الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: ایران اور '5+1' گروپ کے مابین 24 نومبر 2013 کا ایٹمی معاہدہ

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال: ایران اور '5+1' گروپ کے مابین 24 نومبر 2013 کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے اس کے بارے میں بین الاقوامی اور علاقائی موقف اور سیاسی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان بیانا ت سے اس مسئلے کے حوالے سے نقطہ نظر میں پیچیدگی اور تضاد کا اظہار ہوتا ہے۔۔۔ایران اس کو کامیابی قرار دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس کو یورینم کو افزودہ کرنے کی اجازت ہے جبکہ امریکہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کا حق دینے کی تردید کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ اس معاہدے سے یہودی وجود زیادہ محفوظ ہو گیا۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ کبھی بھی ایران کو ایٹمی ملک بننے نہیں دے گا۔ یہودی وجود اس معاہدے کو ایک برائی اور تاریخی غلطی قرار دیتا ہے۔۔۔ان سب چیزوں نے مجھے اور ہو سکتا ہے مجھ جیسے کئی لوگوں کو اس معاہدے کی حقیقت کو سمجھنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کر دیا۔۔۔سوال یہ ہے کہ :اس معاہدے کی حقیقت کیا ہے اور کس کا موقف درست ہے؟ کیا اس معاہدے کا تعلق خطے میں ایران کے کردار سے ہے ،مثال کے طور پر شام میں رونما ہو نے والے واقعات کے ساتھ؟ اوبامہ کی جانب سے اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے اس سرتوڑ کوشش کا کیا سبب ہے ،اس حد تک کہ ایک سیاستدان کہہ رہا تھا کہ "اوبامہ اس معاہدے کو امریکہ کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دے رہا ہے"؟ اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔
جواب :پہلے ہم اس معاہدے کے حوالے سےمختلف ذرائع ابلاغ میں نشرہو نے والی خبروں کے ذریعے اس کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں:
1 ۔ ایران نے اس معاہدے میں خود کو پابند کیا ہے:
ا ۔ ایران 5٪ سے زیادہ یورینیم کی افزودگی روکنے کا پابند ہو گا، اس سے زیادہ افزودگی کے لیے درکار ٹیکنالوجی کے ذرائع کو بھی منقطع کر دے گا۔ اپنے 20٪ افزودہ یورینیم کے تمام ذخیروں کو کم کرکے 5٪ سے کم کی سطح پر لائے گا یا اس کو ایسی شکل میں تبدیل کرے گا کہ اس کوکسی افزودگی کے کام میں نہ لایا جا سکے۔۔۔ایران نے اس بات کی بھی پابندی کا عہد کیا ہے کہ وہ افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو3.5 ٪سے زیادہ ہونے کے حوالے سے ہر پیش رفت کو روکے گا ،اس وجہ سے مذکورہ چھ مہینوں کے اختتام تک، کہ جن کا ذکر اس معاہدے میں ہے، 3.5 ٪ افزودہ یورینیم کی مقدار وہی رہے گی جو ان چھ مہینوں کی ابتدا کے وقت ہے۔
ب ۔ایران اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی قابلیت کو زیادہ نہیں کرےگا چنانچہ وہ کسی بھی قسم کا کوئی اور سینٹری فیوج سسٹم نہیں لگائے گا۔ یورینیم کو افزودہ کرنے کی غرض سے کسی نئے ماڈل کے سینٹری فیوجز نہیں بنائے گا اور نہ نہیں ہی استعمال کرے گا۔ وہ ان سینٹری فیوجز میں سے نصف ناکارہ کر دے گا جن کو میں لگایا گیاہے۔ اسی طرح ان سینٹری فیوجز کے تین چوتھائی تعدادکو بھی ناکارہ کرے گا جن کو میں لگا یا گیا ہے تاکہ یورینیم کی افزودگی کے لیے ان کا استعمال ممکن نہ ہو۔ اسی طرح ایران نے اس بات کی پابندی کا عہد کیا ہے کہ وہ سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچنے کی صورت میں صرف ان کو چلانے کے لیے درکار پرزے ہی بنائے گا تا کہ آئیندہ چھ مہینوں میں ایران مزید کوئی نئے سینٹری فیوجز نہ بنا سکے۔
ج ۔ ایران نے اراک (Arak) میں موجود ری ایکٹرز کو فعال نہ کرنے اور پلوٹونیم کو کو نکالنے میں پیش رفت کو روکنے اور اس کے لیے کسی بھی دوسری قسم کے اضافی مرکبات مہیا نہ کرنے عہد کیا ہے۔ وہ کسی قسم کا ایندھن اور بھاری پانی بھی وہاں منتقل نہیں کرے گا۔معاہدے کی رو سے ایران استعمال شدہ ایندھن میں سے پلوٹونیم کو الگ کرنے کے عمل کو روک دے گا اور اراک میں موجود ری ایکٹرز سے متعلق مطلوبہ حساس ، مستند اور تفصیلی معلومات فراہم کرے گا جو اس سے قبل ایک طویل عرصے تک ان ری ایکٹرز کے حوالے سے دستیاب نہیں تھیں۔
د۔ اراک کے ری ایکٹرز میں داخل ہونے کے لیے تفتیش کاروں کو مزید مواقع فراہم کرنا اور بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ ایران کے سکیورٹی معاہدے کے پروٹوکول کے مطابق مخصوص اور مطلوبہ بنیادی معلومات فراہم کرنا۔ اسی طرح ایران اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ اٹامک انرجی کمیشن کے تفتیش کاروں کو روزانہ کی بنیاد پر Natanz اور Fordow کے ری ایکٹرز کے معائنے کی اجازت دے گا۔ وہ تفتیش کاروں کو مذکورہ دونوں تنصیبات میں کیمرے کی آنکھ کے ذریعے محفوظ کی گئی تصاویر کی چھان بین کے ذریعےان دونوں مقامات پر یورینیم کی افزودگی پر نظر رکھنے کی اجازت دینے کا پابند ہو گا۔۔۔ایران اس بات کا بھی پابند ہوگا کہ بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن کو سینٹری فیوجز کو جمع کرنے کی تنصیبات، اور سینٹری جیوجز کی پیداوار اور انھیں اکٹھا کرنے کی تنصیبات میں داخلے کی اجازت دے گا۔ اسی طرح یورینیم کی کانوں اور اس کی تیاری کی جگہوں میں بھی داخل ہونے کی اجازت دے گا۔
ھ ۔ ایران '5 +1' ممالک اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی ترتیب دینے کا پابند ہے جو ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ہو نے والے معاہدے پر عمل درآمد پر نظر رکھے گی اور اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خدشات کے حوالے سے گذشتہ اور موجود قراردادوں پر بھی عمل در آمد میں مدد دے گی جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو فوجی مقاصد سے دور رکھنا اور Barshin میں ایرانی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی شامل ہے۔
2 ۔ اس معاہدے سے ایران کو کیا حاصل ہو گا:
ا ۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اعلان کیا ہے کہ چھ مہینے کے لیے اس کا ملک 20 ٪ تک یورینیم کی افزودگی کو بند کردے گا، افزودگی کے پروگرام سے منسلک دوسری سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ وزیر خارجہ نے اشارہ دیا کہ بڑی طاقتوں نے آنے والے چھ مہینوں کے اندر اضافی پابندیاں نہ لگانے کا وعدہ کیا ہےجبکہ ایران کی پیڑوکیمیکل انڈسٹری ، گاڑیوں کے پیداواری اداروں، انشورنس اور قیمتی دھاتوں کی تجارت پر عائد پابندیوں میں بھی نرمی کی جائے گی۔
ب۔ نیوز ایجنسی رائیٹرز کی 24 نومبر2013 کی خبر کے مطابق اس وقتی معاہدے کے حوالے سے وائٹ ہاوس نے ایک دستاویز جاری کی ہے جس کی رو سے ایران کی جانب سے اپنے ایٹمی پروگرام کے بعض حصوں سے دستبردار ہونے پر اس پر لگی ہوئی پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ اس دستاویز کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ ایران1.5 ارب ڈالرز کے ریونیو حاصل کر لے گا جو سونے اور دوسری قیمتی معادنیات کی تجارت کے ضمن میں ہو گا اور ایرانی گاڑیوں کے پیداواری اداروں اور پیٹرو کیمیکل پر پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ اسی طرح ایرانی تیل کی مصنوعات کو بھی موجودہ کم ترین سطح کے مطابق فروخت کی اجازت مل جائے گی او ر اگر ایران اس معاہدے پر عمل در آمد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ مذکورہ اشیا ء کی تجارت کی مد میں 4.2 ارب ڈالر منتقل کرنے کی اجازت حاصل کر لے گا۔ وائٹ ہاوس نے اس بات کی وضاحت کی کہ ایران کے خلاف پابندیوں میں نرمی سے اس کو تجارتی تبادلے کی شکل میں 7 ارب ڈالر حاصل ہو ں گے۔
ج ۔ جنیوا مذاکرات میں شامل وفود کے کئی ارکان نے کہا کہ ایران کی جانب سے ایٹمی پروگرام سے باز رہنے کے اس معاہدے سے ایران پر لگی پابندیوں میں محدود طور پر کمی آئے گی جس سے اس کو 7ارب ڈالر تجارتی تبادلے کی شکل میں ملیں گے۔
3 ۔ ایران نے اس کو کامیابی قرار دے دیا اور اس کے مرشد اعلیٰ خامنائی نے اس معاہدے کی یہ کہہ کر مدح سرائی کی کہ "ایٹمی مذاکرات کاروں کی ٹیم کا اس کامیابی پر شکریہ ادا کیا جانا چاہیے اور اس کامیابی کے پیچھے اللہ کی مہربانی، عوامی دعائیں اور حمایت کار فرما ہے" (ایرانی فارس پریس 25 نومبر 2013)۔ روحانی نے بھی کل 26 نومبر 2013 کو ایرانی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افزودگی کا حق جو کہ ایرانی ایٹمی پرگرام کےحقوق کا حصہ ہے جاری رہے گا۔ اس نے مزید کہا کہ "افزودگی آج بھی جاری ہے، کل بھی جاری رہے گی اور کبھی بند نہیں ہو گی اور یہ سرخ لکیر ہے"۔ اسی انٹر ویو میں ایرانی صدر نے اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مکمل معاہدے پر پہنچنے کی امید بھی ظاہر کردی۔ اس حوالے سے انہوں نےکہا کہ یہ راستہ بہت طویل ہے اس پر عوامی تائید اور حمایت سے ہی چلا جاسکتا ہے۔ ایرنی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے پرسوں شام 25 نومبر 2013 کو ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اس کا ملک یورینیم کی افزودگی کو جاری رکھے گا۔ اس نے مزید کہا کہ اس حوالے سے وہ امریکیوں سے بات چیت جاری رکھیں گے۔
4 ۔ کیا یہ واقعی کامیابی ہے؟ اس معاہدے کو باریکی سے دیکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے ہٹ گیا، اور اس نے مغرب کی خواہش پر یورینیم کی افزودگی کو روک دیا۔ پھر افزودہ یورینیم کو 20 ٪ سے کم کر کے 5 ٪ سے بھی کم کرنے یا اس کو ایسی شکل دینے پر راضی ہو گیا جو اپنی اصلی حالت میں نہ ہو۔ 5 ٪ سے زیادہ افزودہ نہ کرنے کی پابندی پر بھی راضی ہو گیا ۔ اپنے ان ری ایکٹرز کو بھی فعال نہ کرنے کی حامی بھر لی جو بھاری پانی پیدا کرتے ہیں۔ پلوٹونیم کی پیداوار سے بھی دستبردارہو گیا جوکہ ایٹمی اسلحے کی بناوٹ کے لیے لازمی ہے۔ نئے سینٹری فیوجز بھی نہ بنانے کی پابندی کو بھی قبول کیا،تفتیش کاروں کے لیے روزانہ تفتیش کا دروازہ کھول دیا۔ اسی طرح تمام سرگرمیوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی اجازت دے دی تاکہ اس کی ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی نگرانی میں رہیں۔۔۔پھر اس کو کس طرح کامیابی کہا جاسکتا ہے؟ ایرانی عہدیداروں کی جانب سے اس معاہدے کو بڑی کامیابی کہنا دراصل اپنی پسپائی اور امریکہ نوازی کو چھپانا ہے۔ اس قسم کی باتیں کر کے وہ کسی ممکنہ عوامی احتجاج کو خاموش کرنے اور امریکہ کے ساتھ اعلانیہ تعلقات کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنےکی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کی یہ پسپائی اس کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ وہ خود مختار ہے اور اپنی خودمختاری کا احترام جانتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بین الاقوامی نگرانی میں دے اور روزانہ تفتیش کی اجازت دے جیسا کہ امریکی قبضے سے پہلے عراق میں صدام نے کیا جب اس نے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کن ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر بین الاقوامی نگرانی میں دیا اور روزانہ تفتیش کی اجازت دی؟ اس سے ایران اپنے ایٹمی پروگرام کی راہ میں خود حائل ہو گیا ہے، خاص کر اس وقت جب وہ دیکھ رہا ہے کہ یہودی وجود روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں کے ذریعے اپنی قوت میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔۔۔ہر بینا اور دیدہ ور اس بات کا ادراک کر سکتا ہے کہ یہ کوئی کامیابی نہیں کہ کوئی ریاست 20 ٪ تک افزودگی تک پہنچنے کے بعد پھر واپس3.5 ٪ تا 5٪ پر آئے اور پہلے 20 ٪ افزودہ کرنے کے آلات کو بند کردے۔ یہ کسی لحاظ سے کامیابی نہیں۔ یہ بس ایسا معاملہ ہے جس کا کرتا دھرتا امریکہ ہے جس نے ایران کے بارے میں اپنی پالیسی کے مطابق اس کے ساتھ اپنے پس پردہ تعلقات کو منظر عام پر لانے کے لیے ایسا کیا تا کہ ایران خطے میں امریکہ کی جانب سےاس کے لیے متعین کیے گئے کردار کو پابندیوں کی رکاوٹ کے بغیر ادا کرتا رہے۔۔۔بہت سے لوگوں کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ ایران امریکہ کا خوشہ چین ہے، خاص کرشام کے واقعات کے بعد تو سب کو یقین ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ تعلقات جمہوریہ ایران کے وجود میں آنے کے پہلے دن سے تھے لیکن دونوں کے درمیان تعاون انتہائی رازداری سے جاری تھا خاص طور پر عراق اور افغانستان کے حوالے سے جس کا اعتراف ایران کے سابقہ عہدیدار کر چکے ہیں۔ ایران کے موجودہ وزیر خارجہ جواد ظریف 2001 میں امریکہ میں جمہوریہ ایران کے سفارتی نمائندہ تھے جنھوں نےاس وقت اپنی حکومت سے افغانستان پر امریکی یلغار میں امریکہ کے ساتھ تعاون کا مطالبہ کیا جس پر اس وقت بعض ایرانیوں نے ان کو امریکی ایجنٹ قرار دیا۔ اب ایران اعلانیہ طور پر امریکہ کے ساتھ لین دین اور کھل کر امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ اب خطے میں اس کا ایک کردار ہو گا جس کا تعین امریکہ کرے گا۔ شام میں توامریکہ اس کے کردار کا تعین کرچکا ہے جس کی رو سے وہ اس وقت تک بشار الاسد کی حکومت کی پشت پناہی کرے گا جب تک امریکہ کو ایسا ایجنٹ نہیں ملتا جو وہاں امریکہ کے زیر اثر حکومتی نظام کے اجزائے ترکیبی کو محفوظ رکھ سکے۔
5 ۔ مذکورہ معاہدے کا پشت بان امریکہ ہے۔ امریکہ ایرانی اتھارٹی کے ساتھ پچھلے کچھ مہینوں سے 24 نومبر 2013 کو اس معاہدے کے اعلان تک خفیہ ملاقاتوں میں مصروف تھا۔امریکہ یہ بھی جانتا تھا کہ یورپ ایران کے ساتھ اس امریکی معاہدے کو نا کام بنانا چاہتا ہے اس لیے یورپ کو خبر ہونے سے پہلے ہی اس معاہدے کو پایا تکمیل تک پہنچایا گیا۔ فرانسیسی اخبار"لےمونڈ" (Le Monde) نے 24 نومبر 2013 کو خبر شائع کی کہ کئی سینئر امریکی عہدیداروں نے ایرانیوں کے ساتھ پچھلے چند مہینوں کے دوران دوطرفہ خفیہ بات چیت کی ہے جس نے ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والے ابتدائی معاہدے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جس پر ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات 24 نومبر 2013 کودستخط کیے گئے۔ 24 نومبر 2013 کو نیوز ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس"نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں، '5+1' گروپ کے دیگر ممبران اوراسرائیل کو ستمبر 2013 کے اواخر میں آٹھ مہینوں بعد،ان خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں بتایا جن میں اوبامہ اور روحانی کے درمیان رابطہ ممکن ہوا۔۔۔ فرانسیسی اخبار نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں اومان میں ہوتی تھیں۔۔۔امریکی انتظامیہ کے تین عہدیداروں نے "ایسوسی ایٹڈ پریس" نیوز ایجنسی کو بتا یا کہ انہی خفیہ مذاکرات نے ہی اس معاہدے کی راہ ہموار کی جن سے ہفتے کی شام ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جنیوا میں معاہدہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔
6 ۔ یہی وجہ ہے کہ اوبامہ اس معاہدے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا رہا حتی ٰ کہ کانگریس کی جانب سے بھی کسی مخالفت کو آڑے ہاتھوں لیتا رہا اوریہودی وجود کو بھی یقین دہانی کراتا رہا کہ اس معاہدے سے ان کی حفاظت ممکن ہو گی ۔اسی لیے اس معاہدے کے بارے میں بڑی جلدی کرتا رہا جو اس کے بیانات سے بھی واضح طور پر نظر آتا ہے:
امریکی صدر اوبامہ ایران کے ساتھ اعلانیہ قرابت داری کی پالیسی کا جواز پیش کرتا رہا اور کہا کہ: "ہم سفارت کاری کے دروازے کو بند نہیں کر سکتے اور دنیا کے مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کرنے سے صرف نظر نہیں کر سکتے "اورمزید کہا کہ " اگر ایران اس موقع سے فائدہ اٹھا تا ہے اور بین الاقوامی برادری میں شامل ہو نا چاہتا ہے تو ہم ان شکوک وشبہات کو دور کر سکتے ہیں جو کئی سالوں سے ہمارے ملکوں کے درمیان ہیں" (الجزیرہ 26 نومبر 2013 )۔۔۔ امریکی صدر اوبامہ نے معاہدے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "ایران کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا یہ ایک قابل ذکر پیش رفت اور صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے اہم قدم ہے۔۔۔آج کا اعلان مقصد کے حصول کی طرف پہلا قدم ہے" (ورلڈ نیوز (این بی سی نیوز) آن لائن 23 ستمبر 2013)۔۔۔اوبامہ نے 25 نومبر 2013 کوسان فرانسیسکو میں ایک مہم میں شرکت کے دوران کہا "بڑے چیلنجز اب بھی موجود ہیں مگر ہمیں بات چیت کی راہ کو بند نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی ہما رے لیے دنیا کے مسائل پر امن طور پر حل کرنے کے لیے باچیت سے منہ پھیرنا ممکن ہے" ، اوراس بات کی طرف اشارہ کیا کہ "آنے والے مہینوں میں سفارتی کاوشوں سے اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے ایرانی ایٹمی پروگرام کے خطرے کا مسئلہ پائیدار طورپر حل ہو جائے گا"۔۔۔24 نومبر 2013 کو اوبامہ نے کہا کہ یہ معاہدہ اس پروگرام کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس نے کہا کہ یہ معاہدہ ایران کے ایٹم بم بنانے کے راستے کو بند کردے گا۔ اوبامہ نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے آنے والے چھ مہینوں میں معاہدے کی شقوں کی پابندی نہیں تو اس کا ملک پابندیوں میں نرمی کو ختم کردے گا۔ اسی طرح کیری نے وضاحت کی کہ یہ معاہدہ ایران کے ایٹمی اسلحے کی طرف جانے کو مشکل بنادے گا۔ دس سالوں سے جاری ایٹمی بحران کے کئی ہنگامہ خیزمسائل میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئےاس نے کہا کہ اس معاہدے میں یورینیم کی افزود گی کے حوالے سے ایران کے کسی "حق" کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یہودی وجود کو اطمینان دلاتے ہوئے اس نےکہا کہ :"یہ معاہدہ دنیا کو زیادہ پر امن بنادے گا اور اسرائیل اور خطے میں ہمارے شرکاء زیادہ محفوظ ہوجائیں گے " (اے ایف پی 24 نومبر 2013 )۔
رد عمل کے طور پر وائٹ ہاوس نے انتہائی عجلت میں یہودی لابی سے ہمدردی رکھنے والے ارکان کے اثر کو زائل کرنے کے لیے بھاری شخصیت کے حامل افراد جیسے سکوکروفٹ (Scowcroft) اور برزنسکی (Brzezinski) سے مدد طلب کرتے ہوئے ان کے ذریعے کانگریس پر دباؤ ڈال دیا، تا کہ کانگریس کو کسی مخالفانہ اقدامات سے باز رکھا جائے۔ لہٰذا ان دونوں افراد نے سینٹ میں اکثریت کے نمائندے ہیری ریڈ (Harry Reid) کو خط لکھا ، ان سے ایران کے ساتھ ہو نے والی بات چیت کی حمایت کا مطالبہ کیاکیونکہ اس سے امریکہ کا قومی مفاد وابستہ ہے۔ اس خط میں لکھا ہے کہ : "۔۔۔یہ بات چیت امریکہ، اسرائیل اور خطے کے دوسرے شرکاء کی قومی سلامتی کا ضامن ہے"۔ اس خط میں ایران پر نئی پابندیاں لگانے سے خبردار کیا گیا ہے، "اس وقت ان مذاکرات کے دوران جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے ایرانی یہ یقین کر لیں گے کہ امریکہ ایران کی موجودہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کے لیے تیار نہیں"۔اس خط میں ذکر ہے کہ :"ہم تمام امریکیوں اور امریکی کانگریس کو ایران کے ساتھ مشکل مذاکرات میں صدر کے شانہ بشانہ کھڑے ہو نے کی درخواست کرتے ہیں" (سکوکروفٹ اور برزنسکی اسٹریٹیجک کلچر فاونڈیشن آن لائن 20 نومبر)۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ اس مسئلے کو اپنی موت وحیات کا مسئلہ سمجھ کر اس سے نمٹا!
7 ۔ یورپ کی جانب سے اس معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش اور پھر اس کو قبول کر نا: امریکہ یہ جانتا تھا کہ یورپ امریکہ ایران معاہدے کے خلاف ہے کیونکہ یورپ جانتا ہے کہ ایران امریکہ نواز ہے۔اس پر لگائی گئی پابندیوں میں نرمی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اس کو خطے میں کوئی کردار دینا چاہتا ہے جو وہ امریکہ کے مفادات کے لیے نبھاتا رہے گا جس کے لیے اس کی نقل وحرکت کو آسان بنانے کے لیے اس پر لگی پابندیوں میں نرمی ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس نے پہلے مرحلے ، جو 15 اکتوبر 2013 کا ہے، میں کھل کر معاہدے کی مخالفت کردی اور برطانیہ نے بھی حسب عادت پس پردہ ایسا کیا مگر چونکہ امریکہ اس کے انعقاد میں سنجیدہ تھا اس لیے یورپ اس کی حمایت پر مجبور ہو گیا۔
یوں یورپی ، یہ جاننے کے بعد بھی کہ امریکہ پہلے ہی اس کی بنیاد یں رکھ چکا ہے ، اس معاہدے کو ناکام نہیں بناسکے ۔۔۔اس لیے انہوں اس کی حمایت کی اور لگتا ہے بین الاقوامی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے،خاص کر جب یہ معاہدہ ایران کو 3.5٪ تا 5 ٪ سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے سے روک کر ایٹمی اسلحہ بنانے کے حوالے سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو روک رہا ہے ۔ اس نے جو 20 ٪ یورینیم افزودہ کر رکھا تھا اس کو ضائع کیا جائے گا، ایٹمی ری ایکٹر روزانہ کی بنیاد پر نگرانی اور تفتیش کے لیے دیے جائیں گے۔ اسی لیے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ (William Hague) نے ٹویٹر پر اپنے پیج میں 24 نومبر 2013 کو کہا:"یہ معاہدہ بہت ہی اہم تھا یہ حوصلہ افزا امر ہے اور ایران کے ساتھ پہلا مرحلہ ہے، چھ مہینے کے اندر وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو منجمد کر دے گا اوراس کے بعض حصوں کو پچھلے مرحلے میں واپس لائے گا"۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولاند (Francois Hollande) نے کہا "یہ درست سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ معاہدہ فرانس کی جانب سے یورینیم کے ذخیرے، اس کی افزودگی کادائرہ کار اور نئی تنصیبات کو چالو نہ کرنے اوراسے بین الاقوامی نگرانی میں دینے کے فرانس کے مطالبے سے ہم آہنگ ہے" (اے ایف پی 24 نومبر 2013)۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولاند (Francois Hollande) نے اس معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا "ایران کے ساتھ مغرب کے تعلقات کی بحالی کی جانب درست سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے"۔
8 ۔ باقی رہا یہودی وجود کا موقف۔۔۔:اس معاہدے کے بارے میں یہودی وجود کا یہ موقف کہ یہ اچھا معاہدہ نہیں ہے نا تو نیا ہے اور نہ ہی یا عجیب ہے۔ فلسطین کو غصب کرنے والی اس ریاست نےاپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ایک پالیسی اور منصوبہ بندی کر ررکھی ہے کہ صرف ایٹمی طاقت ہی نہیں بلکہ خطے میں کسی قوت کا ظہور ہی نہ ہو، بلکہ کوئی روایتی ترقی یافتہ قوت بھی وجود میں نہ آئے، نہ صرف ایران جتنا بڑا ملک بلکہ کوئی چھوٹی سی ریاست بھی ایسی نہ ہو۔ وہ اردن کو اپنا سٹریٹیجک شریک سمجھنے کے باوجود اس کو مسلح کرنے کی راہ میں روکاوٹ بنتا ہے، اس کے مسلح ہونے پر اعتراض کرتا ہے! لبنانی اخبارات نے عربی وکی لیکس (wikileaks) سے13مارچ 2013کی ایک دستاویز کے حوالے سے خبر شائع کی ہے جس میں سفیر ریچرڈ جونز نے یہودی ریاست کی جانب سے فروری 2006 کوامریکہ سے اپنے مطالبے میں کہا کہ خطے کے ممالک کو اسلحہ کی سپلائی روکنے کے حوالے سے اردن کے بارے میں ان کا یہ موقف ہے کہ : "۔۔۔عبرانی ریاست (اسرائیلی ریاست) اردن کو اپنا 'اسٹریٹیجک پارٹنر' سمجھتی ہے ۔۔۔ اس کے باوجود جغرافیائی مماثلت اور ممکنہ اسٹریٹیجک تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اردن کی فوج کا اسلحہ اسرائیلی فوج کے اسلحے کا ہم پلہ ہو۔ اسرائیل اس کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا اور خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اردن کو سام (Sam) میزائل یا کسی ایسے سسٹم سے مسلح کیا جائے جس سے اس کی فضائی حدود مکمل طور پر اس کے نشانے پر آجائے"۔
یہ ہے خطے کے بڑے اور چھوٹے ممالک کے حوالے سے یہودی ریاست کی پالیسی۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اس کی ممکنہ ریاست کے بارے میں اپنی بات چیت میں یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ نام نہاد ریاست بھی غیر مسلح ہو نی چاہیے۔۔۔اس لیے یہودی ریاست اس بات پر اکتفا نہیں کرتی کہ ایران پر امن ایٹمی ملک ہو اور ایٹمی اسلحے سے لیس ملک بن جائے بلکہ کوئی بھی ہو ہر قسم کی ایٹمی صلاحیت سے محروم ہو پرامن ہو یا نہ ہو خطے کی ہر ریاست کے بارے میں اس کی یہ پالیسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدام کے زمانے میں امریکہ کی جانب سے گرین سگنل ملنے پر عراق کے ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔ اسرائیل ایک سے زائد بار ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا نے کا تہیہ کرچکا تھا لیکن امریکہ نے اس کو بازرکھا۔۔۔ہم نے دیکھا کہ یہودی ریاست اس وقت خوشی سے ناچنے لگی جب شام کے سرکش نے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی حامی بھر لی۔۔۔
یہودی ریاست یہ جانتی ہے کہ اس کی کوئی ذاتی طاقت نہیں ﴿إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍمِنَ النَّاسِ...﴾" مگر اللہ کی رسی کے بل بوتے پر اور لوگوں کی رسی کے ذریعے" (آل ِعمران: 112)۔
اللہ کی رسی کو تو یہ لوگ صدیوں سے کاٹ چکے ہیں۔۔۔لوگوں کی رسی البتہ اس وقت سے ان کو پکڑائی گئی ہے جب برطانیہ نے اس کی داغ بیل ڈالی ، فرانس نے اس کی آبیاری کی اور پھر امریکہ نے اس کو گود لیا۔ اس لیے یہ اپنی پالیسی میں امریکہ سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس بات کی توقع ہے کہ(اسرائیل) امریکہ میں یہودی لابی کے ذریعے آنے والے چھ مہینوں کے میں ایران کے ساتھ ایسے حتمی حل تک پہنچنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرے گی جس میں اس عارضی حل میں شامل پابندیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جائے۔
امریکہ بہر حال اپنے مفادات کو یہودی ریاست پر مقدم رکھے گا بلکہ امریکہ ہی یہودی وجود کی سکیورٹی کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔ یہو دی وجود اپنی سکیورٹی کو امریکہ پر مسلط نہیں کر سکتا، خاص کر جب اوبامہ اپنی صدارت کے دوسرے مرحلے میں ہے جس میں یہودی لابی کا اثر نسبتاََ کم ہے۔ اس کے باوجود یہودی ریاست اپنی بقا کو امریکہ کے مرہون منت سمجھتی ہے۔امریکہ ہی خطے کے ممالک کو ایٹمی ہتھیارحاصل کرنے سے روکتا اور یہودی ریاست کو ایٹمی اسلحہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس معاہدے کی بعض شقیں یہودی وجود کے لیے اطمینان بخش ہیں۔اسرائیل کے وزیر اطلاعات Yuval Steinitz نے اسی دن صبح کے وقت عبرانی نشریاتی ادارے-2 (Hebrew broadcasting network 2) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا "بڑے ممالک نے اسرائیل کی خواہش پر اس معاہدے کے اعلان سے کچھ دیر پہلے اس معاہدے کے مسوّدے میں رد وبدل کیا"۔
یہودی ریاست امریکہ کے ساتھ مل کر کوشش کرے گی کہ اس کے آخری حل میں مزید شرائط اور پابندیوں میں اضافہ کرے، چنانچہ اسرائیل کے وزیر مالیات Yair Lapid نے اسرائیلی فوجی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے ہفتہ 24 نومبر 2013 کی صبح کو کہا : "اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ امریکہ اور دوسری طاقتوں کے ساتھ مل کر چھ ماہ بعد بہترین حتمی حل تک پہنچنے کی تگ ودو کرے "۔ اس نے مزید کہا کہ "اگرچہ یہ معاہدہ ایک بری چیز ہے لیکن ہمیں امریکیوں اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تا کہ حتمی معاہدے میں ایرانی ایٹمی پروگرام کی مکمل تباہی کی ضمانت دی جاسکے"۔
اس سب سے یہ واضح ہو تا ہے کہ یہودی ریاست امریکی آشیر باد سے خطے میں خود تو ایٹمی اسلحہ جمع کرنا چاہتی ہے جبکہ کسی اور ریاست کو کسی بھی قسم کا جدید اسلحہ حاصل کرنے سے روکنا چاہتی ہے، بلکہ ان ریاستوں کو طاقتور ایٹمی پروگرام کی سوچ سے بھی باز رکھنا چاہتی ہے۔۔۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسلامی علاقوں میں قائم ممالک کااس غداری کی حد تک گر جانا کہ ایٹمی اسلحہ تو کجا وہ پر امن ایٹمی پروگرام کے لیے علمی تحقیق سے بھی ڈرتے ہیں، جبکہ اسی وقت یہودی ریاست خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر ایٹمی اسلحہ بنا رہی ہے اور خطے میں کسی اور کو بنا نے سے روک رہی ہے۔
اس لیے یہودی وجود کے وزیر اعظم Netanyahu کی جانب سے یہ کہنا کہ "یہ معاہدہ ایک تاریخی غلطی ہے۔یہ ایک ایسا برا معاہدہ ہے جس سے ایران کو وہ مل گیا جو وہ چاہتا تھا یعنی کچھ پابندیاں ہٹائی جائیں اور ایٹمی پروگرام کا بنیادی حصہ برقرار رہے" (اے ایف پی 24نومبر2013 )۔ اس نے جو کچھ کہا ہےاسے اس کے سیاق میں دیکھنا چاہیے کہ یہودی ریاست کی یہ خواہش ہے کہ خطے میں اس کے علاوہ کوئی بھی ایسی قابل ذکر قوت نہ ہو اور وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مکمل تباہی چاہتا ہے۔
9۔ رہی یہ بات کہ امریکہ نے آخر اس معاہدے کے انعقادکے لیے اس قدر ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگا یا؟ تو یہ سب جانتے ہیں کہ ایرانی ایٹمی پروگرام پچھلے کئی سالوں سے موضوع بحث تھا جس میں کچھ لو اور کچھ دو کی کیفیت چل رہی تھی ۔ پھر کیوں اس وقت اوبامہ ایرانی ایٹمی معاہدے کو کامیاب بنا نے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہا ہے اور اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ "ہم نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یہ قابل ذکر پیش رفت ہے۔ میرے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سب سے ہم ہے"
اس کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران خطے میں حالات سنگین ہو چکے ہیں اور جس چیز نے امریکہ کو چوکنا کردیا ہے وہ شام کے طول وعرض میں رائے عامہ کا خلافت کے لیے سازگار ہونا ہے۔ یہ ایک نیا منظر نامہ ہے جس کا مشاہدہ عرب میں تبدیلی کی لہر میں نہیں کیا جارہا تھا جو اگر چہ لوگوں کی اپنی مرضی سے شروع ہوئی تھی ، لیکن ان کے نعرے یا تو سیکولرازم کے قریب تھے یا اس کا ملغوبہ تھے جس کو امریکی معتدل اسلام کہا جاتا ہے! یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان تحریکوں کو ہائی جیک کرنے اور ان کے ساتھ کھیلنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔جبکہ شام میں برپاہونے والی تحریک پر صاف شفاف اسلامی احساسات کا غلبہ ہے اس کے اندر صحیح اسلامی افکار اور مفاہیم نمایاں ہیں جیسا کہ ان کا نعرہ ہے کہ "امت دوبارہ خلافت کا قیام چاہتی ہے"۔۔۔شام میں گرم ہو تے ہوئے اسلامی ماحول نے مغرب کو بالعموم اور امریکہ کو با لخصوص سیخ پا کردیا ہے کیونکہ ان کو خلافت کی عظمت اور قوت کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ ان کو یہ معلوم ہے کہ خلافت کے ہوتے ہوئے دنیا میں کسی طاقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ ان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے
ایک اور محرک بھی ہے جس نے ان کی پریشانیوں کو دوچند کر دیا ہے اور وہ یہ کہ امریکہ بحرانوں میں پھس چکا ہے اور اپنی فعالیت کھو چکا ہے اور شام میں سر چڑھتی ہوئی اس اسلامی لہر کو براہ راست قابو کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ خطے کے خائنوں میں سے اپنے لیےکارندے ڈھونڈ رہا ہے جو ان عظیم الشان اسلامی موجوں کے سامنے اس کے لئے فرنٹ لائن کا کردار ادا کریں۔
جہاں تک امریکہ کے داخلی بحران کا تعلق ہے تو اقتصادی بحران، جس سے کہ امریکہ نکل نہیں پا رہا ہے، کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن کے درمیان تمام بنیادی مسائل پر اختلاف ہے، یعنی مقامی پارٹی بازی کی سیاست امریکہ کے قومی مفاد کی جگہ لے چکی ہےاور یہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سے زیادہ اہم معاملہ بن چکا ہے۔کئی ایک ماہرین نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قرضوں کی سطح کی بلندی کے حوالے سے دونوں بڑی پارٹیوں کے مابین اختلافات اور اوبامہ کا صحت کا منصوبہ امریکی سیاسی نظام کے دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔فرینک فوگل(Frank Fogel)، Huffington Post میں لکھتے ہیں کہ :"امریکہ کا سیاسی نظام زمین بوس ہو رہا ہے۔ کانگریس عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔ گیلپ سینٹر (Gallop Centre) کے تازہ ترین سروے کےمطابق کانگریس پر اعتماد کر نے والوں کا تناسب اب صرف 10 ٪ رہ گیا ہے اور commercial public opinion کے سروے کے مطابق 85 ٪ بڑے بزنس مین یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو جن سنگین ترین مسائل کا سامنا ہے ان کا سبب انتخابی مہموں کے لیے سرمایہ کاری کا نظام ہے۔ 42 ٪ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام مکمل طور پر فیل ہو چکا ہے" (Huffington Post 26جولائی 2013 )۔
جہاں تک امریکہ کی خارجہ سیاسی صورت حالکا تعلق ہے تویہ اس کی داخلی صورت حال سے بھی بدتر ہو چکی ہے، اس کے باوجود کہ دنیا کے ہر خطے میں اب بھی امریکہ کی اجارہ داری قائم ہے۔ Immanuel Wallersten دنیا کے طول و عرض سے امریکہ کی پسپائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :"اگر سب نہیں تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد امریکہ کے اثرورسوخ، اس کے رتبے اورقوت میں کمی اور سکڑنے کو محسوس کر رہے ہیں، امریکہ کے اندر لوگ اب نہ چاہتے ہوئے بھی اس کوقبول کر رہے ہیں"۔ (The Consequence of Regression of the United States: Al-Jazeera Channel, 2/11/2013)۔
برزنسکی (Brzezinski) نے 2010 میں مونٹریال میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ :"دنیا کی پرانی اور نئی عظیم طاقتوں کو گزشتہ کسی بھی دور کے مقابلے میں بھرپُور عسکری طاقت کے باوجود، دنیا پر اپنا غلبہ مسلط کرنے کی صلاحیت تاریخ کی کم ترین سطح پرہونے کے حوالے سے، ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے" چونکہ امریکہ، ان بحرانوں کی وجہ سے جو اسکے گلے میں کانٹا بن چکے ہیں ، اپنی بالادستی کو موثر بنا نے سے قاصر ہے۔۔۔اور اس کی وجہ سے اس کے ایجنٹ خواہ جن کی اس نے باہر پرورش کی ہے یا بشار اور اس کے کارندوں کی صورت اندرونی طور پر پالا ہو ۔۔۔سب مل کر بھی گزشتہ تین سالوں کے دوران شام کے بارے میں کوئی پائیدار فیصلہ نہ کرسکے بلکہ خلافت کے نعروں کی گونج سے ان کےکان پھٹ رہے ہیں ،ان آنکھیں پتھرا رہی ہیں اور ان کے دل لرز رہے ہیں۔۔۔ان تمام اسباب کی بنا پر امریکہ نے خطے میں شام کے ہمسایہ ممالک کو اپنا فرنٹ لائن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ یہ اس متوقع حکومت کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں جو خلافت کو ریاست ، زندگی اور معاشرے کے لیے نظام بنائے گی۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے دو ریاستوں کا انتخاب کیا جو اس کے تابع فرمان تھیں تاکہ وہ ذمہ داری ادا کریں: یہ دو ریاستیں ترکی اور ایران ہیں۔ ترکی کی حرکات وسکنا ت پر کوئی پابندی نہیں تھی جبکہ ایران پابندیوں کے مسئلے سے دوچار تھا اس لیے عالمی اور علاقائی طور پر اس کی سرگرمیاں محدود تھی اور وہ تنہائی کا شکار تھا۔ یہ ترکی سے بھی بڑھ کر خلافت کے خلاف سرگرم ہے کیونکہ خلافت ایرانی حکمرانوں کےنظرئیے کے لحاظ سے ایک ناقابل قبول چیز ہے، اسی وجہ سے وہ انتہائی سرگرمی سے اس کے خلاف برسرپیکار ہیں، جبکہ ترکوں کی وراثت میں ہی ایک طویل عرصے تک خلافت کا عہد ہے جس کی وجہ سے ترک حکومت خلافت کے خلاف اپنی جنگ کو چھپاتی ہے اور راستے تبدیل کرتی رہتی ہے۔
یہ ہے وہ نئی چال جس کی رو سے ان دوممالک کو مذکورہ طریقے سے کردار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ کر ایران پر لگائی گئی پابندیاں ختم کردیں تا وہ آسانی سے متحرک ہو۔ اسی مقصد کی خاطر اوبامہ نے اس قدر جانفشانی سے ان پابندیوں کو اٹھایا۔ یعنی شام میں خلافت کے لیے برپاہونے والی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے، اس لیے نہیں کہ ایرانی ایٹمی اسلحے کی سرگرمیوں پر لگی پابندیوں کو اٹھا یا جائے بلکہ ان پر امن ایٹمی سرگرمیوں پر بھی بہت ساری مزید پابندیا لگائی گئیں حتی کہ ایران کو 20 ٪ یورینیم کی افزودگی سے3.5٪ تک واپس لانے کا پابند کیا گیا جبکہ تفتیش اور دوسری شرائط اس کے علاوہ ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ نرمی نقل وحرکت میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے اور شام میں ہو نے والی خلافت کی جدوجہد کے خلاف سرگرمی میں اس کو تھپکی دینے کے لیے تھی نہ کہ ایٹمی میدان میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے! یوں اوبامہ نے اپنی صدارت کے دوران اپنا سب سے بڑا کام یہ ایٹمی معاہدہ کروایا، جس سے اوبامہ ترکی اور ایران کو شام میں خلافت کی تحریک کے سامنے کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گیا، چاہے یہ شام کے اندر مجرمانہ مسلح کاراوئیوں کے ذریعے ہو یا جنیوا اور دوسری جگہوں میں خیانت پر مبنی سیاسی کاموں کے ذریعے ہو۔ بہر حال یہ سب سابقہ ایجنٹ کے متبادل کے طور پر نئے ایجنٹ کو لانے اور خلافت کے عمل کو ناکام بنانے کے لیے ہے۔ اگر اوبامہ واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کے عہد صدارت کا سب سے بڑا کام ہو گا، تب اگر وہ اپنے بیان میں یہ کہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی: "ہم نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یہ بہت ہی بڑی پیشرفت ہے اورمیرے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سب سے اہم کام ہے۔۔۔" یہ تو تب ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکا۔۔۔شاید اوبا مہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ان دونوں ریاستوں کے لیے اس نے جو کردار متعین کیا ہے وہ اس پر چلنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان ملاقاتوں اور دوروں میں تیزی دیکھنے میں آئی اور یہ دونوں ریاستیں اپنے قائد اوبامہ، جس کو اس معاہدے کی بڑی جلدی تھی، کے نقش قدم پر چلیں! اور 24 نومبر 2013 کے اس معاہدے کے بعد تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ترکی اور ایران کے مابین موجود پرانی مخاصمت ختم ہو گئی اور ترک وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا۔ دونوں کے درمیان مذاکرات کا مرکزی موضوع شام کے معاملے میں باہمی تعاون،جنیوا مذاکرات اور جس کو پوشیدہ رکھا گیا وہ ان سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔کاش یہ دونوں نیکی اور تقوی کے کسی کام میں تعاون کرتے تب ہم بھی ان کے حق میں دعا کرتے لیکن ان دونوں نےشام میں خلافت کا راستہ روکنے ، اس قدر پاکیزہ خون بہنے اور بے پناہ قربانیوں کے بعد بھی ظالم جابر لادین حکومت کو ایک بار پھر قائم کرنے کے لیے آپس میں تعاون کا فیصلہ کیا جس پر انہوں نے دنیا کی رسوائی اور آخرت میں جہنم کی آگ مول لی۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی گناہ اور ظلم کے کام میں نہیں بلکہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیتے ہیں ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾" اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (المائدہ:2)۔ کاش یہ اس بات کو سمجھ لیتے اور نجات پالیتے ۔ عقلمند وہ ہے جو عبرت حاصل کرے اور نجات پالے۔
10 ۔ آخر میں یہ اس شخص کے لیے نصیحت ہے جس کا دل ودماغ صحیح سلامت ہے اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے:
ا ۔ ہم ترک حکمرانوں اور ایرانی حکمرانوں کوخبردار کرتے ہیں کہ ان کی امریکہ کی کاسہ لیسی اور شام میں خلافت کی جدوجہد کرنے والوں کا راستہ روکنا ان کے لیے دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا سبب بن جائے گا۔ وہ مغرب اور امریکہ کو راضی کرنے کے لیے جو بھی کریں وہ ان سے راضی نہیں ہوں گے ﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَاالنَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ﴾ "یہود اور نصاریٰ اس وقت تک ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم ان کی ملت کی پیروی نہیں کر و گے ،کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر تم نے ان کی خواہش کی پیروی کردی اس کے بعد بھی کہ تمہارے پاس علم آچکا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے تمہارا کوئی کارساز اور مدد گار نہیں ہو گا" (البقرۃ:120)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو ابن الجعد نے اپنی مسند میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ :«مَنْ أَرْضَى النَّاسَ بِسَخَطِ اللَّهِ، وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ، وَمَنْ أَسْخَطَ النَّاسَ بِرَضَا اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ النَّاسَ» " جس نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کیا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جس نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کیا اللہ لوگوں کے مقابلے میں اس کے لیے کافی ہوں گے"۔ تم یقینا ان لوگوں کے انجام سے بھی باخبر ہو جنہوں نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کیا ۔۔۔عقلمند وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے۔
ب ۔ ہم ترک حکمرانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ خلافت اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے فرض ہے اور یاد کرو جب ایک طویل عرصے تک ترکی کا طول و عرض خلافت کی وجہ سے مینارہ نور تھا۔ ترکی کے باشندے اس کے سپاہی تھے ،یہ محمد الفاتح ،سلیم،سلیمان القانونی اور عبد الحمید کے لشکری تھے۔۔۔ترکی کے حکمرانوں کو اس روشن دور کو مدنظر رکھتے ہوئے خلافت کو بے یارومددگا نہیں چھوڑنا چاہیے شام یا کسی بھی جگہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے،اگر وہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی مدد کر نے سے عاجز ہیں تو کم ازکم ان کے سامنے رکاوٹ نہ بنیں۔۔۔اچھا انجام تو صرف متقین کا ہے۔
ج ۔ ہم ایران کے حکمرانوں کو یاد دہانی کراتے ہیں اگر وہ خلافت کو فرض نہیں بھی سمجھتے اور خلافت کا ذکر آتے ہی ان کی سوچ اس طرف جاتی ہے کہ فلاں خلیفہ نے فلاں جگہ ظلم کیا تھا توان کو ہم یہ یاد دلاتے ہیں کہ جس خلافت کے لیے اس کے علمبردار جدو جہد کر رہے ہیں وہ نبوت کی طرز پر خلافت ہے ،خلافت راشدہ ہے۔ یہ وہی خلافت ہے جس کے خلفاء ابوبکر رضی اللہ عنہ،عمر رضی اللہ عنہ،عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ تھے یہی اس کے قائدین اور سپہ سالار تھے۔۔۔اگر ایرانی حکمران اس کی راہ میں حائل ہونے کی جسارت کر بیٹھے تو انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی سیرت کو پامال کیا جنہوں نے اپنے سے پہلے تین خلفاء کی بیعت کی تھی اور ان کے دست راست اور مخلص تھے۔ تمہیں بھی ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے خلافت سے منہ مت موڑو شام یا کہیں بھی ہو اس کے سامنے رکاوٹ مت بنو،اگر تم اس کے علمبرداروں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے سامنے رکاوٹ تو نہ بنو۔۔۔۔نیک انجام تو متقیوں ہی لیے ہے۔
د ۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا ء میں ترک اور ایرانی حکمرانوں کو خبر دار کیااسی طرح اختتام پر بھی ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلافت اللہ سبحانہ وتعالٰی کا وعدہ ہے ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ...﴾ " اللہ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرماچکا ہے جنہوں نے ایمان لاکر اعمال صالح کیا کہ ان کو ان سے پہلے لوگوں کی طرح زمین میں خلافت سے نوازے گا۔۔" (النور: 55)۔ خلافت رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے جو اس جابرانہ حکمرانی کے بعد آئے گی جیسا کہ احمد اور الطیالسی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «...ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "۔۔۔پھر جابرانہ حکومتیں ہوں گی اور اس وقت تک ہوں گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب اللہ چاہے گا ان کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کی طرز پر خلافت ہو"۔ یہ اللہ کی مشیت سے جلد یا بہ دیر قائم ہونے والی ہے جس نے اس کی مدد کی اور سہارا دیا وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا اور جو اس کے سامنے رکاوٹ بن گیا وہ دنیا میں بھی رسوا ہو گا اور قیامت کے دردناک عذاب کا مستحق ہو گا۔ پھر بھی یہ سب اس کے قیام کو ایک لمحہ کے لیے بھی موخر نہیں کرسکیں گے۔۔۔﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾ "اللہ اپنے کام کو انجام تک پہنچانے والا ہے اسی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقررکر رکھاہے" (الطلاق: 3)۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک