حزب التحریر کے امیر، ممتاز عالم :عطاء بن خلیل ابو رَشتہ حفظہ اللہ کا منگل 3 مارچ 2015 ءکو استنبول میں منعقد ہو نے والی خلافت کانفرنس سے افتتاحی خطاب موضوع: صدارتی جمہوری ماڈل یا خلافتِ راشدہ
- Published in امیر حزب التحریر
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ،درود و سلام ہو اللہ کے رسول ﷺپر اور آپ کی آل اور صحابہ رضی اللہ عنھم اور آپ ﷺکے نقش قدم پر چلنے والوں پر؛
محترم حاضرین! اللہ آپ کو اپنی اطاعت کا شرف بخشے، اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾
"اللہ تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کیے کہ اللہ ان کو موجودہ حکمرانوں کی جگہ حکمرانی عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت سے نواز چکا ہے" (النور:55)،
اور آپﷺ نے فرمایا :
«... ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَاُ شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»
"پھر جابرانہ حکمرانی کا دور ہو گا جب تک اللہ چاہے گا پھراللہ اسے اٹھا لے گا جب اس کو اٹھا نا چاہے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہو گی"( اس حدیث کو امام احمدبن حنبل اور طیالسی نے روایت کیا ہے )۔
میں چاہتا ہوں کہ اپنی بات کی ابتدا حکمرانی واقتدار کے متعلق اللہ کے وعدے اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت سے کروں کہ یہ جابرانہ دور کہ جس میں ہم رہ رہے ہیں اس کے بعد اللہ کے اذن سے دوبارہ خلافت قائم ہوگی۔ میں ابتدا امید سے کر تا ہوں، اس المناک صورت حال کا ذکر کرنے سے قبل جس سے امت مسلمہ نوے سال سے زیادہ عرصے سے دوچار ہے۔ 28رجب 1342 ہجری بمطابق مارچ 1924 ء کو استعماری کفار، برطانیہ کی قیادت میں، اپنے عرب اور ترک ایجنٹوں کے ذریعے خلافت کو ختم کر نے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ فیصلہ پیر تین مارچ 1924 ء کو انقرہ کی پارلیمنٹ کے دوسر ےاجلاس میں صادر کیا گیا۔ یہ اجلاس دو پہر3:25 pm سے 6:45 pm تک جاری رہا اور خلافت کو ختم کرنے کے ہلاکت خیزفیصلے پر ختم ہوا...حیران کن بات یہ تھی کہ اس فیصلے کے لیے ووٹنگ خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے نہیں بلکہ ہاتھ اٹھانے کے ذریعے ہوئی ! ممبرانِ پارلیمنٹ کوخوف و ہراس کی فضاء میں ہاتھ اٹھا نے پر مجبور کیا گیا تاکہ اس خطرناک کام میں ہاتھ اٹھانے والے اور نہ اٹھانے والے واضح ہو جائیں! اس سیاہ دن سے لے کرآج تک امت مسلمہ اپنی زندگی اور اقوامِ عالم کے درمیان اپنے مقام کے حوالے سے بحرانوں سے دوچار ہے۔
مسلمان جو ایک امت اور ایک ریاستِ خلافت تھے اب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پچاس سے زیادہ ریاستوں میں تقسیم ہو گئے...پہلے ہمارا دستور وہ احکامات تھے جو انسانوں کے رب نے نازل کیا تھا اب ہم انسانوں ہی کے بنائے ہوئے دستورکے غلام بن گئے۔ پہلے مسلمان فتوحات پر فتوحات کر کے دنیا کے طول وعرض میں خیر کو پھیلاتے تھے اور دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ میں تھی ،اب مسلمانوں کے علاقوں کو ہر کونے سے بلکہ درمیان سے بھی کاٹا گیا ! وہ یہود جن پر ذلت اور بربادی لکھ دی گئی تھی انہوں نے اسراء اور معراج کی سرزمین، فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلم دنیا کے حکمرانوں نے یہودی ریاست کو تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کر لیے ۔ جب ایک مظلوم عورت نے فریاد کی اور' ہائے معتصم' کی دُہائی بلند کی تو خلیفہ معتصم خود فوج کی قیادت کر تا ہوا اس کی مدد کو پہنچا ! اس عورت کے انتقام میں عموریہ کو فتح کیا گیا جو کہ آج انقرہ کے قریب واقع ہے ۔ لیکن خلافت کے خاتمے کے بعد آج روئے زمین پر مسلم عورت پر ظلم و ستم اور اس کی عزت کی پامالی معمول بن گئی ہے اور اسلامی سرزمین کا کوئی حکمران اُن کی مدد کے لیے نہیں اٹھتا۔ ماضی میں دنیا کی ریاستیں ہمارے سامنے جھولی پھیلاتی تھیں جیسا کہ فرانس نے اپنے قیدی بادشاہ کو چھڑانے کے لیے خلیفہ سلیمان القانونی سے مدد طلب کی ، جبکہ خلافت کے خاتمے کے بعد ہم اپنے مسائل کو حل کرانے کے لیے استعماری کفار کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگےہیں...
محترم بھائیو اور بہنو! اس طرح مسلمان مصائب اور فتنوں کے نرغے میں آگئے۔مسلمانوں کے آگے اور پیچھے ہر طرف قتل و غارت ہی دکھائی دیتی ہے اور وہ حیران و پریشان ہیں !یہ صورتِ حال مسلمانوں کی تعداد یا وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اُن کی ڈھال ان سے چِھن گئی ہے۔ خلیفہ ڈھال کی مانند ہو تا ہے جس کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے اور خلیفہ کی قیادت میں ہی لڑا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«...َإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ...»
"بے شک خلیفہ ڈھال ہے جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے اور اور جس کے ذریعے بچاؤ ہو تا ہے"(بخاری)۔
اس ڈھال اور آڑ کے زائل ہو نے کے بعد مسلمان بے یار ومدد گار ہو گئےہیں بلکہ اُن پر ایسے حکمران مسلط ہوگئے جو اللہ سے نہیں ڈرتےاور اُن کا کام اپنے استعماری آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور لوگوں پر ظلم و جبر کرنا ہے۔
﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾
"ظلم کر نے والے عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ الٹتے ہیں"(الشعراء:227)۔
معززبھائیواور بہنو! خلافت مسلمانوں کی عزت کا سرچشمہ اور قوت کی علامت ہے اور یہ بات استعماری کفار کے سرغنہ بھی جانتے ہیں ۔ لارڈ کرزن نے خلافت کے انہدام کے بعد برطانوی House of Commons سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "معاملہ یہ ہے کہ ترکی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے اوروہ اب کبھی دوبارہ اُٹھ نہیں سکے گا کیونکہ ہم نے اس کی معنوی قوت تباہ کر دی ہے : یعنی خلافت اور اسلام "۔ کفارخلافت کی حقیقت سے واقف ہیں اس لیے انہوں نے خلافت کو ختم کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ اس کی دوبارہ واپسی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اورانہوں نے اس کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف وحشیانہ جنگ برپا کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ساٹھ سال پہلے حزب التحریر قائم ہوئی اور اس نے خلافت کے مسئلے کو اس انداز سے اختیار کیا کہ یہ امت کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے تو یہ غضب ناک ہو گئے ۔ پس استعماری کفار اور اس کے ایجنٹوں نے شرانگیزی کا ہر دستیاب اسلوب اختیار کیا ، انہوں نے حزب پر بہتان باندھے ،حزب کے شباب کو گرفتارکیا،انہیں تشدد کا نشانہ بنایا،حتی کہ انہیں شہیدکیا گیا اور طویل مدت تک قید وبند میں ڈالا گیا...لیکن یہ حربے ہر لحاظ سے ناکام ثابت ہوئے اور حزب اسی طرح میدان میں موجود رہی اور اس نے اللہ کے سوا کسی کے سامنے سر نہ جھکایا۔ بالآخر استعماری کفار نے بعض ایسی اسلامی تحریکوں کے جرائم سے فائدہ اٹھایا جنہوں نے غیر شرعی طریقے سے خلافت کا اعلان کیا ہے اور وہ ذبح کرنے، جلانے، تخریب کاری اور تباہی و بربادی جیسے غیر اسلامی اعمال سرانجام دے رہے ہیں ...استعماری کفار نے ان تحریکوں کے جرائم سے فائدہ اٹھا یا،ان پر توجہ مرکوز کی اور ان کے جرائم کو میڈیا پر خوب اچھالا ۔ تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں خوف پیدا کریں کہ جو لوگ خلافت چاہتے ہیں وہ در اصل قتل و غارت گری چاہتے ہیں، اور یوں لوگ حقیقی خلافت سے بھی بیزار ہوجائیں۔ لیکن اللہ کے اذن سے استعماری کفار اپنے سابقہ ہتھکنڈوں میں بھی ناکام ہوئے تھے اور اس بار بھی نامراد ہو ں گے ۔ لوگوں کو شرعی خلافت کے بارے میں معلوم ہے اوروہ حقیقی اورمصنوعی خلافت میں فرق کر سکتے ہیں۔ خلافت حق ہے کوئی غیر معلوم اجنبی چیز نہیں...یہ وہ منفرد نظام ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے نافذ کر کے مسلمانوں کے لیے بیان کیا اور جس پر آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین چلے۔ خلافت بادشاہت یا استعماری نظام نہیں،نہ ہی یہ صدارتی یاپارلیمانی جمہوریت کی مانند ہے،اور نہ ہی یہ آمریت یا جمہوریت ہے،کہ جن میں اللہ کی جگہ انسان قوانین بناتے ہیں اورنہ ہی خلافت خودساختہ نظاموں کی کوئی اور قسم ہے۔ یہ عدل کی خلافت ہے، اس کے حکمران خلفاء امام ہوتے ہیں جن کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے اور جن کی قیادت میں جہاد کیا جاتا ہے۔ خلافت اپنے شہریوں کے خون کی حفاظت کرتی ہے اور ان کی عزتوں کی رکھوالی کرتی ہے،وہ اموال کا تحفظ کر تی ہے، غیر مسلم شہریوں (اہلِ ذمہ) کے ساتھ امن و تحفظ کے معاہدے کو پورا کرتی ہے۔ وہ رضامندی اور اختیار سے بیعت لیتی ہے زبردستی اور جبر سے نہیں، لوگ ہجرت کر کے اس کے سائے میں تحفظ حاصل کرتے ہیں، اس سے متنفر ہو کر بھاگتے نہیں ہیں۔
اے حاضرین، اے بصارت اور بصیرت والو، اے عقل کے حامل بھائیو اور بہنو! اے مسلمانوں کی ڈھال اور پناہ گاہ ،خلافت ،کے نہ ہونے کی وجہ سے درد محسوس کرنے والے لوگو! اس گناہِ عظیم کو اپنی گردنوں سے اتار دو، خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے دنیا پر اسلامی زندگی کی واپسی کے لیے کام کرو ۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے کام نہ کرنا گناہِ عظیم ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«... وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
"جو کوئی بھی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا" (مسلم)؛
یعنی شرعی طریقے سے مقرر ہونے والے خلیفہ کی بیعت۔ اس لیے مرد و عورت، عوام اور خواص سب اخلاص اور سچائی سے خلافت کے قیام کے لیے کام کریں، بے شک یہ عظیم کامیابی کا موجب ہے۔
آخر میں میں آپ کو یاد دہانی کرواتا ہوں اور اطمینان دلاتا ہوں : یاد دہانی اس بات کی کروا تا ہوں کہ یہ شہر جہاں آپ کی یہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے یہی شہر قسطنطنیہ میں سے سب سے پہلے فتح ہوا تھا،پھر یہیں سے افواج قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے نکلتی تھیں جنہیں خلیفہ ایشیاء سے روانہ کرتا تھا۔ اس شہر میں ان افواج کے فوجی کیمپ ہوتے تھے اور وہ اس کی بندر گاہ سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے یورپ کی سمت نکلتی تھیں اور اس کا محاصرہ کرتی تھیں۔ ایسا کئی بار ہوا یہاں تک کہ اللہ نے سلطان محمد الفاتح کو یہ شرف ِعظیم بخشا اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان سلطان محمدالفاتح کے حق میں پور ا ہوا،جب آپ ﷺ نے فرمایا تھا :
«لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ، فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا، وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»
"قسطنطنیہ کو ضرور فتح کیا جائے گا ، کیا ہی اچھا امیر اُس فوج کا امیر ہو گا اور کیا ہی اچھی وہ فوج ہو گی"
اس کو احمد نے روایت کیا ہے ۔ اورمیں آپ کو اس بات کا اطمینان دلاتا ہوں کہ حزب التحریر میں موجود آپ کے بھائی حق پر ثابت قدم ہیں،اور خلافتِ راشدہ کی واپسی کے بارے میں اللہ کے وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی بشارت کو پانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگارہے ہیں ۔ وہ اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، اور رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالی کے اذن سے آپ کے بھائی اس راستے پر منزل مقصود کے قریب پہنچ چکے ہیں ، عنقریب آپ سب عقاب (رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا) کے سائے میں اکھٹے ہو جائیں گے،زمین خلافت سے چمک اٹھے گی، دار الاسلام امن و امان کا گہوارہ ہو گا اور عدل سے بھر جائے گا
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اس دن مؤمن خوش ہوں گے اللہ کی مدد سے ، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے ، وہی غالب اور مہربان ہے"(الروم:4،5)
بات ختم کرنے سے پہلے میں آپ کی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں ، اللہ اس میں بر کت ڈالے ، اللہ کا نام لے کر شروع کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ اس کانفرنس کو بار آو ربنا ئے ،جس سے مسلمانوں اور اسلام کو عزت اور استعماری کفار کو ذلت ملے۔
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
"اور اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"(یوسف: 21)۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
امیر حزب التحریر -شیخ عطاء بن خلیل ابورَشتہ
12 جمادی الاولی 1436ہجری، بمطابق 3 مارچ 2015ء