پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری (پرائیوٹائزیشن) ایک نقصانِ عظیم ہے اور اسلام کی رُو سے حرام ہے
- Published in پاکستان
- Written by Super User
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
29 اکتوبر سے لے کر8 نومبر 2014ء تک آئی.ایم.ایف نے پاکستان کے وزیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بینک اور دیگرعہدیداروں کے ساتھ طویل مذاکرات کیے جس کا بنیادی نقطہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری تھا۔ان مذاکرات کے فوراً بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ایک تابعدار ملازم کی طرح بذاتِ خود چین اور جرمنی کا دورہ کیا اور ان ممالک کی کمپنیوں کو پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جبکہ یہی دعوت وہ اس سے قبل امریکی کمپنیوں کو بھی دے چکے ہیں۔ یقیناً نجکاری کے ذریعے پاکستان کے توانائی کے شعبے کی ملکیت کا حصول استعماری قوتوں کے منصوبے کا اہم جزو ہے، یہی وجہ ہے کہ استعماری مالیاتی ادارے توانائی کے شعبے کی نجکاری کو پاکستان کو قرضے فراہم کرنے کے لیے بنیادی شرط قرار دے رہے ہیں۔ 7 اپریل 2014ء کو آئی.ایم.ایف کی جاری کردہ رپورٹ "پاکستان-پروگرام نوٹ" میں توانائی کی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے "حکومتی شعبے میں موجود کمپنیوں کی نجکاری" پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح 2 مئی 2014ء کو پاکستان کے لئے عالمی بینک کے ڈائریکٹر نے بھی توانائی کی "قیمتوں میں اضافے" اور "اس شعبے کو نجی کمپنیوں کے لئے کھول دینے" پر زور دیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری پاکستان کی معیشت کو بحال و مضبوط نہیں بلکہ کمزور کررہی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس اہم شعبے پر غیر ملکی کنٹرول قائم ہو رہا ہے جو ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
آئی.ایم.ایف، عالمی بینک اور راحیل-نواز حکومت مل کر مسلسل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کررہے ہیں تا کہ توانائی کے شعبے کی نجی ملکیت میں منتقلی کے ساتھ ہی ان کے نئے مالکان کو زبردست منافع ملنے لگے چاہے اس کے نتیجے میں عوام کو انتہائی تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ 5 اگست 2014ء کو حکومتی ملکیت میں چلنے والے ادارے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL) نےمالیاتی سال 14-2013ء میں 124 ارب روپے کے ریکارڈ خالص منافع کا اعلان کیا، یہ منافع پچھلے سال کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُن کمپنیوں کی نجکاری کی جارہی ہے جو منافع کما رہی ہیں اور یہ امت کے مفاد میں نہیں ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ "حکم شرعی" کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت تیل و گیس عوامی اثاثے ہیں۔اس کے علاوہ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں اس لئے مسلسل بڑھائی جاتی ہیں کہ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر نجی شعبے کی کمپنیوں کے نفع کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ توانائی کے شعبے کی نجکاری ہی ہر روز کئی کئی گھنٹوں طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ ہے کیونکہ جب بجلی کی پیداوار سے اچھا منافع ممکن نہیں ہوتا تو بجلی کمپنیوں کے نجی مالکان بجلی کی پیداوار کوکم کر دیتے ہیں۔ 25 جون 2013ء کو کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (K.E.S.C) کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 3007 میگاواٹ تھی جس میں IPPs سے حاصل ہونے والی 626 میگاواٹ بجلی بھی شامل ہے۔ لیکن کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن نے محض 1200 سے 1400 میگاواٹ بجلی پیدا کی جبکہ کراچی جو کہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، کی ضرورت 2100 میگاواٹ تھی۔
اس کے علاوہ جب یہ کمپنیاں نجی ہاتھوں میں ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی بھی ہوں تو وہ مقامی معیشت کو مضبوط کرنے کی پرواہ نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنی حکومتوں یا استعماری اداروں کے جانب سے اس بات کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے رکھیں کہ پاکستان اور اس کی معیشت عالمی سطح پر مقابلہ نہ کرسکے۔ لہٰذا فروری 2013ء سے ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لئے ملکی کوئلے کی جگہ مہنگا برآمدی کوئلہ استعمال ہو جبکہ پاکستان کے علاقے تھر میں دنیا کا چھٹا بڑا کوئلے کا ذخیرہ موجود ہے۔ توانائی کے شعبے میں کئی دہائیوں سے جاری نجکاری کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیاں مسلسل نفع بنارہی ہیں جبکہ مقامی صنعت اور زراعت زوال اور تباہی کا شکار ہورہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور مسلسل مہنگی ہوتی بجلی اور گیس نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اور پاکستان کو دولت کے ان وسیع ذخائر سے محروم کر دینا ہی کافی نہ تھاکہ استعماری طاقتیں پاکستان پر مسلط اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں بھی مسلسل اضافہ کرتی جارہی ہیں تا کہ معیشت کی تباہی میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ یہ سب کچھ اس بہانے کیا جارہا ہے کہ اتنے محصول اکٹھے کیے جائیں جس سے غیر ملکی سودی قرضوں کی ادائیگی کی جاسکے جبکہ پاکستان پہلے ہی قرضوں کی اصل رقم سے کئی گنا زیادہ پیسے ادا کرچکا ہے۔ یہ ایک استعماری جال ہے جس کو اس مقصد کے لئے بُنا گیا ہے تا کہ پاکستان کبھی بھی اس دلدل سے نکل کر ایک عظیم اور مضبوط ریاست نہ بن سکے۔
پاکستان کی بیمار معیشت کا علاج نجکاری، غیر ملکی سرمایہ کاری یا استعماری قرضے حاصل کر کے ممکن نہیں بلکہ یہ تو خود انتہائی خطرناک بیماریاں ہیں جو معیشت کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہیں۔ اس بیمار معیشت کا علاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کیا جائے جس کی بدولت اس قدر محصول اکٹھا ہوتا ہے کہ پوری معیشت میں انقلاب برپا ہوجائے۔سرمایہ داریت (Capitalism) اور کمیونزم کے برخلاف اسلام میں توانائی کے وسائل نہ تو ریاست کی ملکیت ہیں اور نہ ہی یہ کسی پرائیویٹ کمپنی کی ملکیت ہو سکتے ہیں بلکہ اسلام نے انہیں مسلمانوں کے لئے عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء والکلاء والنار "مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ (توانائی)" (ابو داؤد)۔ لہٰذا اگرچہ ریاستِ خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں کے امور کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن خلافت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی عوامی اثاثے کو نجی ملکیت میں منتقل کردے چاہے وہ کوئی فرد ہو یا گروہ کیونکہ یہ مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی آمدن لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور عوامی سہولیات پر ہی خرچ کی جا سکتی ہے نہ کہ ریاستی اخراجات پر۔ یہ اصول تمام عوامی اثاثوں پر لاگو ہوتا ہے چاہے وہ توانائی کے وسیع ذرائع ہوں جیسا کہ تیل، گیس، بجلی وغیرہ یا معدنیات جیسا کہ تانبے، لوہے کی کانیں یا پھر پانی جیسا کہ سمندر، دریا، ڈیم یا پھر چراہ گاہیں اور جنگلات۔ یقیناً یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ اگرچہ امت مسلمہ دنیا میں موجود تیل و گیس اور معدنیات کے بہت بڑے حصے کی مالک ہے لیکن اسلام کے معاشی نظام کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان غربت کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں اور امت دنیا کے امور میں کوئی وزن نہیں رکھتی جبکہ ایسے ممالک دنیا کے امور پر چھائے ہوئے ہیں جو اس دولت کے بہت کم حصے کے مالک ہیں۔
اے پاکستان کے مسلمانو! جب تک ہم کفر کی حکمرانی تلے رہیں گے جو استعماری طاقتوں کو ہمارے امور پر فیصلے کرنے کا اختیار دیتی ہے، ہماری معیشت کی تباہی و بربادی اسی طرح جاری و ساری رہے گی۔ اس جبر و استحصال کے نظام میں ہم نقصان ہی اٹھاتے رہیں گے چاہے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف یا کوئی بھی حکمرانی کی باگ ڈور سنبھال لے۔ تباہی و بربادی کا شکار صرف وہ لوگ ہی نہیں ہوتے جو کفر کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ وہ بھی اس کا شکار ہوتے ہیں جو کفر کی حکمرانی کو جاری و ساری دیکھنے کے باوجود اسے ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ " اور ڈرو ایسے فتنے سے جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ظالم ہیں اور جان لوکہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے " (الانفال:25)۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے منصوبے میں اپنا حصہ ڈالے، اور اس کے حصول کے لئےحزب التحریر کے بہادر اور باخبرشباب کےساتھ مل کربھرپور جدوجہد کرے تا کہ اسلامی طرزِ زندگی ایک بار پھر زندہ ہوجائے۔
اے افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! آپ نے جن لوگوں کے دفاع کی قسم اٹھائی ہے وہ مشکلات و مصائب میں پِس رہے ہیں۔ جس ملک کے دفاع کی آپ نے قسم اٹھائی ہے اسے برباد و ویران کیا جارہا ہے اور اسے اس کی صلاحیت کے مطابق مقام حاصل کرنے سے روکا جارہا ہے۔ جس دین کی سربلندی کی آپ نے قسم کھائی ہے اسے پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے، اس سے غفلت برتی جا رہی ہے اوراس کے نفاذ کو روکا جا رہاہے۔ آپ نہ تو اس صورتحال کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو اس کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں کیونکہ یہ آپ ہی ہیں جو خلافت کے قیام کو ممکن بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آپ مدینہ کے جنگجو انصار کے وارث ہیں جنہوں نے بطورِ ریاست و قانون اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کو نُصرۃ فراہم کی تھی۔ آج تبدیلی لانے کا فرض عملاً آپ پر عائد ہوتا ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ خلافت کے قیام کے لئے مشہور فقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی قیادت میں حزب التحریر کو نُصرۃ فراہم کریں اور اِس امت کے اُس مقام کو بحال کر دیں جس کی یہ حق دار ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ * وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ " اس روز مسلمان شاد مان ہوں گے، اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے" (الروم:6-4)۔