السبت، 26 صَفر 1446| 2024/08/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

شام کےجابر اور امریکی ایجنٹ بشار الاسد کی جانب سے شام کے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے کیمیائی حملے کے خلاف حزب التحریر کے مظاہرے

آج حزب التحریر نے ڈھاکہ، چٹاگانگ اور سلہٹ کی مساجد کے سامنے مظاہرے کیے ۔ یہ مظاہرے شام کے جابر اور امریکی ایجنٹ بشار الاسد کی جانب سے شام کے مسلمانوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف کیے گئے۔ مظاہروں میں مقررین نے ظالم بشار حکومت کی مسلمانوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کی شدید مذمت کی۔ انھوں نے نام نہاد بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ اور روس کی بشار حکومت کو فراہم کی جانے والی مددو وحمائت پر روشنی ڈالی اور اس کی مذمت کی۔ یہی وہ حکومتیں ہیں جنھوں نے بشار کو مسلمانوں کے خلاف اس قدر ظالمانہ اقدامات اٹھانے کی اجازت دی تا کہ شام کے مسلمانوں کی اس اسلامی مزاحمت کو ختم کیا جاسکے جس کے ذریعے وہ خلافت کا قیام چاہتے ہیں۔
مقررین نے اسلامی افواج سے مطالبہ کیا کہ وہ بشار کے خلاف حرکت میں آئیں۔ انھوں نے بنگلادیش کی فوج سے بھی یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس عظیم سعادت کے حصول کے لیے سب سے پہلے حرکت میں آئیں تا کہ دنیا اور آخرت کی عزت حاصل کرسکیں ،جبکہ اقوام متحدہ کے لیے فوجی خدمات انجام دینے کے عوض انھیں"امریکہ اور مغرب کے کرائے کے فوجی" کے ذلت آمیز خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ آخر میں مقررین نے اللہ سبحانہ و تعالی سے یہ دعا کی کہ وہ شام میں مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائے اور بشار اور اس کے آقاؤں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرے۔
مظاہروں کے اختتام پر حزب التحریر کے اراکین اورحامیوں نے حزب التحریر ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ ہشام البابا کی مندرجہ ذیل پریس ریلز بھی تقسیم کی جس کا عنوان یہ ہے:
دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے قتل عام کے بارے میں پریس ریلیز
کیا امت کے شرفا کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ وہ اہل شام کی مدد کے لیے حرکت میں آئیں!!

ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...

شام کا نکمابشارالاسدبھی کیا عجوبہ ہے: ڈولتی ہوئی کرسی پر کچھ دیر اور بیٹھے رہنے کے بدلے میں اپنے دین، اپنے لوگوں، اپنے اسلحے اورمتاع کوبیچ رہا ہے!

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی غرض سے ان ہتھیاروں کوبین الاقوامی نگرانی میں دینے کا مطالبہ ڈرامے کی قسطوں کی طرح منظر عام پر آرہا ہے۔ اس کی ابتدا 9ستمبر2013کو جان کیری کی اپنے برطانوی ہم منصب کے ساتھ لندن میں پریس کانفرنس کے دوران اس بیان سے ہوئی کہ بشار کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ بین الاقوامی برادری کے حوالے کر کے عسکری حملے سے بچ سکتا ہے۔ اسی کے تھوڑی دیر کے بعد روس کے لاروف نے کہا کہ اس نے جان کیری کی تجویز سن لی ہے اور عنقریب روس شام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے تقریبا ایک گھنٹے کےبعدشام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نےماسکو میں صحافیوں کے سامنے کھڑے ہو کر شام کے سرکش کی حکومت کی طرف سے اس تجویز کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اوراس کے چند گھنٹے بعد10ستمبر 2013 کوفرانسیسی وزیر خارجہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اس موضوع کے حوالے سے ایک منصوبہ سلامتی کونسل میں پیش کرے گا۔ ساتھ ہی برطانیہ سے لے کر جرمنی اور چین تک، کئی ممالک شام کے کیمیائی اسلحے کو تباہ کرنے کی حمایت کرنے لگے۔ حتی کہ ایران نے بھی اسے خوش آئند قرار دیا۔ یہ سب ان ممالک پر امریکہ کی بالادستی کو بے نقاب کر تا ہے!
اس تمام کے بعد سرکش بشار نےاس اسلحے کو تباہ کرکےراکھ کا ڈھیر بنا نے کی حامی بھری، جس کی قیمت امت نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کی تھی۔ رہی بات اس بہانے کی کہ جس کا ذکر شامی وزیر خارجہ معلم نے ماسکو میں کیا کہ شام اپنے لوگوں کا خون بہانے سے بچنے اور امریکی عسکری حملے کو روکنے کے لیے یہ تجویز قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ تو یہ سب جھوٹ ہے،کیونکہ اس کا آقا اور اس کے غنڈے تو پہلے ہی بے حساب خون بہا چکے ہیں،لوگوں کی عزتوں کو پامال کر چکے ہیں،ہزاروں کو گرفتار اور لاکھوں کو جلاوطن کر چکے ہیں،لوگوں پر ہوائی جہازوں اور میزائلوں کے ذریعے جلاکر راکھ کردینے والے مواد کے ڈرم گراچکے ہیں۔ اور اس تمام کے بعدوہ اُن کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے بھی شام کے لوگوں کو بے دریغ قتل کر چکے ہیں،کہ جن ہتھیاروںکی قیمت انہی لوگوں نے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اس لیے ادا کی تھا کہ دشمن سے ان کی حفاظت ہو سکے ۔ لیکن یہ ہتھیاردشمن کے لیے توامن اور سلامتی بنے رہے اور ان کے اپنے لیے ایسی آگ ثابت ہوئے کہ جس نے ان کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اوریہ کہنا بھی محض جھوٹ ہے کہ عسکری حملے سے بچنے کے لیے ایسا کیا جارہا ہے کیونکہ ان ہتھیاروں کو ضائع کرنے کے بعد عسکر ی مداخلت تو زیادہ آسان ہو گی کیونکہ طاقتور پر حملہ نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اگر امریکہ نے شام پر حملہ کر نے کا فیصلہ کر لیا تو اس کا پالتو بشارالاسدمخالفت کی جرات نہیں کر سکتا،بلکہ وہ امریکہ کی مرضی کے بغیرروتے ہوئے آواز کو بھی بلند نہیں کر سکتا! سرکش بشارکیمیائی اسلحے کے ذخائر کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نگرانی میں دینے کی حامی بھر کر شام کی سر زمین کی پامالی کی راہ ہموار کر رہا ہے،کیونکہ اس کے بعد ان ذخائر کے مقامات کے تعین کے لیے تفتیش کار وں کی اۤمد کا سلسلہ شروع ہو گا اور اس کے لیے امریکی اور مغربی افواج کی ضرورت پڑے گی،یوں سرکش بشارکی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کو حوالے کر نا امریکی مداخلت کو نہیں روکے گا۔
اے مسلمانو: حافظ الاسداور بشار کا خاندان تقریبا نصف صدی سےامریکہ کی خدمت کر رہے ہیں،انہوں نے خطے میں امریکہ کے مفادات کی حفاظت کی اور یہودی ریاست کے سیکیورٹی گارڈ بنے رہے۔ اورجب لوگ اِس سرکش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہی سرکش بشارکو لوگوں کےقتل اور پکڑ دھکڑ کے وسائل مہیا کیے تاکہ وہ ان کو کچل سکے، لیکن بشارایسا نہ کر سکا۔ تب بشارکے آقاؤں نے سوچا کہ اس کا متبادل اسی جیسا خائن ایجنٹ لایا جائے جس کے لیے انہوں نے شامی قومی اتحاد اور قومی کونسل تیار کی۔ پھر اندرونی طور پر لوگوں کے سامنے ان کی مارکیٹنگ میں سردھڑ کی بازی لگادی لیکن وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکے،کیونکہ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ''یہ (انقلاب)صرف اللہ کے لیے ہے،یہ(انقلاب)صرف اللہ کے لیے ہے"، ''ہمارے ابدی قائد اللہ کے رسول محمد ﷺ ہیں" ان نعروں اور فلک شگاف تکبیروں نے ان کی نیندیں حرام کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام کے سرکش حکمران بشار اور اس کے کارندوں کو قتل اور پکڑ دھکڑ کے لیے مہلت پہ مہلت دی۔ جبکہ شام سے باہر ان طاقتوں کے پالے ہوؤں نےلوگوں کو جمہوریت اورسِول عوامی حکومت کے لیے قائل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کی،لیکن نامراد ہو کر الٹے پاؤں لوٹ گئے۔
اس کے بعد امریکہ عسکری کاروائی کرنے کے لیے طبل بجانے لگا، جس کا مقصد جنیوا 2 مذاکرات میں متبادل ایجنٹ حکومت کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ لیکن امریکہ عسکری کاروائی کے لیے مہلت پہ مہلت دیتا رہا تاکہ اس بات کا اطمنالن کیا جاسکے کہ حملے کے نتیجے میں سب کو عسکری دباؤ کے زیر سایہ جنیوا جانے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اسی لیے اوباما کبھی بندوق ہاتھ میں اٹھاتا ہے اور کبھی اس کو زمین پر پھینکتانظر آرہا ہے۔ کبھی کہتا کہ میں نے فیصلہ کر لیا، کبھی کہتا کہ مجھے کانگریس کا انتظار ہے۔ اس دوران وہ اس حملے کے ممکنہ نتائج کابھی جائزہ لیتا رہا کہ کیا یہ حملہ جنیوا مذکرات اور متبادل ایجنٹ مسلط کر نے پر مجبور کر سکتا ہے یا نہیں، اوراگر نہیں کرسکتا تو کیااس کو نافذ کرنے کے لیے مزید مہلت دی جائے؟
لیکن شام کی سرزمین پر مسلمانوں کی تکبیروں نے سرکش بشارکے ساتھ مذکرات کے لیے جنیوا جانے کے امکان کو ختم کر دیا، کیونکہ جو بھی سرکش یا اس کے ہر کاروں کے ساتھ بیٹھے گا وہ بدنامِ زمانہ غدارابورغال کے نقشِ قدم پر چلے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دیکھ لیا کہ اس حملے کے نتیجے میں جنیوا مذاکرات تک پہنچنا مشکوک ہے،لہٰذا مزید وقت اور مزید دباؤ کی ضرورت ہے۔ امریکی مشکل وقت میں مہلت سے کام لینے کے عادی ہیں،چنانچہ وہ یہاں بھی اسی پر مجبور ہیں،کانگریس اور پارلیمنٹ میں بحث کو طول دے رہے ہیں اور ووٹنگ کو اس انتظار میں موخر کر رہے ہیں کہ لوگ قتل و غارت،پکڑ دھکڑ اور عسکری مداخلت کے خوف سے سرکش کے ساتھ مذکرات کے لیے جنیوا جانے پر راضی ہو جائیں۔ کیونکہ حملہ بذات خود مقصود نہیں،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے بعد جنیوا مذکرات میں متبادل ایجنٹ کی حکومت کو مسلط کیا جاسکے۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے ایجنٹ تیار کر نے سے قبل شام میں وہ مخلص مسلمان اقتدار حاصل کرلیں گے ، جوکفار کے آلہ کار اور مددگار بننے کے لیے تیار نہیں،اورجو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطے سے مار بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے ان کی لے پالک یہودی ریاست کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہوجائیں گے، بلکہ اس کے وجود کو ہی صفحہ ہستی سے مٹانا ان مخلص مسلمانوں کا ہدف ہو گا۔ اس وجہ سے ان کفارکے شیطانی ذہن نے یہ منصوبہ بنایا کہ اس طاقت ور اسلحے کو ہی تباہ کردیا جائے جو یہودی وجود کی سیکیورٹی کو متاثر کر سکتا ہے،خاص طور پر جب ان کو معلوم ہے کہ ان کا پالتوبشار ان کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتا،بلکہ ان کے کسی اشارے کو بھی رد نہیں کر سکتا۔ اسی لیے یہ ڈرامہ قسط در قسط منظر عام پر آرہا ہے جس کا پروڈیوسر امریکہ ،اور"کامیڈین"روس ہے جبکہ "قربانی کا بکرا" امت کا خائن شام کا سرکش بشارہے۔
اے مسلمانو! کانٹوں کی سیج جواں مردوں کے لیے ہی ہوتی ہے،کیا ان مصائب سے بڑھ کر بھی کوئی مصیبت ہو سکتی ہےکہ جنہیں تم برداشت کر چکے ہو؟! تم تواُس امت سےتعلق رکھتے ہو جو غفلت میں نہیں پڑی رہتی،وہ امت جس نے صلیبیوں کو شکست سے دوچار کیا اور تاتاریوں کا صفایا کیا۔ یہ اس وقت ہوا کہ جب دشمنوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ یہ ختم ہو چکی ہے،لیکن یہ امت اپنے سرچشمے کی طرف لوٹ اۤئی،اپنے دین اور اپنی خلافت کی طرف اور اس کے بعد پھر دنیا کی قیادت سنبھال لی،تب دشمن کو یہ پتہ چل گیا کہ اس کا گمان محض ایک پراگندہ خواب تھا۔ اس لیے آج بھی تم اپنی قوت کے اسباب کی طرف لوٹ آؤ،اپنے دین اور اپنی خلافت کی طرف۔ کمر کس لو! اے بصیرت رکھنے والو! عبرت حاصل کرو،جان لو کہ مصیبت آتی ہے تو اکیلے سرکش ظالموں پر نہیں آتی بلکہ ظلم پر خاموش رہنے والے بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے﴿وَاتَّقُوا فتنَةً لَاتُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾"اس مصیبت سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی اپنے لپیٹ میں نہیں لے گی،اور جان لو کہ اللہ سخت سزادینے والاہے"۔ اورامام احمد نے اپنے مسند میں مجاہد سے نقل کیا ہے کہ:ہمارے مولیٰ(آزاد کردہ غلام )نے روایت کیا کہ اس نے میرے دادا سے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:(ان اللہ لا یعذب العامۃ بعمل الخاصۃ، حَتَّى یرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ،وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ ينُكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فاذا فعلوا ذلک عذب اللہ الخاصۃ والعامۃ)"بے شک اللہ تعالیٰ خواص کے عمل کی وجہ سے عوام کو عذاب نہیں دیتا،یہاں تک کہ وہ اپنے سامنے منکر کو ہوتادیکھیں ،اور وہ اس کا انکار کرنے پر قادر بھی ہوں لیکن انکار نہ کریں ،جب وہ ایسا کریں تو اللہ عوام وخواص دونوں کو عذاب دیتا ہے"۔ اسے ابن ابی شیبہ نے بھی اسی طرح اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔
اے مسلمانو! یہ یقینا ایک المیہ ہے کہ ہمارے اسلحے کو طاغوتی حکمرانوں کی رضامندی سے تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ امت زمین میں فساد برپا کرنے والے اور ہر سیاہ وسفید کو تباہ کرنے والے ان طاغوتی حکمرانوں کو ہٹا نے کے لیے اپنی افواج پر دباؤ نہیں ڈالتی۔ یہ بھی انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنا خون بہتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اسے روکتے نہیں،اپنے اسلحے کو تباہ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اوراس کی حفاظت نہیں کرتے،اپنی دولت کو لٹتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن اس کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو کاٹتے نہیں،ہم اپنے علاقوں کو گھٹتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن اس کوروکتے نہیں،عزتوں کو پامال ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور ہماری رگوں میں موجود خون نہیں کھولتا۔
اپنے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنی امت کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنی خلافت کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنے اسلحے کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ ان سب کو دانتوں سے پکڑو۔ خلیفہ جو کہ ڈھال ہو تا ہے، کی قیادت میں اپنے دین کی مدد اور اپنے دشمن کو شکست دینے کے لیے تیار ہو جاؤ،اسی کی قیادت میں لڑو،تم اسی کے ذریعے محفوظ ہو گے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو اپنی شان وشوکت کو بحال کرو گے اور دنیا وآخرت کی کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ اوراگر تم نے ایسا نہ کیا تو دشمن نہ صرف تمہارے اسلحے کوتمہارے ہی ہاتھوں تباہ کرے گا بلکہ تم اس کو اپنے گھروں میں گھسنے کی دعوت خو ددو گے۔ اوراس وقت تمہاری نجات کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا!
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴾"بے شک اس میں اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو دل رکھتا ہے یاسنتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے"

Read more...

شام اور مصر میں امریکی جرائم پر مذمتی جلسہ اللہ کے فضل سے اختتام کو پہنچا "ہمارا اسلام نہ کہ ان کی جمہوریت"  

اللہ کے فضل و کرم سے حزب التحریر ولایہ اردن کی جانب سے شام میں امریکی مداخلت اور اپنے ایجنٹ بشار اور مصر میں اپنے ایجنٹوں کے جرائم کی پردہ پوشی کی مذمت کے سلسلے میں منعقد کیا جانے والا جلسہ کامیابی سے اختتام کو پہنچا۔اس جلسے میں شرکت کے لیے شام کی سرزمین اردن کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے حزب کی دعوت پر لبیک کہا اورانتہائی گرم موسم کےباوجود جلسے میں بہت بڑہ تعداد میں شرکت کی۔

جلسے کا افتتاح قرآن حکیم کی تلاوت سے کیا گیا۔پھر حزب التحریر ولایہ اردن کے میڈیا آفس کے انچارج محمود قطیشات نے ابتدائی کلمات کہے،جس میں انہوں نے کفار کی طرف جھکاؤ اور ان پر اعتماد کرنے کے بارے میں محتاط رہنے پر گفتگوں کرتے ہوئے کہاکہ " یہی امریکہ اور کافر ممالک پسے پردہ خود اور اپنے ایجنٹوں اور کارندوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ صلیبی جنگ میں مصروف ہیں۔وہ افغانستان،پاکستان اور یمن میں اپنے اسلحے اور ڈرونز کے ذریعے مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور شام کی سرزمین پر اپنے ایجنٹ سرکش بشار کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اوراس کو جینے کے اسباب مہیا کر رہا ہے۔ یہی مصر میں اپنے ایجنٹ سرکش السیسی کے ذریعے رابعہ ، النہضہ میں،سڑکوں اور مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کروارہےہیں "۔انہوں نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو خبردار کیا کہ مشرقی یا مغربی کافروں کو کسی بھی بہانے اپنے اندرونی معاملات میں سیاسی یا عسکری مداخلت کی اجازت نہ دیں کیونکہ یہ کام اللہ،اس کے رسول اور مؤمنوں سے خیانت ہے۔انہوں نے مسلمانوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس پر آشوب دور سے نکلنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو اتار پھینکنے ، اسلام کے اقتدار کو واپس لانے اوراس ریاست خلافت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر یں جو امریکہ اور ان ممالک کے ہاتھ کاٹ دے گی جو اسلامی سرزمین میں دراندازی کی جسارت کریں گے۔

استاد بلال القصراوی نے بھی خطاب کیا اور شام میں میں سفاک بشار کی پشت پناہی اور شام کے انقلابی تحریک کے خلاف سازشیں کرنے کے بارے میں امریکہ کے کردار کو بے نقاب کیا۔انہوں نے شام کے مخلص انقلابیوں کو داد دی اور یہ کہا کہ شام کے مخلص انقلابی کبھی بھی اپنے انقلاب کا رخ موڑنے کی امریکی کوششوں کو کامیاب ہو نے نہیں دیں گے اوروہ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرے ایجنٹ کو قبول نہیں کریں گے۔اس کے بعد استاد ابو بکرالفقہاء نے بھی خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو کفار پر انحصار کرنے سے خبردار کیا اورشام اور مصر کے اسلامی تحریکوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دین کے کسی بھی جزء سے پیچھے ہٹھنے کو قبول نہ کریں اورآپ کا مقصد کسی صدر کو برطرف کر کے کسی اور کو اس کی کرسی پر برجمان کرنا نہیں،بلکہ آپ کا نصب العین ریاست خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالی کے دین کو نافذ کرنا ہونا چاہیے۔

جلسے میں زبردست نعرے بھی لگائے گئے جن میں سے کچھ یہ ہیں،"شام کے انقلابی کہتے ہیں کہ ہم اپنے دین کو تمہاری جمہوریت سے نہیں بدلیں گے"،"کب تک شام اور مصر میں ہمارا خون مغرب کے لیے قربان ہوتا رہے گا"،"انہوں نے یہ کہہ کر جھوٹ بولا کہ :جمہوریت حل ہے جس کا شاخسانہ رابعہ العدویہ تھا!" اور"تماری مداخلت دشمنی ہےاور تمہارے مددگاروں کو بچانے کے لیے ہے"۔ علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس جلسے کو انتہائی درجے کے سیکیوریٹی کے باوجود کیوریج دی اوربہت سے ذرائع ابلاغ کے اداروں نے میڈیا آفس کے سربراہ اور دوسرے شرکا کا انٹر ویو بھی کیا۔

 

 

میڈیا آفس حزب التحریر
ولایہ اردن

 

Read more...

سوال و جواب :  مصر میں جاری واقعات

 

سوال:مصر میں جاری واقعات کو دیکھ کر میں پریشان ہو گیا ہوں اور معاملات میرے سامنے غیر واضح ہیں:
1 ۔ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ مصر میں عملی بالادستی امریکہ کو حاصل ہے،پھر سعودی عرب،امارات اور کویت کیوں مصر کی نئی حکومت کی مالی مدد کررہے ہیں کیونکہ یہ ممالک برطانیہ کے زیر اثرہیں؟
2 ۔ امارات نے مالی میں بھی فرانس کی حمایت کی اور مالی کو بھی معاشی امداد دی ،حالانکہ مالی میں بالادستی برطانیہ کو حاصل نہیں؟
3 ۔ اسی طرح ہم نے امارات کے ٹی وی چینل العربیہ اور قظر کے ٹی وی چینل الجزیرہ کے موقف میں تضاد کا مشاہدہ کیا باوجود اس کے کہ قطر اور امارات دونوں انگریز ہی کے ایجنٹ ہیں،کیا یہ کہنا مناسب ہے کہ قطر میں حالیہ تبدیلی نے یہاں برطانوی پالیسی کو متاثر کیا؟
4 ۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ شامی اتحاد میں موجود سعودی نواز مثال کے طور پر الجربا کا قطر نواز افراد کے مقابلے میں فعال کردار ہے ،کیا شام میں رونما ہونے والے واقعات میں قطرنواز افراد کمزور ہوگئے اور سعودی نواز مضبوط ہوگئے؟
5 ۔ آ خر میں کیا امریکہ نے مرسی کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ کر نام نہاد ''اعتدال پسند"اسلام کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے کے نظرئیے سے دستبردار ہو گیاہے؟مجھے امید ہے کہ اس سوال کی طوالت پر آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے اللہ آپ کو جزائے خیر دے،اس کی طولت اور کثرت پر میں پہلے ہی معذرت خواہ ہوں،لیکن ہمیں اپنے امیر کی وسعت علمی کے ساتھ ان کے فراخ دلی کا بھی ادراک ہے،ممکن ہے کہ ان کے جواب سے ہماری تشنگی دور ہو اور ہمارے دل ٹھنڈے ہوں۔

جواب:میرے بھائی یہ سوال نہیں بلکہ سوالات کی ایک ''گھٹڑی" ہے!!بہر حال مختصر جواب پیش خدمت ہے جو ان شاء اللہ آپ کو پریشان نہیں کرے گا:
برطانوی پالیسی کے کچھ خطوط(ھیڈ لائینز)ہیں جن کو جان کر جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں:
1 ۔ موجودہ وقت میں برطانیہ اعلانیہ طور پر امریکہ کے مد مقابل آنے کی جرات نہیں کر سکتا ، بلکہ ایسا ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بھی امریکہ ہی کے صف میں ہے،لیکن پس پردہ اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے ایسا لائحہ عمل مرتب کر کے جو بظاہر کچھ اور نظر آتا ہے امریکی پالیسیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
2 ۔ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کو اکثر ایسا کردار دیتا ہے جس سے بظاہر ایسا نظر آئے کے وہ بھی اسی سمت جارہے ہیں جس طرف امریکہ گامزن ہے تاکہ اس کے ساتھ کوئی تصادم نہ ہو،چنانچہ سیاسی بیداری سے محروم شخص کے لیے اردن کا امریکہ کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ وہ بھی امریکہ ہی کے صف میں ہے،حالانکہ اردن برطانوی سیاست کا بنیادی رکن ہے،یہی حال امارات اور دوسرے ایجنٹوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگر برطانیہ اپنے بعض ایجنٹوں کو بعض دفعہ امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کی اجازت دیتا ہے ،یہ دوسرے ایجنٹوں سے مختفج کردار ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کے مختلف ایجنٹوں کا مختلف کردار ہو تا ہے:ان میں سے اکثر بظاہر امریکہ کے سامنے مسکراتے ہیں اور پیار کا اظہار کرتے ہیں اور پس پردہ اپنے آقا برطانیہ کے طرز پر اس کو تنگ کرتے رہتے ہیں،ان میں سے بہت کم کا کردار واضح طور پر امریکہ کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
3 ۔ برطانیہ امریکہ کی پالیسیوں کا سامنا کر نے کے لیے فرانس کا سہارا لیتا ہے جو کہ یورپی خصوصا برطانیہ اور فرانس کی پالیسی کے ضمن میں ہو تا ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ برطانیہ انتہائی خباثت سے نرم ونازک انداز سے امریکہ کو دھوکہ دیتا ہے جبکہ فرانس چلاتا اور چنگاڑ تا ہے۔۔۔۔۔اکثر وبیشتر برطانیہ فرانس کے پشت پر اپنی پالیسی کو عملی جامہ پہنا تا ہے !مشہور مثل ہے کہ ''برطانیہ آخری فرانسیسی سپاہی تک لڑے گا"اگر چہ یہ پرانے زمانے کی بات ہے لیکن اس کا اثر اب بھی کسی حد تک ہے۔
4 ۔ سعودیہ میں حکومت کے سربراہ اگرچہ عبداللہ ہے جو کہ برطانیہ پیروکار ہے لیکن بعض شہزادوں پر امریکہ کا اثر ہے اسی اثر کی وجہ سے اس کی پالیسوں کے لیے راہ ہموار ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کی روشنی آپ کے سوالات کے جوابات کی وضاحت ممکن ہے:
ا۔ جہاں تک قطر کا تعلق ہے اس کے سابق امیر نے وزیر خارجہ سے مل کر قطرکو خلیج میں برطانیہ کی توجہ کا مرکز بنانے میں کا میاب ہوگیا،یہی سے اس نے مختلف ملکوں میں دو موثر وسیلوں سے مداخلت شروع کردی:میڈیا''الجزیرہ" اورمال''پٹرول"سے۔۔۔۔۔۔یوں اس کی سرگرمیاں شام اور فلسطین حتی کہ مصر وغیرہ میں امریکی پالیسی کو ڈسٹرب کرنے میں موثر ثابت ہوئیں۔۔۔۔امریکہ کا پریشان ہونا برطانیہ سے پوشیدہ نہیں تھا،چونکہ برطانیہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ امریکہ کو تنگ نہیں کر رہا اسی لیے اس نے امیر کو تبدیل کرنے کی حامی بھر لی،لیکن اس کا متبادل کسی اور کو نہیں اس کے بیٹے کو لایا گیا ،یعنی برطانوی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی،لیکن اس بیٹے کو امریکہ کو تنگ کرنے میں اپنے والد کی طرح موثر ثابت ہو نے کے لیے وقت درکار ہے،اس تبدیلی کے ذریعے برطانیہ نے امریکہ کی پریشانی کو کم کردیا ۔۔۔۔۔یعنی جو کچھ ہوا یہ امریکہ کو راضی کرنے کا برطانوی اسلوب تھا جو کہ صرف ظاہری ہے جس میں امریکہ کو کچھ حاصل بھی نہیں ہوا!
ب ۔ اس تبدیلی کے ساتھ قطر کا کردار تھوڑا پوشیدہ ہو گیا کیونکہ نئی حکو مت کے کارندے سیاسی داوپیچ میں پرانی حکومت کے کارندوں سے کم تجربہ کار ہیں،تاہم قطر بدستور برطانوی سیاست کے زیر اثر ہے اس لیے خفیہ اور خبیث انداز سے کام کرتا ہے،اس کا اعلانیہ کردار گزشتہ دور سےکم فعال ہے،یہی وجہ ہے کہ شام میں بھی اس کے کارندوں کی چستی پرانوں کے مقابلے میں کم ہے۔
ج ۔ جہاں تک سعودی نوازوں کا تعلق ہے تو وہ زیادہ فعال ہیں اور امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ سعودی بادشاہ کی وفاداری برطانیہ کے لیے ہے اور امریکہ بھی شاہی خاندان میں بعض شہزادوں کو استعمال کرتے ہوئے جانفشانی سے تگ ودو کر رہا ہے۔
رہی بات الجربا کی تو اگر چہ یہ سعودیہ کا مقرب ہے لیکن یہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے،سعودیہ چاہے اس کی کتنی ہی حمایت کرے یہ امریکہ کی اطاعت سے منہ نہیں موڑ سکتا،یہ اتحا د مکمل طور پر امریکہ کا بنا یا ہوا ہے،اس لیے یہ اسی شخص کی سربراہی میں ہی آگے بڑے گا جو امریکہ کی کٹ پتلی ہو۔
د ۔ جہاں تک مالی اور امارات کی معاشی امداد کا تعلق ہے ۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ ہی مالی میں رونما ہونے والی پہلی تبدیلی کا پشت بان تھا جو 22/03/2012 کو واقع ہوئی،یہ فرانس کے لیے کاری ضرب تھی،اسی لیے فرانس نے انتہائی جانفشانی اور محنت سے اپنے اثرورسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش شروع کردی۔برطانیہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ مالی میں اس کا کوئی اثرورسوخ نہیں بلکہ یہا ںفرانس کو بالادستی حاصل ہے اور امریکہ مزاحمت کر رہا ہے۔رسہ کشی امریکہ اور فرانس کے درمیان ہو تو برطانیہ فطری طور پر فرانس کا معاون ہوتا ہے۔امارات کی جانب سے مالی کی معاشی مدد بھی برطانیہ کی جانب سے فرانس کی مدد کے تناظر میں ہے۔
ھ ۔ رہی بات مصر میں جو کچھ ہوا اس حوالے سے امارات کے وفد اور اردن کے بادشاہ کی جانب سے مصرکا دورہ کرنے کی شکل میں برطانوی موقف کی تفسیر کی اور برطانوی ایجنٹوں کی جانب سے مصر کی مالی امداد کی تو یہ بھی مذکورہ بالا خطوط (ھیڈلائنز)سے باہر نہیں۔۔۔۔۔جہاں تک امارات اور قطر کے کردار کے تضاد سے پیدا ہونے والے التباس کا تعلق ہے تو یہ برطانوی پالیسی کے مطابق کرداروں کی تقسیم ہے،مصر کے واقعات کے نتائج کے انتظار میں ایک قریب ہوتا ہے تو دوسرا دور جاتا ہے۔۔۔۔۔امارات کی جانب سے مبارک حکومت کے عناصر کی میزبانی بھی ان خطوط سے ہٹ کر نہیں۔مبارک کے آدمیوں کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی توقع بھی امارات کے ذریعے برطانوی پالیسی کاایک راستہ ہو گا اگر چہ یہ راستہ تنگ ہوگالیکن یہ بھی اچھا جواب دینے کے ضمن میں ہوگا!
و ۔ رہی یہ بات کہ کیا امریکہ کی جانب سے مرسی کے سر سے دست شفقت ہٹانے کا مطلب نام نہاد ''اعتدال پسندوں"کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے سے دستبرداری ہے۔تو بات دستبردار ہونے یا نہ ہونے کی نہیں بلکہ مسئلہ مصر میں امریکی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کا ہے،کیونکہ امریکہ کا اثر ورسوخ مصرکے غالب سیاسی طبقے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے راسخ ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ مصر میں امریکی بالادستی مستحکم مرکز رہے۔ وہ یہاں استحکام مصر کے باشندوں کی خاطر نہیں چاہتا،بلکہ امریکہ کو اپنی بالادستی اور منصوبوں کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم پلیٹ فارم چاہیے۔۔۔۔۔ جس وقت 25/01/2011 کی عوامی تحریک نے امریکہ کو پریشان کردیا اور مبارک اس تحریک کو دبانے اور مصرکو دبارہ امریکی مفادات کے حصول کے لیے ایک مستحکم ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہو گیا توامریکہ نے اس کو ایک طرف کردیا اور عوامی تحریک کی موجوں پر سوار ہوگیا ۔اس کے بعد مرسی کو اس وقت لایا جب اس نے امریکی منصوبوں کو نافذ کرنے کی ضمانت دی خاص کریہودی وجود کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی تب امریکہ نے اس کی حمایت کردی۔۔۔،اس سے یہ توقع بھی کی کہ استحکام کو حاصل کرے گا کیونکہ اس کی جماعت الاخوان ہی نیشنل پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے بعد سب سے بڑی اور منظم پارٹی ہے۔امریکہ یہ توقع کرتا تھا کہ یہ حالات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ نیشنل پارٹی نے معزول صدر کے ساتھ کیا تھا۔۔۔۔لیکن مرسی ایسا نہ کر سکا تو اس سے بھی دستبردار ہو گیا۔۔۔۔۔اور03/07/2013 کو نئی حکومت کا حمایتی اورپشت بان بن گیا ۔۔۔۔
اس بنا پر امریکہ کا مصر میں ''اعتدال پسند اسلام "والوں سے دستبردار ہونا حالیہ سالوں میں ''اعتدال پسند اسلام"والوں کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی پالیسی سے باہر ہے،امریکہ نے اس پالیسی کو ایک تیر سے دوشکار والی کہاوت کی طرح استعمال کیا:
پہلا:ان عام مسلمانوں کو دھوکہ دینا جو اسلام کی حکمران چاہتے ہیں۔۔۔۔اگر چہ ''اعتدال پسند اسلام"والے اعلانیہ طورپر جمہوریت کی بات کرتے ہیں اوراسی کو قائم دائم رکھنے کا حلف اٹھاتے ہیں!لیکن ان کا نام کے لحاظ سے بھی ''اسلامی" ہونا مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتا ہے اور وہ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان اسلام پسندوں کے اقتدار تک پہنچنے سے اسلام کی حکمرانی آئے گی اور یوں وہ اسلام کی حکمرانی یعنی خلافت کے نظام کے لیے صحیح معنوں کام کرنے کے عزم سے پیچھے ہٹتے ہیں ۔۔۔۔۔اور امریکہ یہی چاہتا ہے کہ مسلمان خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے کا عزم نہ کریں، کیونکہ خلافت ہی نے اس کی نیند حرام کر رہی ہے۔۔۔۔۔
دوسرا:اسلام پسندوں کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر اپنی بالادستی کو برقرار رکھنا۔۔۔۔اگر وہ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے استحکام قائم نہ کرسکیں تو ان سے دستبردار ہونا،جیسا کہ مرسی کے ساتھ کیا،پھر دوسروں کی حمایت شروع کردی،خاص کر اس صورتحال میں کہ اس کے پاس ایجنٹ سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں جو اس نے مصر میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران تیارکیے ہیں!
ز ۔ اہل کنانہ(اہل مصر)کو چاہیے کہ اس بات کو سمجھیں کہ امریکہ کو معزول صدر مبارک کے دور میں جو بالادستی حاصل تھی وہی معزول صدر مرسی کے دور میں بھی حاصل تھی اور اسےہی اب بھی موجودہ حکومت کے دور میں حاصل ہے۔امریکہ ہی مصر کی بیماری اور مصیبت کی وجہ ہے ۔یہ ہر مسلمان پر واجب ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان رکھتا ہے کہ وہ امریکی بالادستی کا قلعہ قمع کرنے ،اس کے ایجنٹوں کو ہٹانے اور اسلام کی حکمرانی خلافت راشدہ کو دوبارہ کنانہ کی سرزمین میں لانے کے لیےزبردست جدوجہد کرے تاکہ یہ اسلامی دنیا کا مرکز بن جائے اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا صفایا کرے،یہودی وجود کو مٹادے ارض مقدس کو اسلام اور مسلمانوں کو واپس کرے جیسا کہ انہوں نے صلیبیوں اور تاتاریوں کا قلع قمع کرنے میں کیا اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں۔

Read more...

بدھسٹ بے دھڑک سری لنکا میں مسلمانوں پر حملہ کر رہے ہیں، جبکہ ہماری مسلح افواج کو بیرکوں میں روکا جا رہا ہے

10 اگست 2013 بروز ہفتہ دارالحکومت کولمبو کے مرکزی علاقہ میں بدھوں کے ایک ہجوم نے ایک تین منزلہ مسجد اور قریبی گھروں پر حملہ کردیا ۔ یہ کسی لحاظ سے بھی کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں۔ حالیہ مہینوں میں بدھ مشرک گروہوں نےمسلمانوں اور عیسائیوں کو ہدف بنانے کی ایک منظم مہم چلا رکھی ہے۔جنوری 2013 میں بدھ راہبوں کے ایک ہجوم نے لاء کالج کو یہ کہتے ہوئے روند ڈالا کہ امتحانی نتائج مسلمانوں کے حق میں موڑ دیے گئے ہیں۔ چند ہفتوں بعد پجاری مشرکین نے دارالحکومت کے زبح خانوں پر بظاہر پولیس معاونت سے یہ الزام لگاتے ہوئے حملہ کر دیا کہ ان میں گائے زبح کی جا رہی ہیں جو دارالحکومت کی حدود میں غیر قانونی کام ہے۔ سری لنکا کے بدھ متوں نے اب ہر چند دنوں بعد ایک "براہ ِراست کاروائی" کرنی شروع کر دی ہے۔پس بدھ مت ،جو کہ ملک کی آبادی کا 70 فیصد ہیں، کی جانب سےمسلمان مخالف سرگرمیوں کی لہر بڑھ رہی ہے۔جبکہ دوسرا بڑا گروہ مسلمانوں کا ہے جو10فیصد ہےجو ان مسلمان تاجروں کی آل اولاد ہیں جو ساتویں صدی میں آئے۔ بے شک ہر قسم کے مشرکین ایسے ہی ہیں جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں بیان کرتا ہے۔
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا " "
(سورہ المائدہ 5 :82)
جو بات غم و غصہ میں اضافہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مشرکین گروہوں میں سب سے ممتاز Buddhist Strength Force (Bodu Bala Sena, BBS) کو حکومتی حمائت حاصل ہے۔ جو بات تشویش میں مزید اضافہ کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ حملے دارلحکومت اور حکومت کے مضبوط حامی علاقوں میں پولیس کی معاونت سے ہو رہے تھے جبکہ دارالحکومت میں BBS کے نئے ٹریننگ سکول کی افتتاحی تقریب میں مہمانِ خصوصی ایک زور آور سیکریٹری دفاع اور صدر کا بھائی گوتا بھایا راجا پکسا (Gotabhaya Rajapaksa) تھا۔کیا ہی وہ انصاف تھا جو برصغیرمیں صدیوں پر محیط اسلامی حکومت کے تحت اسلام مہیا کرتا تھاجو عین اس حدیث کے مطابق تھاجو اسلامی ریاست تلے غیر مسلموں کی حفاظت کا مطالبہ کرتی ہے۔ من آذى ذمياً فقد آذاني " جس کسی نے ذمی (اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔
جس بات سی خون کھولتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں پرحملے ہو رہے ہیں جبکہ مسلم دنیا کی مسلح افواج 60 لاکھ ہے جبکہ سری لنکا کی مسلح افواج محض 3 لاکھ ہے یعنی 20 : 1 کی نسبت۔ اور قریب ترین مسلح افواج پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس 7 لاکھ مسلح فوج ہے۔ تا ہم خلافت میں نہ سمندر اور نہ ہی فاصلے ظالم کو اس کے انجام سے بچا پائیں گے۔ جب ہندوستان کے مسلمانوں پر مشرکین نے حملہ کیا تو خلیج فارس سے محمد بن قاسم کی زیر قیادت خلافت کی افواج حرکت میں آئیں۔ انہوں نے ظلم کا خاتمہ کیا اوراسلامی حکومت کے نور سے اسے تبدیل کر دیا۔لیکن آج یہ حکمران حملوں پر محض مذمت کر کے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں جبکہ ان کے پاس بدھسٹوں اور دوسروں کو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے اور ان کی حفاظت کے لئے ضرورت سے زائد ذرائع موجود ہیں!
پس سری لنکا میں مسلمانوں پر ظلم وستم خلافت کے قیام کی اشد ضرورت کے حوالے سے ایک سنجیدہ یاد دہانی ہے۔ اور یہ مسلح افواج میں موجود مخلصین کے لئے ایک محرک بھی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اورخلافت کے قیام کے لئے نصرۃ مہیا کریں جوایک بار پھر دو میں سے کسی ایک خیر کو حاصل کرنے کے لیے ان کی قیادت کرے گی، ظالموں پر فتح اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں شہادت دلائے گی ۔

 

 


مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

انقلاب لانے والے اپنے انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے خونریزی کا ارتکاب کررہے ہیں،یہ خونریزی ان کی پیشانی پر شرمناک داغ کے طور ہمیشہ رہے گا!

مصر کی وزارت صحت نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے رابعہ العدویہ اور النہضہ میں دھرنا دینے والوں کو منتشر کرنے کے لیے دھاوا بول دینے کے بعد سے اب تک 638 کے قتل کی رپورٹ دی ہے۔اس تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔قتل ہونے والوں میں 26 بچے،خواتین اور عمررسیدہ افراد بھی شامل ہیں۔اکثریت کو چوٹیں سر اور سینے میں لگی ہیں۔ان کے خیموں کو آگ لگائی گئی جس سے ان میں آگ بھڑک اٹھی اور کئی جھلسی ہوئی لاشیں بھی ملی ہیں۔ سیکیورٹی اداروں نے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے کہ جن کا ارتکاب امت کے بدترین دشمن بھی نہیں کر سکتے۔انہوں نے رابعہ العدویہ میں اس فیلڈ ہسپتال کو آگ لگائی ہے جس میں لاشیں اور زخمی پڑے تھے،اس کے ذریعے وہ اپنے مکروہ جرائم کے نشانات کو مٹانا چاہتے تھے۔ اپنی ہی قوم کے بچوں کی جان لینے کےجنون اور ُمردوں کی بے حرمتی، یہ سب انقلابیوں اور ان کے کارندوں کی سیاسی اسلام سے بغض کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے!اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا کہ کہ ظلم جبر کی طاقتیں کس طرح پکڑ دھکڑ اور قتل غارت کو جاری رکھنے کے لیے مستعد ہیں۔یہ خون ریز منظر یہود کی جانب سے فلسطین میں امت کے فرزندوں کے قتل کی یاد تازہ کرتا ہے۔۔۔۔۔اس مجرمانہ خون ریزی کے بعد عبوری صدر ایک مہینے کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کرتا ہے تاکہ دھرنا دینے والوں اور مظاہرین کی بیخ کنی کی جاسکے اور ان کے غصے کو کچلا جاسکے اور وہ نئی جابرانہ حکومت کو قبول کرنے پر مجبور ہو سکیں،جو السیسی اور اس کا پشت پناہ امریکہ قائم کرنا چاہتے ہیں،کیونکہ امریکہ مرسی حکومت کے سرسے اپنا دست شفقت اٹھا چکا ہے۔
25 فروری کی تحریک اٹھارہ دن جاری رہی جس میں تقریبا 365 افراد مارے گئے،اس نئی لیکن دراصل پرانی ہی حکومت نے ایک ہی دن میں مذکورہ تعداد سے دوگنا لوگوں کو قتل کر دیا!یہ انتقامی حرکت جس نے مبارک حکومت کی یاد تازہ کردی جو اپنی ہی عوام سے شدید نفرت کرتی تھی خصوصا ان لوگوں سے جو اسلام کے علم کو بلند کرتے تھے۔
یہ ہے نئی فوجی حکومت اور یہ ہیں انقلابی قائیدین جو اپنی گمراہی پر ڈٹے ہوئے ہیں،اپنے انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا تہیا کر رکھا ہے،اپنی ہی عوام کے خلاف شیر ہیں جبکہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود اور ان کے پشت پناہ کے مقابلے میں دم دبا کے بیٹھے ہیں،بلکہ ان کے ساتھ مل کر سازشوں کا جال بن رہے ہیں!''دہشت گردی کے خلاف جنگ"کے نام پر اسلام پر حملہ آور ہیں،جبکہ پڑوس میں یہود اطمینان اور امن سے ہیں۔خائن مجرموں محمد محمود،کابینہ اور ماسبیرو کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اہل مصر کے لیے کوئی کامیابی وکامرانی حاصل کریں؟!یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس نے 30 سال تک مبارک کی کرپٹ حکومت کو سہارا دیا ہو ،اس کی کرپشن میں شریک ہو اور اس کی دلالی کرتا رہا ہو وہ اہل مصر کے لیے کوئی کامیابی حاصل کرے؟!
یہ قاتل اور مجرم ہیں!عنقریب آخرت سے پہلے ہی دنیا میں بھی ان کے جرائم اور امت کے قابل قدر بیٹوں کو قتل کرنے اور اسلام کے خلاف جنگ اور امریکہ کی دلالی پر ان سے حساب لیا جائے گا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:((ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاء ہ جھنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ قاعد لہ عذابا عظیما)) "جو بھی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہے گا ،اللہ اس پر غضبناک ہو گا،اس پر لعنت کرے گا اور اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء:93 )۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(لزوال الدنیا اھون عند اللہ من قتل رجل مسلم) ''ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک معمولی ہے"(الترمذی اور النسائی)۔ یہ انقلابی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور الاخوان کے خلاف آپریشن کے نعرےکو اسلام پر یلغار اور اس کے گرد گیرا تنگ کرنے کے لیے پردے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن مصر میں اسلام کی جڑیں بہت گہری ہیں اوراس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ کنانہ اسلام ہی کی سرزمین ہے اسی میں اس کے رکھوالے جوان مرد موجود ہیں،یہی عنقریب ایجنٹوں اورکفر نظام دفن ہو گا،امریکی بالادستی یہاں ملیامیٹ ہو نے والی ہے،یہی خلافت کا سورج اللہ کے اذن سے طلوع ہو نے والا ہے۔
کنانہ کے طول و عرض میں سرپر کفن باندہ کر نکلنے والے مسلمانوں!
اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب بابانگ دہل یہ اعلان کریں کہ :یہ اسلام اور خاص اللہ کے لیے ہے! اس میں کوئی جمہوریت یا سیکولرازم نہیں،اس میں کفر کی حکمرانی کا کوئی حصہ نہیں، ساتھ ہی ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہو نا چاہیے کہ اللہ کے حکم کو مضبوطی تھامنا ہی ہماری کامیابی اور کامرانی کا ضامن ہے۔یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو دل و جان سے ریاست خلافت ،اسلام کی حکمرانی ،امت کی وحدت ،اپنے ملک سے استعمار کو ماربھگانےاوراسلام کاتمام دنیا کےلیے ہدایت کے پیغام کے طورپر علمبردار بننےکے لیے وقف کر دیں،تب ہی ہمار ا یہ خون رنگ لائے گا ورنہ سب کچھ تماشا اور وقت اور محنت کا ضیاع ہو گا۔
اے افسران!اے سپاہیو!اے مصر کنانہ کی فوج میں موجود مخلص مسلمانو!
یہ کیسے ممکن ہے کہ تم اپنے ماں باپ،بچوں اور بہن بھائیوں کے قتل میں شریک ہو؟!یہ کیسے ممکن ہے کہ تم ایک ایسی قیادت سے وفاداری کا ثبوت دو جو اپنی ہی عوام کو قتل کرنے کی سازش کر رہی ہے؟!وہ قیادت جس نے اپنی آخرت دنیا کے لیے بیچ ڈالی ہے،جو امت کے سب سے بڑے دشمن ،ظلم اور سرکشی کی ریاست امریکہ کے گود میں جا کر بیٹھ گئی ہے!اگر تم نے صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺکے اوامر کی پیروی کی تو اللہ کی قسم تم ہی دنیا کی بہترین فوج ہو۔تمہارا دین تمہیں پکار رہا ہے کہ تم حرام خون مت بہاو ،اس کی اطاعت مت کرو جو تمہیں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔یہ خون جو تمہارے ہاتھوں بہہ رہا ہے اس کے بارے میں اللہ تم سے پوچھے گا!تم کب تک انتظار کرو گے؟تم پر لازم ہے کہ تم ظالم کا ہاتھ روکو اور اس کو حق کے سامنے سرنگوں کرو ورنہ اللہ تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت ڈال دے گا۔
موجودہ مجرم حکومت کو جڑھ سے اکھاڑ پھینکنا تمہاری ذمہ داری ہے،اس کو اس کے مددگاروں کے ساتھ چاروں شانے چت کرو!اسلام کو یکبار اور مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے جد وجہد کرو!تم بھی ان انصار جیسے بنو جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی ،ہم حزب التحریر سےتمھیں پکار تے ہیں کہ تم خلافت کے عظیم منصوبے کی سب سے پہلے مدد کرو!تم اہل قوت ہو اور اس کے لائق ہو،اگر تم نے اپنی نیت اللہ کے لیے خالص کر دی تو تم اس پر قادر بھی ہو۔آو خلافت علی منہاج النبوۃ کے سائے میں دنیا کی عزت ،آخرت کی نعمت اپنے قادر مطلق رب کے پاس اعلی مقام حاصل کرنے کی طرف!
((ویقولون متی ھو قل عسی ان یکون قریبا)) "لوگ پوچھتے ہیں کب ایسا ہو گا کہہ دیجئے ممکن ہے بہت جلد"(الاسراء)۔

Read more...

شوال کے چاند کا نتیجہ اور عیدالفطر کی مبارکباد

پریس ریلیز

اللہ اکبر۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ، سلامتی ہو رسول اللہ ﷺ پر ، ان کی آل پر، ان کے صحابہ پر اور ان تمام پر جنھوں نے حق کی راہ کی پیروی کی ، کہ جنھوں نے اسلامی عقیدہ کو تمام افکار کی بنیاد کو بنایا، احکام شریعہ کو اعمال کی بنیاد بنایا اور شریعت کو اپنے فیصلوں کی بنیاد بنایا۔
بخاری نے اپنی صحیح میں محمد بن زید سے روایت کی کہ انھوں نے کہا : میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ محمد ﷺ نے فرمایا : صوموا لِرُؤيتِهِ وأَفْطِرُوا لرؤيتِهِ فإنْ غُبِّيَ عليكم فأَكْمِلُوا عِدَّةَ شعبانَ ثلاثين "اسے(چاند) دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے(چاند) دیکھ کراس کا اختتام کرو، اگربادل ہوں تو تیس دن(شعبان اور شوال کے) مکمل کرو"۔
آج کی مبارک رات یعنی جمعرات کی رات، شوال کے چاند کی شہادتوں کو دیکھنے کے بعد، شریعت کےتقاضوں کے مطابق صحیح نئے چاند کا دیکھا جانا ثابت ہوچکا ہے۔ اس بنیاد پر:
اول: شباب کی جانب سے ،جنھیں نئے چاند کو دیکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، انڈونیشیا کے علاقے مشرقی مالوچ اور فلسطین کے علاقےبیت الحنین میں نئے چاند کے دیکھے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔
دوئم: اس کے علاوہ ہمیں سودیر، چاکرہ اور تامر سعودی عرب اور بھارت کے علاقے کتہشر میں کیرالہ اور مشرقی و مرکزی جاوا، مغربی پاپو اور جنوبی سولوؤسی انڈونیشیا سے مسلمانوں سے نئے چاند دیکھنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
لہذا کل جمعرات 8اگست 2013 شوال کے مہینے اور عیدالفطرکا پہلا دن ہوگا۔
اس موقع پر امیر حزب التحریر،مشہور فقیہ، عطا بن خلیل ابو الرَشتہ(اللہ انھیں اپنی حفاظت میں رکھے) اس عزیز امت مسلمہ کے تمام لوگوں کو عید کی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔۔۔
اور وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں خلافت کے قیام کا تحفہ عطا فرمائیں جو زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کرے گی، اسلام کی دعوت کو،جو کہ دنیا کے لیے ہدایت اور روشنی ہے ، پوری دنیا میں پھیلائے گی۔ وہ ریاست جو انصاف کرنے والی ہوگی، زمینوں کو آزاد کرائے گی اور اللہ کے بندوں کو انساف فراہم کرے گی۔ وہ ریاست جو جہاد کرنے والی ہوگی اوراس کی فتوحات کبھی نہ ختم ہونے والی ہوں گی تا کہ لوگ اپنی عیدوں پر اللہ اکبر کے نعرے لگائیں اور اپنی فتوحات کے دوران' اللہ اکبر، اللہ اکبر، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں' کے کلمے بلند کرے گے۔ ۔۔
اسی طرح میں حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کے سربراہ اور ان تمام اراکین کا جو امیر حزب التحریر کے لیے کام کرتے ہیں ،کی جانب سے تمام مسلمانوں کو عید الفطر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اے مسلمانو! میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتا ہو کہ وہ ہمارے روزوں اور راتوں کے قیام کو قبول فرمائے، ہمارے رکوع و سجود کو قبول فرمائے اور ہمارے تمام اعمال کو قبول فرمائے۔ ہم اس سے مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں خلافت راشدہ دوبارہ عطا فرمائے جس کے ذریعے ہم اپنا تحفظ کریں گے اور اس کے ذریعے لڑیں گے۔۔ جو کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ ﷺ کی علمبردار ہو گی۔۔۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔
ہم پر یہ عید اس وقت آئی ہے جب اسلام کے مرکز شام میں مسلسل خون بہہ رہا ہے، مصر میں جمہوری نظام ناکام ہوچکا ہے اور تیونس اور لیبیا میں یہ جمہوری نظام ناکام ہورہا ہے۔۔۔
یہ حقائق مغربی صلیبیوں کی دشمنی کو ثابت کرتے ہیں جو خلافت کے قیام کو مسلم علاقوں میں اپنے استعماری غلبے ، اپنے استعماری مفادات کی تکمیل کے لیے مسلم علاقوں کی دولت کو لوٹنےکےتسلسل کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ اس اسلامی قوت کے قیام کو روکنے کے لیے کوشش ہے، جو ان کے سیکولر نظام کا خاتمہ کرے گی جس نے اپنے جرائم اور مصیبتوں کے ذریعے انسانیت کا استحصال کیا ہے۔۔۔
لہذا ہم شام میں اپنے لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پیارو صبر کرو، صلیبیوں ، ان کے ساتھیوں اور مسلم ایجنٹ حکمرانوں کے دھوکوں اور ہمسائیہ ممالک میں ترکی سے لے کر اردن تک اور عراق و لبنان سے لے کر مصر، ایران اور خلیج کے حکمرانوں تک میں پھیلے ہوئے ان کے جال سے اور ان سے جنھوں نے تم سے غداری کی اور استعماری طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے،سے ناامید مت ہوں۔
پر اعتماد رہو اور یقین رکھو کہ صبر ہی اس صورتحال سے نکلنے کی کنجی ہے اور کامیابی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ مغربی حکمران اور خطے میں موجود ان کے ایجنٹ حکمران اور ممالک اور مقامی سیاست دان اور لیڈران جو زہریلےامریکی منصوبوں کو حل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ان سے کوئی خیر مل سکتی ہے یہ سب ہمارے لیے کوئی خیر نہیں چاہتے۔اور نئے چہروں کو سامنے لانے اور اپنے اخلاص کا یقین دلانے کے باوجود یقینایہ شام پر استعمار کے ازسر نو غلبے کو قائم کرنے کے لیے کام کررہے ہیں اور اللہ نے صحیح کہا ہے کہ ويمكرون ويمكر الله والله خير الماكرين "وہ چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ سب سے بہترین چالیں چلنے والے ہیں" ۔
مصر اور تیونس میں اپنے مسلمان بھائیوں سے ہم کہتے ہیں کہ، اس شرمناک جمہوریت کا دھوکہ تم پرواضع ہوچکا ہےجو اپنی حیثیت کو بیلٹ بکس کے ذریعے ثابت کرنے کا دعویٰ کرتی ہےاور یہ جمہوریت پرانے استعماری دور کو نئے دور میں بھی جاری ساری رکھنے کی ہی صورت ہے۔۔۔
اور آپ اس حکومت کو گرانے کے لیےیہ نعرہ لگاتے ہوئے باہر نکلے کہ" شہید اللہ کا پیارا ہوتا ہے"۔۔۔۔
لہذا انتخابات کرانے کی پیشکش سے دھوکہ نہ کھائیں حقیقی قانونی حیثیت مسلمانوں کے عقیدے سے نکلتی ہے، اللہ کے احکامات کی اتباع سے نکلتی ہے وہ اللہ جس نے ہمیں ایک شریعت عطا فرمائی۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ ان لوگوں کی اولادیں ہیں جنھوں نے اسلام کی روشنی اور اس کے انصاف کو پھیلانے کے لیے دنیا کے کونے کونے تک گئے۔۔۔۔۔۔۔
اور تمھارے آباؤ اجداد وہ لوگ تھے جنھوں نے صلیبیوں اور منگولوں دونوں کو شکست دی تھی اور آج تم اس قابل ہو کہ امت پر ہونے والی استعماری یلغار کو تباہ کردو اور اسلام کی روشنی سے دنیا کو منور کردو۔۔۔
اپنے دین میں کسی قسم کی کمی بیشی کو قبول مت کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صلیبیوں کےجھوٹے عودوں پر اعتبار مت کرو، هم العدو فاحذرهم " یہ دشمن ہیں لہذا ان سے ہوشیار رہو"۔ اور اپنے درمیان ان لوگوں کو مسترد کردو جو مغرب کے زہر کو پھیلاتے ہیں۔۔۔
مکمل خوشی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا نظام زندگی کے تمام میدانوں، سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم پر لاگو ہو۔۔۔
اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک نبوت کے طریقے پر چلتے ہوئے دوسری خلافت راشدہ کے قیام کا اعلان نہیں ہوجاتا۔
مکمل خوشی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مسلم علاقوں سے مغربی استعماریت کا خاتمہ کردیا جائے اور وہ دوبارہ لوٹ نہ سکے اور تمام مسلم مقبوضہ علاقے آزاد ہو جائیں۔
مکمل خوشی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مسجد الاقصی اور فلسطین کی سرزمین کو یہود کی غلاظت سے نجات دلائی جائے اور ان کی غلاظت سے پاک کردیا جائے۔
عیدالفطر اللہ کی جانب سے مسلمانوں کے لیے ایک مبارک تحفہ ہے اور عیدوں کی عید وہ ہوگی جب اللہ کا وعدہ اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت پوری ہوگی یعنی جب ریاست خلافت قائم ہوگی۔
لہٰذا حزب التحریر آپ کو عیدوں کی عید کو حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہے اور مقصد کے حصول کے لیے اس کام میں شریک ہونے کی دعوت دیتی ہے اور اپنی عید کا اختتام اس بات پر کریں کہ اللہ کے حکم کو پورا کرنے اور اس دین کو طاقت اور عزت دینے کے لیےمخلص لوگوں کے ساتھ کام کریں تا کہ ہم مل کر کامیابی کے دن اللہ اکبر کے نعرے لگائیں۔۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔۔۔لا الہ الاللہ
اللہ اکبر اللہ اکبر والحمدللہ
کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں اور ہم اسی کی دین سے مخلص ہیں چاہے کفار اس سے نفرت ہی کیوں نہ کریں۔
عید مبارک۔ اللہ ہماری آپ کی عبادات کو قبول فرمائے۔

وسلام علیکم و رحمتہ اللہ و براکتہ

 

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

آئی.ایم.ایف کا پاکستان کے لیے بجٹ 2013/14 آئی.ایم.ایف کے بجٹ کو جمہوریت کا تڑکا لگا کر اسے اپنا بجٹ قرار نہیں دیا جاسکتا

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی جانب سے پاکستان کے لیے آئی.ایم.ایف کے بجٹ کو بے نقاب کرنے کی مہم کے سلسلے میں، پاکستان کے صنعتی اور مالیاتی مرکز کراچی کے اہل رائے حضرات کو اس بجٹ کے حوالے سے ایک بریفنگ دی گئی۔ یہ اجتماع حزب التحریر ولایہ پاکستان کی جانب سے خلافت کے قیام کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو بچانے کے سلسلے میں شروع کی گئی مہم کا ایک حصہ تھا۔ اس مہم کے دوران لیفلٹ کی تقسیم، ایک کتاب کا اجرأ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت کس طرح پاکستان کی معیشت کو دوبارہ زندہ کرے گی، وفود، پریس بریفنگز اور عوامی رابطہ مہم انجام دی گئی ہے۔

اجتماع سے پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان، شہزاد شیخ نے خطاب کیا اور اس بات کو بے نقاب کیا کہ کس طرح کیانی و شریف حکومت نے پاکستان کی معیشت کو موجودہ مالی سال میں مزید تباہ برباد کرنے کے لیے آئی.ایم.ایف کے تجویز کردہ نسخے کو من و عن نافذ کیا ہے۔ اس تباہ کن نسخے میں معاشی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے کمر توڑ ٹیکسوں، توانائی کے شعبے کو مفلوج کرنے لیے مزید نجکاری اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے کا مشورہ دیا گیا ہے جو خوفناک افراط زرکی بنیادی وجہ ہے۔

شہزاد شیخ نے کہا کہ پہلے ہی کیانی و شریف حکومت امت اور معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے خود کو گھیرے میں پاتی ہے اور لوگ آئی.ایم.ایف کی غلامی کرنے کی مذمت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حزب التحریر وزیر خزانہ کی اس تو جیع کی مذمت کرتی ہے اور اس کو ایک مذاق قرار دیتی ہے کہ کیونکہ جمہوریت نے آئی.ایم.ایف کے مطالبات کو منظور کر لیا ہے اس لیے اب یہ ایک مقامی اور ہمارا اپنا تجویز کردہ بجٹ ہے۔ حکومت کس طرح یہ دعوا کرسکتی ہے کہ جمہوریت نے آئی.ایم.ایف کی حرام تجاویز کو لوگوں کے لیے حلال بنا دیا ہے؟ حکومت کس طرح یہ دعوا کرسکتی ہے جبکہ عوام کی عظیم اکثریت جمہوریت کو ملک کے لیے ایک برائی تصور کرتی ہے اور شریعت کو ملک کے قانون کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے؟ انھوں نے مزید کہا کہ کیانی و شریف حکومت لوگوں کی خواہشات اور ضروریات سے بالکل لاتعلق ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا ہنی مون پیریڈ کیانی وزرداری حکومت کے مقابلے میں بہت جلد ختم ہوگیا ہے۔

انجینئر شہزاد شیخ نے حاضرین کو حزب کے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی تاکہ پاکستان کی مسلم سرزمین پر خلافت کے قیام کو ممکن بنایا جائے۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

 

Read more...

کیمرون کی پاکستان اور افغانستان میں شر انگیزی برطانیہ کی حیثیت امریکہ کے لئے شکاری کتے سے زیادہ نہیں، جس کی سلطنت کی واپسی محض ایک خواب ہے

برطانوی وزیراعظم کیمرون، رات کے سناٹے میں چوروں کی طرح، بغیر کسی اعلان کے افغانستان میں جا گھسا۔ اپنی جان کے خوف سے اجلت میں اپنی صلیبی افواج کا معائنہ کیا، مزاکرات پر زور دینے کے لئے امریکی کٹھ پتلی کرزئی سے ملاقات کی اور مزید شرانگیزی کے لئے پاکستان کا رخ کیا۔ کیانی و شریف حکومت نے اسے اُلٹے پائوں رسوا لوٹانے کی بجائے اس صلیبی مجرم کو ایک طاقتور ترین مسلم ریاست کے پروٹوکول سے نوازا۔ حزب التحریر پوچھتی ہے کہ آخر کس احسان مندی اور پاس داری کے عوض یہ پروٹوکول دیا گیا؟

برطانیہ وہ استعماری قوم ہے جس نے اس خطے پر صدیوں پر محیط مسلم حکمرانی پر اپنے وحشیانہ حملوں کے ذریعے قبضہ کیا تھا۔ برطانیہ نے اس خطے پر شریعت کے نفاذ کا خاتمہ کیا کہ جس کے نتیجہ میں یہ خطہ ایک شدید قحط میں مبتلا ہوا جس سے لاکھوں لوگ جان بحق ہو گئے، مسلم کسان مقروض اور بے زمین ہو گئے جبکہ یہی مسلم سرزمین کبھی دنیا کو خوارک کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ تھی۔ حکومتِ برطانیہ نے پھر اس مسلم سرزمین کی دولت نچوڑنے اور اس کی مسلم آبادی میں موجود مزاحمت کو کچلنے کے لیے، جس نے اس کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور پھر خلافت کے انہدام کے خلاف برطانوی اقدام کی مزاحمت کی، اس پر ایک طفیلی کیڑے کی طرح برا جمان ہو گئی۔ کیا برطانیہ کے ان احسانات کے بدلے ہم اس کے احسان مند ہیں؟

جہاں تک دنیا میں برطانیہ کی عزت کا تعلق ہے تو اس کے لیے برطانیہ کی حقیقت جاننے کی ضرورت ہے۔ اس خطے کی تقسیم کے بعد، ایوب خان کے دور سے پاکستان میں برطانوی اثر و رسوخ امریکہ کی وجہ سے بہت کم رہ گیا ہے اور پھر افغانستان میں بھی اس کا اثر و رسوخ برطانوی ایجنٹ ظاہر شاہ کی معزولی کے بعد سے تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اب برطانیہ کی حیثیت امریکہ کے لئے ایک شکاری کتے سے زیادہ نہیں جو امریکہ کے بچے کچے شکار کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے جس پر امریکہ اپنا ہاتھ صاف کر چکا ہوتا ہے۔ کسی بڑے کردار کو ادا کرنے کے لئے نہ تو برطانیہ کے پاس اختیار ہے اور نہ تدبیر۔ اس کے عوام مادہ پرست سرمایہ دارانہ نظام میں بہک چکے ہیں جہاں بے راہ روی اور کھیل تماشا کسی بھی سنجیدہ کام پر متقدم ہے۔ کس طرح برطانوی اکابرین X-boxes کے کھانوں، i-Phones اور شراب نوشی کی لت چھڑا کر اپنے عوام کو میدان جنگ کی سختیاں جھیلنے اور انہی اکابرین کے عیش و عشرت کے لئے جان لٹانے پر راغب کر یں گے۔

 

اے مسلح افواج میں موجود مسلمانو! دیکھو کس بے شرمی اور حمیت سے عاری کیانی و شریف حکومت امریکہ اور اس کے شکاری کتے برطانیہ کو تعظیم و تحسین سے نواز رہے ہیں۔ تم کب تک اپنے دین، اپنی تاریخ اور اپنے ورثہ کی توہین کی اجازت دیتے رہو گے؟ تم کب تک اپنے اوپر مسلط ان حکمرانوں کو اجازت دیتے رہو گے کہ وہ سیدنا محمد ﷺ کی اس قوم پر اس مکروہ اور بد بخت استعمارکے غلبہ کو جاری رکھیں۔ امیر شیخ عطاء ابن خلیل ابو ارشتہ کی قیادت میں حزب التحریر کو نصرة دو تاکہ امریکی راج کو بھی اسی قبر میں دفن کیا جا سکے جہاں برطانوی راج دفن ہے۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...

جمہوریت کو ختم کرو اور خلافت کو قائم کرو سانحہ دیامر کا ذمہ دارجنرل کیانی ہے

حزب التحریر ولایہ پاکستان 22جون 2013کوگلگت بلتستان کے علاقے دیامیر میں ہونے والے اندوہناک واقع کی پر زور مذمت کرتی ہے اور سانحہ کوئٹہ کی طرح اس واقع کا ذمہ دار بھی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہی قرار دیتی ہے جن کی قیادت جنرل کیانی کررہا ہے۔


کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دس دنوں میں دوسرا بڑا سانحہ ایک ایسے علاقے میں رونما ہوا ہے جو سیکیوریٹی اداروں کے زیر نگرانی ہے اور دیامیر کا سانحہ تو اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ وہاں کوہ پیماؤں اور سیکیوریٹی اداروں کے علاوہ عام آدمی کی پہنچ تقریباً ناممکن ہے۔ کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ملک بھر میں دندناتے امریکی دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں پر حملہ نہیں ہوتا جبکہ ان کے ٹھکانوں کی تفصیلات کہ لاہور، اسلام آباد ،پشاور اور کوئٹہ کے کس کس گھر میں وہ مقیم ہیں کئی بار ملکی میڈیا میں سامنے بھی آچکی ہیں لیکن کوہ پیمائی کے لیے آئے ہوئے عام غیر ملکی قتل کردیے جاتے ہیں۔ حزب التحریرپچھلے کئی سالوں سے عوام اور افواج کو یہ باور کراتی آئی ہے کہ ملک بھر میں فوجی و شہری تنصیبات پر ہونے والے بم دھماکوں اور ملکی و غیر ملکی افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ملوث ہے۔ اس نیٹ ورک کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں زبردست کامیابیاں صرف اس لیے مل رہی ہیں کیونکہ ان کی سرگرمیوں کو جنرل کیانی کی قیادت میں سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔


اگر ایک تھانے کے علاقے میں کوئی غیر معمولی واقع پیش آجائے تو اس علاقے کا S.H.O،S.P،D.S.Pیہاں تک کہ I.Gتک معطل کردیے جاتے ہیں اور ان کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔لیکن ایبٹ آباد واقع ہو یا G.H.Qپر حملہ،کامرہ ائربیس پر حملہ ہو یا مہران نیول بیس پر حملہ،کبھی بھی فوجی قیادت میں موجود غداروں نے نہ تو اتنی شرم کا مظاہرہ کیا کہ وہ از خود اپنے عہدوں سے استعفی دے دیتے اور نہ ہی سیاسی قیادت میں موجود غداروں نے ان سے استعفے طلب کیے اور ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔
امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے دہشت گردوں کو پکڑنے اور کیفر کرادار تک پہنچانے میں سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار کسی قسم کی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں لیکن وہ افراد، چاہے ان کا تعلق فوج سے ہو یا وہ عام شہری ہوں،جو اس ملک میں اسلامی شریعت اور خلافت کے قیام کے لیے پرامن سیاسی و فکری جدوجہد کرتے ہیں ان کو اغوا یا گرفتار کرنے اورتشدد کا نشانہ بنانے میں اپنے آقا امریکہ کے حکم پر نہایت تیزی سے عمل کرتے ہیں جس کی مثال پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان نوید بٹ ہیں جنھیں 11مئی 2012کو ان کے بچوں کے سامنے اغوا کیا گیا اور ایک سال گزر جانے کے باوجود نہ تو انھیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی انھیں رہا کیا ہے۔


حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے بھی سوال کرتی ہے کہ کب تک اپنی قیادت میں موجود غداروں کی غداریوں کو برداشت کرتے رہیں گے جنھوں نے محض دس دنوں میں ایک بار پھر مسلمانوں کی اس عظیم فوج کی کارکردگی پر سوالیہ نشان پیدا کردیا ہے؟اے افواج پاکستان کے مخلص افسران ! آگے بڑھو! ان غداروں کے ہاتھ پکڑ لو ،اپنی قوم کو ان غداروں کے ظلم وستم سے نجات دلاؤ، جمہوریت کے امریکی گھوڑے کا خاتمہ کرو اور خلافت کے قیام کے لیے امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رشتہ کو نصرۃ فراہم کرکے پاکستان سے امریکی سفارت خانے،قونصل خانوں،اور اڈوں کو بند کرو ، فوجی و سفارتی اہلکاروں کو ملک بدر کرواور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کا خاتمہ کردو۔ صرف اسی صورت میں یہ امت اپنی کھوئی ہوئی عزت اور امن اور چین دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔

 

پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان
شہزاد شیخ

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک