الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال وجواب: ازدواجی زندگی کے اختلافات


سوال: ہم کتاب و سنت میں خوشگوار، مطمئن اور مامون ازدواجی زندگی کے بارے میں پڑھتے ہیں، لیکن ہمارے اس دور، جس میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں، ازدواجی بندھن میں جڑے جوڑوں میں بہت اختلافات پائے جاتے ہیں ، حتٰی کہ دعوت میں شریک لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ اختلافات کبھی میاں بیوی کے مابین اپنے رہائشی گھر کے انتخاب پر، یا دلہا دلہن کے والدین کے ساتھ تعلق پر، یا انکے رشتہ داروں سے ملاقات پراور بالخصوص شوہر کے رشتہ داروں سے ملاقات پر، جنہیں (حدیث میں) موت گردانا گیا ہے، نظرآتے ہیں۔ دونوں کے والدین اس پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ اس کے بیٹے یا اسکی بیٹی کا حق ہے یا یہ اور یہ داماد یا بہو کی ذمہ داری ہے ، اور دونوں اپنی رائے پر، اس خیال سے کہ وہ شریعت کی رُو سے حق بجانب ہیں ، سختی سے ڈٹے رہتے ہیں ، اور اپنی پوزیشن سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹنے یا ترمیم پر تیار نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں آپ کیا نصیحت کریں گے خصوصاً ان لوگوں کو جو دعوت کی سرگرمیوں میں شامل ہیں؟ مزید یہ کہ اس آیت مبارکہ کا کیا معنی ہے؛
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
"اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کر اور خود بھی اس پر قائم رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، ہم تجھے روزی دیتے ہیں اور پرہیزگاری کا انجام اچھا ہے۔"
(سورہ طہ۔ 20:132)
جزاک اللہ خیراً

 

جواب: ہمیں آپ کے اس سوال سے حیرانی کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ جو اس خالص اور پاک دعوت کو لے کر چل رہے ہوں، اپنی ذاتی زندگیوں میں ہی ناکام ہو سکتے ہیں؟ آخر کیسے ان کی زندگیاں احترام اور محبت کے بجائے نفرت اور بغض سے بھر سکتی ہیں...؟
درحقیقت شادی شدہ زندگی بے جان چیزوں کی مانند 1+1=2کی مساوات نہیں، یہ تو رحمت اور شفقت، سکون اور اطمینان سے عبارت ہوتی ہیں۔ اس عائیلی زندگی کو ایسی بے جان اور جامدمساوات سمجھنے والے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے زندگیوں کو رحمت، قربت اورگرمجوشی سے بھرنے سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا؛
وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، بے شک جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کیلئے اس میں نشانیاں ہیں۔" (سورہ روم:21)
ایسے لوگوں کو کافی زیادہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، اور انھیں اس پر غور کرنا چاہئے جو کچھ انھوں نے سیکھا ہے۔ مزید برآں ایسے لوگوں کو سزا بھی ملنی چاہئے! بہر کیف ، سوالات کے جوابات درج زیل ہیں؛
1)ازدواجی زندگی سے متعلق سوالات کے جوابات:
شادی شدہ لوگوں سے متعلق رسول اللہ کی حدیث پاک ہے،
«خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي» أخرجه الترمذي وابن ماجة.
''تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں سے سلوک میں سب سے بہتر ہوں۔'' ترمذی، ابن ماجہ
بیویوں کیلئے: ابوہریرہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں،
«لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا»
''اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدے کا حکم دیتا تو میں عورتوں کو ان کے شوہروں کے آگے سجدے کا حکم دیتا۔''
( یہ حدیت ترمذی میں روایت ہے ، اسی طرح کے الفاظ میں ابن ماجہ میں ہیں۔ یہ حدیث سعید بن مسیب اور عائشہ سے بھی روایت ہے)
میں ایک بار پھر اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ شادی شدہ جوڑوں کیلئے یہ ایک لازمی امر ہیں کہ وہ سمجھیں کہ خانگی زندگی 1+1=2کی طرح کی بے جان اورجامد مساوات نہیں، بلکہ یہ تعلق تو خوشیوں اور اطمینان کا باعث ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے؛
لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً
"تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔" (سورہ روم:21)
بیوی کو اپنے شوہر کا وفادار ہونا چاہئے اور ان کواپنے شوہرکے دل کو خوشیوں سے بھر دینا چاہئے خواہ یہ سب کچھ ان کے اپنے آرام اور سکون کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ کوئی بھی عقلمند عورت اپنے شوہر سے یہ نہیں کہے گی کہ میں آپکی وفادار ہوں لیکن مجھے آپکے والدین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ اسلئے ہے کہ ہر عقلمند عورت کو پتا ہو گا کہ اگر وہ اپنے شوہر کے والدین سے اچھا برتاؤ کرے گی اور ان کا خیال رکھے گی تو اس کا یہ برتاؤ اسکے شوہر کیلئے خوشیوں کا باعث بن جائے گا جو کہ اس کیلئے فرض ہے...رسول اللہﷺ نے فرمایا؛
«مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللَّهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَيْهَا أَبَرَّتْهُ وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ» أخرجه ابن ماجه عن أبي أمامة
''مومن کیلئے تقوی کے بعد اچھی بیوی سے بڑھ کر کسی بھی چیز میں خیر نہیں کہ جب وہ اسے کسی چیزکا حکم دے تو وہ اسے پورا کرے، اور جب وہ اس پر نگاہ ڈالے تو اس کا دل خوشی سے بھر جائے، اگر وہ شخص اس کے لیے قسم کھائے ، تو وہ اس کو سچ کر دکھائے، اور جب اس کا شوہر دور ہو تو بیوی اسے اچھی نصیحت کرے اور اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے۔'' (یہ حدیث ابن ماجہ میں ابو امامہ اور اسی طرح کی حدیث ابو داؤد میں ابن عباس نے روایت کی ہے۔)
اسی طرح شوہر کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی سے احسن برتاؤ کرے اور اس کی زندگی کو آرام دہ بنائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا؛
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
''اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو گو کہ تم انھیں ناپسند کرو، بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سے بھلائی کر دے۔''
(النساء: 19)
شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کی اچھی زندگی کے حقوق پورے کرے اور اسی طرح وہ اپنے والدین کے حقوق کو بھی پورا کرے جو کہ اس پر فرض ہیں، لیکن بیوی کے حقوق میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا؛
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
''اور تمہارا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنااور ماں باپ کے ساتھ احسن سلوک کرنا۔'' ( الاسرا ء:23)
اور فرمایا؛
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا
'' اور ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین کے ساتھ عمدہ برتاؤ کرنے کی نصیحت کی ہے۔''
عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں ؛
«سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى مِيقَاتِهَا قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» أخرجه البخاري.
میں نے رسول اللہ سے پوچھا؛ ''اے اللہ کے نبیﷺ، سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟'' آپ ﷺنے جواب دیا؛ ''نماز کو اپنے اولین اوقات میں ادا کرنا''۔ میں نے پوچھا ؛ ''اور اے اللہ کے رسول! اس کے بعد؟'' آپﷺ نے جواب دیا ، ''والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ۔'' میں نے مزید پوچھا، ''اور اس کے بعد؟'' آپ ﷺ نے فرمایا؛ ''اللہ کی راہ میں جہاد میں شرکت۔'' (بخاری)
کوئی عقلمند شوہر بیوی کو اپنے والدین اوررشتہ داروں سے اچھے تعلق سے منع نہیں کرے گی، نہ ہی وہ اسے ان سے اچھے برتاؤ اور تعلقات بڑھانے سے روکے گا ، جسکی بدولت دونوں میں ازدواجی قرابت داری پیدا ہو گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت میں سسرالی رشتہ داریوں کو خونی رشتہ داریوں سے مماثلت دی۔ فرمان ہے؛
أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا...
''کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ، اگر چاہتا تو اسے ٹھہراتا ہوا ہی کر دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا طلوع آفتاب کے بعد سایہ گھٹتا رہتا ہے اور کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے اور پھر زوال کے بعد سایہ بڑھتے بڑھتے غروب کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور اگر سورج نہ ہوتا تو سایہ بھی نہ ہوتا..."
یہاں تک کہ اللہ فرماتا ہے؛
وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا * وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
''اور وہی ہے جس نے دو سمندر ایسے ملا رکھے ہیں ، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری اور کڑوا، اور دونوں کے درمیاں ایک مستحکم آڑ بنا دی ہے۔اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ہے، اور پھر اسے نسب سے رشتہ والا بنا دیا اور سسرالی رشتوں والا بنا دیا۔ اور بلاشبہ آپ کا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے۔ '' (الفرقان: 53-54)
سسرالی رشتوں اور نسبی رشتوں سے نسبت دینے سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں رشتے قابل احترام اور قابل توجہ ہیں اور دونوں رشتوں سے رب کی عظمت اورطاقت کی عکاسی ہوتی ہے۔
یہ نکات اکیلے ایک عقلمند شوہر اور ایک عقلمند بیوی کیلئے کافی ہیں
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
''بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو '' (سورہ ق: 37)
اور وہ لوگ جو اس سے سبق حاصل نہیں کرتے تو ان کیلئے مزید تفصیل بھی کافی نہیں ہو گی۔

2)جہاں تک دیگر سوالات کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ مرکزی سوالات نہیں تاہم متعلقہ ضرور ہیں۔
ا) جہاں تک سسرالی رشتہ داروں کا انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہونے کا تعلق ہے یہاں تک کہ ان کو موت سے تشبیہ دینے کی بات ہے ، جیسا کہ بخاری میں عقبہ بن عامر سے روایت حدیث میں ہے؛
«إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ»
'' اللہ کے نبی ﷺنے کہا ؛ ''عورتوں سے میل ملاپ سے خبردار رہو۔'' انصار میں سے ایک شخص نے کہا ؛ ''الْحَمْو (شوہر کے بھائی اور بھتیجے وغیرہ) کے بارے میں کیا حکم ہے؟'' رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا؛ '' 'الْحَمْ' تو موت ہے۔''
یہ معاملہ ایسی صورتحال سے متعلق ہے جہاں عورت کا شوہر یا کوئی محرم موجود نہ ہو ، اور وہ اپنے ایسے سسرالی رشتہ داروں کے مابین اکیلی(خلوت میں) ہوجو اس کے محرم نہیں۔ 'الْحَمْو'، شوہر کے وہ رشتہ دار ہیں جو بیوی کیلئے محرم نہیں جیسے کہ شوہر کے بھائی یا کزن ... جہاں تک سسر کا تعلق ہے ، اگرچہ لغوی طور پر وہ بھی 'الْحَمْو' میں شامل ہے لیکن وہ اس حدیث کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ وہ عورت کیلئے محرم ہے۔ 'الْحَمْو' کے عورت سے خلوت میں ملنے کو موت سے تشبہہ دی گئی ہے جو کہ معاملے کی حرمت کی سنجیدگی اور شدت کو ظاہر کرتاہے۔
پس ایسی صورتحال میں جہاں شوہر یا عورت کا محرم رشتہ دار موجود ہو ، تو اس صورتحال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور شرع نے اس کی اسی طرح اجازت دی ہے جیسے نسبی رشتہ داروں سے ملنا یا کھانے کے موقع پر اکٹھے ہونا، جو چیز منع ہے وہ خلوت میں ملنا ہے۔ اسی حدیث کی تشریح میں ابن حجر فتح الباری میں رقمطراز ہے؛
''ابنِ وھب نے اس حدیث کی تشریح میں مزید یہ بات بیان کی جسے مسلم نے روایت کیا ہے : میں نے لیث ابن سعیدکو کہتے سنا : 'الْحَمْو' کا مطلب ہے شوہر کا بھائی یا اس طرح شوہر کے رشتہ داروں میں سے دوسرے لوگ جیسے کہ کزن وغیرہ۔ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ترمذی لکھتے ہیں ؛ "یہ کہا گیا ہے کہ یہ شوہر کے بھائی سے متعلق ہے ... وہ مزید کہتے ہیں : یہ حدیث جیسا کہ روایت ہے بیان کر رہی ہے کہ ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں ہونا چاہئے ، اور جب وہ خلوت میں ہو تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔"
اسی طرح ایک حدیث ان عورتوں کے متعلق بھی ہے جن کے شوہر موجود نہ ہو۔ ترمذی اور مسلم میں جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
«لَا تَلِجُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ»
''ان عورتوں سے ملنے مت جاؤجن کے خاوند گھروں سے دور ہو ں کہ شیطان تم میں ایسے موجود ہے جیسے کہ خون جسم میں دوڑتا ہے۔''
پس 'الْحَمْو' کا معاملہ اور ان کا عورت سے خلوت میں ملنے کے معاملے کا تعلق اس جگہ تک ہے جب اس عورت کا شوہر یا دوسرے محرم رشتہ دار موجود نہ ہو۔ شوہر کے گھر سے دور ہونے یا موجود نہ ہونے کے وقت عورت سے ملنے سے ممانعت دراصل خلوت میں ملاقات سے منع کرنے کا معاملہ ہے۔ جہاں تک شوہر یا دوسرے محرم رشتہ داروں کی موجودگی میں ملنے کا تعلق ہے تو شرع نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ پس بیوی کے اپنے شوہر کے خاندان سے اور شوہر کے اپنی بیوی کے خاندان سے تعلق کو شرع کے مطابق مضبوط بنانے کی مکمل اجازت ہے۔
ب ) بیوی کا گھر وہی ہے جہاں اس کا شوہر رہتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ سکونت اختیار کرے جب تک کہ وہ گھراسے نفیس زندگی فراہم کرے اوروہ شوہر کی استطاعت کے لحاظ سے ہو۔ اسے شوہر کو حکم دینے کا حق نہیں کہ وہ اپنے شوہر کو بتائے کہ اسے کہاں رہنا ہے ، بلکہ وہ رہائش سے متعلق اچھے انداز سے شوہر سے گفتگو و شنیدکرے۔ تاہم اس معاملے میں شوہر کی رائے حتمی ہوتی ہے اور بیوی کو وہیں رہنا چاہئے جہاں اس کا شوہر اس کو ٹھہرائے۔ قرآنِ پاک میں ہے؛
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ
''ان کو (مطلقہ عورت کو) وہاں بساؤ جہاں تم رہتے ہو، حسب توفیق۔'' ( الطلاق :06)
یہ آیت ایک مطلقہ عورت کے عدت کی مدت کے دوران رہنے کی جگہ کے بارے میں ہے کہ یہ اس کے سابقہ شوہر کا فرض ہے کہ وہ عدت کی مدت میں اس کو رہنے کی جگہ مہیا کرے۔ پس بیوی کے معاملے میں یہ بدرجۂ اُولیٰ ہے۔ 'سَكَنْتُمْ' کا مطلب ہے جہاں تم رہتے ہو، اور 'مِنْ وُجْدِكُمْ' کا مطلب ہے حسبِ توفیق۔ پس جب تک عورت کو ایک مناسب اور محفوظ گھر شریعت کے مطابق مہیا کیا گیا ہو ، جس کی اس کا شوہر استطاعت رکھتا ہوں، تواس کا اپنی مرضی کے گھر کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر خلع یا طلاق طلب کرناشرعی احکامات کے خلاف ہے۔۔۔
پ) شوہر کو اجازت نہیں کہ وہ بیوی کو اپنے والدین سے تعلق رکھنے سے روکے:
یہ اسلئے ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو شرع نے حکم دیا ہے کہ وہ اپنے نسبی رشتہ داروں سے تعلق کو قائم رکھیں۔ یہ حکم نہ صرف مرد کیلئے ہے بلکہ یہ عورت کیلئے بھی ہے کیونکہ خطاب عام ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
«لا يدخل الجنة قاطع رحم»
''قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔''
'قطع رحمی کرنے والا' عمومی حکم ہے ممنوعیت کے لحاظ سے، اور 'جنت نہیں جائے گا' بھی عام ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہے۔ جس طرح شوہر کیلئے اپنے والدین سے تعلق قائم رکھنا فرض ہے ، اسی طرح عورت کیلئے اپنے والدین سے تعلق رکھنا فرض ہے۔ پس اگر شوہر، بیوی کو اپنے والدین سے تعلق قائم رکھنے سے منع کرے گا تو وہ گناہ گار ہو گا۔ اگر ایسا معاملہ ہمارے نوٹس میں آیا تو ہم اس پرمناسب انتظامی سزا دیں گے۔
نتیجہ: یہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے والدین کے ساتھ بیوی کے تعلقات قائم رکھنے کو آسان بنائے، بغیر اس امر کے کہ بیوی اپنے شوہر اوراسکے گھر کے حقوق میں کوئی کوتاہی کرے۔ ایک دانا شوہر اور بیوی، جو متقی اور مخلص ہوں ، کیلئے یہ معاملہ آسان ہے۔ انہی جوڑوں کے صلہ رحمی کے معاملے مشکل بنتے ہیں جو اس دعوت کی جنس سے نہ ہوں ، جو کہ اللہ کے ساتھ اخلاص اور رسول اللہ اکے ساتھ صدق کا تقاضا کرتی ہے۔
ت) جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
"اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جما رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تمھیں روزی دیتے ہیں اور اچھا انجام (جنت) تو متقیوں ہی کیلئے ہے۔" (طہ: 20-132)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اور تمھارا گھرانہ اللہ کی عبادت کرو، نماز پڑھو ، اوزندگی اور رزق کے معاملے کو سر پر سوار نہ کرو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمھیں رزق دیتے ہیں اور ہم تمھیں یہ نہیں کہتے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے رازق بنو۔ تمہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا مطیع ہونا چاہئے اور اپنے خاندان کو بھی یہ حکم دینا چاہئے ، اور یاد رکھو کہ اچھا انجام تو متقیوں کیلئے ہے۔
موطا امام مالک میں زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، ''عمر بن الخطاب رات کو عبادت میں اس قدر مصروف رہا کرتے جتنا کہ الل ان کیلئے چاہتے تھے، اور وہ رات کے آخری حصے میں اپنے گھر والوں کو اٹھاتے اور کہتے 'نماز، نماز' اور یہ آیت تلاوت کرتے ؛
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
''اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جما رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تمھیں روزی دیتے ہیں ، اور اچھا انجام (جنت) تو متقیوں ہی کیلئے ہے۔'' (طہ: 20-132)
اللہ سبحانہ و تعالی نے لفظ 'وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا' کالفظ استعمال کیا جس کا مفہوم 'جما رہ، ڈٹ جاؤ' کا ہے۔ یہاں 'وَاصْبِرْ عَلَيْهَا' کی بجائے 'وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا' استعمال کیا گیا ہے جس میں زیادہ سختی ہے ، جس کا مفہوم 'صبر کرتا رہ'ہے۔ یہ زیادہ شدت اور کوشش کی جانب اشارہ ہے۔ کیونکہ ایک انسان کو اپنے آپ اور گھر والوں کو حق پر لانے، آگ سے بچانے اور عمل کی جانب لانے میں انتہائی کوشش، صبر اور صعوبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اللہ نیکو کاروں کی حفاظت کرتاہے۔
یہاں پر اس آیت کی یاد دہانی بھی اہم ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُون
''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، اس پر فرشتے سخت دل اور قوی ہیکل مقرر ہیں ، وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے ، اور وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔'' ( التحریم:06)
بچاؤ اپنے آپ اور اپنے خاندان کو آگ سے، کا مطلب ہے: اپنے بیوی اور بچوں کو اس آگ سے دور کرو، اللہ سے دعا کر کے، اور انھیں معروف کا حکم دے کر اور منکر کی نہی کر کے، اس دین کے احکامات سیکھ کر اور اپنے خاندان کو سکھانے کے ذریعے ، ان کی احسن تربیت کر کے اوراحکامِ شرع کے مطابق انھیں سزا دے کر ، اور اپنے گھر والوں کو نماز، روزے، زکواة ، حج اور دیگر تمام شرعی احکاما ت کا حکم د ے کر۔۔۔
میں دوبارہ اسے دہراتا ہوں جہاں سے ابتدا کی تھی، مجھے اس امر سے شدید دکھ ہے کہ شباب شوہر اور بیویاں اپنے ازدواجی تعلقات میں اس قدر مسائل میں ہیں ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت نے ابھی تک ان میں جڑیں نہیں پکڑی ہیں اور انھوں نے اس کے اخلاق واطوار نہیں اپنائے۔ اور انھوں نے اس کو ایسے سرانجام نہیں دیا جیسا کہ اس کا حق ہے، نہ انھوں نے اس کو مضبوط کیا۔ مجھے خو ف ہے کہ قدم قائم ہونے کے بعد متزلزل نہ ہوجائیں۔

 

Read more...

سوال وجواب:  وصیت اور کرنسی سے متعلق سوالات

سوال 1: کیا انگریزی قانون کے مطابق ایک مسلمان وکیل کیلئے غیر مسلم وصی کی وصیت لکھنا جائز ہے، جس میں وصی نے اپنے ترکے کا کچھ حصہ یاپورا ترکہ کسی ایسے ادارے کے نام چھوڑا ہو جو یا تو نامعلوم ہو یا شرعاً ممنوع ہو جیسا کہ ایسے ادارے جہاں کتوں کی نگہداشت کی جاتی ہے یا ایسے ادارے جس کا تعلق لہو لعب سے ہو؟

سوال 2: ہم نے اپنی بہت سی مطبوعات اور کتب میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حقیقی زر ( کرنسی) صرف سونا اور چاندی کو متصور کیا جائے گا، چاہے یہ اپنی حقیقی شکل میں ہو یا اس کی قیمت کے برابر نقدی ہو۔ شیخ عبد القدیم زلوم کی کتاب میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کوئی بھی مملکت یا تو سونا اور چاندی، یا کوئی اور موزوں دھات کو بطور کرنسی استعمال کر سکتا ہے جب تک کہ سونے کو مرکزی کرنسی کی حیثیت حاصل ہو۔ لہٰذا، کیا کوئی حکومت سونا چاندی کے ساتھ ساتھ کوئی اور قیمتی دھات مثلا َ َ پلاٹینم یا قیمتی پتھر جیسے ہیرے اور اس جیسی دوسری چیزیں بطور کرنسی استعمال کر سکتا ہے؟

 

جواب(سوال 1): اگر معاملہ ایک کافر وصی اور مسلمان وکیل کے مابین ہو۔ یہ اجرت کا معاملہ ہے جس میں کافر وصی نے وصیت لکھنے کی غرض سے ایک مسلمان وکیل کو اجرت پر ''جیسا وہ کہے، لکھے گا'' کے اصول پر رکھا ہو۔ سو یہ تو محض اجرت کے عوض وصیت لکھنے کا ایک معاہدہ ہے، جس کی رو سے مسلمان وکیل وہی وصیت تحریر کرتا ہے جیسا کہ کافر اسے بتاتا ہے، پھر وکیل اپنی اجرت وصول کرتا ہے اور معاملہ وہیں ختم ہو جاتاہے ۔
جہاں تک وصیت کا تعلق ہے تو۔۔۔ اگر تو معاملہ ایسا ہی ہے تو ایسی صورت میں وصیت لکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں اسلامی عقیدہ کے منافی کوئی بات نہ ہو، کیونکہ اسلامی عقیدہ کے خلاف کچھ لکھنا اس کو بولنے کے مترادف ہے اور ایسا جائز نہیں۔
تاہم قابل ترجیح امر یہ ہے کہ ایسی وصیت کو تحریر نہ کیا جائے جس میں اسلامی احکامات کے خلاف مواد موجود ہو۔ یہ اسلئے کہ کافر کی وصیت میں اسلامی احکامات سے متصادم شقوں سے متفق ہونا ظاہر نہ ہو۔
تاہم اگر یہ معاملہ صاحب وصی اوروکیل کے مابین وکالہ(نمائندگی) کا ہو جس میں وکیل، صاحب وصی کے نمائندہ کی حیثیت سے وصیت کا نفاذ کرتا ہے۔۔۔وہ متعلقہ افراد سے رابطہ کرتا ہے۔۔ان کو وصیت سے آگاہ کرتاہے۔۔اور صاحب وصی کے نمائندہ کی حیثیت سے وصیت کا نفاذ کرتا ہے۔۔۔اس صورت میں یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں ایک مسلمان وکیل شریعت،جس پر وہ ایمان لاتاہے،کے برخلاف ایک وصیت کو نافذ کرتاہے ۔

 

جواب (سوال 2): اسلام میں زر(کرنسی) کا تصور سونے اور چاندی کا ہے یا دوسرے ذرائع جیسے کہ کاغذی نوٹ بشرطیکہ بیت المال میں اس مالیت کے موافق سونا اور چاندی موجود ہو۔ ہلکی(کم قیمت) دھاتوں جیسے تانبے وغیرہ کو سستی اشیاء کی خریداری کیلئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر سونے اور چاندی کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جائے تو ان سے بنے ہوئے سکے اس قدر قلیل الوزن ہونگے جنکو عام حالات میں استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ سونے اور چاندی کی مقدار قلیل اور کم قیمت دھاتوں کی مقدار کثیر کی آمیزش سے ایسے مناسب سکے بنائے جا سکتے ہیں جو آئندہ کم قیمت اشیاء کی خریداری میں استعمال کئے جا سکتے ہو۔ یہ معاملہ کتاب ''فی الاموال'' میں مذکور ہے؛
...حکومت چاندی کے سکوں سے کم مالیت کے سکے بھی بنا سکتی ہیں تاکہ سستی اشیا کی خریداری کو آسان بنایا جا سکے۔ چونکہ چاندی کے سکے خالص چاندی سے بنے ہوتے ہیں تاہم چونکہ ان میں بہت معمولی مقدار میں چاندی ہوتی ہے اسلئے ان سے معاملہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اسلئے کم قیمت دھاتوں کو ان میں شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم ان سکوں میں چاندی کا تناسب وزن کے حساب سے واضح ہونا چاہئے تاکہ اس معاملے میں کوئی شکوک و شبہات نہ رہیں۔
مسلمانوں کے ہاں سونے اور چاندی پر مبنی دو دھاتی اصول واضح رہا ہے ۔ مصر میں اتابکہ اور عباسیوں کے آخری دور میں مسلمانوں نے سونے ور چاندی کے ساتھ ساتھ تانبے (پیتل) کو بطور کرنسی استعمال کیا جس سے وہ کم قیمت اشیا خریدتے تھے کیونکہ تانبے کی قدر (نسبتاً) کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سونے اور چاندی کا متبادل ہے بلکہ یہ اپنی قدر کے طور پر موجود رہی۔ پس اس کو سستی اشیا کی خریداری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طرح سونے اور چاندی کے علاوہ اور دھاتوں کے سکے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں جو عموماً سستے دھاتوں کے بنے ہوئے ہوں، لیکن ان کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لئے استعمال نہ کیا جائے گا، کیونکہ یہاں معاملہ سستی چیزوں کی خریداری کا ہے جس کیلئے ایک مناسب اور عملی طریقہ کار کی کرنسی کی ضرورت ہے۔ اگر سستی اشیا کی خریداری کیلئے سونے اور چاندی کے سکوں کو استعمال کیا جائے تو ایسے سکوں کا وزن اور مقدار بہت قلیل ہو گی، اسلئے کم قیمت دھاتوں کو استعمال میں لایا جائے گا تاکہ ان سکوں کا ایک مناسب وزن ہو جو کہ استعمال میں آسان ہو۔ یہ امر قیمتی دھات سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک سونے چاندی کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتوں کا بطور شرعی کرنسی کے استعمال کا تعلق ہے جیسا کہ پلاٹینم اور ہیرا ہے ۔۔۔ تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں کیونکہ شریعت میں موجود دلائل صرف سونے اور چاندی کو بطور کرنسی کے متعین کرنے کے بارے میں واضح اور معلوم ہیں۔ اسی طرح شرعاًیہ بھی جائز نہیں کہ سونے اور چاندی سے زیادہ قیمتی دھاتوں کو بیت ا المال میں بطور 'ریزرو' (reserve) استعمال کیا جائے۔ دوسری کوئی بھی دھات محض ایک شے ہے نہ کہ کرنسی۔

Read more...

روسی وزیر خارجہ لاروف خلافت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے


قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ
"ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے"(اٰل عمران:118)

جمعہ 27ستمبر2013کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ لاروف نے خبردار کیا کہ "شام میں مسلحہ گروہوں میں سب سے زیادہ طاقتور جہادی ہیں جن میں کئی انتہا پسند بھی شامل ہیں جو دنیا بھر سے آئے ہیں اور وہ جس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کی بنیاد ایک انتہاپسندانہ نظریہ حیات ہے، وہ سیکولر ریاست کا خاتمہ اور خلافت اسلامیہ کا قیام چاہتے ہیں"۔
اقوام متحدہ میں شامی کیمیائی اسلحہ کے خاتمے کے سلسلے میں ہونے والے اجلاس سے واپسی پر اس نے کہا کہ "اس کا ملک جینوا 2کانفرنس میں مسلحہ شامی حزب اختلاف کی شمولیت کی مخالفت نہیں کرتا جب تک کہ وہ خلافت کے قیام کی سوچ نہ رکھتے ہوں"۔
لاروف کے اس بیان نے شام اور خطے میں جاری تنازعے کی حقیقت کو بے نقاب کردیا ہےکہ یہ تہذیبوں کے درمیان ایک نظریاتی ٹکراؤ ہے یعنی دین حق اسلام اورکرپٹ جابرانہ جمہوریت اور اللہ کو نہ ماننے والی سیکولرازم کے درمیان ایک جنگ ہے۔اس نے اپنے پوشیدہ مقاصد اور اسلام ، خلافت اور جہاد کے خلاف مغرب کی نفرت کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ اُس نے بتادیا ہے کہ اُس کی اسلام کے خلاف نفرت بشار الاسد سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ اس نے اس بات کو بھی بے نقاب کردیا ہے کہ چین،روس، مغرب اور اسرائیل، مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں بشار کے مددگار ہیں جو مسلمان مرد،عورتوں اور بچوں کے خلاف بھیانک قتل عام کرنے کے لیے ان کی مدد پر انحصار کرتا ہے۔
کفار کا خلافت اسلامیہ کےقیام کے انتہائی مقدس مقصد کے خلاف متحدہ محاذ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالٰی کے اس فرمان کی یاد دلاتا ہے کہ :
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ
"عنقریب اس جماعت کو شکست دی جائے گی اور یہ پیٹھ دکھا کر بھاگے گی"(القمر:45)
جی ہاں ، یہ درست ہےکہ جب سے روس، مغرب اور یہود نے شام کی سرزمین سے خلافت کے نعرے سنیں ہیں جو ایک انقلاب کے مرحلے سے گزر رہی ہے، یہ اپنا دماغی توازن کھو چکے ہیں! جب انھوں نے اس مطالبے کی سنجیدگی اور اس کی واپسی کو یقینی جان لیا تو ان کے دن کا چین اور رات کا سکون برباد ہوگیا۔ انھیں اب سوائے اس بات کے کسی چیز کا ہوش نہیں کہ وہ کھل عام اور خفیہ طور پر اس انقلاب کی مخالفت کریں۔لیکن اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ خلافت کی واپسی کی کس قدر مخالفت کرتے ہیں، ان کی ہر کوشش اللہ کے حکم سےضائع ہو جائے گی:
وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُور
"اور ان کا یہ مکر برباد ہوجائے گا"(فاطر:10)
چاہے وہ کتنا ہی اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کریں مگر اللہ ان کی کوشش کو کامیاب نہیں کرے گا بلکہ اپنے نور کو مکمل کرے گا چاہے کفار کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ * هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالٰی انکاری ہےمگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں۔اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اورتمام مذاہب پر غالب کردےاگرچہ مشرک برا مانیں"(التوبۃ:32-33)
خلافت کی سرزمین،سرزمین شام، اسلام کے گھر میں رہنے والے مسلمانو! لاروف، کہ جس نے مسلمانوں کو ان کے دین کے حوالے سے کھلا چیلنج دیا ہے، بشار کی ریاست کے سرکاری ترجمان کا کردار ادا کررہا ہے!اس نے ان گروہوں کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کیا جو اسلامی خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ " اس کا ملک جنو ا 2کانفرنس مںت مسلحہ شامی حزب اختلاف کی شمولتی کی مخالفت نہں کرتا جب تک کہ وہ خلافت کے قاجم کی سوچ نہ رکھتے ہوں"۔یہ وہ جماعتیں ہیں جن میں قومی شامی اتحاد کے سربراہ احمد الجربا بھی شامل ہے جس نے اقوام متحدہ کے اسی منبر سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی انتہاپسندوں پر الزام لگایا کہ وہ انقلاب کو چرا لینے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان مسلمانوں کا انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان شخصیات میں اس کا سیکولر استاد مشال کیلو بھی شامل ہے جس نے یہ کہا کہ "ہمیں ان جماعتوں کی کوششوں کو کم اہمیت نہیں دینی چاہیے جو اس انقلاب کے خلاف کام کررہی ہیں۔۔۔۔۔ہمیں کسی بھی صورت ان کے خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔۔۔۔یہ ایک انتہائی تباہ کن غلطی ہوگی اور اس کے ساتھ یہ بھی اتنی ہی تباہ کن غلطی ہو گی کہ ان کے ساتھ افکار کی بنیاد پر بات چیت کی جائے جو کہ حکومت کی خلاف مزاحمت کو اولین ترجیع قرار دیتے ہیں"۔
اسلام اور خلافت کے خلاف اس کھلم کھلا مخالفت کا تقاضع ہے کہ مسلمان بھی اس کا ایسا ہی منہ توڑ جواب دیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اعلان کریں کہ ان کا قائد اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور ان کا طریقہ ہی تبدیلی کا طریقہ ہے اور خلافت راشدہ کا قیام ہی ان کے انقلاب کا مقصد ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ * وَلَا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُون
"مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گرد و پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں۔ یہ اس سبب سے کہ ان کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور تکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لیے غصہ کو باعث بنا ہو اور دشمنوں کی جو خبر لی، ان سب پر ان کے نام(ایک ایک)نیک کام لکھا گیا۔ یقیناً اللہ تعالٰی مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتے"(التوبۃ:120)

ہشام البابا
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

ازبکستان میں دعوت کے شہسوار بدستور اپنے لہو سے شجر اسلام کی آبیاری پر اصرار کر رہے ہیں!

 

پریس ریلیز

تاشقند کا ایک اور فرزند سمرالدین سراج دینوفیتش35 سال کی عمر میں اللہ کی مشیت سے شہادت کے رتبے پر فائز ہو گیا.یہ فرزند امت ازبکستان کے طاغوت کریموف کی حکومت کو جڑھ سے اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت راشدہ کے قیام کے لیے حزب لتحریر کی صفوں میں سرگرم عمل تھا۔
سمرالدین رحمہ اللہ بچپن سے ہی اپنی محنت،جدوجہد اور ذہانت کی وجہ سے ممتازتھے۔آپ اپنے سکول کی تعلیم کے زمانے سے ہی اپنے تمام ساتھیوں میں لائق اور فائق تھے۔اسی طرح یونیورسٹی کے مراحل میں بھی آپ ہمیشہ نمایاں رہے اورتاشقند کے الامام البخاری یونیورسٹی کے شعبہ دینیات سے امتیازی درجے میں فراغت حاصل کی۔اپنی ذہانت ،حساسیت اوربیدارمغزی سے ازبک حکومت کی کرپشن اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بھانپ لیا اور یہی حزب لتحریر سے آپ کے تعارف کا سبب بن گیا۔اس کے افکار کو اپنا نےاور اس نصب العین کے حصول کے لیے حزب کے صفوں میں شامل ہو گئے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کیے بغیر اور ظالموں کے خوف کو خاطر میں لائے بغیر اسلامی زندگی کی واپسی کی جدوجہد کرتے رہے۔
1999 م میں مجرم زمانہ یہودی کریموف کی اسلام دشمن اور مسلمانوں کے خون کی پیاسی حکومت نے سمرالدین کو گرفتار کر کیا اور 17 سال قید کی سزا سنائی،یوں شیر کو پنجرے میں بند کر دیا گیا ۔آپ کوزرفشان شہر کےبدنام زمانہ "جسلیق"جیل اور کالونی نمبر48/64 کے درمیان منتقل کیا جاتا رہا۔مجرم حکومت کے کارندوں نے حسب عادت سمرالدین کو اپنے عقیدے اور افکار سے دستبردار کرنے یا اپنے مشن سے روکنے کے لیے ہر وہ خبیث اور گھٹیا اسلوب اختیار کیا جو ان کی مجرم عقل اور مریض ذہن میں آتا،لیکن ایک ایسے چٹان جیسے آدمی کے سامنے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے وقف کر رکھا ہو ان کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملاان کی امیدیں خاک میں مل گئیں،جس کی وجہ سے ان کے سینے بغض اور حسد سے بھر گئے اور انہوں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا۔
21 اکتوبر 2013 کی رات کے آخری حصے میں شیخانتور اسپیشل فورس اور مقامی پولیس کے افراد نے شہید کی جسد خاکی کو ان کے ورثا کے حوالے کرنے آئے۔آپ کے پاک جسم پر زخموں اور مار پیٹ کے نشانات واضح تھےجبکہ انہی دنوں میں آپ کے رشتہ داروں اور آپ کے ساتھی قیدیوں نے آپ کو دیکھا تھا اور آپ کی صحت بالکل ٹھیک تھی کوئی شکایت نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے رشتہ داروں نے آپ کی لاش کے پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کیا جس کی رپورٹ خوف ناک تھی۔رپورٹ میں ہے کہ سمرالدین کو دماغ میں چوٹیں لگی ہیں،کھوپڑی ٹوٹی ہوئی ہے،مغز خون آلود ہے،سارے جسم میں ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔اس شرمناک جرم کو چھپانے کے لیے سرکش کریموف کے غنڈوں نے سمرالدین کو فجر کی نماز کے فورا بعد دفنانے کا مطالبہ کیا ،بلکہ خود ہی ان کو غسل دینے قبر کھودنے اور دفن کر نے کی پیش کش کی ۔انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر گھروالوں نے ان کے احکامات پر عمل نہیں کیا تو ان کو بھی گرفتار کیا جائے گا جس کی وجہ سے گھروالوں نے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے آنے سے پہلے ہی ان کو دفنادیا۔
ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ اللہ ہمارے بھائی سمرالدین کی شہادت کو قبول فرمائے اوران کو سید الشہداء کا مرتبہ عطا فرمائے،ان کے اہل وعیال کو صبر جمیل اور اجر عظیم سے نوازے اورآپ کو قیامت کے دن ان کے لیے شفاعت کا ذریعہ بنائے۔ابن حبان نے اپنے صحیح میں ابو درداء سے روایت کی ہے کہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(الشہید یشفع فی سبعین من اھل بیتہ)"شہید اپنے گھروالوں میں سے ستر آدمیوں کی شفاعت کرے گا"۔
مجرم یہودی کریموف ،اس کے ہرکاروں اور کارندوں سے ہم کہتے ہیں کہ یاد رکھو خلافت دروازے پر ہے ۔ہوش میں آؤ اور کریموف سے ہاتھ کھنچ لو،مسلمانوں کوایذا اور عذاب دینے سے ہاتھ روک لو،ورنہ اگر تمہارے اس حال میں ہوتے ہوئے خلافت قائم ہوگئی تو تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا اور تم پر تر س نہیں کھا یا جائے گا۔اس ذلیل ہو کر گڑگڑانے سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا اوریہ تو دنیا میں ہوگا جبکہ آخرت کا عذاب تو شدید اور دردناک ہے،اللہ سبحانہ و تعالی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں۔
﴿وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾
"اوراسی طرح تمہارے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کرنے والی بستیوں کو پکڑ تا ہے تو اس کی پکڑ شدید ترین ہو تا ہے"۔(ہود:101)

Read more...

خلافت کا قیام افواج میں موجود مخلص افسران کی جانب سے نُصرَۃ(مادّی مدد)فراہم کرنے سےہی ہوگا

 

اے پاکستان کے مسلمانو! ہم میں سے ہر شخص اس بات سے آگاہ ہے کہ کیانی و شریف حکومت ہویا ماضی کی حکومتیں،پاکستان مسلسل معاشی بدحالی اورخارجی معاملات میں ذلت و رسوائی کے راستے پر گامزن ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہم لوگ اس صورتِ حال سےباخبر ہیں بلکہ ایک طویل عرصے سےہم اس کا مزہ بھی چکھ رہے ہیں۔ اورہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ پچھلے تین انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومتیں اتنی ہی کرپٹ اورنااہل تھیں جتنا کہ فوجی بغاوت کے ذریعے قائم ہونے والی آمرانہ حکومتیں۔ لہٰذا اب پاکستان میں اس بحث کوبہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ حقیقی تبدیلی کیسے لائی جائے؟ کس طرح ہم اس چیز کو ممکن بنائیں کہ ہمارے اوپر مخلص حکمرانوں کا سایہ ہو جواسلام کی بنیاد پر حکمرانی کریں ؟ کس طرح سے ہم وہ حقوق حاصل کرسکیں جو اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے رسول صلى الله عليه و سلم نے ہمارے لیےطے کیے ہیں؟ اور اس حقیقی تبدیلی کو لانے میں ہماراکردار کیا ہو تا کہ اس خوشحالی اور سکون و اطمینان کی زندگی میں مزید تاخیر نہ ہو جس میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے؟
بھائیو اور بہنو! جمہوریت کے تحت ہونے والے انتخابات کبھی بھی اِس نظام کا خاتمہ نہیں کریں گے، جو کہ مسلسل بدعنوان اور کرپٹ حکمران پیدا کررہا ہے، چاہے پاکستان کی زندگی کے اگلے ستر سالوں کے دوران بھی الیکشن در الیکشن کا سلسلہ جاری رہے۔ پاکساین کی ہر حکومت اور واشنگٹن میں بیٹھے ان حکومتوں کے آقا یہ کہہ کر پاکستان کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ تبدیلی لانے کا واحد ذریعہ صرف جمہوریت کے تحت انتخابات ہی ہیں۔ مغرب اور ان کے ایجنٹ حکمران ،عوام اور افواجِ پاکستان سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے تسلسل کی یقین دہانی کرائیں اگرچہ جمہوریت پاکستان کی سالمیت اور خوشحالی کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ لہٰذا مغرب کی حمایت سے قائم کردہ آمرانہ حکومتوں سے جان چھڑانے کے لیے ،مغرب اور ان کے ایجنٹ پاکستان کے مسلمانوں کواپنے دوسرے جال یعنی جمہوریت کی دعوت میں پھنسا دیتے ہیں جیسا کہ انھوں نے مصر ،ترکی اور دوسرے مسلم ممالک میں کیا۔
اے پاکستان کے مسلمانو! ہم پر لازم ہےکہ ہم اپنے دشمنوں کے جھوٹ کو مسترد کردیں اور اپنے دین کی طرف رجوع کریں تا کہ اس بدحالی اور مایوسی کی صورتحال سے نکل سکیں۔ جی ہاں، اسلام نے اس بات کو فرض قرار دیا ہے کہ امت کا حکمران امت کی مرضی اور اس کے انتخاب کے ذریعے بنایا جائے۔ جی ہاں ، ایک بار جب رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کردی تو انتخاب ہی وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے بعد خلفاء راشدین کو حکمرانی کے لیے چُنا گیا تھا۔ لیکن اسلام میں وہی شخص حکمران بن سکتا ہے اور حکمران رہ سکتا ہےجو اسلام اور اس کی شریعت کی بنیاد پر حکمرانی کرے نہ کہ جمہوریت اور اس کے کفر کی بنیاد پر۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کفار نے آپ صلى الله عليه و سلم کو اپنی پارلیمنٹ، دارالندوہ، میں شمولیت اور اس کا سربراہ تک بننے کی پیشکش کی لیکن رسول اللہﷺنے مضبوطی سے اس پیشکش کو رد کر دیا۔ اللہ کے نازل کردہ نظام کے سوا کسی بھی دوسرے نظام کو اللہ سبحانہ و تعالی نے "طاغوت " قرار دیا ہے اورموجودہ جمہوریت اسی کی ایک شکل ہےکہ جس میں قانون وفیصلے کا اختیار شریعت کی بجائے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندوں کے پاس ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آَمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ﴾"کیا آپ صلى الله عليه و سلم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں ، اس پر جو آپ صلى الله عليه و سلم پراور آپ صلى الله عليه و سلم سے پہلے نازل ہوا، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت(غیر اللہ) کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہوچکا ہے کہ طاغوت کا انکار کردیں"(النساء:60)۔
اور رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے ایسا اقتدار لینے سے انکار کردیا جس میں اقتدار کے بدلے اسلام کے کسی بھی معاملےپر سمجھوتےکی شرط عائد کی گئی ہوجیسا کہ یہ شرط کہ آپ صلى الله عليه و سلم کے بعد اقتدارکسی ایک مخصوص گروہ کو منتقل کیا جائے گا۔ پس رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے بَنُو عامر بن صَعْصَعَةکے وفد کی اس پیش کش کو مسترد کردیا جب انھوں نے آپ صلى الله عليه و سلم کو اقتدار دینے کے بدلے یہ شرط عائد کی کہ آپ صلى الله عليه و سلم کے بعد یہ اقتدار انھیں منتقل ہوجائے گا۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ((الأمر لله يضعه حيث يشاء)) "حکمرانی اللہ کی ہے اور وہ جسے چاہے گااسے دے گا"۔ تو پھر ان لوگوں کے متعلق کیا خیال ہے جو جمہوری نظام ، اس کی پارلیمنٹ اور وزارتوں میں شرکت کرکے اگر پورےاسلام سے نہیں تو اس کے بیشتر حصے سے دستبردار ہوجاتے ہیں؟ یقیناً رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کا طریقہ ان تمام مسلمانوں کے لیے ایک واضح سبق ہے، جو اَب بھی جمہوری نظام کے مغربی جال کی طرف اندھا دھندبھاگے چلے جارہے ہیں اور لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسلام، اس کی شریعت اور اس کی خلافت کے قیام کے لیے کوشش کررہے ہیں، چاہے ان لوگوں کا تعلق پاکستان سے ہو یا مصرسے، ترکی سے ہویا کسی اور مسلم ملک سے ۔ توکیا یہ لوگ سبق حاصل کریں گے!
پس رسول اللہﷺکفریہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اسی کفریہ نظام کا حصہ نہیں بنے،اگرچہ انھیں اس نظام کا سربراہ بننے کی دعوت دی گئی تھی۔ اور رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے ایسےاقتدار کو بھی قبول نہیں کیا جس کے بدلے میں آپ صلى الله عليه و سلم سےاسلام کے کسی ایک معاملے پر بھی سمجھوتے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ اس کی جگہ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کفر کی حکومت کے خاتمے کے لیے پورےمعاشرے سے اس کفریہ حکومت کی حمایت اور قوت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نےلوگوں کی طرف سے کفرکی حمایت کو ختم کیا اور اس کے لیے آپﷺنے کفر کے نظام کو کھلم کھلاچیلنج کیا ،اس کی حقیقت کو بے نقاب کیااور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کفر کی حکمرانی کو اس مادّی سہارے سے محروم کیاجواسے تحفظ فراہم کیے ہوئے تھا۔ رسول اللہﷺ نے ذاتی طور پر ان لوگوں سے ملاقاتیں کیں جو جنگی طاقت رکھتے تھے اور ان سے مطالبہ کیاکہ وہ ایمان قبول کرنے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کو نُصرَۃ(مادّی مدد)فراہم کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے طویل سفر کیے، مشکلات اٹھائیں تا کہ اسلام کو ایک ریاست کی شکل میں قائم کرنے کے لیے نُصرۃ کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ رسول اللہ ﷺجن لوگوں سے نصرۃ کا مطالبہ کرتے تھے، ان کی مادّی قوت کو بھی معلوم کرتے تھے۔آپ صلى الله عليه و سلم ان سے سوال کرتے تھے:((و هل عند قومك منعة؟))"کیا تمھارے لوگ طاقت و اسلحہ رکھتے ہیں؟" اور آپﷺنےان لوگوں کی پیش کش کو قبول نہ کیاجن میں اسلام کے دشمنوں سے اسلام کا دفاع کرنے کی طاقت موجود نہیں تھی۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کئی قبائل سے ملاقاتیں کیں جن میں بَنُو كلب،بوکحَنِيفَةُ، بنو عامر بن صَعْصَعَة، بنو كدْعةُ اور بنوشيبان شامل تھے۔ اوررسول اللہ ﷺاسی طریقہ کار پر صبر و استقامت کے ساتھ کاربند رہے یہاں تک کے اللہ تعالی نے نصرۃ کے حصول میں کامیابی عطا فرمادی جب انصار کے ایک چھوٹے مگر مخلص اور اہلِ قوت گروہ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نبی کریم صلى الله عليه و سلم کو نُصرۃ فراہم کر دی۔ لہٰذا اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرۃ کا حصول رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کی سنت اور طریقہ ہے، اس طریقے پر چل کر نبی صلى الله عليه و سلم نے یثرب کے تقسیم شدہ معاشرے کو اسلام کے قلعے،مدینۃالمنورہ میں تبدیل کردیا۔
اے پاکستان کے مسلمانو! حزب التحریر ہمارے درمیان رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر چلتے ہوئے ہی خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ اس کے شباب ہمیں کفر سے خبردار کرتے ہیں اورہم سے اسلام اور اس کی خلافت کی مددوحمایت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور حزب التحریر کے امیر، اعلیٰ پائے کے فقیہ اور رہنما، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ ، اپنی جان خطرے میں ڈال کراس دین کے لیےمسلم افواج سے نصرۃ حاصل کرنےکی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ اب یہ ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ ہم حزب التحریر میں شامل ہوجائیں اوررسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کو قائم کردیں اور ظلم کی حکمرانی کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ امام احمدبن حنبل نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ:((ثُمَّ تَکُونُ مُلْکاً جَبْرِیَّةً، فَتَکُونُ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ تَکُونَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا ِذَا شَائَ اَنْ یَرْفَعَھَا۔ ثُمَّ تَکُونُ خِلَافَةً عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّة ثُمَّ سَکَتَ)) "پھر ظالمانہ حکومت کا دَور ہو گا جو اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا۔ پھرنبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی۔ یہ کہہ کر آپ صلى الله عليه و سلم خاموش ہوگئے"۔
اےافواج میں موجود مسلمانو! اے اہلِ نُصرۃ! اے موجودہ دور کے انصارو! رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کا طریقہ کار اسلام کے قیام کے لیے اہلِ قوت سے نُصرۃ(مادّی مدد)حاصل کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور تم میں سےہر ایک یہ نُصرۃ دینے کی قابلیت رکھتا ہے۔ تمھارے بیٹے، ییٹیاں، بھائی،بہنیں اور مائیں تمیںے پکارتی ہیں کہ تم اپنی ذمہ داری کو پورا کرو۔ نصرۃ کا معاملہ تماررا ہے اور یہ وقت بھی تماہرا ہے ، لہذا اگر تم اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کرو گے تو تم یقیناً کامیاب رہو گے۔ کفریہ جمہوریت کی حمایت کر کے، جسے لوگوں کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے، اپنی امت اور اپنے حلف سے غداری مت کرو۔ کیانی و شریف اوران کا ٹولہ کہ جس نے اپنے حلف سے غداری کی ہے ،اور جنہوں نے ہماری قیادت کی صفوں کو داغدار کر دیا ہے ؛ ایسے لوگوں کی زندگی کی خاطر اپنی آخرت کوبرباد مت کرو! حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرکےرسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر خلافت کوقائم کردو ۔ اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب رہے اور کفر اور ان کے لوگوں پر غالب آ گئے تو تمہارا یہ عمل تمہاری اور امتِ مسلمہ کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا۔
﴿إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
" اگر اللہ تعالی تمھاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرے؟ ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے"(آل عمران:160)

www.hizb-pakistan.com

Read more...

سوال وجواب:  امریکہ میں بجٹ اورقرضوں کی حد اونچی کرنے کے حوالے سے حالیہ رسہ کشی کی حقیقت

 

سوال: اس وقت یونائیٹڈ اسٹیٹس میں ایک طرف اوباماانتظامیہ اورڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان اوردوسری طرف حریف ریپبلکن پارٹی کے درمیان زبردست رسہ کشی عروج پرہے.یہ کشمکش بجٹ اورقرضوں کی حد اونچی کرنے کے حوالے سے ہے.اوباماحکومت قرضوں کی حد کو بڑھانے کا شدید تقاضاکررہی ہے ۔ بجٹ منظورکرنے میں ناکامی کے باعث بحران میں اس حد تک شدت آئی کہ وفاقی حکومت کےلاکھوں ملازمین کونوکریوں سے فارغ کرناپڑا، اس کو انہوں نے بغیر ادائیگی کے جبری رخصت کانام دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ دارجمہوری ممالک کا پیشواامریکہ جیسی ریاست میں یہ حالات کیسے ظہورپذیر ہوئے ۔یہ کس نوعیت کی جمہوریت ہے جس کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ یہ لوگوں کوانصاف فراہم کرتی ہے ؟ ان لوگوں سے کام کرنے میں کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہے، یاپھر جمہوریت ان کوان کے ناکردہ گناہ کی سزا دےرہی ہے،جوعوام کوان کی تنخواہوں سے محروم کرتی ہے؟ پھر یہ کہ الٹا حکومت قرضوں کی حد بڑھانے پراصرار کر رہی ہے ،حالانکہ ہوناتویہ چاہئے تھا کہ حکومت قرضے گھٹانے پر اصرار کرتی؟
اس کی ایسی وضاحت درکارہے جسے آسانی کے ساتھ سمجھاجاسکے ،جزاک اللہ خیراً ۔

 

جواب: آپ کے سوال کاجواب مندرجہ ذیل امور پرغورکرنے سے واضح ہوگااوربآسانی سمجھ میں آجائے گا۔
پہلا : امریکی بجٹ :
امریکی بجٹ کی منظوری کیلئے کانگریس کے دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔ امریکی سینٹ میں اکثریت ڈیموکریٹس کی ہے اورامریکی ایوان نمائندگانمیں اکثریت ریپبلکن کی ہے ۔ بات چیت کازبردست راؤنڈ ہوا،جس میں امریکی سینٹ اورایونِ نمائندگان کے درمیان سوموار 03/9/2013 کی شام تک تجاویز اورتحریروں کاتبادلہ ہوتارہا ،لیکن امریکی کانگریس 1/10/2013 کے ابتدائی گھنٹوں سے قبل، جب کہ امریکہ کے نئے مالی سال کاآغاز ہوتاہے،عارضی بجٹ پاس کرنے میں ناکام ہوئی ۔
دوسرا : قرضوں کی حد کاموضوع :
امریکی قرضہ وفاقی حکومت پربراہ راست قرضے کی مجموعی مقدار ہے،جو یونائیٹڈاسٹیٹس سے باہر اور اندرکی پارٹیوں کے پاس موجود ٹریژری بانڈز ہیں جو امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں ۔
امریکی قرضے کی حد کا تعین کانگریس کرتی ہے ،جس سے تجاوز کرناوفاقی حکومت کیلئے جائز نہیں ،اورجس کی مقدارفی الحال 16.7ٹریلین ڈالرہے ۔توقع یہ ہے کہ حکومت 17/10/2013، کواس حدسے تجاوز کرجائے گی ،اس لئے وفاقی حکومت نے اس تاریخ کو کانگریس کی طرف سے کیے جانے والےفیصلے کے انتظارمیں اپنی دھڑکنوں کوروکاہواہے ۔
تیسرا : پیش آمدہ بحران اوراس کے اسباب وعوامل :
1ـ اوبامانے ہیلتھ کئیرکاایک پروگرام پیش کیاجسے اس نے "اوباماکئیر"کانام دیا،اس کامقصد کم آمدنی والے 46ملین امریکیوں کوسماجی تحفظ اورہیلتھ انشورنس فراہم کرناتھا،تاکہ جو لوگ انشورنس نہیں کرواسکتے ،ان کیلئے ہیلتھ انشورنس حاصل کرناممکن ہوجائے ۔اس پروگرام کوچلانے کیلئے 2013ـ 2014 کی بجٹ میں اس کیلئے مختص کئے گئےکوٹے کی ڈکلئیریشن ضروری ہے۔بجٹ کاآغاز 1/10/2013سے ہوتاہے ،مگر ری پبلیکنز نے دیکھاکہ پروگرام کامقصد ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے عوامی حمایت اوررائے عامہ کاحصول ہے ،بالخصوص جبکہ کانگریس کے مڈٹرم الیکشن نومبر 2014 میں ہونے والے ہیں اوریہ توقع کی جاتی ہے کہ اس میں اوباماکاہیلتھ کئیرپروگرام موضوع بحث ہوگا۔اس لئے ری پبلیکنز نے اوباماپروگرام کیلئے بجٹ کی تخصیص کواس وقت تک کے لیے روک دینے کا مطالبہ کیا جب تک اس سے متعلق قانون پر مذاکرات اور ترامیم جاری ہیں ۔ یہ مطالبہ اس لیے کیا گیا تاکہ پیکج میں ری پبلیکنز کے نقطہ نظر کو گنجائش دے کراس کودونوں پارٹیوں کے مشترکہ نام سے جاری کیاجائے ، صرف اوباماکے نام سے جاری نہ ہو،اس طرح اوباماڈیموکریٹک پارٹی کیلئے آئندہ انتخابات میں کوئی ووٹ بینک نہ بناسکے گا،اور چونکہ امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلیکنز کی اکثریت ہے ،اس لئے وہ اس قابل ہیں کہ اس قانون کومعطل کردیں۔
چونکہ دونوں پارٹیوں کے نزدیک ایشولوگوں کی خدمت کرنانہیں،بلکہ یہ آنیوالے انتخابی فصل کوکاٹنے کیلئے ایک سیاسی تنازع ہے ،اس لئے ہرایک نے اپنے موقف پراصرار کیا،چاہے لوگوں کااس میں نقصان ہو،جیساکہ حال ہی میں سامنے آیا۔اوباما اس پیکج کی منظوری کاخواہشمندہے ،جبکہ ری پبلیکنز اس کے بارے میں بات چیت کیلئے اس کوملتوی کرنے اوراس کواوباماسے الگ کرکے اس کوایسا رنگ دینا چاہتے ہیں جس میں ان کابھی حصہ ہو ۔ اس طرح ماہِ اکتوبرکے ابتدائی گھنٹوں سے پہلےعارضی بجٹ پیش کرنے میں کانگریس کی ناکامی نےاس بحران میں اضافہ کیا،جو اس کی منظوری کاطے شدہ وقت ہے۔ اوردونوں پارٹیوں کے درمیان اس کے مقررہ تاریخ تک بحث ومباحثہ ہوتارہا۔
2ـ اس کے نتیجے میں"وفاقی حکومت نے شٹ ڈاون " کیا،کیونکہ ری پبلکن پارٹی نے 30/9/2013کوبجٹ 2014 کے قانون پر ووٹنگ کومسترد کردیااوراس کی وجہ سے 8 لاکھ سے زیادہ حکومتی ملازمین کومعاؤضےاداکیے بغیر جبری رخصت دے کرمعطل کردیاگیا،اورتمام امریکی اداروں سے اپنے ملازمین میں کمی اوربڑی تعداد کوچھٹی دینے کی توقعات کی گئیں ،جیساکہ سابقہ ادوار میں ہوا، جب بل کلنٹن کے دورمیں دسمبر 1996 تاجنوری 1997تک 21 دن حکومتی سرگرمیوں کومعطل کیاگیاتھا،اس وقت حکومت کو اس شٹ ڈاؤن سے دوبلین ڈالر کانقصان ہوا تھا ۔
3ـ یہ اس بحران کی ایک کڑی ہے، بلکہ آئندہ بحران کے آنے کا اعلان اور زریعہ ہے ،یعنی حکومتکانگریس میں اس معاملے پربحث کرنے کیلئے طے شدہ وقت میں جو قریباً ایک ہفتہ بعد 17/10/2013 کوآرہاہے، قرضے کی حد بڑھانے کامطالبہ کرے گی ،اس لئے کہ حکومتی قرضہ جائز مقدار سے تجاوز کرگیاہے، جو 16.7ٹریلین ڈالر ہے ۔اس حد کی منظوری کانگریس نے دی ہے اورحکومت پریہ لازم کردیاہے کہ وہ اس سے زائد قرضہ نہ لے ۔ مگرحکومتی خزانہ 17/10/2013 کودیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،کیونکہ حکومتی خزانے میں متوقع پیش گوئیوں کے مطابق ،سوائے 30 بلین ڈالرکے اورکچھ نہیں رہے گا،جس کی بناپر حکومت اپنی مالی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کی اہل نہیں رہے گی۔
4ـ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پرالزامات کی بوچھاڑ کرنے لگی ہیں ،بالخصوص جبکہ ان دونوں پارٹیوں کے مسائل کی وجہ سے عوام کوپریشانیوں کاسامناکرناپڑاہے ۔اب ہرایک پارٹی دوسری پرکیچڑ اچھالنے کی کوشش میں ہے ۔اوباماری پبلکنں پارٹی کوان حالات کاذمہ دار ٹھہراتاہے اورکہتاہے کہ اس نے ملک کواپنے پارٹی مفادات کے بدلے گروی رکھ لیاہے ۔اس نے 8/10/2013 کو وائٹ ہاوس میں ایک پریس کانفرنس میں کہا " سینٹ کے اندرکانگریس کے اراکین اوربالخصوص ری پبلیکنز اپنے فرائض کی ادائیگی کے بدلے کسی معاوضے کامطالبہ نہیں کرسکتے ۔ ان کے دوبنیادی کام یہ ہیں کہ وہ بجٹ پاس کریں اوراس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ امریکہ ان بلوں کواداکرے گا"۔
امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر کاکہناتھا کہ وہ کانگریس کوہرگز قرضوں کی حد اونچی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، جب تک کہ اوباما ،ہیلتھ کئیرالمعروف اوباماکئیرکے حوالے سے کچھ دستبردار یوں کااعلان نہ کردے اوراس حوالے سےبات چیت پراتفاق نہ کرے ، ورنہ" ہم قرضوں کی حد نہیں بڑھائیں گےجب تک اس حوالے سے سنجیدہ مذاکرات نہ ہوں جو قرضوں کے بڑھنے کا سبب بن رہے ہیں" ۔
5ـ دونوں پارٹیوں کی کھینچا تانی سے یہ واضح ہے کہ دونوں قرضوں کی مقررہ حد میں اضافہ کرنے کی خواہش مندہیں ،مگرری پبلکنض پارٹی اس کے بارے میں ہم آہنگی کوہیلتھ کئیر پیکج کے قانون میں ترمیم کے ساتھ جوڑتی ہے ،تاکہ اس میں ان کابھی رنگ شامل ہو۔مگرغورکی بات یہ ہے کہ عام ممالک کے امور کوایسے انداز سے چلایاجاتاہے ،جس سے ان کی معاشی اورمالی حالات کنٹرول کیے جاسکیں تاکہ ان کے قرضے بڑھنے کی بجائے ان کوگھٹایاجاسکے،مگرامریکہ واحدریاست ہے جسے اس کی کوئی پروانہیں کہ وہ قرضوں کی دلدل میں سرتاپاغرق ہوجائے ،کیونکہ یہ اب بھی بانڈز جاری کرتاہے اورمناسب وقت پہ ان کی ادائیگی کی ضمانتیں بھی دیتاہے ، اگرچہ اپنے مالی حالات کی وجہ سے ان کی ادائیگی کے قابل نہ رہے ،کیونکہ جب اسے کوئی مفاد نظر آئے تو وہ دیگر ریاستوں کے برعکس لامحدودپیمانے پراپنے خزانے میں پڑے ہارڈ کرنسی سےمزید ڈالرچھپواسکتاہے،بالخصوص جبکہ اس کی کرنسی بڑی حد تک دیگرریاستوں کے ریزرواثاثوں کوکنٹرول کرتی ہے ۔امریکہ آئی ایم ایف سےخفیہ اجازت لے کر مزید ڈالرچھپواسکتاہے ،بلکہ بغیراجازت کے کھل کربھی ایساکرسکتا ہے ،کیونکہ آئی ایم ایف میں اصل اثرونفوذ اس کاہوتا ہے۔امریکہ جعلی اسباب کاپروپیگنڈاکرکے اصل حقائق لوگوں کی نظروں سےچھپالیتاہے ،اس میں آئی ایم ایف اس کوسہارادیتاہے ۔وہ ایساکرتاہے ،اگرچہ ڈالر پرنٹنگ کے باعث اس کی قیمت گرے یامہنگائی میں اضافہ ہو، بشرطیکہ اس میں کوئی مصلحت نظر آئے ۔ مثال کے طورپر ذرائع نے نقل کیاہے کہ امریکہ نےتیل پرسٹے بازیوں کے دوران 2ٹریلین ڈالر تا4ٹریلین ڈالر چھپوائے ،جس کی وجہ سے قمتیں بڑھ کر 2008میں 150 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں۔امریکہ اس سٹے بازی سے الگ نہیں رہا،چنانچہ اس نے تیل کی بالواسطہ یابلاواسطہ بڑی مقدار کی خریداری کیلئے پیپر پرنٹ کروائے،پھر اس تیل کواپنے گوداموں میں محفوظ کرلیا۔امریکہ کااس میں اپنامفاد پیش نظر تھا ،جومہنگائی بڑھنےاورڈالرسستاہونےکے مقابلے میں اعلیٰ تھا۔
اس لئے امریکی وفاقی حکومت کے قرضوں کی حد مجبوراً بلند کی جارہی ہے ،مثلاً حکومتی قرضے( مرکزی ادارہ اورعلاقائی ادارہ جات )1990میں 4.3ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر2003میں 8.4ٹریلین ڈالر تک اور2007 میں 8.9ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ 2009میں اوباماحکومت کے ابتدائی دنوں میں قرضہ 10.3ٹریلین تھا، 2011میں اس نے 14ٹریلین امریکی ڈالر کی حد پارکی،جبکہ آج کل یہ 16.7ٹریلین ڈالر کوعبورکررہاہے۔کوئی اور ریاست اگران قرضوں سے بہت کم مقدارمیں ڈوب جاتی تووہ کب کی گرچکی ہوتی اوراس کی معیشت کاکباڑاہوجاتا،مگرامریکہ کو قرضوں کی کوئی پروانہیں،کیونکہ یہ اس کااندرونی مسئلہ ہے ،چنانچہ کانگرس جب چاہے قرضوں کی حد بڑھادیتی ہے ،اس کی معیشت چل پڑتی ہے اوراگر اس کی معیشت مضبوط ہو توقرضوں کو اپنی اقتصادی قوت کے ذریعے پوراکردیتی ہے،ورنہ بلاروک ٹوک کےکرنسی نوٹ جاری کردیتاہے،اس لئے امریکی معیشت کوصرف اس وقت ہی زوال وانحطاط سے دوچارکیاجاسکتا ہے،جب کرہ ارض پرکوئی ایسی ریاست رونماہوجائے، جوامریکی ڈالر کوکسی تول میں نہ لائے ،بلکہ اس کے ساتھ یاتوسامان کے بدلے سامان کامعاملہ رکھے، یاگولڈ اینڈ سلور سٹینڈرڈکرنسی( سونے چاندی کےزرمبادلہ) کوپھرسے رواج دے۔
6ـ یوں سرمایہ دارنہ جمہوری بلاک کاسرغنہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کاثبوت دے رہاہے ،اوریہ کہ یہ نظام برسراقتدارسرمایہ دارطبقے کی من مانی کے سواکچھ نہیں،جو لوگوں ،بالخصوص متوسط طبقہ اوراس سے کہیں زیادہ عوام کی قسمتوں کافیصلہ کرتاہے۔اوبامانے اپناایشو"اوباماکئیرپروجیکٹ" کوبنایا ہے۔اوبامااس کیلئے یہ دلیل دیتاہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کوہیلتھ کئیرکے حوالے سے تعاون فراہم کرے گا،مگردوسری جانب اس نے لاکھوں ملازمین کوبغیرادائیگی کے رخصت دیکرمعطل کردیا۔۔! اس کامطلب ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اس قانون کے ذریعے لوگوں کی خدمت نہیں کرناچاہتی بلکہ اسے مستقبل میں اپنے انتخابی مقاصد عزیزہیں،ورنہ لوگوں کی خدمت کرنے کےنتیجےمیں ان کوبغیرکسی کوتاہی کے نوکریوں سے فارغ کردیاجائے ،یہ کس قسم کی منطق ہے؟ری پبلکنی پارٹی کی نظرمیں ہیلتھ کئیرکاہونایانہ ہوناکوئی ایشونہیں ،بلکہ اس کے پیش نظر یہ ہے کہ اس پیکج کی نسبت صرف اس کے حریف کی طرف نہ کی جائے بلکہ اس میں ان کی بھی شرکت اور کردارکو یقینی بنایاجائے ، دونوں پارٹیوں کوصحت عامہ کی کوئی فکرنہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ ری پبلکنم پارٹی اس بات پرمذاکرات کے بعد ہم آہنگ ہوجائے گی ،کہ اس کی نسبت دونوں پارٹیوں کی طرف کی جائے۔ پس اس پروجیکٹ کا مواد ( content)ایشونہیں ،بلکہ اس کے انتخابی فوائدونتائج پیش نظرہیں،خواہ اس کے نتیجے میں لوگ سختی اورزبوں حالی کاشکار کیوں نہ ہوجائیں،اور کتناہی ان کیلئے باعث آزارہو۔ نیز اس پروجیکٹ میں یہ لازمی شرط بھی رکھی گئی ہے کہ بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کرائیں،توپروجیکٹ ہولڈراوبامانے گزشتہ مئی میں اس شرط کوایک سال تک ملتوی کرنےکابذات ِخوداعلان کیاتھا،تاکہ ان کمپنیوں اوران کی سپورٹر ری پبلنیں پارٹی کی خوشنودی حاصل کی جائے۔اوباماکاخیال تھاکہ ری پبلکنِ پارٹی اس پیکج میں اس کے ساتھ اتفاق کرلے گی۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی ایک پارٹی کوبھی لوگوں کے امور کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال کی اتنی فکرنہیں جتنی ان کواپنی انتخابی مقبولیت کی فکر ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ان کی سرمایہ داریت یہ ہے کہ سرمایہ داراپنے سرمائے کی بڑھوتی کیلئے عوام کااستحصال کرے ،جبکہ ان کی جمہوریت عوام کی خدمت کیلئے نہیں، بلکہ اس لئے ہے کہ عوام جمہوریت کے"بڑے "مالکان کی خدمت گزاری کریں،اگرچہ بلامعاوضہ بھی ہو۔
7ـ آخرمیں ہم اس پراللہ کاشکراداکرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس نظام کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے جوحکیم اورخبیر ذات کی طرف سے ہے۔اس نظام میں اگرعام لوگ بھوکے ہوں توخلیفہ بھی بھوکارہتاہے ،لوگ سیرہوں تووہ بھی سیرہوتاہے ،وہ تب ہی امن محسوس کرتاہے جب لوگ امن سے ہوں۔ اللہ کی طرف سے دیاہوایہ وہ نظام ہے جوتمام رعایا کیلئےگھر،لباس اورکھانے پینے جیسے بنیادی ضروریات کاضامن ہوتاہے ،جوآدمی کام کاج کے قابل ہو ،اسے روزگارفراہم کرتاہے اورجوکام کرنے سے قاصرہو،اس کاکوئی رشتہ داربھی نہ ہوجواس کاخرچہ برداشت کرے ،توخلیفہ ہی اس کے مروجہ خرچے کابندوبست کرتاہے اوربا نفس نفیس اس کی سرپرستی کرتاہے۔یہ وہ نظام ہے جس میں عوام کی ملکیت کوان کے امن اورمعیشت کے تحفظ کیلئے عوام میں تقسیم کیاجاتاہے، چنانچہ ان کی طرف سےدیےگئے اموال ان کی پیدائش سےہی ان پر نچھاور کئے جاتے ہیں۔یہ وہ نظام ہے جوایک پرامن ،عدل پر مبنی معاشی زندگی دیتاہے،جس کی وجہ سے انسانوں کے حالات سدھرتے ہیں ،کیونکہ خالق لوگوں کی فلاح وبہبوداور ان کے خیر وشر کوسب سے زیادہ جانتاہے﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾"بھلاوہ بھی بے علم ہوسکتاہے جو خالق ہو ، اور پھر باریک بین اورپوراباخبرہو " ۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے خلافت راشدہ کی واپسی کیلئےمدد اورتوفیق کی دعاکرتے ہیں،جو نہ صرف دارالاسلام میں بھلائی عام کردے گی ،بلکہ ہرذی عقل اورامن پسندکواس کافائدہ پہنچے گا،والحمدللہ رب العالمین۔

Read more...

سوال وجواب: شخصیہ کے عربی شمارے، جلد نمبر3صفحہ 129 پر موجود ایک اصطلاح 'کلی مُشکِّک' کی وضاحت

 

سوال: شخصیہ کے عربی شمارے ، جلد نمبر3صفحہ 129نیچے سےسطرنمبر2پیراگراف کے آخرمیں آیاہے :
"۔۔۔ اوراگرکلی معنی (Whole) اپنے افراد کے اندرمختلف اندازمیں پایاجاتا ہو، تواس کوکلی مُشکِّک (causing of doubt) کہتے ہیں، مثلاً الوجود(موجود ہونا ) اورالابيض(سفید) کالفظ، چاہے یہ اختلاف وجوب (obligation) اورامکان (ability) کااختلاف ہویابے نیازی اورمحتاجی کے اعتبارسے، یا کمی اورزیادتی کے اعتبارسے ہو، پہلی قسم کی مثال ، جیسے وجود، کیونکہ یہ باری تعالیٰ کیلئے واجب(obligation) ہے ،جبکہ اس کے علاوہ میں ممکن (possible) ہے، دوسری قسم کی مثال بھی وجود ہے، کیونکہ یہ اجسام پربھی بولاجاتاہے ،جنہیں کسی محل (location) کی ضرورت نہیں ہوتی اوروجود اعراض پر بھی بولاجاتاہے،یہ اعراض (causes) کسی نہ کسی محل (location) کے محتاج ہوتے ہیں، تیسری قمر کی مثال روشنی ہوسکتی ہے، چنانچہ سورج کی روشنی کسی چراغ کی روشنی سےبدرجہاں زائد ہوتی ہے۔ اس قسم کی کلی کومشکک کہاگیاہے، کیونکہ جوکوئی اس کودیکھتاہے، وہ اس کی وجہ سےشک میں پڑجاتاہے کہ آیایہ وہ کلی ہے جسے متواطی (جس کے تمام افراد میں کوئی فرق نہ ہو، جیسے انسان) کہتے ہیں، آیا یہ مشترک ہے، ( کیونکہ ایک طرف تواس میں حقیقت ایک ہوتی ہے اور دوسری طرف یہی حقیقت، اپنے افراد کے اندرمختلف انداز میں رونماہوتی ہے )۔
تو شیخ نے "وجود اورسفید" کاذکرکیاہے پھروجود کی مثال بیان کی، اورپھر اس کومکرر ذکرکیا، "سفید " کی مثال نہیں بیان کی ...... پھراستغناء اورمحتاجی کاذکراس طرح کیا کہ میرے اوپرخلط ملط ہوگیا۔۔۔۔تواس عبارت کوواضح طورپرکس طرح سمجھ سکیں گے۔؟جزاک اللہ خیراً

 

جواب: یہ عبارت مختصر ہے، اس میں تفصیل نہیں، جیسے اصول کی کتابوں میں یہی طریقہ اپنایاجاتاہے۔ یقیناً اس عبارت میں سفید کی مثال نہیں بتائی گئی، کیونکہ "روشنی " کی مثال "سفید" پربھی آتی ہے ۔ اسی طرح بے نیازی اورمحتاجی کی مثال دیتے ہوئےوجود کالفظ دوبارہ ذکرکیاگیاہے ،یہاں "وجود" دراصل "موجود "کے معنی میں ہے،اس میں زیادہ باریکی ہے ،لیکن اس عبارت کومزید واضح کرنے کیلئے میں اس کومزید تفصیل اورتوضیح کے ساتھ ذکرکروں گا جومندرجہ ذیل ہے :
اگرکلی کامعنی اپنے افراد میں مختلف اندازمیں پایاجائے تواس کومشکک(causing of doubt) کہتے ہیں، جیسے وجود اورسفید کالفظ، اب یہ اختلاف چاہے واجب ہونے یاممکن ہونے میں ہوجیسے وجود کالفظ، جوباری سبحانہ میں واجب ہے اوراس کے علاوہ میں ممکن ہے ۔ یایہ اختلاف بے نیازی اورمحتاجی کاہو، جیسے "موجود" کالفظ، جواجسام پربھی بولاجاتاہے، باوجود یہ کہ اجسام کومحل کی ضرورت نہیں ہوتی اوریہ اعراض پربھی بولاجاتاہے، جوکسی نہ کسی محل کے محتاج ہوتے ہیں ،مثال کے طورپر "مشک اورآدمی" جوکہ جسم ہیں ان کوبھی (آپ ) موجود کہہ سکتے ہیں اور"مشک کی خوشبواورآدمی کی بیماری " جوکہ اعراض ہیں اورمحل کے محتاج ہیں ،ان کوبھی موجود کہہ سکتے ہیں، یہ مشک کی خوشبو مشک کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اسی طرح آدمی کی بیماری آدمی کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ مشک موجود ہے اورساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مشک کی خوشبوموجود ہے، آدمی موجود ہے اورآدمی کی بیماری موجود ہے، اس کے باوجود کہ وجود کامعنی بے نیازی اور محتاجی کے اعتبارسے ان میں مختلف ہے، (یعنی آدمی کاوجود کسی دوسرے وجود کامحتاج نہیں ،جس کے ذریعے وہ پایاجائے،مگر اس کی بیماری اس کے جسم کے وجود کی محتاج ہے)۔
یایہ اختلاف شدت اورعدم شدت کاہو، یعنی کمی اورنقصان کا، اس کی مثال، "سفید" کالفظ ہے، یہ برف اورہاتھی کے دانت دونوں پربولاجاتاہے، لیکن سفیدی برف میں زیادہ اورہاتھی کے دانت میں کم ہوتی ہے، یا "روشنی " کالفظ، اگرچہ سورج اورچراغ کی روشنی کے درمیان تفاوت ہے، لیکن دونوں کوروشنی کہاجاتاہے۔
تو "وجود، موجود، سفید اورروشنی " کے الفاظ کلی مشکک ہیں اوراس کومشکک اس لئے کہاجاتاہے،کیونکہ اس کودیکھنے والااس شک میں پڑجاتاہے کہ آیایہ متواطی ہے ،کیونکہ حقیتھ توایک ہے، یایہ مشترک ہے کیونکہ کمی بیشی ، وجوب اورامکان اوراستغناء ومحتاجی کااختلاف بھی ہے ۔
آپ کی معلومات کیلئے کہ مشکک اسم فاعل کاصیغہ بھی ہوسکتاہے ،کہ پہلی کاف مشدد ہواوراس کے نیچے زیر ہواوریہ بھی جائز ہے کہ کاف مشدد ہواوراس کے اوپرزبرہو،یعنی اسم مفعول کاصیغہ ہو،یہ دونوں صحیح ہیں، اسم فاعل کامعنی ہوگا شک میں ڈالنے والا اوراس میں شک بھی کیاجاتاہے تویہ مفعول بھی ہوا، لہٰذااسم فاعل اوراسم مفعول ، دونوں ٹھیک ہے۔
امید ہے کہ کلی مشکک کامعنی واضح ہواہوگا۔ اوراگرمناسب معلوم ہواتوکتاب کی اس عبارت کومزید تفصیل اورتوضیح کے ساتھ ترتیب دیں گے۔انشاء اللہ

Read more...

يُخَادِعُونَ ٱللهَ وَٱلَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اورایمان والوں کو دھوکہ دیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں مگرسمجھتے نہیں" (البقرۃ:9)  

کچھ عرصے سے امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کی بات کررہا ہے۔ یکم دسمبر 2009ء کو امریکی صدر اوبامہ نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ "ہماری افواج گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے بارہ سال تک یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کیے بغیر افغانستان سے نکل جائے جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں اس کی افواج کا شیطانی روپ بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور اس کی معیشت اس حد تک خراب ہوگئی کہ ایک وقت پرایسا لگنے لگا کہ اس کی معیشت بالکل ہی ڈوب جائے گی۔ اس وقت امریکہ خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی مدد پر انحصار کررہا ہےبالکل ویسے ہی کہ جس طرح امریکہ پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں فوجیں داخل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن امریکہ کوئی ٹھوس وجہ بیان کر کے اس جنگ کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل کرنے سے قاصرہے، بلکہ کوئی ٹھوس اور سچی وجہ تو کیا وہ کوئی جھوٹا جواز پیش کرکے ہمیں قائل کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے پاکستان میں بم دھماکوں اور قتل وغارت گری برپا کرنے کا حربہ استعمال کیاکہ کسی طرح پاکستان کے مسلمان اس جنگ کو اپنی جنگ مان لیں، ایسے دھماکے اورقتل و غارت گری کہ جس سے نہ توہمارے فوجی محفوظ ہیں اور نہ ہی عام شہری، ہمارے بازار ہوں یا عبادت گاہیں ، یہاں تک کہ عورتیں ، بچے، بوڑھے، مسلمان ، غیر مسلم، کوئی بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ پس جب یہ بم دھماکے اور قتل و غارت گری ہوتی ہے تو امریکہ کے ایجنٹ فوراًیہ پکارنے لگتے ہیں "دیکھو، یہ ہماری ہی جنگ ہے"۔ یہ ہے وہ شیطانی دھوکہ اور سازش کہ جس کی عمارت لوگوں کی لاشوں پر کھڑی کی گئی ہے اورمسلمانوں کے خون سے اس عمارت کی بنیادوں کو پختہ کیا گیا ہے!

یہ بات عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں ہے کہ امریکہ ہمیشہ ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان کی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یکم دسمبر 2009 کو اوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہاپسندوں کے خلاف جدوجہد اُن کی جنگ نہیں...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے...تو یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کےتین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کے لوگ جتنا زیادہ اِن کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔

عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات بھی ہےکہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں،افواج اور لوگوں کو تونشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اورامریکی قونصل خانےحملے اور تباہی سےمحفوظ رہیں ۔ حقیقت پر غور کرنے والےاس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ملک میں امریکہ کے داخل ہونے سے قبل ہم کبھی بھی اس قدر تباہی و بربادی کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی بھی مخلص اور سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان اس قسم کی دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا جو کہ واضح اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے : ((وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ ٱللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً))"اور جو کوئی کسی ایمان والے کو جانتے بوجھتے قتل کرڈالے ، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہےاوراس پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء:93)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان غیر مسلم ذمیوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے کہ جو مسلمانوں کے تحفظ کے تحت ہوں ، اور فرمایا ہے کہ ((أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ ٱللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا)) "جس کسی نے ایسے شخص (اہلِ معاہد) کو قتل کر ڈالا کہ جس کے پاس اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی جانب سے تحفظ کا وعدہ موجود ہو تو اُس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا ہوا وعدہ توڑڈالا ۔ پس ایسا شخص جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکے گا جبکہ اس کی خوشبو ستر سالوں کے سفر کی دُوری سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے"۔(ترمذی)

درحقیقت، پاکستان میں امریکی موجودگی کا ایک اہم مقصد پاکستان بھر میں بم دھماکے اور قتل کروانا ہے۔ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت میں موجود مشرف اور کیانی، اورزرداری و نواز شریف جیسے چند مُٹھی بھر غداروں کی مدد سے امریکہ نے پہلے پاکستان کےدروازےاپنے لیے کھلوائے اور پھر انھیں مسلسل کھلا رکھاگیا تا کہ امریکی فوجی، بلیک واٹر جیسی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے کارندے اور انٹیلی جنس کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک پاکستان میں داخل ہوسکے اور اپنے قدم جما سکے۔ اس قسم کے امریکی نیٹ ورک لاطینی امریکہ سے لے کر مشرق بعید تک افراتفری پھیلانے کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہیں۔ بم دھماکے اور شخصیات کوقتل کروانا اُن کی روز مرہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایجنٹوں کو تیار کر کے مقامی گروہوں میں داخل کرتے ہیں تا کہ آپ کی نگاہوں میں اُس مزاحمت کی قدرو قیمت کو ختم کردیا جائے جو افغانستان میں امریکہ کے قبضے کے خلاف جاری ہے۔ یہ دھوکہ دہی امریکی جنگ کا طرہ امتیاز ہے اور ایسے حملے False flag attacks کے نام سے جانے جاتے ہیں، یعنی خود کاروائی کر کے اس کا الزام دشمن پر ڈال دینا تاکہ اپنی جنگ کےحق میں عوامی حمایت حاصل کی جائے۔

اورامریکہ کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ اس قسم کی گٹھیا اور شیطانی دہشت گردی کی کاروائیاں روک دے ۔ امریکہ 2014 ءکے بعد بھی پاکستان اور افغانستان میں اپنی افواج، انٹیلی جنس اور کرائے کے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ امریکہ اپنی موجودگی کو مزید بڑھا رہا ہے اور اسی لیے وہ اسلام آباد میں ایک قلعہ نما سفارت خانہ تعمیر کررہا ہے، جو دنیا میں امریکہ کا دوسرا بڑاسفارت خانہ ہے۔ دوسری طرف وہ اٖفغانستان میں اپنے لیے 9 اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان اور افغانستان میں ایک لاکھ بیس ہزار نجی سیکورٹی اہلکاروں کی تعینا تی اس کے علاوہ ہے۔ لہٰذا امریکہ پاکستان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا کیونکہ اس امرکے باوجود کہ ہماری قیادت میں اس کے لیے کام کرنے والے غدار موجود ہیں،پھر بھی وہ ہم پر اور ہماری افواج اور انٹیلی جنس اداروں پربھروسہ نہیں کرتاہے۔ امریکہ اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ ہم سب میں اسلامی جذبات مضبوطی سے پیوست ہیں اور ہمارے اندرامریکہ کےظلم وجبرکے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ کافر استعماری طاقتیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ پوری امت خلافت کے قیام کے لیے کھڑی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ شام ، پاکستان اور دیگر اسلامی علاقوں کی یہ صورتِ حال کفار کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ لہٰذا یہ بم دھماکے دوہرا کام کرتے ہیں ،ایک تو امریکہ ان بم دھماکوں کے ذریعے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کے لیے ہماری حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ان بم دھماکوں کو ایک دباؤ کے طور پر استعمال کرتا ہے تا کہ ہم اس کے سامنے سرنگوں ہو جائیں اور وہ امن مذاکرات کے ذریعے مسلم دنیا کی سب سے طاقتور ریاست پاکستان، کی دہلیز پر اپنی موجودگی میں اضافہ کر سکے۔

اے پاکستان کے مسلمانو! ہم اس وقت تک امن کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے جب تک امریکہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہماری قیادت میں موجود غداراپنے آقاؤں کی ہدایت پر ہمیں دھوکہ دینے کے لیے اس صورتحال کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اس کی بنیاد ی وجہ کی طرف انگلی نہیں اٹھاتے، اور یہ بنیادی وجہ ہمارے درمیان امریکہ کی موجودگی ہے۔ آپ جان لیں کہ امریکہ کبھی بھی خود بخودہمارے خطے سے نہیں نکلے گا کیونکہ وہ ہماری سرزمین اور ہمارے وسائل کو اپنا سمجھتا ہے کہ انہیں جیسے چاہے لوُ ٹتا رہے۔ امریکہ کولازماً قوت و طاقت کے ذریعے ہی نکالنا ہو گا۔ جب تک امریکہ کو ہم پر دسترس حاصل رہے گی خواہ وہ ایک فوجی اڈےیاقونصل خانےیاانٹیلی جنس دفتر کی صورت میں ہی ہو، وہ ہمارے درمیان شر اور فساد پھیلاتا رہے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ...إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ)) "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو...اگر وہ کہیں تم پر قابو پالیں تو وہ تمھارے (کھلے)دشمن ہو جائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور خواہش کرنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ" (الممتحنہ:1-2)۔

اے افواجِ پاکستان کے افسران! آپ نے اس اسلامی سرزمین اور اس میں رہنے والوں کی حفاظت کی قسم کھائی ہے ۔ جو صورتحال اب تک بن چکی ہے اور بنتی نظرآرہی ہے وہ اب آپ کی گردن پرہے۔ اب بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا اور بچاؤ عین ممکن ہے۔ پس امریکہ کی جنگ کو اس کے منہ پر دے مارو، اس کے دھوکے اور سازشوں کو ناکام بنا دو، اورپاکستان کی سرزمین کو امریکہ کی نجاست سے پاک کردو۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ حزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لیے نصرت دیں،جو ایک قابل فقیہ اورمدبر سیاست دان عطا بن خلیل ابورَشتہ کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے ۔ اُسی صورت میں آپ کا حرکت میں آنا آپ کے دین کی خواہش کے مطابق ہو گا،اور آپ پاکستان اور اس خطے سے صلیبیوں کی موجودگی کے خاتمے کے لیےحرکت میں آسکیں گےاور ان کے فوجی اڈوں ، انٹیلی جنس دفاتر، قونصل خانوں اور سفارت خانوں کا خاتمہ ہو سکےگا۔ تب ہم سے نفرت کرنے والے یہ دشمن یہ جان لیں گے کہ وہ اس امت کی حقیقت کے متعلق اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈالے ہوئے تھے ۔ حزب التحریر نے خلافت کے قیام کا عَلم بلند کررکھا ہے اور اس کی یہ دعوت آپ کے ہر گوشے میں پہنچ چکی ہے ۔ تو کیا آپ جواب دیں گے؟! ((إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ))"اس میں ہر اس شخص کے لیے عبرت ہے جو سمجھنے والاقلب رکھتا ہو اور وہ متوجہ ہو کر کان لگائے" (ق:37)

 

Read more...

نوا زشریف کا دورہ امریکہ دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور بم دھماکوں کے ہزاروں شہداء کے خون سے غداری ہے

نواز شریف کا دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور ملک بھر میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کی نگرانی میں ہونے والےبم دھماکوں میں شہید ہونے والے ہزاروںشہریوں اور فوجیوں کے خون سے غداری ہے۔ امریکہ پچھلے نو سالوں سے ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اڑا رہا ہے جس میں ہزاروں شہری اذیت ناک موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک ایٹمی قوت کے سربراہ نے کسی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا اورپاکستان میں امریکی راج کو مزید مضبوط کرنے کے لیے امریکہ چلا گیا ۔ اگر وینزویلا جیسا کمزور، امریکہ کا پڑوسی ملک، محض اپنے ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے الزام پر ایک سے زائد بار امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کرچکا ہے اور امریکہ اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت، جن کی نمائندگی نواز شریف اور کیانی کررہے ہیں کیوں امریکہ سے تعلقات منقطع نہیں کرسکتے؟
کیانواز شریف کادورہ امریکہ ایک بار پھر اقتدار کی کرسی پر بیٹھانے کے لیے اوبامہ کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ کچھ اور مقصد رکھتا تھا؟ چودہ سال قبل جب امریکیوں نے یہ دیکھا کہ نواز شریف اب ان کے کام کا نہیں رہا تو اسےتنہا چھوڑ دیا تھا۔ اور بھر جب پاکستان میں امریکی راج کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے پاس اعلیٰ درجے کے غداروں کی قلت ہو گئی تو نواز شریف کو تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر واپس لے آیا! لیکن غیرت سے نہ آشنا نواز شریف خطے میں جاری نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اپنی اب تک کی کارگزاری سے اوبامہ کو آگاہ کرنے اور 2014 تک محدود انخلاء کے ڈرامے کے ذریعے خطے میں امریکہ کی مستقل موجودگی کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے مزید ہدایات وصول کرنے، واشنگٹن، اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گیا ۔ اس بات کا ثبوت کہ یہ دورہ خطے میں جاری امریکی جنگ میں پاکستان کے کردارکو جاری و ساری رکھنے کے لیے تھا، خود اوبامہ نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں یہ کہہ کر دیا کہ "میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان سلامتی کے امور پر ہونے والے تعاون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہوں "۔
پاکستان کے عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی گھوڑے ہیں۔ ہر آنے والا آمر و جمہوری حکمران ہمیں سیاسی و معاشی لحاظ سے مزید امریکی غلامی میں مبتلا کردیتا ہے اور پھرامریکہ کے ہاتھوں سانحہ ایبٹ آباد اور سلالہ جیسے ذلت آمیز واقعات کا سامنا کرنے کے باوجود قوم سے یہ کہتا ہے کہ امریکہ سے تعلقات ناگزیر ہیں۔صرف خلافت ہی پاکستان کو امریکہ کی سیاسی و معاشی غلامی سے اسلام کے مکمل نفاذ کے ذریعے نکالے گی، امریکی سفارت کاروں، فوجیوں اور نجی سیکورٹی اہلکاروں کو ملک بدر، امریکہ سفارت خانے اور قونصل خانے بنداور ملک سے امریکی راج کا خاتمہ کرے گی۔ لہٰذا افواج میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں خلافت کے قیام کو عمل میں لائیں اورحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

ہر قسم کی امریکی امداد زہر قاتل ہے اور اس کا خاتمہ کرنا اس کو جاری رکھنے سے ہزار مرتبہ آسان ہے

امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ساکی( Psaki) نے 10اکتوبر 2013ءکو کہا کہ اگر مصر نے جمہوری منتخب حکومت کے قیام کی طرف قابل ذکر پیش رفت نہ کی تو واشنگٹن مصر کی فوجی اور اقتصادی امداد منجمد کردے گا۔ 10 اکتوبر 2013ءکی پریس کانفرنس کے دوران امریکی عہدیداروں نے بھی اس موضوع کے حوالے سے کچھ کہا، جسے اخبارلاس اینجلس ٹائمز( Los Angeles Times) نے یوں بیان کیا کہ "خطے میں امریکی سیکوریٹی مفادات کالب لباب یہ ہے ،جس میں مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ بھی شامل ہے، کہ امدادکی معطلی یا کمی کے باوجود اس کے مفادات کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہونا چاہیے"۔
تاہم ان امریکی بیانات کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بالآخر مصر کو دی جانے والی اپنی زہریلی امداد کا خاتمہ کررہا ہے۔ بلکہ ان بیانات کا مقصد نئی حکومت کو دھمکانہ ہے کہ وہ امریکی مطالبات کے مطابق عمل کرے تا کہ کوئی بھی عمل امریکہ کی مرضی کے خلاف نہ ہونے پائے۔ جب سے امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی استعماری طاقت کے روپ میں داخل ہوا ہےوہ اقوام کو اپنے استعماری چنگل میں دبوچنے ، ان کو اپنے کنٹرول میں لانے اور اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیےامداد کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔ 2اکتوبر1950ءکو استنبول میں عرب ممالک میں موجود امریکی سفارت کاروں کا ایک اجلاس ہوا تھا،جس کی سربراہی امریکی دفتر خارجہ کا نمائندہ جارج میگی کر رہا تھا،اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ "ملک کے عوام کی مدد کو خطے میں داخل ہونے کے لیے ایک اسلوب کے طور پر اختیار کیا جائے"۔ یہ استعماری کفار کا پرانا طریقہ کار ہے کہ وہ اپنے زہر کو ایسے خوبصورت نام دیتےہیں کہ خطے کے عوام اس کو میٹھا شربت سمجھ کر پی لیں۔
یہ زہریلی امداد جسےوہ "باہمی تعاون" کہتے ہیں ،امریکی پالیسی کا اہم ستون ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ مختلف علاقوں میں مکمل طور پر داخل ہوسکے اور اپنے ایجنٹ پیدا کرسکے اور اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کی دولت کو لوٹ سکے اوروہاں بسنے والے لوگوںکا خون چوس سکے۔ امریکہ نے امداد کے اس طریقہ کار کو انڈونیشیا کو اپنے استعماری چنگل میں دبوچنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ جب سوکارنو نے 1950 کی دہائی میں امریکی امداد لینے سے انکار کیا تو امریکہ مختلف حیلے بہانوں سے اسے اُس وقت تک ڈراتا دھمکاتا رہا جب تک اُس نے اِس امریکی امداد کو قبول نہیں کرلیا۔ اور اس کے بعد امریکی اثرورسوخ انڈونیشیا میں سرایت کر گیا اور آج تک انڈونیشیا امریکی شکنجے سے نکل نہیں سکا۔
لہٰذا ، جسے امریکہ انسانیت کے لیے امداد کہتا ہے وہ اس کی معاشی لغت کے مطابق ایک استعماری منصوبہ ہے جسے وہ اپنے دوستوں کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد یورپ کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے" مارشل منصوبے" کے ذریعے امریکی کمپنیاں کئی یورپی معیشتوں میں گھس گئیں۔ اوردس سال بعد صورتِ حال یہ ہوگئی کہ یورپی معیشت کسی حد تک امریکی کمپنیوں کی ہی ملکیت بن کر رہ گئی۔ اگرچہ گزشتہ سالوں کے دوران اس حقیقت میں کسی قدر کمی آئی ہے لیکن یورپی معیشت پر امریکی کمپنیوں کا اثرو رسوخ آج بھی باقی ہے۔
ایسی کسی بھی قسم کی امداد شیطانی ہے کیونکہ حقیقت یہ بتاتی ہے کہ کافر استعماری ریاستیں خصوصاً امریکہ صرف اور صرف اپنی بالادستی اور اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیے امداد فراہم کرتی ہیں،جس کے ذریعے وہ اپنے مفادات اور یہودی ریاست کے مفادات کے حصول کو یقینی بناتی ہیں۔ چنانچہ وہ مجرمامہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کہ جو امریکہ کی سرپرستی میں یہودی ریاست کے ساتھ کیا گیا تھا ، اسی میں مصر کے لیے یہ امداد بھی طے کی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی ریاست کے عہدیدار بھی مصر کو فراہم کی جانے والی امریکی امداد میں کٹوتی کے اعلان پر فکر مند ہو گئے ہیں کیونکہ یہودی ریاست"مصر کے لیے امریکی امداد کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا ایک اہم ستون سمجھتی ہے"۔ یہ امریکی امداد سرا سر نقصان دہ ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ہے ((لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)) "نہ نقصان اٹھانا ہےاور نہ نقصان پہنچانا ہے"( الحاکم نے اپنی مستدرک میں اس حدیث کوروایت کیاہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی امام مسلم کی شرائط پر پورا اترتے ہیں،اگرچہ مسلم اس کو روایت نہیں کر سکے۔
ایسی امداد کو قبول کرنا اسلام کی رُو سے ایک عظیم جرم ہے کیونکہ اس کے ذریعے کافر استعماری طاقتوں کو یہ موقع فراہم ہوتا ہے کہ وہ معیشت اور سیاست پر اثر انداز ہو کر مسلم علاقوں میں داخل ہوسکیں۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشادفرمایاہے : وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا"اللہ نے کفار کو ایمان والوں پر کوئی راہ(اختیار) نہیں دیا"(النساء:141)۔
یہ تو اس امداد کاایک پہلو تھا۔ جبکہ دوسری طرف یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ مصر کی سالانہ پیداوار(جی۔ڈی۔پی) کے مقابلے میں اس امداد کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ امریکہ کی سالانہ 1.5ارب ڈالر کی امداد مصر کی کُل سالانہ قومی پیداوار کے0.3فیصد سے زیادہ نہیں ہے، اور یہ بتانے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں کہ اس امداد کی اُس دولت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں جو مصر اپنے تیل ، گیس اورمعدنیات کے ذخائراور نہر سوئز میں سے گزرنے والی ٹریفک سے حاصل کر سکتا ہے۔ نہر سوئز سے گزرنے والے بحری جہازوں پر عائد ٹیکس میں معمولی سا اضافہ ہی اس امداد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ رقم مہیا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہودی ریاست کو فراہم کی جانے والی گیس کی فراہمی کو بند کر کے آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ گیس یہودی ریاست کو انتہائی معمولی قیمت پر فراہم کی جارہی ہے۔ اس گیس کو عالمی مارکیٹ کی قیمت کے مطابق فروخت کرنے پر اس امداد سے کئی گنا زیادہ رقم حاصل ہوجائے گی۔ اور مسلمان ویسے بھی یہودی ریاست کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں، جس نے اسراء ومعراج کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ شرعاًیہ بات ہرگز جائز نہیں کہ یہودی وجود کے ساتھ کسی بھی حوالے سے پر امن تعلقات کو قائم کیا جائے ،خواہ یہ سیاسی تعلقات ہوں یا معاشی۔
جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے جنھیں خوب پھیلایا گیا ہے کہ اگر مصر اس امداد سے محروم ہو گیا تو وہ معاشی بحران اور غربت کا شکار ہو جائے گا، تو یہ ایک کمزور اور بودی بات ہے۔ مسلم ممالک کی غربت ایک مصنوعی غربت ہے جس کی وجہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں اورامت کے امور کے متعلق فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ امت کی دولت اور اثاثوں کو بدعنوانی کی نظر کردیتے ہیں، جو ملک اور اس کے عوام کے لیے شدید معاشی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ بجائے یہ کہ عوامی اثاثوں کو امت پر خرچ کیا جائے ، جو کہ امت کا حق ہے، ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی دولت بڑے بڑے مگرمچھوں کے بینک اکاؤنٹوں میں خاموشی سے اور کھلے عام منتقل ہو جاتی ہے،خواہ یہ اکاونٹ اندرونِ ملک ہوں یا بیرونِ ملک۔ پھر امریکی زہریلی امداد کے ذریعے ملک کو عالمی بینک اور آئی.ایم.ایف کے شکنجوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ہے مسلم ممالک میں غربت کی اصل وجہ جبکہ اللہ نےااس امت کو اتنے وسائل عطا کر رکھے ہیں کہ جو اس کی ضرورت سے بھی زیادہ ہیں، بشرطیکہ ان وسائل کو ویسے ہی استعمال کیا جائے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔
اے مصر کے مسلمانو! آپ پر لازم ہے کہ آپ اس امداد کو مسترد کردیں بجائےیہ کہ امریکہ اس کی معطلی کی دھمکی آپ کو دے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ اس زہریلی امداد کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ امداد کو مسترد کردینا امریکہ اور یہودی ریاست کے لیے ایک تباہ کن جواب ہوگا ۔ یہ وہ کام ہے جس میں ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اس کے لیے ہمیں انتہائی شدید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا جواب یہ ہونا چاہیے کہ اُن کے زہر کو اُن کے ہی منہ پر دے مارو ، نہ کہ ہمارا موقف وہ ہوکہ جو مصر کی وزارت خارجہ کے ترجمان بدر عبدالعاطي نے کہا کہ "(امریکہ کا) یہ فیصلہ اپنے وقت اور مواد کے حوالے سے نامناسب ہے"۔ اوراس نے مزید کہا کہ "مصر امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کو جاری رکھنا چاہتا ہے"۔
یہ "جنرل سیسی بغاوت" کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس امداد کو اپنے آقاؤں کے منہ پر دے مارے اور امریکی زہر کو خود اس کے گلے میں انڈھیل دے تا کہ وہ یہ جان لیں کہ مصر کی سرزمین کے لوگ طاقت اور عزت کے لیے صرف اپنے رب کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بغاوت ایسا کرنے سے کوسوں دور ہے بلکہ یہ تو اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، تا کہ لوگ صرف وہی دیکھیں اور سنیں جو یہ دکھانا اور سنانا چاہتے ہیں، جیسا کہ اس سے قبل فرعون نے کہا تھا : قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى" فرعون نے کہا میں تو تمھیں وہی بتارہا ہوں جو میں خود دیکھ رہا ہوں "(غافر:29)۔ ایک ایسی جان کا قتل جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ، قاتل کو اس دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں برباد کردے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ(حج) کے دن لوگوں سے کہا تھاکہ ((إِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا))" تمھارا خون، تمھاری دولت، تمھاری عزت ایک دوسرے کے لیے ویسے ہی حرمت والی ہے جیسا کہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ شہر"(بخاری)۔ جس کسی نے بھی کسی جان کو ناحق قتل کیا ، اُس نے اِس دین اور امت کے خلاف جرم کیا اور اس کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے : سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ "وہ وقت قریب ہے جب یہ مجرم اپنی مکاریو ں کی پاداش میں الله کے ہاں ذلت اور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے" (الانعام :124)۔ یہ تو وہ کچھ ہے جو پہلے گزرے ہوئے ظالموں کے ساتھ ہو گا،اور عقل مند وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ پیش آئے حالات سے سبق لے۔
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْأَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَشَهِيدٌ
"اس میں ہر اس کے لیے عبرت ہے جس کے پاس سمجھنے والا قلب ہواوروہ متوجہ ہو کر کان لگائے"(ق:37)

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک