الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال وجواب : شام کے انقلاب اورحزب التحریر کے حوالے سے

(حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ کی جانب سے فیس بک پر ان کے صفحے کو وزٹ کرنے والوں کی طرف سے پوچھے گئےسوالات کے جوابات کا سلسلہ)

مامون شحادہ ۔ صحافی،رائٹر اور سیاسی تجزیہ نگار کی طرف سے علامہ عطابن خلیل ابو الرشتہ سے سوال

 

سوال:
سلام کے بعدمیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے حزب التحریر شام کے انقلاب میں شامل ہو گئی جبکہ باقی جگہوں پر ایسا نہیں کیاگیا؟

جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے بھائی ہمارا کام ،ہراس جگہ جہاں بھی ہمیں کام کرنے کا موقع ملے، ایک ہی ہے اور تبدیل نہیں ہوتا۔
ہمارا یہ کا م ہر وقت اور ہر جگہ رسول اللہ ﷺکے اس طریقے پر کاربند رہتے ہوئے جو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بعثت کے سے لے کر مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام تک اختیار کیاخلافت راشدہ کے قیام کے عمل کے ذریعے اسلامی زندگی کا دوبار احیا ہے،

ہم لوگوں کو حق کی دعوت دینے کے لیے ان سے روابط رکھتے ہیں،ان کو یہ بتاتے ہیں کہ خلافت ایک عظیم فرض ہے جس کے قیام کے لئے کام کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔اس حوالے سے ہم امت کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور امت کے ساتھ اور اس کے ذریعے اس عظیم مقصد کے حصول کی کوشش کر تے ہیں،اسی طرح ہم خلافت کے قیام کی خاطر نصرہ طلب کرنے کے لیے اہل قوت سے رابطہ کرتے ہیں اور ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ خود ساختہ سکیولر نظام کو ختم کیے بغیر صرف چہروں کو تبدیل کر کے اپنی محنت کو ضائع نہ کریں۔
بلکہ اپنی جد وجہد،اپنی طاقت اور اپنی قربانیوں کو انسان کے بنائے ہوئے اس نظام کو حکمرانوں اور قوانین سمیت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور خلافت کے قیام کے لیے صرف کریں۔
ہم ان کے لئے ایسی وضاحت کرتے ہیں جس طرح یہ اسلام میں ہے،جو ہماری بات سنتا ہے ہم درست سمت میں اس کی راہنمائی کرتے ہیں اورجو ہماری بات نہیں سنتا ہم اس کو مجبور نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔
یہ ہم انقلابات سے پہلےبھی کر رہے تھے اور ان کے دوران بھی کر رہے ہیں اور ان کے بعد بھی کرتے ر ہیں گے۔ تاہم ان انقلابات نے لوگوں کے لیے سکیورٹی اداروں کے خوف سے آزاد ہو کر کلمہ حق کو سننے کے وسیع مواقع فراہم کر دئے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا بلکہ لوگ سیکیورٹی اداروں کے خوف سے اس حق کو سننے سے کتراتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج لوگوں کا ہماری طرف متوجہ ہونا قابل دید ہے۔ہمارے اور ان کے درمیان ایک زبردست اور متحرک رابطہ ہے۔یوں لوگوں کے سامنے موجود خوف کی دیوار گرنے کے نتیجے میں اس دعوت کی وسعت کا ملاحظہ کیاجا سکتا ہے جس کے ہم علمبردار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے بھی امت کے اندر ہماری تحریک کی بڑھتی ہوئی قوت اور اس میں اضافے کو محسوس کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس سے پہلے ہم کام نہیں کر رہے تھے بلکہ انقلابات سے پہلے لوگ سیکیورٹی اداروں کے خوف کی وجہ سے ہماری طرف متوجہ ہونے سے خوفزدہ تھے کیونکہ سیکیورٹی ادارے ہر وقت ہمارا اور جو ہم سے رابطہ کرتا اس کا پیچھا کرتے تھے جو ہمارے کام میں رخنہ اندازی کا سبب بنتا تھا اور لوگوں کے ہمارے قریب آنے کی کوشش کے سامنے رکاوٹ بنتاتھا۔
یاد رہے کہ ہمارے کام کے زور پکڑنے کا ملاحظہ صرف ان علاقوں میں ہی نہیں کیا گیا جہاں انقلابات رونما ہوئے بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے،بلکہ بعض دفعہ یہ انقلابات والے علاقوں سے بڑھ کر ہے۔شاید آپ نے پاکستان میں ہماری سرگرمیوں کو دیکھا یا ان کے بارے میں سنا ہو گا جہاں ہمارے کام کا زورعیاں ہے اور شام کےمساوی یا اس جیسا ہی ہے ،حالانکہ موجودہ وقت میں پاکستان میں کوئی انقلاب برپا نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا کام انقلابات سے پہلے بھی جاری تھا لیکن انقلابات کے دوران اس کا زیادہ مشاہدہ کیا گیا،خصوصاً شام میں،کیونکہ ظلم اور سرکشی کے خلاف لوگوں کے بپھرنے سے خوف کی دیوار منہدم ہو گئی۔
بس یہ نئی بات ہے ورنہ ہم انقلابات سے قبل،اس کے دوران اور اس کے بعد ہمیشہ یہ کام کرتے رہے ہیں۔
تاہم، اگر ''شام کے انقلاب میں شریک ہونے‘‘سے آپ کی مراد یہ ہے کہ ہمارا کوئی عسکری ونگ بن گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارا کوئی عسکری ونگ نہ پہلے کھبی تھا نہ اب ہے۔ہم ایک ایسی سیاسی جماعت ہیں جس کی آیئڈیالوجی اسلام ہے،جو دعوت کے مرحلے میں کسی قسم کے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ بلکہ ہم صرف اہل قوت سے نصرہ طلب کرتے ہیں تا کہ اسلامی ریاست کو قائم کیا جاسکے۔ جیسا کہ عقبہ کی دوسری بیعت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوا۔ ان شاء اللہ یہ اللہ کے اذن سے قریب ہے،
إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۳)
''بے شک اللہ اپنا امر پورا کرنے والا ہے ،اللہ ہی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے‘‘۔
آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ
جواب کے لیے فیس بک پر حزب التحریر کے امیر کے صفحے کو ملاحظہ کیجئے

Read more...

شام میں فوجی مداخلت کا اشارہ، جس کا چرچا ہے،ہر لحاظ سےشر انگیز ہے، یہ اسلام کی حکمرانی کو قائم ہونے سے روکنے اور اپنے ایجنٹ بشار کا کردار ختم ہونے پراس کے متبادل کا بندوبست کرنے کے لیے ہے

شام کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شام میں فوجی مداخلت کی خبریں گردش میں ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے لیے انسانی اور اخلاقی ذمہ داری کا پردہ استعمال کر رہے ہیں جبکہ وہ خود اس سے بے بہرہ ہیں۔ امریکہ،برطانیہ ، فرانس ،روس اور تمام کافراستعماری ممالک اپنے تنگ وتاریک عقوبت خانوں میں تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو اپنے پیروں تلے روند چکے ہیں،بگرام،گونتاناموبے اورابوغریب کےعقوبت خانے اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ پوری دنیا کی رسوائے زمانہ جاسوسی اس کے علاوہ ہے! یہی ممالک ایٹمی،بائیولوجیکل ،وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال اور وحشیانہ قتل و غارت میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں مشہور ہیں۔ اس کے شواہد ہیروشیما،ناگا ساکی اور عراق،افغانستان،وسط ایشیا،مالی اور چیچنیا میں برپا کیے جا نے والے شرمناک قتلِ عام کی شکل میں موجود ہیں۔
پھر انہی ممالک خاص طور پر امریکہ ہی نے بشارالاسد کو بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کوقتل کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا گرین سگنل دیا۔ اگر یہ گرین سگنل نہ ہوتا توشام کا سرکش حکمران کبھی بھی الغوطہ میں اس کے استعمال کی جرات نہ کرتا۔ بشار حکومت الغوطہ سے قبل بھی شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرچکی ہے بلکہ اس کے بعد بھی، جیسا کہ آج ہی حکومت کی جانب سے بعض علاقوں میں زہریلی گیس استعمال کرنے کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ یہ سب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے علم اورمرضی سے ہو رہاہے۔ اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی مداخلت کے لیے انسانی اور اخلاقی اقدار کا جو پردہ استعمال کر رہے ہیں وہ محض سفید جھوٹ اور انتہا درجے کا دوغلاپن ہے ۔ یہ وہ من گھڑت اور خودساختہ حجت بازی ہے جس کی حقیقت ہردیکھنے والےاور قلبِ سلیم رکھنے والے شخص کو معلوم ہے۔
رہی بات اس امریکی فوجی مداخلت کی حقیقت کی جو شرانگیز استعماری قوتوں کی قیادت کر رہا ہے، تویہ بشار کی ایجنٹ حکومت کی جگہ ایک اور ایجنٹ حکومت کا بندوبست کرنے کے لیے ہے ،یعنی عسکری مداخلت کے ذریعے دباؤ ڈال کراپنے منصوبے کے لیے حالات کو سازگار بنایاجائے۔ کیونکہ بشار تواپنا کردار ادا کرچکا،اور وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود قومی کونسل اور اتحاد میں اپنے کارندوں کو شام کے اندر اس قابل نہ بنا سکا کہ لوگ انہیں بشارحکومت کے متبادل کے طور پر قبول کر لیں۔ چنانچہ شرکے اس بلاک نے خوف محسوس کیا کہ اہل شام جواسلام کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں کہیں کفار اور منافقین کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ نہ دیں۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نےمخصوص مقامات پر فوجی مداخلت کے ذریعے اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کا ارادہ کیا،تاکہ اس فوجی مداخلت کے نتیجے میں حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات کوشروع کیا جائے،اور یوں ایک ایسی متبادل ایجنٹ حکومت ترتیب دی جائے جو بشار حکومت سے سوائے اس چیز کے کسی طرح مختلف نہ ہو کہ اس کا منہ کم کالا ہو!
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
اس عسکری مداخلت اور کفارکے ہلاکت خیز منصوبوں کو ناکام بنانے کی مقدور بھر کوشش کر نا فرض ہے۔ یہ سرکش تمہارے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے۔ تم اپنے ملک میں اسلام کی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہونے کے قریب ہو،جس سے تم اپنے دین،اپنی جان،اپنی عزت وآبرو اور اپنے اموال کو محفوظ کر سکو گے۔ ایک ایسی ہدایت یافتہ اور عادل حکومت جو ہر حقدار کو اس کا حق پہنچائے،ایسی خلافتِ راشدہ جو شام کو اس کا نور اور اس کا کردار لوٹادے،کیونکہ یہ اسلام کا مسکن ہے اور عنقریب ان شا ء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ صبر کرو ،صبر کی تلقین کرو اورظلم اور ظالموں کے مقابلے میں سرجوڑ کر یکجان ہو جاؤ۔ یاد رکھو کہ اپنے ملک کو بچا نا تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جتنی بڑی قربانی بھی تمہیں دینی پڑی ،یہ قربانی دنیا اور آخرت میں تمہارے حق میں اس چیز سے ہزار مرتبہ بہتر ہےکہ استعماری کفارتمہیں بچانے کے بہانے تمہارے ملک میں مداخلت کریں۔ یہ بچاؤ نہیں بلکہ ہر لحاظ سے موت اور تباہی ہے﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح اگر تم پر غالب آتے ہیں تو نہ قرابت کا پاس رکھتے ہیں نہ رشتہ داری کا لحاظ اپنی زبان سے تو تمہیں راضی کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس کا انکار کرتے ہیں ان میں اکثر فاسق ہیں"۔
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
بے شک اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافر استعماری ممالک سے مدد طلب کرنا عظیم گناہ اور شرہی شر ہے۔ یہ اللہ،اس کے رسولﷺ اور مومنین کے ساتھ خیانت ہے،ایسا کر کے تم اللہ قوی اور العزیز کے غضب کو دعوت دو گے،اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا﴾"اے ایمان والو !مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست مت بناؤ ،کیا تم اپنے ہی خلاف کھلی دلیل اللہ کو دینا چاہتے ہو"۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا«لَا تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِ»" مشرک کی آگ سے روشنی مت لو"اسے احمد نے انس سے روایت کیا ہے، جبکہ بیہقی کی روایت میں یوں ہے((لا تستضیئوا بنار المشرکین))"مشرکین کی آگ سے روشنی مت لو"۔ اسی طرح بخاری نے بھی اپنی تاریخ الکبیر میں اس حدیث کوانہی الفاظ سے نقل کیا ہے۔ یعنی مشرکین کی آگ کو اپنے لیے روشنی مت بناؤ،یہاں آگ کا لفظ جنگ کی طرف اشارے کے طور پر ہے۔ اس حدیث میں کنایہ کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگ میں مشرکین کوساتھی نہ بناؤ اور ان سے رائے بھی نہ لو۔ اس حدیث سے کفار سے مدد طلب کرنے کی ممانعت کا پتہ چلتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((فانا لا نستعین بمشرک))"ہم کسی مشرک سے مدد نہیں مانگتے"اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ کفار سےعسکری مداخلت کا مطالبہ کرنا حتی کہ ان سے اپنے مسائل کے بارے میں مشورہ لینا عظیم گناہ اور حرام ہے، ایسا کرنا صحیح اور جائز نہیں۔
یقینا یہ نہایت ہی اندوہناک بات ہے کہ استعماری کفار شام میں فوجی مداخلت کا الٹی میٹم اور دھمکی دینے کی جسارت کر رہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کے حکمران ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو چل رہا ہے اس سے اس طرح بے پرواہ ہیں گویا یہ ان سے مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ دور ہے۔گویا یہ حکمران گونگے اور بہرے ہیں اور اہلِ شام کی فریاد سُن ہی نہیں رہے۔ وہ اللہ کی اس پکار پر لبیک نہیں کہتے کہ﴿ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾"اور اگر وہ تم سے دین کی بنیاد پر مدد مانگیں تو تم پران کی مدد کرنا لازم ہے"۔ اگر ان کے اند ر ذرہ برابر بھی حیا ہوتی تو یہ اہل شام کی مدداور شام کے سرکش حکمران سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے بیرکوں میں پڑی مسلمان فوجوں کو متحرک کردیتے،کیونکہ اہلِ شام پڑوسی مسلمان ممالک میں موجوداپنے بھائیوں کی مدد سے ،اللہ کے اذن سے ، سرکش بشارکو اپنے انجام تک پہنچانے اور اس کی جگہ اسلام کے مسکن شام میں اسلامی حکومت قائم کرنے پر قادر ہیں۔ بجائے یہ کہ استعماری کافر ایک ایسی نئی حکومت قائم کرنے کے لیے، جو پرانی حکومت سے چہروں کی تبدیلی کے سوا مختلف نہ ہو،شام میں مداخلت کریں،اوریوں شام ایک بار پھر طاغوت کے پنجوں کی نذر ہوجائے، جبکہ شام میں اسلام کی حکمرانی کا سورج دوبارہ طلوع ہونے کے قریب پہنچ چکاتھا۔
استعماری کفار جس ملک میں بھی آئے انہوں نے اسے برباد کر کے رکھ دیا،اس کی بنیادیں ہی تباہ کرکے رکھ دیں اور اس کے چپے چپے کو ویران کردیا۔ جس ملک میں یہ داخل ہوئے ان کی پھیلائی ہوئی تباہی و بربادی کی نشانیاں اب بھی موجود ہیں اور ان کے جرائم اور کرتوتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شام میں ان کفار کی عسکری مداخلت بہت بڑا زلزلہ اور شر ہو گا،اے مسلمانو، اس سے چوکنے ہو جاؤ۔ خبردار یہ گمان کر کے کہ کفارہمیں بچالیں گے، ان سے مدد مانگنے میں جلدی مت کرو ،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا!
﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾
"تودیکھے گا ان لوگوں کو جن کے دلوں میں مرض ہے کہ اس بارے میں جلدی کریں گے اور کہیں گے ہمیں خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آئے گی۔ ممکن ہے اللہ فتح نصیب کرے گا یا اپنی طرف سے کوئی بھلائی کا معاملہ کرے گا، تب یہ لوگ اس پرشرمندہ ہوں گے جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے "
﴿ إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾"بے شک یہ عبادت گزار قوم کے لیے اعلان ہے"

Read more...

کرنسی کی مضبوطی اور تباہ کن افراط زر کے خاتمے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرو شریعت کے طریقہ کار کے مطابق سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی ہی روپے کی گرتی قدر کا خاتمہ کرسکتی ہے

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ روپے کی گرتی قدر کی بنیادی وجہ مارکیٹ میں ہونے والی سٹے بازی ہےجس کی وجہ سے ملک کو تباہ کن افراط زرکا سامنا ہے جبکہ درحقیقت اس تباہ کن افراط زر کی بنیادی وجہ وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کو حکومت نافذ کررہی ہے۔
ڈالر، پاؤنڈ اور فرانک کی طرح روپیہ بھی کسی قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہوتا تھا۔ ڈالر کی صورت میں وہ قیمتی دھات سونا ہوتی تھی جبکہ روپے کی صورت میں وہ چاندی ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا یہ نظام مالیاتی نظام کو نہ صرف اس خطے میں اندرونی طور پر بلکہ بین الاقوامی تجارت میں بھی استحکام فراہم کرنے کا باعث ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زیر سایہ برصغیر پاک و ہند عالمی معیشت کے لیے ایک انجن کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔
لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جاری ہونے والے سودی قرضوں اور سٹاک مارکیٹ نے کرنسی کی اس قدر طلب پیدا کی جس کو سونے اور چاندی کی رسد(Supply) پورا نہیں کرسکتی تھی۔ لہٰذا ریاستوں نے قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہونے والی کرنسی کے نظام کو چھوڑ دیا اور زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپنے شروع کردیے جن کے پیچھے سونے اور چاندی کے ذخائر موجود نہیں تھے اور اس طرح ہر چھاپے جانے والا نوٹ پچھلے نوٹ سے قدر و قیمت میں کم ہوتا ہے۔ اور پھر جب ان نوٹوں سے اشیاء کو خریدا جاتا اور خدمات حاصل کی جاتیں تو یہ نوٹ اگر چہ اپنی مکمل قدر و قمیت تو نہیں کھوتے لیکن اس کا بڑا حصہ کھو دیتے ہیں۔اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اب اس قدر سرمایہ دارانہ نظام کاطرہ امتیاز بن چکا ہے کہ ہر ملک افراط زرکے پیمانے کا حساب رکھتا کہ وہ کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اسلام نے ریاست پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ قیمتی دھات کی بنیاد پر کرنسی نوٹوں کو جاری کرے اور اس طرح اسلام نے افراط زر کی بنیادی وجہ ہی کا خاتمہ کردیاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ریاست کی کرنسی کے طور پر سونے کے دیناراور چاندی کے درہم ڈھالیں جن کا وزن بالترتیب 4.25گرام اور 2.975گرام ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست خلافت ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک قیمتوں میں استحکام قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔ جو سب سے آسان کام جناب ڈار اور ان کے ساتھی کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیں تا کہ اسلام کا نفاذ کیا جاسکے۔ صرف خلافت کے زیر سایہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو نافذ کرکے ہی مسلمان پوری دنیا کی معاشی ترقی کے لیے ایک مثال قائم کرسکتے ہیں۔

Read more...

سوال وجواب : امریکی پالیسی کے حوالے سے ایران کا کردار

 

سوال :امریکی پالیسی کے حوالے سے ایران کا کردار کیا ہے؟دوسرے لفظوں میں خطے میں رونما ہونے والے واقعات میں ایران کی امریکی پالیسی سے الگ اپنی کوئی پالیسی ہے؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران خطے میں ایک خاص فکر کا علمبردار ہیں جو کہ جعفری مذہب ہے؟آخری بات یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں امریکہ کا حقیقی موقف کیا ہے؟

جواب:اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں پہلے ایرانی حکومت کی حقیقت،انقلاب اور جمہوریت کا اعلان کرنےکے بعد سےاس کی پالیسی اور اس سب کا امریکہ کے ساتھ تعلق کا مختصر جائزہ لینا ہو گا:
1۔ ایرانی انقلاب کی ابتدا سے ہی اس میں امریکہ کا کردار نہایت واضح تھا۔خمینی کے فرانس''ٹوگل لوشاتو"میں موجودگی کے دوران ہی وائٹ ہاوس کے وفود ان سے ملتے رہے اور امریکہ کے ساتھ خمینی کے تعاون کا معاہدہ ہو گیا۔اس وقت کے امریکی اخبارات نے اس حوالے سے اور وہاں ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں خبریں شائع کی۔۔۔۔جس کا انکشاف بعد میں خود ایران کے پہلے جمہوری صدر ابوالحسن بنو صدر نے 12جنوری2000 کو الجزیرہ چینل سے بات کرتے ہوئے کیا کہ وائٹ ہاوس کے وفود "ٹوگل لوشاتو"فرانس آتے رہے جہاں خمینی مقیم تھے۔ان وفود کا استقبال یزدی،بازرکان،موسوی اور اردیبیلی کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔یہاں طرفین کی اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں جن میں سب سے مشہور اکتوبر کی وہ ملاقات ہے جو پیرس کی مضافات میں ہوئی جس میں ریگن اور بش کی پارٹی اور خمینی کی پارٹی کے درمیان ملاقات ہوئی،جس میں خمینی نے یہ کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اس شرط پر تعاون کے لیے تیارہے کہ وہ ایران کے اندونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔اس معاہدے کے بعد ہی خمینی کو فرانسیسی طیارے کے ذریعے تہران پہنچایا گیا،اس کے ساتھ ہی امریکہ نے شاہ پور بختیار پر اقتدار خمینی کے حوالے کرنے کے لیے دباوڈالا اور ایرانی فوجی قیادت کو بھی خمینی کا راستہ روکنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
یوں خمینی مرشد اور حکمران بن گئے۔اس کے بعد عالم اسلام کے دوسرے ملکوں کے دستوروں کی طرح مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے مطابق ہی ایک دستور تیار کیا گیا۔ایران کا دستور بھی مغرب کے دستوروں کی ہی نقل ہے جیسا کہ نظام حکومت جمہوری اور وزارتی تقسیم،پارلیمنٹ کا کام،اختیارات کی تقسیم سب سرمایہ دارانہ نظاموں کے مطابق ہے۔جہاں تک دستور میں موجود اس بات کا تعلق ہے کہ ''ایران کا سرکاری مذہب اسلام اورمسلک جعفری اثنا عشری ہے"یہ بھی عالم اسلام کے اکثر ملکوں کے دستوروں میں موجود اس شق کی طرح ہے جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست اسلام کی بنیاد پر قائم ہے یا ریاست کا کام اسلام کا علمبردار بننا ہے،بلکہ اس کا تعلق رسومات اور تہواروں سے ہے اور لوگوں کے اعتقادات ، عبادات اوران کی زندگی کے بعض امورکو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ایران کے دستور میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ فلاں دین یا فلاں مذہب ریاست کا پیغام یا اس کی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے بلکہ یہ ہدف وطنیت اور قومیت ہے۔یہ ریاست موجودہ عالمی اصولوں اور پیمانوں کے مطابق ہی چلتی ہے ۔ریاست سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر قائم علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات جیسا کہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کی رکنیت، اسلام کی بنیاد پر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جاسکتا ہے کہ ایرانی ریاست کا کوئی خاص پیغام یاکوئی ایسا متعین پروگرام نہیں جو اسلام کی بنیاد پر ہو،بلکہ ایرنی حکومت پر قومیت اور وطنیت کا رنگ ہی غالب ہے،یہی قومیت اور وطنیت ہی اس کی موجودہ حکومت ،ریاستی ڈھانچے اور زمین کی حفاظت کا آئینہ دار ہے۔انقلاب کے ابتدائی دنوں میں ہم نے خمینی سے رابطہ کیا اور ان کوامریکہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ایک اسلامی دستور کا اعلان کرنے کی نصیحت کی ۔ہم نے ان کے سامنے اس دستور کے خدوخال رکھ دیے۔ان کو خط لکھ کرہم نے ایرانی دستورکے نقائص کو تفصیل سے بیان کیا لیکن انہوں نے ہماری نصیحت کو قبول نہیں کیا اور اسلام مخالف دستور اورسرمایہ دارانہ مغربی طرز کے جمہوری نظام پر ہی اصرار کیا ۔
2۔ رہی بات اس مسلک کی جس کو انہوں نے حکومت کا رسمی مسلک قرار دیا ہوا ہے،اس کو بھی انہوں نے ایک پیغام اور ایک ایسے منصوبے کے طور پرشامل نہیں کیا جس کا وہ علمبردار ہوں کیونکہ انہوں نے اپنے نظام حکومت کو اس مسلک کی بنیاد پر استوار نہیں کیا ہے،نہ دستور کو اس مسلک کی بنیاد پر وضع کیا ہے۔اسی طرح دستور کا مواد بھی اس مسلک سے اخذ نہیں کیا گیا ہے،بلکہ نظام حکومت،خارجہ پالیسی،فوج اور امن وامان سے متعلق سارا مواد سرمایہ دارانہ نظام سے ماخوذ ہے۔یہ سعودی نظام حکومت سے مشابہ ہے جو جزیرہ عرب میں پھیلے ''حنبلی مسلک"کو اپنی حکومتی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے،تاہم ایران مسلکی پہلو کو اپنا پیروکار اور حمایتی یاایسے لوگ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے جواس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں،جن کے ہاں تنگ نظر مسلکی نعرے کا راج ہو اور اسی وجہ سے ان کو اپنے وطن کے مفادات کے لیے استعمال کرنا آسان ہو۔یہ جعفری مسلک یا شیعیوں کی خدمت کے لیے نہیں ہوتا کیونکہ وہ شیعیوں جعفری مسلک کی مدد صرف اس وقت کرتا ہے جب وہ ایران کے قومی مفاد میں ہو،اگر سیکیولرازم اس کے مفاد میں ہو تو اسلام،شیعیت اور مسلک کو پس پشت ڈالتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ایران عراقی اور شامی حکومتوں کی مدد کر رہا ہے جو کہ سیکیولر اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔شیعہ سعودیہ کے مشرقی صوبوں میں بھی بڑی تعداد میں ہیں اور یہی علاقے سعودی آئل فیلڈز ہیں اس لیے ایران نے کئی موقعوں پر سعودیہ کو کمزور کرنے کے لیے یہاں افراتفری پھیلانے میں مدد کی اور بحرین میں بھی یہی پالیسی جاری رکھی جس پر سعودیہ نے اپنی فوج کو بحرین میں داخل کردیا۔۔۔۔۔
ایران مسلکی پہلو کو اس وقت جوتے کے نوک پر رکھتا ہے جب وہ اس کے قومی مفادات سے ٹکرائے،آذربائیجان کی مثال لیجئے جب اس نے 1989 کو سوویت یونین قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی اور لوگوں نے ایران کے ساتھ سرحدوں کو مٹاکر ایک ہو نے کا ارادہ کیا اور 1990 میں روسی حملہ آوروں کی طرف سے انکا قتل عام کیا گیا جو ایسی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیےتھی جو ان کی تابع نہ ہو۔ باکو شہر پر یلغار کی گئی،پھر انہوں نے اپنے پرانے کمیونسٹ ایجنٹوں کو ہی حکومت دے دی۔اس سب کے باوجود اس روسی یلغار کے مقابلے میں جس نے ان حریت پسند مسلمانوں کے حقوق کو پامال کر رکھا تھا ایران نے آذربائیجان کے لوگوں کی کوئی مدد نہیں کی جو روسی آگ اور کمیونسٹ پنجے سے بچنے کے لیے جائے پناہ کی تلاش میں تھے۔یاد رہے کہ آذربائیجان کے باشندوں کی اکثریت کا مسلک بھی وہی ہے جو ایران کا سرکاری مسلک ہے۔اسی طرح 1994 آرمینیا کی جانب سے روس کی مدد سے آذربائیجان پر حملے اور اس کے ٪ 20 علاقے پر قبضہ کرکے ایک ملین آذری مسلمانوں کو مہاجر بننے پر مجبور کرنے کے باوجود جو اب بھی ایسی ہی ناگفتہ بہ صورت حال سے دو چارہیں ایران نے ان کی کوئی مدد نہیں کی،بلکہ ایران نے آذربائیجان کی قیمت پر آرمینیا سے تعلقات کو مضبوط کیا!ایران نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی تحریکوں کی مدد کی جن کا اسلام سے کو تعلق نہیں جیسے میشل عون(Michel Aoun) کی تحریک یا سیکیولر تحریکوں کی جیسے لبنان میں نبیہ بری کی تحریک وغیرہ جو امریکہ کے کندھے پر سوار ہوکر نکلی تھیں۔
3۔ خطے میں ایران کے تمام سیاسی اقدامات امریکی منصوبوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگ اور ان کے مطابق ہیں:
ا۔ ایران نے لبنان میں اپنے مسلک کے لوگوں کی ایک جماعت(حزب اللہ)قائم کی جس کو اس قدر مسلح کیا کہ وہ لبنانی سرکاری فوج سے الگ ایک اور فوج بن گئی ،لبنانی حکومت نے بھی اس فوج اور اس کے اسلحے کا اعتراف کرلیا۔یہ سب کو معلوم ہے کہ لبنان کی سیکیولر حکومت امریکی پالیسیوں کی پیروکار ہے۔اس لبنانی حکومت نے اس جماعت(حزب اللہ)کے علاوہ کسی جماعت کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی نہ ہی کسی جماعت کے اسلحے کا اعتراف کیا۔لبنان میں یہ ایرانی حزب شام میں امریکی ایجنٹ حکومت کا ایران کی طرح معاون بن گئی۔امریکہ نے لبنان کی اس ایرانی حزب کو شام میں بشار کی سیکیولر حکومت کو سہارا دینے سے روکا بھی نہیں بلکہ امریکی موافقت سے ہی یہ حزب شام میں گھس آئی،لبنانی فوج نے بھی اس کا راستہ نہیں روکا۔
ب۔ جب امریکہ نے عراق پر قبضہ کیا تو اس کو ایسی مزاحمت کا سامنا ہوا جس کی اس کو توقع نہیں تھی،اس لیے امریکہ نے ایران کو عراق میں داخل کر دیا تا کہ وہ وہاں پر موجود اپنے مسلک کے لوگوں پر اثر انداز ہو کر ان کو امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت سے باز رکھے بلکہ مزاحمت کے مقابلے میں ان کو کھڑا کرے تاکہ وہ مزاحمت کاروں کو چیلنج کریں اور قبضہ کرنے والوں اور ان کی طرف سے بنائی گئی حکومت کو سہارا دیں،خاص کر2005 کے بعد جب امریکہ نے ایران نواز پارٹیوں کے اتحاد کوابراھیم جعفری اور پھر نوری المالکی کی قیادت میں حکومت کرنے کی اجازت دے دی۔یہ حکومتیں امریکہ کی بنائی ہوئی اور اسی کے اشاروں پر ناچنے والی ہیں۔مالکی کی یہ حکومت جس کو ایران کی حمایت حاصل ہے ، نے امریکہ کے ساتھ ایسے اسٹرٹیجگ سیکیورٹی معاہدے کیے کہ جن کی رو سے عراق سے رسمی طور پرنکلنے کے بعد بھی بالادستی امریکہ ہی کی ہوگی۔یہ ایرانی کردار سے امریکی رضامندی کی دلیل ہے جس کے عہدے دار خود عراق پر قبضہ کرنےاور وہاں پر امریکی بالادستی کو دوام دینے میں امریکہ کی مدد کا برملا اعتراف کرچکے ہیں۔امریکہ کی جانب سے عراق پر قبضہ کرنے کے فورا بعد ایران نے عراق میں اپنا سفارت خانہ کھولا، جعفری کے منتخب ہوتے ہی اس وقت کا ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی نے 2005 میں بغداد کا دورہ کیا جو کہ امریکی قبضے کا عروج کا زمانہ تھا،۔دونوں نے قبضے کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اس کی مذمت کی۔جعفری کی جانب سے ایران کا دورہ اور کئی معاہدے جن میں سیکیورٹی فورسز بھیجنے اورسرحدوں اورباڈرز کراسنگ کی نگرانی کے لیے انٹیلیجنس کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ،بصرہ کو ایرنی بجلی کے نیٹورک سے منسلک کر نا ،بصرہ اور عبدان کے درمیان تیل کی پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ۔ایرانی صدر احمدی نژاد نے 2008 کے شروع میں براہ راست قبضے کی تباہی کے سائے میں ہی عراق کا دورہ کیا،یہی احمدی نژاد امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈھینکیں مارتا رہتا تھا،جو صرف زبانی جمع خرچ سے کبھی عمل کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔اس عرصے میں امریکی قبضے کے سائے تلے عراق کا دورہ کر کے یہی احمدی نژاد امریکہ کا سب سے مقرب صدر بن گیا تھا۔اسی طرح صدارت سے فارغ ہونے سے دو ہفتے پہلے عراق کا دورہ کر کے امریکی راج کے محافظ مالکی حکومت حمایت کا اعادہ کیا۔اسی احمدی نژاد نے 2010 میں امریکی قبضے کے زیر سایہ امریکی خادم کرزی کی حمایت کے لیے افغانستان کا دورہ کیا۔
ج۔ یمن میں بھی یہی کیا حوثین کی جماعت بنا کر ان کو مسلح کرکے انگریز کے ایجنٹ علی عبد اللہ صالح کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا،جنوبی یمن کے سیکیولر تحریک جو کہ یمن سے الگ ہونے کے داعی ہیں اور اور امریکی ایجنٹ بھی ہیں کی مدد کر رہا ہے تاکہ جنوبی یمن میں امریکہ کی آلہ کار ایک سیکیولرحکومت قائم کی جاسکے۔
د۔ شامی حکومت کے ساتھ ایران کا تعلق پرانا ہے۔ جب سے گزشتہ صدی کے اسی کی دہائی میں پہلی مرتبہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک اٹھی تب سے ایران نے شامی حکومت کی جانب سے وہاں کے مسلمانوں کی نسل کشی کی حمایت کر رہا ہے۔یہ بھی امریکی منصوبے کے ضمن میں کر رہا ہے جو کہ آل اسد کی قیادت میں قائم حکومت کی پشت پناہ ہی کرنا ہے۔ایران کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ یہ بعثی سیکیولرقوم پرست غیر اسلامی حکومت صدام کی اس حکومت کی طرح ہے جس سے یہ لڑتے رہے ،بلکہ یہ حکومت تو اسلام اور اہل اسلام پر حملہ آور ہے۔یہ بھی اس کو معلوم ہے کہ یہ حکومت امریکہ کی آلہ کار ہے،اس کے باوجو ایران نے کبھی مسلمانوں کے حقوق کا دفاع نہیں کیا،بلکہ اس کے بر عکس مسلمانوں کے خلاف ہی لڑتا رہا اور مجرمانہ طور پر اس کافر حکومت کی ہمیشہ مدد کرتا رہا اور اب بھی کر رہا ہے۔ایرانی حکومت کی شامی حکومت کے ساتھ بھرپور تعلقات ہیں،اس میں عسکری،اقتصادی اور سیاسی تعلقات شامل ہیں۔ایران نے اسد حکومت کی مدد کرنے کے لیے بے تحاشہ اسلحہ فراہم کیا،شام میں تیل اور گیس کے ضروری ذخیرے نہ ہونے کی وجہ سے اس کو انتہائی سستے داموں تیل اور گیس فراہم کی۔جب اسد حکومت گرنے لگی تو ایران کی شامی انقلاب میں مداخلت اور ان کے سیاسی تعلقات بہت واضح طور پر نظر آنے لگے۔اگر ایران اپنے انقلابی گارڈ کے فورسز سے مداخلت نہ کرتا اور اس کی حزب اللہ اور زیر اثر نور المالکی کے ملیشیائیں نہ آتی تو بشار حکومت بہت پہلے گر چکی ہوتی۔القصیر اور حمص کے قتل عام اور اب الغوطہ پر کیمیائی حملہ ایرانی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ھ ۔ افغانستان میں ایران نے امریکی قبضے اور اس دستور کی حمایت کی جس کو امریکہ نے کرزائی کی قیادت میں وضع کیا تھا ۔جب امریکہ شمالی علاقوں میں طالبان کو شکست دینے میں ناکام ہو گیا تو ایران نے ہی ان علاقوں میں امریکہ کی مدد کی۔جمہوریہ ایران کے سابق صدر رفسنجانی نے اس کا ذکر بھی کیا،"اگر ہماری افواج طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد نہ کرتیں تو امریکہ افغانی دلدل میں غرق ہوجاتا"(اخبار الشرق الاوسط 09/02/2002 )۔اسی طرح ایران کے سابق صدر خاتمی کے قانون اور پارلیمانی امور کے لیے نائب محمد علی ابطحی نے خلیج اور مستقبل کے چیلنجز کے موضوع پر امارات کے شہر ابو ظہبی میں 13/01/2004 کو منعقد ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:"اگر ایرانی تعاون نہ ہوتا تو کابل اور بغدادکا سقوط اتنی آسانی سے نہیں ہوتا لیکن اس کا ہمیں یہ بدلہ ملا کہ ہمیں شَر (بدی)کا محور قرار دیا جارہاہے!"(اسلام آن لائن 13/01/2004 )۔سابق صدر احمدی نژاد بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک کے دورے کے دوران نیویارک ٹائمز سے 26/09/2008 کوبات چیت کرتے ہوئے یہ دہرایا اور کہا:"افغانستان کے حوالے سے ایران نے امریکہ کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایاجس کا صلہ ہمیں یہ دیا جارہا ہے کہ امریکی صدر ہم پر براہ راست عسکری حملے کی دھمکی دے رہا ہے،اسی طرح ہمارے ملک نے عراق میں امن وامان اور استحکام قائم کرنے میں امریکہ کی مدد کی"۔
4 ۔ رہی بات ایرنی ایٹمی پروگرام کی تو وہ بھی کئی سالوں سے اسی جگہ ہے باوجود اس کے کہ یہودی وجود یورپی اشیرباد سے ان چند سالوں کے دوران کئی بار حملے کی دھمکی دے چکا ہے مگر ہر بار امریکہ ہی اسرئیل کے آڑے آتا ہے اور اس کوایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔آج تک امریکہ نے ہی اسرئیل کو روکا ہوا ہے۔۔۔۔12/08/2013 کو امریکی جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اسی مقصد سے اسرائیل کا دورہ کیا ۔اس موقعے پر کویتی نیوز ایجنسی کونا نے 12/08/2013 کو ہی اسرئیلی فوجی ریڈیو کے حوالے سے خبر دی کہ''ڈیمپسی کادورہ امریکی فضائیہ کے سربراہ مارک ویلٹیچ کی جانب سے چند دن پہلے اسرائیل کے اسی قسم کے خفیہ دورے کے بعد ہوا ،طرفین کو اس دورے کے دوران زیر بحث آنے والے کسی موضوع کے بارے میں بات کرنے سے منع کیا گیا،ویلٹیچ کے دورے کو امریکہ مطالبے پر خفیہ رکھا گیا،یہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی دھمکی کی وجہ سے خطے میں غیر یقینی صورت کی وجہ سے ہوا"۔کونا ایجنسی نے مزید کہا :''تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی فوج کا سربراہ اپنے میزبان کو مستقبل قریب میں ایران کے خلاف کسی ڈرامائی فیصلہ کرنے سے پہلے ایرانی صدر روحانی کے تقرر کے بعد سفارت کاری کا موقع دینے پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا"۔امریکہ ہی نے 1981 میں صدام دور میں اسرائیل کو عراق کے ایٹمی تنصیبات، جوکہ بالکل ابتدائی مراحل میں تھیں، پر حملہ کرنے اجازت دی لیکن یہی امریکہ اسرئیل کو ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے سے باز رکھ رہا ہے جو یورینیم کی افزودگی بھی کر رہا ہے جوکہ ٪20 افزودہ کیا جاچکا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران کے نظام کو بچانا خطے میں اس کے مفادات کے لیے ضروری ہے۔وہ ایران کو ایک ایسی چڑیل کے طور پر باقی رکھنا چاہتا ہے جس سے خلیج کی ریاستوں کو خوف زدہ کرکے ان پر اپنے اثرورسوخ کو مستحکم کرتا رہے اور اس کو عالم اسلام پر اپنی بالادستی کو دوام دینے کے لیے استعما ل کرتا رہے۔
ذرا پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ان ایٹمی مذاکرات کی حقیقت کا بھی علم ہو تا ہے جو 2003 سے شروع ہوئے جن میں امریکہ کا مطمع نظر ایٹمی تنصیبات کے خلاف کوئی عملی اقدام کے بغیر صرف پابندیاں لگانا ہے۔اس طریقہ کار سے امریکہ نے یورپی کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا اور اسرائیل کو بھی زچ کر کے رکھ دیا۔ہر بار بات چیت کا اختتام امریکہ کی جانب سے کسی فوجی اقدام کے بغیر صرف چند اضافی پابندیاں لگانے کو مسئلے کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔امریکہ نے اسرئیل کی تشویش کو کم کرنے کے لیے کئی بار مداخلت کی ،یوں امریکہ ایرانی نظام برقرار رکھنا چاہتا ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ ایرنی ایٹمی پروگرام کا معاملہ اسی طرح چلتا رہے کہ وہ ایٹم بم بھی نہ بناسکے اور یہ پروگرام مکمل طور پر ختم بھی نہ ہو،بلکہ جیسا کہ ہم نے کہاکہ امریکہ ایران کو ایک خطرناک چڑیل کے طور پر پیش کر کے خلیجی ریاستوں کو ڈراتا ہے تا کہ ان پر امریکی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہے اور خلیج میں امریکہ کی عسکری موجودگی برقرار رہے۔ساتھ ہی امریکہ نے ترکی اور وسطی یورپ میں ایرانی ایٹمی اسلحے کے خطرے اور اس سے حفاظت کے بہانے سےاپنا میزائل ڈیفنس شیلڈ بھی نصب کر رکھا ہے!اپنی وزارت دفاع کے بجٹ کو بڑھانے کے لیے بھی اس کو بہانے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
5 ۔جہا ں تک امریکہ اور ایران کے درمیان بظاہر نظر آنے والی دشمنی کی بات ہےتو اس کو یوں سمجھنا ممکن ہے:
ا ۔انقلاب سے پہلے اور بعد میں بھی رائے عامہ امریکہ کے سخت خلاف تھی۔ لوگ امریکہ کو اپنی بدحالی کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔شاہ اور اس کے مظالم کا پشت پناہ امریکہ کو سمجھتے تھے اور اسے شیطان اکبر کا خطاب دیا ہوا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکمران دوطرفہ مذکرات کی بحالی اور سفارتی تعلقات کا اعادہ کرنے کا براہ راست اعلان نہ کر سکے،خاص طور پر پیرس میں خمینی کے ساتھ امریکی رابطے اور امریکہ کی جانب سے ایرانی فوج پر خمینی کے انقلاب میں روکاوٹ نہ بننے کے لیے دباو ڈالنے کے باوجود بھی۔۔۔۔۔یہ سب کوئی راز کی بات نہیں تھی،لہذا امریکیوں کے ساتھ بیٹھنے کاجواز پیدا کرنے کے لیےکچھ گرما گرم صورت حال کو پیدا کرنا ایرانی حکومت کی ضرورت تھی۔اسی مقصد کے لیے 04/10/1979 امریکی سفارت خانے میں یرغمالیوں کا واقع رونما ہوا جس کے نتیجے میں ایران اور امریکہ کے سفارتی تعلقات منقطع کیے گئے تاکہ خمینی کے موقف کو تقویت ملے اوراس کی ،مخالفت کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے اور یوں دوطرفہ تعلقات کی حقیقت پر پردہ ڈالا جاسکے اوربعد میں خود امریکی ذرائع نے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ یہ ایک سوچا سمجھا امریکی ڈراما تھا۔حسن بنو صدر نے بھی الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے مذکورہ ڈرامے کا ذکر کیا اور کہا کہ"یہ امریکیوں کے ساتھ اتفاق رائے سے رچایا گیا تھا اور یہ امریکیوں کا ہی منصوبہ تھا میں نے بھی خمینی کی جانب سے قائل کرنے پر اس کو قبول کیا"۔طرفین نے 20/01/1981 کو ایک معاہدے پر دستخط کیا جو الجزائر ایگریمنٹ کے نام سے مشہور ہوا جس کی رو سے یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔یہ اس دن ہوا جس دن امریکی صدر ریگن امریکہ کے صدر کی حیثیت سے اقتدار پر متمکن ہوا۔اس معاہدے کے ذریعے امریکہ نے خمینی کی نئی حکومت کو ضمنی طور پر تسلیم کر لیا جس کی رو سے طرفین ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور دونوں ملکوں کے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کسی تیسرے فریق کومقرر کیا جائے گا۔اس کے بعد ہی ایران کے ان 12 ارب ڈالرز کو واپس کیا جن کو اکاونٹز منجمد کر کے روکا گیا تھا۔۔۔
ب ۔ ایرانی حکمرانوں نے ان تعلقات کو بحال کرنے کے لیے ماحول بنانےکے لیے کافی عرصے سے کام کیا تھا ،اگر چہ دونوں کے درمیان خفیہ رابطے اور تعاون جاری تھا،جس کا انکشاف خود ایرانی عہدے داروں نے کیا ہے اوراب بھی اسی طریقہ کار پر گامزن ہیں۔۔۔۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اس طرح رکھنا دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ایران یہ ظاہر کرتا رہتا ہے کہ وہ امریکہ کا مخالف ہے اور اس کے استعماری منصوبوں میں اس کے شانہ بشانہ چلنے اور اس کے ساتھ سودے بازی کو چھپاتا رہتا ہے،حالانکہ یہ ان منصوبوں کو نافذ کرنے میں امریکہ کا دست وبازو ہے۔امریکہ بھی یہ دکھاتا ہے کہ وہ ایران سے عداوت رکھتا ہے اور اس کے خلاف کام کرتا ہے یوں وہ یورپ اور یہود کو لگام ڈالتا ہے،وہ خطے میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ اور مغرب میں ایرانی مخالف رائے عامہ کو دھوکہ دیتا ہے۔جمہوریہ کے اعلان کے بعد اعلی مناصب پر فائز ہونے والے بعض حکمرانوں کوایرانی عوام کی جانب سے امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا گیا جیسا کہ جمہوریہ کے سربراہ بنو صدر جس کو اس وقت امریکہ مخالف مضبوط لہر کی بنا پر برطرف کیا گیا۔لیکن جمہوریہ کے سربراہ رفسنجانی نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا انکشاف کر دیا جیسا ایران گیٹ اور ایران کونٹرا لیکن اس کو برطرف نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت وہ امریکہ مخالف لہر موجود نہیں تھی۔جمہوریہ کے کئی صدور کو کبھی اصلاح پسند اور کبھی اعتدال پسند کہہ کر سزادی گئی،کبھی ان کو قدامت پسند اور سخت گیر کہہ کر گوش مالی کی گئی لیکن اس کے باوجود ایرانی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں گئی بلکہ بدستور وہی شعلہ بیانی کا سلسلہ جارہی ہے جس کے ساتھ کوئی عمل نہیں اور جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ایران کے بارے میں امریکی موقف میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ کبھی ریپبلیکنز سخت لفاظی کرکے اس کو برائی کے محور ممالک میں سرفہرست قرار دیں تو ڈیموکریٹس کی جانب سے نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے،لیکن امریکہ نے ابھی تک ایران کے خلاف کوئی سنجیدہ اور سخت اقدام نہیں کیے۔نئے ایرانی صدر روحانی نے حکومت تشکیل دینے کے بعد کہا کہ:"اس کی حکومت خارجہ پالیسی میں دھمکیوں کوروکے گی اور کشیدگی کا خاتمہ کرے گی"(رائٹرز 12/08/2013 )۔اور اس نے" محمد جواد ظریف کو وزیر خارجہ مقرر کیا جو اقوام متحدہ میں سابق سفیر ہیں جس نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہوئی ہے واشنگٹن اور تہران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خفیہ مذاکرات کا یہ ایک بنیادی رکن رہ چکا ہے"(رائٹرز 12/08/2013 )۔روحانی صدر منتخب ہونے کے بعد انتہائی وضاحت سے کہہ چکے ہیں کہ :"ہم ایران اور امریکہ کے درمیان مزید تناؤاور کشیدگی دیکھنا نہیں چاہتے،حکمت ہمیں بتا تی ہے کہ دونوں ملکوں کو مستقبل کے بارے میں فکر کرنےگزشتہ مسائل کو حل کرنے کے لیے مل بیٹھنے اور معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے"( رائٹرز17 /06/2013 )،جس کا امریکی صدر اوباما نے یہ کہہ کر جواب دیا:"امریکہ ایرانی حکومت کے ساتھ سفارتی حل تک پہنچنے کے لیے براہ راست مذکرات کے لیے تیار ہے،تاکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کی تشویش کا ازالہ کیا جائے"۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ خفیہ طریقے سے چلنے کے مرحلے کو ختم کر کے اعلانیہ اس کے ساتھ چلنا چاہتا ہے لیکن یہ ذرا مختلف شکل میں ہو کہ اس کو ایک علاقائی بااثر ملک کے طور پر دکھایا جائے اور خطے کے فیصلوں میں اس کو شامل کیا جائے۔
6 ۔ جو کچھ ہم نے اوپر کہا اس کی بنیاد پر ہم یہ خلاصلہ نکالتے ہیں:
جس مسلک کو ایران نے سرکاری مسلک کے طور پر اختیار کررکھا ہے اس کو بطور ایک پیغام(رسالت)یاایک ایسی آیڈیالوجی کے طور پر اختیارنہیں کیا جس کا وہ علمبردار ہو،کیونکہ اس نے ملک کے نظام کی تاسیس اس مسلک کی بنیادپر نہیں کی ہے،نہ ہی انہوں نے اپنا دستور اس مسلک کی اساس پر وضع کیا ہے،نہ ہی اس کے دفعات اس سے ماخوذ ہیں،بلکہ نظام حکومت،خارجہ پالیسی،فوج،سیکیورٹی سے متعلق بنیادی دفعات سب سرمایہ دارانہ نظام سے ماخوذ ہیں۔یہ بالکل سعودی نظام حکومت کی طرح ہے جو ملک کے طول عرض میں پھیلے ''حنبلی مسلک"کو حکومتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔جہاں تک ایران کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے وہ خطے میں امریکی مفادات کے گرد گھومتی ہے، گریٹ مشرق وسطی اور اسلامی ملکوں میں بھی یہی حال ہے۔مثال کے طور پر تہران نےعراق اور افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنے میں گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ کی بھرپور معاونت کی،لبنان میں اپنی جماعت(حزب اللہ)کے ذریعے وہاں سیاسی منطرنامے کو امریکہ کے حق میں کرنے میں کردار ادا کیا،حال ہی میں شام میں بشار الاسد کی مدد کر کے امریکی بالادستی کی حفاظت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا،یوں ایران افغانستان،شام،لبنان اور عراق میں امریکہ کے خادم کا کردار ادا کررہا ہے۔خطے سے باہر بھی امریکہ ایرانی رویے کو جواز بنا کر اپنے میزائیل ڈیفنس شیلڈ کو نصب کرنے،خلیج تعاون کونسل کے ممالک کو غیر متوازن امن معاہدے میں مربوط کرنے اور خلیجی ریاستوں کوایران سے ڈراکر اربوں ڈالرکا اسلحہ فروخت کرنے میں کامیاب ہو گیا!
ایران امریکہ کے ساتھ چل رہا ہے اور اس ساتھ چلنے کا مطلب اور اپنی حدود بھی جانتا ہے اور ان حدود سے تجاوز بھی نہیں کرتالیکن گمراہ کرنے یا حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے کبھی کبھی شعلہ بیانی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے جیسا کہ احمدی نژاد کے دور میں ہوا جس نے عراق،افغانستان اور شام میں امریکہ کی خوب خدمت کی۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایران کی حکومت کو اپنے مفادات کا سب سے بڑاخادم کے طور پر دیکھتی ہے اور امریکی پالیسی ساز ادارے ایران میں نظام کو تبدیل کر نے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جس کی وضاحت 12 دسمبر 2008 کو روبرٹ گیٹس نے بحرین میں بین الاقوامی امن کانفرنس کے موقع پر امریکہ اور ایران کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کی اور کہا:"کوئی بھی ایران میں نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔۔۔۔ہم جو چاہ رہے ہیں وہ صر ف اتنا ہے کہ سیاست اور رویے میں اس طرح تبدیلی آنی چاہیے کہ ایران خطے کے ممالک کا اچھا ہمسایہ بن جائے نہ کہ عدم استحکام اور تشدد کا مصدر بن جائے"۔

Read more...

حزب التحریرنے خلافت کے عدالتی پالیسی کا اعلان کردیا یقینی،بروقت اور بغیر کسی امتیاز کے انصاف فراہم کرنے کے لیے عدالتی پالیسی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے عدالتی پالیسی کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویزجاری کی ہے۔یہ پالیسی ایسے عدالتی نظام کو یقینی بنائے گی جو بدعنوانی اورامتیازی سلوک سے پاک ہو، لوگوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے اور حکمرانوں کے احتساب میں انتہائی سخت ہو۔
اسلام کا عدالتی نظام انسانی تاریخ کا سب سے سے زیادہ تفصیلی اور گہری سوچ پر مبنی نظام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وقت سے اسلام بروقت اور کسی بھی امتیاز سے مبرا انصاف فراہم کرنےکے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن خلافت کے خاتمے اور شریعت کے نفاذ کی منسوخی کے بعد سے لوگوں کےدرمیان اختلافات اور جھگڑوں کےتصفیے، حکمرانوں کے احتساب اور لوگوں کے حقوق کی فراہمی کے معاملات انتہائی دگرگوں صورتحال اختیار کرچکے ہیں۔
بروقت، بلامتیاز اور شفاف انصاف کی فراہمی اسلامی کے عدالتی نظام کی پہچان ہے۔ اس کے علاوہ تیرہ سو سالوں تک شریعت دنیا بھر کی تہذیبوں کے لیے ایک راہنما تھی جس نے مغربی اقوام کو اپنے قانونی اور حکمرانی کے اصول و ضوابط میں تبدیلی لانے پر مجبور کیا، مثلاًفرانس کا نیپولیونک کوڈ، برطانیہ کا میگنا کارٹا اور امریکی آئین۔
جمہوریت کے برخلاف اسلام میں یہ اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو جرم، اس کو ثابت کرنے کے لیے درکار ثبوت اور سزا سے متعلق قوانین سے انسانیت کو آگاہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ "کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو"(الملک:14)۔ لہٰذا اسلام میں طاقت، رتبے یا کسی بھی اور وجہ کی بنیاد پر کوئی امتیازی قوانین نہیں ہوتے کیونکہ یہ قوانین اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے نازل کیے گئے ہیں۔ کمزور کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ اس کا تعلق کس نسل، رتبے، جنس، مکتبہ فکر یا مذہب سے ہے۔ اسلام میں کسی حکمران کو اسلام کے احکامات سے استثناء حاصل نہیں ہوتا چاہے وہ خلیفہ ہو یا والی (گورنر)۔
اسلام نہ صرف طاقتور کو ظلم سے روکتا ہے بلکہ بروقت انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اسلام کا عدالتی نظام ایک منفرد نظام ہے جس میں اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی مختلف درجوں کی عدالتیں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے آج لوگ ایک گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ جب ایک بار ایک مقدمے میں اللہ کا حکم ثابت ہوجاتا ہے تو مقدمہ ختم ہوجاتا ہے۔ صرف اُس صورت میں مقدمہ دوبارہ کھولا جاسکتا ہے کہ اگر فیصلہ اللہ کے حکم کے خلاف ہو یا مقدمے کی حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا ہو۔
جہاں تک سزاؤں کا تعلق ہے تواسلام نے ایسی سزائیں تجویز کی ہیں جو مجرموں کو جرم کرنے سے باز رکھتی ہیں جبکہ مغربی سزائیں جرائم میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی ہیں جس کے نتیجے میں جیلوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
اس پالیسی اوراس سے متعلق ریاست خلافت کے دستور کی دفعات کے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیے۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm

 

Read more...

سوال وجواب :  کیاواقعی عالمی معیشت بہترہورہی ہے

 

سوال : 6/9/2013کوجمعہ کے دن G-20کی سربراہی اقتصادی کانفرنس سینٹ پیٹرس برگ(روس) میں حتمی بیان کی منظوری کے ساتھ اختتام کو

پہنچی۔ 6/9/2013کوروئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق بیان میں کہاگیاکہ " عالمی معیشت روبصحت ہے " ۔ ایجنسی نے رشین فائنانس منسٹری کے ڈائریکٹر آف ڈیپارٹمنٹ آندرے بوکاریف کے حوالے سے کہا،جس نے جی ٹونٹی کے اختتامی بیان کی تیاری میں شمولیت کی،کہ" مشکل ترین اورطویل ترین بحث، عالمی اقتصاد کاجائزہ لینے اور اس کی تشخیص کی تھی"۔ تازہ ترین اعدادوشمار ا س بہتری کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،چنانچہ یورپی یونین نے بیان جاریکیاہے کہ ان کی معیشت بڑھ رہی ہے،اگرچہ اس کی شرح نموکم ہے ۔امریکہ نے کہاہے کہ سال 2013 میں اس کی معیشت 1٪ کی شرح سے بڑھی ہے اورچین نے ایسے اعدادوشمار جاری کیے جن کی مطابق سال رواں میں اس کی معیشت جولائی 2013تک 7٪سے زیادہ کی شرح سے بڑھی ہے۔
تو کیاواقعی عالمی معیشت بہترہورہی ہے ،جس کے نتیجے میں 2007میں امریکہ میں شروع ہونے والااقتصادی بحران ،جوچھ سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا،میں کمی آئی؟ اوراگرمعیشت بہترنہیں ہوئی، توان معلومات اوراعداد وشمارکاکیامطلب ؟ امید ہے کہ اس کی کچھ وضاحت فرمائیں گے ،جزاک اللہ خیراً۔

 

جواب : ہم پہلے عالمی سطح پرمعاشی پہلوسے نمایاں طورپر اثراندازہونے والے ممالک ،یعنی امریکہ ،یورپی یونین اورچین کی اقتصادی صورتحال کوسامنے رکھتے ہیں کیونکہ ان ممالک کی معیشت دنیاکی50 ٪ سے زائد معیشت کی نمائندگی کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ عالمی اقتصادی بحران کاامریکہ اوریورپی یونین کے اختیارکردہ سرمایہ داریت کے ساتھ گہرا رابطہ ہے،اس لئے اس بحران میں اصل کرداران ہی کاہے۔جہاں تک چین کی بات ہے ،توجیساکہ ہم آگے بتائیں گے کہ اس بحران کوکھڑاکردنے یااس پرقابوپانے میں اس کاکردارردِعمل کاتھا،نہ کہ اثراندازی کا۔ آپ کی معلومات کیلئے کہ تنہاامریکی معیشت دنیاکی تین بڑی اقتصادی طاقتوں ،چین ،جاپان اورجرمنی کی مجموعی معیشت کی لگ بھگ ہے ، جن کانمبرامریکہ کے بعد آتاہے،کیونکہ ورلڈ بینک اوراقتصادی ترقی و تعاون آرگنائزیشن کے بیانات کے مطابق ،سال 2012 میں امریکی معیشت کاحجم15.1ٹریلین ڈالر تھا،جوعالمی معیشت کا 22٪ ہے ،جبکہ چین کی معیشت 8.2ٹریلین ڈالرتھی۔جہاں تک جاپان اورجرمنی کی معیشت کی بات ہے ،تویہ بالترتیب 5.9اور3.4ٹریلین ڈالر تھی۔ امریکی معیشت کے اس وسیع حجم کے باعث امریکی اقتصادی بحران کے اثرات پوری دنیامیں رونماہوئے ،جوامریکہ میں جائیدادکی پراپرٹی مارکیٹ کے انہدام کے نتیجے میں پیداہوا ۔ اس بناپرہم بحث کو ان تینوں ممالک کی معیشت پرمرکوزرکھیں گے، جو عالمی معیشت پرسب سے زیادہ اثراندازہوتے ہیں ،اورچونکہ معیشت کی بہتری یاعدم بہتری کی حقیقت کی طرف اشارہ دینے والے نمایاں ترین عوامل : بے روزگاری کی شرح ،علاقائی قرضے ،انتظامی اداروںجیسے میونسپلٹی کے اخراجات مع سوشل اخراجات ، اورحکومتی قرضے، ہیں اوریہ تینوں عوامل لیبرمارکیٹ ،کرنسی ایکسچینج مارکیٹ ،نیز حکومتی اورپرائیویٹ منصوبوں کی مارکیٹوں کی سرگرمیوں کے غمازہوتے ہیں ،اس لئے ہماری بحث کامحور یہی تین عوامل ہوں گے ،اس بحث کے نتیجے میں ہی ہم عالمی معیشت کی بہتری یاعدم بہتری کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔
پہلا : یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ :
1.بے روزگاری کی شرح : سنٹر ل بینک نے 2008 کےاواخرمیں جان بوجھ کر قرضوں پرشرح سود میں کمی کرکے صفرکے قریب لے آیااور جنرل بجٹ میں بانڈزخریداری پروگرام کے تحت تین گنااضافہ کیا،جولگ بھگ تین ٹریلین ڈالر کاتھااورسنٹرسل بینک نے اپنی آخری میٹنگ میں اس کےماہانہ شرح کو85 بلین تک برقراررکھا۔یہ سب کچھ طویل المیعاد قرضوںکے اخراجات میں کمی لانے کیلئے کیا اور اس طرح کاروبارکے مالکان اورمنصوبوں کوچلانے والوں کیلئے قرض کاحصول آسان بنایاگیاتاکہ لیبرمارکیٹ کوفروغ دیاجائے لیکن اس کے باوجود بے روزگاری کی شرح گزشتہ مہینے7.9%کی نسبت سے برھتی رہی،یہ5سال قبل کی شرح سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو8.9%تھی ۔باوجود یکہ یونائیٹڈ سٹیٹس نے ترغیبی بل کی منظوری دیدی ،یعنی شئیرز کی خریداری کرکے کمپنیوں میں سرمایہ کی فراہمی کابل،یہ بل 2009 سے نافذ کیاگیا،مگر معیشت کے تن ِمردہ میں جان آئی اورنہ ہی بے روزگاری کی شرح میں خاطرخواہ کمی ہوئی ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ بڑا بحران برقرار ہے اور معیشت بہتر نہیں آئی ہے۔
2. سروسزر سیکٹرکاقرضہ ،مثلابلدیات ( municipalities): سکائی نیوز کی عربی ویب سائٹ نے 11/8/2013 کوذکرکیا کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے شہروں اورمیونسپلٹیز میں قرضوںکے بوجھ اوران کی ادائیگی سے قاصر ہونے کی وجہ سےدوسالوں میں 41شہروں کومالیاتی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے"۔ اس کامطلب ہے کہ کئی امریکی شہری آج تک عالمی مالیاتی بحران کے اثرات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایکبارپھرامریکیشہروںپرماضیکیدیوالیہپنکیپرچھائیاںنظرآنےلگیں ہیںجب گزشتہ جولائی میں اپنے ذمہ اٹھارہ بلین ڈالر کاقرضہ واپس کرنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے امریکی ریاست ڈیٹروئٹ نےسرکاری طورپردیوالیہ ہونے کااعلان کیا ۔ قرض خواہوں سے بچنےیابالفاظِ دیگرحقیقت سے فراراورآسان حل کیلئے مالیاتی دیوالیہ کا اعلان ہی میونسپل اداروں اورشہروں کی آخری اُمید ہوتی ہے۔ "امریکی انسٹی ٹیوٹ برائے دیوالیہ پن "کےاعدادوشمار کے مطابق 2007اور2011کے درمیانی عرصہ میںامریکی شہروں اوربلدیات کے40 سےزائددیوالیا ہونے کے کیسزسامنےآئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ سالانہ 8 دیوالیہ پن کے کیسز سامنے آرہے ہیں ۔یہ اخباری رپورٹ ظاہرکرتی ہے کہ پچھلے دو سالوں (2011اور2013 )کےدوران شہروں کے دیوالیہ ہونے کے کیسز معاشی بحران کے عروج پر ہونے کے عرصے سے بھی زیادہ سامنے آئیں ہیں، جس سے امریکی اقتصاد کی بہتری کے بارے میں شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں۔
3. حکومتی قرضے: امریکی وزیرِ خزانہ جیکب لیو نے 26/8/2013کوکانگریس کوبھیجے گئے اپنےایک خط میں متنبہ کیاکہ : "حکومت کواپنےقرضوں کی ادائیگی کی نااہلی سے بچانے کیلئےگزشتہ مئی میں کیے گئےغیرمعمولی اقدامات کی مدت،اکتوبرکے وسط میں ختم ہونے والی ہے" اوراس نےکانگریس پرزوردیاکہ وہ قرض لینے کی حکومتی حق میں توسیع کرے( القدس ویب سائیٹ 27/8/2013) ۔امریکی وزیرخزانہ جیکب لیو نے اپنے خط میں اشارہ کیاکہ: اگر حکومت کےمجموعی قرضوں کی حد کو بڑھایا نہ گیا ،جس کی فی الحال جائزانتہائی حد16.7ٹریلین ڈالرزہے، تواس سال 15 اکتوبر کے آتے ہی امریکی حکومت اپنی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کیلئے درکارضروری وسائلسےبہت جلد ہاتھ دھوبیٹھے گی" ۔اس نےانتباہ دیتے ہوئے کہا:"مالیاتی مارکیٹ میں بگاڑآسکتاہے ،اوراگرحکومتی قرضوں کی حد موجودہ سطح پر رہی تومعیشت گرسکتی ہے۔" اس نے مزید کہا:" کانگریس کا مشن یہ ہوناچاہئےکہ یونائیٹڈ اسٹیٹس کے اعتماد کی حفاظت کی جائے،کیونکہ کوئی دوسراادارہحکومتی قرضوں کی حداونچی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا" ( رشیاٹوڈےویب سائٹ 8/28/2013)۔ یعنی امریکہکے قرضے اب16.7ٹریلین ڈالرزکی آخری جائز حد کوچھورہے ہیں،لیکن اس کے باوجود اس کامطالبہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کوپوراکرنےکیلئے قرضوں کی حد اونچی کردی جائے۔
یہ امریکہ کی صورتحال ہے ،جہاں قرضوں کی سطح بہت بلندہوئی ہے اوراپنے اخراجات اور خسارےکوپوراکرنے اورمعاشی زوال سے بچنے کیلئے وہ قرض حآصل کرنے کی حد کومزید بلند کرنا چاہتا ہے ۔ یہ صورتحال کسی بھی طرح امریکی معیشت میں بہتری کااشارہ دیتی ہے اورنہ ہی بحران سے نکل جانے کی غمازہے۔
دوسرا : یورپی یونین :
1۔ بے روزگاری کی شرح :آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈ (Christine Lagarde)نے بیان دیاہے کہ" اسپین اوریونان میں بے روزگار ہونے والوں کی شرح 27٪ہے" (یورونیوز ویب پیج ،26/4/2013) ۔اس نے 3/5/2013کومزید بتایاکہ " یہ توقع کی جاتی ہے کہ 17ریاستوں پرمشتمل یوروزون میں فروری میں بے روزگاری کی شرح 12٪تھی اور جنوری کے مہینے میں بے روزگاری کی شرح 11.9٪تھی لیکن بعد میں اعدادوشمار میں تبدیلی کے بعد وہ بھی 12٪ نکلی،لگسمبرگ میں یورپی یونین کے اعدادوشمار کے آفس نے آج کہا کہ یورپی یونین کمیشن اس سال بے روزگاری کی شرح 12.2٪ ہونے کی پیش گوئی کرتا ہے جبکہ 2014میں بے روزگاری کی شرح اوسطاً 12.1٪تک پہنچ جائےگی"۔
یورپین کمیشن کےوائس پریذیڈنٹ فاراکانومک اینڈ مانیٹری افئیرز،اولی رین Olli Rehnنے کہا کہ "کسادبازاری(recession)کےتسلسل کے پیش نظرہمیں یورپ میں بے روزگاری کے بحران کاسامناکرنے اوراس پرقابوپانے کیلئے بھرپورانداز میں ہرممکن کوشش بروئے کارلاناہوگی"۔
انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کےانٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فارلیبرسٹڈیز کے ڈائریکٹرریمنڈ ٹوریس Raymond Torresنے کہا " اگرہم نے واضح پالیسیاں اختیارنہ کیں، تویورپ میں کساد بازاری recessionکے بحران کے خطرات پیداہوں گے، جس کی وجہ سے طویل عرصے تک مزید لوگ بے روزگاری کاشکارہوں گے یا اس مارکیٹ سے ہی نکل جائیں گے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اب اس مارکیٹ میں موجود ہی نہیں ہیں "۔ اس نے مزید کہا" بالخصوص یوروزون میں تیز ترترقی کی پالیسی کواپناناوقت کی اہم ضرورت ہے ،اورسمال بزنس کوآسان قرضے فراہم کیے بغیرلیبرمارکیٹ میں حرکت پیداہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی " (یورونیوز 3/6/2013) ۔ ایرونیوز نے مزیدکہا کہ" آرگنائزیشن نے اشارہ دیاکہ 2010سےاب تک دوتہائی یورپین ممالک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اوریہ واضح کیاکہبے روزگاری کی شرح کو بحران سے پہلے والی شرح تک ،جوکہ5۔6٪تھی، لانے کیلئے 30 ملین روزگارکے مواقع پیداکرنے کی ضرورت ہے"۔
2.سوشل اخراجات : یورونیوزویب پیج نے 30/8/2013کوشائع کیاکہ " ڈنمارک کے وزیرخزانہ بجارنی کوریڈونBjarne Corydonکے مطابق،اسکنڈینویا(شمالی یورپ ) کے ممالک، جو ایک عرصے سے فلاہی ریاست کے حواکے سے شہرت رکھتی ہیں،اب مزید اپنے شہریوں کو ویسی سہولتیں فراہم نہیں کرسکتیں "۔اقتصادی ترقی وتعاون تنظیم نے حال ہی میں ممبرممالک کے اخراجات کے اعدادوشمارپیش کیے۔فرانس اس فہرست میں اپنی کُل قومی پیداوار کا33%فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کے حوالے سے پہلی پوزیشن پر ہے ،پھرڈنمارک اوربلجیم%30.8کی نسبت سے ، اس کے بعد 30.6%کی نسبت سےفین لینڈ ،سویڈن 28.6%ہیں۔ یہ اخراجات ان ممالک کے شہریوں کی تمام ضروریات کوپوراکرنے کیلئے ناکافی ہیں ،ماسوائے جرمنی کے کہ اس کے سماجی شعبے میں اخراجات کسی حد تک قابل قبول ہی۔ آپ اندازہ کریں یہ ان ممالک کی حالت ہے جواخراجات کے حوالے سے سب سے زیادہ طاقتورشمارکئے جاتے ہیں تو پھردیگرکمزور ممالک کی حالت کیاہوگی؟
3۔ قرضے :یورونیوز ویب پیج نے 22/7/2013کوشائع کیاکہ" یوروزون اس مالیاتی سال کے پہلےتین مہینوں میں مزید قرضوں میں دھنس گیا ہے باوجود اس بات کے کہ اخراجات میں کمی کی رفتار کو کچھ سست رفتار کیا گیا ہے جبکہ اس دوران یونان، اٹلی اور پرتگال نے کُل قومی پیداوار اور قرض کیے درمیان شرح کا بدترین ریکارڈ پیش کیا اور کم ترین شرح لیگسمبرک اور ایسٹونیا کی ہے"۔یہ بھی ذکرکیاکہ " واحد کرنسی بلاک کے کساد بازاری recessionکی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جبکہ بے روزگاری کی شترح انتہائی بلند اور معاشی بہتری کی بہت کم توقع ہے"۔معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے یورپی حکومتوں یہ فیصلہ کیا کہ اخراجات میں کمی کی رفتار کو سست کیا جائے لیکن اس کے نتیجے میں قرضوں پر شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہوا کیونکہ سرمایہ کار اس حوالے سے پریشان تھے کہ کہی اتنے بڑے حکومتی قرضے ان کی رقم کی واپسے کے امکانات کو کم نہ کردیں"۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ یورپی یونین کے کئی ممالک نے یونین میں شامل ہونے کے بعد قرضےحاصل کرلئے، جن کاحجم ان کی معیشت سے تجاوز کرگیا ۔جب یہ بحران یورپ پہنچا تویورپی یونینکے کئی ممالک ایک ایسی صورتحال سے دوچار تھے کہ وہ بحران کے شروع ہونے سے قبل کے قرضے بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ۔یہ ذہن میں رہے کہ یورپی معیشت میں پہلے درجے کی مؤثرریاست جرمنی ہے،جواس قابل ہوئی کہ اس نے یورپی یونین میں موجود یورو زون کے ممالک پر اخراجات کم کرنے اورقوموں پرموجود مقروضوں میں کمی کرنےاورسادگی کی زندگی اپنانے کی پالیسی مسلط کی جبکہ اس کے برعکس امریکہ نے سرمائے کی ترسیل اورزیادہ قرضے لینے کی پالیسی اپنائی۔
لہذا یہ بیانات اوررپورٹیںاس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یورپی معیشت تاحال بحران کے اثرات سے دوچارہے ،اوروہ اس سے نکل نہیں پارہی،وہ اب تک کساد بازاری کا شکار ہے اوراس لئے اس میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے۔
تیسرا : چین
بلاشبہ چینی معیشت کامعاملہ مختلف ہے ،کیونکہ چینی معیشت کے تجزیہ کاریہ کہتے ہیں کہ " اس کی اقتصادی ترقی میں اضافے کاسہرابڑی حدتک برآمدات اورسرمایہ کاری کے سیکٹر پرہے ،مقامی کھپت پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ اپنے معیارِ زندگی بلندہونے کی حد کو گہرائی سے محسوس نہیں کرتے ۔" اگرچہ اس کی مقامی مارکیٹ بدستورانتہائی کمزورہے ،لیکن یہ کوئی پیمانہ نہیں اوریہ دیگرممالک کی معیشتوں پراثراندازنہیں ہوتا۔ چین پہلے نمبرپرامریکی منڈیوں کو برآمدات اوردوسری جانب امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پرسرمایہ کاری کے تبادلے پرانحصارکرتاہے ،اوروہ یوں کہ چین سینکڑوں بلین ڈالرزکےامریکی کمپنیوں کے شئیرزخریدتاہے،یاٹریلین ڈالرزکے امریکی خزانے کے بانڈز خریدتاہے ، جبکہ امریکی کمپنیاں چین کے اندرسرمایہ کاری کرتی ہیں اوراس طرح اس کے ڈالرکے ذخائر3 ٹریلین ڈالرتک بڑھ گئے ہیں۔توچین دنیائے سرمایہ داریت کی سربراہ ریاست نہیں،بلکہ اس کے زیراثرہے ،کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ طریقہ کاراختیارکرتاہے اوراس کی معیشت امریکی معیشت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ،یوں چین امریکی اقتصادی پالیسیوں کے زیراثرہے ۔چین بہت عجلت ا ورمستعدی سے ان معاشی فیصلوں کی تعمیل کرتاہے،جن کی قیادت امریکہ کے زیراثرعالمی سرمایہ دار اداروں کی ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ہاں ! اپنے بارے میں یہ اعلان نہیں کرسکتاکہ وہ ایک سرمایہ دارریاست ہے اورپھرسرمایہ دارمعیشت کی قیادت کرے ،کیونکہ وہ سرکاری اورروایتی طورپریہ اعلان کرتاہے کہ وہ کمیونسٹ اوراشتراکی سٹیٹ ہے اور اپنےآزاد وجود کے خاتمے کے خوف سےاس سرکاری تاثر کی حفاظت کرتاہے ۔ ان کایہ خوف بھی اس حفاظت کاباعث ہے کہ اگروہ اس تاثرکی حفاظت نہ کریں ،توحکومت کی قیادت کرنے والے کمیونسٹ خیالات کے لوگ اپنااستحقاق کھوبیٹھیں گے ۔ اس لیے کمیونسٹ اوران کی پارٹی شرماتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظاموں کونافذکرتے اورسرمایہ داردنیاکے سربراہ ،امریکی معیشت کے ساتھ ربط وتعلق کوقائم رکھے ہوئے ہیں ۔اس لئے مستقبل قریب میں اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ چین اس پالیسی سے جان چھڑالے گااوردنیائے سرمایہ داریت کی قیادت کوسنبھال کرعالمی معیشت پراثراندازہونے لگے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم سرمایہ دارانہ اقتصادی بحران کوزیربحث لاتے ہیں توہم اول درجہ میں امریکہ پراس کومرکوزکرتے ہیں ،پھراس طرح دوسرے درجے میں یورپ پر۔ پس وہ دنیا،جس پراس وقت سرمایہ دارانہ نظام پنجے گاڑے ہوئے ہے ،معاشی لحاظ سے ان ہی دوممالک سے متاثر ہوتی ہے، امریکہ اوریورپ۔
چوتھا : دیگرریاستوں کی معیشتیں :
باقی ممالک کی معیشتیں عالمی معیشت کوکنٹرول کرنے میں کم اثرانداز ہوتی ہیں :
پس جاپان ،کاقرضہ آئی ایم ایف کے دیے ہوئے اعداد وشمارکے مطابق جی ڈی پی کی245٪تک پہنچتاہے ۔آئی ایم ایف نے ایک بارپھراس سے درمیانی مدت کاقابل اعتمادبجٹ پلان بنانے کامطالبہ کیاہے ،تاکہ بھاری قرضوں کے سلسلے کوروکاجائے ۔ان قرضوں کا نوے فیصدحصہ جاپانی لوگوں کی ملکیت ہے ۔جاپانی حکومت نے 8/8/2013میں جاپانی تحریکی پالیسی(Japanese stimulus policy) کے برعکس ،عمومی اخراجات میں سےدوسالوں میں85بلین ڈالر کی کٹوتی کے عزم کااعلان کیا۔
جہاں تک روسکی باتہے تووہ بھی ملکی سطح پرسرمایہ دارانہ نظامیں نافذ کرتاہے،اوران نظاموں کے نفاذ اوردوسرے ممالک کے ساتھ معاشی تنظیموں کے قیام میں مغرب کی تقلید کرتاہے ۔اس کے اندرکسی تخلیقی کارنامے کی قابلیت نہیں ،اس لیے اس نے یورپین کسٹمز یونین کی نقالی کرتے ہوئے2010میں اس کے زیراثرریاستوں کے ساتھ معاشی تنظیمات تشکیل دی ،جیسے بیلاروس اورقزاقستان کے ساتھ اس کاتشکیل دیاہواکسٹمز یونین .......بہرحال روسی معیشت سرمایہ دارانہ نظام کے زیراثرہے ،جس کی قیادت مغرب کررہاہے ۔ روس اسی سرمایہ دارانہ نظام کی نقش قدم پرچلتاہے ،اسی کے قراردادوں کونافذکرتاہے ،اوراقتصادی آرگنائزیشنز قائم کرنے میں سرمایہ دار ریاستوں کی تقلید کرتاہے۔اس لیےاس پہلوسے روس عالمی معیشت میں کوئی حرکت نہیں لاتا،بلکہ یہ خودمغربی سرمایہ دارمعیشت سے متاثر ہوتاہے ،چہ جائیکہ وہ ایک مؤثرکاکرداراداکرے۔
بریکس BRICS)(گروپ (برازیل ، انڈیااورجنوبی افریقہ )یامیکسیکواورترکی جیسےدوسرے ترقی پذیرممالک کاجہاں تک تعلق ہے،توعالمی معیشت پران کاکوئی قابل ذکراثرنہیں ،بلکہ یہ بلاواسطہ (ڈائرکٹ)مغربی معیشت کے زیراثرہیں اور امریکی ویورپی منڈیوں کے ساتھ مربوط ہیں ۔ ان میںسے کچھ ممالک ،جیسے ترکی ،ترقی کوبڑھانے کے لئے بنیادی طورپرقرضوںکاسہارالیتے ہیں،ایسی معیشت حقیقی معیشت نہیں ہوتی ،اس طرح اس میں کھپت بڑھ جاتاہے ،کیونکہ لوگ قرضوں پرانحصارکرتے ہیں ،اس کے ریاستی ادارے یاپرائیویٹ ادارے اورکمپنیاں بھی قرضوں کاسہارالیتی ہیں۔ کچھ ممالک کے اندر ملک سے باہرسرمایہ کی کثرت سے منتقلی اوربڑے پیمانے پرکرپشن موجود ہے جیسے انڈیا،ان جیسے ممالک کی معیشتیں مستحکم نہیں اوران کاکوئی حقیقی معاشی سہارانہیں۔برازیل اورجنوبی افریقہ کااثراپنے دائرےتک محدود ہے یعنی جنوبی امریکہ اورافریقہ میں ،عالمی اقتصاد میں اس کاکوئی اثرنہیں۔
لہذا عمومی طور پر بحرانوں کے پیدا ہونے اوران کوختم کرنے کے مطالعے میں ان معیشتوں پرزیادہ توجہ مرکوز نہیں رکھی جائے گی۔

پانچواں : جہاں تک اعلان کیے گئےاعدادوشماراوربیانات کاتعلق ہے ،تویہ بیانات صادرکرنے والی ریاست کے اندرموجوداقتصادی ادارے کی مرضی کے مطابق تیارکیے جاتے ہیں۔
1۔ پس 2013میں یونائیٹڈ اسٹیٹس نےسرکاری طورپر جس شرح نمو کاذکرکیاہے،اس کاسبب درحقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت نےمعیشت کی پیمائش کےطریقہ کارکوتبدیل کردیا ، اس نے انٹالیکچول پراپرٹی (INTELLECTUAL PROPERTY)کومعیشت میں داخل کردیا ،جیسےموسیقی کے مصنوعات یامیڈیسن اورڈرگز مصنوعات کی ملکیتی حقوق........یہ تبدیلی معیشت کےاندر 370 بلین ڈالرزکے اضافے کاسبب بنی جو2.5% کی (اضافی) تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کی معیشت ایسے وقت میں ترقی کیلئے جدوجہد کررہی ہے ،جبکہ امریکی شہریوں نے اپنے اخراجات کم کردیے ہیں اس لیے یہ رپورٹیں جن سے کسادبازاری ختم ہونے کاتاثرابھرتاہے ،اصل میں یہ ایک طریقہ ہے کہ ایسے اعدادوشمارشائع کیے جائیں ،جن کے پیچھےکوئی حقیقت نہیں ہوتی اورسراسرمن گھڑت ہوتے ہیں۔
2۔ جہاں تک یورپین کے اہلکاروں کی طرف سے پیش کیے گئے مندرجات کا تعلق ہے ،تو یہ بھی مستقل ترقی کی بنیاد پرنہیں تھے ۔جن مندرجات کااعلان کیاگیاوہ محض ابتدائی اندازہ تھااوروہ بھی پورے یورپی معیشت کانہیں، کیونکہ اس میں وہ ممالک شامل نہیں کیے گئے، جومعاشی مشکلات سے دوچارہیں ،جیسے آئیرلینڈ اوریونان ۔ دیے گئے مندرجات صرف اورصرف وہ تخمینے ہیں جنہیں یورپین ڈیٹاایجنسی "یوروسٹاٹ" نے اکٹھاکیا،جومختلف انداز سے اعدادوشماراکٹھاکرنے والےقومی شماریات کے دفاترسے ،جوبڑی حد تک ترقی کیلئے ابتدائی تخمینوں کے سرویز پراعتمادکرتے ہیں ، فراہم کیے جانے والے ڈیٹاپرانحصارکرتی ہے ۔ ان تخمینوں پرعموماً کئی مرتبہ نظرثانی کی جاتی ہے۔ جرمن دفترشماریات اس بات کااشارہ دیتاہےکہ نظرثانی کی کاروائی ابتدائی تخمینوں کے کوئی چارسال بعد ممکن ہوتی ہے ،کیونکہ اس میں اضافی مندرجات کوبھی شمارکیاجاتاہے۔ اس لئے سرویز کی خامیوں کودیکھتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ یورپ میں حالات بہترہوگئے ہیں۔
3۔ بالخصوص ، اگرہم چین کی بات کریں،تو ہمیشہ سے ان بیانات کے بارے میں کچھ ایسے سوالات اورشکوک پائے جاتے ہیں جوچین کی طرف سے اس کی معیشت کے حوالے سے نشرکیے جاتے ہیں۔چین رقبہ اورآبادی کے لحاظ سے دنیاکی ایک بڑی ریاست ہے ،اس کی معاشی کارکرگردگی کے بارے میں تمام معلومات اکٹھاکرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔
مبصرین کے نزدیک شکوک کاباعث یہ ہے کہ چین نےاپنے سالانہ GDP کے اعدادوشمارگزشتہ سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں شائع کیے ،حالانکہ چینی حکومت کیلئے پورے سال کے نتائج کاتین ہفتوں میں ترتیب دینامشکل امرہے ۔اس سے اس خیال کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ چین کی طرف سے پیش کیےجانے والے اعدادوشماردرحقیقت ایسے ہوتےہے ،جس کی بنیادپردنیااس کی معیشت کے بارے میں ویساہی سمجھے جیساوہ چاہتاہے۔
چھٹا: خلاصہ
بے شک عالمی مالیاتی بحران ابھیتک ختم نہیں ہواہے ،اوراس کے جھٹکے اب تک محسوس کیے جارہے ہیں ،امریکہ اس بحران کوسرمایہ ٹھونسنے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش میں لگاہواہے ،اوریورپ میں جرمنی سادگی کی زندگی اپنانے کی پالیسی کے ذریعے اس کے ساتھ نمٹ رہاہے ۔امریکہ نے 85بلین ڈالرز مارکیٹ میں ڈالتا ہے اوریہ سرمایہ کپنیوں کو زندگی برقراررکھنے کیلئے فراہم کرتا ہے تا کہ وہ چلتی رہیں،اوریورپ سادگی کی پالیسی پرچل رہاہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بحران اب تک خم ٹھونک کے کھڑاہےاور معیشت حکومت کی مداخلت اورتعاون کے بغیرطبعی انداز سے نہیں چل رہی، گویاریاست کی معیشت کے لیے ایک وینٹی لیٹرکاکرداراداکررہی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ مارکیٹ میں ریاستی مداخلت سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی ضد ہے ،کیونکہ یہ نظام مارکیٹ کواتھارٹی کی چنگل سے آزادی کی ترویج کرتاہے ، سو یہ نظام کمپنیوں اورباقی مالیاتی اداروں کوبچانے کیلئے ریاست کومارکیٹ میں مداخلت کی یامارکیٹ کی حرکت کومحدودکرنے کی اجازت نہیں دیتا۔یہ نظام لازم قراردیتاہے کہ مارکیٹ کومطلق آزادی حاصل ہونی چاہئے ،اوریہ کہ مارکیٹ اپنے مسائل آپ ہی حل کرے گی ۔ پس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے مطابق مداخلت ،ترقی کیلئے رکاوٹ ہے،اوربقائےاصلح کے اصول کے مطابق ،جوکمپنیاں کاروبار کے قابل نہ ہوں ،انہیں بندہوناچاہئے ،تاکہ ان کی جگہ دیگرکمپنیاں کام کریں، اس طرح مارکیٹ میں صرف وہی کمپنیاں باقی رہ جائیں گی جومقابلے کی دوڑمیں شریک ہوسکتی ہوں،چنانچہ معیشت کوترقی ملے گی اورآزادی سے کاروبارکرسکے گی۔یہ اس سرمایہ دارانہ نظریے کے مطابق ہے،حقیقت جس کی تصدیق نہیں کرتی اورسرمایہ دارریاستوں کی مسلسل مشقوں نے اس کوغلط ٹھہرایاہے ۔ تو اس بحران کے اسباب اورمسائل کےسرچشمےکاحل نہیں نکالاگیا،جوسرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں موجودہے ،جہاں ہرلمحہ بیماری لوٹ آنے کاخطرہ موجود ہوتاہے ،اس مریض کی طرح جسے مختلف پرانی بیماریوں نے گھیررکھا ہو،کبھی توایسے رپورٹیں آتی ہیں جوفلاں فلاں نسبت سے اس کی صحت کی بہتری کااشارہ دیتی ہیں ،کچھ دیربعد ہی اس کے برعکس رپورٹیں سامنے آتی ہیں ،پھراس کی زندگی کوباقی رکھنے کیلئےاس کو آرام پہنچانے والی ادویات اورانجکشن دیے جاتے ہیں ،تاہم وہ مسلسل دردکی ٹھیسوں سے بے چینی کی کیفیت میں مبتلاہوتاہے۔
اس طرح عالمی معیشت کبھی بھی اچھی نہیں ہوئی ،بحران تاحال اپنی جگہ موجود ہے ،اورمسائل کھڑے ہیں ،اورجب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود رہے گا،مسائل سراٹھاتے رہیں گے۔یہ نظام غربت وتنگدستی کوجنم دیتاہے ،اربوں انسانوں کومحرومی کی دلدل میں دھکیل دیتاہے اورڈھیرسارے اموال ،قبل اس کے کہ لوگوں تک پہنچ کروہ اس سے بہرہ ور ہوجاتے،یہ نظام ان اموال کی بربادیکاباعث بنتاہے، نتیجۃًلوگوں کی ایک بڑی تعداد بدقسمتی اورزبوحالی کا شکار ہوجاتی ہےاورسرمایہ داروں کاایک چھوٹاساطبقہ وسائل کابہت بڑاحصہ ہڑپ کرلیتاہے ۔ اسی سبب ،بحران ایک آتش فشاں کی صورت میں موجود ہے ،جوکبھی لرزہ خیز دھماکے سے پھٹ جاتاہے توکبھی ساکن ہوجاتاہے ،مگرلاوااندرہی اندرجوش مارتارہتاہے ۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقی حل اسلام کے علاوہ کہیں اورموجود نہیں ،جوصحیح طریقے سے وسائل کی تقسیم اورہرفرد کوان سے فائدہ اٹھانے اوراپنے حصے کے بقدرحصول کو معاشی مسئلہ کی نظرسے دیکھتا ہے،جوچندلوگوں کےجیبوں میں ارتکاز دولت کے راستے میں رکاوٹ ڈالتاہے ۔ جومعاشرے کوسرسری اور اجمالی نظرسے نہیں دیکھتاکہ اتنی اتنی قیمت کے کچھ سرمایہ جات اوروسائل موجود ہیں جس میں فرد کااتنااتناحصہ ہوگا،جبکہ حقیقت میں وہ فرد کاحصہ نہیں ہوتا ،بلکہ ایک انتہائی چھوٹے سے گروہ کاہوتاہے۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت ،خلافت راشدہ پھرسے قائم ہو،تب آسودگی وخوشحالی اورتندرست معاشی زندگی کادوردورہ ہوگا،نہ صرف امت مسلمہ بلکہ چاردانگِ عالم میں خیراورامن وآشتی پھیل جائے گی، اللہ سبحانہ غالب اورحکمت والاہے۔

Read more...

جمہوریت سرمایہ دارانہ معیشت کے ذریعے انتقام لے رہی ہے ریاستی اور عوامی اداروں کی نجکاری پاکستان کو مزید بدحالی کا شکار کردے گی

کیانی و شریف حکومت نے بجلی و پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرنے کے بعد اب اکتیس(31) قومی اداروں کی نجکاری کا اعلان کر کے پاکستان کو کنگال کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ یہ اعلان کیانی و شریف حکومت کا آئی۔ایم۔ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا نتیجہ ہے جس کے تحت حکومت کو 30ستمبر تک لازماً ان اداروں کی نجکاری کے منصوبے کا اعلان کرنا تھا تا کہ پاکستان کو آئی۔ایم۔ایف سے قرضے کی دوسری قسط مل سکے۔
سرمایہ داریت ریاستی اور عوامی اثاثوں کی نجکاری کر کے معاشرے کو بد حالی کا شکار کردیتی ہے۔ ریاست فقیر بن جاتی ہے اور مزید سودی قرضے لینے پر مجبور ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اُن اثاثوں سے محروم ہوجاتی ہے جن کو استعمال کر کے وہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرسکتی تھی۔ عوام کنگال ہوجاتے ہیں اور اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی شدید جدوجہد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ عوام کو تیل، گیس اور بجلی جیسے عظیم عوامی اثاثوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم کردیا جاتا ہے۔لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام اس بات کو یقینی بناتاہے کہ معاشرے کی دولت معاشرے میں موجود چند دولت مندوں کے درمیان ہی گردش کرتی رہے۔ یہ صورتحال اسلام سے یکسر مختلف ہے جو کہ معاشرے میں موجود دولت کو ایک منفرد طریقے سے ریاستی ملکیت، عوامی ملکیت اور نجی ملکیت میں تقسیم کرتا ہے۔
اسلام کمیونزم سے بھی یکسر مختلف ہےجو کہ تما م چیزوں کو قومی ملکیت میں لے لیتا ہےجس میں نجی اور عوامی اثاثے بھی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں لوگ غربت اور مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے کمیونسٹ ممالک میں لوگ روٹی اور آلو تک حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہے تھے جبکہ ریاست کا خزانہ تیل و گیس سے حاصل ہونے والی آمدنیوں سے بھرتا چلا جارہا تھا۔
صرف خلافت ہی اسلام کے ان احکامات کو نافذ کرتی ہے جس کے نتیجے میں دولت پورے معاشرے میں گردش کرتی ہے اور ایسا توازن صرف اللہ سبحانہ و تعالی ہی قائم کرنے پر قادر ہے کیونکہ وہ کسی بھی خامی یا کمی سے پاک ذات ہے جو کہ معیشت کے قوانین بنانے کے لیے درکار ہے جبکہ انسان معیشت کے لئے خامیوں سے پاک قوانین بنانے سے قاصر ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں (كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ) "تا کہ تمھارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے"(الحشر:7)۔
موجودہ حکمران لوگوں پر ایک عذاب بن کر نازل ہوئے ہیں اور اُن پر ایک بوجھ ہیں جس کا ہٹایا جانا انتہائی ضروری ہے۔ یہ جان بوجھ کر ریاستی اور عوامی اداروں کو خسارے سے دوچار کرتے ہیں اور پھر ان اداروں کو ایک بار پھر منافع بخش ادارہ بنانے کے نام پر اُن کی نجکاری کے لیے شور مچانا شروع کردیتے ہیں ۔ یہ حکمران ''سونے کے انڈے‘‘ دینے والے اداروں کو بھی بیچ دیتے ہیں حالانکہ وہ زبردست منافع دے رہے ہوتے ہیں جیسا کہ O.G.D.C.Lاور مواصلات کی دنیا کا بادشاہ P.T.C.L ۔ اور یہ سب کچھ استعماری طاقتوں کی خواہش پر کیا جارہا ہے جو مسلمانوں کو ان کی دولت سے محروم کردینا چاہتے ہیں جو انھیں اللہ سبحانہ و تعالی نے عطا کی ہے۔
اےافواج پاکستان ! کیا جو کچھ تم دیکھ چکے ہو وہ کافی نہیں ؟ یا تم اس وقت کا انتظار کررہے ہو جب لوگ ایک دوسرے کےمنہ سے نوالے چھیننا شروع کردیں گے؟ تم میں سے مخلص اور بہادر لوگوں کوخلافت کے قیام کے لیے نصرۃ دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے جس کے ذریعے ہی پاکستان کو اس معاشی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔

Read more...

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان کا عید پیغام افواج میں موجودمخلص افسران خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کریں

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان شہزاد شیخ نے امت مسلمہ کے نام عید کا خصوصی وڈیوپیغام جاری کیاہے۔ شہزاد شیخ نے تمام مسلمانوں کو عید کی مبارک باد دی کہ اللہ نے انھیں رمضان کا مبارک مہینہ عطا فرمایا اور انھوں نے اپنی نمازوں،روزوں،زکوة اور صدقات کے ذریعے اپنے رب کو راضی کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ اس عید کے موقع پر ہمیں دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک طرف کفار افغانستان، کشمیر، برما، تھائی لینڈ،فلپائین، صومالیہ، چیچنیااور دیگر مقبوضہ علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام کررہیں ہیں تو دوسری جانب مسلم حکمران شام، مصر، بنگلادیش اور دیگر مسلم ممالک میں اپنے ہی امت کا قتل عام کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کے بیوی بچوں کو یہ دوسری عید بھی اپنے شوہر اور باپ کے بغیرمنانے پر مجبور کردیا گیا ہے کیونکہ نوید بٹ کو ظالم کیانی کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے کے جرم میں ١١ مئی ٢٠١٢ کو کیانی کے غنڈوں نے اغوا کرلیا تھا۔ لیکن آفرین ہے نوید بٹ اور ان کے اہل خانہ پر جنھوں نے اس ظلم کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا مگر ظالم حکمران کے سامنے مسلسل کلمہ حقْ بلند کر نے کے عظیم ترین کام سے دستبردار ہونے سے انکار کیا۔
شہزاد شیخ نے کہا کہ اس وقت پوری مسلم دنیا شدید اضطراب اور تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے اور امت رسول اللہ ﷺکی بشارت ((ثم تکون خلافة علی منہاج النبوة )) یعنی پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہو گی کے پورا ہونے کی شدید خواہش رکھتی ہے۔ کفار کا سردار امریکہ بھی غدارمسلم حکمرانوں کی مدد سے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے وعدے کو روکنے کی بھر پور مگر ناکام کوشش کررہا ہے۔شام ، افغانستان، فلسطین ، صومالیہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر اللہ سبحان و تعالی کی مدد شامل حال ہو تو پوری دنیا مل کر بھی اس جدوجہد کو روک نہیں سکتی۔اللہ سبحان و تعالی فرماتے ہیں: اِن یَنصُرْکُمُ اللّہُ فَلاَ غَالِبَ لَکُمْ " اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا"(ال عمران-160)۔
انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اقوام متحدہ، امریکہ،یورپ اور غدار مسلم حکمرانوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ صرف اپنے رب پرہی بھروسہ کرنا چاہے۔شہزاد شیخ نے امت کی اس عظیم جدودجہد کو اس کے منطقی انجام تک جلد ازجلد پہچانے کے لیے افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ کے ایجنٹ حکمرانوں کو اتار پھینکیں اور صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہوئے حزب التحریر کو نصرة دیں اور خلافت کا قیام عمل میں لائیں تا کہ امت مسلمہ کو عید کی حقیقی خوشیاں دیکھنی نصیب ہوں۔
نوٹ: اس پیغام کی ویڈیو درج ذیل ویب لنک پر دیکھی جاسکتی ہے
http://www.dailymotion.com/video/x12qagw_eid-message-from-shahzad-shaikh_news
خصوصی نوٹ: حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر کے خطیبوں کے لیے ایک خصوصی عید کا خطبہ جارہ کیا ہے۔ یہ خطبہ مندرجہ ذیل ویب لنگ پر دیکھا جاسکتا ہے:
http://pk.tl/1cEg
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...

کراچی میں مستقل امن قائم کیا جائے افواج پاکستان کو ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو دو ہفتوں کے اندر ختم کردینا چاہیے

حزب التحریر ولایہ پاکستان افواج پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امن کے قیام کے لیے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کا مکمل اور ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیں۔ کراچی میں ہونے والے بم دھماکوں اور قتل کی وارداتوں کی بنیادی وجہ امریکہ کی نجی فوجی تنظیموں اور امریکی قونصلیٹ کا گھناؤنہ کردار ہے۔ کراچی میں موجود امریکی دہشت گردوں کا یہ گروہ کراچی میں بہنے والے خون اور لوٹنے والی املاک کا ذمہ دار ہے۔ایک بار اگر اس امریکی بدمعاشوں کے گرو ہ کا خاتمہ کردیا جائے تو مقامی چھوٹے چھوٹے بدمعاشوں کے گروہ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ ان امریکی بدمعاشوں کو کیانی و شریف حکومت نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ امریکی صلیبی جنگ کو پاکستان کے اہم شہروں تک پھیلانے کے لیے آزاد ہیں۔
جہاں تک دہشت گردوں کی نشاندہی کرنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے موبائل فون کی کال کو پکڑنے کے لیے آلات اوردیگر جدید و حساس آلات کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مقصد کو صرف پاکستان کے اہم شہروں میں رہنے والے شہریوں کے تعاون سے حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ روزانہ امریکی غنڈوں کو بغیر کسی روک ٹوک کے آتے جاتے دیکھتے ہیں۔
حزب التحریر پاکستان کی افواج سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ:
1۔ تمام امریکی سفارت خانوں اور قونصلیٹس کو بند کردیں اور اُن میں موجود اہلکاروں کو ملک بدر کردیں۔
2۔ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک سے منسلک تمام امریکی دہشت گردوں کو گرفتار کریں ،اُنھیں نارنجی رنگ کا لباس پہنائیں اور مقدمہ چلنے اور سزائیں ملنے تک انھیں قید میں رکھیں۔
3۔ نیٹو سپلائی لائن کو کاٹ دیں تا کہ صلیبی امریکی افواج قبائلی مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کی امداد سے محروم ہوجائیں۔
اگر افواج پاکستان یہ اقدامات اٹھائیں گی تو وہ نہ صرف پوری دنیا کے مسلمانوں کےبلکہ باقی دنیا کے بھی ہیرو بن جائیں گے کیونکہ پوری دنیا امریکی غرور اورجبر کے خلاف شدید غم و غصہ کا شکار ہے۔ یقیناً پوری دنیامیں لاؤس سے لے کر افغانستان تک اور اور عراق سے لے کر پانامہ تک، کروڑوں لوگ امریکی دہشت گرد نیٹ ورکس کی دہشت گرد کاروائیوں کا شکار ہوئے ہیں اور پھر امریکہ ان دہشت گردی کی کاروائیوں جن کے لیے اسلحہ اور گولہ بارود بھی امریکہ ہی فراہم کرتا ہے کو بنیاد بنا کر اس خطے میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مساجد ، اسکول اور بازار غیر محفوظ ہوگئے ہیں جبکہ امریکی سفیر اور سی۔آئی۔اے کے اہلکار بغیر کسی پریشانی کے پورے ملک میں گھومتے پھرتے، سازشیں تیار کرتے اور کیانی و شریف حکومت کو احکامات جاری کرتے نظر آتے ہیں۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان افواج پاکستان کو یقین دلاتی ہے کہ خلیفہ راشد کی قیادت میں پاکستان کی مقدس سرزمین کو امریکی نجاست سے پاک کرنے اور اس پر امن قائم کرنے کے لیے اگر چند دن نہیں تو چند ہفتے ہی کافی ہوں گے۔

 

Read more...

جمہوریت ہٹاؤ، خلافت لاؤ حزب التحریر نے شام اور مصر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے

حزب التحریر نے ولایہ پاکستان میں شام اور مصر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پرتحریر تھا: " مصر کا فرعون مسلمانوں کی لاشوں پر امریکی راج کی حفاظت کر رہا ہے" ، " شام میں مسلمانوں کاقتل عا م ‏خلافت کےقیا م کو نہیں روک سکتا" اور " امریکی راج کی محافظ 'جمہوریت' ختم کرو، امت کی ڈھال' خلافت' کو قائم کرو"۔ یہ مظاہرے اس وقت کیے گئے ہیں جب پاکستان کے مسلمان واضع طور پر مصر میں اس کی افواج کے کردار اوراسلام کے لیے شام کے مسلمانوں کی استقامت کو دیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب امت امریکی تکبر اور جبر کے خلاف غصے سے بھری بیٹھی ہے ، حزب التحریر افواج پاکستان کے افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کفریہ جمہوریت اور امریکی راج کا خاتمہ کریں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کی حاکمیت کو بحال کریں۔ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کا یہ عمل ہی مصر، شام، پاکستان اور پوری مسلم دنیا میں صورتحال کو مسلمانوں کے حق میں تبدیل کر دے گا۔ صرف اسی صورت میں تمام مسلمان ایک خلیفہ راشد کی قیادت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ایک عظیم قوت کی شکل اختیار کرلیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَلَ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرٌ وَإِنْ يَأْمُرْ بِغَيْرِهِ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ "امام (خلیفہ) ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر تم لڑتے ہو اور اپنا تحفظ کرتے ہو۔ تو اگر وہ تقوی اور انصاف کی بنیاد پر حکمرانی کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اور اگر وہ اس سے ہٹ کر حکمرانی کرتا ہے تو یہ اس کے خلاف ہی جائے گا"(بخاری)۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک