الجمعة، 25 صَفر 1446| 2024/08/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: عراق کی سیاسی صورت حال میں پیش رفت

سوال :
حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گردش کرتی رہی کہ امریکی جہازوں نے عراق کے شمال میں الدولۃ تنظیم کے بعض ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں ۔۔۔اوبامہ اور بعض امریکی عہدہ داروں کے بیانات بھی سامنے آئے کہ یہ اقدام انسانی بنیادوں اور نسل کشی کے واقعات ہونے کے خوف سے اٹھا یا گیا، حالانکہ شام میں اس سے زیادہ شدید اور سنگدلانہ خونریزی کے واقعات رونما ہوئے مگر امریکہ نے مداخلت نہیں کی بلکہ عراق ہی میں الانبار اور الفلوجہ میں زبردست قتل و غارت کی گئی اور امریکہ نے کوئی مداخلت نہیں کی جس کا یہ مطلب ہے کہ عراق کے شمال میں امریکی ہوئی جہازوں کے بمباری کا حقیقی سبب انسانی محرکات نہیں کیونکہ واقعات کے تسلسل کو مدنظر رکھنے سے یہ سمجھا جاسکتا ہے۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ : اگر یہ بات درست ہے اور حملوں کا سبب یہ نہیں ۔۔۔تو مجھے امید ہے کہ اگر ممکن ہو سکے حالیہ واقعات کے بارے میں اپنے سیاسی تجزئیے کے مطابق حقیقی سبب کو بیان کریں گے اور اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب :
1۔ جی ہاں آپ نے جو کہا ہے کہ انسانی محرکات اس کا سبب نہیں درست ہے۔ امریکی اقدامات اور اس کی مداخلت کے واقعات کو پیش نظر رکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ انسانی بنیادوں کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، عراق اور افغانستان میں اس کے جرائم بھی اس کے منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔۔ابو غریب اور گونتاناموبے کے عقوبت خانوں میں تشدد بھی اس پر شاہد ہے۔۔۔میانمار میں قتل وغارت اور اجتماعی نسل کشی، ان اندوہناک واقعات کے بعد بھی جن کا مسلمانوں نے سامنا کیا امریکہ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا یا جو میانمار حکومت کے لیے تکلیف دہ تو دور کی بات اس کو پریشان کر سکے۔۔۔بلکہ اس کے بر عکس اس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بڑھا یا۔۔۔اس موضوع پر امریکی جرائم کا احاطہ کرنے کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔
2۔ امریکہ 2003 میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے تیار ی کررہا ہے، چنانچہ پال بریمر نے فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیاد وں پر جو دستور وضع کیا جس میں ہر گروہ اور مسلک کے لیے حصہ مقرر کیا گیا ۔۔۔اس کو جمہوریہ کے سربراہ، پارلیمنٹ کے سربراہ اور وزیر اعظم کے لیے الگ الگ کیا، چونکہ وزیر اعظم ہی حکمرانی کے اختیارات کا مالک ہے بریمر نے اس کو ایک مذہبی منصب کا روپ دیا اس لیے دوسرے عناصر کے لیے یہ اشتعال اور انارکی پھیلانے کے قابل بن گیا۔۔۔اس لیے صورت حال اس قدر بگڑ گئی کہ عراق عملاً منقسم ہو گیا : شمال مشرق میں کرد، مغرب اور شمال میں سنی اور جنوب اور بغداد میں شیعہ ۔۔۔
3۔ لکھا گیا دستور خود کہتا ہے کہ نظام صوبوں کے مابین فیڈریشن پر مبنی ہو گا جس میں صوبوں کے پاس زیادہ تر اختیارات ہوں گے، اسی وجہ سے امریکہ عراق کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہرٹکڑا اپنے اندرونی مسائل خود حل کرے گا بلکہ اپنے اندرونی تنازعات کو دوسرے ٹکڑے میں داخل نہیں کرے گا۔ امریکہ اس راستے پر گامزن رہا اور 2011 میں عسکری لحاظ سے عراق سے نکلنے کے بعد ایک ایسے سکیورٹی معاہدے کو عملی جامہ پہنایا جس کے ذریعے عراق میں حکومت کو منظم کیا مگر اس نے امن اس طریقے سے قائم کیا کہ عراق کو مختلف علاقوں میں تقسیم کیا لیکن انہیں ایک کمزور جوڑ کے ذریعے متحد رکھا تا کہ مستقبل میں عراق کی حتمی تقسیم کی پالیسی کا پیش خیمہ ثابت ہو اگر یہ ممکن ہو۔ لہٰذا وہ عراق کی سکیورٹی کو اس زاویے سے دیکھتا ہے یعنی کہ اگر ایک خطہ دوسرے خطے میں مداخلت کرے تو یہ سکیورٹی کا مسئلہ ہے لیکن اگر ایک خطے کے اند سکیورٹی مسائل پیدا ہوں لیکن وہ دوسرے خطے کی سکیورٹی کو خراب نہ کرے تو کوئی مسئلہ نہیں۔
4۔ اس بنا پر اگر سنیوں کے مسائل انہی کے علاقے تک محدود ہوں، کردوں کے مسائل انہی کے علاقے تک محدود ہوں یا شیعوں کے مسائل ان کے علاقے تک محصور ہوں تو اس کو امن و امان کے حوالے سے کوئی ایسی تشویش نہیں ہو گی جو اس کو مداخلت پر اکسائے اور جب تک بغداد تینوں خطوں کے لیے راہ گزر رہے اگرچہ وہ بغداد کے ساتھ ایک کمزور رشتے سے جڑے ہوں ۔۔۔اسی لیے جوں ہی کوئی ایک ٹکڑا دوسرے میں دست درازی کر تا ہے تو امریکہ اس کو امن میں خلل قرار دے کر مذکورہ سکیورٹی معاہدے کو جواز بنا کر مداخلت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ٹکڑا مرکز "بغداد" کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کو امن وامان میں خلل قرار دے کر مداخلت کرتا ہے۔۔۔عراق کے ساتھ اس قسم کے سکیورٹی معاہدے کی تکمیل کے لیے امریکہ اس وقت سے پیش رفت کررہا ہے جب صرف کردوں کے لیے مخصوص ٹکرا تھا۔۔۔لیکن پھر اس کے بعد حالیہ سالوں میں باقی ٹکڑوں کے لیے بھی صورت حال کو عملاً تیار کیا گیا: سنیوں کا علاقہ، شیعوں کا علاقہ۔۔۔اس مقصد کے لیے شیعہ اور سنی کے درمیان عداوت کا بیچ بونے کے لیے خباثت پر مبنی منصوبہ بنایا جس سے نفرت پروان چڑھے۔ امریکہ کا پروردہ نوری المالکی خاص طور پر فرقہ پرست تھا جس نے دوسروں کو بھی مشتعل کیا جس سے تقسیم کے لیے ماحول سازگار ہو گیا اور وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو گیا۔ پھر المالکی نے سنیوں اور کردوں کے درمیان بھی عداوت کا بیچ بویا یہاں تک کہ عراق کی تقسیم بہت سارے لوگوں کا مطالبہ بن گیا۔۔۔المالکی اس عداوت کو پروان چڑھانے اور علاقائیت اور تقسیم کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گیا یہی امریکہ کی جانب سے دیا جانے والا فرض منصبی تھا جس کو پورا کرنے کے لیے اس کو وزیر اعظم بنا یا گیا تھا۔۔۔آج یہ مقصد پورا ہو گیا اور المالکی عراق میں لوگوں کے درمیان عداوت کا ماحول پیدا کر نے میں کا میاب ہو گیا اور اس کا کردار بھی اختتام کو پہنچ گیا۔ اب ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو حالات کو کنٹرول کرے، اس عداوت کی فضاء سے فائدہ اٹھائے تاکہ ان ٹکڑوں اور علاقوں کو اس طرح منظم کرے کہ یہ اپنی اپنی جگہ خود مختار اور مرکز کے ساتھ برائے نام مربوط ہوں۔ وہ شکل اختیار کریں جس کو متحدہ ریاست کہا جاتا ہے۔۔۔یوں مالکی کا کردار ختم ہو گیا اور اس کے آقا امریکہ نے بھی اس کو ذلیل کر کے ایک طرف پٹخ دیا، حتی کہ اس کو گود لینے والے ایران نے بھی اس کو نظر انداز کر دیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کی خدمت اور اس کے مفادات کے لیے یہ سب کچھ کرنے کے بعد اور ایران کی خدمت اور اس چاپلوسی کرنے کے بعد دونوں کی جانب سے اس ذلت آمیز طریقے سے دھتکارنے پر المالکی سیخ پا اور غصے میں ہے ۔۔۔اگر یہ شخص عقل والا ہو تا تو اس کوکوئی تعجب نہ ہوتا کیونکہ تمام ایجنٹوں کایہی حال ہوتا ہے کہ جب ان کا کام پورا ہو جاتا ہے تو ان کوسڑک کے کسی کنارے پھینک دیا جاتا ہے، کچھ کو ایسی سڑک پر پھینک دیتا ہے جس میں پتھر نہیں اور کچھ کوایسی سڑک پر جس پر پتھر ہیں جو ان کے جسموں کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔۔۔!
5۔ اس وجہ سے امریکہ نے سنی علاقوں میں رونما ہو نے والے خونریزی کے واقعات کو جو قبائل، الدولۃ تنظیم، بعثیوں اور نقشبندیوں کے درمیان ہوئے، اہمیت نہیں دی۔قتل و غارت کے تمام واقعات کو امن وامان کا مسئلہ بھی نہیں سمجھا کیونکہ یہ ایک ہی ٹکڑے کے اندر پیش آرہے تھے۔۔۔اسی طرح 10 جون 2014 کو الدولۃ تنظیم کے موصل، تکریت یا کسی اور علاقے میں داخل ہو نے کو امن میں خلل قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے اجتماعی نسل کشی قرار دیا اور نہ اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا۔۔۔کیونکہ یہ قتل غارت ایک ہی خطے کے اندر تھی ۔۔۔لیکن اس نے الدولۃ تنظیم اور دوسرے سنی گروپوں کے بغداد کے قریب پہنچنے کو خطرناک اور امن وامان کے لیے تشویشناک قرار دیا اور فوراً سکیورٹی ماہرین روانہ کر دیے جیسا کہ بساکی نے 16 جون 2014 کو ان کے بغداد سفارت خانے روانگی کی تو ثیق کر دی۔ بغداد کا سفارت خانہ ہی دنیا بھر میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ ہے جو سازشوں کا گڑھ ہے جہاں انسانیت کے خلاف جرائم میں خبیث ترین اسالیب استعمال کیے جاتے ہیں۔۔۔پھر 31جون 2014 کو امریکہ نے 300 فوجی مزید روانہ کیے۔ اس کے علاوہ ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ کے جہاز بھی بھیج دیے، پینٹاگان نے بغداد ائر پورٹ میں سکیورٹی ماہرین بھی تعینات کر نے کا اعلان کر دیا ۔ پینٹا گان کے ترجمان ایڈمیرل جوکیربی نے کہا کہ 200 فوجی عراق پہنچ گئے ہیں تاکہ عراقی دار الحکومت میں موجود سفارت خانے اور بغداد کے بین الاقوامی ائرپورٹ پر تنصیبات کی حفاظت میں مدد کر سکیں، جبکہ 100 مزید فوجی بغداد روانہ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے "تاکہ لوجسٹک اور امن کے لیے مدد فراہم کریں"۔۔۔یہ سب ان تنظیموں کو بغداد میں داخل ہو نے سے روکنے کے لیے دھمکی تھی اسی لیے بغداد پر حملے کم ہوئے بلکہ رک گئے۔۔۔حالانکہ اس وقت مالکی اور اس کی فورسز کی عسکری صورت حالت خراب تھی اور یہ تنظیمیں با آسانی بغداد میں داخل ہو سکتی تھیں لیکن انہوں نے امریکہ کی جانب سے دھمکی کے اشاروں کو سنجیدگی سے لیا اور واپس ہو گئیں۔۔۔!
6۔ یو ں عراق میں امریکہ کے مرتب کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کسی واقعے کے رونما ہو نے کو ہی امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے، ایسا کچھ ہو نا ہی اس کے نزدیک اجتماعی نسل کشی کا خطرہ ہے اور امن و امان میں خلل اور سرخ لکیر کو پار کرنا ہے۔۔۔لیکن اس امریکی سرخ لکیر کو پار کیے بغیر جس قدر بھی قتل و غارت کی جائے اور خون کی ندیاں بہائی جائیں، انسان، درخت اور پتھروں کو بھی تباہ کیا جائے بشرطیکہ اس سے امریکہ کے مفادات پورے ہوتے ہوں اور اس کے منصوبے کے مطابق ہو تو وہ جرم نہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ الدولۃ تنظیم کا سنی علاقوں سے آگے بڑھ کر کردستان کے قریب پہنچنا امریکہ کے نزدیک امن میں خلل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اجتماعی نسل کشی ہے، جیسا کہ اوبامہ نے9 اگست 2014 کو نیویارک ٹائم کو انٹرویو کے دوران عسکری مداخلت اور عراق کے شمال میں فضائی حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: "اگر صورت حال منفرد ہو اور اجتماعی نسل کشی کا خطرہ ہو اور کوئی ریاست وہاں ہماری موجود گی کی خواہش بھی رکھتی ہو ۔۔۔ تب ایسا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے"۔ یہ بات وہ ایسے وقت میں کر رہا ہے جب شام میں اس سے کئی گنا زیادہ خونریزی ہوئی ہے اور جلا کر راکھ کر دینے والے مائع مواد کے ڈرم گرائے جارہے ہیں ۔۔۔لیکن اس سے اوبامہ نے اجتماعی نسل کشی کا خطرہ محسوس نہیں کیا ! اس لیے شام کے سفاک کی جانب سے قتل و غارت کے خلاف مداخلت نہیں کی۔۔۔لیکن اس نے عراق کے شمال میں خطرے کے کردستان کے علاقے کے قریب ہو نے پر ہی مداخلت کر دی، چنانچہ 8 اگست 2014 کو اپنے خطاب میں مداخلت کا اعلان کردیا۔ اس کے نائب جوبائڈن نے البرازانی کو فون کر کے امریکی حمایت کا یقین دلایا، پھر 9 اگست 2014 کو ہفتے کے دن سے امریکہ نے فضائی حملے شروع کردیئے۔۔۔
7۔ امریکی مداخلت کا بنیادی سبب الدولۃ تنطیم کی جانب سے کر دستان کے علاقے میں حملوں کو روکنا ہے تا کہ امریکی پالیسی کے مطابق عراق کو ایسے تین ٹکڑے بنانے کی راہ ہموار کی جائے جو خود مختار ہوں اور جن کے مرکز سے را بطہ برائے نام ہو اور ایک ٹکڑا دوسرے پر قبضہ نہ کرے۔ وہ عراق کو پہلے کی طرح ایک ریاست باقی رکھنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ اس کو تین مختلف خطے بنا کر بعد میں اپنی پالیسی کے مطابق بالا آخر قانونی طور پر عملاً تقسیم کر دے۔ ساتھ ہی وہ ان ٹکڑوں کے اندر داخلی تنازعات کو امن وامان کے لیے کوئی ایسا مسئلہ نہیں سمجھتا جو اس کے معاہدے کے خلاف ہو جس کی رو سے امریکہ کو مداخلت کی اجازت ہے۔۔۔
یہ ہے مداخلت کا سبب۔ مداخلت کا سبب کوئی انسانی محرک یا اجتماعی نسل کشی کا خوف نہیں۔۔۔سرمایہ دار ریاستیں جن کا سرغنہ امریکہ ہے، کے ہاں کسی انسانی یا اخلاقی عوامل کا کوئی وزن نہیں بلکہ ان کے لیے مسئلہ اپنی سازشوں کو کامیاب کرنا اپنے منصوبوں کی ترویج کرنا خواہ اس کے لیے نسلوں اور فصلوں کو تبا ہ کرنا پڑے۔۔۔یہ ہیں وہ استعماری کفار جو مؤمن کے بارے میں کسی رشتے کا پاس رکھتے ہیں نہ ہی کسی تعلق کا لحاظ ، بلکہ وہ جہاں بھی گئےان کے ہاتھ خون سے رنگے ہو ئے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہ ہیں، جو کچھ وہ کر ہے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے۔
8۔ آخر میں کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ امت مسلمہ جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کی وہ آج ان سرکش اور ذلیل حکمرانوں کے نیچے ہے جو امت کی گردن پر سوار ہیں جنہوں نے اس کو استعماری کفار اور ان کے ایجنٹوں کا اکھاڑا بنا یا ہوا ہے جہاں وہ اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو عملی جامہ پہنا تے ہیں۔۔۔نوے سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے خلافت کے انہدام پر خاموش رہنے کی وجہ سے اس امت پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں کیونکہ وہ ڈھال ہی اس کے ہاتھ سے گرگئی جس سے اس کی حفاظت ہو تی تھی اور جو ان کی نگہبانی کرتی تھی ۔۔۔لیکن وہ چیز جس سے یہ مصائب ہلکے ہو جاتے ہیں وہ ہے امت کے اندر بیداری کی پر اثرلہر جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔آج یہی امت ایک بار پھر قوت اور چستی سے انگڑائی لے رہی ہے۔۔۔اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے اذن سے جو چیز غموں کو ہلکا کر دیتی ہے وہ دعوت کے ان پاکبازشہسواروں کا وجود ہے جنہوں نے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے، جو ایک ایسی متقی اور پاک حزب کی شکل میں جدو جہد کر رہے ہیں جو نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کو واپس لانے کی زبردست کوشش کر رہی ہے ۔ تب ہی یہ امت وہی عزت اور کامرنی حاصل کر لےگی جیسا کہ اس کو پہلے حاصل تھی اور واقعی وہ بہترین امت ثابت ہوگی جس کو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اوریہ اللہ کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں ۔۔۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾ "اور کچھ ہی عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"

Read more...

"صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورا فلسطین مسلم افواج کو پکار رہا ہے " کے عنوان سے منعقد کی گئی عالمی میڈیا کانفرنس کا اختتامی بیان جسے حزب التحریر نے 19شوال 1435ھ بمطابق 15 اگست 2014 م کو بیروت - لبنان میں منعقد کیاتھا

حزب التحریر کی یہ کانفرنس "صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورا فلسطین مسلم افواج کو پکار رہا ہے " کے عنوان سے منعقد ہوئی ۔ مصر، اُردن اور ترکی سے تشریف لانے والے حزب التحریر کے میڈیا نمائندگان نے اپنی تقریروں میں اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کے حوالے سے امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ غزہ بلکہ پورے فلسطین کی آزادی کے لئے افواج کو روانہ کیا جائے۔ انہوں نے فوجیوں اور فوج کے افسران کے رشتہ داروں اور اہل خانہ کو پکارتے ہوئے کہا کہ وہ فوج میں اپنے رشتہ داروں کو اہل غزہ کی مدد اور الاقصیٰ کی آزادی کے لئے تیار کریں اورانہیں امت کے حوالے سے اپنی عسکری ذمہ دار یوں کو نبھانے کا احساس دلائیں، اور یہ کہ وہ امت پر مسلّط حکمرانوں کے بے رحمانہ احکامات ماننے سے انکار کریں.....لبنان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے صدر نے بھی اپنی تقریر میں فلسطین سے متعلق مذاکرات اور معاہدوں اور ان کے اندر موجود سازشوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ فلسطین کے مسئلے کو یہ قرار دینا کہ یہ "فلسطینی مسئلہ " ہے دراصل بددیانتی ہے یا پھر اس مسئلے کو ناکامی سے دوچار کرنے کی کوشش ہے۔
غزہ سے ریکارڈشدہ ایک تقریر حاضرین کو سنائی گئی جو فلسطین میں حزب التحریر کے میڈیا آفس نے تیار کی تھی اور اس کی پریزنٹیشن بھی آفس کی طرف سے دی گئی ،جس میں غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں، تباہی کو بیان کیا گیا جس کی منصوبہ سازی یہودی وجود کی طرف سے کی گئی تھی ۔ انہوں نے بہادرلوگوں اور افواج سے پکار پکار کر یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس مبارک سرزمین کی نصرت وآزادی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں ۔ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کی طرف سے بھی ریکارڈ شدہ تقریر نشر کی گئی جس میں بتا یا گیا کہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے پیرو کار تمام لوگوں سے جدا ایک امت ہے، ان کی جنگ ایک ہے اور ان کا امن بھی ایک ہے اور شام کے لوگ غزہ والوں کے درد میں برابر کے شریک ہیں.....
اسی طرح مرکزی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر نے بھی اپنی تقریر میں پڑوسی مسلم ممالک کی افسوسناک صورتحال پر زور دیا، جن کا طرز عمل ہی یہودی ریاست کے تکبر اور غزہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم میں اضافے کا جواز بنا ...... اور یہ کہ یہودی مبارک سرزمین کے غاصب ہونے کے علاوہ ایک بد دیانت قوم ہے.... انہوں نے مسلم افواج اور بالخصوص پڑوسی مسلم ممالک کی افواج کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا:
ہم یہ جانتے ہیں کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوکر ہمارے لئے خلافت قائم نہیں کریں گے اورنہ ہی ہماری افواج کی قیادت کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ تب ہی ہماری مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجے گا جب ہم سنجیدگی، صدق واخلاص کے ساتھ دنیا میں اسلامی زندگی کے از سر نو آغاز اور خلافت قائم کرنے کے لئے عمل کریں گے، ہماری افواج یہود کے ساتھ قتال اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے حرکت میں آئیں گی، تب غالب اور طاقتور اللہ فرشتوں کو نازل کردے گا جن کے ذریعے ہماری مدد فرمائی جائے گی گا اور ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ وہ ہمارے نائب بن کر ہماری طرف سے لڑیں گے ۔ قرآن کی آیات اس پر شاہد عدل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ) "ہاں ! بلکہ اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کرنے بھیج دے گا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی" (آل عمران:125)۔
پھر سوال وجواب کا ایک سیشن ہوا جس میں صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں کی طرف سے مختلف سوالا ت کئے گئے،جن کا نہایت شفافیت اور گہرائی کے ساتھ جوابات دئے گئے۔
آخر میں بطور خلاصہ کے مندرجہ ذیل تین نکات پر زور دیا گیا جن کو اس کانفرنس نے سفارشات بلکہ ذمہ داریوں کا نام دیا، جن کے لئے اُمت پر کام کرنا واجب ہے۔
1۔مسلم علاقوں کی آزادی، لوگو ں کی حفاظت اور دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں کو کاٹنے کے لئے مسلم افواج کا متحرک ہونا فرض ہے۔ اگر افواج حرکت میں نہیں آتیں تو اُمت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افواج کو ان پر مسلط حکمرانوں کے طوق کو گلے سے اتار پھینکنے کے لئے اُکسائے کیونکہ فوج اور اہل قوت ہی ہیں جو ان حکمرانوں کو کرسئ اقتدار پر بٹھاتے اور ان کے اقتدار کی بقاء کا باعث ہیں اور یہ افواج ہی ہیں جو ان کی رکھوالی کرتی ہیں ۔اس لئے اگر افواج اللہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کریں تو ان حکمرانوں کا زوال اور ان کی تبدیلی ممکن امر ہے جو ان شاء اللہ بالکل بھی مشکل نہیں۔
2۔ تمام وقتی حل اورمسلمانوں کے عزائم کو ناکام بنانے کی تمام کوششوں کو مسترد کرتے ہیں ۔ مثلاً غزہ میں بین الاقوامی فوج یا عالمی مبصرین کی تعیناتی اور فلسطین کی دو ریاستی حل جیسے حتمی قراردادیں یا ان جیسی دیگر سازشیں.....کیونکہ اہل غزہ نے مقامی طور پر تیار کئے گئے اسلحے کے ذریعے وہ کارنامے انجام دئے جن سے دنیا والوں کے دل دہل جاتے ہیں اور یہودی ریاست میں بھونچال آگیا .....تو آپ اندازہ کریں کہ جب پوری مسلم دنیا کی افواج حرکت کریں گی تو کیا غضب ڈھائیں گی۔
3۔ ذلت و خواری اور بے بسی کی دلدل میں پھنسی ہوئی اس اُمت کو حقیقی آزادی صرف ریاست خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے دوبارہ قیام کے ذریعے حاصل ہوگی جو اللہ کی شریعت پر فیصلہ کرنے والے ایک خلیفہ کی بیعت سے وجود پاتی ہے تاکہ اُمت کی بہترین حفاظت وتربیت اوردیکھ بھال کرسکے ۔ وہ خلیفہ جو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ کردے گا اور صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورے فلسطین اور تمام مسلم سرزمینوں کو کفار کے قبضہ سے آزاد کرائے گا.....وہ ریاست خلافت جو امت مسلمہ کو اس کی عزت و شرف اور قو ت وطاقت کو واپس لوٹا دے گا اور ایک دفعہ پھر امت عالمی حالات کو نیا رخ دینے کے لئے دنیا کی قیادت کرے گی اور انسانیت کو اس کی خیر وبھلائی کے راستے پر گامزن کردے گی ۔
تو حزب التحریر آپ کو اسی کی دعوت دیتی ہے.....

عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

Read more...

حزب ِ ایران کاقلمون میں پہنچنے والے نقصانات پر پردہ ڈالنے کے لئے عرسال میں شامی انقلابی مسلمانوں سے وحشیانہ انتقام

شام میں حزب ِ ایران نے بڑے بڑے نقصانات اٹھانے، شام کے بابرکت انقلاب میں اپنے وجود کو مسلمانوں کے خون سے رنگین کردینے اور قلمون میں گزشتہ دنوں شکست سے دوچار ہونے کی وجہ سے اسے اپنے حامیوں کے سامنے انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی اس شرمدگی اور خفت کو چھپانے کے لئے حزب ایران نے عرسال کے گاؤں میں جو شام کی سرحد کے ساتھ لگتا ہے، مسلمانوں کا بدترین قتل عام کیا اور اپنے جرائم میں ایک اور جرم کا اضافہ کیا۔ عرسال کا گاؤں بے گھر ہونے والوں کے لئے ایک پناہ گاہ تھا جو بیرل بموں کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے کیونکہ یہ شام لبنان سرحد کے قریب ہی واقع ہے ۔ اب یہ بات مکمل طور پرواضح ہوچکی ہے کہ وہ گروہ جو امریکہ کے مخالف تصور کیے جاتے تھے جیسا کہ حزب ایران، انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جو جرائم سرانجام دیے ہیں وہ کسی بھی طرح ان کے آقاؤں کے جرائم سے کم نہیں جو امریکہ کی ایجنٹ ہیں جیسا کہ بشار اور ایران۔ یہ حکمران کسی بھی طرح بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنے میں یہودی وجود سےپیچھے نہیں ہیں ۔ اور یہ سب کچھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کیا جارہا ہے ۔ حزب ایران نے لبنانی فوج کو عرسال میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے خلاف جنگ میں پورے طریقے سے پھنسا دیا ہے ۔
اے شام کے مسلمانو! یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس حکومت کو گرا دینے کے لئے صرف تمہارے نکل کھڑے ہونے اور اللہ کی شریعت نافذ کرنے کی صدا دینے سے مشرق ومغرب تمہارے خلاف ایک ہوگئے اور امریکی قیادت تلے کافر ممالک نے تم پر ایک ہی کمان سے وار کیا اوراس کی وجہ ایک ہی ہے جس کو اللہ نے اپنی معزز کتاب میں ذکر کیا ہے (وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ) "اور وہ ایمان والوں کو کسی اور بات کی نہیں، صرف اس بات کی سزاد ے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا، بہت قابل تعریف ہے" (البروج:8)۔
لہٰذا موجودہ مسئلہ ان کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے اور آپ کے لئے بھی یہ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ لوگ اللہ کی حکمرانی کے قیام کے نتیجے میں اپنی بادشاہت، تہذیب اور مفادات کے شدید نقصان کو خاموشی سےختم ہوتے نہیں دیکھیں گے اور یہ وہ حکمرانی ہو گی جو اسلام کو معیشت، عدالت اور معاشرتی زندگی کا مکمل حصہ بنا دے گی۔ ہمیں قتل، تشدد، محاصروں اور بھوک سے پیدا ہونے والے شدید مسائل کے باوجود لازمی اسی راہ پر چلتے رہنا ہے جس پر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مضبوطی کے ساتھ چلتے رہے۔ آپﷺ نے قریش کی طرف سے مختلف قسم کی پیشکشیں پیش کیے جانے پر فرمایا تھا ((والله لو وضعوا الشمس في يميني والقمر في يساري على أن أترك هذا الأمر ما تركته حتى يظهره الله أو أهلك دونه)) "اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں میں چاند رکھ دیں، کہ میں اس کام سے دستبردار ہو جاؤں تو میں نہیں چھوڑ سکتا جب تک یا تو اللہ اسے غالب کردے یا میں اسی راہ میں فناہ ہوجاؤں"۔ اس سے یہ واضح ہے کہ آپﷺ کی نظر میں یہ مسئلہ زندگی وموت کا مسئلہ تھا کہ وہ اسلام کو غلبہ دلا دیں یا پھر اللہ کے راستے میں موت آجائے ۔ سو تم صبر سے کام لو اور ڈٹے رہو، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے اور زمین میں خلافت واستحکام عطا کرنے کا وعدہ پورا ہوجائے اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے لوٹ آنے کی رسول کریمﷺ کی بشارت پوری ہوجائے، تب ظالموں کو اپنے انجام کا پتہ لگ جائے گا۔
اے دنیابھر کے مسلمانو! قتل وغارت گری ، تعاقب، شہر بدری، بھوک اور منفی پروپیگنڈا کی جس صورتحال کا ہم سامنا کررہے ہیں، ان سب کا ایک ہی سبب ہے کہ اسلام کا اقتدار امت کی زندگی میں مفقود ہے یعنی آج وہ امام ہمارے درمیان موجود نہیں جس کی قیادت میں جنگ کی جاتی ہے اور وہی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ شام کی سرزمین میں ہمارے بھائیوں کے ساتھ جو ہورہا ہے، اللہ کے سامنے اس کا جواب ہمیں دینا پڑے گا ۔ ہم نے ان کی مدد کرنے پر جو خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور جس بزدلی کا مظاہر کیا ہے، اس پر ہماری باز پرس ہوگی۔ ہم سے اس بارے میں بھی پوچھا جائے گا کہ مغرب کی طرف سے اپنے مفادات کی رکھوالی کروانے کے لئے مسلط کردہ حکمرانوں کو ہٹا کر اس ظلم اور بدحالی کو ختم کرنے کے لئے کیا کام کیا، وہ حکمران جن کی جنگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ ہے۔ ہم سے اس بارے میں سوال ہوگا کہ اس خلیفہ کو مقرر کرنے کے لئے کیا عمل کیا جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی نصرت اور ان کی حفاظت کے لئے لشکر روانہ کرے اور ان کو ایذا پہنچانے والوں سے انتقام لے۔
(لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ)
"اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ ہی کا ہے۔اس روز مسلمان شادمان ہوں گے اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔ "(الروم:4-5)۔
احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

غزہ کے مسلمانوں کے لئے حزب التحریرکے میڈیا آفس کی جانب سے عالمی سوشل میڈیا مہم

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس نے غزہ کے مسلمانوں کے مصائب اور یہود کی جارحیت اور بل آخر ان کے ریاستی وجود کے خاتمے کے عملی حل کو اجاگر کرنے کے لئے ایک عالمی سوشل میڈیا مہم شروع کی ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کو ہمارے مظاہروں اور پیسوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ انہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ مسلم افواج حرکت میں آئیں جن کے پاس یہودی ریاستی وجود کے خاتمے کے لئے کافی طاقت اور صلاحیت موجود ہے۔ مسلم افواج میں موجود مخلص افسران کو اس بات پر مجبور کرنے کے لئے وہ حرکت میں آئیں اور غدار حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکیں جنہوں نے انہیں غزہ کے مسلمانوں کی عزت اور مقدس خون کی حفاظت کرنے سے روک رکھا ہے، حزب التحریر نے سوشل میڈیا مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کے حوالے سے مندرجہ ذیل فیس بک اور ٹوئٹر اکاونٹ بنائے گئے ہیں:
https://www.facebook.com/MuslimArmies4Gaza
https://twitter.com/MArmies4Gaza
حزب التحریر ولایہ پاکستان، پاکستان کے مسلمانوں سے، جو مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر سخت غصے کا شکار ہیں، درخواست کرتی ہے کہ وہ ان اکاونٹس پر اپنے جذبات کا اظہار کریں اور پاکستان کی طاقتور مسلم افواج اور یہودی وجود کے چاروں جانب موجود مسلم افواج سے اس بات کا مطالبہ کریں کہ وہ اپنی طاقت و قوت کو فلسطین، اس کے عوام اور مسجد الاقصٰی کی آزادی کے لئے استعمال میں لائیں۔
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ
"اگر دین کی وجہ سےتم سےکوئی مدد مانگے تو تم پر ان کی مدد واجب ہے" (الانفال:72)

Read more...

حزب التحریر ولایہ شام نے غزہ کی حمایت میں ادلب کے مضافات میں مظاہرہ کیا

حزب التحریر ولایہ شام نے شمالی ادلب کے مضافات الدانا شہر میں غزہ کے بھائیوں کی حمایت میں مظاہرہ کیا ،جنہیں دنیا کی افواج نے بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ہے ۔ مظاہرین نے بینرز اُٹھا رکھے تھے جن پر اُمت ِمسلمہ کی وحدت اور نبوَّت کے نقش ِقدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے مطالبات درج کئے گئے تھے۔
مظاہرے سے حزب التحریر ولایہ شام کے میڈیا آفس کے سربراہ نے خطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم علاقوں ، بالخصوص غزہ میں ہونے والے واقعات انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔
انہوں نے اقوام ِعالم کی بُزدلی کو واضح کیا ،بالخصوص مسلم ممالک کے حکمرانوں کے کردار پر روشنی ڈالی جن کو مغربی کفار نے ہماری گردنوں پراس لئے مسلط کررکھا ہے تا کہ وہ اسلام کا مقابلہ اور یہودیوں کی پشت پناہی کریں اور مسلم علاقوں کے مزید ٹکڑے کئے جانے کی کوششوں کو کامیاب بنائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افواج کے پر یہ واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کو نصرۃ فراہم کریں اورالاقصیٰ کو آزادی سے ہمکنار کرائیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر مسلمانوں کو اپنے حکام کے خلاف خروج کرنے اور خلیفہ کو مقرر کرنے کی دعوت دی، وہ خلیفہ جو مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے۔

الاستاذ احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

عید الفطر کی آمد پر مبارکباد

ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کی طرف سے امت مسلمہ کو عید الفطرمبارک ہو۔اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ رمضان کے روزوں اور اس میں قیام کو قبول کرے گا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ یہ عید بھلائی اور برکت کے ساتھ دوبارہ آئےاس خلافت راشدہ کے سائے تلے جس کے ہوتے ہوئے ہم شرع کو نافذ کریں اور اپنے امور کی دیکھ بھا ل کریں،ہم اپنے رعایا کی حفاظت کریں اور اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائیں اور اس خلافت کی موجودگی میں ہم دعوت وجہاد کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام کا پیغام لے کر جائیں۔ یہ عید ہر سال آتی رہے ۔


الاستاذ احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

آطمہ کی عوامی مارکیٹ میں کار بم دھماکہ

28 رمضان 1435 ہجری کو شمالی ادلب کے مضافات آطمہ شہر، جو ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہے، کی ایک عوامی مارکیٹ میں کار بم دھماکہ ہوا ۔ اس بم دھماکے میں دس افراد شہید اور بیسیوں زخمی ہوئے، جن میں سے بعض کو فیڈرل ہسپتالوں میں لے جایا گیا اور کچھ زخمیوں کو جن کی حالت نازک تھی سرحد کے قریب ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ دھماکے سے کئی عمارتوں اور دکانوں کو بھی جزوی نقصان پہنچا۔ دھماکہ نامعلوم افراد کی طرف سے کیا گیا۔ ۔ ۔ دوسری جانب اعزاز میں کار بم دھماکہ ہوا جوشمالی حلب کے دوردراز مضافات میں ترکی کے شہر کلس کی سرحد پر واقع ہے۔ اس دھماکے میں پانچ افراد شہید اور کئی ایک شدید زخمی ہوئے۔ تقریباً اسی وقت تیسرا دھماکہ مغربی حلب کے مضافات بالخصوص الفوج 46میں ہوا جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہوئے۔
اسلام کے مسکن شام کے مسلمانو!
دھماکوں کا یہ سلسلہ شام کے مسلمانوں کا ہر جگہ پیچھا کر تارہتا ہے۔ اس کے ذریعے ہر اس شخص کو جو موت کے ڈراموں سے پناہ تلاش کرتے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے واضح پیغام دیا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش کسی کو موت سے نہیں بچاسکتی ۔ یہ دھماکے دباؤ ڈالنے کے ان ذرائع میں سے ہیں جن کو اللہ کے دشمن شام کے مسلمانوں پر آزماتے رہتے ہیں تا کہ ان کے تبدیلی لانے کے عزائم کو توڑدیا جائے اور ان کو اُسی سیاسی کاروائی کے آگے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کیا جائے جس میں پہل کرنے والا وہی مجرم بعثی حکومت ہوگی جس نے ملک میں فساد برپا کیا ہوا ہے، جس نے خون ریزی، تباہی اورہلاکت وتخریب کاری کی داد دی اور جس نے عصمت دری، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کی حد کردی۔ اس ظالم حکومت نے کوئی جرم نہیں چھوڑا جو اس نے نہ کیا ہو تاکہ اس اُمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے جس نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ سوائے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کسی کے سامنے نہیں جھکے گی۔
ہر بینا شخص اس میں شک نہیں کرے گا کہ یہ تمام مجرمانہ کاروائیاں سرانجام دینے والا صرف ایک ہی ہے اور وہ یہی مجرم حکومت ہے جو اس امت کا کمینہ دشمن ہے او راس کا ایک ہی سبب ہے کہ اس امت کے عزائم کو توڑدیا جائے جس نےاپنے لئے ایک راستے کا انتخاب کیا ہوا ہے کہ وہ ان غدار اور خائن حکمرانوں کو تبدیل کریں گےجنہوں نےان کے وسائل کو خوب لوٹا اور ان کو دیگر اقوام کا دست نگر بنا یا ہوا ہے جبکہ یہ امت تو دنیا کی قیادت کرنے کیلئے پیدا کی گئی تھی۔ ان حکمرانوں نے ان کے اوپر ایسی حکمرانی کی جو ان کے عقائد اور تصورات سے ٹکراتی ہے کہ حکمرانی صرف اللہ عزوجل کی اور بالادستی صرف شرع کی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان عالیشان ہے وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ "انہوں نے ان سے صرف اس کاانتقام لیا کہ وہ غالب اور تعریف کے جانے والے اللہ پر ایمان لائے" (البروج:8)۔
مگر یہ ان کی بھول ہے کہ وہ ایک ایسی امت کے ارادوں کو توڑدینے کا سوچتے ہیں جس نے رہائی پالینے کا راستہ پہچان لیا ہے اور اپنا ہدف خلافت راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ کو متعین کر لیا ہے۔ وہ خلافت جو حالات کو اپنے نہج پر دوبارہ استوار کرے گی اور یہ امت ایک دفعہ پھر انسانیت کی قیادت کرنے والی امت کی طرف لوٹ آئے گی جس کے تحت مسلمان اسلامی نظام کے سائے تلے اسلامی زندگی کا لطف اٹھائیں گے، زمین اور آسمان والے ان سےراضی ہوں گے، اور یہ اللہ کیلئے مشکل نہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ  بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَن يَشَاء وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ "اس دن مؤمنین اللہ کی مدد پر خوشی منائیں گے، اللہ جس کی چاہے مدد کرے، وہی غالب اوررحمت والا ہے"(الروم:4-5)۔ پس صبر کرو اور ڈٹے رہواور جان لو کہ نصر صبر کے ساتھ ہوتی ہے اور اللہ کی مدد و نصرت آنے میں بس ایک گھڑی صبر کی دیر ہے۔
الاستاذ احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

پریس ریلیز حزب التحریر "غزہ .....بلکہ پورا فلسطین اس وقت مسلم افواج کو پکار رہا ہے" کے عنوان سے عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہی ہے

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس غزہ اور پورے مقبوضہ فلسطین کی آزادی کے لئےعالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہا ہے،جس میں فلسطین کو پنجہ یہود سے آزادی کے لئے اُس طریقہ کار کو واضح کیا جائے گا جسے شرع نے واجب کیا ہے۔اس کانفرنس کا عنوان ہے:
"غزہ .....بلکہ پورا فلسطین اس وقت مسلم افواج کو پکار رہا ہے"
کانفرنس لبنان - بیروت میں 19 شوال 1435 ہجری بمطابق 15 اگست 2014 کو بعد ازنمازِ جمعہ 2 بجے منعقد ہورہی ہے۔

کانفرنس میں حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس اور مصر،اردن اورلبنان میں حزب کے میڈیا دفاتر کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ کانفرنس میں حزب التحریر ترکی کے میڈیا آفس کےنمائندے بھی شرکت کررہے ہیں جبکہ سیکورٹی صورتحال کے پیش ِ نظر حزب التحریر فلسطین اور شام کے میڈیا آفس کے نمائندوں کی ذاتی طور پر شرکت مشکل ہےاس لئےان کی طرف سے ریکارڈ نگ ہی سنائی جائیں گی۔
کانفرنس میں غزہ وفلسطین میں جاری صورتحال کی حقیقت اور اہم مسائل پر روشنی ڈالنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی اور فلسطین کے اصل مسئلے ،اس کےاسباب اور کا میاب حل کو پیش کیا جائے گا۔ نیز مسلمانوں کی اس حوالے سے کیا ذمہ داری بنتی ہے،اس کو واضح کیا جائےگا۔ اس کے علاوہ مذاکرات اور فلسطین سے متعلق معاہدات اور عرب ممالک کی افواج کا کردار اور ان کی حقیقی صلاحیت جیسے اہم موضوعات کو زیر بحث لایا جائے گا.....آخر میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے حزب التحریر کے موقف پر زور دیا جائے گا اس لئے کہ حزب التحریر امت کا وہ قائد ہے جو ان سے جھوٹ نہیں بولتا جبکہ اس دور میں سیاست جھوٹ، دھوکہ اور گمراہی کا عنوان اختیار کرچکی ہے۔
یہ کانفرنس اس مہم کے ضمن میں ہی منعقد کی جارہی ہے ،جسے اہل غزہ پر تازہ ترین جارحیت کے آغاز کے فوراً بعد حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی طرف سےاہل غزہ کی حمایت میں شروع کی گئی تھی۔ اس مہم کا عنوان ہے: "اے مسلم افواج!اہل فلسطین کی نصرت پر لبیک کہو"۔
http://www.hizb-ut-tahrir.info/info/index.php/contents/entry_38124
اس اعلان کے ساتھ ساتھ ٹویٹر پر بھی ہیش ٹیگ کے ذریعے ایک عالمی مہم شروع کی گئی ہے۔

#MuslimArmies4Gaza

کانفرنس کے احوال اور کاروائیوں کا جائزہ لینے کے لئےمیڈیا سے وابستہ تمام لوگوں کے لئے عام دعوت ہے اور وہ ذاتی طور پر کوریج کے لئے شرکت کرسکتے ہیں یا پھر حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی لائیو ٹی وی نشریات کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیاآفس حزب التحریر

Read more...

پریس ریلیز اوباما کا مردہ ضمیر!

جمعہ یکم اگست 2014 کو ایک پریس کانفرنس میں امریکی صدر اوبامہ نے کہا کہ "ہم وضاحت کے ساتھ اعلان کر چکے ہیں کہ غزہ میں جنگ میں پھنسے ہوئے معصوم شہری ہمارے ضمیر سےاوجھل نہ ہوں ۔۔۔ہمیں ان کے بچاؤ کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے "۔
زمینی حقائق اور امریکہ کے جرائم جو کہ ان گنت اور لامحدود ہیں اوبامہ کے ضمیر اور اس کے مگر مچھ کے آنسووں کے برعکس ہیں:
۔ سب سے پہلے تو خود اس کے بیان کے مطابق شہری "جو جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں"!!! اس نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ یہود کی جنگی مشینری نے ہی غزہ میں چھتوں کو ان کے اندر رہنے والوں پر گرادیا اور اپنی بری ،بحری اور فضائی حملے میں اس نے امریکی اسلحہ استعمال کیا ہے۔
۔ جو چیز اس کے جھوٹ کو مزید بے نقاب کرتی ہے وہ یہ کہ اوبامہ نے جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو کی جانب سے پہلے سے موجود امریکی اسلحہ "جنگ میں پھنسے ہوئے شہریوں" پر استعمال کر کے مزید طلب کرنے پر فوراًاسلحہ سپلائی کرنے کی حامی بھر لی ، کیا یہ شہریوں کو بچانے کا طریقہ ہے!؟
۔اوبامہ کا جرائم سے بھر پور عہد اس کے جھوٹ اور جرائم کو بے نقاب کر تا ہے۔ اس کی فوج نے اس کے عہدہ صدارت کے دورات 350 ڈرون حملے کیے جو اس کے پیش رو بش کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں جس نے 50 ڈرون حملے کیے تھے۔ یہ بات مصدقہ اور مشہور ہے کہ ان حملوں میں 80 فیصد شہری مرے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد 2009 کی ابتداء میں اس نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ "وہ اپنے پیش رو بش جونیئر کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے طریقہ کار کو مسترد کر تا ہے کیونکہ وہ "غلط راستے " پر گامزن تھا، جو کہ "ہمارے تحفظ اور اقدار " کے خلاف تھیں۔ اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کو امریکی اقدار سے ہم آہنگ کیا جائے گالیکن اس نےعملاً یہ ثابت کر دیا کہ امریکی پالیسی مجرمانہ اور جارحانہ ہے اور امریکی صدور اپنے جمہوری تہذیب یافتہ امریکی عوام کی حمائت سے جو کے مجسمہ آزادی کے رکھوالے ہیں اور جو اب نیویارک کے ساحل میں دفن ہو چکی ہے، ایک دوسرے سے اس بات میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون زیادہ بڑا مجرم ہے ۔
۔ باوجویکہ کہ وہ یہودی فوجی جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کو قیدی بنا یا گیا ہے "پھر کہا گیا کہ اس کو قتل کردیا گیا" یہ فوجی حیفا کے ساحل پر چہل قدمی نہیں کررہا تھا بلکہ غزہ کی سرزمین پر شہریوں کو قتل کر نے کے مشن پر تھا لیکن اوبامہ نے انتہائی بے شر می سے بہادر اہل غزہ کو مزید قتل وغارت کی دھمکی دی اگر انھوں نے غیر مشروط طور پر اپنے قاتل کو رہا نہ کیا!! اس واقعے نے اس کے جھوٹ اور مگرمچھ کے آنسوؤں کی حقیقت کو کھول دیا جس کا وہ لوگوں کو یقین دلانا چاہتا تھا۔ اس نے غزہ کے لوگوں پر یہودی فوجیوں کواس طرح مکمل کھلی چھٹی دینے کے لیے دباؤ ڈالا جس طرح عراق،پاکستان،افغانستان ،یمن اور صومالیہ میں اس کے فوجیوں اور موت کے دستوں کو قتل وغارت کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے!!
آخر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اوبامہ ہو یا نیتن یاہو امت مسلمہ سے ان کی عداوت پر ہمیں کوئی شک شبہ نہیں کیونکہ وہ دن رات مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں،لیکن ہم دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ پوچھتے ہیں کہ : مسلمانوں کے اہل قوت آخر کب اسلام اور اہل اسلام کی نصرت اور مدد کے لیے اور ان کے دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے،خلافت کے قیام کے لیے وہ حزب التحریر کو کب نصرہ دیں گے تاکہ وہ ڈھال واپس آئے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : «إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»؟ "صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے"۔ اے اللہ! محمدﷺ کی امت کو وہ خلیفہ عنایت کر دے جو تیری شریعت کے ذریعے حکمرانی کرے اور صرف حملہ آوروں کا ہی نہیں، اس کی خواہش رکھنے والوں کا بھی سر کچل دے۔ تو اس کا اہل اور اس پر قادر ہے۔
عثمان بخاش
حزب التحریر کا مرکزی میڈیاآفس

Read more...

سوال اور جواب: داعش کی جانب سے خلافت کے قیام کے اعلان کے حوالے سے

 

تمام بھائیوں اور بہنوں کی جانب جنہوں نے ایک تنظیم کی جانب سے ریاست خلافت کے قیام سے متعلق سوال پوچھا اور آپ سب کے نام نہ لکھنے پر میں معذرت خواہ ہو ں کیونکہ ایک لمبی فہرست بن رہی ہے۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
ہم پہلے بھی ایک مناسب جواب بھیج چکے ہیں اور میں ایک بار پھر یہ کہتا ہوں:
عزیز بھائیو اور بہنوں!
1- کسی بھی گروہ کے لئے، جس نے کسی جگہ خلافت کے قیام کا اعلان کرنا ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ اس معاملے میں رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کی پیروی کرے، اوراس منہج کے مطابق اس گروہ کے لئے اس جگہ پر واضح نظر آنے والا اختیار ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس جگہ پر اندرونی اور بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکے اور جس جگہ خلافت کا اعلان کیا جا رہا ہواس جگہ میں وہ تمام خصوصیات ہونا ضروری ہیں جو کسی بھی ایک ریاست میں موجود ہوتی ہیں ۔۔۔ جب رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تو انہوں نے مندرجہ ذیل صلاحیتیں حاصل کیں: اتھارٹی رسول اللہﷺ کے پاس تھی اور اندرونی و بیرونی سلامتی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور جو کچھ ایک ریاست میں ہونا چاہیے وہ مدینہ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں موجود تھا۔
2- جس گروہ نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا ہے نہ تو اس کے پاس اتھارٹی ہے، چاہے عراق ہو یا شام اور نہ ہی ان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کو بیعت دی ہے جو کھل کر عوام کے سامنے بھی نہیں آسکتا بلکہ اس کی صورت حال اب بھی خفیہ ہے جیسا کہ ریاست کے قیام کے اعلان سے قبل تھی اور یہ عمل رسول اللہﷺ کے عمل سے متناقض ہے۔ رسول اللہﷺ کو ریاست کے قیام سے قبل غار ثور میں چھپنے کی اجازت تھی لیکن ریاست کے قیام کے بعد انہوں نے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سنبھال لی، افواج کی قیادت کی، مقدمات میں فیصلے سنائے، اپنے سفیر بھیجے اور دوسروں کے سفیر قبول کیے اور یہ سب کھلے عام، عوام کے سامنے تھا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کی صورتحال ریاست کے قیام سے قبل اور بعد میں بالکل مختلف تھی۔۔۔ اسی لیے اس گروہ کی جانب سے ریاست کے قیام کا اعلان محض ایک جذباتی نعرہ ہے جس میں کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ اس سے قبل بھی لوگ محض اپنی تسکین کے لئے بغیر کسی جواز اور وزن کےریاست کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں ۔۔۔ تو کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے خود کو خلیفہ کہلوایا اور کچھ نے خود کو مہدی کہلوایا جبکہ ان کے پاس نہ تو کوئی طاقت و اختیار تھا اور نہ ہی کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت۔ ۔۔
3- ریاست خلافت کی ایک شان و شوکت ہے، اور شریعت نے اس کے قیام کا ایک منہج بتایا ہے اور وہ طریقہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح حکمرانی، سیاست، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کے احکامات اخذ کیے جاتے ہیں۔۔۔اور خلافت کے قیام کا اعلان محض نام کا اعلان نہیں ہوگا جس کو ویب سائٹ یا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جاری کردیا جائے بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا اور اس کی بنیادیں مضبوط اور زمین میں پیوست ہوں گی، اس کا اختیار اس جگہ پر اندرونی و بیرونی امن و سلامتی کو قائم اور برقرار رکھے گا اور وہ اس سرزمین پر اسلام کو نافذ کرے گی اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جائے گی۔
4- یہ جو اعلان کیا گیا ہے محض الفاظ ہیں، جو اس گروہ کی حقیقت کو نہ تو بڑھا سکیں گے اور نہ ہی گھٹا سکیں گے۔ یہ گروہ دراصل اس اعلان سے قبل ایک مسلح تحریک تھا اور ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد بھی ایک مسلح تحریک ہی ہے۔ اس کی حقیقت ان مسلح گروہوں کی سی ہے جوایک دوسرے کے خلاف اور حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہیں جبکہ ان میں سے کسی کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ شام یا عراق یا دونوں جگہ اتھارٹی حاصل کرسکیں۔ اگر ان میں کوئی بھی گروہ، جس میں ISISبھی شامل ہے، دراصل کسی مناسب مقام پر اپنے اختیار کو قائم کرسکے، جہاں ریاست کے لیے درکار لوازمات موجود ہوں اور پھر خلافت کا اعلان کرے اور اسلام کو نافذ کرے تو ایسے معاملے کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا کہ آیا خلافت شرعی احکامات کے مطابق حقیقتاً قائم ہو گئی ہے یا نہیں؟ اور پھر اس معاملے کی چھان بین (پیروی) کی جاتی کیونکہ خلافت کو قائم کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے نہ کہ صرف حزب التحریر پر، لہٰذا جو کوئی خلافت قائم کرتا تو پھر اس کی چھان بین کی جاتی۔۔۔لیکن اس وقت معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ تمام مسلح تحریکیں بشمول ISIS، کسی کے پاس بھی زمین کے کسی ٹکڑے پر نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ اس زمین پر کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت ہے۔ لہٰذا ISIS کی جانب سے خلافت کے قیام کا اعلان محض ایک نعرہ ہے جس کی اتنی بھی وقعت نہیں کہ اس کی حقیقت کی چھان بین بھی کی جائے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے یہ بالکل واضح ہے۔
5- لیکن جس چیز کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے وہ اس اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی نتائج ہیں جو عام اور سادے لوگوں میں خلافت کے حوالے سے پیدا ہوں گے۔ خلافت کی اہمیت ان کی نظر میں کم ہوجائے گی اور اس کی شان و شوکت کا تصور مسلمانوں کے اذہان میں گھٹ جائے گا کہ جیسے یہ ایک کمزور تصور ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک شخص مایوسی کے عالم میں کسی گاؤں یا بیچ چوراہے میں کھڑے ہو کر اپنی مایوسی نکالنے کے لیے اعلان کردے کے وہ خلیفہ ہے اور پھر چلتا بنے یہ سوچتے ہوئے کہ اس نے جو کیا اس میں بڑی بھلائی تھی! ایسا کرنے سے خلافت کی اہمیت کم ہوجائے گی اور اس کی عظمت عام مسلمانوں کے دلوں سے ختم ہوجائے گی اور پھر یہ ایک خوبصورت لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گی کہ جس کو فخر سے بولا تو جائے لیکن اس میں کوئی مادہ موجود ہ نہ ہو۔۔۔یہ وہ معاملہ ہےجس کا مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب کہ خلافت کا قیام کسی بھی گزرے وقت سے زیادہ قریب آچکا ہے اور مسلمان اس کا انتظار بے چینی سے کررہے ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ حزب التحریر رسول اللہﷺ کےاس طریقے پر بڑھتی چلی جارہی ہے جس کے ذریعے رسول اللہﷺ نے مدینے میں اسلامی ریاست قائم فرمائی تھی۔۔۔ اور امت حزب کے اعمال کا اور مسلمانوں کے حزب کے پیغام کو گلے لگانے کا براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے ۔ مسلمان حزب کے ان اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اسلامی اخوت کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کامیابی کے ساتھ حزب کے ہاتھوں قائم ہونے والی خلافت کے قیام پر اور لوگوں کے معاملات کی عمدہ دیکھ بھال کرنے پر خوشی کا اظہار کریں گے اور یہ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلنے والی خلافت راشدہ ہوگی۔۔۔اور یہ ہے وہ وقت جب یہ اعلان کیا جاتا ہے تاکہ خلافت کے متعلق عام لوگوں میں یہ تصور عام کیا جائے کہ جیسے وہ ایک پولیس سٹیٹ ہوگی۔۔۔
6- یہ تمام باتیں ایک سوال، بلکہ کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔۔۔اس اعلان کا وقت جبکہ یہ اعلان کرنے والے کوئی اتھارٹی نہیں رکھتے جس کے ذریعے وہ اندرونی اور بیرونی امن اور سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فیس بک اور میڈیا پرمحض اعلان ہی کیا ہے۔۔۔اس وقت کا چناؤ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ مسلح گرو ہ کسی فکری بنیاد اور ڈھانچے پر قائم نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مشرق و مغرب کے شیاطین کا ان میں داخل ہوجانا آسان ہے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ مغرب اور مشرق اسلام سے نفرت کرتے ہیں اور اسلام اور خلافت کے خلاف منصوبے بناتے ہیں اور وہ اس کے تصور کو بگاڑ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس کا نام مٹانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ خلافت محض ایک نام ہی رہ جائے جس کے تصور میں کوئی وزن نہ ہو۔ لہٰذاوہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ واقعہ جو ایک عظیم واقعہ ہوتا اور جس کے نتیجے میں کفار حواس باختہ ہو کر رہ جاتے، اس کا علان ہمارے دشمنوں کے لیے ایک مذاق بن کر رہ جائے۔
7- اس بات کے ساتھ ساتھ جو یہ شیاطین کررہے ہیں، ہم مشرق اور مغرب میں موجود اسلام کے دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں اور ان کے پیروکاروں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ خلافت آج بھی معروف ہے جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کیاور ان کی تمام تر چالوں اور سازشوں کے باوجود ناقابلِ تسخیر ہوگی ۔ ﴿وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ "اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا صرف اللہ ہی ہے" (الانفال:30)۔
اللہ نے ہمیں خلافت کے قیام کے لئے ایک مضبوط جماعت سے نوازا ہے جس میں ایسے مرد و خواتین شامل ہیں جنہیں کوئی دنیاوی کام اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا، انہوں نے خلافت کے تصور کو اپنے دل و دماغ سے قبول کیا ہے، اس کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے یہ اس کی تیاری کرتے ہیں اور اسلام سے احکامات اور آئین کو اخذکرتے ہیں جس میں حکمرانی اور انتظامی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ وہ اس کے حصول کے لیے عین رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔اللہ کے حکم سے وہ ایک ایسی ڈھال ہیں جو کسی بھی غیر اسلامی فکر اور عمل کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ وہ پتھر ہیں جس پر کفار اور ان کے ایجنٹوں کی سازشیں تباہ برباد ہوجاتی ہیں، اللہ کی دی ہوئی طاقت کی بدولت وہ ایسے باعلم سیاست دان ہیں جو اللہ کی مدد و نصرت سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے منصوبوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور ان کے منصوبوں کو ان ہی پر الٹ دیتے ہیں، ﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾ "اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے" (فاطر:43)۔
اے میرے عزیز بھائیو!
خلافت کا معاملہ عظیم اور بہت بڑا ہے اور اس کا قیام دھوکہ دینے والے میڈیا میں محض ایک خبر نہیں ہوگی بلکہ اللہ کے حکم سے اس کا قیام ایک ایسا زلزلہ ہو گا جو بین الاقوامی آرڈر کو ہلا کر رکھ دے گا اور وہ تاریخ کے دھارے کا رخ ہی تبدیل کردے گا۔۔۔اور خلافت رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق ہی قائم ہو گی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا اور جو اس کو قائم کریں گے وہ ویسے ہی ہوں گے جنہوں نے پہلی خلافت راشدہ قائم کی تھی۔ امت ان سے محبت کرے گی اور وہ امت سے محبت کریں گے، امت ان کے لیے دعا کرے گی اور وہ امت کے لیے دعا کریں گے، امت ان سے مل کر خوش ہو گی اور وہ امت سے مل کر خوش ہوں گے نہ کہ امت اپنے درمیان ان کے وجود کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گی۔۔۔ایسے ہوں گے وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آنے والی خلافت کو قائم کریں گے۔ اللہ یہ سعادت انہی کو دے گا جو اس کے حق دار ہوں گے اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں میں سے ہوں اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کو قائم کرنے کی قوت عطا فرمائے، ﴿فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ﴾ "تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھرایا ہے خوشی مناؤ" (التوبۃ:111)۔
اللہ سے بالکل بھی ناامید مت ہوں۔ اللہ آپ کی کسی بھی کوشش کو ضائع نہیں کرے گا اور جو دعا آپ اس سے کرتے ہیں اس کو رد نہیں کرے گا اور نہ ہی اس امید کو رد کرے گا جس کی آپ کو اللہ سے توقع ہے۔ لہٰذا اپنی کوششوں کو بڑھا کر ہماری مدد کریں تاکہ اللہ کے سامنے آپ میں موجود خیر ثابت ہوجائے اور اللہ آپ میں موجود خیر کو مزید بڑھا دے گا اور اس سنجیدہ کام میں محض نعروں اور باتوں کی وجہ سے کسی قسم کی سستی نہ برتیں۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
آپ کا بھائی
3رمضان 1435 ہ
یکم جولائی 2014 م
میں دعا کرتا ہوں کہ یہ جواب کافی ہوگا۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کی مدد فرمائے اور اللہ ہم سب کی صحیح منزل کی جانب رہنمائی فرمائے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
4 رمضان 1435 ہ
2 جولائی 2014 م

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک