الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری (پرائیوٹائزیشن) ایک نقصانِ عظیم ہے اور اسلام کی رُو سے حرام ہے

29 اکتوبر سے لے کر8 نومبر 2014ء تک آئی.ایم.ایف نے پاکستان کے وزیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بینک اور دیگرعہدیداروں کے ساتھ طویل مذاکرات کیے جس کا بنیادی نقطہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری تھا۔ان مذاکرات کے فوراً بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ایک تابعدار ملازم کی طرح بذاتِ خود چین اور جرمنی کا دورہ کیا اور ان ممالک کی کمپنیوں کو پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جبکہ یہی دعوت وہ اس سے قبل امریکی کمپنیوں کو بھی دے چکے ہیں۔ یقیناً نجکاری کے ذریعے پاکستان کے توانائی کے شعبے کی ملکیت کا حصول استعماری قوتوں کے منصوبے کا اہم جزو ہے، یہی وجہ ہے کہ استعماری مالیاتی ادارے توانائی کے شعبے کی نجکاری کو پاکستان کو قرضے فراہم کرنے کے لیے بنیادی شرط قرار دے رہے ہیں۔ 7 اپریل 2014ء کو آئی.ایم.ایف کی جاری کردہ رپورٹ "پاکستان-پروگرام نوٹ" میں توانائی کی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے "حکومتی شعبے میں موجود کمپنیوں کی نجکاری" پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح 2 مئی 2014ء کو پاکستان کے لئے عالمی بینک کے ڈائریکٹر نے بھی توانائی کی "قیمتوں میں اضافے" اور "اس شعبے کو نجی کمپنیوں کے لئے کھول دینے" پر زور دیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری پاکستان کی معیشت کو بحال و مضبوط نہیں بلکہ کمزور کررہی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس اہم شعبے پر غیر ملکی کنٹرول قائم ہو رہا ہے جو ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔

آئی.ایم.ایف، عالمی بینک اور راحیل-نواز حکومت مل کر مسلسل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کررہے ہیں تا کہ توانائی کے شعبے کی نجی ملکیت میں منتقلی کے ساتھ ہی ان کے نئے مالکان کو زبردست منافع ملنے لگے چاہے اس کے نتیجے میں عوام کو انتہائی تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ 5 اگست 2014ء کو حکومتی ملکیت میں چلنے والے ادارے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL) نےمالیاتی سال 14-2013ء میں 124 ارب روپے کے ریکارڈ خالص منافع کا اعلان کیا، یہ منافع پچھلے سال کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُن کمپنیوں کی نجکاری کی جارہی ہے جو منافع کما رہی ہیں اور یہ امت کے مفاد میں نہیں ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ "حکم شرعی" کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت تیل و گیس عوامی اثاثے ہیں۔اس کے علاوہ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں اس لئے مسلسل بڑھائی جاتی ہیں کہ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر نجی شعبے کی کمپنیوں کے نفع کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ توانائی کے شعبے کی نجکاری ہی ہر روز کئی کئی گھنٹوں طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ ہے کیونکہ جب بجلی کی پیداوار سے اچھا منافع ممکن نہیں ہوتا تو بجلی کمپنیوں کے نجی مالکان بجلی کی پیداوار کوکم کر دیتے ہیں۔ 25 جون 2013ء کو کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (K.E.S.C) کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 3007 میگاواٹ تھی جس میں IPPs سے حاصل ہونے والی 626 میگاواٹ بجلی بھی شامل ہے۔ لیکن کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن نے محض 1200 سے 1400 میگاواٹ بجلی پیدا کی جبکہ کراچی جو کہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، کی ضرورت 2100 میگاواٹ تھی۔

اس کے علاوہ جب یہ کمپنیاں نجی ہاتھوں میں ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی بھی ہوں تو وہ مقامی معیشت کو مضبوط کرنے کی پرواہ نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنی حکومتوں یا استعماری اداروں کے جانب سے اس بات کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے رکھیں کہ پاکستان اور اس کی معیشت عالمی سطح پر مقابلہ نہ کرسکے۔ لہٰذا فروری 2013ء سے ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لئے ملکی کوئلے کی جگہ مہنگا برآمدی کوئلہ استعمال ہو جبکہ پاکستان کے علاقے تھر میں دنیا کا چھٹا بڑا کوئلے کا ذخیرہ موجود ہے۔ توانائی کے شعبے میں کئی دہائیوں سے جاری نجکاری کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیاں مسلسل نفع بنارہی ہیں جبکہ مقامی صنعت اور زراعت زوال اور تباہی کا شکار ہورہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور مسلسل مہنگی ہوتی بجلی اور گیس نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اور پاکستان کو دولت کے ان وسیع ذخائر سے محروم کر دینا ہی کافی نہ تھاکہ استعماری طاقتیں پاکستان پر مسلط اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں بھی مسلسل اضافہ کرتی جارہی ہیں تا کہ معیشت کی تباہی میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ یہ سب کچھ اس بہانے کیا جارہا ہے کہ اتنے محصول اکٹھے کیے جائیں جس سے غیر ملکی سودی قرضوں کی ادائیگی کی جاسکے جبکہ پاکستان پہلے ہی قرضوں کی اصل رقم سے کئی گنا زیادہ پیسے ادا کرچکا ہے۔ یہ ایک استعماری جال ہے جس کو اس مقصد کے لئے بُنا گیا ہے تا کہ پاکستان کبھی بھی اس دلدل سے نکل کر ایک عظیم اور مضبوط ریاست نہ بن سکے۔

پاکستان کی بیمار معیشت کا علاج نجکاری، غیر ملکی سرمایہ کاری یا استعماری قرضے حاصل کر کے ممکن نہیں بلکہ یہ تو خود انتہائی خطرناک بیماریاں ہیں جو معیشت کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہیں۔ اس بیمار معیشت کا علاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کیا جائے جس کی بدولت اس قدر محصول اکٹھا ہوتا ہے کہ پوری معیشت میں انقلاب برپا ہوجائے۔سرمایہ داریت (Capitalism) اور کمیونزم کے برخلاف اسلام میں توانائی کے وسائل نہ تو ریاست کی ملکیت ہیں اور نہ ہی یہ کسی پرائیویٹ کمپنی کی ملکیت ہو سکتے ہیں بلکہ اسلام نے انہیں مسلمانوں کے لئے عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء والکلاء والنار "مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ (توانائی)" (ابو داؤد)۔ لہٰذا اگرچہ ریاستِ خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں کے امور کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن خلافت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی عوامی اثاثے کو نجی ملکیت میں منتقل کردے چاہے وہ کوئی فرد ہو یا گروہ کیونکہ یہ مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی آمدن لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور عوامی سہولیات پر ہی خرچ کی جا سکتی ہے نہ کہ ریاستی اخراجات پر۔ یہ اصول تمام عوامی اثاثوں پر لاگو ہوتا ہے چاہے وہ توانائی کے وسیع ذرائع ہوں جیسا کہ تیل، گیس، بجلی وغیرہ یا معدنیات جیسا کہ تانبے، لوہے کی کانیں یا پھر پانی جیسا کہ سمندر، دریا، ڈیم یا پھر چراہ گاہیں اور جنگلات۔ یقیناً یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ اگرچہ امت مسلمہ دنیا میں موجود تیل و گیس اور معدنیات کے بہت بڑے حصے کی مالک ہے لیکن اسلام کے معاشی نظام کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان غربت کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں اور امت دنیا کے امور میں کوئی وزن نہیں رکھتی جبکہ ایسے ممالک دنیا کے امور پر چھائے ہوئے ہیں جو اس دولت کے بہت کم حصے کے مالک ہیں۔

اے پاکستان کے مسلمانو! جب تک ہم کفر کی حکمرانی تلے رہیں گے جو استعماری طاقتوں کو ہمارے امور پر فیصلے کرنے کا اختیار دیتی ہے، ہماری معیشت کی تباہی و بربادی اسی طرح جاری و ساری رہے گی۔ اس جبر و استحصال کے نظام میں ہم نقصان ہی اٹھاتے رہیں گے چاہے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف یا کوئی بھی حکمرانی کی باگ ڈور سنبھال لے۔ تباہی و بربادی کا شکار صرف وہ لوگ ہی نہیں ہوتے جو کفر کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ وہ بھی اس کا شکار ہوتے ہیں جو کفر کی حکمرانی کو جاری و ساری دیکھنے کے باوجود اسے ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ " اور ڈرو ایسے فتنے سے جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ظالم ہیں اور جان لوکہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے " (الانفال:25)۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے منصوبے میں اپنا حصہ ڈالے، اور اس کے حصول کے لئےحزب التحریر کے بہادر اور باخبرشباب کےساتھ مل کربھرپور جدوجہد کرے تا کہ اسلامی طرزِ زندگی ایک بار پھر زندہ ہوجائے۔

اے افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! آپ نے جن لوگوں کے دفاع کی قسم اٹھائی ہے وہ مشکلات و مصائب میں پِس رہے ہیں۔ جس ملک کے دفاع کی آپ نے قسم اٹھائی ہے اسے برباد و ویران کیا جارہا ہے اور اسے اس کی صلاحیت کے مطابق مقام حاصل کرنے سے روکا جارہا ہے۔ جس دین کی سربلندی کی آپ نے قسم کھائی ہے اسے پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے، اس سے غفلت برتی جا رہی ہے اوراس کے نفاذ کو روکا جا رہاہے۔ آپ نہ تو اس صورتحال کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو اس کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں کیونکہ یہ آپ ہی ہیں جو خلافت کے قیام کو ممکن بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آپ مدینہ کے جنگجو انصار کے وارث ہیں جنہوں نے بطورِ ریاست و قانون اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کو نُصرۃ فراہم کی تھی۔ آج تبدیلی لانے کا فرض عملاً آپ پر عائد ہوتا ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ خلافت کے قیام کے لئے مشہور فقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی قیادت میں حزب التحریر کو نُصرۃ فراہم کریں اور اِس امت کے اُس مقام کو بحال کر دیں جس کی یہ حق دار ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ * وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ " اس روز مسلمان شاد مان ہوں گے، اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے" (الروم:6-4)۔

Read more...

خلافت کو قائم کرو جو مسلمانوں کوہندو ریاست کی بالادستی سے نجات دلائے گی

بھارت لگاتارکئی دنوں تک پاکستان پر جارحانہ حملے کرتا رہا، جو عید کے دوران بھی جاری رہے، بچے، عورتیں اور بوڑھے ان حملوں میں ہلاک اور زخمی ہوتے رہے، لیکن راحیل-نواز حکومت نے محض لفظی مذمت کو ہی کافی سمجھا۔ حالانکہ اس طرح کا کمزور ردعمل ہمیشہ دشمن کا حوصلہ بڑھانے کا باعث بناہے۔ پس 9 اکتوبر 2014ء کو، جبکہ پاکستان کے مسلمانوں پر ایک ہزار مارٹر گولے برسائے جا چکے تھے، بھارتی وزیر اعظم مودی نے ایک سیاسی جلسےمیں اشتعال انگیز انداز میں کہا: "دشمن چیخ و پکار کررہا ہے دشمن نے یہ جان لیا ہے کہ وقت اب بدل چکا ہے اور اس کی پرانی عادتوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا"۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت 10 اکتوبر 2014ء کو بالآخرنیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے لیےاکٹھی ہوہی گئی، جس کے بعد وزیراعظم کے دفتر نے یہ بیان جاری کیا کہ"جنگ کوئی آپشن نہیں ہے۔ یہ دونوں ممالک کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوراً کشیدگی کا خاتمہ کریں"، بے شک یہ بیان بھارت کی ننگی جارحیت کے جواب میں پھولوں کانذرانہ پیش کرنے سے کم نہیں۔

ایک طرف ہندو ریاست ہے جوپاکستان کے خلاف عملی طور پر دشمنی اور جارحیت کا مظاہرہ کر رہی ہے، جبکہ دوسری طرف راحیل-نواز حکومت ہے جو دشمن کے سامنے اس حد تک جھک گئی ہے کہ اس نے حملے سے بچاؤکے لیے جنگ کو آپشن سے ہی نکال دیا ہے۔ اس حکومت نے اپنی عوام پر برسنے والی آگ اور بارود کے جواب میں محض مذمتی بیان جاری کیے اور اس کمزور مذمت کو امن، مذاکرات اور حالات کو معمول پر لانے کی بھیک مانگ کر مزید کمزور کردیا۔ پھر اس حکومت نے مسلمانوں میں موجود ایمان کی حرارت کو سرد کرنے کے لیے اپنے چمچوں کو متحرک کیا، بجائے یہ کہ وہ مسلمانوں میں موجود فتح اورشہادت کے جذبات کو اجاگر کر کے انہیں مضبوط کرتی۔ اس حکومت نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کو حل کے طور پر پیش کیا جبکہ یہ حکمران اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اقوامِ متحدہ استعماری طاقتوں کی آلہ کار ہے اور مسلمانوں کی ابتر صورتِ حال کی ذمہ دارہے، یہ اقوامِ متحدہ ہی ہے کہ جس نے اسلامی علاقوں کو مصنوعی سرحدوں کے ذریعے ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہےاوردنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے کفار کو جواز مہیا کرتی ہے۔ افسوس! یہ سب اقدامات ایک ایسی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں کہ جس کی کمان میں مسلم دنیا کی سب سے طاقتور فوج موجودہے جو نہ صرف ایٹمی اسلحے سے مسلح ہے بلکہ اس میں بے شمار ایسے جوان اور افسران موجود ہیں جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ بے شک رسول اللہﷺ نے سچ فرمایا کہ: ما ترك قوم الجهاد إلاّ ذُلّوا "جو قوم جہاد چھوڑ دیتی ہے وہ ذلیل و رسواء ہو جاتی ہے" (احمد)۔

اے پاکستان کے مسلمانو! بھارت کی حالیہ جارحیت اور راحیل-نواز حکومت کا ہندو ریاست کے سامنےسرنگوں ہونا امریکی منصوبے کے مطابق ہے جو وہ اس خطے میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ بھارت کو خطے میں بالادست ریاست کے طور پر ابھرنے میں مدد فراہم کررہا ہے تاکہ بھارت امریکہ کے حریف چین کے خلاف کھڑا ہو سکے نیز بھارت اس پوزیشن میں آ جائے کہ وہ آپ کے اسلامی ریاستِ خلافت کے طور پر ابھرنے سے روکنے میں امریکہ کو مدد فراہم کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی انتخابات میں مودی کی جماعت بی.جے.پی کی کامیابی کے چند ہفتوں بعد ہی امریکی سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے بھارت کا دورہ کیا اور 10 اگست 2014 کو کہا کہ "انڈو پیسیفک (Indo-Pacific) کےطول و عرض میں ہمارے (امریکہ اور بھارت کے) مفادات جتنے اب یکساں ہیں اتنے پہلے کبھی نہ تھے" اور مزید کہا "جیسا کہ بھارت جنوبی ایشیا اور پورے پیسیفک (اوقیانوس) کی امن وسلامتی میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے، تو امریکہ اس کی مدد اور حوصلہ افزائی کرے گا"۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ برما اور اینڈامن (Andaman) اور نیکوبار (Nicobar) کے جزیروں تک اپنا اثر و رسوخ پھیلائے، یہ جزیرے آبنائے ملاکہ کے دہانے پر واقع ہیں جو اُن سمندری گزرگاہوں میں سے ایک ہے جہاں سے دنیا کی فوجی اورتجارتی ٹریفک کا بہت بڑا حصہ گزرتا ہے۔

اورجہاں تک آپ کا تعلق ہے تو امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان یہ قوت رکھتا ہے کہ اگر وہ اس امریکی منصوبےکی مخالفت کی سوچ لےتووہ اسے ناکام بنا سکتا ہے اور اس منصوبے کی کامیابی اس چیز سےمنسلک ہے کہ پاکستان اس منصوبے کو قبول کرلے اور اسے پورا کرنے میں امریکہ کا ساتھ دے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت ہو یا جمہوریت ہر حکومت نے امریکہ کے وفادار خدمت گار کے طور پر اس امریکی منصوبے کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اوربھارت کے مقابلے میں آپ کی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ امریکہ آپ میں موجود جذبہ جہاد سے خوفزدہ ہے جو کہ میدانِ جنگ میں آپ کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے، لہٰذا امریکی ایجنٹ حکمران اُن تنظیموں سے دستبردار ہوگئے اوران کا تعاقب کرنے لگے جو کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرانےکے لئے اسکے خلاف لڑرہی تھیں۔ اس کے بعد امریکی ایجنٹوں نے پاکستان کی افواج کو قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی جنگ کا ایندھن بنادیا۔ پھر ان امریکی ایجنٹوں نے افواجِ پاکستان کی "سبز کتاب" (The Green Book) میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی تاکہ آپ کی فوج کی توجہ کوبھارت سے ہٹا کر اسے پاکستان کے اندر ہی مصروف کردیا جائے اور فوج کی بڑی تعداد کو بھارتی سرحد سے ہٹا کر افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں میں منتقل کردیا۔ امریکہ کی وفادارحکومتوں کے ان اقدامات کے نتیجے میں ہماری افواج پر مسلط کی گئی کمزوری کو بھارت نےجان لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ 12 اگست 2014ء کو بھارتی وزیر اعظم مودی نے کارگل میں موجود بھارتی افواج سے خطاب کرتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا: "پاکستان اب روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت کھو چکا ہے"۔

امریکی ایجنٹوں نےہماری فوجی صلاحیتوں کو کمزور کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ وہ ہمارے سیاسی اثرو رسوخ اور اقتصادی طاقت کو بھی کمزور کررہے ہیں۔ اس حکومت میں موجود امریکی ایجنٹ پاکستان کو اُن علاقائی کانفرنسوں میں گھسیٹ رہے ہیں جہاں بھارت کو بالادستی حاصل ہے جبکہ بھارت اس سے آگے بڑھ کراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے پر نظر جمائے ہوئے ہے جہاں امتِ مسلمہ کی تباہی و بربادی کے منصوبے بُنے جاتے ہیں۔ یہ تمام اقدامات ہندو ریاست کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ہمارے سیاسی معاملات میں بھر پور مداخلت کرے، حالانکہ ہندوؤں کو جب بھی مسلمانوں کےمعاملات پر کسی بھی درجے کا اختیارحاصل ہوا انہوں نے مسلمانوں کونقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہےتویہ حکومت توانائی کے کئی معاہدوں کا حصہ بن کر بھارت کومشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا میں موجود امت کے تیل و گیس کے ذخائر تک رسائی دے رہی ہے تاکہ توانائی کی قلت کے شکار بھارت کی اشد ضرورت کو پورا کیا جائے۔ اورجہاں تک تجارتی معاہدوں کا تعلق ہے تو ان کے ذریعے پاکستانی حکومت امریکہ کی طے کردہ حکمت عملی کو پورا کررہی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، جہاز سازی اور خلائی ٹیکنالوجی جیسے اعلیٰ شعبے تو ہندوؤں کے لیے ہوں گے لیکن مسلمانوں کو سیاحت، قالین سازی اور کھیلوں کے سامان کی تیاری جیسے معمولی شعبوں تک محدود رکھاجائے گا۔

اے پاکستان کے مسلمانو!اسلام مسلمانوں کو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ وہ بے وقعت مشرکین کی جارحیت کے سامنے سر جھکا دیں، چاہے وہ ہندو ہوں یا کوئی اور۔ اسلام نے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کفار ہمارے معاملات پر حاوی ہوں اوران میں مداخلت کریں۔ بلکہ اسلام ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ دشمن کو جواب دینے کے لیے تمام تر اسباب و ذرائع کواختیار کیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ "مشرکین کے ساتھ لڑو اپنے مال کے ساتھ، اپنی جانوں کے ساتھ اور اپنی زبانوں کے ذریعے" (ابو داود)۔ لیکن بجائے یہ کہ حکومت ہماریطاقت کو دشمن کے خلاف استعمال کرتی وہ اس طاقت کو بھارت کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے، اور بھارت کو مضبوط کرناخطے کے متعلق امریکہ کا وسیع تر منصوبہ ہے۔ یہ صورتِ حال ہم پر لازم کرتی ہے کہ ہم اس عظیم نقصان سے بچاؤ کے لئے حزب التحریر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی ڈھال یعنی خلافت کے قیام کے لئے دن رات کام کریں۔

اے افواج پاکستان! سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار، مسلمانوں کو ہندو ریاست کا غلام بنانے کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ تو کیا آپ مایوسی اور نامیدی کے عالم میں اس صورتِ حال سے لاتعلق رہنا پسند کریں گےاور ان کی غداریوں کو قبول کرلیں گے؟ جبکہ آپ اس امت کے شیر ہیں جنہیں زنجیروں میں قید رکھا گیا ہے۔ وہ ہندو جو کئی سالوں کے دوران لاکھوں کی فوج کے باوجود معمولی اسلحے سے لیس چند ہزار مسلم مجاہدین کو کشمیر میں شکست نہیں دے سکا وہ آپ کا سامنا کس طرح کرسکتا ہے؟ آج کی سپر پاور امریکہ اس خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لئے آپ پر انحصار کرتا ہے اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ آپ اسے یہاں سے نکال باہر کرسکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں آپ نےاُس وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو نکال باہر کیا تھا۔ یہودی آپ سے خوفزدہ ہیں اور ان کی نیندیں حرام ہیں کہ کہیں آپ مسجد اقصٰی کے مسلمانوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے حرکت میں نہ آجائیں اور یہودی ریاست کا خاتمہ کردیں۔ تم وہ شیر ہو جسے یہ یقین دلایا گیا ہے کہ تم تو کسی معمولی مخلوق کا سامنا بھی نہیں کرسکتے، لیکن تمہارے ہاتھ کا صرف ایک وار ہی تمہیں یہ دکھا دے گا کہ امتِ مسلمہ دنیا کی دیگر تمام اقوام کے مقابلے میں کس قدر مضبوط ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: يا أيها الذين ءامنوا قاتِلوا الذين يَلونكم من الكفار وَلْيجِدوا فيكمْ غِلْظَةً واعْلَموا أنَّ اللّـهَ مع المتقين "اےایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے نزدیک رہتے ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے"(التوبۃ:123)۔

اس شکست خوردہ اور غدار حکومت کو مسترد کردو، اٹھو اور اسلامی خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نُصرۃ فراہم کرو۔ صرف اسلام کے نفاذ کی صورت میں ہی ہم رسول اللہﷺ کی اس بشارت کو پورا ہوتے دیکھ سکیں گے جسے ابوہریرہ ؓنے روایت کیا کہ وَعَدَنا رسولُ اللّـهِ (ﷺ) غزوةَ الهند، فإنْ أدركتُها أُنْفِقْ نفسي ومالي، وإنْ قُتِلْتُ كنتُ أفضلَ الشهداء، وإنْ رجعتُ فأنا أبو هريرة الـمُحَرَّرُ "اللہ کے رسولﷺ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ کیا۔ اگر میں نے وہ زمانہ پالیا تو میں اس کے لئےاپنی جان اور مال لگا دوں گا۔ اگر میں مارا گیا تو میں بہترین شہداء کی صحبت میں ہوں گا اور اگر میں زندہ واپس آیا تو میں (گناہوں سے) آزاد ابوہریرہ ہوں گا" (احمد، نسائی، الحاکم)۔ اور ثوبانؓ نے روایت کیا کہ عِصابتان من أُمّتي أَحْرَزَهُما اللّـهُ من النار: عِصابةٌ تغزو الهندَ، وعِصابةٌ تكون مع عيسى ابن مريم عليهما السلام "میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ کردیا ہے۔ ایک وہ جو ہند فتح کرے گا اور دوسرا وہ جو عیسٰی ابن مریم علیہ اسلام کے ساتھ ہوگا"(احمد، النسائی)۔

 

Read more...

2014 کے بعد بھی امریکی فوجی افغانستان میں لڑتے رہیں گے امریکہ نے افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کو خود ہی بے نقاب کردیا

21 نومبر 2014، جمعہ کی رات امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے یہ خبر دی کہ امریکی صدر اوبامہ نے 2014 کے بعد بھی مزید ایک سال تک امریکی فوجیوں کی افغانستان میں جنگی مہمات میں حصہ لیتے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا پاکستان اور افغان حکومتوں نے خیر مقدم کیا اور افغانستان میں امن کے قیام اور ایک مستحکم حکومت کے تسلسل کے لئے امریکہ کی موجودگی کو لازمی قرار دیا۔
حزب التحریر کے لیے امریکہ کا یہ فیصلہ قطعاً حیرت کا باعث نہیں ہے کیونکہ حزب امریکہ کی جانب سے 2014 میں افغانستان سے محدود انخلاء کے اعلان کے بعد سے یہ کہتی آرہی ہے کہ امریکہ افغانستان سے جا نہیں رہا بلکہ محدود انخلاء کا دھوکہ دے کر امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو مستقل کرنے اور اسے قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ لہٰذا نئی افغان حکومت کی جانب سے دو طرفہ سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کرنےکے بعد امریکہ نے اس دھوکے سے خود ہی پردہ اٹھا دیا ہے۔ اب امریکہ ہر سال افغانستان میں قیام امن اور افغان حکومت کی مدد کے نام پر اس فیصلے میں توسیع کرتا رہے گا اور پاکستان و افغانستان کے غدار حکمران امریکہ کے فیصلے کا اسی طرح ہی خیر مقدم کرتے رہیں گے۔
امریکہ کا یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ تیرہ سال افغان مزاحمت سے جنگ لڑنے کے باوجود افغانستان میں امن قائم کرنے سے آج تک قاصر ہے اور افغان نیشنل آرمی اور پولیس کابل میں اس کی قائم کی ہوئی حکومت کا دفاع نہیں کرسکتی۔ ہزاروں مجاہدین نے صبر و استقامت سے جہاد کرتے ہوئے امریکہ کو اس کے مقصد میں ناکام کردیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اور افغانستان کے چند غداروں پر مکمل انحصار کررہا ہے۔ اگر آج افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران اپنی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹا کر خلافت کا قیام عمل میں لائیں تو خلافت ڈیورنڈ لائن کو مٹا کر اس خطے میں بسنے والے قبائلی مسلمانوں کو ساتھ ملا کر امریکہ کو اس خطے سے با آسانی نکال اور خطے کے مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا امن و سکون واپس لوٹا سکتی ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ خطے میں امن امریکہ کی موجودگی سے نہیں بلکہ اس کو نکال کر ہی قائم ہوگا۔ لہٰذا افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کا نصرۃ فراہم کریں۔
وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ
"تم نہ سستی کرو اور نہ ہی غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر ایمان دار ہو"(آل عمران:139)

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

افغانستان کو فوجی امداد کی پیشکش امریکی اہداف کو یقینی بنائے گا

6 نومبر 2014 کو جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا دورہ کیا اور راحیل-شریف حکومت کی جانب سے افغانستان کی فوج کو مضبوط بنانے کے لئے فوجی تعاون کی پیشکش کی۔ یہ دورہ اس وقت کیا گیا ہے جب امریکہ افغانستان سے 2014 کے اختتام کے بعدمحدود انخلاء کے منصوبے کے دھوکے میں افغانستان میں اپنی اور بھارت کی مستقل موجودگی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ محدودو انخلاء کے بعدافغانستان میں اس کی اور بھارتی اہلکاروں کی موجودگی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اس کی 10 ہزار افواج ناکافی ہوں گی اور افغانستان کے بہادر مسلم مجاہدین کا سامنا کرنا اس کے لئے انتہائی مشکل ثابت ہوگا۔

اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے امریکہ دو جہتوں پر کام کررہا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں مزاحمت کو کمزور کرنے کے لئے راحیل-نواز حکومت کے ذریعے امریکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کروا رہا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے ہی ذریعے افغان نیشنل آرمی کو مضبوط کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کی افادیت کو واضح کرتے ہوئے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل جوزف انڈریسن نے کہا کہ "آپریشن ضرب عضب نے افغان سرزمین پر حملے کرنے کی حقانی نیٹ ورک کی اہلیت کو کمزور کیا ہے"۔ جبکہ راحیل-نواز حکومت نے نئی کٹھ پتلی افغان حکومت کو اِس بات کی پیشکش کی ہے کہ پاکستان افغان سکیورٹی فورسز کو نہ صرف اسلحہ دینے کا خواہش مند ہے بلکہ وہ افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے فوجی ٹرینر بھیجنے پر تیار ہے۔ امریکہ کو اپنی بزدل افواج کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے باڈی گارڈز کی اشد ضرورت ہے اور یہ باڈی گارڈز امریکیوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھارتی اہلکاروں کے تحفظ کو بھی یقینی بنائیں گے۔
پاکستان پہلے ہی اپنی مشرقی سرحدوں پر بھارت جیسے شاطر دشمن کا سامنا کررہا ہے اور پچھلے چند ماہ سے اس کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر شہریوں کو مسلسل نشانہ بنا نا، انہیں قتل کرنا اور ان کی املاک کو تباہ کرنا روز کا معمول بن گیا ہے اور اب راحیل-نواز حکومت کا اپنی مغربی سرحد پر امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی جگہ فراہم کرنے اور ان کی موجودگی کو مستحکم کرنے میں بھر پور کردار ادا کرنا خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا بلکہ کھلی غداری ہے۔ راحیل-نواز حکومت کی غداری بالکل واضح ہے ۔ یہ حکومت پاکستان کو چکی کے دو پاٹوں میں پیسنے کے لئے دشمنوں کو مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر مستحکم کرنے کے لئے بھر پور معاونت فراہم کررہی ہے۔ لہٰذا افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران اور مسلمانوں کو اس غدار حکومت کو اکھاڑ پھینکنا چاہیے اور خلافت کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ خلافت افغانستان میں امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے خلاف فوجی آپریشن کا خاتمہ کرے گی ، انہیں مسلح کرے گی، پاکستان اور افغانستان کے درمیان استعمار کی قائم کی ہوئی ڈیورنڈ لائن کو مٹا کر مسلمانوں کی قوت کو یکجا کرے گی اور افغانستان سے امریکی صلیبی اور نجس بھارتی وجود کا خاتمہ کرے گی۔ وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ "تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر ایمان دار ہو" (آل عمران:139)
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

pakis

 

Read more...

ایک آرٹیکل "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کے جواب میں

پریس ریلیز

جناب محترم ایڈیٹر "العرب " ویب سائٹ
مزاج گرامی، اما بعد!
آپ نے 20 اکتوبر 2014 کواپنی ویب سائٹ پر سیف الدین العامری کا ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر"۔ آرٹیکل کے عنوان اور اس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والا حزب التحریر کے ساتھ عداوت اور بدخواہی کی بیماری میں مبتلاء ہے جس کی بدولت حزب کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق نہ ملی بلکہ اس کی بدنیتی اور بدخواہی اس کو حزب پر بہتان تراشی کی حد تک ہانکتی چلی گئی۔
جہاں ہم جھوٹی خبروں، مغالطوں اور حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے پر مشتمل اس بے سروپا مضمون کی اشاعت پر افسوس کرتے ہیں، اورواقعی تعجب ہے کہ ایسے مضمون کو آپ نے شائع کیسے کیا جس کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ مضمون میں راست بازی کا فقدان ہے اور سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو سے کوسوں دور ہے، وہی ہماری خواہش ہے کہ مضمون کا جواب بھی شائع کریں، اس پر ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
سب سے پہلے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے تاکہ حزب التحریر کی حقیقت کو واضح کیا جائے۔
حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کی آئیڈیا لوجی (مبدا) اسلام ہے۔ یہ امت کے اندر اور امت کے ساتھ مل کر اس لئے کام کرتی ہے تاکہ امت اسلام کو ہی اپنا مسئلہ سمجھے اور زندگی میں اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کے از سر نو قیام میں اُمت کی قیادت کرے۔ حزب کا کام سیاسی طریقے سے اسلامی دعوت کو لے کر جانا ہے اورحزب رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو مثال بناتے ہوئے دعوت کے لئے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ آپ ﷺ نے اسلامی ریاست کے قیام کی دعوت میں سیاسی طریقہ اختیار کیا،نہ کہ مادی....یہ بات کہ حزب کی آئیڈیا لوجی اسلام ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ حزب افکار و احکام اخذ کرنے میں صرف اسلامی عقیدہ اور شرعی نصوص کو اساس بناتی ہے۔ یہ بھی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تعمیل میں کہ: وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ "اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں" (آل عمران:104)۔
اب آتے ہیں آرٹیکل کی طرف.....تو یہ بہر حال حزب پر بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ ہے۔ ان سب کے جواب کا یہ موقع نہیں، اس لئے ہماری بات فقط بعض امور تک محدود ہوگی تا کہ مضمون نگار کے بغض وحسد اور حزب اور اس کی افکار پر بحث میں اس کے اندر راست بازی کے فقدان ، اور کذب بیانی کو واضح کریں۔
اولاً :مضمون نگار نے اپنے مقالے کے لئے ایک عنوان قائم کیا ہے:
مضمون نگار حزب اور اس کے افکار کو "تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کا نام دیتا ہے۔ کیا مضمون نگار یہ نہیں جانتا کہ حزب کے افکاراور آراء صرف اور صرف اسلامی ہیں؟؟؟ تو ذرا سوچئے کہ ان کو "تاریک نقطہ نظر" سے منسلک کرنا کیسا ہے؟۔ جہاں تک بندش اور جکڑ بندی کی بات ہے تو مضمون نگار نے یہ واضح ہی نہیں کیا کہ اس سے اس کی مراد کیا ہے؟ .....جہاں تک تکفیر (کافر قرار دینے ) کا مسئلہ ہے تو بلا شبہ یہ اس کاافترا ہی ہے کہ حزب دیگر اسلامی تحریکوں کو کافر کہتی ہے !! مضمون نگار لکھتا ہے:"تحریریوں کےتکفیری فتووں سے شاذ ونادر ہی کوئی تنظیم، ایسویسی ایشن،یا اسلامی تحریک، یا کوئی اسلامی پارٹی بچی ہوئی ہو"۔ حقیقت ایسی نہیں جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے، اور ہم مضمون نگار کو چیلنج دیتے ہیں کہ حزب کی کسی کتاب، لیفلٹ یا کسی ویب سائٹ سے کوئی ایسی عبارت لا کر دکھائے جس میں کسی اسلامی تحریک کو کافر قرار دینے کا ذکر تک موجود ہو، مگر چونکہ وہ ہرگز ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کرسکتا، اور ہمیں یقین ہے کہ مضمون نگار بغیر دلیل کے تہمتیں لگاتا جاتا ہے، اس لئے ہم اس کو نصیحت کرتے ہیں کہ حزب پر جو کیچڑ اچھالا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس پر اس کا حساب لے گا ..... جہاں تک حقیقت کی بات ہے تو حزب التحریر کا ان تحریکوں کے ساتھ تعلق دعوت کی بنیاد پر اور ان کو نصیحت کی حد تک ہے، اور حزب ان کو اسلامی احکامات کی خلاف ورزیوں پر بھی تنبیہ کرتی ہے،یہ کام حزب ایک آئیڈیالوجیکل پارٹی کے حیثیت سے انجام دیتی ہے جو اسلامی دعوت کی حامل ہے.....تو جب حزب اسلامی تحریکوں کو نہ ہی کافر ٹھہراتی ہےاورنہ ہی یہ تحریکیں مضمون نگار کے اس بے جا الزام سے متفق ہیں تو وہ بتائے کہ اسے کہاں سے یہ بات ملی ہے۔؟
جہاں تک اس کی اس بات کا تعلق ہے کہ حزب التحریر جمہوریت کو کفر سمجھتی ہے، تو یہ ایک اسلامی رائے ہے یہ صرف حزب کی پسندیدہ رائے نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کی حقیقت صرف یہ نہیں،جیسا کہ مضمون نگار اور دیگر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی منظرکشی اس طرح کریں کہ یہ عوام کا حکمرانوں کو چننے کا عمل ہے، جبکہ جمہوریت کا مطلب بنیادی طور پر یہ ہے کہ بالادستی عوام کی ہے، یعنی عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے ان نظاموں کی قانون سازی کرواتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں بالادستی شریعت کو حاصل ہوتی ہے اوریہ اسلام کے ان امور میں سے ہے جو کہ قطعی ہیں مگر مضمون نگار نے جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کیا ہے۔ شرع کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ شرع ہی تمام نظاموں اور قوانین کا سرچشمہ ہے، اور عوام کے ذمہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ ہے جو ان نظاموں اور قوانین کے نفاذ کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہذا جمہوری فکر ایک کفریہ فکر ہے کیونکہ اس میں بالادستی عوام کی ہوتی ہے نہ کہ شرع کی...اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ "حاکمیت اللہ کےسوا کسی کو حاصل نہیں، اسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے" (يوسف:40) اور ارشاد ہے، وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور رسولﷺتمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اُس سے رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے"(الحشر:7)۔
ثانیاً : مضمون نگار نے حزب کے "بیانات" کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ"یہ بیانات آزادی کی منطق اوراُن نظاموں سے متصادم ہیں جنہیں انسانوں نے عام انسانی ضابطوں کے مطابق زندگی کے لئے تخلیق کیا ہے"۔
مضمون نگار یہ بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی حزب کے بارے میں گفتگو کررہاہے جس کی آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اس لئے حزب نے جن احکام کی تبنی کی ہے یا جن افکار پراس کی بنیاد قائم ہے، ان کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہے۔ پس جو کوئی حزب کا محاسبہ کرنا چا ہے، اُسے چاہئے کہ صرف اسلام کی بنیاد پر اس کا محاسبہ کرے۔ اس لئے مضمون نگار کا انسانی نظاموں کی بنیاد پر حزب یا اس کے افکار کا محاسبہ کرنا کسی طرح موزوں نہیں؟؟؟ پھر یہ کہ مضمون نگار بھول گیا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اسلام کو ہی اپنی سوچ اور عمل کے لئے اساس بنائے، چنانچہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پروردگار ِعالم کی بجائے انسانی قوانین کو اپنے لئے اساس یا افکار پر حکم لگانے کا پیمانہ بنائے، چہ جائیکہ وہ اُن اسلامی افکار پر جن پر حزب کھڑی ہے، لے دے کرے اور ا ن کو "تاریک خیالیوں" سے تعبیر کرے۔؟
ثالثاً : مضمون نگار حزب کے بارے میں کہتا ہےکہ "وہ بنیادی طور پر اس اُصول کو تسلیم نہیں کرتی کہ ایک مسلمان انسان آزادی اور حکمرانوں کے چناؤ، اپوزیشن میں شرکت اور احتجاج کرنے کی قابلیت رکھتا ہے"۔
کتنا واضح بہتان ہے؟!! حزب التحریر تو اپنے قیام کے پہلے دن سے لوگوں کو مغربی استعمار کی تمام شکلوں سے آزادی حاصل کرنے کی دعوت دیتی رہی ہے، اور اس استعمار کے تمام آلات واوزار کے خاتمے اور اسلامی زندگی کی واپسی کے لئے سرگرم عمل ہے...بلکہ حزب کثیر تعداد میں چھپنے والے اپنے لیفلیٹوں کے ذریعے مسلمانوں سے مطالبہ کرتی چلی آئی ہے کہ وہ حکمرانوں کا محاسبہ کریں اور ان کے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، ان کو تبدیل کریں اور اس راستے میں قربانی دیں، بلکہ اس مقصد کے لئے مسلمانوں کو متعدد اسالیب اختیار کرنے کی دعوت دی، مثلاً زبردست عوامی مارچوں کاانعقاد، پبلک کانفرنسیں،فکری وسیاسی سیمینار اور اہل باطل کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے وفود کوبھیجنا وغیرہ ...اور چونکہ حکمرانوں کو حزب کی اہمیت کا احساس ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حزب کی آراء لوگوں کو ان کے اور ان کے ظلم کے خلاف مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ حزب کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں اور حزب کا تعاقب کرتے ہوئے گرفتاری، ٹارچر حتیٰ کہ بعض حالات میں حزب کے شباب کو شہید کرنے اور ان کے خلاف ظالمانہ احکامات دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ...تو مضمون نگار صاحب کس طرح ان قطعی حقائق سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور حزب کوبد نام کرنے پر تلا ہوا ہے۔فیا للعجب!
رابعًا : مضمون نگار نے لکھا ہےکہ "سیکولر پارٹیاں جو قومی یا محب ِوطن کہلائی جاتی ہیں، تحریریوں کے دائرہ فکر سے خارج ہیں، یعنی یہ انفرادیت کے حامی "کفریہ" سیاست کی حامل پارٹیا ں ہیں جو الہٰی شریعت کی قائل نہیں، چنانچہ ان سے بحث وتکرار اورلڑائی جھگڑے نہ کئے جائیں"۔مضمون نگار کے بقول کہ "حزب کی سیکولر پارٹیوں کے بارے میں سوچ یہ ہے کہ یہ شریعت ِالہٰی کی قائل نہیں، اور یہ انفرادی "کفر یہ"سیاست کی حامل پارٹیاں ہیں"...یہاں ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ کسی پارٹی کا سیکولر ہونے کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی ہے کہ یہ پارٹی دین کی زندگی سے جدائی کے فلسفے پر کھڑی ہوتی ہے، اور رب کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کو نافذ کرنے کی دعوت دیتی ہیں، بلکہ وہ زندگی میں اسلام کی واپسی کی مزاحمت کرتی ہیں ...تو ایک سیکولر پارٹی کیونکر اسلامی ہوسکتی ہے؟ پھر ایک سیکولر پارٹی سے منسوب شخص کے اسلام یا کفر کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ ایک سیکولر پارٹی کا رکن ہے، بلکہ اس کا دارومدار اس کے عقیدے پر ہے۔ سو اگر وہ دین کے زندگی اور ریاست سے جدائی کا نظریہ رکھتا ہے اور وہ اس کی حقیقت سے پوری طرح واقف بھی ہے، تو وہ یقیناً کافر ہوگا،اگر وہ یہ عقیدہ نہیں رکھتا اور اس کا ایمان اسلامی عقیدہ پر ہے، مگر وہ اپنی لاعلمی، گمراہی اور مفاد ات وغیرہ کی وجہ سے سیکولر پارٹی کا رکن بن کر اس سے وابستہ ہوگیا ہے، تو ایسا شخص گناہ گار مسلمان ہے۔ پھر مضمون نگار نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حزب ان پارٹیوں کے ساتھ مزاحمت کی دعوت دیتی ہے...جبکہ اس نے "مزاحمت " کا مطلب قاری پر چھوڑ دیا ہے، تاکہ ایک عام قاری خود ہی اس کا معنی ومطلب متعین کرکے یہ نتیجہ نکالے کہ حزب اسلحہ کے ساتھ ان پارٹیوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دیتی ہے!! حزب کا موقف ان سیکولر پارٹیوں کے بارے میں واضح ہے۔ حزب نے واضح کیا ہے کہ ان پارٹیوں نے جو افکار اپنا ئے ہوئے ہیں، یہ کفریہ ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد دین کی زندگی سے جدائی کا نظریہ ہے نہ کہ اسلام۔ اور حزب ان پارٹیوں کے اراکین کو یہ پارٹیاں چھوڑنے کی دعوت دیتی ہےاورمسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ انہیں اتار پھینکیں۔ حزب بتاتی ہے کہ یہ پارٹیاں مسلم ممالک کو نو آبادیات بنانے والی مغربی ریاستوں کے فضلے ہیں، کیونکہ سیکولر پارٹیاں اپنی تمام شکلوں میں ایسے افکار پر قائم ہوتی ہیں جو استعماری کفار کی تہذیب سےاخذ شدہ ہوتے ہیں۔
خامساً : مضمون نگار نے مبہم بلکہ متناقض انداز میں اخوان المسلمین کےساتھ حزب کے تعلقات کی بات کی ہے، اوراپنی بات کے اختتام میں یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے، اور حزب کے بارے میں یہ واضح ہے، بخلاف اخوان المسلمین کے جو پیچیدہ قسم کے اسالیب پر انحصار کرتی ہے، اور اکثر سیاست وتشدد کے پیچ وتاب سے دوچار رہتی ہے"۔
مضمون نگار نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ جملہ دہرایا ہے "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے"۔ مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ حزب مسلح اعمال کی بنیاد پر قائم ہے ...تو اگر چہ ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ حزب التحریر ایک سیاسی پارٹی ہے جو سیاسی طریقے سے دعوت لے کرجاتی ہے، مگر اس پر ہم یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ "اقتدار تک پہنچنے کا طریقہ حزب نے اپنی کتابوں اور لیفلیٹوں میں جا بجا ذکر کیا ہے اور حقیقت کے متلاشی شخص کے لئے یہ واضح ہے۔ بلکہ دور ونزدیک کے تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ حزب کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں عمومی بیداری پر مبنی اسلامی رائے عامہ ایجاد کیا جائے، نیز کار زارِحیات میں اسلام کے نفاذ کے لئے اہل قوت سے نصرۃ طلب کی جائے، حزب اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اسلحہ کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی، اس کی وجہ رسول اللہﷺ کی سیرت کی پیروی ہے"۔ عرف عام میں تو یہ ہوتا ہے کہ گواہ مدعی کے ذمہ ہیں، تو ہم اس افترا پرداز مضمون نگار سے پوچھتے ہیں کہ اپنے اس دعویٰ پر آپ کے پاس اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کرے، اور دشمن بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حزب تبدیلی کے طریقہ کار میں صرف فکری کشمکش اور سیاسی مقابلے پر انحصار کرتی ہے۔
سادساً: مضمون نگار حزب کے اندر تضادات کی بات کرتا ہے : "ادھر حزب کہتی ہے کہ "جمہوری نظام کفریہ نظام ہے" اور ادھر یہ کہ "اس کی بعض شاخیں انتخابات میں شرکت بھی کرتی ہیں، اور اتھارٹی کی طرف سے اپنی سرگرمیوں اور بھرتیوں کے لئے ان سے لائسنس بھی حاصل کرتیں ہیں۔ یہی وہ جوہری تناقض ہے جو اسلام پسندو ں کے اس صنف کے اندر پایا جاتا ہے"۔
جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا، اگر مضمون نگار جمہوریت کی حقیقت جانتا، جیسا کہ حزب نے بتایا ہے کہ یہ کفریہ نظام ہے، تو اس کو کوئی تناقض نظر نہ آتا ...تو حزب جمہوری نظام کو مسترد کرتی ہے، کیونکہ یہ اسلام کے ساتھ مکمل متناقض ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا.. جہاں تک انتخابات کی بات ہے، یعنی لوگوں کا نمائندوں کو اپنی رائے کے اظہار میں وکیل بنانا، تو اس میں حزب اس اعتبار سے شرکت کرتی ہے کہ وہ اس کو ایک مباح امر سمجھتی ہے، مگر اس میں شرط یہ ہے کہ رائے کے اظہار میں اسلامی احکامات کی پابندی کرے، حزب نے ایک دن کے لئے بھی انتخابات میں مغربی قانون سازی کی اساس پر شرکت قبول نہیں کی۔سابعًاٍ: مضمون نگار کہتا ہے: "....کیونکہ ان کی نظر میں اسلامی خلافت کا کوئی متبادل نہیں، اور خلافت بھی ایسی جو ان کی مطبوعات میں بالکل ہی غیر واضح ہے،اور ان میں سے ایک بھی یہ واضح کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا کہ اس پُر اسرار خلافت کی طرف دُنیا کیسے منتقل ہوگی؟"۔
یہ مضمون نگار بھی ایک انوکھی شخصیت ہے!! اسلامی خلافت حزب کی مطبوعا ت میں واضح نہیں؟، اور خلافت کے دور کو پُراسراریت سے تعبیر کرتا ہے؟؟ کیا اس نے حزب کی کتابوں میں یہ تفصیلات نہیں پڑھیں،جیسے نظام الحکم فی الاسلام (اسلامی نظام حکومت) اور اجھزۃ دولۃ الخلافۃ (ریاست خلافت کے حکومتی اور انتظامی ادارے)؟؟ پھر اس نے حزب پر "پُراسرار خلافت کےدور کی طرف دنیا کی منتقلی کی کیفیت کی عدم وضاحت " کی بھی تہمت لگائی ہے، باجودیکہ حزب نے اپنی کئی کتابوں اور لیفلیٹوں میں اقتدار تک پہنچنے کی کیفیت کو بہت زیادہ واضح کیا ہے، مگر مضمون نگار نے اپنے کسی خاص مقصد کی خاطر اتنی بھی زحمت گوارانہیں کی کہ تحقیق کرتا اور حزب کی کتابوں کوپڑھ کر حقیقت کاکھوج لگالیتا۔!!
ثامناً: مضمون نگار کہتا ہے کہ"پس تحقیق کار (یعنی سعید حمودہ) نے یہ ثابت کیا ہے کہ حزب فلسطینی مسئلےکے حل میں کتابوں، آرٹیکل، تھیوری اور اصول وقواعد ڈھونڈنے کے نظریاتی حل سے آگے نہیں جاتی، نہ ہی عوامی مزاحمتی تحریک یا آزادی کی قومی تحریکات میں قابل ذکر شرکت کرتی ہے، نہ ہی اس نے اب تک کوئی مسلح ونگ کی تشکیل کی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ اس پارٹی کا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین (فلسطین) پر قبضہ کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو کافر ٹھہرائے۔ جبکہ انہی اوقات میں حزب کے کچھ افراد عرب دنیا کی دیگر جگہوں میں خودمسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں"۔
ایسے شخص کی باتوں پر تعجب نہیں ہوگا تو کیا ہوگا جو مسئلہ فلسطین کے اس بنیادی حل کو جو حزب نے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کو محض ایک تھیوری سمجھ رہا ہے ...موضوع کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ فلسطین پر قبضہ ہوچکا ہے، قابض قوت نے اس میں اپنا ریاستی وجود قائم کیا ہے، تو اب اس کی آزادی کے لئے شرعاً جہاد واجب ہے ...اور عملی طور پرجو امر آزادی کے حصول کو ممکن بناتا ہے وہ فوج کشی ہے، پارٹیوں یا تحریکوں کا قیام نہیں جو انہی ریاستوں سے مدد لیتی ہیں جو یہودی موجودگی کی محافظ ہیں، جیسےارد گرد کی ریاستیں وغیرہ....فلسطین کی آزادی کے لئے مسلم افواج کے حرکت میں نہ آنے پر کئی عشرے گزرنے کے بعدفلسطینی قضیہ کی حقیقت پر طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج وہ لوگ جو نہر سے دریا تک فلسطین کی آزادی کی بات کرتے تھے، ان کی اکثریت یہ اعتراف کرتی نظر آتی ہے کہ فلسطین کے اکثر حصے پر قبضہ قانونی ہے، اور کچھ اس کی تیاری کرر ہے ہیں، لیکن یہ ہوگا اس وقت جب معاون ریاستیں ان مزاحمتی تحریکوں کی پرورش سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں گی اور وہ بند گلی میں پہنچ جائیں گے۔
لہذا اب کس کی تعریف کرنی چاہئے اور اس درست حل کے نفاذ کے لئے کس کے پیچھے چلا جائے، حزب التحریر کے پیچھے؟ جس نے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ ان پر آزادی کا راستہ واضح کیا کہ یہود ی وجود کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے مسلم افواج کو حرکت میں لانا ضروری ہے،اور یہ کہ امت پر واجب ہے کہ وہ ان حکمرانوں کےخلاف کھڑے ہوجائیں جنہوں نے افواج کو روکا ہوا ہے، یا ان دیگر تحریکوں کے پیچھے چلا جائے جو غلام اور زیر دست ریاستوں اور ایجنٹ حکمرانوں کے آگے جھک گئیں جنہوں نے فلسطین، اس کے لوگوں اور خود ان کا بھی سودا کیا، جبکہ آزادی کا علم بھی تھامے رکھا،اور اب لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے اچانک مکر گئے بہانہ یہ کیا کہ "جتنا کچھ ہوا اس سے زیادہ ممکن نہ تھا؟؟؟
جہاں تک مضمون نگا ر کے بقول بد تر ہونے کی بات کی ہے وہ کہتا ہے "اس سے زیادہ بدتر یہ ہے کہ اب حزب کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین پر قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو کافر قرار دے رہی ہے"!! تو وہ بتائے کہ یہ بات کہاں سے لایا؟؟ کیا حزب التحریر نے حماس، الجہاد یا حزب اللہ اور الفتح کو کافر کہاہے؟؟!! بلاشبہ حزب التحریر نے جنوبی لبنان میں، غزہ میں، عراق میں امریکی جارحیت کے مقابلے میں اور افغانستان میں مزاحمت کاروں کی ان کاروائیوں پر شاباش دی ہے، اور کہا کہ یہ بہادرانہ کارنامے ہیں، ایسی کاروائیوں کو انجام دینے والے ان شاء اللہ اجر کے مستحق ہوں گے، نہ صرف یہ کہ ان کی کاروائیوں کی اچھے انداز میں تعریف کی بلکہ مسلمانوں پر واضح کیا کہ ان کی مدد کرنا واجب ہے اور مسلم علاقوں اور انسانوں کو آزادی دلانےکے لئے فوج کی روانگی کو فرض قرار دیا ہے۔ مضمون نگار نے اپنی الزام تراشیوں کی تکمیل کرتے ہوئے حزب کے افراد پر یہ تہمت لگائی کہ یہ لوگ خود مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھاتے ہیں!! تو اس واضح بہتان کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ"اے مضمون نگار خدا کا خوف کر"۔
تاسعاً: مضمون نگار کہتا ہے: صالح زہر الدین سعید حمودہ کی باتوں کو دلیل بناتے ہوئے یہ ثابت کرچکا ہے کہ حزب التحریر کی نسبت سے جہاد فقط اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ ہے خواہ اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے،نہ کہ آزادی، ترقی، اور خوشحالی کے اہداف کا حصول۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے! حزب التحریر پر اعتراض کے لئے ایک ایسے شخص کے مضمون کو بنیاد بنایا ہے جو مخالف ذہن رکھتا ہے، بلکہ اگر مضمون نگار صالح زہر الدین کی باتوں پر غور کرتا تو وہ جان لیتا کہ اس کی باتیں حزب کی حقیقت اور تاسیس کے دن سے لے کر آج تک اس کی روِش کے ساتھ مکمل ٹکراتی ہیں۔ حزب التحریر جس نے اپنی فکر اور طریقے سے بال برابر انحراف نہیں کیا، باوجودیکہ جن ممالک میں حزب کام کرتی ہے، ریاستی اداروں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کیا ہے، تو ہر قیمت پر حصول اقتدار کی کوشش کیسے ؟ ؟ تعجب ہے مضمون نگار نے ان تحریکوں کونہیں دیکھا جن کا اولین مقصد اقتدار کا حصول تھا کہ کس طرح انہوں نے سمجھوتوں پر سمجھوتے کئے اور اپنے افکار سے دستبردار ہوگئیں۔
مذکورہ تفصیل کی بنا پر یہ واضح ہوا کہ مضمون نگار نے کوئی ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں ذکرکیا ، جس کی اس نے کوئی دلیل یا ثبوت بھی دیا ہو بلکہ جھوٹ اور بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ بیان کیا ہے، یقین کریں کہ ایک دفعہ تو ہم نے سوچا کہ ان گھٹیا باتوں کا جواب ہی نہ دیا جائے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ویب سائٹ کا ادارہ یہ قبول کرنے کے لئے تیار ہے کہ ہر ایرے غیرے کا وکیل بن کر اپنی ساکھ کھو بیٹھے؟ کیا ادارہ ادنیٰ درجہ کا کوئی کاروباری اور موضوعی اخلاق بھی نہیں رکھتا جس کی بدولت ادارہ ایسی بے ہودہ باتوں کے لئے میدان کھولنے سے پہلے سوچے؟ بالخصوص جبکہ حزب کے میڈیا آفس ہر سو پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے آدمی امت کے اندر موجود ہیں، ان سے ملنے اور ملاقات کرنے میں کوئی دشوار ی بھی نہیں۔

Read more...

تاجکستان کے مسلمانو! تمہارا دستور کتاب و سنت ہے، نہ کہ انسانوں کا وضع کردہ دستور جو انسانیت کو غلام بناتا ہے

پریس ریلیز

چھ نومبر تاجکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جسے یوم دستور کہا جاتا ہے۔ تاجک قوم پر 1994 میں یہ تاریخ اس وقت تھوپ دی گئی جب مادہ پرست لادین سوویت اتحاد ٹوٹ چکا تھا۔ اس دستور کی رو سے جمہوری نظامِ حکومت جو دین کی زندگی سے جدائی کی فکر پر مبنی ہے کو آئینی بنادیا گیا، جہاں ایک صدر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی بنیاد پر عوام پر حکومت کا حق استعمال کرتا ہے۔
چھ نومبر 1994 کے اس دن کو امام علی رحمٰن کو دائمی طور پر صدر مقرر کیا گیا، جو 20 سال سے حکمرانی کررہا ہے۔ امام علی رحمٰن نے سوویت یونین کے زمانے میں کیمونسٹ پارٹی کے اعلیٰ سطحی تعلیمی اداروں میں کیمونسٹ آئیڈیالوجی کو پڑھا، یہ تعلیمی ادارے مارکس اور لینن کے مادی فلسفے کی تعلیم کی بنیاد پر پارٹی قیادتوں کو تیار کیا کرتے تھے۔
اس ملک کے لوگ قدیم زمانے میں حلقہ بگوش ِ اسلام ہوئے تھے۔ جب کیمونسٹ آئے تو یہاں کے مسلمانوں نے بہت زیادہ سختیوں اور مشکلات کا سامنا کیا مگرظلم وبربریت کے ان ایام میں بھی ان کا رشتہ اپنے دین سے نہیں ٹوٹا۔ جب سوویت یونین کا زوال ہوا تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اورسنجیدگی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرنے لگے، نئی مساجد کھول دی گئیں، مدارس کا افتتا ح ہوا اور عام تعلیمی اداروں تک میں نوجوان قرآن سیکھنے لگے۔ حتی کہ شرعی لباس زیب تن کرنے والی خواتین کی کثرت سے شہروں کی سڑکوں پر ایک نئی چھاپ نظر آنے لگی۔ مگر یہ حالات زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکے۔
امام علی رحمٰن کے آتے ہی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی، ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور ایک دفعہ پھر داعیانِ اسلام کا تعاقب کرنے، انہیں پابندِ سلاسل کرنے، ایذا و قتل جیسی بدترین کاروائیوں کا طریقہ کار دُہرایا جانے لگا، اس حد تک کہ اس نظام کے زیر سایہ اس نوع کی کاروائیاں ایک معمول کی شکل اختیار کرگئیں۔ لوگوں کا معیار زندگی غربت کی لکیر پار کرگیا تو دسیوں لاکھ افراد روٹی کی تلاش میں ترکِ وطن پر مجبور ہوئے، دور دراز کے ممالک میں جانے والے ان خانماں برباد انسانوں میں سے ہزاروں لوگ قتل ہوکر تاجکستان واپس آتے ہیں۔ جبکہ پیچھے رہ جانے والے عورتیں، بچے اور بزرگ بھوک اور پھاڑ کھانے والی سردی کا عذاب جھیلتے رہ جاتے ہیں۔
تاجکستان کے مسلمانو! طاغوتی دستور کا یہ دن منانا ایک غلطی اور گناہ عظیم ہے۔ ہماری تمام تر مصیتوں کی وجہ اپنے عظیم دین اسلام کے احکام کے مطابق زندگیاں نہ گزارنا ہے۔ اسلام کا نظام حکومت اسلامی عقیدے پر قائم ہوتا ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق اللہ عزوجل کے پاس ہوتا ہے اور حکمران صرف اللہ کےاحکامات کو نافذ کرنے میں مسلمانوں کے نائب کی حیثیت سے ان پر حکمرانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ﴾
"اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اُسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اوران کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹادیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔" (المائدة:49)
تاجکستان کے مسلمانو! ہم دنیا کی اس ذلت اور مصائب اور آخرت میں درد ناک عذاب سے تب ہی چھٹکارا پاسکتے ہیں جب ہم خلافت کو قائم کریں۔اس لئے ہم حزب التحریر کے پلیٹ فارم سے تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ جڑ جائیں اور اسلامی زندگی کے از سرنو آغاز کے لئے اپنے محبوب رسولﷺ کے طریقےپر ہمارے ساتھ ہوکر کام کریں۔ ایسا صرف رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر خلافت اسلامی کے قیام سے ہوگا جو ہمارے درمیان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے ذریعے حکومت کرے گی،اللہ ہی ہمار ا حامی وناصر ہو۔

Read more...

تفسیر سورۃ البقرۃ 111 تا 113

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِين - بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ - وَقَالَتْ الْيَهُودُ لَيْسَتْ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتْ النَّصَارَى لَيْسَتْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُون -

"اور یہ (یعنی یہود اور عیسائی) کہتے ہیں کہ جنت میں سوائے یہودیوں یا عیسائیوں کے کوئی بھی ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں۔ آپ ان سے کہیں کہ اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ۔ کیوں نہیں؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی اپنا رُخ اللہ کے آگے جھکا دے اور وہ نیک عمل کرنے والا ہو،اُسے اپنا اجر اپنے پروردگار کے پاس ملے گا۔ اور ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے۔ اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، حالانکہ یہ سب (آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں۔اسی طرح وہ (مشرکین) جن کے پاس کوئی (آسمانی) علم سرے سےہی نہیں ہے، اُنہوں نے بھی اِن (اہلِ کتاب) کی جیسی باتیں کہنی شروع کردی ہیں۔ چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہےہیں۔ (البقرۃ:111-113)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات کے اندر مندرجہ ذیل امور بیان فرمائے ہیں:
1- بے شک یہودیوں نے کہا تھا کہ ان کے سوا کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا، نصاریٰ (عیسائیوں) نے بھی یہی کہا تھا کہ صرف ہم جنت میں داخل ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ان کی یہ باتیں محض باطل اور بے سروپا ارمان ہیں جیساکہ ان کی یہ تمنا کہ آنے والا رسول ان ہی میں سے ہوگا، یا جیسا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اپنے حسد اور ہٹ دھرمی وانکار کی وجہ سے کفار بنانے کی تمنا کی، پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ انہیں بتاتے ہیں کہ ان کی یہ آرزوئیں جھوٹی ہیں ورنہ اگر وہ سچے ہی ہیں تو لائیں کوئی دلیل۔
اگرچہ انداز مطالبے کا اپنا یا گیا ہے یعنی (قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِين) "کہیں کہ اگر تم ( اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ" مگر حقیقت میں اللہ نے ان کا جھوٹ کھول دیا ہے کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی برہان اور دلیل پیش کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، سو یہ جھوٹی بات کرتے ہیں، جیساکہ دوسری آیت (بَلَى مَنْ أَسْلَمَ ) کی تفسیر میں یہ بات واضح ہوجائے گی انشاء اللہ۔
2- اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات مبارکہ کے اندر واضح کیا ہے کہ ان کا قول باطل ہے اور ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جنت نہ تو یہود کی ہے اور نہ نصاریٰ کی، بلکہ یہ ہر اُس شخص کے لئے ہے جو مخلصانہ ایمان لائے اور رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے احکامات کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے سرتسلیم خم کردے اور اسی کا مطیع بن کے رہے، تو ایسے لوگ جنت کے مستحق ہیں اور انہیں کسی قسم کا خوف اور پریشانی نہیں ہوگی۔
(اَسلَمَ) لُغت میں اسلام کا اصل معنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے جھکنا اور اس کی فرمانبرداری واطاعت ہے۔ شرع کی رو سے اسلام کا معنی ہے وہ دین جو محمدﷺ پر نازل کیا گیا جیسا کہ ان آیات سے واضح ہے إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلاَمُ (آل عمران:19)، وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ (آل عمران:85)۔
(أَسْلَمَ وَجْهَهُ) "اپنا چہرہ جھکا دے" مرُاد اس سے یہ ہے کہ پورا کاپورا جھک جائے، یہاں "وجہ" کا استعمال مجازی معنیٰ میں کیا گیا ہے اور اس کو اِطلاقُ الجزء للدلالۃِ علی الکلِّ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی کسی شے کا ایک جز و ذکر کے اُس سے پوری شے مراد لیا جائے،تو یہاں بھی وجہ (چہرہ) کو ذکر کے پورا جسم مراد لیا گیا ہے۔
(بَلیٰ) حرف ِایجاب ہے اور اس کو صرف ایسی بات کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کی ماقبل میں نفی کی گئی ہو، چونکہ یہود اپنے علاوہ دوسروں کے لئے جنت کا داخلہ ممنوع قرار دیتے تھے اور اس بات کی نفی کرتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور بھی جنت میں داخل ہوسکتا ہے، چنانچہ بلیٰ کا کلمہ لا کر جو بات وہ نہیں مانتے تھے اُس کو ثابت کیا گیا ہے یعنی ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جنت میں داخل ہوں گے۔
یہاں (فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ) میں مفرد کی ضمیریں لائی گئی ہیں جبکہ (وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ) میں جمع کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے مَن اَسلَمَ کے اندر مَن کا لفظ آیا ہے یہ ایسا لفظ ہے جولفظی طور پرتو مفرد ہے جبکہ معنوی اعتبار سے اس کے اندر کثرت یعنی جمع کا معنیٰ پایا جاتا ہے، تو کبھی اس کی لفظی حیثیت کو دیکھتے ہوئے مفرد لیا جاتا ہے اور کبھی اس کی معنوی حیثیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اس کو جمع کا صیغہ مانا جاتا ہے، آیت کریمہ میں اسی نہج پر استعمال ہوا ہے۔
3- آخری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ یہودی عیسائیوں کے بارے میں کیونکر یہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں یعنی ان کا سرے سے کوئی دین ہی نہیں یہی بات عیسائی ان کے بارے میں کرتے ہیں کہ یہود کا کوئی دین نہیں، اور یہ تب ہوا تھا جب رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ میں نجران کے نصاریٰ آئے اور یہودیوں کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ کس طرح یہ بات کرتے ہیں، حالانکہ فریقین اہل کتاب ہیں اور ان کی کتابیں اس کی گواہ ہیں کہ یہود کے پاس اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اسی طرح عیسائیوں کے پاس حضرت عیسی ٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اس کے باوجود ہر ایک فریق دوسرے کے بارے میں طعنہ زنی کرتا ہے، جس کی بدولت دونوں فریقین نے اپنی حیثیت گھٹا کر اپنے آپ کو اُن جہلاء میں شامل کردیا ہے جن کے پاس علم ہے نہ کوئی کتاب، جیسے بتوں کے پجاری مشرکین جن کا تمام ادیان والوں کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ان کی سرزنش کی ہے۔
اب اللہ تعالیٰ اس آیت کا اختتام اس بات سے کر رہے ہیں کہ قیامت کے دن ان باتوں پر ان کا محاسبہ کیا جائے گا، جس دن صرف اللہ کی حکمرانی ہوگی اور وہ سب کو ان کے کئے کا بدلہ چکا دے گا،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ "چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہےہیں"۔

Read more...

جنرل راحیل کا دورہ امریکہ امریکہ کو خطے کے معاملات میں ملوث کرنا بھیڑیے کو مدد کے لیے پکارنا ہے

جنرل راحیل شریف نے دورہ امریکہ کے دوران افغانستان، شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن اور بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جاری جارحیت کے حوالے سے امریکی انتظامیہ، اراکین کانگریس و سینٹ اور فوجی قیادت کو معاملات سے باخبر کیا۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کی فوج کا سربراہ اسلام، امت مسلمہ اور پاکستان کے دشمن امریکہ کو پاکستان اور خطے کی صورتحال سے باخبر کرنے کے لئے ایک طویل دورہ کررہا ہے۔ کیا پاکستان امریکہ تعلقات کی تاریخ یہ نہیں بتاتی ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے کے بعد اکیلا چھوڑ دیا؟ 1965 اور 1971 میں بھارت کے خلاف جنگوں میں امریکہ کی پاکستان کی کوئی مدد نہ کرنا اور افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے پاکستان کو اکیلا چھوڑ دینا اس بات کا ثبوت ہیں۔ ان حقائق کے باوجود امریکہ کو خطے میں اس کے مفادات کے حصول کے لئے تعاون فراہم کرنا اور بھارتی جارحیت پر اس کی شکائت امریکہ سے کرنا جہاں پاکستان کی حیثیت دنیا کے سامنے امریکہ کے ایک زرخرید غلام کی طرح نظر آتی ہے وہی امریکہ کو خطے کے معاملات میں مداخلت کی دعوت دینا مدد کے لئے بھیڑیے کو پکارنے کے مترادف ہے۔
لائن آف کنٹرول پر جاری بھارتی جارحیت کو مکمل امریکی آشیر باد حاصل ہے۔ امریکہ خطے میں اپنے مفادات کی نگہبانی کے لئے بھارت کو کھڑا کرنا چاہتا ہے تا کہ خطے میں چین کی ابھرتی طاقت و اثرو رسوخ کو محدود کرنے اور 50 کروڑ مسلمانوں کے خلاف بھارت کو استعمال کر سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے امریکہ اپنے وفادار ایجنٹ مودی کی بھر پور فوجی، معاشی اور سیاسی مدد ومعاونت کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا پاکستان کے متعلق یہ منصوبہ ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے علاقائی طاقت بننے کی راہ میں روکاٹ نہ بن سکے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کی عظیم مسلم افواج کو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے قبائلی علاقے میں طویل اور نہ ختم ہونے والے تنازعات میں الجھا دیا ہے۔ جنرل راحیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے بھائی کو بھارتی جارحیت کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے پر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز "نشان حیدر" ملا تھا جبکہ امریکہ نے انہیں فوجی تمغہ بھارت کو مضبوط و طاقتور کرنے کے امریکی منصوبے پر آنکھیں بند رکھنے کے صلے میں دیا گیا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں اور افواج پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ سے دوستی اور اس کی ہدایت پر چلنے میں پاکستان کے مسلمانوں اور افواج کا نقصان ہی نقصان ہے۔

يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِنْ تُطِيعُواْ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُواْ خَاسِرِينَ
"اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیں مانو گے تو وہ تمھیں ایڑیوں کے بل پلٹا دیں گے، پھر تم نامراد ہوجاؤ گے" (آل عمران:149)

Read more...

  حکمران اور عوام کی زمہ داری   یہ کتابچہ حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین ممبران کی جانب سے جاری کیا گیا

 

اِس کتابچے میں حکمران اور عوام کے درمیان تعلق کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ،اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ایک مضبوط اسلامی معاشرے کے لیے اس تعلق کی کتنی اہمیت ہے۔یہ کتابچہ ایک انتہائی اہم موضوع کاتعارف ہے۔اِس میں اس بنیادی نکتے کوبیان کیاگیاہے کہ ایک مسلمان کی کیاذمہ داری ہے اور خاص کرعوام کے حوالے سے حکمران کی اورحکمران کے حوالے سے عوام کی کیا ذمہ داریاںہیں۔جب اللہ گکے حکم سے خلافت کی واپسی ہوگی، تواُمت پرلازم ہوگاکہ اسے اپنے دانتوں کی گرفت سے پکڑلے، تاکہ وہ تباہ کن حالات دوبارہ ہم پر مسلط نہ ہوسکیں جو اسلامی خلافت کی غیرموجودگی میں ہم آج بھگت رہے ہیں۔

 

PDF فائل داؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

نوید بٹ کو رہا کرو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کی رہائی کے لیے انڈونیشیا سے لے کر تیونس تک جاری بین الاقوامی مہم  

نوید بٹ ،اس امت کا معزز اور قابل احترام بیٹا، اسلام اور خلافت کا بے خوف داعی،جسے 11مئی2012کو پاکستان میں چیف امریکی ایجنٹ جنرل کیانی کے غنڈوں نے اغوا کرلیا تھا۔ کیانی کا یہ جرم اس امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت اسلام اور خلافت کی واپسی کی بڑھتی ہوئی خواہش کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔نوید آج بھی ظالموں کی قید میں اور لاپتہ ہے۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک