السبت، 26 صَفر 1446| 2024/08/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترمیم امریکی جنگ کا حصہ ہے

انسداد دہشت گردی کے قانون میں دوسرے ترمیمی بل 2013 کی منظوری حکمرانوں کا امریکی ایجنٹ اور غدار ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ بارہ سال کی انتھک جدوجہد کے باوجود امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار پاکستان کے عوام کو اس بات پر قائل نہیں کر سکے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام کے خلاف جنگ نہیں، یہ جنگ امریکہ کی نہیں اور امریکہ پاکستان کا دشمن نہیں ہے۔ آج پاکستان کے عوام اس بات پر جتنا یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل اسلام کے خلاف جنگ ہے اور امریکہ پاکستان، مسلمانوں اور اسلام کا دشمن ہے، اس سے قبل کبھی اتنا یقین نہ رکھتے تھے۔

یہ کہنا کہ اس قانون کا مقصد دہشت گردوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ اگر ان ایجنٹ حکمرانوں کو دہشت گردوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا مقصود ہوتا تو یہ کبھی ریمنڈ ڈیوس کو باعزت طریقے سے ملک سے فرار نہ کرواتے اور اس کے پھیلائے ہوئے نیٹ ورک کو آج بھی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی مکمل سرپرستی حاصل نہ ہوتی۔ سرکاری ایجنسیاں تو اس قانون کی غیر موجودگی میں بھی لوگوں کو اغوا کر کے سالوں تک غائب کر رہیں تھیں جیسا کہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کے ساتھ کیا گیا جنھیں ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے دس ماہ ہو چکے ہیں اور ججوں، صحافیوں، سیاست دانوں، تاجروں اور عام عوام کے فون ٹیپ کر رہیں تھیں۔ اس قانون کا اس کے سوأ کوئی مقصد نہیں کہ جب حکمران عوام کو اس امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے میں فکری طور پر مکمل ناکام ہو گئے تو اب ان کی زبانوں کو تالا لگانے اور ان کی سوچوں پر پہرا بٹھانے کے لیے ایک شیطانی قانون کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ یہ غدار حکمران اپنے آقا امریکہ ہی کی مکمل پیروی کر رہے ہیں۔ جیسے امریکہ نے اپنے عوام کو امریکی پالیسیوں پر تنقید سے روکنے کے لیے قومی سلامتی کے بہانے سے پیٹرئیاٹ ایکٹ (Patriot Act) کا شیطانی قانون بنایا اور جو اس کے باوجود بھی خاموش نہ ہو ا تو اپنے ہی بنائے ہوئے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صدارتی اجازت نامے سے انھیں قتل کروا دیا بالکل ویسے ہی پاکستان کے غدار حکمران بھی اس نئے قانون کے ذریعے حکمرانوں کی غداریوں کے خلاف اپنے لوگوں کا منہ بند رکھنا چاہتے ہیں۔

حزب التحریر میڈیا، دانشوروں، انسانی حقوق و وکلأ تنظیموں اور عوام کی توجہ اس جانب مبذول کراتی ہے کہ یہ غدار حکمران ہمیں حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کے اسلامی فریضے کو پورا کرنے سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے حکمرانوں کا احتساب کرنے کا حکم دیا ہے اور سختی سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکمران لوگوں کے حقوق غصب کریں یا عوام سے متعلق عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو پورا نہ کریں یا امت کے معاملات سے غفلت برتیں یا اسلام کے حکموں کو توڑیں یا اللہ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ کوئی اورچیز نافذ کریں تو مسلمان انہیں چیلنج کریں اور ان کا محاسبہ کریں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے حکمرانوں کے احتساب کو افضل جہاد سے تعبیر کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

«أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر»

"بہترین جہاد جابرحکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے" (احمد)۔

لہذا حزب التحریر اس قانون کو یکسر مسترد کرتی ہے اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو یقین دلاتی ہے کہ حزب ان کی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف غداریوں کو بے نقاب کرنے کے سلسلے کو جاری و ساری رکھے گی۔ حزب التحریر میڈیا، دانشوروں، انسانی حقوق اور وکلأ کی تنظیموں اور عوام سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی قانون کو مسترد کر دیں اور اس کے خلاف آواز بلند کریں۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...

حزب التحریر کے کوئٹہ، کراچی اور ملک بھر میں جاری قتل و غارت گری اور بدامنی کے خلاف ملک گیر مظاہرے دھماکے بدامنی عدم استحکام ۔ وجہ ہے امریکہ اور جمہوری نظام

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کوئٹہ، کراچی اور ملک بھر میں جاری مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف ملک گیر مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: "دھماکے بدامنی عدم استحکام ۔ وجہ ہے امریکہ اور جمہوری نظام، خطے سے دونوں کو مار بھگاؤ۔ مسلمانوں کی طاقت خلافت کو لاؤ"، بدامنی اور عدم استحکام کی وجہ امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے دہشت گرد ہیں"، "اے افواج پاکستان! کیانی، زرداری اور ان کے آقاامریکہ کو اکھاڑ پھینکوں اور خلافت کو قائم کرو"۔

مظاہرین کوئٹہ، کراچی اور پورے ملک میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کی شدید مذمت کر رہے تھے اور ان وحشیانہ حملوں کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھرا رہے تھے جو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں، زرداری اور کیانی کی حمائت اور اپنے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان بھر میں مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے۔ عوام کو چیک پوسٹوں پر روکا جاتا ہے، ان کے موبائل فون بند کیے جاتے ہیں اور ڈبل سوری پر پابندی لگائی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف کالے شیشوں اور جعلی نمبر پلیٹوںوالی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے امریکی دہشت گردوں کو انہی چیک پوسٹوں سے گزرنے، پاکستان میں تباہی پھیلانے کے لیے سیل بند کنٹینروں کے ذریعے سازوسامان لے کر آنے، سیٹلائیٹ ٹیلی فون ہاتھوں میں لیے دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں اور حساس فوجی علاقوں میں دندناتے پھرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

موجودہ صورتحال دراصل مغربی استعماری طاقتوں کی پیدا کردہ ہے جنھوں نے مسلمان ممالک پر حملہ اور قبضہ کیا اور مسلمانوں کے درمیان قومیت، نسل اور فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرتیں پیدا کیں۔ اسلام قوم پرستی، نسل پرستی اور فرقہ پرستی کی شدید مذمت کرتا ہے اور تمام انسانوں کو آدم علیہ اسلام کی اولاد اور مسلمانوں کو ایک امت قرار دیتا ہے۔ مظاہرین افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ مسلمانوں کے بیٹے ہیں اور اس خطے میں ہزاروں سال کی اسلامی حکمرانی کی میراث کے وارث بھی ہیں لہذا وہ اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین کے لیے ایک کامل منصوبہ بندی کے تحت حرکت میں آئیں اور ان غداروں سے حکمرانی کوچھین کر ایک مخلص اور باخبر حزب کو منتقل کر دیں جو اسلام کی حکمرانی کے لیے خلافت کوقائم کرے گی، مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کرائے گی اورانھیں ایک اسلامی ریاست کا حصہ بنائے گی۔

آخر میں مظاہرین خلافت کے قیام کے حق میں پرجوش نعرے لگاتے ہوئے پر امن طریقے سے منتشر ہو گئے۔

نوٹ: ملک میں جاری مسلمانوں کے قتل عام، بدامنی اور عدم استحکام پرحزب التحریر کا تفصیلی موقف جاننے کے لیے مندرجہ ذیل لنک سے رجوع کریں۔

http://pk.tl/17Xf

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

For Additional Pictures: Click Here

Read more...

حزب التحریر کراچی بم دھماکوں کی پرزور مذمت کرتی ہے کیانی اور زرداری امریکہ کی خاطر فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں

کراچی میں ہونے والے بم دھماکوں کی حزب التحریر شدید مذمت کرتی ہے اور 45 سے زائد ہلاک ہونے والوں کی مغفرت اور لواحقین کے لیے اس عظیم سانحہ کو صبر سے برداشت کرنے اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کرتی ہے (آمین)۔ کیانی اور زرداری امریکہ کی خاطر ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ کراچی، کوئٹہ اور پورے ملک میں جاری بم دھماکوں، نشانہ وار قتل، بدامنی اور عدم استحکام کے ذمہ دار جنرل کیانی، زرداری اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار ہیں۔ یہ حکمران امریکہ کو مطلوب مسلمانوں کو تو ملک کے کسی بھی حصے سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن جب ان سے مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کا مطالبہ کیا جائے تو یہ قاتلوں کو کفر کردار تک پہچانے کی بجائے ایک دوسرے پر نااہلی کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ ایجنسیاں پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ، جو ایک پرامن سیاسی جدوجہد کر رہے تھے، کو تو لاہور جیسے بڑے شہر میں ڈھونڈ نکالتی ہیں لیکن دہشت گردوں کی انھیں کوئی خبر نہیں۔ دو ایسے شہروں میں جہاں وفاقی و صوبائی حکومتیں، فوج، پولیس، رینجرز، ایف۔سی، عدالتیں، ایجنسیاں غرض سب کچھ موجود ہوں وہاں مسلسل ایسی قتل و غارت گری بغیر حکومتی مرضی کے کسی صورت جاری نہیں رہ سکتی ہے۔ کیا کوئی باشعور جو پاکستان کی سیاست اور ان اداروں کی طاقت کو جانتا ہے، ان کے اس جھوٹ کو تسلیم کرسکتا ہے؟ یقیناً وہ اس جھوٹ کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

امریکہ اسلام کے خلاف جنگ کو اب پاکستان کے بڑے شہروں تک پھیلانا چاہتا ہے اور امت اس بات کو اچھی طرح جان چکی ہے کہ یہ جنرل کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا چھوٹا سا گروہ ہی ہے جس نے اپنے آقا امریکہ کے اس منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیے پاکستان کے حساس فوجی اداروں اور شہری علاقوں میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے دہشت گردوں کو ویزے دے کر بم دھماکوں اور مسلمانوں کا مقدس خون بہانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر فرقہ وارانہ یا لسانی بنیادوں پر ہونے والی قتل و غارت گری کے باوجود امت ایک دوسرے کا گریبان نہیں پکڑتی بلکہ ہر ایسے واقع کے بعد امت امریکہ اور ان کے ایجنٹ حکمرانوں کو ہی اس گناہ عظیم کا ذمہ دار ٹہراتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے دیکھا کہ کل ہونے والے اس اندوہناک واقع کے گھنٹوں بعد بھی کسی حکمران اور ان کے اداروں کو اس علاقے میں جانے کی جرأت نہیں ہوئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امت ان کو اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنائے گی۔

علمأ کرام ہوں یا تاجر حضرات، وکلأ ہوں یا صنعت کار یا صحافی سب یہ جانتے ہیں کہ ان کے رفقأ کے قتل کے اصل ذمہ دار جنرل کیانی اور زرداری ہیں۔ حزب التحریر ان تمام طبقات سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اصل ذمہ داروں کا نام لیں، ان کے خلاف پرچے کٹوائیں، مظاہرے کریں اور ان غداروں کو ہٹانے اور خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کا ساتھ دیں۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے پوچھتی ہے کہ کب تک تم اپنی آنکھوں کے سامنے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ہاتھوں، امریکی منصوبے کے مطابق اپنے مسلمان بھائیوں بہنوں کے مقدس خون کو بہتے دیکھتے رہو گے۔ تم بھی یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہو کہ ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے اصل ذمہ دار جنرل کیانی اور زرداری ہیں۔ تو کیوں تمھاری غیرت تمھیں حرکت میں آنے پر مجبور نہیں کرتی اور کتنے ہزاروں مسلمانوں کا مقدس خون بہنے کا تم انتظار کر رہے ہو۔ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! اٹھوں اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اکھاڑ پھینکوں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة فراہم کرو۔ انشأ اللہ خلافت کی عدالتیں ان غدار قاتلوں سے مسلمانوں کے مقدس خون کا پورا پورا حساب لیں گی۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...

خلافت سیمینار اور اعلامیہ خلافت کا خاتمہ خلافت کے دوبارہ قیام کا تکازہ کرتا ہے

3 مارچ 1924 بمطابق 28 رجب 1342 ہجری کو خلافت کا خاتمہ کیا گیا۔ خلافت کے خاتمے کی یاد منانے کے حوالے سے حزب التحریر ولایہ پاکستان نے پاکستان کے اہم شہروں میں خلافت سیمینار منعقد کیے۔ سیمینار کے عنوان تھا: "خلافت کا خاتمہ خلافت کے دوبارہ قیام کا تکازہ کرتا ہے"۔ اس کے علاوہ حزب التحریر نے اس موقع پر پاکستان کے لوگوں کے لیے خلافت اعلامیہ ایک کتاب کی صورت میں بھی جاری کیا ہے جس کا نام ہے: "خلافت کا خاتمہ خلافت کے دوبارہ قیام کا تکازہ کرتا ہے"۔یہ خلافت اعلامیہ ہم سب کے لیے ایک یاددہانی ہے کہ ہمارے دین اور ہماری امت کے لیے خلافت کا ادارہ ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ یہ دن ہمیں ہمارے آباؤ اجداد کی اس عظیم جدوجہد کی یاد دہانی بھی کراتا ہے جو انھوں نے برصغیر میں خلافت کی بقأ کے لیے کی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ جدوجہد ہمارے درمیان خلافت کے دوبارہ قیام کی نشان دہی بھی کرتاہے۔ یہ پکار تمام مسلمانوں کے لیے ہے کہ وہ اسلام کے مکمل نفاذ کے لیے اٹھیں جب اسلام کی امت خلافت کے قیام کے لیے کھڑی ہو رہی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ((اطیب ریح فی الارض الھند)) "مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے" (الحاکم مستدرک)۔ بغیر کسی شک و شبہ کے ہم مسلمان ہیں، اسلام ہماری پہچان ہے، اسلام ہماری تاریخ اور ہمارا ورثہ ہے۔ ساتویں صدی عیسوی سے اسلام برصغیر میں بہت مضبوطی سے پیوست ہے اور اس کو برصغیر سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اپنی پوری تاریخ میں اسلام کے نفاذکو ایک انتہائی اہم فریضہ سمجھتے رہے ہیں یہاں تک کہ برطانوی راج میں بھی ہم نے خلافت کے خاتمے کو روکنے کے لیے زبردست جدوجہد کی۔ ہم نے خلافت کانفرنسیں منعقد کیں، خلافت کو بچانے کے لیے پیسے جمع کیے، خلافت کے روپیے کا اجراہ کیا جس پر آیات قرآنی کا ترجمہ نقش تھا، خلافت کے نام سے ایک روزنامہ شائع کیا، برطانوی استعمار پر حملے کیے اور صلیبیوں کے حملوں کے خلاف عثمانی خلیفہ کی مدد کی۔ برطانوی راج کے بعد اسلام کی حکمرانی کی یہ ہماری خواہش ہی تھی کہ جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کی سرزمین، پاکستان کے حصول کے لیے ایک زبردست تاریخی تحریک شروع کی اور تاریخ کی چند بڑی ہجرتوں میں ایک بہت بڑی ہجرت کی اور لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ لیکن ہمیں دھوکہ دیا گیا اور ہمارے ساتھ غداری کی گئی۔ ہم ساٹھ سال سے آمریت اور جمہورت کی شکل میں انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور اب ہم امریکی راج کے سائے تلے کمزور ہو رہے ہیں۔ امریکہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو احکامات جاری کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں اسلام ایک نئی قوت کے ساتھ انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خلافت کی تحریک کو دوبارہ زندہ کر دیں اور اس امت کو اس کا حقیقی مقام واپس دلائیں۔

نوٹ: خلافت اعلامیہ کو اس ویب لنک پر دیکھا جاسکتا ہے

http://pk.tl/18lF

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

 

Saad Jagranvi, Head of the Central Contacts Committee in Hizb ut Tahrir/ Wilayah Pakistan
as part of the " The Fall of the Khilafah Demands Its Return"

 

 

ٍSeminar: Dr. Iftikhar

as part of the " The Fall of the Khilafah Demands Its Return"

Read more...

حزب التحریر کی خلافت بیان مہم کی شاندار کامیابی عوام کا مطالبہ خلافت راشدہ

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خلافت بیان مہم، جس کا آغازجنوری 2013 میں ہوا تھا، پاکستان کے بڑے شہروں میں زبردست طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ بیانات اہم ترین عوامی و سیاسی مقامات پر دیے جا رہے ہیں جن میں مقررنین امت سے اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ موجودہ کرپٹ نظام کو مسترد کر دیں اور پاکستان میں خلافت کے قیام کی تحریک کا حصہ بن جائیں۔ امت اس بیاناتی مہم کا بھر پور مثبت جواب دے رہی ہے۔

ان بیانات میں لوگوں کو اس بات سے خبردار کیا گیا ہے کہ آنے والے انتخابات محض ایک ڈرامہ ہوں گے جس میں پرانے چہروں کے ساتھ ساتھ کچھ نئے چہرے متعارف کرائے جائیں گے، لیکن موجودہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام جوکہ اس ذلت اور بدحالی کی بنیادی وجہ ہے اپنی جگہ پر اسی مضبوطی سے قائم رہے گا۔ جمہوریت کی حقیقت یہی ہے کہ آمریت کی طرح یہ بھی بذاتِ خود کرپشن، بدحالی اور ذلت کو جنم دیتی ہے۔ کیونکہ آمریت کی طرح جمہوریت میں بھی قانون بنانے کا اختیار اللہ خالقِ کائنات کا نہیں بلکہ انسان کے ہاتھ میں ہے اور انسان جس چیزکو چاہے جائز یا ناجائز قرار دے سکتا ہے۔ لہٰذا وہ افراد، کہ جن کا مقصد محض اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنا ہے، اس بات کو جانتے ہیں کہ اگر وہ جمہوری نظام میں منتخب ہو گئے تو ان کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ ایسے قوانین بنائیں جن سے ان کے ذاتی مفادات پورے ہوسکیں۔ چنانچہ کرپٹ افراد انتخابات میں کروڑوں روپے کی "سرمایہ کاری" کر کے 'عوامی نمائندے' بنتے ہیں۔ ان کرپٹ لوگوں کے لیے یہ عقلمندانہ سرمایہ کاری ہے کیونکہ اس کے عوض میں زبردست 'منافع' حاصل ہوتا ہے۔ جمہوریت میں اسمبلیوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ عوام کے مفادات کی نگہبانی کریں بلکہ ان اسمبلیوں کے ذریعے کرپٹ لوگ اپنے اور اُن استعماری طاقتوں کے مفاد کا تحفظ کرتے ہیں جو ان کا چنائو کرتی ہیں اور حکمرانی تک پہنچنے کے لیے ان کی تربیت کرتی ہیں۔

ان بیانات میں لوگوں کو اس بات کی یاد دہانی کرائی گئی کہ صرف خلافت ہی ہمیں کرپشن، بدحالی اور ذلت کی صورتحال سے نجات دلوائے گی۔ خلافت میں حکمران قوانین نہیں بناتے بلکہ حکمران بھی عام شہریوں ہی کی طرح اللہ کے قوانین کی اتباع کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ خلافت میں والیوں (گورنروں) کو نامزد کرتے وقت ان کی ذاتی دولت کو شمار کیا جائے گا اور جب ان کی حکمرانی کی مدت کا خاتمہ ہوگا تو جو بھی دولت اصولی حساب سے زائد ہوگی اسے ضبط کر کے بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا۔ اسلام کے نظامِ معیشت کا نفاذ ہمیں بجلی، گیس، ڈیزل اور پیٹرول کی ناقابل ِبرداشت مہنگائی کے عذاب سے نجات دلوائے گا۔ یہ اس لیے ممکن ہوگا کیونکہ نظامِ خلافت میں تیل، گیس اور توانائی کے وسائل جیسے عوامی اثاثوں کو کسی بھی صورت پرائیویٹ کمپنیوں کی ملکیت میں نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی حکمران انہیں سرکاری ملکیت بناسکتا ہے بلکہ عوام ہی ان اثاثوں کے اصل مالک ہوتے ہیں اور ریاست صرف امت کی طرف سے دیے گئے اختیار کی بنا پر ان وسائل کے معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ لہٰذا ریاستِ خلافت کبھی بھی ان عوامی اثاثوں کو اپنے منافع کے لیے استعمال نہیں کرتی بلکہ وہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان عوامی اثاثوں سے پورا معاشرہ فائدہ اٹھائے۔ خلافت موجودہ نظام میں نافذ ظالمانہ ٹیکسوں اور غیر ملکی قرضوں سے نجات دلائے گی اور ایک نئے ٹیکس نظام کو متعارف کروائے گی جس میں غریب عوام پر ٹیکسوں کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اتنے وسائل دستیاب ہوتے ہیں کہ جس سے امت کے معاملات کی نگہبانی کی جاسکے۔ اسلام کے نظام میں اللہ کا قانون ہی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا ٹیکس منصفانہ ہے اور کون اس کو ادا کرنے کی استعداد رکھتا ہے، جبکہ اسلام میں غریبوں پر ٹیکس لگانا حرام ہے۔ اسلام کا اپنا ایک منفرد محصولات کا نظام ہے جس میں عوامی اثاثوں، جیسے تیل، گیس، تانبہ، سونا وغیرہ سے حاصل ہونے والی آمدن، زراعت کے شعبہ سے حاصل ہونے والا عشر اور خراج اور صنعتی شعبے کی پیداوار پر لگنے والی زکوة وغیرہ شامل ہیں۔ اور جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے، تو خلافت مسلمانوں پر کفار کے غلبے کی جڑ ہی کاٹ دے گی اور وہ تمام حربی کفار سے تعلق توڑ لے گی، ان کے سفارت خانے، اڈے اور ان کی نجی عسکری تنظیموں کی رہائش گاہوں کو بند کر دے گی، اور ان کے کسی بھی فوجی اور سیاسی عہدیدارکے ریاستِ خلافت میں موجود رابطوں اور تعلقات کو کاٹ دے گی۔ ریاستِ خلافت کو طاقتور اور عزت دار بنانے کے لیے کفارکی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا بلکہ خلافت مسلمان علاقوں کو یکجا کرنے کے لیے کام کرے گی تا کہ تمام مسلم علاقوں کو ضم کر کے ایک ریاست کی شکل دے سکے۔ خلافت غیر حربی کفار ممالک سے تعلقات استوار کرے گی تاکہ ان تک اسلام کی دعوت کو پہنچایا جاسکے اور مسلمانوں کے خلاف صف آرا کافر حربی ریاستوں کو تنہا کیا جائے۔ یہ اُن اقدامات میں سے چند ہیں جو حزب التحریر نے نفاذ کے لیے تیار کر رکھے ہیں، جنہیں اللہ کے اذن سے ریاستِ خلافت کے قیام کے فوراً بعد نافذ کیا جائے گا۔

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان کے اغوا کا مسئلہ نوید بٹ کے خاندان کی جانب سے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اور ان کی ایجنسیوں کے نام کھلا خط  

پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے نام

اے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان اور اہلکارو!

آج تمہارے عقوبت خانے میں میرے شوہر نوید بٹ کی غیر قانونی قید کو نو ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے۔ تم لوگ نوید بٹ کے ماضی اور حال سے اچھی طرح واقف ہو اور جانتے ہوکہ ان کا دامن کسی جرم سے آلودہ نہیں۔ نہ تو وہ کوئی دہشت گرد ہیں نہ ہی کسی قسم کی ریاست مخالف سرگرمی میں ان کا کوئی کردار ہے۔ ان کا تعلق تو محض قلم اور کاغذ اور دوسروں تک زبانی اپنا پیغام پہنچانے سے ہے۔ پھر کس جرم کے تحت تم نے انہیں اغوا کر رکھا ہے؟ یہ جرم کہ وہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک خدادادِ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ کیا یہ خواہش اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک معصوم شہری کو بغیر مقدمہ چلائے قید کر دیا جائے۔ وہ بھی اس طرح کہ اس کے گھر والوں کو اس کے حال کی کوئی خبر نہ ہونے دی جائے اور عدالت میں آکر یہ سفید جھوٹ بول دیا جائے کہ وہ ہماری تحویل میں ہے ہی نہیں۔

اے خفیہ ایجنسیوں کے کارندو!

میں تمہیں نصیحت کرتی ہوں کہ تم اپنی نوکریوں، اپنی تنخواہوں اور عہدوں کی خاطر، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام لینے والے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والے اللہ کے محبوب بندوں کو اذیت دینا بند کرو۔ کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ تم نے روز آخرت اللہ کو جواب دینا ہے؟ کیا تم لوگ مسلمان نہیں؟ یا تم نے (نعوذ باللہ) اللہ سے کوئی عہد نامہ لے لیا ہے کہ تمہارے سب گناہوں پر تمہیں معافی مل جائے گی۔ ایک بے گناہ شخص کو قید کر کے تم کیوں اپنے سر گناہوں کا بوجھ جمع کر رہے ہو؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان نہیں سنا:

المسلم من سلم المسلمون من لسانه و يده

"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں" (المستدرک)

اور کیا خود تمہارے بیوی بچے نہیں؟ کیا تم سمجھتے ہوکہ ایسے معصوم مسلمانوں کو قید کرکے اور ان کے بیوی بچوں کو تکلیف پہنچا کر تم اپنے گھر والوں کے لیے منافعت حاصل کرلو گے؟ جبکہ تمہارے حصے میں محض بد دعائیں آرہی ہیں جو دن رات مجھ جیسے اور کئی معصوم شہریوں کے گھر والے تمہیں دے رہے ہیں۔ میں تمہیں اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان یاد دلاتی ہوں جس میں انہوں نے مظلوم کی دعا سے بچنے کی تنبیہ کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ فَوْقَ الْغَمَامِ وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ وَيَقُولُ الرَّبُّ وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ (بخاری)

"تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی، روزہ دار کی دعا جب تک کہ وہ افطار نہ کرے، عادل حکمران کی دعا اور مظلوم کی دعا جو بادلوں سے اوپر اٹھتی ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور رب تعالیٰ فرماتاہے مجھے میری عظمت و جلال کی قسم میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ یہ کچھ دیر بعد ہی ہو۔"

اور اللہ کے رسول ﷺ نے مزید فرمایا:

وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ (بخاری)

"مظلوم کی بد دعا سے بچنا، کیونکہ اس کی بد دعا ء اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔"

اللہ کا خوف کھائو نوکریوں اور مال کی خاطریہ مظالم کرنے سے باز آجائو۔ اور اگر تمہیں اللہ اور آخرت کی سزا کا کوئی خوف نہیں ہے تو یہ مت سمجھنا کہ دنیا میں اس جرم کے بدلے تمہیں کوئی سزا نہیں ملے گی اور شاید آخرت تو تم میں سے بعض کے خیال کے مطابق کس نے دیکھی ہے؟ یاد رکھو! جس خلافت کو قائم ہونے سے روکنے کے لئے تم نے اپنے مغربی آقائوں کے حکم پر میرے شوہر نوید بٹ کو اغوا کر رکھا ہے وہ تمہارے سروں پر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے۔ اور بہت جلد تم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو قائم ہوتا دیکھو گے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ اگر تم لوگوں نے میرے شوہر نوید کو رہا نہ کیا تو وہ پہلا مقدمہ جو قاضی کی عدالت میں دائر ہو گا وہ تمہارے اس غیر قانونی اغوا کے خلاف میں دائر کروں گی۔ پھر اپنے اس جرم کی سزا اس دنیا میں بھی بھگتنے کے لیے تیار رہنا! اور آخرت کے دن تو تمہارا گریبان ہوگا اور میرے ہاتھ ہوں گے اور اس دن بھی تم لوگوں کی آنکھیں پھٹی ہوئی ہوں گی!

اے خفیہ ایجنسیو ں کے سربراہان اور اہلکارو!

مجھے یقین ہے کہ تم اپنی تمام تر مادی طاقت کے باوجود میرے شوہر کے عزم و استقلال میں کسی قسم کی کمزوری نہیں لاسکتے۔ اور تمہارا انہیں اس طرح قید کیے رکھنا خلافت کے داعیوں کے لئے ایندھن کا کام دے رہا ہے اور وہ پہلے سے بڑھ کر اس کو قائم کرنے کے لئے متحرک ہیں۔ اور اللہ تعالی ایسے ہی اپنے محبوب بندوں کے ذریعے ظالموں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اب بھی وقت ہے، اپنے اس عمل بد کو خیرباد کہہ دو، اس گناہوں کے بنڈل سے چھٹکارا حاصل کرو! میرے شوہر کو رہا کرو اور ظالموں کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دو۔ اسلام کا ساتھ دو۔ امت کا ساتھ دو۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ساتھ دو۔ خلافت کے داعیوں کا ساتھ دو۔ امریکہ، برطانیہ اور اسلام دشمنوں کے جاسوسوں کو پکڑو۔ اب بھی وقت ہے۔ اب بھی وقت ہے خدارا خود کو اور اپنے گھر والوں کو مکافاتِ عمل سے بچائو اور بد دعائیں نہ سمیٹو!

وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلاَّ أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ

"ان مسلمانوں کے کسی گناہ کا یہ بدلہ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ عالب سزاوار کی ذات پر ایمان لائے تھے۔ جس کے لئے آسمان اور زمین کا ملک ہے اور جو اللہ ہر چیز پر حاضر اور خوب واقف ہے۔ بے شک جن لوگوں نے مسلمان مرد و عورتوں کو ستایا پھر توبہ نہ کی ان کے لئے جہنم کے عذاب ہیں اور جلنے کے عذاب ہیں"

اہلیہ نوید بٹ، پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

کمر توڑ مہنگائی کے خاتمے کی پالیسی ربیع الاول 1434 ہجری، بمطابق فروری 2013  

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کمر توڑ مہنگائی کے خاتمے کے لیے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے۔ اس دستاویز میں پچھلی ایک دہائی میں مشرف اور شوکت عزیز حکومت اور کیانی، زرداری حکومت کے دوران مسلسل بڑھتی قیمتوں، جس نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، کو قابو کرنے کے حوالے سے مختلف حل تجویز کیے گئے ہیں۔

ا)      مقدمہ: قیمتوں میں مسلسل اور انتہائی بڑے اضافے کی وجہ کاغذی کرنسی ہے جس کی قیمت کم ہوتی رہتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد سونے اور چاندی پر نہیں ہوتی۔

دوسری کرنسیوں کی طرح، جیسے ڈالر، پائونڈ اور فرانک، روپیہ کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔ ڈالر کی بنیاد سونے پر جبکہ روپے کی بنیاد چاندی پر ہوتی تھی۔ اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سونے کی جو قیمت 1890ء میں تھی وہی قیمت کم و بیش 1910ء میں بھی تھی۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک، کپڑے، رہائش، اشیائے ٔ تعیش، صنعتی مشینری، ٹیکنالوجی اور دیگر اشیأ کی خرید و فروخت کے لیے درکار ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کر دیا جس کو سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کر سکتے تھے۔ ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد قیمتی دھات سے ہٹ کر جاری کرنے والی ریاست کی طاقت ہو گئی جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیا۔ اب کرنسی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی بنیاد سونا یا چاندی نہیں رہے جس کے نتیجے میں ہر نیا چھپنے والا نوٹ پہلے نوٹ کے مقابلے میں کم قدر و قیمت رکھتا ہے۔ چونکہ کرنسی نوٹ اشیأ اور خدمات کے تبادلے میں استعمال ہوتے ہیں اس لیے کرنسی کی قدر و قیمت کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ چونکہ خریداری کے لیے کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اشیأ اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا روپیہ جو برطانوی قبضے سے قبل 11 گرام چاندی کے برابر قیمت رکھتا تھا اب دو سو سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے گزرنے کے بعد ایک گرام چاندی کے نو سو وے (1/900) حصے کے برابر قیمت رکھتا ہے۔ 14 جون 1994 کو ایک ڈالر خریدنے کے لیے 30.97 روپے درکار تھے۔ پھر مشرف اور شوکت عزیز کی حکومت میں جمعہ 15 اگست 2008 کو ایک ڈالر کی قیمت بڑھ کر 76.9 روپے ہو گئی جب پاکستان میں افراط زر تیس سالہ تاریخ میں اپنی بلند ترین سطح پر تھا۔ اور اب جنوری 2013 میں کیانی، زرداری حکومت میں ایک ڈالر کی قیمت 98 روپے سے بڑھ چکی ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ اس کی قوت خرید بھی کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ قیمتیں اس قدربڑھتی جا رہی ہیں کہ اکثر لوگوں کے لیے گوشت خریدنا ناممکن، پھل خریدنا عیاشی اور سبزیوں کی خریداری ایک بوجھ بن گئی ہے ۔آج روپے کی قیمت کچھ دہائیوں قبل پیسے کی قیمت سے بھی کم ہو گئی ہے۔ حکمرانوں کے دعوں کے برعکس روپیہ کسی بھی وقت ردی کے کاغذ میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں انتہائی زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور یوں حکومت کرنسی کی قبر کھود رہی ہے جو معیشت کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔

ب)    سیاسی قدر و اہمیت: وہ وجوہات جن کی بنا پر سونے اور چاندی کے محفوظ ذخائر سے زائد کرنسی چھاپنے کی ضرورت پڑتی ہے

ب 1۔ مہنگائی یا افراط زر سود پر مبنی بینکاری کا براہ راست نتیجہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام شرح سود کے تعین کی اجازت دیتا ہے۔ نجی بینک ذیادہ شرح سود حاصل کرنے کی خاطر اپنے کھاتیداروں کی رقم کو سٹیٹ بینک کے مخصوص اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں جیسے 1992 سے 2013 تک اوسطاَ شرح سود 12.75 فیصد سود رہی۔ چونکہ سٹیٹ بینک کے پاس نجی بینکوں کو اس سود کی ادائیگی کے لیے زائد رقم موجود نہیں ہوتی تو وہ مزید نوٹ چھاپتا ہے تا کہ سود کی رقم ادا کر سکے۔ پھر نجی بینک اس حاصل ہونے والے سود کو اپنے کھاتیداروں کو نسبتاَ کم شرح سود پر سود ادا کرتے ہیں اور باقی رقم منافع کے طور پر رکھ لیتے ہیں۔ لہذا سود مہنگائی کو ختم کرنے کی بجائے بذات خود مہنگائی کو بڑھانے کی وجہ بنتا ہے کیونکہ یہ مزید نوٹ چھاپنے پر مجبور کرتا ہے جس کے نتیجے میں روپے کی قدر مزید کم ہو جاتی ہے۔ اگر بینک نجی ملکیت میں نہ ہوتے تو انھیں "قرضے" کو ایک "کاروبار" سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ ان قرضوں پر منافع سود کی شکل میں حاصل نہ کرتے۔ لہذا سرمایہ دارانہ بینکنگ نظام میں معاشرے کا ایک بہت ہی قلیل طبقہ ان سودی قرضوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ خرچ کرنے کی جگہ سودی منافع کے حصول کے لیے جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں، روپیہ اپنی قدر کھو دیتا ہے، قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، کاروبار بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بے روزگاری بڑھنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ سب کچھ معیشت کو تباہی کے گرداب میں پھنسا دیتا ہے۔

ب2۔ سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا صنعتی شعبہ کمزور ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں ہمیشہ زائد ہوتی ہیں۔ لہذا پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومت آئی۔ایم۔ایف (I.M.F) کے حکم پر روپے کی قدر کو کم کر دیتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کرنے کا مقصد پاکستان کے تجارتی توازن کو بہتر کرنا بتایا جاتا ہے۔ ریاست تجارتی توازن حاصل کرنے کے لیے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جبکہ اندرون ملک تیار ہونے والی اشیاء کو زیادہ سے زیادہ برآمدکرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی حکومت پیداواری لاگت میں اضافہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں زراعت، ٹیکسٹائل اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ لہذا مہنگے قرضے اور پیداواری لاگت میں اضافہ بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں۔ جب پاکستانی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے کوئی خریدار نہیں ڈھونڈ پاتیں تو پاکستان کی اہم برآمدی اشیأ کی برآمد میں کمی آ جاتی ہے اور پاکستان کی ادائیگیوں کا توازن خراب ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتا ہے جب درآمدات کا سلسلہ ویسے ہی جاری و ساری رہتا ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی زرعی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان اشیائے خورد و نوش درآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اشیائے خورد و نوش کی درآمد پر، روپے کی قدر میں کمی وجہ سے، زیادہ خرچ کرتا ہے، نتیجتاً اندرون ملک کھانے پینے کی اشیأ مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ حالیہ سالوں میں ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت اور پاکستانی روپے کا اس سے منسلک ہونے کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ نوٹ چھاپنے کی ناکام پالیسی کو چھپانے اور ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کا تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقوم اور اشیائے خورد و نوش جیسے چاول، گندم کی برآمدات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ان اشیأ کی اندرونِ ملک قلت ہو جاتی ہے اور ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اتنی محنت سے کمایا ہوا زرمبادلہ، ملکی معیشت میں نہیں ڈالا جاتا بلکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے واپس بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے جس سے غیر ملکی معیشتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ لہذا حکومت پاکستان ادائیگیوں میں آنے والے فرق کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جس سے اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ نئے قرضے سود پر حاصل کیے جاتے ہیں اور دیگر "ترقی پزیر" ممالک کی طرح پاکستان اصل قرضے کی رقم بھی کئی بار ادا کر دینے کے باوجود قرضے سے نجات حاصل نہیں کر پاتا کیونکہ یہ قرضے ایسی شرائط کے ساتھ آتے ہیں جن سے معیشت مزید کمزور ہوتی ہے، شرح سود بڑھتی ہے، کرنسی کی قیمت کم ہوتی ہے اور زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار زوال پزیر ہوجاتی ہے۔

ب 3۔ مسلمانوں کے لیے سونے اور چاندی کے پیمانے کی جانب دوبارہ لوٹنا عملی طور پر ممکن ہے۔ جن مسلم علاقوں میں خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات ہیں وہ سونے اور چاندی کے وسائل سے بھر پور ہیں جیسے پاکستان میں سینڈک اور ریکوڈیک کے میدان۔ امت کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی دوسرے ممالک کو شدید ضرورت ہوتی ہے جیسے تیل، گیس، کوئلہ، معدنیات اور زرعی اجناس جن کے بدلے سونا اور چاندی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مسلم علاقوں میں موجود بینکوں میں غیر ملکی اثاثے جیسے ڈالر، یورو اور پاونڈ سٹرلنگ موجود ہیں اور انھیں بھی تبادلے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مسلم علاقے بنیادی ضروریات کے حوالے سے خود کفیل ہیں لہذا حقیقی معیشت مستحکم ہوگی اور غیر حقیقی معیشت (سٹاک مارکیٹ، ڈیری ویٹوز وغیرہ) کے خاتمے کے بعد معیشت سٹے بازی کے اثرات سے بھی محفوظ ہو جائے گی۔

د)     قانونی ممانعت: سونے اور چاندی کے پیمانے کی واپسی

د1۔ اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سونے کے دینار، جن کا وزن 4.25 گرام اور چاندی کے درہم، جن کا وزن 2.975 گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال کریں۔ اس وجہ سے ہزار سال تک ریاست خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔ آج خلافت تانبے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لیے استعمال کرے گی اور بین الاقوامی تجارت کے نتیجے میں ملک میں آنے اور جانے والے سونے کی مقدار پر نظر رکھے گی اگرچہ مسلم دنیا اکثر معاملات میں خود کفیل ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تجارت میں سونے اور چاندی کا کرنسی کے طور پر دوبارہ اجرأ امریکہ کی عالمی تجارت میں بالادستی کا خاتمہ کر دے گا کیونکہ اس وقت امریکہ دنیا کو بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے استعمال پر مجبور کر دیتا ہے۔

جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 166 میں اعلان کیا ہے کہ "ریاست اپنی ایک خاص کرنسی، آزادانہ طور پر جاری کرے گی اور اس کو کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنا جائز نہیں"۔ اسی طرح دستور کی دفعہ 167 میں لکھا ہے کہ "ریاست کی نقدی (کرنسی) سونے اور چاندی کی ہوگی، خواہ اسے کرنسی کی شکل میں ڈھالا گیا ہو یا نہ ڈھالا گیا ہو۔ ریاست کے لیے سونے چاندی کے علاوہ کوئی نقدی جائز نہیں۔ تاہم ریاست کے لئے سونا چاندی کے بدل کے طور پر کوئی اورچیز جاری کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ ریاست کے خزانے میں اتنی مالیت کا سونا چاندی موجود ہو"۔ ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 168 کے مطابق "اسلامی ریاست اور دوسری ریاستوں کی کرنسیوں کے مابین تبادلہ جائز ہے جیسا کہ اپنی کرنسی کا آپس میں تبادلہ جائز ہے"۔

د2۔ ریاست خلافت کا سٹیٹ بینک ایک مالیاتی ادارہ ہوگا جس کا کام حقیقی معیشت جیسے زراعت اور صنعتوں میں ترقی اور اضافے کے لیے مدد فراہم کرنا ہوگا۔ ریاست خلافت کا سٹیٹ بینک کوئی خون چوسنے والا ادارہ نہیں ہوگا جو سود کے ذریعے معیشت سے خون نچوڑتا ہو جیسا کہ آج کے بینک کرتے ہیں یعنی مسلسل کرنسی کے پھیلاو کی ضرورت کو پیدا کرنا، کرنسی کی قیمت میں کمی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ۔ ریاست خلافت میں سٹیٹ بینک کا واحد مقصد قرضوں کے ذریعے مقامی زرعی اور صنعتی شعبے کو مدد فراہم کرنا اور ایک متحرک اور طاقتور معیشت کو قائم کرنا ہوگا۔

جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 169 میں اعلان کیا ہے کہ "بینک کھولنے کی مکمل ممانعت ہوگی اور صرف اسٹیٹ بینک موجود ہوگا۔ کوئی سودی لین دین نہ ہوگا اور اسٹیٹ بینک بیت المال کے محکموں میں سے ایک محکمہ ہوگا"۔

د3۔ اگر خلافت پاکستان میں قائم ہوتی ہے تو معیشت کو تباہ کرنے اور پھر مزید قرضوں کے حصول کے لیے بھیک مانگنے کی بجائے دنیا بھر میں مغربی استعماری سود پر مبنی قرضوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے گی۔ یہی وہ ظلم پر مبنی نظام ہے جو کئی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے روکتا ہے۔ یہ نظام قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط عائد کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں معیشت کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ معیشت کی اصل قرض کی رقم سے بھی کئی گنا زائد سود دینے کے باوجود قرضے سے جان نہیں چھوٹتی۔ جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 165 میں اعلان کیا ہے کہ "یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ غیر ملکی سرمایہ ہی ہے جو اسلامی علاقوں میں کفار کے قدم جمانے اور ان کے اثر و نفوذ کو مضبوط کرنے کا سبب رہا ہے اور کفار کو مسلمانوں کے علاقوں میں قدم جمانے کی اجازت یا سہولت دینا حرام ہے"۔

نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد کرنسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریر کی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 165 ،166 ،167 ،168 ،169 سے رجوع کریں۔ متعلقہ آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm

ج) پالیسی: خلافت کو دنیا کے سامنے ایک معاشی ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے گا

ج1۔      حقیقی دولت کے ذریعے یعنی سونے اور چاندی کے ذریعے کرنسی کو مستحکم اور طاقتور کیا جائے گا تاکہ عمومی افراط زر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جس نے گھروں، صنعتوں اور زراعت کو مفلوج کر دیا ہے۔

ج2۔ نجی بینکوں کا سودی بینکاری کے کاروبار کا خاتمہ اور غیر سودی ریاست کا بینک قائم کیا جائے گا تاکہ ایک متحرک معیشت کے لیے زرعی اور صنعتی شعبوں کو مالیاتی مدد فراہم کی جائے۔

ج3۔ عالمی سطح پر استعماری قرضوں کے خاتمے کے لیے کام کرنا تا کہ وسائل رکھنے کے باوجود قوموں کو بھکاری بنا دینے کے سلسلے کا خاتمہ ہوسکے۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے مہنگائی (افراط زر) کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی مسلسل بڑھتی مہنگائی کے عذاب کا خاتمہ کرے گی

 

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے مہنگائی (افراط زر) کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی صرف خلافت ہی مسلسل بڑھتی مہنگائی کے عذاب کا خاتمہ کرے گی

دوسری کرنسیوں کی طرح، جیسے ڈالر، پائونڈ اور فرانک، روپیہ کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔ ڈالر کی بنیاد سونے پر جبکہ روپے کی بنیاد چاندی پر ہوتی تھی۔ اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سونے کی جو قیمت 1890ء میں تھی وہی قیمت کم و بیش 1910ء میں بھی تھی۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک، کپڑے، رہائش، اشیائے ٔ تعیش، صنعتی مشینری، ٹیکنالوجی اور دیگر اشیأ کی خرید و فروخت کے لیے درکار ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کر دیا جس کو سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کر سکتے تھے۔ ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد قیمتی دھات سے ہٹ کر جاری کرنے والی ریاست کی طاقت ہو گئی جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیااس لیے کرنسی کی قدر و قیمت کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ حکمرانوں کے دعوں کے برعکس روپیہ کسی بھی وقت ردی کے کاغذ میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں انتہائی زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور یوں حکومت کرنسی کی قبر کھود رہی ہے جو معیشت کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام شرح سود کے تعین کی اجازت دیتا ہے۔ نجی بینک ذیادہ شرح سود حاصل کرنے کی خاطر اپنے کھاتیداروں کی رقم کو سٹیٹ بینک کے مخصوص اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں۔ چونکہ سٹیٹ بینک کے پاس نجی بینکوں کو اس سود کی ادائیگی کے لیے زائد رقم موجود نہیں ہوتی تو وہ مزید نوٹ چھاپتا ہے تا کہ سود کی رقم ادا کر سکے۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا صنعتی شعبہ کمزور ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں ہمیشہ زائد ہوتی ہیں۔ لہذا پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومت آئی۔ایم۔ایف (I.M.F) کے حکم پر روپے کی قدر کو کم کر دیتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کرنے کا مقصد پاکستان کے تجارتی توازن کو بہتر کرنا بتایا جاتا ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی حکومت پیداواری لاگت میں اضافہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں زراعت، ٹیکسٹائل اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ لہذا مہنگے قرضے اور پیداواری لاگت میں اضافہ بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکیں۔

اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سونے کے دینار، جن کا وزن 4.25 گرام اور چاندی کے درہم، جن کا وزن 2.975 گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال کریں۔ اس وجہ سے ہزار سال تک ریاست خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔ مسلمانوں کے لیے سونے اور چاندی کے پیمانے کی جانب دوبارہ لوٹنا عملی طور پر ممکن ہے۔ جن مسلم علاقوں میں خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات ہیں وہ سونے اور چاندی کے وسائل سے بھر پور ہیں جیسے پاکستان میں سینڈک اور ریکوڈیک کے میدان۔

آنے والی ریاست خلافت حقیقی دولت کے ذریعے یعنی سونے اور چاندی کے ذریعے کرنسی کو مستحکم اور طاقتور کرے گی تا کہ عمومی افراط زر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جس نے گھروں، صنعتوں اور زراعت کو مفلوج کر دیا ہے۔

نوٹ :اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

کمر توڑ مہنگائی کے خاتمے کی پالیسی

ربیع الاول 1434 ہجری، بمطابق فروری 2013

 

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

کیانی اور زرداری ابولہب اور ابو جہل کی سنت کی پیروی کر رہے ہیں کیانی اور زرداری کے غنڈوں نے امریکہ کی خوشنودی کے لیے خلافت کے داعیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا

کیانی اور زرداری نے حزب التحریر کے سیمینار سے سعد جگرانوی اور دیگر کو گرفتار کر کے امریکہ کے ساتھ اپنے کھلے اتحاد کا اظہار کرنے کے کے بعد، گرفتار شدگان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے اپنے غنڈوں کو بھیجا۔ ان غنڈوں نے نوید بٹ کے معمر اور انتہائی معزز بہنوئی کو رائفل کے بٹ مارے جس سے ان کا سر پھٹ گیا اور اس زخم کو بھرنے کے ٹانکے لگانے پڑے۔ اسلام آباد کی اس ٹارچر ٹیم کے شرکأکو حزب التحریر کے گرفتار شباب کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل بھی کیانی اور زرداری کے غنڈے لاتوں، گھونسوں، لوہے کے پائپ، لکڑی کے بیٹ اور اس وقت تک دیوار سے لٹکائے رکھنے کی ترکیبیں استعمال کر چکے ہیں کہ جب تک کندھے اپنی جگہ نہ چھوڑ دیں۔ ایک طرف حزب التحریر اور اس کے شباب اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کرتے ہوئے قرآن اور احادیث سناتے رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق خلافت کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں تو دوسری طرف کیانی اور زرداری اس دعوت کا جواب سچائی کی جگہ لاتوں اور گھونسوں سے کرتے ہوئے ابولہب اور ابو جہل کی سنت کو پورا کرتے ہیں۔

دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا مقصد انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنا نہیں ہے کیونکہ اس سے انھیں آج تک کوئی اہم معلومات حاصل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ غدار اس کے باوجود تشدد کا حکم دیتے ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ مسلمانوں کو جھکنے پر مجبور کر دیں گے۔ نہ یہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ ہی انھیں یہ پتہ ہے کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ طاقت کبھی بھی حق کی آاوز کو دبا نہیں سکی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں حق مزید واضع اور ظالم پر غالب آجاتا ہے۔ ابولہب اور ابوجہل نے اپنی طاقت کے غرور میں مسلمانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا لیکن پھر وہ خود خوفزدہ ہو گئے کیونکہ مسلمانوں کی اللہ سبحانہ وتعالی نے مدد فرمائی اور ابولہب اور ابوجہل کو ہٹا کر مسلمانوں کو اس طرح حکمران بنایا جیسا کہ ابولہب اور ابو جہل کبھی حکمران ہی نہ تھے۔ کیانی، زرداری اور ان کے غنڈے جان لیں کہ اس امت کے پاس ایسے بیٹے ہیں جو راتوں رات موجودہ حکمرانوں کی جگہ امت کی سیاسی اور فوجی قیادت سنبھال سکتے ہیں، جیسا کہ سعد جگرانوی، نوید بٹ اور بریگیڈئر علی خان اور امت ایسی بہادر، جانباز، وفاشعار اور ذہین قیادت کی حقدار ہے۔ یہ ظالم جان لیں کہ خلافت کا قیام قریب ہے اور ان کا یہ ظلم اس کے قربت کی ایک نشانی ہے جو ان کے لیے انتہائی پریشانی اور غصے کے باعث ہے کیونکہ ان کے تمام منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔ جلد ہی ان کی آنکھیں خوف سے پھٹی پڑی ہونگی جب انھیں ان کے منہ کے بل لٹا کر خلافت کی عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا تاکہ ایک ایک لات اور گھونسے کا حساب لیا جاسکے جو کہ ان کے مظالم میں سے سب سے کم تر ہیں۔

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُون

"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرما چکے ہیں کہ انھیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے وہ ان کے لیے پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن سے بدل دے گا وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں"

(النور:55)

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

ٹیکس اور اخراجات کے ظالمانہ نظام میں تبدیلی کے حوالے سے پالیسی ربیع الثانی 1434،بمطابق فروری 2013

 

حزب التحریرولایہ پاکستان نے ٹیکس اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ دیکھایا گیا ہے کہ اسلام کی محصول(Revenue) اوراخراجات (Expenditure)کی پالیسیاں معاشی استحکام اور خوشحالی کا باعث بنیں گی۔

ا)مقدمہ:معاشی استحکام جمہوریت اور آمریت کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔یہ دونوں نظامِ حکمرانی کرپٹ ہیں کیونکہ یہ استعماری طاقتوں اور پاکستان کے حکمران بننے والے ان کے ایجنٹوں کے مفاد کو پورا کرنے والی محصول اورا خراجات کی پالیسیاں بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔
ریاست کے خزانے میں محاصل کی اچھی اور بڑی مقدار لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور ریاست کے امور جیسے افواج،صحت اور تعلیم کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ لیکن پاکستان کے موجودہ نظام ،جمہوریت اور آمریت دونوں، کافر استعماری طاقتوں اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدارایجنٹوں کے چھوٹے سے ٹولے کے معاشی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے عالمی بینک،آئی۔ایم۔ایف(I.M.F)حکومت کے ساتھ مل کر ٹیکس اور نجکاری کی انتہائی تذہیک آمیز پالیسیاں بناتے ہیں۔ان پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کو ان عوامی اثاثوں سے محروم کردیا جاتا ہے جن سے بہت بڑی مقدار میں محصول حاصل ہوسکتا ہے جس کے بعد ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے درکار محاصل کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور ان کے لیے ٹیکسوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں پر انتہائی منفی اثر پڑنا شروع ہوجاتا ہے اور ان کے پاس جو تھوڑی بہت دولت بچتی ہے وہ اس سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور ان کی غربت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔خوراک، لباس،رہائش ،روزگار،وراثت،صحت اور تعلیم وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کو سب کے لیے یقینی بنایا جانا چاہیے لیکن ان پر ٹیکس لگنے سے یہ چیزیں عوام کے لیے ایک آسائش بن جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ جہاں تک ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کا تعلق ہے تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کافر استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل کے حل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ حکمرانی میں کون آتا ہے ،آیا وہ جمہوری حکمران ہے یا آمر،اس استعماری نظام میں پاکستان کے محاصل اورا خراجات کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکمرانی میں پاکستان کی معاشی خودمختاری کی دھجیاں اڑائی گئیں اور یہ سلسلہ کیانی اور زرداری کے دور حکومت میں بھی جاری ہے اور آنے والے نئے ایجنٹ حکمرانوں کے دور میں بھی جاری رہے گا۔اور ایسا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ جمہوریت اور آمریت میں اللہ سبحانہ وتعالی کے قوانین کو نافذ نہیں کیا جاتا بلکہ انسان اپنی خواہشات کے مطابق قوانین بناتے اور نافذ کرتے ہیں۔


ب)سیاسی ا ہمیت:
ب1۔ معاشرے کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے محاصل سے محروم کردینا
سرمایہ داریت،چاہے وہ جمہوریت یا آمریت کسی بھی شکل میں پاکستان میں نافذ ہو،نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کردیتی ہے جیسا کہ تیل،گیس اور بجلی۔لہذاتیل، گیس اور بجلی کے قیمتی اثاثوں کے ملکی اور غیر ملکی مالکان ان اثاثوں سے زبردست محاصل اور منافع حاصل کرتے ہیں ۔آنے والی خلافت ان اثاثوں کو عوامی ملکیت قرار دے کر ان توانائی کے وسائل کو اُن ممالک کو برآمد کر ے گی جن کی مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ دشمنی کا تعلق نہ ہواوریوں کثیر محصول حاصل کرے گی۔اس طرح سے خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امت کی اس دولت کو امت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ ان عظیم وسائل سے چند لوگ یا کمپنیاں منافع کمائیں اور حکومت اِن وسائل پر بڑے بڑے ٹیکس لگا کر عوام کی کمر توڑ دے ۔ اس کے علاوہ سرمایہ داریت نجی ملکیت کے تصور کو فروغ دیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ادارے کہ جن کو بنیادی طور پر ریاست کی ملکیت میں ہونا چاہیے جیسے اسلحہ سازی،بھاری مشینری کی تیاری ،ذرائع مواصلات،بڑی بڑی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ،ان کا قیام بھی نجی شعبہ کی ذمہ داری بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں عوامی مفادات کے تحفظ پر آنچ آتی ہے۔ آنے والی خلافت انشأ اللہ ایسے اداروں کو بنیادی طور پر سرکاری شعبے میں قائم کرے گی اور نجی کمپنیاں بھی ان شعبوں میں حکومت کی نگرانی میں کام کرسکیں گی تاکہ آج جس طرح سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کو عوامی مفادات کو پس پشت ڈال دینے کی اجازت دے رکھی ہے اس کا تدارک ہوسکے ۔یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نطام میں دنیا کی دولت مند ترین کمپنیاں وہ ہیں جو توانائی، اسلحہ،بھاری مشینری،ادویات اور مواصلات کے شعبوں میں کام کررہی ہیں۔لہذا حکومتوں کے پاس صرف ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ لوگوں پر مزید ٹیکس عائد کر کے ان کے لیے سانس لینا بھی دشوار کردے۔اس کے علاوہ پاکستان کے معاملے میں ایجنٹ حکمران، استعماری طاقتوں کے ایمأ پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جیسے مشینری اور دوسرے پیداواری وسائل کی درآمد پر ایکسائز ڈیوٹی کی کم شرح ، منافع پر ٹیکسوں کی چھوٹ جس کو واپس بھیج کر غیر ملکی معیشت کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ اور پاکستان کی پیداواری صنعت کو غیر ملکی اداروں کے ہاتھوں تباہ و برباد کروانا جس کا ثبوت خود حکومت کے غیر ملکی سرمایہ کاری کے اعدادوشمار ہیں۔ یہ اعدادوشمار مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت میں بڑھتے رہے اور زرداری اور کیانی کی حکومت میں بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔
ب2۔بڑی اکثریت پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر انھیں بدحال کیا جا رہا ہے جبکہ چند لوگ مالدار بنتے جارہے ہیں
آئی۔ایم۔ایف(I.M.F) کے زیر نگرانی مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت اور کیانی اور زرداری حکومت کے دوران بھی آمدنی اور اشیأکی خریداری اوران کے استعمال پر بہت بڑی تعداد میں ٹیکسوں کی بھر مار نے پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ 1987-88میں کل محاصل117,021ملین ،2002-03میں 706,100ملین اور 2011-12میں 2,535,752ملین روپے تھے۔ان محاصل میں سے براہ راست ٹیکسوں یعنی انکم ٹیکس ،پراپرٹی ٹیکس اور کورپوریٹ ٹیکس کی مد میں 1987-88میں 12,441ملین روپے حاصل ہوئے اور پھر 2002-03میں بڑھ کر 153,072روپے اور 2011-12میں 745,000ملین روپے حاصل ہوئے۔ ان اعدادو شمار سے یہ واضح ہے کہ پہلے براہ راست ٹیکس کل محاصل کا 10فیصد تھے جو بڑھ کر20 فیصد اور پھر کیانی زرادی کے دور حکومت میں 2011-12میں یہ کل محاصل کا 29فیصد تک ہوگئے۔
اس کے علاوہ صرف انکم ٹیکس،جو کہ ریاست کے لیے محصول کا ایک اہم زریعہ ہے، 1987-88میں اس کا کل محاصل میں حصہ17فیصد تھا جو 2002-03میں 32فیصد تک پہنچ گیا تھا۔جس کا مطلب ہے کہ ملازمت پیشہ افراد پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا گیا جس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔جب تک یہ کرپٹ نظام چلتا رہے گا چاہے کوئی بھی حکومت میںّ آجائے صورتحال مزید خراب ہی ہوگی۔حکومت نے 2011-12میں صرف انکم ٹیکس کی مد میں 730,000ملین روپے اکٹھے کیے جو 2002-03میں حاصل ہونے والے کل محاصل کے برابر ہے۔اس کے علاوہ 2012-13کے بجٹ میں حکومت نے انکم ٹیکس کی مد میں اکٹھی ہونے والی رقم کا ہدف 914,000ملین روپے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت مزید ٹیکس لگانے کا اعلان کررہی ہے جو دراصل مغربی استعماری طاقتوں کے مطالبے کے عین مطابق ہے تا کہ جو تھوڑا بہت معیشت میں باقی رہ گیا ہے اس کو بھی نچوڑ لیا جائے۔
اس کے علاوہ بل واستہ ٹیکسوں کو دیکھا جائے ،جن میں ایکسائز، بین الاقوامی تجارت پر ٹیکس ،سیلز ٹیکس ،گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات پر سر چارج اور اس کے علاوہ سٹامپ ڈیوٹی،بیرون ملک سفر پر ٹیکس، موٹر وہیکل ٹیکس شامل ہیں ،کی مد میں 1987-88میں 81,015ملین روپے جو 2002-03میں بڑھا کر 397,875ملین حاصل کئے گئے ۔ صرف سیلز ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم 1988-87میں کل محاصل کا 9فیصد تھی جو مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت میں 43فیصد تک پہنچ گئی۔اس سیلز ٹیکس کی وجہ سے لوگوں کے لیے ادویات،خوراک اور زراعت اور صنعت کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی خریداری اس حد تک تکلیف دہ بن گئی کہ ان کے لیے معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا اور اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن بن گیا۔اس قسم کی ٹیکس پالیسی معاشرے میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا باعث بنتی ہے اور معاشرے کاوہ طبقہ جو سیڑھی کی سب سے نچلی جگہ پر ہے اس پالیسی سے اس بری طرح سے متاثر ہوتا ہے کہ وہ کیا کمائے اور کیا خرچ کرے۔ اس صورتحال کے تسلسل کے نتیجے میں زراعت اور صنعتی شعبہ مزید تباہ ہوجاتا ہے اور چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز مزید بڑھتا ہے ۔اور اگر یہی نظام جاری و ساری رہا تو یہ صورتحال مزید خراب تر ہوتی جائے گی۔ حکومت نے 2011-12میں جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 852,030ملین روپے اکٹھے کیے تھے اور 2012-13کے بجٹ میں اس کا ہدف 1,076,500ملین روپے ہے۔
تو اس سرمایہ دارانہ نظام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ صرف سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی مدمیں حاصل ہونے والی رقم حکومت کے کل محاصل کا 60فیصد بن جاتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے لیے درکار محاصل کا بہت بڑا حصہ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر حاصل کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں وہ ضروری اشیأ کی خریداری سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔یہ کرپٹ نظام اسی قسم کی خرابی کو ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کو بنایا ہی اس طرح گیا ہے کہ وہ عوام کی ضروریات سے غفلت برتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جواس نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔جہاں تک انکم ٹیکس کا تعلق ہے تو یہ نظام اس ٹیکس کے ذریعے لوگوں کی اس محنت کی کمائی پر ٹیکس لگاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کی تکمیل کی امید رکھتے ہیں بجائے اس کے کہُ ان کی اس فاضل دولت پر ٹیکس لگتا جو ان کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچتی ہے۔ اسی طرح سیلز ٹیکس کی صورت میں بھی ان اشیأ پرٹیکس لگایا جاتا ہے جو کے لوگوں کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کی اشیاء ہیں بجائے اس کے کہ صرف لوگوں کی اس فاضل دولت پر ٹیکس لگتا جو ان کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچتی ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود غدار ایجنٹ حکمران اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ نظام ''عوام کے لئے(for the people)‘‘ ہے۔ اس کے برعکس خلافت میں نہ تو انکم ٹیکس ہوتا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس، کیونکہ بنیادی طور پر نجی ملکیت ''ناقابل دسترس‘‘ ہے۔ٹیکس صرف اس فاضل دولت پر لگتا ہے جو بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچتی ہے اور یہ ٹیکس بھی ریاست انتہائی سخت شرائط کو پورا کرنے کے بعد ہی عائد کرسکتی ہے۔کم ٹیکس کی یہ پالیسی اس لیے ممکن ہوتی ہے کیونکہ ریاست خلافت کے پاس عوامی اور ریاستی اثاثوں سے محاصل کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مزید محصول کے لیے زرعی اور صنعتی شعبے سے ٹیکس حاصل کرنے کے لیے منفردقوانین کا ایک نظام بھی موجود ہوتا ہے ۔
ب3۔اخراجات میں استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹ حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کو فوقیت دی جاتی ہے
امت کو اس کے محاصل کے ذرائع سے محروم ، کمانے اور خرچ کرنے کی اہلیت کو محدود کرنے کے بعد ، حکومت استعماری ممالک سے سودی قرضے حاصل کرتی ہے ۔یہ قرضے بنیے سے حاصل کردہ قرضوں کی مانند ہوتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر رکھنا ہوتا ہے تا کہ ان قرضوں کی ادائیگی کے نام پر اس کے اثاثوں کو ہتھیالیا جائے اور اس کو اس قابل ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا اور مغربی استعمار کے لیے کوئی چیلنج بن سکے۔پاکستان کا کل قرضہ 1990-2000کے عرصے میں 15,451ارب ڈالر تھا جبکہ اس عرصے کے دوران 36,111ارب ڈالر ادا بھی کیے گئے۔کئی دہائیوں سے پاکستان ہر سال 3.66بلین ڈالر سالانہ ادا کررہا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا بیرونی قرضہ دوگنا ہوچکا ہے اورہر گزرتی دہائی کے ساتھ صورتحال بد ترہوتی جارہی ہے۔ وزارت مالیات کے پاکستان اکنامک سروے کے مطابق مارچ 2012کے اختتام پرپاکستان کے ذمہ صرف ایک استعماری ادارے آئی۔ایم۔ایف (I.M.F)کا قرضہ8.1ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔اب پاکستان اپنے بجٹ کا 35فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے جو 2011-12کے 30ارب ڈالر کے بجٹ میں 11ارب ڈالر بنتی ہے۔یہ وہ رقم ہے جس کو معیشت سے نکال لیا گیا ہے حالانکہ جس کے ذریعے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے اور ان کوکئی سہولیات پہنچائی جاسکتی ہیں۔یہ ہے عالمی انصاف کہ پاکستان کی طرح دنیا کے کئی ممالک اپنے قرضوں سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود سود اور استعماری ممالک کی شرائط کی وجہ سے ان کا قرض ختم ہی نہیں ہوتا۔


د)قانونی ممانعت: معیشت کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنا
د1۔محاصل اور اخراجات ایک نظر میں
سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسلام آمدن اور اخراجات پر ٹیکس کو محاصل کے حصول کا بڑا ذریعہ نہیں بناتا۔ اس کے محاصل کی بنیادبنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچنے والی فاضل دولت اور اصل پیداوار ہے۔ خلافت صرف سخت شرائط کے ساتھ ہی ٹیکس لگاسکتی ہے اور وہ بھی صرف اخراجات کے بعد جمع ہونے والی دولت پر لگتا ہے لہذا ان لوگوں پر ٹیکس لگ ہی نہیں سکتا جو غریب ہیں یا اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ایک تو ریاست خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں، جیسے توانائی کے وسائل، بھاری مشینری کے اداروں سے بہت بڑی تعداد میں محاصل حاصل کرسکے گی اور دوسرے اسلام کے وہ منفرد قوانین جو محاصل کے حصول کو یقینی بناتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے میں دولت کا ارتکاز نہیں ہوتا بلکہ اس کی منصفانہ تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے ۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ148میں اعلان کیا ہے کہ''ریاستی بجٹ کے دائمی ابواب (مدات) ہیں جن کو شرع نے متعین کیا ہے۔ جہاں تک بجٹ سیکشنز کا تعلق ہے یا ہر سیکشن میں کتنا مال ہوتا ہے یا ہونا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر سیکشن میں موجود مال سے متعلقہ امور کا تعلق خلیفہ کی رائے اور اجتہاد پر منحصر ہے‘‘ ۔اور دستور کی دفعہ 149میں لکھا ہے کہ '' بیت المال کی آمدن کے دائمی ذرائع مندرجہ ذیل ہیں: فئی ،جزیہ ،خراج ، رِکاز کا خمس (پانچواں حصہ) اور زکوٰۃ۔ ان اموال کو ہمیشہ وصول کیا جائے گا خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو‘‘۔اور دفعہ 151میں لکھا ہے کہ ''وہ اموال بھی بیت المال کی آمدن میں شمار ہوتے ہیں جو ریاست کی سرحدوں پر کسٹم کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں یا عوامی ملکیت اور ریاستی ملکیت سے حاصل ہوتے ہیں یا ایسی میراث جس کا کوئی وارث نہ ہو یا پھر مرتدوں کے اموال ‘‘۔
د2۔صنعتی شعبہ محاصل کے حصول کا ایک ذریعہ ہے
خلافت میں صنعتی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ صنعتی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے مشینری اورتوانائی پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر صنعتی شعبے کو مفلوج نہیں کیا جائے گا۔بلکہ ریاست تجارت سے حاصل ہونے والے منافع سے محاصل حاصل کرے گی۔ اس عمل کے نتیجے میں کاروباری حضرات کو بغیر کسی رکاوٹوں کے پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کا بھر پور موقع میسر ہو گا اور وہ اپنے منافع یا جمع شدہ دولت پر حکومت کو محاصل دیں گے جس کے نتیجے میں دولت کی گردش کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 143میں اعلان کیا ہے کہ''مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ زکوٰۃ ان اموال پر لی جائے گی جن پر زکوٰۃ لینے کو شریعت نے متعین کر دیا ہے جیسا کہ نقد ی،تجارتی مال ، مویشی اور غلہ۔ جن اموال پرزکوٰۃ لینے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ،ان پر زکوٰ ۃ نہیں لی جائے گی۔ زکوٰۃ ہرصاحب نصاب شخص سے لی جائے گی خواہ و ہ مکلف ہو جیسا کہ ایک عاقل بالغ مسلمان یا وہ غیر مکلف ہو جیسا کہ بچہ اور مجنون۔ زکوٰۃ کو بیت المال کی ایک خاص مد میں رکھا جائے گااور اس کو قرآن کریم میں وارد ان آٹھ مصارف میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد کے علاوہ کہیں اور خرچ نہیں کیا جائے گا‘‘۔
د3۔زراعت:خراج محصول کا طریقہ ہو گا لیکن یہ کاشتکاروں پر بوجھ نہیں ہو گا
اسلام کے زیر سایہ ،برصغیر ہندوستان نے،جو کے ایک زرعی معاشرہ تھا، دنیا کی کل پیداوار کی25فیصد پیداوار دی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ خراج کا نظام تھا۔خراج کے نظام کے تحت زمین کی ملکیت تمام مسلمانوں کی ہوتی ہے لیکن اس زمین کو استعمال کرنے کا حق اور اس سے حاصل ہونے والی منفعت زمین کو کاشت کرنے والے کی ہوتی ہے۔لہذا جو اس زمین کو کاشت کرتا ہے وہی اس زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا مالک بھی ہوتا ہے۔ اس نظام نے پیداوار میں اضافہ کیا اور دولت کی تقسیم کو یقینی بنایا۔ اس زمین کے استعمال کے عوض اور اس زمین کی استعداد کے مطابق مسلمانوں نے اس زمین سے ریاست کے لیے محصول حاصل کیا ۔ برطانوی راج میں جب سرمایہ دارانہ نظام رائج کیا گیاتو کاشتکاروں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے، پھر ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ سودی قرض حاصل کریں جس کے نتیجے میں کاشتکارقرضوں تلے دب گئے اور آخر کار انھیں اپنی زمینیں بیچنی پڑیں۔ اس کے علاوہ استعماری طاقت نے اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے زمینوں پر زبردستی قبضہ بھی کیا۔ آج بھی زرعی شعبہ سرمایہ داریت کی وجہ سے نقصان برداشت کررہا ہے اگرچہ اس تمام صورتحال کے باوجودپاکستان کی بچ جانے والی زراعت کئی شعبوں میں اب بھی دنیا میں بے مثال ہے اور اس میں اتنی استعداد ہے کہ وہ تیزی سے پھل پھول سکے۔ کاشتکاروں پر زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے کھاد،بیج،مشینری اور تیل پر بھاری ٹیکس عائد ہیں۔ جس کے بعد انھیں اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے اپنی پیداوار بیرون ملک برآّمد کریں۔ اس عمل کے نتیجے میں پاکستان کو نقصان ہوتا ہے اور پاکستان کو وہی اشیاء مہنگے داموں درآمد کرنا پڑتی ہیں جو وہ خود بہت بڑی تعداد میں پیدا کرسکتا ہے۔ اسلام میں محصول زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس لگا کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سستے خام مال کی وجہ سے کاشتکار کو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کرے۔جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ145میں اعلان کیا ہے کہ''خراجی زمین پر خراج اس زمین کے مطابق لیا جائے گا جبکہ عشری زمین پر زکوٰۃ اس کی عملی پیداوار پر لی جائے گی‘‘۔
د4۔ریاست کو ٹیکس لگانے کابنیادی اختیار نہیں ہے بلکہ صرف چند کڑی شرائط کے ساتھ اُسے ٹیکس لگانے کا اختیار ہے
اسلام نے افراد کی نجی ملکیت کوتحفط فراہم کیا ہے اور بغیر شرعی جواز کے اس میں سے کچھ بھی لینے سے منع فرمایا ہے لہذا ریاستِ خلافت میں انتہائی مجبوری میں ٹیکس لگایا جاسکتا ہے اور وہ بھی کڑی شرائط کو پورا کرنے کے بعد جیسے اگر جو محصول شریعت نے عائد کیے ہیں اگر وہ ریاست کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہیں تو صرف اُن افراد کی اُس فاضل دولت پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے جو ان کی بنیادی ضروریات اور آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچتی ہے۔ لہذا اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لوگوں کی محنت کی اُس کمائی پر ٹیکس نہ لگے جو ان کی بنیادی ضروریات اور کسی حد تک آسائشوں کی پورا کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے جبکہ سرمایہ داریت میں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی صورت میں کم صاحب حیثیت کے لوگوں کو سزا دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسلام کا ٹیکس کا نظام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دولت معاشرے میں گردش کرے نہ کہ چند ہاتھوں میں جمع ہوجائے۔ پاکستان میں سب سے امیر تیس افراد کی دولت تقریباً 15ارب ڈالر ہے اور یہ وہ اعدادو شمار ہیں جو ظاہر کیے گئے ہیں۔ ان افراد پر صرف 30فیصد ٹیکس ریاست کے لیے 4.5ارب ڈالر کے محصول کا باعث بنے گا۔ لہذا ہنگامی صورتحال میں دولت مندوں پر عائد کیے گئے اس ٹیکس کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم پاکستان کی زوال پزیر صنعتی شعبے کی بحالی پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست خلافت اپنے عوام سے مختلف منصوبوں کے لیے رضا کارانہ بنیادوں پر قرضہ بھی حاصل کرسکتی ہے اور یہ امت اللہ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے آج بھی بغیر کسی ریاستی تعاون کے خود کئی ایسے منصوبوں پر مال خرچ کررہی ہے۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ150میں اعلان کیا ہے کہ'' بیت المال کی دائمی آمدنی اگر ریاست کے اخراجات کے لیے ناکافی ہو تب ریاست مسلمانوں سے ٹیکس وصول کرے گی اور یہ ٹیکس کی وصولی ان امور کے لیے ہے:۱) فقراء، مساکین، مسافر اور فریضہ جہاد کی ادائیگی کے لیے بیت المال کے اوپر واجب نفقات کو پورا کرنے کے لیے۔ب) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جنہیں پورا کرنا بیت المال پر بطورِ بدل واجب ہے جیسے ملازمت کے اخراجات، فوجیوں کا راشن اور حکام کے معاوضے۔ج۔) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو مفاد عامہ کے لیے بغیر کسی بدل کے بیت المال پر واجب ہیں۔ جیسا کہ نئی سڑکیں بنوانا، زمین سے پانی نکالنا، مساجد ، اسکول اور ہسپتال بنوانا۔د) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو بیت المال پر کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے واجب ہوں جیسے ہنگامی حالت میں قحط ، طوفان اور زلزے وغیرہ کی صورت میں‘‘۔اور دفعہ 146میں لکھا ہے کہ ''مسلمانوں سے وہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کی شرع نے اجازت دی ہے اور جتنا بیت المال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ شرط یہ ہے کہ یہ ٹیکس اس مال پر وصول کیا جائے گا جو صاحبِ مال کے پاس معروف طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد ہواور یہ ٹیکس ریاست کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی بھی ہو‘‘۔ اس کے علاوہ دفعہ 147میں لکھا ہے کہ '' ہر وہ عمل (کام) جس کی انجام دہی کو شرع نے امت پر فرض قرار دیا ہے اگر بیت المال میں اتنا مال موجود نہ ہو جو اس فرض کام کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو تب یہ فرض امت کی طرف منتقل ہوگا۔ ایسی صورت میں ریاست کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ امت سے ٹیکس وصول کر کے اس ذمہ داری کو پورا کرے‘‘۔
د5۔اخراجات کے رہنما اصول
خلافت ریاستی اموال، عوامی اثاثوں کے ذریعے،زراعت اور صنعتوں کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبائے بغیر اور دولت مندوں کی فاضل دولت پر ٹیکس لگا کر بہت بڑی تعداد میں محصول اکٹھا کرتی ہے۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے اسلام ریاست کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ہر اس چیز پر خرچ کرے جو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہے۔ یقینی طور پر خلافت استعماری طاقتوں کی مجرم تنظیموں اور اداروں کو مزید کوئی رقم ادا نہیں کرے گی جبکہ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہم دیگر کئی ممالک کی طرح اصل رقم کئی بار ادا کرچکے ہیں۔ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ152میں اعلان کیا ہے کہ''بیت المال کے نفقات (اخراجات)کو چھ مصارف میں تقسیم کیا جاتا ہے۔(۱) وہ آٹھ مصارف جو زکوٰۃ کے اموال کے مستحق ہیں ان پر زکوٰۃ کی مد سے خرچ کیا جائے گا۔ (ب) فقراء ، مساکین، مسافر اورجہاد فی سبیل اللہ اور قرضداروں پر خرچ کرنے کے لیے اگر زکوٰۃ کے شعبے میں مال نہ ہو تو بیت المال کی دائمی آمدنی سے ان پر خرچ کیا جائے گا۔ اگر اس میں بھی کوئی مال نہ ہو تو قرضداروں کو توکچھ نہیں دیا جائے گالیکن فقراء ، مساکین، مسافر اور جہاد کے لیے ٹیکس نافذ کیاجائے گا ۔اگرٹیکس عائد کرنے سے فساد کا خطرہ ہو تو قرض لے کر بھی ان حاجات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔(ج) وہ اشخاص جو ریاست کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں جیسے ملازمین ،افواج اور حکمران ،ان پر بیت المال کی آمدن میں سے خرچ کیا جائیگا۔ اگر بیت المال میں موجود مال اس کام کے لیے کافی نہ ہو تو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس لگایا جائے گا اور اگر فساد کا خوف ہو تو قرض لے کر یہ ضروریات پوری کی جائیں گی۔ (د) بنیادی ضروریات اور مفادات عامہ جیسے سڑکیں، مساجد، ہسپتال، سکول وغیرہ پر بیت المال میں سے خرچ کیا جائے گا۔ اگر بیت المال میں اتنا مال نہ ہو تو ٹیکس وصو ل کرکے ان ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔(و) اعلیٰ معیارِ زندگی مہیا کرنے کے لیے بھی بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا اگر بیت المال میں مال کا فی نہ ہو توپھر ان پرکچھ خرچ نہیں کیا جائے گا اور ایسے اخراجات کو مؤخر کیا جائے گا۔(ہ) اتفاقی حادثات یا ہنگامی حالات جیسے زلزلے، طوفان وغیرہ کی صورت میں بھی بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا۔ اگر بیت المال میں مال نہ ہو تو قرض لے کر خرچ کیا جائے گا پھر ٹیکس وصول کر کے وہ قرض ادا کیے جائیں گے‘‘۔


نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیی حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات143سے 152تک سے رجوع کریں۔ متعلقہ آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm


ج)پالیسی :محصول اور اخراجات کا مقصد دنیا کی صف اول کی ریاست کو مزید آگے لے جا نا
ج1۔ تیل،گیس اور بجلی کے عوامی اداروں،اس کے علاوہ ریاستی ملکیت میں چلنے والے بھاری مشینری اور اسلحے کے کارخانوں اور مواصلات اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں محاصل کا حصول۔
ج2۔صنعت اور زراعت کے شعبوں کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس کا خاتمہ جو ان کی پیداوار کو مفلوج کرتا ہے۔محصول ،صنعتی شعبے سے پیدا ہونے والی اشیأ کی تجارت پر ہونے والے منافع اور زراعت سے ہونے والی پیداوار پر لیا جائے گا۔
ج3۔ مغربی سرمایہ دارانہ اداروں کے قرضوں کی واپسی ختم کردی جائے گی کیونکہ ان قرضوں کو ظالمانہ سود سمیت کئی بار اداکیا جاچکا ہے ۔اخراجات کو مسلمانوں کی ضروریات اور ان کے مفادات کے حصول کو مد نظر رکھ کر کیا جائے گا جس میں طاقت اور خوشحالی کے لیے مضبوط صنعتی شعبے کے قیام کے لیے خرچ کرنا بھی شامل ہے۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ظالمانہ ٹیکس اور اخراجات کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی غریب پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرے گی

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک