن ایجنسی کا بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کی فوجی صلاحیت میں اضافے کا مقصد صرف امریکی مفادات کا حصول ہے۔  ماضی میں بھی امریکہ نے جب بھی پاکستان کو اسلحہ فراہم کیا ہے تو اس کا مقصد خطے میں کمیونسٹ روس کے اثرورسوخ کو روکناتھا  اور 11/9 کے بعد اسلام کے خلاف جنگ ہے۔ یہ بات بھی ہر خاص و عام جانتا ہے کہ چند سال قبل پاکستان کو فراہم کیے جانے والے F-16لڑاکا طیاروں میں امریکہ نے خصوصی کوڈز لگا رکھے ہیں تا کہ وہ جب چاہے واشنگٹن سے ایک بٹن دبا کر انہیں اپنی مرضی کے خلاف استعمال ہونے سے روک سکے۔  حالیہ اسلحے کے سودے میں بھی اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے  کہ یہ اسلحہ صرف امریکہ کی مرضی کے مطابق ہی استعمال ہو، اسی لیے 9 اپریل کو امریکی دفتر خارجہ  نے کہا کہ " ہمارے پاس  کئی ذرائع ہیں جن کے ذریعےبیچے جانے والے اسلحے کے استعمال کی نگرانی کی جاتی ہے"۔


راحیل-نواز حکومت مسلمانوں کی اس عظیم و شان فوج کو امریکی  مفادات کے حصول کے لئے استعمال کررہی ہے۔یہ حکومت  خطے میں امریکی مفادات کے حصول کے لئے پاکستان کے معاشی و فوجی وسائل کو بے دریغ استعمال کرتی ہے اور ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کے مقدس خون کو  قربان کردیتی ہے لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لئے جہاد کرو  اور مسلمانوں کو بھارت کے ظلم وستم سے نجات دلاؤ تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران پر لازم ہے کہ وہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں  سے اس قوم کی جان چھڑائیں اور خلافت کے قیام کے لئےحزب التحریر  کو نصرۃ فراہم کریں۔ پھر خلافت مسلم افواج کی عظیم قوت کو صرف اسلام اور امت مسلمہ  کے مفاد کے لئے حرکت میں لائے گی جس کے ذریعے یہ امت اور افواج عظمت کے اس مرتبے پر فائز ہو سکیں گے جس کی یہ امت اور افواج حقدار ہیں۔ لہٰذا آپ حرکت میں آئیں اور حکمرانوں کی غداریوں کا خاتمہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ،


لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُرْفَعُ لَهُ بِقَدْرِ غَدْرِهِ، أَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِيرِ عَامَّةٍ
"قیامت کے دن ہر غدار کے لئے ایک بڑا جھنڈا ہوگا جو اس کی غداری کے مطابق بلند ہوگا۔ یقیناً حکمران کی غداری سے بڑھ کر کوئی غداری نہیں" (مسلم)


شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں یمن میں افواج کو بھیجنے  کے خلاف مظاہرے کیے مسلم افواج کو یمن نہیں بلکہ بیت المقدس  آزاد کروانے بھیجو

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے  یمن میں افواج کو بھیجنےکے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے۔مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ :" مسلم افواج کو یمن نہیں بلکہ بیت المقدس  آزاد کروانے بھیجو " ، " مسلمانوں کا اتحاد -صرف بذریعہ خلافت "۔

پاکستان کے عوام  ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ جب  کبھی اور جہاں بھی اسلام ، رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی ہو یا  مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہوں تو پاکستان کی مسلم افواج کو اپنی اسلامی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے حرکت میں آنا چاہیے۔ لیکن یہ غدار حکمران ہی ہیں جو ہمیشہ  ایسی صورتحال میں اپنے آقا امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں اور اس کی جانب سے اجازت نہ ملنے کی صورت میں اسلامی ذمہ داری کی ادائیگی سے بچنے کے لئے بہانے تلاش کرتے ہیں اور پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں۔

حزب  یہ سوال کرتی ہے  کہ  جب یہودی وجود فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتا ہے تو اس وقت یہ حکمران حرکت میں کیوں نہیں آتے، مسلمانوں کا قبلہ اول پانچ دہائیوں سے یہودی وجود کے قبضے میں ہے لیکن یہ حکمران حرکت میں نہیں آتے، شام کے مسلمان چار سال سے مسلم افواج کو پکار رہے ہیں کہ ہمیں بشار کے ظلم و ستم سے بچاؤ لیکن دو لاکھ مسلمانوں کے قتل ہو جانے کے باوجود یہ حکمران حرکت میں نہیں آتے، کشمیر کے مسلمان تقریباً تین دہائیوں سے ہندوستان کے ظلم و ستم کے خلاف  جدوجہد کررہے ہیں اور لاکھوں جانوں اور ہزاروں عصمتوں کو لٹا چکے ہیں لیکن یہ حکمران حرکت میں نہیں آتے۔ لیکن جب امریکہ کا حکم آتا ہے تو یہ حکمران   یمن میں  فوجیں بھیجنے کے لئے فوراًتیارہوجاتے ہیں۔

مظاہرین  نے افواج پاکستان کے مخلص افسران سے  مطالبہ کیا کہ وہ  اللہ  سبحانہ و تعالٰی کے احکام کے مطابق نصرۃ فراہم کر کے خلافت کا قیام عمل میں لائیں تا کہ وہ ڈھال قائم ہوسکے جس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع ہوتا ہے اور صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی سے مسلم علاقوں  میں خانہ جنگی اور فتنہ و فساد کا خاتمہ  اور قبلہ اول سمیت تمام مقبوضہ علاقوں کی آزادی ممکن ہے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

حوثیوں‬ نے ‫حزب التحر‬ کے رکن کو " فیصلہ کن طوفان" آپریشن کو بے نقاب اور اس کی مذمت کرنے والے پمفلٹ کو تقسیم کرنے پر گرفتار کر لیا ؟!!

حوثی ملیشیا نے صوبہ عمران کے ضلع ریدہ میں ہمارے بھائی مطہر احمد الراشدی کو گرفتار کرلیا ہے جن کی عمر 43 سال ہے اور جو کہ اسی ضلع کے ایک اسکول کے پرنسپل ہیں۔ مطہر احمد الراشدی کو ان کے گھر سے پیر30 مارچ2015 کو گرف ری تار کیا گیا پھر ان کو صوبے کے مرکز روانہ کردیاکیا گیا۔ ان کی گرفتاری حزب کے پمفلٹ تقسیم کرنے کے بعد ہوئی جس کا موضوع تھا ، "بالآخر ایجنٹ حکمرانوں کے طیارے حرکت میں آگئے..... مگر دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنےکے لئے!" پمفلٹ میں لکھا ہے کہ " حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنےکے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئےحالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب واقع ہے!اس کاروائی کے لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ حرم شریف پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطریہ حکمران حرکت میں نہیں آتے!ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے، یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن قابض بنے بیٹھے ہیں!"۔


حوثی اور بعض دوسری سیاسی قوتیں اس پمفلٹ سے بوکھلا اٹھے جو حزب نے شائع کیا تھا حالانکہ یہ صرف حق کی للکار تھی جس میں کسی حکمران،جماعت یا گروہ کی چاپلوسی نہیں کی گئی تھی۔ حزب نے اپنے طویل سیاسی سفر کے دوران ایک خیر اندیش اور تنبیہ کرنے والی جماعت کا کردار ادا کیا ہے جو مغرب کی سازشوں،اس کے آلہ کار حکمرانوں اور ان کے پہلو بہ پہلو چلنے والوں اور ان کے گود میں پلنے والوں کو بے نقاب کرتی رہتی ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ حزب معاملات کو صرف شریعت کی نظر سے دیکھتی ہے اور وہ ہمیشہ اپنا موقف اسی کے مطابق اختیار کرتی ہے ۔ وہ چپقلش کے دونوں فریقوں کو بد بودار گروہی تعصب کے عینک سے نہیں دیکھتی جس کو مغرب مسلمانوں کے درمیان ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے بلکہ حزب کے تجزئیے اور واقعات پر گہری نظر ہو تی ہے اور وہ صورت حال کا درست نقشہ پیش کرتی ہےلیکن یمن تنازعے کے دونوں فریق کڑوی حقیقت کا سامنا کرنے اور سچی نصیحت سنے کی طاقت نہیں رکھتے۔


حزب نے اپنے پمفلٹ میں یمن میں جاری تنازعے کی حقیقت اور اس کے ایجنٹ فریقین کی حقیقت کو واضح کیا اوریہ بتا یا کہ یہ بین الاقوامی انگلو امریکن(امریکہ اور برطانیہ کی) کشمکش ہے۔ پمفلٹ میں کہا گیا کہ "امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیااور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پرحوثیوں کے ساتھ اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔۔۔۔یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے تھے سوائے اس کے کہ علی صالح اور اس کے حواریان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی آثار دکھائی دے رہے ہیں"۔ پھر حزب نے اپنے پمفلٹ میں " فیصلہ کن طوفان" کے نام سے حوثیوں پر حملے کی حقیقت کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ "جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم کر پارہے ہیں اور نہ ہی وہ شمال میں اپنے مرکزکی طرف واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں۔ پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے ۔۔۔ جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے اس نے صورتحال کو واضح کردیا ہے۔ سعودی عرب نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ سے مشاورت کی ، اورامریکہ کے ایجنٹ ہی اس آپریشن میں پیش پیش ہیں یعنی سعودی عرب کا شاہ سلمان اورمصر کا جنرل سیسی ۔ جہاں تک باقی خلیجی ریاستوں اور اُردن ومراکش کا تعلق ہے تو ان کا کردار زیادہ تر سیاسی ہے ، ان کا رویہ برطانیہ جیسا ہے، کہ برطانیہ امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، تا کہ یہ نظر آئے کہ وہ بھی متحرک ہے اور عنقریب ہونے والے مذاکرات میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہو اور اس طرح جو بھی حل سامنے آئے اس کے نتیجے میں طاقت کے مراکز میں اس کا بھی اثرو رسوخ موجود رہے۔اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں یمن کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور اسے جنگ کی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یمن مستحکم اور خوشحال تھا جب اس کی پاک مٹی پر ایجنٹوں اور استعماری کفار کے ناپاک قدم نہیں پڑے تھے"۔


ہم یہ جانتے ہیں کہ تحریکوں میں مخلص کار کن بھی ہیں جو بس اسلام کا نام ہی استعمال کرتی ہیں اور حوثی بھی ایسے ہی ہیں، لیکن بین الاقوامی موقف اور ایجنٹ حکمرانوں کی حقیقت کے بارے میں جانے بغیر صرف اخلاص ہی کافی نہیں ہوتا۔ اگر حوثی اور یمن میں تنازے کے فریقین کو ایجنٹ کہنا برا لگتا ہے تو وہ اس لفظ کے اصطلاحی معنی کو دیکھیں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ایجنٹ وہ ہو تا ہے کہ جو دشمن کے منصوبوں کو کامیاب بنائے چاہے وہ اس حقیقت کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ ان سب کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حزب التحریرکے جوان اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنے رب کے وعدے کو پانے کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ یا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اپنے دین کو غالب کردیں گے یا وہ اپنی گردنیں کٹوالیں گے ۔ان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ حزب ہی اس امت کی امیدوں کی محور اور اللہ کے اذن سے اس کے قائدین اور اس کو یکجا کرنے والے اور اس کی صفوں کو سیدھی کرنے والی ہے۔ وہی اس امت کے اندر سے فرقہ واریت کو ختم کرے گی اور دشمنوں کو رسوا کرے گی، اسلام کے اقتدار کو بحال،کلمہ حق کو بلند اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرتی رہے گی۔ یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ لہٰذا تم فورا ً مطہر الراشدی اور ہر اس شخص کو آزاد کرو جس کو تم نے ظلم سے گرفتار کیا ہے۔


﴿وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾
" اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کر تا "(آل عمران:57) ۔


ولایہ یمن میں حزب التحریرکا میڈیاآفس

Read more...

‏حزب‬ التحریرکے خلاف ‫‏راحیل_نواز‬ حکومت کا عدالتی جبر گرفتاریاں اور طویل قیدو بند ‫‏خلافت‬ کے قیام کو روک نہیں سکتیں

منگل 31 مارچ 2015 کو لاہور ہائیکورٹ کے بینچ نے تین ماہ تک تاریخوں پر تاریخیں دیتے رہنے کے بعد حزب التحریر کے 12 شباب کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔ ان بارہ شباب کو 5 دسمبر 2014 کے دن لاہور گلبرگ سے ایک اسلامی درس کی محفل سے گرفتار کیا گیا تھا۔
راحیل-نواز حکومت حزب التحریر اور اس کے شباب کو خلافت کے قیام کی جدوجہد سے روکنے کے لئے برطانوی سامراجی عدالتی نظام کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ نظام بنا ثبوت اور جرم کو ثابت کیے بغیر بے گناہ اور معصوم لوگوں کو سالوں قید میں بند رکھنے کا قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔ چار ماہ سے گرفتار ان افراد کے خلاف نہ تو مقدمہ شروع کیا گیا ہے اور نا ہی انہیں ضمانت فراہم کی جارہی ہے۔ تین ماہ تک تاریخیں دیتے رہنے کے بعد جب عدالتی بینچ نے استغاثہ سے مبینہ جرم کے حوالے سے ثبوت دیکھانے کا مطالبہ کیا تو اُس درس میں رکھی ہوئی حزب التحریر کی کتابیں پیش کی گئی لیکن بینچ نے ان کتابوں کو ایک نظر دیکھے بغیر ہی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔ حزب کی تمام کتابیں اسلام کے عقائد سے لے کر نظام ہائے زندگی تک صرف اور صرف قرآن و سنت پر مبنی ہیں اور آج تک کوئی یہ ثابت نہیں کرسکا کہ ان کے پڑھنے اور پڑھانے سے اسلام کی نہیں بلکہ نفرت، فرقہ واریت یا دہشت گردی کی ترویج ہوتی ہے۔
یہ بارہ شباب معاشرے کے معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اعلٰی تعلیم یافتہ اور اس معاشرے کے نگینے ہیں جو ایک طرف اپنے تعلیمی و کاروباری صلاحیتوں سے معاشرے کو فائدہ پہنچاتے آرہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خلافت کے قیام کے لئے رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے سیاسی و فکری جدوجہد کررہے ہیں جس کا قیام پوری امت پر فرض ہے اور جس کے ذریعے سے امت ذلت و رسوائی کی دلدل سے نکل کر ایک بار پھر عزت و مرتبے کے مقام پر فائص ہو گی۔


حزب التحریر راحیل-نواز حکومت کو بتا دینا چاہتی ہے کہ تمھاری کوئی کوشش خلافت کے قیام کو کسی صورت روک نہیں سکتی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا وعدہ ہے اور ان کا وعدہ سچا ہے۔ لہٰذا جو کوئی اس وعدے اور بشارت کو روکنے کی کوشش اور ظالموں کی معاونت کرتا ہے درحقیقت وہ انتہائی بدقسمت ہے۔ حزب التحریر یہ یاد دہانی کروا کر صرف حجت تمام کر رہی ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس وعدے کو روکنے اور اس وعدے کی تکمیل کے لئے کام کرنے والوں پر ظلم کرتے ہیں اور ظالموں کی معاونت کرتے ہیں وہ یہ جان لیں کہ جب خلافت قائم ہو جائے گی تو وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے اور جب وہ روز قیامت اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے تو ان کا خسارہ تو اس دنیا کے خسارے سے بھی شدید ہوگا۔
لہٰذا حزب التحریر اور اس کے شباب پوری قوت سے خلافت کے قیام کی جدوجہد کرتے رہیں گے اور اللہ کے حکم سے خلافت قائم ہو کر رہے گی۔ تو اے ظالموں اور ان کی معاونت کرنے والوں! تم اپنا زور لگا لو اور حزب التحریر اور اس کے شباب اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس جدوجہد سے کسی صورت تائب نہیں ہوں گے۔


إِنَّ ٱللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ
"اللہ اپنا کام پورا کر کے رہے گا" (طلاق:3)


شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

بالآخر ایجنٹ حکمرانوں کے طیارے حرکت میں آگئے..... مگر  دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنےکے لئے!  

اقوامِ متحدہ کے لئے سعودی سفیر عادل الجبیر نے جمعرات کی صبح 26 مارچ 2015 کو یمن کے حوثیوں کے خلاف عسکری آپریشن کا اعلان کردیا ۔ اس  آپریشن کے دوران فضائی کاروائیوں میں حصہ لینے والا اتحاد دس ممالک  پر مشتمل ہے،  جس میں عمان کے سواء  باقی تمام خلیجی ممالک  شامل ہیں ۔ سعودی سفیر نے واضح کیا کہ سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے قبل امریکہ سے مشاورت کی تھی۔ مصر کے وزیر خارجہ نے  اس آپریشن میں شرکت کا اعلان کیااور بتایا کہ چار  مصری بحری جہاز  خلیجِ عدن کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ جبکہ سوڈانی مسلح افواج کے ترجمان نے   اعلان کیا  کہ"اپنی اسلامی ذمہ داری کی بنیاد پر سوڈان اس(حملے) میں شرکت کرے گا۔ہم  ایسی صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے جبکہ مسلمانوں کے قبلہ اور وحی کے نزول کی سر زمین پر خطرات  کے بادل منڈلا رہے ہوں"۔

 

یوں بجائے یہ کہ حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنےکے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئےحالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب  واقع ہے!اس کاروائی کے  لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ   حرم شریف  پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی  دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن  حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطریہ  حکمران حرکت میں نہیں آتے!ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے،  یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں  اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن  قابض  بنے بیٹھے ہیں!

 

ہر صاحب بصیرت شخص  جانتا ہے کہ یمن میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ امریکہ اور  اس کے  حوثی حواریوں اور ان کے ہمنوا ؤں اوردوسری طرف برطانیہ اور اس کے حواریوں ہادی،عبد اللہ صالح اور  ان کے ہمنواؤں کی باہمی کشمکش ہے ،جیسا کہ ہم نے اس معاملے کے متعلق سابقہ دستاویزات میں لوگوں پر یہ  واضح کیا تھا کہ"حقیقت یہ ہے  کہ یمن میں جاری جنگ دوفریقوں کے درمیان ہورہی ہے: فریق اول امریکہ ،اس کے حواری اور ایجنٹ  اورفریقِ ثانی برطانیہ ، اس کے حواری اور ایجنٹ ۔ دونوں فریق  اپنے اپنے وسائل اور  اسالیب استعمال کررہے ہیں  .... امریکہ یمن میں حوثیوں  کی مادی قوت ، جنوبی علاقوں میں جاری  تحریک اور ایران کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھارہا ہے اور مذاکرات کے میدان میں یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیرجمال بن عمرکو استعمال کر تا ہے۔جبکہ برطانیہ اپنی سیاسی مکاری کو بروئے کار لاتا ہے اورامریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت کے طور پر ہادی  اور اس کی صدارت کو استعمال کررہا ہے اور اس بات کو یقینی بنارہاہے کہ کوئی امریکی حواری طاقت کے اہم مراکز میں سے کسی پربھی قابض نہ ہوسکے ۔ساتھ ہی ساتھ برطانیہ نے بذاتِ خود علی صالح  اور اس کے آدمیوں کو  حوثیوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی تا کہ اگر ہادی اپنے مقصد میں ناکام ہوجائے اور حوثی  اقتدار پر قابض ہو جائیں  تب بھی برطانیہ علی صالح کے ذریعے اقتدار کے کچھ حصے پر  قابض  رہ سکے ۔یہ ہے یمن کی صورتِ حال کی حقیقت ۔چونکہ برطانیہ اب پہلے کی طرح  یمن پر اپنی بالادستی قائم رکھنےکے قابل نہیں رہا ،جبکہ دوسری طرف  وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں  کا عسکری طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہ اپنے ایجنٹ ہادی اور علی صالح کے ذریعے  سیاسی مکاری پر ہی بھروسہ کرتا ہے،جنہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیاہے "(یکم اکتوبر 2014) ۔

 

امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے  طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیااور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پرحوثیوں کے ساتھ  اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں  ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے  صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن  تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔ یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ  پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے  تھے سوائے اس کے کہ  علی صالح اور اس  کے حواریان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں  تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں  تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی  آثار دکھائی دے  رہے ہیں ۔ پس عوامی نیشنل کانگریس ، جس کی سربراہی سابق یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کررہا ہے،  نے اعلان کیا کہ "حوثی ملیشیا کی تحریک  ، حوثیوں  کی جانب سے جنوبی صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش اور ملک کی قانونی اتھارٹی کے خلاف بغاوت کرنے کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے "۔  عوامی  کانگریس پارٹی کے پولیٹیکل آفس  کی جنرل کمیٹی کی طرف سے بیان دیا گیا کہ "یمن میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ بعض دھڑوں کے درمیان  اقتدار کی کشمکش  ہے، اور نیشنل کانگریس کا اس سے دور ونزدیک کا کوئی واسطہ نہیں"(العربیۃ26 مارچ 2015)۔ عوامی نیشنل کانگریس کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا حالانکہ کل تک وہ اس صلح یاجنگ میں حوثیوں کی حلیف تھی! اور یہ  کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی  کہ اگرمستقبل میں حوثیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے  تو عوامی کانگریس دوبارہ حوثیوں  کی اتحادی بن جائے۔ اِن  ایجنٹوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت کے لحاظ سے اپنے آقا کے تیار کردہ کردار کے مطابق اپنےرنگ بدل لیتے ہیں!کیا ہی برا اُن کا یہ چلن ہے...!

 

جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی   حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم  کر پارہے ہیں  اور نہ ہی وہ  شمال میں اپنے مرکزکی طرف  واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے  انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار  ہوجائیں۔  پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور  دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا  اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں  امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے۔

 

جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے اس نے صورتحال کو واضح کردیا ہے۔  سعودی عرب  نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ   سے مشاورت کی ، اورامریکہ کے ایجنٹ ہی اس  آپریشن میں پیش پیش  ہیں یعنی سعودی عرب کا شاہ سلمان اورمصر کا جنرل سیسی ۔  جہاں تک باقی خلیجی ریاستوں اور اُردن ومراکش  کا تعلق ہے تو ان کا کردار زیادہ تر سیاسی ہے ، ان کا رویہ برطانیہ جیسا ہے، کہ برطانیہ امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، تا کہ یہ نظر آئے کہ وہ بھی متحرک ہے اور عنقریب ہونے والے مذاکرات میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہو  اور اس طرح جو بھی حل سامنے آئے اس کے نتیجے میں طاقت کے مراکز میں اس کا بھی اثرو رسوخ موجود رہے۔اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ،  جس کے نتیجے میں  یمن کی  صورتحال مزید غیر مستحکم  ہو سکتی ہے اور اسے  جنگ کی آگ  میں دھکیل سکتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یمن    مستحکم اور خوشحال تھا جب اس  کی پاک مٹی پر   ایجنٹوں اور استعماری کفار کے ناپاک قدم نہیں  پڑے تھے۔

 

اے مسلمانو! یہ ہیں ہمارے حکمران ۔ یہ  حکمران ہی  وہ سب سے بڑی  مصیبت ہیں کہ جس سےآج  ہم دوچار ہیں۔ اگر ہم نے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ان کے ظلم وستم سے نجات کے لیے  کوشش نہیں کی تو یہ ہمارے لئے مزید تباہی و بربادی کا باعث بن جائیں گے۔ ہمارے ذخائر لوٹے گئے ،ہمارا خون بہایا گیا ،جبکہ ہم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےاس قول کواپنے سامنے نہیں رکھا کہ :

 

﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾،

" ڈرو اس فتنے سے جس کا شکار صرف وہ لوگ نہیں ہوں گے جو تم میں سے ظالم ہیں ، اور جان لو کہ اللہ کا عذاب شدید ہے"

 

اور آپ ﷺ کے اس ارشاد کو بھی کہ

«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ظَالِمًا، فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ»

"بے شک جب لوگ کسی کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں ، تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گھیر لے"(ترمذی)۔

 

یہ  ہیں ہمارے حکمران ۔  کہ  اسراء ومعراج کی سرزمینِ فلسطین اور قبلۂ اول  فریاد کررہےہیں ،مگر وہ اس کی فریاد پر کان نہیں دھرتے ،وہ ان سے مددطلب کررہے ہیں ، مگر وہ مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتے گویا ان کے کانوں  اور آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں...لیکن جب بات ہوتی ہے کفر یہ  استعماری ریاستوں کے مفادات کی تکمیل اور نفاذ کی تو یہ    ذلیل بن کر دوڑتے ہوئے  آتے  ہیں اور اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کواپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے طیارے ،ٹینک اور جنگی کشتیاں  اسلام کی ترویج اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لئے حرکت میں نہیں آتے بلکہ بیرکوں میں پڑے رہتے ہیں ۔  لیکن جب وہ   مغربی استعماری طاقتیں کہ جنہیں ایمان والوں سے نفرت ہے،صرف  اشارہ ہی کرتی ہیں تویہ حکمران اس وقت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور شیر کی طرح دھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ حکمران اہل وطن کے سامنے توبڑے تکبر  سے  آتے ہیں ،مگر دشمنوں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں ، اللہ ان کو غارت کرے۔

 

اے مسلمانو! امریکہ یا  برطانیہ کی حمایت کر کے یا ان کے ایجنٹوں میں سے کسی ایک کی حمایت کر کےیمن کو  تباہ کن صورتحال سے نہیں نکالا جاسکتا  بلکہ یمن کو اس  کے عوام اس صورت  بچا سکتے ہیں اگر وہ  بھر پور قوت کے ساتھ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی  اور اس کے رسول ﷺ کے لئے متحرک ہوجائیں ، دونوں جانب کے جابروں کو ہٹا دیں،   ملک  کو  ان کی خیانتوں سے محفوظ بنائیں  اور یمن کو اس کی اصل کی طرف لوٹا دیں یعنی اسے دوبارا ایمان وحکمت کی سرزمین بنا دیں ، جو عقاب کے جھنڈے کو بلند کرے، جو اللہ کے رسول ﷺ کا جھنڈ ا  ہے ، اور نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت کی موجودگی میں اللہ کی شریعت کے ذریعے فیصلے کیے جائیں

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾،

"اوراس روز مومن خوش  ہوجائیں گے ،اللہ کی مدد سے ،وہ جسے چاہتاہے مدد دیتاہے اوروہ غالب اورمہربان ہے " (الروم : 4-5)

 

اے مسلمانو! اے یمن والو!حزب التحریر اخلاص اور صدق کے ساتھ آپ سے مخاطب ہے کہ آپ کو امریکہ کے تکبراور ان کے حواریوں کے غرور سے  ہرگزخائف نہیں ہونا چاہئے  اور نہ ہی  برطانوی خباثت  اور اس کے حواریوں کی فریب کاریوں سے  دھوکہ کھانا ہے۔  یہی دشمن ہیں  لہٰذا  ان سے محتاط رہو!   اور تم اللہ کے دین کی  مدد کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔

 

(إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ)

"یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو یا جو حاضر دماغ بن کر کان دَھرے"(ق:37)

Read more...

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک بے مثال بین الاقوامی خواتین کانفرنس بعنوان "عورت اور شریعت :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے" منعقد کررہا ہے

ہفتہ 28 مارچ 2015 کو مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک شاندار اور بے مثال بین الاقوامی خواتین کانفرنس "عورت اور شریعت :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے"کے عنوان سے منعقد کررہا ہے۔ یہ شاندار کانفرنس مختلف براعظموں کے پانچ ممالک : فلسطین، ترکی، تیونس، اینڈونیشیا اور برطانیہ میں منعقد کی جارہی ہے جس میں دانشور خواتین شریک ہوں گی۔ یہ کانفرنس الیکٹرانک ہالز میں منعقد کی جائیں گی جنہیں ایک دوسرے سے منسلک کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں کسی بھی ایک مقام پر ہونے والی تقریر دیگر تمام مقامات پر براہ راست دیکھی اور سنی جاسکے گی۔ ان پانچ مقامات کے علاوہ اردن سے بھی ایک تقریر براہ راست نشر کی جائے گی۔ یہ کانفرنس دنیا بھر کے عوام کے لئے بھی براہ راست نشر کی جائے گی۔ شرکاء میں خواتین صحافی، سیاست دان، وکیل، دانشور اور مختلف تنظیموں کی نمائندگان شامل ہیں۔ یہ کانفرنس چھ ہفتے پر مشتمل ایک عالمی مہم کا اختتام ہو گی جس کے دوران ایک زبردست سوشل میڈیا مہم چلائی گئی، بین الاقوامی میڈیا سے رابطہ کیا گیا اور دنیا بھر میں خواتین سے بات چیت کی گئی۔

کانفرنس میں جن موضوعات پر بات چیت کی جائے گی وہ یہ ہیں: بین الاقوامی یا شرعی قوانین کو مسلم دنیا میں خواتین کے حقوق کا تعین کرنا چاہیے؟؛ کیا اسلامی نسوانی تحریک خواتین کے مقام کو بہتر بنانے کا راستہ ہے؛ میڈیا کی جانب سے خواتین اور شریعت کے متعلق بنائے گئے تصوارت کو ختم کرنا؛ اسلام کے معاشرتی نظام کی فطرت؛ خلافت میں اسلامی قوانین کے تحت خواتین کا مقام؛ اور حقیقی سیاسی تبدیلی میں خواتین کا کردار۔ اس کانفرنس میں عالمی سطح پر مسلم خواتین میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بڑھتی حمایت اور حزب التحریر کی خواتین کا خلافت کے قیام میں کردار پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر منعقد کی جارہی ہے جب کئی مسلم ممالک میں یہ بحث شدید ہوتی جارہی ہے کہ کیا خواتین کے حقوق کا بہترین تحفظ سیکولر نظام کے تحت ممکن ہے یا سلامی نظام کے تحت۔ اس کے علاوہ حالیہ سالوں میں سیکولر سیاست دانوں، نسوانی حقوق کے لئے کام کرنے والی خواتین اور لبرل میڈیا کے کچھ حصوں نے خواتین کے اسلامی لباس، مردوں کی ایک سے زائد شادیوں، وارثت کے قوانین، مرد و خواتین کے درمیان اختلاط کی ممانعت، شادی شدہ عورت کے حقوق و فرائض پر شدید حملے کیے ہیں اور انہیں جابرانہ ، ظالمانہ اور خواتین کے خلاف امتیازی بنا کر پیش کیا ہے۔ اس صورتحال نے مشرق و مغرب کے مختلف معاشروں میں بحث کے دروازے کھول دیے ہیں کہ کیا خواتین سے متعلق شرعی قوانین کو تبدیل کیا جانا چاہیے؟ سیکولر حضرات کی کئی نسلوں نے شریعت کے خلاف اس قسم کے حملے کیے ہیں جس میں جھوٹ کی زبردست آمیزش شامل ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شریعت عورت کے لیے غلامی، اس کے مقام کو گرانے اور جبر کا باعث ہے۔ ان تمام باتوں نے ایک خوف پیدا کردیا ہے کہ آنے والی ریاست خلافت میں خواتین کا کیا مقام ہوگا؟ اس کانفرنس کا یہ ہدف ہے کہ ان غلط تصورات کو مسترد اور ریاست خلافت میں اسلامی قوانین کے تحت عورت کے اصل اور صحیح مقام ، حقوق اور کردار کو واضح کیا جائے۔ یہ کانفرنس خواتین سے متعلق خاص احکامات پر لگائے جانے والے الزامات کو غلط ثابت کرے گی اور اُن بنیادوں، اقدار کو بھی بیان کرے گی جو اسلام کے معاشرتی نظام کی انفرادیت ہے اور کس طرح یہ منفرد قوانین خواتین، بچوں، خاندانی زندگی اور معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کا مقام کے زیر انتظام اس ماہ ہونے والے عالمی سیشن میں عالمی رہنماوں نے 1995 کے بیجنگ علامیہ کی بیسویں سالگرہ منائی گئی جس میں انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ مرد و عورت کے درمیان برابری کے قیام کے لئے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں گے۔ ہماری کانفرنس نسوانیت اور مرد و عورت کے مابین برابری کے مغربی تصورات کو چیلنج کرے گی اور کیا یہ تصورات واقعی خواتین کو ظلم سے نجات اور ایک اچھی زندگی فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ کانفرنس اس بات پر روشی ڈالی گی کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر قائم ہونے والی ریاست خلافت راشدہ کے قوانین، نظام اور ادارے آج مسلم دنیا کی خواتین کو درپیش سیکڑوں مسائل کو کس طرح حل کرتے ہیں۔ ہم میڈیا میں موجود اُن تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ عورت کے لئے ایک محفوظ، مثبت اور باعزت مستقبل پیدا کیا جائے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں اور اس اہم کانفرنس کو رپورٹ کریں۔

ایڈیٹر حضرات کے لئے نوٹ: یہ کانفرنس ہفتہ 28 مارچ 2015 کو گرینچ مین ٹائم کے مطابق صبح 9:30 پر شروع ہو گی۔ مرد و خواتین صحافیوں کے لئے ایک پریس کانفرنس اُسی دن جکارتہ کے وقت کے مطابق شام 3:30 پر آئی پی بی انٹرنیشنل کنونشن سینٹر، ای ایف میٹنگ روم، بوٹانی اسکوائر بلڈنگ دوسری منزل، جے آئی، پاجاجارن، بوگور-جاوا بارت16127، انڈونیشیا میں ہو گی۔ کانفرنس میں صرف خواتین کو ہی شرکت کی اجازت ہوگی۔ پریس معلومات کے لئے اس ویب سائٹ سے رابطہ کرے: This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.. ۔ یہ کانفرنس www.htmedia.info پر براہ راست دیکھی جاسکتی ہے۔ مہم فیس بک صفح: https://www.facebook.com/womenandshariahA

ڈاکٹر نسرین نواز
مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر شعبہ خواتین

Read more...

سوال کا جواب شام کے حوالے سے تازہ ترین سیاسی پیش رفت

سوال :

یہ خبر شائع ہو چکی ہے کہ امریکہ اور ترکی نے نام نہاد معتدل اپوزیشن  کے عناصر کو تربیت دینے کے معاہدے پر دستخط کر دئیے۔۔۔کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ بشار کا متبادل  تلاش کر لینے کے قریب پہنچ گیاہے اور اسی لیے  وہ اس کی مدد کے لئے فضائی قوت کے ساتھ ساتھ مناسب زمینی قوت بھی تیار کر رہا ہے؟یا یہ کہ وہ معتدل عناصر کی صرف تربیت کے ذریعے  ایک دوسال تک وقت کو ٹالنا چاہتا ہے ،یہاں تک کہ  امریکہ متبادل تلاش کرلے ؟دوسرے الفاظ میں  کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ متباد ل قریب ہی ہے اور اس لیے اُس کی مدد کی تیاری کر رہا ہے، یا متبادل دور ہے  اس لیے معتدل عناصر کی تربیت کے ذریعے  متبادل کی فراہمی تک وقت کو ٹال رہے ہیں ؟اللہ آپ کو بہترین جزا دے ۔

 

جواب :

جواب کو واضح کرنے کے لیے ہم امریکی موقف  اور خطے کے ممالک کے ساتھ  اس کی سرگرمیوں کی وضاحت کریں گے:

1 - اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا تھا کہ "ہم شام میں معتدل اپوزیشن کی حمایت اس لئے کر رہے ہیں تا کہ شام کے ساتھ ساتھ ہر جگہ انتہا پسندانہ آئیڈیالوجی کے خلاف جدوجہد اور لوگوں کو اس کے خلاف کھڑا کرنے کی کوششوں کو تقویت حاصل ہو۔ان کوششوں کے لیے وقت اور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے"۔  مزید کہا کہ "سمندر پار   بڑی تعداد میں زمینی فوج  بھیجنے کی بجائے امریکہ  جنوبی ایشیاء سے شمالی افریقہ  تک پھیلے ہوئے ممالک  کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہوں سے محروم کرنے پر کام کررہا ہے  جو امریکہ کے لیے خطرہ  ہیں"۔ ((https://www.whitehouse.gov/the-press-office/2015/01/20/president-obamas-state-union-address-prepared-delivery 20/01/2015)

 

اس بیان سے  واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ خطے میں بڑی قوت بھیج کر سابقہ تجربہ دہرانا نہیں چاہتا، بلکہ خطے کے ممالک  کو استعمال کرتے ہوئے  خطے کے لوگوں کے ذریعے ہی  ایک نام نہاد معتدل  قوت تشکیل دینا چاہتا ہے جس کی وہ پشت پناہی کرے گا اور امریکی اہداف کے حصول کے لیے اس کو استعمال کرتا  رہے گا۔امریکی صدر نے  اس کو ایک سیاسی لکیر کے طور پر واضح کیا  ہے جس پر اس کے ملک کی خارجہ پالیسی گامزن  ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ خطے میں اسلام کی حکمرانی کی واپسی،اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے اور وسائل کو لوٹنے کے لیے کوئی بڑی زمینی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا،لیکن وہ  اسلام کے خلاف اپنی  اس جنگ میں خود مسلمانوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے،اس لیے وہ  مخصوص امدادی کاموں یا تربیت کے لیے  یا پھر خاص آپریشنز کے لئے محدود بری فوج بھیجتا   اور  فضائیہ کے ذریعے شریک ہو تا ہے۔

 

2 - امریکہ نے نام نہاد معتدل اپوزیشن  یعنی اپنے ماتحت لوگوں کی تربیت کا فیصلہ گزشتہ سال کی گرمیوں میں ہی کر لیا تھا ، جس کا اعلان گزشتہ سال موسم خزاں میں  کیا گیا تھا۔امریکی صدر اوباما نے 13 جون 2013 کو  اس اپوزیشن کو مسلح کرنے کے لیے  خفیہ کاروائیوں  کی منظوری  دی تھی اور اس عمل  کو سی۔آئی۔اے  کے ذریعے  کروایا جانے گااور اس  کا اعلان 20 ستمبر 2014 کو یہ کہہ کر کیا کہ ،"واشنگٹن   امداد دینے کے لیے  براہ راست عملی   اقدامات شروع کر چکا ہے جس میں شام کی اپوزیشن  کی عسکری امداد بھی شامل ہے  تاہم یہ نئی کوششیں  شام  کی اپوزیشن  کے جنگجوں کی تربیت اور ان کو جنگی آلات کی فراہمی  کی گارانٹی ہیں تا کہ وہ طاقتور ہوں  اور شام کے اندر  دہشت گردوں  کا راستہ  روکیں" (اے اے پی 20 ستمبر 2014 )۔ اور " کانگریس  نے بھی 18 ستمبر 2014کو صدر اوباما کے منصوبے کی منظوری دی" ۔ امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف  جنرل مارٹن ڈیمپسی نے وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ "اگر  میدان جنگ کے قائدین نے  مجھ سے یا وزیر دفاع سے  عراقیوں یا شام کی نئی افواج  کی مدد کے لیے اسپیشل فورس بھیجنے کا مطالبہ کیا  اور ہمیں لگا کہ یہ ہمارے اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے  تو ہم صدر باراک اوباما سے اس کا مطالبہ کریں گے " (سکائی نیوز 5 مارچ 2014 )۔

 

امریکہ نے پہلے شام کی  صورت حال کو قابو کر نے کے لیے مذاکرات کے رستے کو اختیار کیا تھا جیسے جنیوا 1 اور 2 اور وہ اس قسم کی قوت تشکیل دینے پر مجبور نہیں ہواتھا، اسی لیے اُس نے  انقلابیوں کی نمائندگی کرنے کے لیے  اتحادی کونسل تشکیل دی  لیکن یہ  کونسل شامی عوام  میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکی اور نہ ہی  شام میں   اس کی کوئی قوت موجود تھی،اس لیے یہ طریقہ کار ناکام  ہو گیا ۔اس ناکامی کے بعد  امریکہ نے اپنے ماتحت ایک قوت تیار کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ذریعے  وہ ان مذاکرات کاروں کے موقف کو تقویت پہنچائےگا  جیسے یہ اصل انقلابیوں کے نمائندے ہیں۔  اسی لیے امریکہ نے ایک ایسی  معتدل شامی قوت کو تیار کرنے کے منصوبے کو قبول کیا  جس کو وہ خود تربیت دے گا تا کہ اس کے ذریعے  وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکے  اور اس کے ذریعے ہی اُس کے منصوبوں کو مسترد کرنے والے انقلابیوں  کے خلاف جنگ کرسکے ناکہ اس کا مقصد حکومت سے لڑنا ہوگا۔شام  کی حکومت ،  اس کے آس پاس موجود لوگ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ تمام امریکہ کے ایجنٹ ہیں،لیکن اہل شام اور وہ انقلابی جو اس حکومت کے خلاف  اٹھ کھڑے ہوئے  وہ امریکہ کے ساتھ نہیں، بلکہ وہ اس کے خلاف ہیں، اسی لیے امریکہ   ایسی فورس اور ایجنٹ تیار کرنا چاہتا ہے جو حکومت میں تو نہ ہوں  لیکن  انہیں زمین پر ایک قوت بنا کر نئے مذاکرات   میں انقلابیوں کا نمائندہ بنا کر بٹھانا چاہتا ہے۔ وہ  شامی حکومت میں موجود اپنے موجودہ ایجنٹوں کو اس وقت تک ہٹا نا نہیں چاہتا جب تک اس کو اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ اب  کوئی اور ایسا متبادل تیار ہے جو معاملات کو قابو کرنے اور تحریک کو دبانے پر قادر ہو۔

 

3 - امریکہ  ترکی میں اپنے وفادار حکومت کے ساتھ  اس حوالے سے اتفاق رائے تک پہنچ چکا ہے ۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ  "میں اس بات کی یقین دہانی کرا سکتی ہوں کہ ہم نظریاتی طور پر ترکی کے ساتھ اس اتفاق رائے تک پہنچ چکے ہیں کہ شامی اپوزیشن جماعتوں کو تربیت دی جائے اور ان کو مسلح کیا جائے"۔مزید کہا کہ "جیسا کہ  پہلے بھی ہم یہاں اعلان کر چکے ہیں کہ  ترکی نے اس کی حامی بھری ہے کہ وہ خطے میں  شام کی معتدل اپوزیشن  قوتوں کو تربیت دینے اور مسلح کرنے والے ممالک کے میزبانوں میں سے ایک ہو گا۔ہم  عنقریب ترکی کے ساتھ معاہدے کے انجام پانے اور اس پر دستخط کرنے کی توقع کرتے ہیں"(سکائی نیوز17 فروری 2015)۔ یہ اتفاق رائے  30 امریکی فوجی افسران پر مشتمل وفد کے  انقرہ کے دورے اور مذاکرات  کے بعد سامنے آیا  اور امریکی وزارت دفاع نے اعلان کر دیا کہ وہ  400 فوجی اپوزیشن کو تربیت دینے کے لیے سعودیہ،ترکی اور قطر بھیجے گا۔ سیکریٹری خارجہ جان کیری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا  کہ "ہماری ٹیم  سعودیوں کے ساتھ  مل کر تربیت اور مسلح کرنے کے اس پروگرام کی  تیاری کر رہی ہےاور یہ  اندازہ لگا رہی ہے کہ  ہمیں تربیت کاروں کی تیاری اور اس سے متعلقہ کن چیزوں کی ضرورت ہے "۔  چیف آف سٹاف مارٹن ڈیمپسی نے کہا تھا کہ "اس پروگرام  کی تیاری کا مرحلہ 3 سے 5 مہینے لے گا  اور شام کی معتدل اپوزیشن کے  5000 جنگجوں کی تربیت میں 8 سے 12 مہینے لگیں گے تا کہ وہ الدولۃ تنظیم سے لڑیں اور اس کے بعد بشار حکومت سے "(اناتولیہ 16 اکتوبر 2014 )۔ دفتر  خارجہ کی ترجمان ماری ہاروی نے 10 اکتوبر 2014 کو کہا  کہ، " ترکی نے معتدل شامی اپوزیشن کو تربیت دینے اور تیار کرنے کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا ہے" (رائٹرز10 مارچ 2014 )۔  یوں خطے کے ممالک خواہ سعودیہ ہو یا ترکی یا کوئی اور  شام  کی صورت حال سے  بڑی تشویش میں مبتلا ہیں۔  خطے کے ممالک چاہتے ہیں کہ شام  کی یہ صورت حال ختم ہو کیونکہ وہ اس سے متاثر ہو رہے ہیں، اسی لیے وہ امریکہ سے تعاون کررہے ہیں،معتدل اپوزیشن  قوت تیار کرنے کی سوچ کی حمایت کررہے ہیں، ساتھ ہی مختلف شکل میں انقلابیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں اور یہ سب کچھ اس تحریک کے تمام مخلص لوگوں پر ضرب لگانے اور کسی بھی اسلامی  منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ہے۔

 

4 - اسی بنیاد پر گزشتہ مہینے ترکی اور امریکہ  نے اس پر رسمی طور پر دستخط کر دئیے۔  امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 19 فروری 2015 کو دستخط کے دن کہا  کہ "میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج شام انقرہ میں اس معاہدے پر دستخط ہو گئے"اور دستخط کرنے والے ترکی کے معاون وزیرخارجہ فریدون سینیر لی اوغلو اور انقرہ میں امریکی سفیر  جون باس تھے۔ اناتولیہ نیوز ایجنسی نے 19 فروری 2015 کو ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلو کا یہ بیان نقل کیا کہ "دونوں ممالک پہلے ہی اس معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کے تحت شامی اپوزیشن کی تربیت کی جائے گی اور یہ اپوزیشن  داعش  اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ساتھ شام کی حکومت  سے لڑیں گی"۔ اس نے مزید کہا "ہم فائر بندی کو خوش آمدید کہیں گے چاہے یہ صرف چھ ہفتوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو"۔ اخبار ترکی نے 20 فروری 2015کو ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلوا کا یہ بیان نقل کیا  کہ"اس معاہدے کا مقصد  شام  میں جنیوا اعلامیے کی بنیاد پر حقیقی سیاسی تبدیلی  کو لانا ہے اور اپوزیشن کو ان کی جنگ میں مضبوط کرنا ہے جیسا کہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور ان تمام عناصر  کے خلاف جو اپوزیشن کے لئے خطرہ ہیں "۔  ترک وزیر خارجہ نے قطر اور سعودیہ کی جانب سے شام کی اپوزیشن  کی اپنی سرزمین پر تربیت اور تیاری کی میزبانی  کرنے  کا بھی تذکرہ کیا۔ رائٹرز نے 19 فوری 2015 کوتین امریکی عہدیداروں  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جنہوں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی تھی کہ " ممکن ہے کہ تربیت مارچ کے وسط میں شروع ہو  اور یہ کہ و ہ تین سال تک   ہر سال 5000 شامی جنگجوؤں کی تربیت کریں گے جو کہ شام  کی معتدل اپوزیشن  کی حمایت کے منصوبے کے مطابق ہے"۔  یوں ترک وزیر خارجہ کھل کر اعلان کرتا ہے کہ ان قوتوں کو تربیت دینے کا مقصد  جن کو وہ معتدل اپوزیشن کہتے ہیں  جنیوا کی بنیاد پر سیاسی تبدیلی  اور ان عناصر پر ضرب لگانا ہے  جو اس سیاسی تبدیل کو مسترد کرتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں۔

 

5 - پس  امریکی منصوبوں کو بے نقاب اور ان  کی مخالفت کرنے والی قوتوں  پر ضرب لگانے کے بعد ہی متبادل آئے گا جن کا زمین پر وزن موجود ہوگا اور  پھر ایجنٹ قوت کو معتدل اپوزیشن کے نام پر اُن کی جگہ لایا جائے گا۔  اس پروگرام کی تکمیل کے لیے تین سال درکار ہیں ، تب ہی متبادل تیار ہو گا۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ متبادل فی الحال تیار نہیں اور اس وقت عملی مذاکرات نہیں ہورہے ہیں۔  زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ  پہلے ان قوتوں پرضرب لگائی جائے گی جن کو وہ انتہا پسند قرار دے رہے ہیں  یا کم ازکم ان کو غیر فعال کیا جائے گا  جس سے  اُن کا اثر زائل ہو گا اوراس کے لیے انہوں نے اپنے اندازوں کے مطابق تین سال مقرر کیے ہیں،ہر سال 5000 ۔۔۔اس مہینے کےشروع میں اردوگان کا سعودیہ کا دورہ اسی سلسلے میں تھا۔  خبروں کے مطابق شام  ہی ان کے درمیان بحث کا موضوع تھا اورظاہری بات ہے کہ  بات چیت معتدل اپوزیشن  کو مضبوط  کرنے  اور آنے والے متبادل  کی حمایت کے حوالے سے تھا جو کو امریکہ نامزد کرے گا۔اخبار ترکی نے 2 مارچ 2015  کو ترک صدر کے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ "سعودی فرمانروا سلمان بن عبد العزیز نے پیر2 مارچ 2015 کو دارالحکومت کے شاہی محل میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان سے ملاقات کی۔ دونوں نے شام  کی اپوزیشن کو  دی جانے والی مدد میں اضافے  کی ضرورت پر زور دیا تا کہ  اس کا اچھا نتیجہ  بر آمد ہو"۔ یعنی یہ دو نوں ممالک  سعودیہ اور ترکی جو کہ امریکہ کے وفادار ہیں معتدل اپوزیشن کی سوچ کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دونوں     اچھے  نتائج کے لیے مل کر  ایڑھی چوٹی کا زور لگائیں گےاورایسا نہیں ہو گا جو کونسل کے ساتھ ہوا  کہ جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اورجس کی ناکامی کی وجہ سے اب اس قوت کو وجود میں لانے کی ضرورت پڑی۔ کیونکہ یہ دونوں  امریکہ کے ساتھ مل کر  یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی قوت تیار کیے بغیر جس کا زمین پر کنٹرول ہو  اور وہ یہ دعوی کرتی ہو کہ وہ انقلابیوں کی نمائندگی کر تی ہے  یہ کسی قابل ذکر حل تک نہیں پہنچ سکتے  بلکہ ناکام  ہو جائیں گے، لہٰذا اس کے بعد ہی متبادل کے موضوع پر مذاکرات ہو سکتے ہیں اور جنیوا کی طرح کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔

 

6 - امریکہ کے طریقہ کار  میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ  جن انقلابیوں کا  کنٹرول ہے، جنگ بندی کے ذریعے   ان  کے کنٹرول کا خاتمہ کیا جائے اور  اپنی منتخب قوتوں  کو مشقوں کا موقع دیا جائے تاکہ وہ  غیر معتدل "انتہا پسندوں " کو شکست دینے کے قابل ہوسکیں اور ان کی جگہ لیں۔  ساتھ ہی حکومت کے خلاف جنگ بندی سے  مختلف گروپ آپس میں  لڑیں گے جو ان کی کمزوری  اور پھر شکست کا سبب بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی منصوبے کے مطابق  لڑائی کو منجمد کرنے کے نام پر جنگ کو روکنا  ضروری ہے تا کہ   اُن کی جگہ معتدل قوتوں کو  لاکر  حکومت اور معتدل اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا آغاز کیا جاسکے۔  امریکہ نے اقوام متحدہ کے نمائندے ڈی میسٹورا  کے زبانی یہ بات کی ہے جو بنیادی طور پر اسی کا نمائندہ  اور اس کے منصوبے کا عالمبردار ہے۔ڈی میسٹورا نے دمشق کے دو روزہ دورے  کے بعد کہا  کہ"صدر اسد حل کا حصہ ہے ،میں اس کے ساتھ گفت وشنید کروں گا۔ وہ اب بھی شام  کا صدر ہے۔۔۔ اور اب بھی شام کے بڑے حصے پر شامی حکومت کا کنٹرول  ہے"۔  اس  نے کہا کہ "واحد حل سیاسی حل ہی ہے  معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں صورت حال  کا فائدہ  الدولۃ الاسلامیۃ تنظیم  کو ہو گا" (اے ایف پی 13 فروری 2015 )۔  یوں امریکہ نے ڈی میسٹورا کی زبانی بشار کے صدر ہو نے کا اعتراف کیا   اوریہ کہ اس  کے ساتھ  مذاکرات اور سیاسی حل چاہتا ہے اور اسی لیے اپنے ایجنٹ بشار کے خلاف لڑائی روکنا چاہتا ہے۔ یہ اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ  جب امریکہ ان قوتوں کو لانے کے بعد جو مذاکرات کرے گا اُن میں بشار  کے انجام کا فیصلہ ہو گا لیکن ابھی اس کی قسمت کا فیصلہ  نہیں ہوگا۔  اس لیے امریکہ جنگ رکوانے  اور اپنے ماتحت معتدل قوتوں کو  حاوی کرنے سے پہلے بشار کو گرانا نہیں چاہتا ،اس کے بعد ہی متبادل  کو پیش کیا جائے گا  اور معتدل اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات ہوں گے۔

 

7 - خلاصہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ متبادل تیار ہے اور بشار کے دن گنے جا چکے ہیں بلکہ وہ اس مرحلے میں اقتدار میں رہے گا  یہاں تک کہ مذاکرات نئے سرے سے شروع نہ ہو جائیں  اور صورت حال  کے لیے کوئی فارمولا طے  نہ کیا جائے۔ جن معتدل قوتوں کو لانے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں  وہ  مختصر مدت میں تیار نہیں ہو سکتی  بلکہ اس میں کم ازکم ایک سال لگے گا، یعنی 5000 کو تربیت دینے کے پہلے مرحلے کے بعد ۔۔۔پھر لڑائی روک کر  ان تیار کی ہوئی قوتوں کو  اندر قدم جمانے کے قابل نہ بنا دیا جائے جس کی ابتدا  انتہاپسند تحریکوں سے مڈبیر سے ہو گی  اس کے بعد ہی  حکومت میں اپنے ایجنٹوں  اور معتدل اپوزیشن نامی اپنے ایجنٹوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کر ے گا ، یہاں پہنچ کر متبادل کی تجویز اور حکومت کی تشکیل  کے بارے میں فریقین  کے درمیان ساز باز کرائی جائے گی۔

 

یہ تو امریکہ ، اس کے پیرو کاروں کے  اور اس کے اتحادیوں  کے منصوبوں کے مطابق ہے ، یہ ان کی سازشیں اور چالیں ہیں۔۔۔ لیکن اللہ کے دین کے بھی ایسے جوان مرد ہیں جنہوں نے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے، جو اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ مخلص ہیں، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سچے ہیں ، اللہ  سبحانہ وتعالٰی کے  وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی خلافت راشدہ کے قیام کے بارے میں بشارت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے  تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں جو اس ملک جبری کے بعد ہی ہو گی جس میں آج ہم زندگی گزار رہے ہیں ۔۔۔ اس وقت ان لوگوں کی سازشیں اور مکر  غبار بن کر ہوا کی نظر ہو جائیں گی

 

﴿وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾

" یہ تو اپنے مکر کر چکے  اور اللہ بھی ان کے مکر کو دیکھ رہا ہے اگرچہ ان کا مکر ایسا ہے کہ اس سے پہاڑ  اپنی جگہ سے ہٹ جائیں"(ابراھیم:46)۔

 

Read more...

‫‏یمن‬ میں بحران افواج ‏پاکستان‬ ‫امریکی‬ سیاسی مفادات اور اُس کی کٹھ پتلیوں کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ اسلام اور خلافت کے لئے مسلم دنیامیں مداخلت کرے

سعودی عرب کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کے ممالک پر مشتمل اتحاد نے 26 مارچ 2015 سے ثناء، عدن اور یمن کے دیگر شہروں میں بمباری کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس میں حوثی تحریک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس اتحاد کو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سعودیہ نے پاکستان سے بھی اس فوجی آپریشن میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ سعودیہ کی جانب سے اس خواہش کے اظہار پر راحیل-نواز حکومت نے فوراً ایک اعلٰی سطحی اجلاس طلب کیا جس میں اس درخواست کا جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک اعلٰی سطحی وفد سعودیہ عرب بھیجا جائے جو صورتحال کا تجزیہ کرے۔ حکومت نے کہا کہ اگر سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدوں کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان کا ردعمل سخت ترین ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بحران بھی مغربی استعماری طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کے حصول کی کوششوں کا ہی حصہ ہے۔ یہ بحران سعودی عرب اور ایران یا سنی و شیعہ کے درمیان مسابقت کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کو کہنا ہے بلکہ یہ بحران امریکہ اور یورپ کے درمیان مسابقت کا نتیجہ ہے جو اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے دور بیٹھ کر اپنی کٹھ پتلیوں کی ڈورے ہلا رہے ہیں۔


سعودی عرب، خلیجی ریاستیں ، اردن اور مصر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ یمن کے لوگوں اور اس کی قانونی حکومت کے تحفظ کے لئے مدد کو آئے ہیں۔ یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جو پچھلے چار سالوں سےبشار کے ہاتھوں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام خاموشی سے دیکھ رہی ہیں، یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جب یہودی وجود غزہ میں خوفناک بمباری کر کے اسکولوں اور مساجد میں پناہ لیے ہوئے مسلمانوں کو قتل کررہا تھا تو یہ مُردوں کی طرح چِت پڑے رہے اور یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے امریکی آشیر باد سے ہونے والی سیسی کی فوجی بغاوت کی حمایت کی۔ اِن حکومتوں کے اس طرز عمل کے بعد کوئی احمق ہی ہوگا جو یمن کے حوالے سے ان کی فکر مندی سے متاثر ہوگا۔

اس صورتحال میں اگر راحیل-نواز حکومت اس اتحاد کا حصہ بنتی ہے تو یہ انتہائی شرمناک بات ہو گی کہ پاکستان کی افواج کو امریکی مفاد کے لئے استعمال کیا جائے ۔ وہ تمام لوگ جو اس منکر کو روک سکتے ہیں وہ اس کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور جو یہ نہیں کرسکتے انہیں اس خیانت کے خلاف آواز کو بلند کرنا چاہیے۔


یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پاکستان آرمی کو دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مسلم دنیا درحقیت ایک ہی ہے۔ مسلم دنیا میں موجود سرحدیں کافر استعماری طاقتوں کی قائم کردہ ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو تقسیم اور انہیں کمزور کرنا ہے۔افواج پاکستان کو مسلم دنیا میں مداخلت کرنی چاہیے لیکن امریکہ کے کہنے پر نہیں بلکہ یہ فیصلہ آزادانہ اور اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم تو یہ ہے کہ افواج پاکستان حزب التحریرکو خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ دیں۔ پھر خلافت مسلمانوں کے وسائل اور افواج کو کافر استعماری طاقتوں کے مفاد میں استعمال ہونے سے روک دے گی اور مسلم دنیا کو ان جنگوں سے نجات مل جائے گی جو ان طاقتوں کے مفادات کے حصول کےلئے ہی بھڑکائی جاتی ہیں۔ خلافت مسلم دنیا کو ایک وحدت بخشے گی جو اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہﷺ کا حکم ہے اور مسلمانوں کی خواہش بھی ہے۔


ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک