الخميس، 24 صَفر 1446| 2024/08/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

"پریونٹ"(باز رکھنا)کا قانون محض ایک زہریلی چھاپ ہی نہیں بلکہ یہ زہریلا منصوبہ ہے جسے چیلنج کرنے کی ضرورت ہے

دارالحکومت کے سابق پولیس کمانڈرڈال بابو نے حکومت کی  انتہاپسندی کو روکنے کی پالیسی 'پریونٹ' (باز رجھنے) کی مخالفت کی اور کہا کہ اس نے  ایک زہریلی شکل اختیار کرلی ہے، جسےبرطانیہ کے مسلمان شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔  ان کا یہ تبصرہ  سنڈے ٹیلی گراف  کے اس اعلان کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا جس میں سیکریٹری داخلہ تھریسامے نےانتہا پسندی  کا مقابلہ کرنے والے قوانین کی مدت میں  اضافے  کا اعلان کیا تھا  اور   جس  کا حزب اختلاف  کے عدلیہ کے معاملات کے شیڈو وزیر صادق خان نے پُرجوش خیر مقدم کیا۔  یہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ   "شدت پسندی " کا سب سے زیادہ مخالف ظاہر کرنے کے لئے اب سر کردہ پارٹیوں کے درمیان  گویا جیسے  ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہوگئی ہے۔

تاجی مصطفی  ٰنے،جو برطانیہ میں حزب التحریر کے میڈیا  کے نمائندے ہیں ،نے اس خبر پرتبصرہ کرتے ہوئے  کہا کہ"یہ 'پریونٹ' کا قانون یقیناً ایک زہریلا نشان  ہے۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس کو غلط طور پر نافذ  کیا گیا یا اس کے حوالے سے  غلط فہمی ہوئی ہے ،  بلکہ یہ اپنی بنیاد سے ہی ایک ناقص اور زہر آلود  منصوبہ ہے ، کیونکہ اس کی   بنیاد ایک باطل مفروضے پر رکھی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایک انسان جتنا زیادہ اسلام پسند ہوگا ،اتنا ہی وہ اندرونی طور پر خطرےکا باعث ہو سکتا ہے"۔

"یہ قانون اس مفروضے پر نافذ کیا گیا کہ ایسے  لوگ جو اسلامی اقدار کے حامل ہوتے ہیں یا ریاست  کے نقطۂ نظر کے برعکس  سیاسی رائے رکھتے ہیں، یہی لوگ مشکوک تصور کئے جائیں گے ،چنانچہ ریاست کو چینل پروگراموں کے ذریعے دوبارہ پروگرامنگ کی ضرورت ہے"۔

"اس قانون  میں جان بوجھ کر خارجہ پالیسی کو کلی طور پر نظر انداز کیا گیا ، جب کہ  برطا نیہ کے اندر تشدد کی کاروائیوں کا  خارجہ پالیسی کے ساتھ تعلق  ثابت شدہ ہے"۔

"یہ وہ  پالیسی ہے جس میں  سیاسی اور مذہبی  عقائد  سے نبٹنے کے لئے سیکورٹی  وجوہات  کو دلیل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔  یہ اُس وقت  ہی واضح ہوگیا تھا   جب دسمبر 2014 میں  پولیس چیف سر پیٹر فاہی نے کہا تھا کہ  مجھے خدشہ ہے کہ  پولیس "افکار کی نگرانی کرنے والی پولیس" میں تبدیل ہوجائے گی"۔

"یہ وہ پالیسی ہے جو اکثر جابر ریاستوں میں نظر آتی ہے۔ فاہی نے اپنے  اسی تبصرے میں اشارہ کیا تھا کہ کیونکہ  شدت پسندی کی باریکی سے تعریف نہیں کی گئی تھی  لہٰذا پولیس اپنے طور پروضع کردہ مخصوص تعریفوں کی بنیاد پر کام کرتی رہی۔ اس نے مزید  اپنے خدشات کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ   یہی "پولیس اسٹیٹ" کی طرف بڑھنے کاراستہ ہے"۔

"دہشت گردی کی روک تھام کا موجودہ قانون اور سیکورٹی ایکٹ نے فکری پولیسنگ کا  کام کرنے کی ذمہ داری  استادوں ، نرسری ورکرز، صحت کے شعبےمیں کام کرنے والوں  اور یونیورسٹیوں  پر ڈالی ہے۔   یہ پالیسی 1950 کی میک کارتھیسیزم  کی یاد دلاتی ہے،  بلکہ مشرقی جرمنی کے سٹاسی قوانین کی یاد دلاتی ہے"۔

"حزب التحریر کو اس بات کا احساس  ہے کہ   مسلم کمیونٹی اور بالعموم پورے معاشرے کے سامنے ان   ناپاک ، بے وقعت اور ناقص  ہتھکنڈوں  کو مسلسل بے نقاب کرنا واجب ہے ، اور ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم ایسا ہی کرتے رہیں گے   جیسا کہ ہم  ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں"۔

برطانیہ میں حزب التحریر کا  میڈیا آفس

Read more...

‫چین‬ کا ‫افغانستان‬ میں کردار ‫‏راحیل_نواز‬ حکومت ‫‏امریکی‬ ایما پر افغانستان میں چین کے کردار کی حمایت کررہی ہے


16 مارچ 2015 کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں صلح صفائی اور معاشی تعمیر و ترقی کے لئے چین کے کردار کی حمایت کی۔ حزب التحریرراحیل-نواز حکومت کی جانب سے دور اندیشی سے عاری اس پالیسی کو مسترد کرتی ہے جس کے تحت اُن غیر ملکی طاقتوں سے قوت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کی مسلمانوں سے دشمنی ثابت شدہ ہے اور یہ خصوصیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تمام پانچ مستقل ارکان امریکہ،برطانیہ، فرانس، روس اور چین میں پائی جاتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں اس پالیسی کو اختیار کرنا جب پوری مسلم دنیا اور کئی غیر مسلم اقوام بھی ان پانچ استعماری غنڈوں کے گروپ سے تنگ آئی ہوئی ہیں اور انصاف پر مبنی ایک عالمی قیادت کی شدت سے منتظر ہیں، حکمرانوں کی محدود سوچ و نظر کی واضح مثال ہے۔
پچھلے چند مہینوں سے راحیل-نواز حکومت بہت زرو شور سے افغانستان میں چین کے کردار کی حمایت کررہی ہے تا کہ خطے میں امریکہ کو فراہم کی جانے والی غدارانہ حمایت پر پردہ ڈالا جاسکے کیونکہ اِن کے اس عمل کو پاکستان کی عوام اور افواج پاکستان انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس پالیسی کا مقصد امت کو یہ دھوکہ دینا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار پاکستان و افغانستان سےامریکی اثرورسوخ کو کم کرنا چاہتے ہیں اوراسی لئے چین کو امریکہ کی جگہ لینے میں مدد فراہم کررہے ہیں ۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکے گا اور اس بات کو جاننے کے لئے پاک چین تعلقات کی تاریخ جاننا ہی کافی ہے۔ پچھلے پینتالیس سالوں سے پاکستان کے چین کے ساتھ قریب ترین سیاسی، معاشی اور فوجی تعاون اور تعلقات کے باوجود پاکستان میں آج بھی امریکی اثرو رسوخ سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سفیر تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں سے سب سے زیادہ ملاقاتیں کرتا اور انہیں احکامات دیتا نظر آتا ہے لیکن چین کے سفیر کا کہیں ذکر تک نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ پچھلی تقریباً نصف صدی میں دنیا کی کسی ریاست کو لندن، واشنگٹن، پیرس، بیجنگ یا ماسکو کی کاسہ لیسی کرنے سے دنیا کی طاقت بنے میں کبھی کوئی مدد نہیں ملی۔ یقیناً پانچ کے اس کلب کا کردار استعماری ہے جو کسی دوسری قوم کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان کے مقام کے قریب آسکیں۔


راحیل-نواز حکومت نے کبھی بھی امریکی مفاد کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کی ہے۔ یہ حکومت افغانستان کے امور میں چین کے کردار کی حوصلہ افزائی اس لئے کررہی ہے کیونکہ اس حوالے سے امریکہ اور چین کے مفادات یکجا ہیں۔ افغانستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق وہاں ایک کھرب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ چین کی نازک لیکن تیز رفتارمعاشی ترقی کے لئے یہ معدنی ذخائر انتہائی اہم ہیں، لہٰذا چین افغانستان پر امریکی قبضے کے تسلسل کی حمایت کرتا ہے کیونکہ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) میں خوفناک چینی جبر کے خلاف لڑنے والے ایغوری مسلمانوں کو افغانستان کی پٹی واخان میں موجود مسلمانوں کی حمایت میسر ہے۔اسی لئے چینی وزیر خارجہ ،وانگ یی نے 22 فروری 2014 کو اپنے کابل کے دورے میں کہا کہ "اس ملک میں امن اور استحکام کا مغربی چین پر اثر ہو گا، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سے پورے خطے میں استحکام اور ترقی ہو گی"۔
حزب التحریرپاکستان و افغانستان کے مسلمانوں پر واضح کردینا چاہتی ہے کہ خلافت کے بغیر ، جس کے ذریعے آپ وہ طاقت حاصل کرسکتے ہیں جس کے آپ حق دار ہیں، موجود قیادت میں موجود غدار ہمیشہ انہیں دشمن اقوام کے رحم کرم پر چھوڑتے رہیں گے۔ خلافت مسلمانوں کے علاقوں اور افواج کو یکجا کرے گی ، اسلام کے نفاذ کے ذریعےعظیم قدرتی وسائل کو امت کے مفاد میں استعمال کرے گی اور خطے سے امریکہ سمیت تمام غیر ملکی طاقتوں کے اثرورسوخ کا خاتمہ کرے گی۔ اس کے علاوہ انشاء اللہ خلافت بہت جلد بہت ساری غیر مسلم اقوام کی لئے روشنی کا مینار بن جائے گی جن کی مسلمانوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے، جو خود اِن استعماری طاقتوں کے ظلم و ستم سے تنگ آئی ہوئی ہیں۔ یہ غیر مسلم اقوام دوسری خلافت راشدہ سے معاہدے کرنا چاہیں گی اور ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے جس کے نتیجے میں بل آخر وہ اسلام میں داخل ہوجاتی تھیں۔


وَلاَ تَرْكَنُوۤاْ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ
"اور تم ظالم لوگوں کی طرف مت جھکو، ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی اور اللہ کے علاوہ تمہارا کوئی مدد گار نہیں ہوگا"(ھود:113)


ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

تفسیر سورۃ البقرۃ 120 تا 123

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنْ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمْ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ أُوْلَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْخَاسِرُونَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ وَاتَّقُوا يَوْمًا لاَ تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ.

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان آیات میں فرماتے ہیں:

1-      بے شک یہود ونصاریٰ آپ سے کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے ،جب تک آپ ان کی ملت کی پیروی نہ کریں، چونکہ یہ نہیں ہوگا،کیونکہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین یا ملت تو اللہ کو منظور ہی نہیں،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ( وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ ) "جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں ۔"(آل عمران:85)  إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلاَمُ ( آل عمران:19 ) "بے شک (معتبر )دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے"۔  اس لئے ان یہودیوں اور نصاریٰ کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہدایت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ۔  ان کے موجودہ دین کی اتباع ہدایت نہیں ،جیسا کہ ان کا خیال ہے۔  ان کا دین تو تحریف شدہ  دین ہے اور اس کے اندر بے تحاشا تغیر ات اورتبدیلیا ں کی گئیں ہیں اور اس میں تحریف ہونے کے بعد یہ  ملت ِکافرہ بن چکے ہیں۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ(لئن) لا کر رسول اللہ ﷺ کو قسمیہ انداز میں آگاہ کرتے ہیں، کیونکہ اس میں لام قسمیہ ہے،  آگاہی یہ  دیتے ہیں  کہ خبر دار! اگر تو  نے ان کی خواہشات کی پیروی کی  تو پھر آپ ﷺ کا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا جو اللہ کے عذاب سے بچاؤ فراہم کرے۔   یہ انداز اس بات پر دلالت کرتا ہے  کہ ان کی ملت ،ان کے دین کی حقیقت ، جس کو یہ لوگ بزعم ِخویش ہدایت سمجھے ہوئے ہیں ، بس اتنی ہے کہ یہ ان کی خواہشات ہیں اور حق سے انحراف ہے۔

 

2-       اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ بتاتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ  میں سے جو لوگ صحیح طور پر اپنی کتابوں کی اتباع کرتے ہیں اور ان کے اندر کوئی تحریف نہیں کرتے ، یہ لوگ رسول اللہ ﷺ پر بھی ایمان رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا ذکر ان کی کتابوں میں کیا گیا ہے ،اوریہی وجہ ہے کہ  آپ ﷺ کے منکرین دنیا وآخرت میں گھاٹا پانے  والوں میں سے ہوں گے۔

( يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ ) یعنی اس کی ایسی اتباع کرتے ہیں جیسا کہ اتباع کرنے کا حق ہے،جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ (وَالْقَمَرِ إِذَا تَلاَهَا ) "اور (قسم ہے ) چاند کی جب وہ اس کے پیچھے پیچھے آئے" ( الشمس:2) یعنی سور ج کے پیچھے پیچھے،یا جیسے کہا جاتا ہے کہ ما زلت اتلو اثرہ ،یعنی  میں برابر اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔

 

3-      پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ بنی اسرائیل کے قصے کا اختتام  بھی اس طرح کرتے ہیں جیسے کہ اس کا آغاز کیا تھا ۔  اس کا سبب ان کے گناہوں کی عادت تھی۔ اس لئے فرمایا  (يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي ....)یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت  (وَاتَّقُوا يَوْمًا لاَ تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا .... ) کی دلالت پر ہم نے بنی اسرائیل سے متعلقہ آیات کے شروع میں بات کی تھی ،اس لئے اُسی پر یہاں بھی اکتفا کرتے ہیں اوراس کا اعادہ  کرنے کی ضرورت نہیں۔

Read more...

نیشنل ایکشن پلان‪ امریکی ایکشن پلان ہے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا مقصدنیشنل ایکشن پلان کو غیر جانبدارثابت کرنا ہے

راحیل_نواز‬ حکومت نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن نیشنل ایکشن پلان کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لئے شروع کیا ہے۔ حکومت نے یہ ایکشن اس لئے شروع کیا ہے تاکہ امت کو دھوکہ دیا جاسکے کہ امریکی تحریر کردہ نیشنل ایکشن پلان خصوصاًاُن لوگوں کے خلاف نہیں ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے اسلام کی ترویج اور نفاذ کی کوششوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن کا بنیادی مقصد کراچی میں مسلح جرائم پیشہ افراد یا امریکی جاسوسوں اور قاتلوں کے گرفتاری کے ذریعے امن کا قیام نہیں بلکہ اسلام کے خلاف امریکی جنگ کو غیر جاندار ثابت کر کے عوام کا اعتماد جیتنا ہے۔
جب سے نیشنل ایکشن پلان کا نفاذ شروع ہوا ہے حکومت کی ایجنسیوں نے ملک بھر سے چوبیس ہزار آٹھ سو چوالیس(24844) چھاپوں میں پچیس ہزار آٹھ سو چھیانوے(25896) افراد کو گرفتار کیا ہے۔ تین ہزار نو سو چھ(3906) افراد کو پولیس نے لاوڈ اسپیکر کے قانون کی خلاف ورزی میں گرفتار کیا اور ان میں سے دو ہزار آٹھ سو چوہتر(2874) افراد کو صرف پنجاب سے گرفتار کیا گیا ہے۔ نفرت پھیلانے والی تقاریر کرنے کے الزام میں سات سو سینتیس (737)مقدمات قائم کیے گئے اور اسی الزام کے تحت سات سو پینتالیس(745) افراد کو گرفتار اور انہتر (69)دکانوں کو بند کردیا گیا۔اس کے علاوہ مدارس میں غیر ملکی طلبہ کے داخلے اور مدارس کے لئے بیرون ملک سے آنے والے چندوں، چاہے وہ انفرادی ہوں یا کسی ریاست کی جانب سے،پرپابندی عائد کردی گئی ہے۔


اس صورتحال نے مذہبی جماعتوں اور علماءکرام میں شدید بے چینی پیدا کردی اور انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ اِن تمام اقدامات کا ہدف صرف مذہبی لوگ ہیں جبکہ سیکولر و قوم پرست جماعتوں اور ان کے مسلح دستوں کو کھلی چھوٹ فراہم کی گئی ہوئی ہے۔ 2 مارچ 2015 کو اتحادِ تنظیماتِ مدارس، جو کہ پانچ مذہبی اداروں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے،نے مدارس کے خلاف حکومتی اقدامات کو سختی سےمسترد کردیا ۔ انہوں نے حکومت کے "غیر آئینی" اقدامات کی حمایت کرنے سے بھی انکار کردیا کیونکہ وہ استعماری طاقتوں کے منصوبوں کی پیروی کررہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اسلام کے خلاف امریکہ اور مغرب کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت علماءکرام کی گرفتاریوں اور مساجد میں لاوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کے ذریعے انہیں ہراساں کررہی ہے اور اس طرح اسلام کے خلاف منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارس کے سربراہ نے یہ کہا کہ صرف مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اِن پر چھاپوں کا سلسلہ ایک دن کے لئے بھی روکا نہیں گیا ہے۔


نیشنل ایکشن پلان سے نہ صرف علماء میں شدید ردعمل پیدا ہوا بلکہ پاکستان بھر کے لوگوں میں بھی اس کے خلاف نفرت پیدا ہونی شروع ہوگئی۔ اس قسم کا غصہ حکومت اور واشنگٹن میں بیٹھے ان کے آقاوں کی اسلام کے خلاف جنگ کے لئے خطرناک ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے تا کہ نیشنل ایکشن پلان کو غیر جانبدار ثابت کیا جائے اور یہ کہا جاسکے کہ نیشنل ایکشن پلان تمام قسم کے مجرموں کے خلاف ہے جیسا کہ وزیرِ اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی یہ بیان دیا کہ "کوئی مجرم چاہے کسی مدرسے میں ہو یا کسی سیاسی جماعت کے آفس میں، اسے گرفتار کیا جائے گا اور اگر اس دوران کوئی بھی روکاٹ سامنے آئی تو اسے ہٹا دیا جائے گا"۔


درحقیقت ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ایک دھوکہ ہے۔ اگر یہ حکومت لوگوں کی جان و مال کے تحفظ میں سنجیدہ ہوتی تو اس نے کراچی میں امریکی قونصلیٹ کو بند کیا ہوتا جو کراچی اور اس سے بھی آگے بلوچستان تک لسانی و فرقہ وارانہ نفرتوں کو پھیلانے کا مرکز ہے۔ حکومت نے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے امریکی جاسوسوں کو گرفتار کیا ہوتا جو بم دھماکوں اور قتل و غارت کی وارداتوں کی منصوبہ بندی اور نگرانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پورا پاکستان بدامنی اور افراتفری کی لپیٹ میں ہے۔ اور اگر یہ حکومت سنجیدہ ہوتی تو اس نے تمام امریکی سیاسی و فوجی اہلکاروں کو ملک سے نکال دیا ہوتا جو پاکستان کی قیادت میں موجود غداروں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور انہیں احکامات جاری کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اگر یہ تمام اقدامات اٹھائے جاتے اور عدم تحفط کے سانپ امریکہ کا سر کچل دیا گیا ہوتا تو یہ حکومت حقیقت میں لوگوں کی عزت اور تعریف کی مستحق ہوتی۔ لیکن سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی یہ اقدامات نہیں اٹھائیں گے اور اس طرح پاکستان اور خطے کے عوام کوان غدار حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ایک مستقل امن اور استحکام دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ صرف خلافت ہی اِن ضروری اقدامات کو اٹھائے گی ، مسلمانوں کے علاقوں کو تحفظ فراہم کرے گی اور انہیں بیرونی دشمنوں کے وجود سے پاک کردے گی۔


ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

حزب التحریر کے امیر، ممتاز عالم :عطاء بن خلیل ابو رَشتہ حفظہ اللہ کا منگل 3 مارچ 2015 ءکو استنبول میں  منعقد ہو نے والی خلافت کانفرنس سے افتتاحی خطاب موضوع: صدارتی جمہوری ماڈل یا خلافتِ راشدہ  

سب تعریفیں  اللہ ہی کے لیے ہیں ،درود  و سلام ہو  اللہ کے رسول ﷺپر اور آپ کی آل اور صحابہ رضی اللہ عنھم اور آپ ﷺکے نقش قدم پر چلنے والوں پر؛

محترم حاضرین! اللہ آپ کو اپنی اطاعت کا شرف بخشے،  اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾

"اللہ تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے  جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کیے کہ اللہ ان کو  موجودہ حکمرانوں کی جگہ حکمرانی عطا کرے  گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت سے نواز چکا ہے" (النور:55)،

 

اور آپﷺ نے فرمایا :

 

«... ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَاُ شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»

"پھر جابرانہ حکمرانی کا دور ہو گا جب تک اللہ چاہے گا  پھراللہ اسے اٹھا لے گا جب اس کو اٹھا نا چاہے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے نقشِ قدم  پر خلافت ہو گی"( اس حدیث کو امام احمدبن حنبل  اور طیالسی نے روایت کیا ہے )۔

 

میں چاہتا ہوں کہ اپنی بات کی ابتدا حکمرانی واقتدار کے متعلق اللہ کے وعدے اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت سے کروں کہ یہ جابرانہ دور کہ جس میں ہم رہ رہے ہیں اس کے بعد اللہ کے اذن سے دوبارہ خلافت قائم ہوگی۔ میں ابتدا امید سے کر تا ہوں،   اس المناک صورت حال کا ذکر کرنے سے قبل جس سے امت مسلمہ نوے سال سے زیادہ عرصے سے دوچار ہے۔ 28رجب 1342 ہجری بمطابق مارچ 1924 ء کو  استعماری کفار، برطانیہ کی قیادت میں،  اپنے عرب اور ترک ایجنٹوں کے ذریعے  خلافت کو ختم کر نے میں کامیاب ہوگئے۔  یہ فیصلہ پیر تین مارچ 1924 ء کو انقرہ کی پارلیمنٹ کے دوسر ےاجلاس میں صادر کیا گیا۔   یہ اجلاس  دو پہر3:25 pm سے 6:45 pm  تک جاری رہا  اور خلافت کو ختم کرنے کے ہلاکت خیزفیصلے پر ختم ہوا...حیران کن بات یہ تھی کہ اس فیصلے کے لیے ووٹنگ  خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے نہیں بلکہ ہاتھ اٹھانے کے ذریعے ہوئی ! ممبرانِ  پارلیمنٹ کوخوف و ہراس کی فضاء میں  ہاتھ اٹھا نے پر مجبور کیا گیا تاکہ اس خطرناک کام میں  ہاتھ اٹھانے والے اور نہ اٹھانے والے واضح ہو جائیں!  اس سیاہ دن سے لے کرآج تک امت مسلمہ  اپنی زندگی اور اقوامِ عالم کے درمیان  اپنے مقام کے حوالے سے بحرانوں سے دوچار ہے۔

 

مسلمان  جو ایک امت اور ایک ریاستِ خلافت تھے  اب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر  پچاس سے زیادہ ریاستوں میں تقسیم ہو گئے...پہلے ہمارا دستور  وہ احکامات تھے جو انسانوں کے رب  نے نازل کیا تھا  اب ہم انسانوں ہی کے بنائے ہوئے دستورکے غلام بن گئے۔  پہلے مسلمان  فتوحات پر فتوحات کر کے دنیا کے طول وعرض میں  خیر کو پھیلاتے تھے  اور دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ میں تھی  ،اب  مسلمانوں کے علاقوں کو ہر کونے سے بلکہ  درمیان سے بھی کاٹا گیا !  وہ یہود  جن پر ذلت اور  بربادی  لکھ دی گئی تھی انہوں نے اسراء اور معراج کی سرزمین، فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔  صرف یہی نہیں  بلکہ مسلم دنیا کے حکمرانوں نے  یہودی ریاست کو تسلیم کر لیا   اور اس  کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کر لیے ۔  جب  ایک مظلوم عورت  نے  فریاد کی اور' ہائے معتصم' کی دُہائی بلند کی تو خلیفہ معتصم خود فوج کی قیادت کر تا ہوا اس کی مدد کو پہنچا !  اس عورت کے انتقام میں  عموریہ کو فتح کیا گیا جو کہ آج  انقرہ کے قریب واقع ہے ۔   لیکن خلافت کے خاتمے کے بعد آج روئے زمین  پر مسلم عورت  پر ظلم و ستم اور اس کی عزت کی پامالی  معمول بن گئی ہے اور  اسلامی سرزمین کا کوئی حکمران اُن کی مدد کے لیے نہیں اٹھتا۔  ماضی میں  دنیا کی ریاستیں ہمارے سامنے جھولی پھیلاتی تھیں جیسا کہ  فرانس نے اپنے قیدی بادشاہ کو چھڑانے کے لیے  خلیفہ سلیمان القانونی  سے مدد طلب کی ، جبکہ خلافت کے خاتمے کے بعد ہم اپنے مسائل کو حل کرانے کے لیے استعماری کفار کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگےہیں...

 

محترم بھائیو اور بہنو! اس طرح مسلمان  مصائب اور فتنوں کے نرغے میں آگئے۔مسلمانوں  کے آگے اور پیچھے ہر طرف قتل و غارت  ہی دکھائی دیتی ہے اور وہ حیران و پریشان ہیں !یہ صورتِ حال مسلمانوں کی تعداد یا وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اُن کی ڈھال ان سے چِھن گئی ہے۔   خلیفہ ڈھال کی مانند ہو تا ہے جس کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے اور خلیفہ کی قیادت میں ہی لڑا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 

«...َإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ...»

"بے شک خلیفہ ڈھال ہے جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے اور اور جس کے ذریعے بچاؤ ہو تا ہے"(بخاری)۔

 

اس ڈھال اور آڑ کے زائل ہو نے کے بعد  مسلمان بے یار ومدد گار ہو گئےہیں بلکہ  اُن پر ایسے حکمران مسلط ہوگئے جو اللہ سے نہیں ڈرتےاور اُن  کا کام اپنے استعماری آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرنا  ہے اور لوگوں پر ظلم و جبر کرنا ہے۔

 

﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾

"ظلم کر نے والے عنقریب  جان لیں گے کہ وہ کس  کروٹ  الٹتے  ہیں"(الشعراء:227)۔

 

معززبھائیواور بہنو! خلافت مسلمانوں کی عزت کا سرچشمہ اور  قوت کی علامت ہے  اور  یہ بات استعماری کفار  کے سرغنہ بھی جانتے ہیں ۔   لارڈ کرزن نے خلافت کے انہدام کے بعد برطانوی House of Commons سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا  کہ "معاملہ یہ ہے کہ  ترکی کا خاتمہ  کر دیا گیا ہے   اوروہ اب کبھی دوبارہ اُٹھ نہیں سکے  گا  کیونکہ ہم نے اس کی معنوی قوت  تباہ کر دی ہے : یعنی خلافت اور اسلام "۔ کفارخلافت کی حقیقت سے واقف  ہیں اس لیے انہوں نے خلافت کو ختم کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا  بلکہ وہ اس  کی دوبارہ واپسی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اورانہوں نے اس کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف وحشیانہ جنگ برپا کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب  ساٹھ سال پہلے حزب التحریر قائم ہوئی اور اس نے  خلافت کے مسئلے کو اس انداز سے اختیار کیا کہ یہ امت کے لیے  زندگی   اورموت کا مسئلہ ہے تو یہ غضب ناک ہو گئے ۔   پس استعماری کفار  اور اس کے ایجنٹوں نے   شرانگیزی کا ہر دستیاب اسلوب اختیار کیا ، انہوں نے حزب پر  بہتان باندھے ،حزب کے شباب کو گرفتارکیا،انہیں تشدد کا نشانہ بنایا،حتی کہ انہیں شہیدکیا گیا اور طویل مدت تک قید وبند میں ڈالا گیا...لیکن یہ حربے  ہر لحاظ سے ناکام ثابت ہوئے  اور حزب  اسی طرح میدان میں موجود  رہی  اور اس نے اللہ  کے سوا کسی کے سامنے سر نہ جھکایا۔   بالآخر  استعماری کفار نے  بعض   ایسی اسلامی تحریکوں کے جرائم  سے فائدہ اٹھایا  جنہوں نے غیر شرعی طریقے سے  خلافت کا اعلان کیا ہے اور وہ  ذبح کرنے، جلانے، تخریب کاری اور تباہی و بربادی جیسے غیر اسلامی اعمال سرانجام دے رہے ہیں ...استعماری کفار نے  ان تحریکوں کے جرائم سے فائدہ اٹھا یا،ان پر توجہ مرکوز کی اور ان کے جرائم کو میڈیا پر  خوب اچھالا ۔  تاکہ  مسلمانوں کے دلوں میں خوف پیدا کریں  کہ  جو لوگ خلافت چاہتے ہیں  وہ در اصل  قتل و غارت گری  چاہتے ہیں، اور یوں لوگ حقیقی خلافت سے بھی بیزار ہوجائیں۔  لیکن اللہ کے اذن سے استعماری کفار اپنے سابقہ ہتھکنڈوں میں بھی  ناکام ہوئے تھے اور  اس بار بھی نامراد ہو ں گے ۔  لوگوں کو شرعی خلافت کے بارے میں معلوم ہے  اوروہ حقیقی اورمصنوعی  خلافت میں فرق کر سکتے ہیں۔  خلافت حق ہے کوئی غیر معلوم  اجنبی چیز نہیں...یہ وہ منفرد نظام ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے نافذ کر کے مسلمانوں کے لیے بیان کیا اور  جس پر آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین چلے۔ خلافت بادشاہت یا استعماری نظام نہیں،نہ ہی یہ صدارتی یاپارلیمانی جمہوریت کی مانند ہے،اور نہ ہی یہ آمریت یا جمہوریت ہے،کہ جن میں اللہ کی جگہ انسان قوانین بناتے ہیں اورنہ ہی خلافت  خودساختہ نظاموں کی کوئی اور قسم ہے۔  یہ عدل کی خلافت ہے، اس کے حکمران خلفاء امام ہوتے ہیں جن کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے  اور جن کی قیادت میں جہاد کیا جاتا ہے۔ خلافت اپنے شہریوں کے خون  کی حفاظت کرتی ہے  اور ان کی عزتوں کی رکھوالی کرتی ہے،وہ اموال کا تحفظ کر تی ہے، غیر مسلم شہریوں (اہلِ ذمہ) کے ساتھ امن و تحفظ کے معاہدے کو پورا کرتی ہے۔  وہ رضامندی اور اختیار سے بیعت لیتی ہے زبردستی اور جبر سے نہیں، لوگ ہجرت کر کے اس کے سائے میں تحفظ حاصل کرتے ہیں، اس سے متنفر ہو کر بھاگتے نہیں ہیں۔

 

اے حاضرین،  اے بصارت اور بصیرت والو، اے عقل کے حامل بھائیو اور بہنو! اے مسلمانوں کی ڈھال اور پناہ گاہ  ،خلافت ،کے نہ ہونے کی وجہ سے درد محسوس کرنے والے لوگو! اس گناہِ عظیم کو اپنی گردنوں سے اتار دو، خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے  دنیا پر اسلامی زندگی  کی واپسی کے لیے کام کرو ۔  اس فرض کی ادائیگی  کے لیے   کام نہ کرنا  گناہِ عظیم ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 

«... وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»

"جو کوئی بھی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا" (مسلم)؛

 

یعنی  شرعی طریقے  سے مقرر ہونے والے خلیفہ کی بیعت۔  اس لیے  مرد  و عورت، عوام اور خواص سب اخلاص اور سچائی سے  خلافت کے قیام کے لیے کام کریں، بے شک یہ عظیم کامیابی کا موجب ہے۔

 

آخر میں میں  آپ کو یاد دہانی کرواتا ہوں اور  اطمینان دلاتا ہوں : یاد دہانی اس بات کی کروا تا ہوں کہ یہ شہر  جہاں آپ کی  یہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے  یہی شہر  قسطنطنیہ میں سے سب سے پہلے فتح ہوا تھا،پھر یہیں سے  افواج قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے نکلتی تھیں جنہیں خلیفہ ایشیاء سے روانہ کرتا تھا۔ اس شہر میں ان افواج کے فوجی کیمپ ہوتے تھے اور وہ اس کی بندر گاہ  سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے یورپ کی سمت نکلتی تھیں اور اس کا محاصرہ کرتی تھیں۔  ایسا کئی بار ہوا یہاں تک کہ اللہ نے سلطان محمد الفاتح کو  یہ شرف ِعظیم بخشا اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان سلطان محمدالفاتح کے حق میں پور ا ہوا،جب آپ ﷺ نے فرمایا تھا  :

 

«لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ، فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا، وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»

"قسطنطنیہ کو ضرور فتح کیا جائے گا ، کیا ہی اچھا امیر اُس فوج کا امیر ہو گا اور کیا ہی اچھی وہ فوج ہو گی"

 

اس کو احمد نے روایت کیا ہے ۔  اورمیں آپ کو اس بات کا اطمینان دلاتا ہوں کہ حزب التحریر  میں موجود آپ کے بھائی  حق پر ثابت قدم ہیں،اور خلافتِ راشدہ کی واپسی کے بارے میں اللہ کے وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی بشارت کو پانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگارہے ہیں ۔  وہ اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، اور رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔  اللہ  سبحانہ و تعالی کے اذن سے آپ کے  بھائی اس راستے پر منزل مقصود کے قریب پہنچ چکے  ہیں ، عنقریب  آپ سب عقاب  (رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا) کے سائے میں اکھٹے ہو جائیں گے،زمین خلافت سے چمک اٹھے گی، دار  الاسلام  امن و امان  کا گہوارہ ہو گا اور عدل سے بھر جائے گا

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾

"اس دن مؤمن خوش ہوں گے اللہ کی مدد سے ، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے ،  وہی غالب اور مہربان ہے"(الروم:4،5)

 

بات ختم کرنے سے پہلے میں آپ کی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں ، اللہ اس میں   بر کت ڈالے  ، اللہ کا نام لے کر شروع کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ اس کانفرنس کو بار آو ربنا ئے ،جس سے مسلمانوں اور اسلام کو عزت اور استعماری کفار کو ذلت ملے۔

﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾

"اور  اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"(یوسف: 21)۔

 

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

امیر حزب التحریر  -شیخ عطاء بن خلیل ابورَشتہ

12 جمادی الاولی 1436ہجری، بمطابق 3 مارچ 2015ء

 

Read more...

‫‏لاہور‬ میں گرجا گھروں پر حملے صرف ‫‏خلافت‬ ہی غیر مسلموں کی جان ،مال اور عزت و آبروکی حفاظت کرسکتی ہے


15 مارچ 2015 بروز اتوار لاہور میں دو گرجا گھروں پر حملہ کیا گیا جس میں 15افراد جاں بحق ہو گئے۔ حزب التحریر ان حملوں کی پرزور مذمت کرتی ہے اور ہلاک شدگان کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتی ہے۔
پاکستان میں رہنے غیر مسلموں خصوصاً عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر پچھلے چند سالوں میں کئی حملے ہو چکے ہیں۔ لیکن ہر حملے کے بعد حکومت صرف ایک مذمتی بیان اور لواحقین کے لئے امدادی رقوم کا اعلان کر کے چین کی نیند سو جاتی ہے۔ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں پر یہ بڑھتے حملے صرف مقامی مسئلہ نہیں رہا بلکہ دنیا بھر میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے روز کا معمول بنتے جارہے ہیں جس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ بھی شامل ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے معمول بن چکے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں یورپ و امریکہ میں بھی مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہونے شروع ہو گئے ہیں۔
درحقیقت جمہوری نظام اپنے زیرِ سایہ رہنے والی اقلیتوں کا تحفظ کرہی نہیں سکتا کیونکہ یہ نظام تو اکثریتی اور طاقتور طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنا ہے۔ پاکستان میں تو یہ معاملہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت کی وجہ سے زیادہ گھمبیر ہو چکا ہے۔ اسلام کے خلاف امریکی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ ثابت کرنے کے لئے پچھلے چند سالوں سے مسلمانوں اور غیر مسلوں دونوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہربار اس کی ذمہ داری کوئی ایسی تنظیم قبول کرلیتی ہے جس کا نام تو اسلامی لیکن کام قطعاً غیر اسلامی، حرام ہوتا ہے۔ ان حملوں(False Flag) سے صرف امریکہ اور مسلم دنیا پر مسلط اس کی ایجنٹ حکمرانوں کا مفاد ہی پورا ہوتا ہے جنہیں اِن سانحات کی بنا پر اُن لوگوں کی خلاف ظلم و جبر کرنے کا موقع مل جاتا ہے جو مسلم علاقوں پر امریکہ و کفار کے قبضے کے خلاف عسکری جدوجہد یا مسلم دنیا میں اسلام کے مکمل نفاذ کی سیاسی و فکری جدوجہد کررہے ہوتے ہیں۔

غیر مسلموں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا جتنا سخت حکم اسلام دیتا ہے دنیا کا کوئی دین اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ،


أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا،

"جس کسی نے معاہد شخص کو قتل کیا جس کو اللہ اور اس کے رسول نےعہد دیا تو اس نے اللہ کے عہد کو توڑا ۔ ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکتا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کے فاصلے پر بھی سونگھی جاسکتی ہے"(الترمزی)۔
اسی لیے حزب التحریر نے آنے والی ریاست خلافت کے مجوزہ آئین کی شق 6 میں یہ لکھا ہے کہ "ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے مابین حکومتی معاملات، عدلاتی فیصلوں، لوگوں کے معاملات کی دیکھ بحال اور دیگر امور میں امتیازی سلوک کرے بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ تمام افراد کو رنگ، نسل اور دین سے قطع نظر ایک ہی نظر سے دیکھے"۔ لہٰذا صرف خلافت میں ہی غیر مسلم اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی اور اپنے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے یقین کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا کہ جب دنیا بھر سے غیر مسلم اپنی ظالم حکومتوں کے جبر سے فرار حاصل کرکے اسلامی خلافت میں پناہ لیا کرتے تھے۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر کے خلاف جبر ‫‏خلافت‬ کے قیام کو روک نہیں سکتا نیشنل (‫‏امریکی‬) ایکشن پلان کا مقصد اسلام اور خلافت کی پکار کو دبانا ہے

راحیل-نواز حکومت نیشنل (امریکی )ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں اٹھنے والی ہر اس آواز کا گلا گھوٹ دینا چاہتی ہے جو اسلام اور خلافت کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ حکومت اپنے آقا امریکہ کی خوشنودی کے لئے ہر حد کو پار کرتی جارہی ہے۔ لاہور کے ایک انتہائی باعزت جگرانوی خاندان کے فرزند حکیم احسان کو کل ان کے رائے ونڈ میں واقع مطب خانے سے پولیس نے گرفتار کرلیا۔ حکیم احسان جگرانوی اور جگرانوی خاندان کے مرد و خواتین پر حکومت نے ایک جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ قائم کررکھا ہے اور اس مقدمے کو لے کر اس خاندان کو مسلسل ہراساں کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس خاندان کا قصور یہ ہے کہ وہ حکومت کے جبر کے باوجود اسلام اور خلافت کے قیام کی جدوجہد سے دست بردار نہیں ہورہا۔
حکیم احسان جگرانوی لاہور کے ایک معروف طبیب ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی اسلام اور خلافت کے قیام کی جدوجہد کے لئے وقف کررکھی ہے۔ حکومت کی جانب سے مسلسل ہراساں کرنے اور اس اندیشے کے باوجود کہ پالیس ان کو گرفتار کرسکتی ہے وہ اپنےمعمول کے مطابق اپنے مطب جارہے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا بلکہ حکمرانوں کا احتساب کر کے رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی پیروی کررہے ہیں جس کے مطابق ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد اکبر ہے۔ یقیناً جگرانوی خاندان نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن اس کے باجود ان کے مرد و خواتین کو جیل کی سلاخوں کی پیچھے ڈالا جارہا ہے جبکہ ملک بھر میں امریکی دہشت گرد نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ اگر رنگے ہاتھوں گرفتار بھی کرلیے جائیں تو براہ راست امریکی سفارت خانہ مداخلت کر کے انہیں بازیاب کروا لیتا ہے۔ آج ہی اسلام آباد ائر پورٹ سے ایک امریکی کو پستول اور گولیوں سمیت گرفتار کیا گیا لیکن جیسے ہی امریکہ سفارت خانے نے اس کو اپنا آدمی تسلیم کیا تو اس کو آزاد کردیا گیا۔

حزب التحریر راحیل-نواز حکومت کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ تمہاری گھٹیا حرکات اور ظلم و ستم خلافت کے قیام کو کسی صورت نہیں روک سکتا۔ یہ امت اپنے منزل کو جان چکی ہے اور اب اس کو پانے کے لئے تیزی سے اس کی جانب گامزن ہے اور اس کا ادراک خود تمہارے آقا امریکہ کو بھی اچھی طرح ہے اسی لئے وہ سیاسی و فکری جدوجہد کرنے والوں کے خلاف بھی تمہیں ہر حد کو توڑنے کا حکم دے رہا ہے۔ راحیل-نواز حکومت ! تم اس جنگ میں ہارنے والے فریق کے ساتھ کھڑے ہو کیونکہ یہ امت اسلام کے حق میں اپنا فیصلہ دے چکی ہےجس کا ایک ثبوت امریکی ادارے "پیو" کا مسلم دنیا کے حوالے سے حالیہ سروے ہے جس کے مطابق مسلم دنیا کی عظیم اکثریت اسلام کو سرکاری قانون کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تمہاری یہ کوشش دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی تمہیں فائدہ تو دور کی بات صریحاً خسارے کا باعث بنے گی کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی تو یہ اعلان واضح طور پر کرچکے ہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کیے بغیر ماننے والے نہیں۔ تو بہتر کہ تم اپنی روش سے توبہ کرو اور خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کی راہ سے ہٹ جاؤ کہ شاید اللہ تمہارے پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیں۔


وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيراً
"اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور راہ راست واضح ہو جانے کے بعد بھی اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور کی روش پر چلے تو اسے ہم اسی کی طرف چلتا کردیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ۔ اور ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بدترین جائے قرار ہے" (النساء:115)

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

عورت کا عالمی دن 2015 نسوانیت کے نام پر خواتین کو حقوق فراہم کرنے میں ناکامی کے سو سال

اقوام متحدہ اس سال  8 مارچ کے خواتین کے عالمی دن کو زیادہ اجاگر کرے گا تاکہ بیجنگ اعلامیہ اور  اس کے ایکشن پلان  پر روشنی ڈالی جا سکے جس پر 189 حکومتوں نے 20 سال پہلے خواتین کے حقوق ،ان کی زندگی بہتر بنانے  اور اقوام عالم میں دونوں جنسوں کے درمیان مساوات  کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد کی حمایت  میں  دستخط کیے تھے ۔ اس معاہدے میں خواتین سے متعلق 12 باتوں پر زور دیا گیا تھا  جس میں غربت، تشدد،تعلیم کے حقوق، عسکری تنازعے،اختیار اور فیصلہ سازی شامل ہیں۔اقوام متحدہ نے اس کو تاریخی اعلان قرار دیا تھا  جس میں "خواتین کو  با اختیار بنانے کا   ایک واضح لائحہ عمل موجود ہے"  اور یہ  " سب سے جامع  عالمی پالیسی ڈھانچہ اور اس پر عمل کے لئے واضح  لائحہ عمل۔۔۔۔تا کہ دونوں جنسوں کے مابین مساوات اور خواتین  اور لڑکیوں کےلئے ہر جگہ  انسانی حقوق کو حقیقت بنادیا جائے "۔ لیکن  اس معاہدے کے بعد  دو دہائیاں گزرنے کے باوجود ،   خواتین کا پہلا عالمی دن منانے کے 104 سال بعد  اور  عورت اور مرد کے درمیان مساوات  کی نسوانی جدوجہد کے سو سال گزرنے جانے باوجود   دنیا کے  طول و عرض میں  کروڑوں عورتوں کی زندگی انتہائی المناک ہے۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والی  رپورٹ کے مطابق  دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کو زندگی میں  مار پیٹ یا زنا بالجبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے،1.2ارب غریبوں میں  70فیصد عورتیں اور بچے ہیں، 700 ملین عورتیں  ایسی زندگی گزار رہی ہیں کہ ان کو خوراک ،پینے کے صاف پانی، طبی سہولیات   کی کمی یا تعلیم کی عدم دستیابی کا سامنا ہے، 85 ملین لڑکیاں ا سکول  جانے سے قاصر ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 1.2 ملین بچوں کی  بطور غلام سالانہ خرید وفروخت ہو تی ہےجن میں سے 80 فیصدلڑکیا ں ہیں۔ یہ سب کچھ حقوق نسواں کی بدترین ناکامی کا ظاہر کرتا ہے اور اس کی بنیادی فکر یعنی جنسوں کے درمیان مساوات کی بنیاد پر خواتین سے کیے جانے والے وعدوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ  حقوق اور اختیارات کے بارے میں "مساوات" کے خالی خولی دعوے ،عائلی زندگی  اور معاشرے  میں مرد اور عورت کے کردار  ، دونوں جنسوں کے درمیان مساوات   ہر گز خواتین کے احترام اور ان کی بہتر زندگی کا ضامن نہیں  بلکہ  نسوانیت  کا یہ جھوٹا نعرہ   عورت  کی اس درد ناک صورت حال سے توجہ ہٹا نے کے لیے استعمال کیا گیاجس  کا سبب ہی سکیولر سرمایہ دارانہ نظام ہے   جو گزشتہ صدی سے دنیا کی سیاست اور معیشت پر حاوی ہے۔ یہی نظام ہے جو   دولت مند اور غریب کے مابین زبردست تفاوت  اور معیشت کو تباہ کرنے کا سبب ہے؛ جس سے کروڑوں خواتین غربت کا شکار ہو گئیں اور تعلیم تباہ ہو گئی ،طبی سہولیات کا فقدان پیدا ہوا ، ان کے ملکوں میں دوسری خدمات بھی ناپائدار ہوگئیں۔  اس کے ساتھ ساتھ  سرمایہ دارنہ مادی نقطہ نظر نے  ایسی سوچ کو پروان چڑھا یا کہ   منافع کے لیے عورت  کے جسم کو استعمال کرنے میں کوئی برائی نہیں ، جس نے انسانی تجارت  کے لیے ماحول فراہم کیا ۔ اس کے علاوہ سکیولر سرمایہ داریت جو  ذاتی خواہشات کے حصول کو مقدس گردانتا ہے اور  عورت کو جنسیت کی نظر سے دیکھتا ہے، جس کے نتیجے میں میں عورت کی حالت ابتر ہو گئی  ،جنسی جرائم  کی وبا پھیل گئی، اسی وجہ سے آج وہ پامالی کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ نسوانیت  کا نقطہ نظر جو مساوات کی تنگ نظری پر مبنی ہے  جس کے ذریعے  سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی  تبدیلی کی کوشش کے ذریعے اس کے عیوب کو چھپایا جارہا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  بنیادی تبدیلی کی بات کی جاتی ، یہ نظام ہمیشہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام ثابت ہوا۔ لہذا بیجنگ اعلامیہ  اور خواتین کے بارے میں بین الاقوامی معاہدات جیسے  Cedaw  اور مساوات  کے  لیے مشرق سے مغرب تک لگائے جانے والے نعرے اور بینر سب ناکام ہو ئے  اور دنیا کی خواتین کو  عزت کی زندگی گزارنے کی ضمانت نہیں دے سکے۔ یہ اس بات کی واضح دالیل ہے کہ نسوانی تنظیمیں ،حکومتیں اور وہ ادارے  جو ان افکار کی ترویج کرتے ہیں  ان میں سے کسی کے پاس خواتین کے مسائل کا قابل اعتماد حل ،لائحہ عمل یا وژن نہیں ۔

اس کے مقابلے میں اسلام جس پر سکیولر حضرات  اس کے معاشرتی قوانین  کے سبب خواتین پر ظلم کرنے کا الزام لگاتے ہیں  کیونکہ یہ قوانین مغرب کے مساوات کے نظرئیے کے بر عکس ہیں، اس کے پاس  خواتین کے احترام کو بحا ل کرنے  کا ایک جامع ، قابل اعتماد اور مجرب   پروگرام ہے ،جوان کے مسائل کو حل اور ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔وہ پروگرام جس نے صدیوں تک  خلافت کے نظامِ حکومت کے سائے میں خواتین کو باعزت زندگی گزارنے کی ضمانت دی ۔ اسلام کے معاشرتی نظام کو حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس   کا شعبہ خواتین بڑے پیمانے پر جاری عالمی مہم میں واضح کر رہا ہے  جس کا عنوان ہے : "عورت اور شریعت  :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے" ۔ اس مہم کا اختتام  28 مارچ 2015 کو  ایک عالمی خواتین کانفرنس پر ہو گا۔ہم ہر اس شخص کو دعوت دیتے ہیں جو خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے   ناکام معاہدات، فضول تجاویز اور جھوٹے وعدوں سے تھک چکا ہے کہ وہ اس اہم مہم اور کانفرنس کی پیروی کے لئے درج ذیل فیس بک صفحےسے رجوع کریں:

https://www.facebook.com/womenandshariahA

 

ڈاکٹر نسرین نواز

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر شعبہ خواتین

Read more...

16-15 فروری 2015  کو ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (One India )  میں شائع ہونے والے مضمون  "حزب التحریر الدولۃ الاسلامیۃ  العراق و شام  سے زیادہ خطرناک ثا بت ہو سکتی ہے" کا جواب

15 ،16 فروری 2015 کو ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (India India)میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ حزب التحریر  ایک دہشت گرد جماعت ہے۔  اس مضمون میں کئی سنگین غلطیاں اور گمراہ کن  دعوے کیے گئے۔

حزب التحریر ایک  عالمی اسلامی سیاسی جماعت ہے  جو نبوت کے طرز پر خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کے احیاء کے لیے اسلامی سرزمین میں  پُر امن فکری اور سیاسی جدوجہد کرتی ہے۔  حزب التحریر ایک مشہور و معروف اسلامی پارٹی ہے  اوراس کی بنیا 1953 میں  بیت المقدس میں رکھی گئی ۔ آج شرق اوسط، افریقا اور ایشیاء  سمیت مشرق سے لے مغرب تک کام کر رہی ہے ۔  حزب کے خلاف تمام تر   سوچے سمجھے اشتعال انگیز  اقدامات،نگرانی،گرفتاریوں،تشدد اور  انصاف کا خون کرنے کے باوجود  یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ  حزب   نے اپنے پرامن سیاسی طریقے سے کبھی بھی بال برابر بھی انحراف نہیں کیا اور نہ ہی اسے کبھی ایسے کسی  واقع میں ملوث ثابت کیا جاسکا ہے۔

مذکورہ مضمون میں حزب کو " کالعدم" جماعت کہا گیا ہے ؛جس کا مقصد  قاری کو گمراہ کرنا اور اس کے ذہن میں یہ تشویش پیدا کرنا ہے کہ حزب  شاید کوئی "مسلح"  اقدامات بھی کرتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے   کہ جن ممالک نے  بھی حزب پر پابندی لگائی تو اس کے  سیاسی مقاصد تھے اور اس کا مقصد حزب کو اپنی صاف شفاف فکر کو امت تک پہنچانے کی راہ میں روکاوٹ ڈالنا  ہے تاکہ امت اس فکر کا علمبردار نہ بنے اور حزب کے ساتھ مل کر کار زار حیات میں اس فکر کو  وجود بخشنے کے لیے جدو جہد نہ کرے۔ ان ممالک کی حکومتیں اس غلط فہمی میں رہیں کہ  وہ پابندی لگا کر امت کو حزب کی جدوجہد میں شامل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن  یہ ناکام اور نامراد ہوئے۔  یہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے کہ امت مشرق سے لے کر مغرب تک  اللہ کی شریعت کے نفاذ اور نبوت کے نقش قدم پر اسلام کی ریاست،  خلافت کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے۔

رہی  حزب التحریر اور ہندوستان میں  انڈین مجاہدین کے درمیان تعلقات  کی بات  تو حزب کے تمام اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعلقات  نصیحت اور راہنمائی کی حد تک ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«الدين النصيحة»

" دین نصیحت ہے" ،اس کو مسلم نے روایت کیا ہے ۔

ہم اخبار  ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (India India)کے ادارتی  انتظامیہ کو ان کے پیشہ ورانہ  اور آزادانہ  صحافت کے بارے میں یاد دہانی کر نا چاہتے ہیں ۔  صحافت ایک محنت طلب کام ہے اور  یہ تقاضا کر تا ہے کہ تمام رپورٹیں  باریک بینی اور ذمہ داری  سے تیار کی جائیں۔   ہمیں امید ہے کہ یہ اخبارات آئندہ اس امر کا خیال رکھیں گےتا کہ  مستقبل میں ہمیں عدالتی چارہ جوئی  پر مجبور نہ ہونا پڑے۔

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس

 

Read more...

پریس ریلیز حکومت کی جانب سے میڈیا کو حزب التحریر کے خلاف مہم شروع کر نے کے احکامات حکومت کی ناکامی اور دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے

بنگلہ دیشی حکومت نے ہفتہ 22 فروری 2015  کو  حزب التحریر اور اس کے سرگرمیوں کے خلاف  پرو پیگنڈہ مہم   شروع کرنے  سے متعلق ذرائع ابلاغ کے لیے ایک بیان جاری کیا ۔

ہم حزب التحریر ولایہ بنگلہ دیش  حکومت کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ : حکومت نے 2009 میں حزب التحریر پر پابندی لگانے کا حکم نامہ جاری کیا  اور پھر اس کے بعد ایسے کئی حکم نامے جاری کیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خلاف جابرانہ اور ظالمانہ اقدامات اٹھائےلیکن  اس سب کے باوجود  وہ حزب کا راستہ  روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ اب  حکومت ہمارا راستہ روکنے کے لئے  میڈیا کی مدد لینے کی کوشش کر رہی ہے جس میں وہ خود ناکام ہو چکی ہے۔  یہ بھی حکومت اور اس کے آقاوں کی ایک بزدلانہ کوشش ہے  کیونکہ وہ حزب التحریر اور اس کی دعوت سے لرزہ بر اندام ہیں۔  حزب نے   آج کل جو مہم شروع کر رکھی ہے  اور جس کو زندگی کے ہر طبقے میں سراہا گیا ہے  ، حکومت اور اس کے مغربی آقاوں  کے لئے ایک بڑا درد سر بن گئی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے احمقانہ قدم اٹھا رہی ہے۔ اس مہم کا موضوع ہے: "اے لوگو ! شیخ حسینہ اور موجودہ حکومت کو فوراً برطرف کر نے  اور نبوت کے طرز پر ریاستِ خلافت کو قائم کرنے کے لیے  فوج کے مخلص افسران سے رابطہ کر و  کہ وہ اس کام میں شریک ہوں اور  حزب التحریر کو نصرہ فراہم کریں"۔

ہم  میڈیا  میں موجود مخلص لوگوں  سے مطالبہ کرتے ہیں  کہ حزب التحریر کی کامیابیوں کو دیکھ کر پاگل پن  میں مبتلا   ہونے والی حکومت  کے جھوٹے  پرو پیگنڈے کا شکار نہ ہوں ۔  اس حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنے آپ کو بھی مایوسی کے دلدل میں نہ گھسیٹیں جو   عوام مقبولیت کھو چکی ہے۔  اس حکومت کی طرف اپنا ہاتھ مت بڑھائیں   جس کو اب لوگ  زمین بوس ہو تا دیکھنا   چاہتے  ہیں اور ان شاء اللہ عنقریب ایسا ہو نے والا ہے ۔ لہٰذا تاریخ کے اہم موڑ پر غلط کشتی کے سوار مت بنو۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان نبوت کے طرز پر خلا فت کی ریاست کی جدو جہد آپ  پر فرض ہے  نہ کہ اس اسلام دشمن حکومت کی طرفداری کرنا۔ اگر آپ  اسلام اور مسلمانوں کے بنیادی مسئلے  کی خاطر  جدو جہد کرنے کے لیے حزب التحریر میں شامل ہونے کی ہمت نہیں رکھتے  تو کم از کم  حکومت کے ہاں میں ہاں ملا کر جھوٹ بولنے سے اجتناب کریں۔

اور بہادر اور مخلص فوجی افسران سے ہم کہتے ہیں : حکومت یہ بات جانتی ہے کہ تم اسلام  کی فوج ہو اور اسلام ہی  تمہارے خون میں دوڑ تا ہے  اور تمام مسلمانوں کی طرح خلافت تمہارے بھی دل کی آواز ہے  جس کی وجہ سے  حزب التحریر آپ  میں بھی پھیل رہی ہے اور اللہ کے حکم سے جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے گی  یعنی موجودہ حکومت کا خاتمہ اور خلافت کا قیام انشاء اللہ ۔  اس لیے حزب التحریر کو اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرہ فراہم کر نے میں جلدی کرو  ، دنیا کا خیر حاصل کرنے کے لئے جلدی کرو، خلافت کو قائم کرنے والے انصار  کا مننصب  پانے کی جلدی کرو  اور آخرت کا اجر حاصل کرنے کی جلدی کرو کہ خلافت کو قائم کرنے والے انصار کا اجر جنت ہے،  انشاء اللہ۔۔

 

ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر کامیڈیا آفس

https://www.facebook.com/PeoplesDemandBD2

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک