الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

امریکہ کے سیاسی اثرو رسوخ میں زوال اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ

بسم الله الرحمن الرحيم

امریکہ کے سیاسی اثرو رسوخ میں زوال  اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ

انجینئر تیمور، پاکستان

 تعارف:

جیسے ہی9 نومبر 2016 کو امریکی صدارتی انتخابات کا غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا، سیاستدانوں اور دانشوروں کی طرف سے آراء کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ امریکہ میں اشرافیہ کے مقابلے میں عام عوام کے اندر تقسیم کبھی اتنی واضح نہ تھی۔ اگرچہ جہاں تک آئیڈیولوجی (نظریہ حیات)  کا تعلق ہے تو نئی امریکی انتظامیہ کی پالیسیاں بھی اگر زیادہ نہیں تو اتنی ہی سرمایہ دارانہ ہو ں گی جتنی پچھلی حکومت کی تھی لیکن انتخاب کے  نتائج اس بات کی واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی عوام نے   status quo (صورتحال کو برقرار رکھنے)برقرار رکھنے والی قوتوں کو مسترد کر دیا ہے اور سرمایہ درانہ نظام پر اُن کا اعتماد کمزور  ہوتا جارہا ہے ۔ یہ نتائج اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ امریکہ کے عوام کی رائےعام بین الاقوامیت   internationalism کے خلاف ہے۔

جیسے جیسے منتخب امریکی صدر  ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ٹیم کا انتخاب کر رہے ہیں،  ہم ان نو منتخب ارکان کی  آراء  کا مطالعہ کر سکتے ہیں جن آراء پر یہ ارکان سالوں سے قائم ہیں۔ ہم اس نئی انتظامیہ سے  سرمایہ داریت کو نافذ کرنے کے اسلوب میں تبدیلی ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ  کئی بنیادی مسائل پر اِس انتظامیہ کی خاص توجہ کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں جن میں سےایک مخصوص معاملہ  " بنیاد پرست اسلامی دہشتگردی "یا سادے  الفاظ میں اسلام ہے۔  

 

یہ صورتحال ہمیں ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم مغربی معاشروں کے اندر موجودہ حکومتوں اور لبرل سرمایہ داریت کے بارے میں پائی جانے والی رائے عامہ، اس رائے عامہ کی وجہ سے مغربی حکمرانوں بالخصوص امریکی حکمرانوں کی جانب سے اپنائے جانے والے اسلوب  پر بات کریں ۔مزید برآں، دنیا کے لیے ایک متبادل نظام کی ضرورت اور پاکستان میں طاقت رکھنے والے لوگوں کے بارے میں بھی بات کریں  جو اس متبادل کو دنیا کے نقشے پر حقیقت کا روپ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 

امریکہ کے سیاسی اثر و رسوخ اور لبرل سرمایہ داریت پر اعتماد میں کمی کا رجحان:

سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور اور رہنما ریاست (leading state)بن گیا۔ اس کے پاس یہ طاقت تھی کہ یہ دنیا کے لیے ایک نیا ورلڈ آڈر بنائے جس کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں تیزی سے اپنا اثر و رسوخ اور سیاسی غلبہ بڑھانے میں مدد ملی۔ یہ وہ وقت تھا جب فرانسس فوکویامہ جیسے مفکرین نے ا س طرح کی آراء  دیں کہ"مغربی لبرل ازم"اب ایک ابدی آئیڈیولوجی (نظریہ حیات) بن گئی ہے ۔ اپنے ایک مضمون ''The End of History''(تاریخ کا اختتام)جسے اس نے1989 ء  میں لکھا، وہ کہتا ہے: ''جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ صرف سرد جنگ کا اختتام نہیں اور نہ ہی جنگ کے بعد کی ایک خاص مدت  کا گزر جانا ہے، بلکہ یہ ایک طرح سے تاریخ کا خاتمہ ہے، اور بنی نوع انسان کے نظریاتی ارتقا ء کا خاتمہ ہے اور مغربی لبرل جمہوریت کا ،عالمگیری انداز میں  ،انسانی حکومت کی آخری شکل کے طور پرقائم ہونا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب  نہیں کہ خارجہ امور سے متعلقہ سالانہ خلاصوں کے صفحات بھرنے کے لیے اب کوئی واقعات نہیں ہوں گے۔ کیونکہ لبرل ازم کی فتح خیالات یا شعور کے دائرے میں ہوئی ہے اور یہ ابھی تک حقیقی یا مادی دنیا میں نا مکمل ہے لیکن اس بات پر یقین کرنے کے لیے کافی مضبوط وجوہات موجود  ہیں کہ طویل مدت تک اب دنیا میں اسی مثالی نظام سے حکمرانی ہو گی''۔                                 

                                                                     

کمیونسٹ روس سے فراغت کے بعد نوے (90) کی دہائی کے دوران امریکہ نے عالمی سیاست پر حکمرانی کی اور افریقی و ایشیائی ممالک پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیا جو پہلے برطانیہ یا فرانس کے زیر تسلط تھے۔ اس دور میں امریکہ میں تکبر پیدا  ہوگیا ا اور اس تکبر نے افغانستان اور بلخصوص عراق میں جنگ کے لیے جانے کی آگ کے لئے ایندھن کا کام دیا۔ شاید یہ افغانستان اور عراق کی یہی جنگیں ہونگی جنہیں تاریخ دان ،ایک رہنما ریاست کے طور پر اکیسویں صدی پر حکمرانی کرنے کی امریکی امنگوں کے زوال کی جانب ایک اہم موڑ قرار دیں گے۔ ان جنگوں کے نتیجے میں  امریکہ کے سیاسی اثر و رسوخ میں کافی کمی واقع ہوئی۔ یہ کمی  مختلف وجوہات کی بنا پر ہوئی جن میں عراق پر ، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا دعوی کرنے کے لیے جھوٹ اور دھوکے پر مبنی  انٹیلی جنس بنانا، بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں، قیدیوں کے انسانی حقوق کی گھناؤنی خلاف ورزیاں، افغانستان اور عراق میں  آج تک عدم استحکام ہونا، وغیرہ شامل ہیں۔  اس جنگ کی مالی لاگت کا تخمینہ 1.77بلین ڈالر لگایا گیا جو کہ ویت نام کی جنگ سے بھی دو گنا زیادہ ہے اور اگر طویل مدتی اخراجات شامل کیے جائیں تو یہ تخمینہ6 کھرب ڈالر سے بھی تجاوز کر جاتا ہے جو اسے امریکہ کی مہنگی ترین جنگ بنا دیتا ہے۔ اگر ہم ایک تقابلی جائزہ لیں کہ کس طرح امریکہ نے افغانستان پر حملے کے لئے شروع میں اتحادی جمع   کئے لیکن آہستہ آہستہ یہ اتحاد برائے نام ہی رہ گیا  اور کس طرح عراق پر حملے کے لئے"coalition of willing"  کی اصطلاح استعمال کی گئی جبکہ صرف تین ممالک نے اس حملے میں حصہ لیا اور اس اصطلاح پر امریکہ کا مذاق تک اڑایا گیا، اور کس طرح آج امریکہ شام میں بین الاقوامی اتفاق رائے کے ذریعے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا، ہم امریکہ کی اپنے سیاسی منصوبوں پر عمل درآمد میں کمزوری کو بہت اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی بجائے یہ نام نہاد"مقامی اتحادیوں"پر زیادہ انحصار کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ پاکستان کو شمالی علاقوں میں آپریشن تیز کرنے کے لیے اور افغان فورسز کو افغانستان میں طالبان سے نمٹنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ شام میں یہ ایران اور روس کو اپناغلیظ کام کرنے کے لیے گرین سگنل دے چکا ہے اور عراق میں ترکی کی افواج،کُرد اور کمزور عراقی فوج یہ کام کر رہی ہے۔یہ پالیسی امریکہ کی  کمزوری کو ظاہر کر تی ہے ۔

 

سیاسی اثرو رسوخ میں اس زوال کےبعد  ایک اقتصادی بحران نے ، 2007 ء سے 2009ء کے دوران، دنیا اور بلخصوص امریکہ و یورپ میں  رہنما سرمایہ دار ممالک کو  اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے انہیں شدید نقصان پہنچا۔ اس بحران کے نتیجےمیں امریکہ میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور آمدنی کی سطح میں کثیرکمی واقع ہوئی۔ اگرچہ حکومت نے امریکہ کواس بحران سے باہر نکال لانے کا دعوی کیا لیکن2014 کے آواخر اور2015کی ابتداء تک امریکیوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی تھی  کہ قوم ابھی بھی کساد بازاری یعنی (recession) میں مبتلا ہے۔ مالی عدم مساوات امریکہ میں ایک بڑا مسئلہ بن گیا جس نے" وال سٹریٹ پر قبضہ کرو" (Occupy Wall Street) جیسی تحریکوں کو جنم دیا یہاں تک کہ حالیہ امریکی انتخابی مہم میں امیدواروں کی اکثریت نے اپنی مہم میں اس مسئلے  کا اظہار کیا۔ عدم مساوات کا یہ مسئلہ امریکی رہنماؤں کی مالی بدعنوانی سے منسلک ہو گیا  جس نےاس حقیقت کو اجاگر کیا کہ سیاسی قیادتیں حقیقتاً عوام کی بجائے ایک فیصد طبقے کی نمائندگی کے لیے حکومت کرتی ہیں۔ وال سٹریٹ پر قبضہ کرنے کی تحریک کے دوران لگایا گیا نعرہ”we are 99%”   یعنی ''ہم نناوے فیصد ہیں'' اس حد تک پھیل گیا کہ برنی سینڈرز نے اپنی صدارتی مہم کے دوران2015 میں اس سے متعلقہ اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے مندرجہ ذیل جملہ استعمال کیا ''اب ایک ایسی حکومت قائم کرنے کا وقت ہے جو تمام امریکیوں کی نمائندگی کرے نہ کہ صرف ایک فیصد کی''۔ یہ مظاہرے اور فسادات یورپ بھر میں بشمول برطانیہ، سپین اور یونان میں پھیل گئے۔ اس کے بعد بریکزیٹ کا حیران کن نتیجہ سامنے آیا جس میں برطانوی عوام نےلبرل سرمایہ داریت کے تصور کو سراسر مسترد کر دیا۔لبرل  معاشی پالیسیوں کو رد کرنے کی یہ لہر یورپ بھر میں پھیل رہی ہے۔ فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ کے اگلے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کا امکان ہے۔ آسٹریا میں غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والی فریڈم پارٹی نے تقریبا ًصدارت پر قبضہ کر لیا ہے۔اسی طرح  ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم اور ہنگری وغیرہ میں قوم پرست جماعتیں طاقتور ہو رہی ہیں۔

طبقاتی عدم مساوات سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے زیادہ متوقع نتیجہ ہے۔ یہ مظاہرے اور فسادات جو سرمایہ دارانہ نظام کے اس وصف کو عیاں کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بریکزیٹ(Brexit) کےلیے ہونے والی رائے شماری کا نتیجہ ہمیں یہ یقین دلانے کیلیے کافی ہیں کہ جہاں تک عوام کاتعلق ہے تو مغربی اقوام کا اس سرمایہ دارانہ نظام کے اوپر اعتماد ہل چکا ہے۔ مغرب میں لوگ معاشی عدم تحفظ، بے روزگاری، پھیلتے ہوے عدم مساوات اور اجرتوں کے جمود کا شکار ہیں ۔اگرچہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام قوم پرست سیاسی جماعتوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل حاصل کر لیں گےلیکن مغرب میں  یہ اظہارِ رد ،عمومی طور پر تمام حکومتی پالیسیوں پر اور خصوصی طور پر خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوگا  ۔ 

 

خارجہ پالیسی کے حوالے سے امریکہ کے اندر مختلف مکاتب فکر اور ان کے اثرات:   

خارجہ پالیسی کے لحاظ سے امریکی دانشوروں اور سیاستدانوں کی اپنے سیاسی نظریات کی بنیاد پر مختلف عنوانات کے تحت درجہ بندی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک گروہ، جسے neoconservatives (جدید قدامت پرست )کہا جاتا ہے، کو ہم ایک صفت کے اضافے کے ساتھneoconservatives interventionists (جدید قدامت پرست مداخلت پسند) کہہ سکتے ہیں جو دنیا بھر میں امریکی اثرورسوخ قائم کرنے کے لئے  شدید  جارحانہ براہِ راست مداخلت کی وکالت کرتے ہیں چاہے یہ بین الاقوامی اداروں اور قوانین کے ذریعے کیا جائے یا  اُن کے بغیر ۔ ایک اور گروہ کو Liberal internationalists(لبرل بین الاقوامیت پسند) کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کو liberal interventionists (لبرل مداخلت پسند) بھی کہا جاتا ہے۔ خارجہ امور کے بارے میں اس گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ لبرل مقاصد کے حصول کے لیے لبرل ریاستوں کو خود مختار ریاستوں میں مداخلت کرنی چاہئے۔ ایسی مداخلت فوجی حملے یا انسانی امداد دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے۔ لیکن neoconservatives کے برعکس liberal interventionists بین الاقوامی قانونی جواز کی پرواہ کرتے ہیں۔ ان دو گروہوں کا فرق یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ liberal interventionists اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قرارداد، نیٹو کی منظوری یا عرب لیگ کی کسی دعوت کے پیچھے چھپی قانونی عمل داری کے ساتھ سامنے آتے ہیں جبکہneoconservatives اتنا کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ یہ دونوں نظریے isolationist (تنہائی پسند)، realists(حقیقت پسند) یا  non-interventionist (غیر مداخلت پسند) کے خارجہ امور کے نظرئیے کے برعکس ہیں۔    Non-interventionism  (غیر مداخلت پسندی)  خارجہ امور کا ایسا نظریہ ہے کہ ایک ریاست کی جانب سے سے دوسری ریاست کے اندرونی یا بیرونی معاملات میں اس کی مرضی کے ساتھ یا اس کی مرضی کے بغیر مداخلت نہ کرنا ۔ Non-interventionism (غیر مداخلت پسندی) کو اکثر isolationism (تنہائی پسندی) سے کنفیوژ کیا جاتا ہے لیکن یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ پھر ایک نیا ابھرتا ہوا لیکن غیر منظم مکتبہ فکر alternative right (متبادل دائیں بازو) جسے عام زبان میں alt-right بھی کہا جاتا ہے ، 2015ء میں امریکی قومی و سیاسی منظرنامے پر سامنے آیا ۔ Alt-right سے منسلک لوگ بڑے پیمانے پر امیگریشن اور غیر فطری تعلقات کی وجہ سے مغربی ثقافت کو لاحق خطرات کے حوالے سے اپنی فکرمندی ظاہر کرتے ہیں۔ Alt-right سفید قوم پرستی، اسلاموفوبیا اور تحریک نسواں کی مخالفت کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ یہ اپنی خود کی کمیونیٹیز چاہتے ہیں جن کی آبادی انکے اپنے لوگوں پر مبنی ہو اور ان کی اپنی اقدار کی حکمرانی ہو۔ ان خیالات کے حامل افراد اکثر ہولوکاسٹ اور یہودیوں کے ساتھ ساتھ political correctness  (اقلیتوں کے جذبات کا خیال رکھنے کی پالیسی ) کو بھی چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ Alt-rightکے ہمدردوں کے علاوہ ناقدین بھی اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ووٹرز بنیادی طور پر اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتےہیں۔

 

سیاسی اثر و رسوخ  میں تنزلی اور اقتصادی بحران کا امریکہ کے اندر اور دنیا بھر میں عوامی رائے عامہ پر بھرپور اثر پڑا۔ یہ اثر ، باقاعدگی سے مردہ فوجیوں کے تابوت گھر واپس آنے اور فوج میں بڑے پیمانے پر خود کشی کے رجحان کی وجہ سےمزید تقویت پکڑتا گیا۔ یہ سیاسی اثرو رسوخ میں تنزلی امریکہ کے اندر دانشوروں میں کافی زیربحث ہے۔ عمومی طور پر عوام اور چند اہم سیاستدانوں نے interventionism(مداخلت پسندی) کی سوچ کے بارے میں سوال اٹھانے شروع کرد یے ہیں اور جہاں تک  امریکہ کے عوام کا تعلق ہے تو اکثریت کی رائے interventionism(مداخلت پسندی)  سے non-interventionism(غیر مداخلت پسندی) کی جانب تبدیل ہورہی ہے۔ 

 

  • فروری 2011 ءمیں اس وقت کے وزیر دفاع، رابرٹ گیٹس، نے ویسٹ پوائنٹ میں کیڈ ٹس سے کہا کہ امریکہ کو عراق اور افغانستان جیسی دوسری جنگ کبھی نہیں لڑنی چاہیئے۔ اُس نے کہا: ''میرے خیال میں ،مستقبل میں اگر کوئی بھی وزیر دفاع ،  صدر کو ایشیا، مشرق وسطیٰ یا افریقہ میں دوبارہ بڑی زمینی فوج بھیجنے کا مشورہ دے تو اسے اپنے سر کا معائنہ کروانا چاہیے''۔ یعنی دوسرے الفاظ میں عراق اور افغانستان جیسی intervention  ( مداخلت ) کرنا پاگل پن ہے۔

  • دسمبر 2013ء میں پیو ریسرچ سینٹر نے رپورٹ کیا کہ ان کے تازہ ترین قومی سروے''2013کی دنیا میں امریکہ کی جگہ'' میں 52 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ امریکہ کو بین الاقوامی طور پر اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور دوسرے ممالک کو اپنے طور پر وہ جو بھی کر سکتے ہیں کرنے دینا چاہیے۔ 1964ء میں جب سے یہ  سروے کرنے والوں نے یہ سوال پوچھنا شروع کیا تھا اس وقت سے لے کر اس کا ایسا جواب دینے والوں کی یہ سب سے بڑی تعداد تھی۔ ایک عشرہ پہلے صرف ایک تیہائی جواب دہندگان اس طرح محسوس کرتے تھے۔  

  •                                                           

  • امریکہ بھر میں ہونے والے 2014ء کے ایک سروے ''میدان جنگ کے ووٹرز'' میں معلوم ہوا کہ 77 فیصد لوگ 2016 کے اختتام تک افغانستان سے مکمل انخلا چاہتے ہیں۔ صرف15 فیصد لوگ شام میں اور17 فیصد لوگ یوکرین میں زیادہ مداخلت چاہتے ہیں۔ اور67 فیصد نے اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکی فوجی اقدامات کو قومی سلامتی  سے متعلقہ براہ راست خطرات تک محدود کیا جانا چاہیے۔

  • باراک اوباما کی صدارت کے دوران امریکہ کی وفاقی حکومت کے بعض اراکین بشمول صدر اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری نے شام کی خانہ جنگی میں براہ راست مداخلت پر غور کیا۔ اپریل 2013ء کے آخر کے ایک سروے میں معلوم ہوا کہ 62 فیصد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ شام میں حکومتی افواج اور حکومت مخالف گروہوں کی جنگ کے بارے میں کچھ کرنے کےلیے امریکہ پر کوئی ذمہ داری نہیں جبکہ صرف25 فیصد لوگوں نے اس بات سے اختلاف کیا۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں non-interventionism (غیر مداخلت پسندی) اورalt-rightکے ابھر کر سامنے آنے کی وجہ سے بننے والی عوامی رائے عامہ کا ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت بننے والی پالیسیز پر گہرا اثر ہو گا۔ مزید برآں دنیا بھر میں با لعموم استعماریت کے خلاف پھیلی نفرت اور با لخصوص امریکہ کے خلاف پھیلی نفرت کی وجہ سے امریکہ کےلیے ایک بڑی فوجی مداخلت کرنا، جیسا کہ اس نے عراق اور افغانستان میں کیا، بہت مشکل ہو گا۔ لیکن ، ٹرمپ کی کابینہ میں neoconservatives کی تقرری کے نتیجے میں یہ بعید از امکان نہیں کے امریکہ شام جیسے تنازعات میں کود پڑے جہاں اب تک وہ مایوس کن حد تک  ناکام ہو رہا ہے، اور اگر امریکہ نے یہ بے وقوفی کی، تو ممکن ہے کہ  دنیا کے لئے آج والا امریکہ باقی نہ رہے۔

 

بین الاقوامی قانون پر موت کے بادل منڈلا رہے ہیں:

گزشتہ دو دہایئوں میں اقوام متحدہ اور نام نہاد بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ Neoconservatives کی 2003ء میں عراق پر حملہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اس کے تابوت کا کیل ثابت ہوئی لیکن اس تابوت کا آخری کیل مسلمانوں کی بیداری، امریکی حملوں پر مجاہدین کے جوابی اقدام اور امت میں اسلام کے سیاسی پہلو کی پذیرائی نے ٹھونکا۔ ان پہلوؤں نے امریکہ کےلیے موجودہ بین الاقوامی قانون کے ذریعے، جو اس نے اپنے فائدے کےلیے بنایا تھا، اپنی مرضی مسلط کرنے کو مشکل بنا دیا ہے۔   اگر عراقی مسلمان امریکی قبضے کو یکسر مسترد نہ کرتے اور امریکہ عراق میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو عین ممکن ہے کہ عراق پر حملے کےلیے اقوام متحدہ کو نظر اندازکرنے کی امریکی پالیسی پر پردہ ڈال لیا جاتا لیکن یہ اس کے گلے کا پھندا بن گیا۔ اوراس کے لئے عراق کی ذلت کافی نہیں تھی کہ شام کے بہادر مسلمان مغربی استعماریت کو پوری طرح بے نقاب کرنے کےلیے کھڑے ہو گئے اور اقوام متحدہ کو مکمل طور پر غیر موثر بنا دیا۔

 

اقوام متحدہ کہاں ہے جب امریکہ روس سے ملتا ہے اور مسلمانوں کو اندھا دھند قتل کرنے کے منصوبے بناتا ہے؟ اقوام متحدہ کہاں ہے جب روس بچوں کے نام نہاد عالمی دن کے موقع پربھی بچوں پر بم برساتا ہے؟ اقوام متحدہ کہاں ہے جب ایران کی حمایت یافتہ حزب الشیطان امریکی سامراج کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے والوں سے لڑتی ہے؟ اقوام متحدہ اور عالمی قانون کہاں ہیں جب فرانس ،امریکہ، ترکی، اردن ،ایران اور روس اپنے جنگی طیارے شام بھر کے مسلمانوں پر بم برسانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور خاص طور پر ہسپتالوں اور بیکریوں کو نشانہ بناتے ہیں؟ اور اقوام متحدہ کہاں ہے جب فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو یہودی اور ہندو ریاستوں کی جانب سے ہلاک کیا جا رہا ہے اگرچہ دہایئوں پہلے اقوام متحدہ کی قرادادیں منظور کی گئی تھیں؟ ایسا کیوں ہے کہ جب مسلم افواج کو مظلوم مسلمانوں کی جانب سے ظالموں سے بچاؤ کےلیے پکارا جاتا ہے تو اقوام متحدہ غدار مسلم حکمرانوں کوحرکت میں نہ آنے کا بہانہ دینے کےلیے درمیان میں آ جاتی ہے؟ ایک معروف Neoconservatives رابرٹ کاگن اپنی کتاب “Superpowers don’t get to retire: what our tired country still owes the world”  (سپر پاورز ریٹائر نہیں ہوتیں: ہمارا تھکا ہارا ملک دنیا کو کس چیز کےلیے ابھی بھی مقروض ہے) میں یہ کہتے ہوئے آغاز کرتا ہے کہ ''تقریباً 70 سال پہلے دوسری عالمی جنگ کے ملبے سے امریکہ نے اپنی طاقت سے ایک نیا ورلڈ آڈر بنایا، آج اس ورلڈ آڈر میں دراڑیں نظر آ رہی ہیں اور شائد یہ ختم ہو رہا ہے''۔

 

عالمی منظر نامہ بدل رہاہے اور نئے رجحانات سامنے آرہے ہیں۔ اقوام ِمتحدہ کا قائم کردہ International law and order  (بین القوامی قانون )، اپنے موثر ہونے کے حوالے سے  ، مردہ ہو چکا ہے۔ وہ وقت آ یا کھڑا ہے کہ دنیا کو اس بوسیدہ اور تعفن زدہ ورلڈ آڈر کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے لئے اس  کا متبادل پیش کیا جائے ۔

 

مندرجہ بالا بحث سے اخذ کردہ چند نکات:                                                                                              

1۔ لبرل ازم زوال کا شکار ہے اور ایسا  صرف امریکہ میں ہی نھیں بلکہ یہ ایک عالمی رجحان بن گیا ہے۔

2۔ امریکہ منقسم کھڑا ہے۔ حتی کہ انتخابات کے خاتمے کے بعد “Not my President”  (یہ میرا صدر نہیں ) کے نعرے کے ساتھ  پورے امریکہ میں پھیلی ایک احتجاجی تحریک ابھر کر سامنے آئی۔ یہ انکار صرف ایک شخصیت کا انکار نہیں بلکہ یہ عوام کی جانب سے آپنائے گئے خیالات میں گہری تقسیم کا اظہار ہے۔

3۔Neoconservatives کی جانب سے براہِ راست مداخلت پر زور دیا جائے گا، کیونکہ خلافت یا چین کی شکل میں ایک حریف کے ابھرنے کا خطرہ اُس وقت سے کئی گناہ بڑھ چکا ہے جیسا کہ یہ اُس وقت تھا جب Neoconservatives بُش جونیئر کے دور میں حکومت میں تھے۔

4۔ قوم پرست عوام کی جانب سے امریکہ کو اندرونی مسائل حل کرنے کے لئے ایک کھچاؤ ہو گا جو کہ نئی انتظامیہ کےلیے neoconservatives interventionism (جدید قدامت پرست مداخلت پسندی) پر مبنی ایجنڈے کے نفاذکو مشکل بنا دے گا۔

5۔ عام مسلمانوں میں بیداری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی امریکہ اور استعماریت سے نفرت، اور اسلامو فوبیا ، جو ٹرمپ کی ٹیم کی پہچان ہے، اِن دو وجوہات کی بنا پر امریکہ کےلیے مسلم دنیا میں اپنی فوجی و سیاسی طاقت کو استعمال کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ یہ وجوہات امریکہ کے نام نہاد "مقامی اتحادیوں "(یعنی امریکی ایجنٹ حکومتوں) کےلیے اس کی ہدایات پر عمل درآمد اور بھی مشکل بنا دیں گی ۔

6ـجیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ Neoconservatives بین الاقوامی اداروں کو نظر انداز کرنے کے ذریعے انہیں غیر موثر کر دیتے ہیں جو کہ نام نہاد Liberal internationalists(لبرل بین الاقوامیت پسند) کی حکومتوں کے دوران پہلےہی کمزورہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس جیسی دوسری تنظیمیں جو بین الاقوامی امن و امان کے آلے اور ضامن کے طور پر کام کر رہی تھیں، امریکہ کی مجموعی کمزوری اور امریکی حکومت کے اندر Neoconservatives کی واپسی  کے نتیجے میں اور زیادہ کمزور ہوں گے۔

 

کسی بھی آئیڈیولوجی کے انہدام کے لئے ایک متبادل آئیڈیولوجی کا موجود ہونا ناگزیر ہے۔

کسی بھی آئیڈیولوجی کی ناکامی کےلیے عوام کے پاس موازنہ کرنے اوراپنانے کےلیے ایک متبادل کا ہونانا گزیر ہے۔ اگرچہ مندرجہ بالا نکات سرمایہ داریت کے علمبردار امریکہ کی کمزوری کی جانب اشارہ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ سرمایہ دارانہ آئیڈیولوجی کے مکمل زوال کے لئے کافی ہیں۔ یہ نکات اس موقع کی جانب ضرور اشارہ کرتے ہیں جو ایک مضبوط ریاست کی قیادت میں ایک متبادل نظام کے عروج کےلیے پہلے سے زیادہ موجود ہے تا کہ انسانیت کو سرمایہ داریت کےشر سے بچایا جائے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ خلافت کا ابھرنا ہی تھا جس نے رومی سلطنت، جو کہ اس وقت کی رہنما ریاست تھی، کو للکارا اور اس کے زوال کا باعث بنی۔ یہ خلافت ہی تھی جس نے یورپ کی حیات نو کو متاثر کیا جس کی وجہ سے وہاں انقلاب  اور نیا نظام آیا۔ یہ برطانیہ اور فرانس کی سرمایہ دار ریاستیں تھیں جنہوں نے خلافت کے انہدام میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد سویت یونین نے اشتراکیت کو اپناتے ہوئے سرمایہ دار ریاستوں کو للکارا اور پھر امریکہ نے liberal capitalism کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے سرد جنگ اور اشتراکیت کے زوال کی قیادت کی ۔ بالکل اسی طرح آج ایک ایسی ریاست قائم ہو نی ہے جو چیلنج کے انداز میں اپنے حل پیش کر ے اور سرمایہ داریت کی دیوار میں دراڑیں ڈال دے جودیوار  پہلے ہی ہل چکی ہے۔ ایسی ریاست کو معاشرے کے معاشی، سیاسی اور قانونی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے حل پیش کرنے ہوں گے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ اور کوئی آئیڈیولوجی موجود نہیں جو سرمایہ داریت کے متبادل کے طور پر ایسے جامع حل پیش کر سکے۔  

                      

معاشی، قانونی اور سیاسی پہلووں سے اسلام کی نظریاتی بنیاد سے اخذ شدہ حلوں کی ایک جھلک پیش کرنے کےلیے ، ذیل میں چند مختصر مثالیں دی گئی ہیں:

اسلام کے اقتصادی حل:

اسلام کرنسی کے سونے یا چاندی پر مبنی ہونے پر زور دیتا ہے۔ اس قانون کا نفاذ شدید افراطِ زر  اور معیشت میں سے سود کی ضرورت کو  ختم کردے گا۔ اسلام دولت کی تقسیم کو اقتصادی مسئلے کے بنیادی حل کے طور پر اپناتا ہے اور ضرورتوں کی بنیادی ضروریات اور پر تعیّش ضروریات میں علیحدہ علیحدہ درجہ بندی کرتا ہے۔ اسلامی اقتصادیات کے یہ بنیادی جزو سرمایہ دارنہ نظام کی پیدا کی گئی انتہائی عدم مساوات کو ختم کرتے ہیں۔ اسلام عوامی ملکیت  (خاص طور پر توانائی کے وسائل) کی نجکاری روکنے کے ذریعے لوگوں کو استحصال سے بچاتا ہے۔ اسلام ٹیکس کا ایک منفرد نظام متعارف کراتا ہے جو حکومت کو سخت شرائط کے تحت صرف امیروں اور ادا کرنے کے قابل لوگوں سے ٹیکس لینے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام سود کو بالکل ختم کرتا ہے۔اسلام کے احکامات کے مطابق، خلافت، موجودہ دور کےسرمایہ دارانہ اداروں مثلاً IMF اور World Bank، جو کہ کمزور ریاستوں کو محکوم بنانے کےلیے قرض دیتے ہیں، کے برعکس کم مراعات یافتہ اقوام کو بلا سود قرضے فراہم کرتی ہے۔

 

اسلام کے قانونی حل ـ انصاف:

سرمایہ دارانہ نظام میں نا انصافی اس کے بنیادی اصول یعنی جمہوریت سے نکلتی ہے جس میں قانون سازی کا اختیار اشرافیہ کے پاس ہوتا ہے۔ اسلام قانون سازی کا اختیار صرف خالق تک محدود رکھ کر صحیح انصاف فراہم کرتا ہے اور اسلام کے ماخذ سے قوانین اخذ کرنے کا ایک مستنیر طریقہ فراہم کرتا ہے یعنی اجتہاد۔ یہ تین مرحلوں کا عمل حقیقت کا مطالعہ کرنے، اس حقیقت  کے متعلقہ خطاب کےلیے شرعی مصادر کا مطالعہ کرنے اور ایک قانون اخذ کرنے اور اس کو بیان کرنے پر مبنی ہے۔ یہ سمجھوتے کے کمزور اصولوں کی بنیاد پر سیکولر جمہوریت کی طرف سے کی جانے والی سطحی قانون سازی، کہ جس میں مطالعہ کرنے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور جو کہ ذاتی مفادات کا شکار ہوتی ہے، کا متبادل ہے۔ یہ صرف اسلامی نظام ہی ہو گا جس میں مرد و خواتین کے حقوق محفوظ ہوں گے اور لوگ اپنے رنگ، نسل یا مذہب کے تنازعات کے بغیر ہم آہنگی کے ساتھ رہیں گے۔

 

اسلام کے سیاسی حل:

یہ اسلام ہے جس نے سیاست کی تعریف ''لوگوں کے امور کی دیکھ بھال'' کے طور پر کی۔ اسلام میں حکمران حکومت کو ذمہ داری کا  بوجھ سمجھ کر اپناتے ہیں ، نہ کہ لوٹ مار کرنے کے لئے ایک تحفہ سمجھ کر جیسا کہ جمہوریت میں حکمران الیکشن جیتنے پر خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں اور ہارنے والے روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسلام میں سیاست ایک فرض ہے نہ کہ ایک کیریئر یا کاروبار۔ Dark Ages (تاریک دور)سے نام نہاد طور پر نکلنے کے باوجود مغرب آج تک قانون کی صحیح حکمرانی قائم نہیں کر سکا کیونکہ آج بھی حکمرانوں کو استثنا کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ اسلام ہے کہ جو کسی دوسرے شہری کے مقابلے میں برابر کی حیثیت کے ساتھ ایک حکمران کو بھی قانون کے ماتحت رکھتا ہے۔ اسی طرح اسلام میں  حکمران کا احتساب ایک فرض ہےاور یہ کسی فرد یا جماعت کی آزادی پر منحصر نہیں کہ وہ چاہیں تو احتساب کریں ورنہ رہنے دیں۔اسلام میں احتساب کا فرض پوراکرنے کے لئے قاضی مظالم، مجلس امت، سیاسی جماعتوں اور امت کے امر با المعروف و نہی عن ا لمنکر کے ذریعے ایک کثیر الجہتی مضبوط ڈھانچہ موجود ہے۔ 

 

پاکستان اس عہدے کےلیے موذوں ریاست  ہے:

ایسی ریاست کسی بھی مضبوط مسلم ملک سے ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔ ہم یہاں پاکستان کو اس کےلیے ایک مناسب ترین آپشن کے طور پردیکھتے ہیں۔ پاکستان اپنے بے پناہ وسائل کے ساتھ دنیا کی چھٹی بڑی آبادی ہے جس کے اندر اسلامی عقیدے کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس واحد مسلم ریاست اور دنیا کی آٹھویں بڑی فوج کے ساتھ مضبوط ترین مسلم ملک ہے۔ اس کے پاس اپنے وقت کی سپر پاور کو للکارنے اور توڑنے کا تجربہ بھی ہے۔ زراعت بطور ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ پاکستان کے پاس وہ تمام اجزا ء موجود ہیں جو نبوت کی طرز پر خلافت کے نقطہ آغاز کےلیے ضروری ہیں تا کہ اسلامی آئیڈیولوجی کو دنیا میں پھیلایا جائے۔ پاکستان کی ان خصوصیات کو دشمن اچھی طرح سمجھتا ہے اور پچھلے کچھ سالوں کے دوران متعدد بیانات میں اس بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ ایک لمبی فہرست میں سے منتخب شدہ چند اقتباسات درج ذیل ہیں جو خلافت کے قیام کے بعد پاکستان کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں:

 

  • کئی سالوں سے امریکہ اس بات پر فکر مند ہے کہ خلافت کسی بھی مہینے پاکستان سے جنم لے سکتی ہے۔  مارچ 2009ء میں امریکی سینٹ کام(Centcom) کمانڈرز کے مشیرڈیوڈ کل کلن David Kilcullen نے اپنے بیان میں کہا:''پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی 173ملین ہے، اوراس کے پاس 100نیوکلیئر ہتھیار ہیں، اوراس کی فوج امریکہ کی فوج سے بڑی ہے...ہم ایسے نقطے پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم ایک سے چھ ماہ میں دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست ناکام ہو جائے گی...انتہاء پسند اقتدار میں آجائیں گے...اور یہ ایسی صورتِ حال ہے کہ آج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اس خطرے کے سامنے کچھ بھی نہیں''۔

  • اور نومبر 2009میں آرٹیکل: '' ہتھیاروں کی حفاظت-کیا غیر مستحکم پاکستان میں ایٹمی ہتھیار محفوظ رکھے جا سکتے ہیں؟''میں بیان کیا گیا:  ''بنیادی خطرہ بغاوت کا ہے-کہ پاکستانی فوج کے اندر موجود انتہاء پسند تختہ الٹ دیں... اوباما انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے حزب التحریرکا تذکرہ کیا ...جس کا ہدف خلافت کا قیام ہے:  یہ لوگ پاکستان کی فوج میں جڑیں بنا چکے ہیں اور فوج میں ان کے گروپ (cells)  موجود ہیں۔ '' 

  • جہاں تک ہندو ریاست کا تعلق ہے تو اسی مضمون میں انڈین انٹیلی جنس را کے ایک سینئر عہدےدار نے کہا: ''پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں ہماری پریشانی اس وجہ سے نہیں کہ' ملا' ملک پر قبضہ کر لیں گے بلکہ پاکستان میں ان افسران کی وجہ سے پریشان ہیں جو خلافت کی بات کرتے ہیں،  کچھ لوگ جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک اسلامی فوج کی قیادت کا تصور رکھتے ہیں''۔

  • فروری 2016 میں ایک فنڈ ریزنگ کی تقریب میں ہیلری کلنٹن کے خطاب کی50 منٹ کے دورانیہ کی آڈیو ستمبر 2016ء میں سامنے آئی جس میں وہ کہتی ہے: ''بھارت کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی دشمنی کی وجہ سے پاکستان اپنی پوری رفتار سے ٹیکٹیکل ہتھیار بنا رہا ہے''  اس نے کہا '' لیکن ہم اس خوف کے ساتھ جی رہے ہیں کہ وہاں ایک بغاوت ہو جائے گی اور جہادی ملک پر قبضہ کر لیں گے، وہ ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی پا لیں گے اور پھر آپ کو خود کش نیوکلیئر بمبار ملیں گے لہٰذا اس سے خطرناک منظرنامہ نہیں ہو سکتا'' ۔

نہ صرف یہ واضح بیانات پاکستان میں خلافت کے دوبارہ قیام کی صلاحیت کو عیاں کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے اندر خلافت کی دعوت پر ردعمل بھی براہ راست احساس دلاتا ہے کہ عوام ایسی تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان کے اندر اجتماعی اظہار (collective expression) اس حد تک اسلامی ہے کہ مختلف لبرلز اپنے لبرل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپنی نا امیدی کا اظہار کر چکے ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو قائل کیا جائے جو پاکستان میں تبدیلی لانے کےلیے طاقت اور اختیار رکھتے ہیں۔ اپنی کتاب”Pakistan: A Hard Country” میں پاکستان میں انقلاب کے امکان پر بحث کرتے ہوئے اناٹول لیون ذکر کرتا ہے ''افریقہ اور دوسری جگہوں کے برعکس پاکستان میں فوجی بغاوتیں ہمیشہ اپنے چیف آف سٹاف اور کمانڈنگ جرنیلوں کے حکم پر آرمی کی جانب سے اجتماعی طور پر کی گئیں نہ کہ جونیئر افسران کی جانب سے''۔ وہ مزید ذکر کرتا ہے کہ ''صرف ایک چیزجو اس نظم و ضبط اور اتحاد کو توڑ سکتی ہےوہ متعدد پاکستانی فوجیوں کو درپیش ایسا اخلاقی اور جذباتی دباؤ ہے جو ان کے نظم و ضبط کو توڑنے کےلیے کافی ہو اور اس سے مراد واقعی بہت شدید دباؤ ہے۔ حقیقت میں ان کو ایسی صورتحال میں لانا پڑے گا جہاں بطور مسلمان ان کا پاکستان اور اپنے ضمیر اور عزت کی حفاظت کا فرض اپنے کمانڈرز کی اطاعت سے براہ راست متصادم ہو۔ جہاں تک مجموعی طور پر آرمی کا تعلق ہے (سوائے چند پٹھان عناصر کے) جتنا میں دیکھ سکتا ہوں تو صرف ایک چیز ایسا کر سکتی ہے کہ اگر امریکہ پاکستان کے کچھ حصے پر حملہ کر دے اور فوج کی قیادت اس کے خلاف مزاحمت کرنے کے احکامات دینے میں ناکام رہے'' ۔

 

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان لوگوں میں کام کرنا کتنا ضروری ہے جو اہمیت رکھتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے معاملے میں ایسا ہوا تھا اور ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت حالات کیسے تھے ۔ اب لائن آف کنٹرول پر بھی یہی کچھ ہو رہا ہے جہاں انڈیا اپنی حد سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس معاملے پر قیادت کا جواب پاک فوج کے مخلص سپاہیوں کےلیے تسلی بخش نہیں ہے۔ وہ امریکہ تھا اور یہ ہندو ریاست ہے جس کے سامنے جھکنے کے لئے یہ دلیل بھی نہیں دی جا سکتی کہ یہ تو سپر پاور ہے اور ہمارا اِن سے کوئی مقابلہ نہیں۔ البتہ پاک فوج کے مخلص افسران پر امت کی طرف ذمہ داری ان کےلیے لازم کرتی ہے کہ وہ کسی مہم جوئی کےلیے نہ جائیں یعنی ایک نظریاتی ریاست کے قیام کی دعوت کی حمایت کرنے سے پہلے انہیں ان لوگوں کی صلاحیت پر قائل ہونے کی ضرورت ہے جو یہ دعوت دے رہے ہیں۔ مزید برآں جو وژن پیش کیا جا رہا ہے اس کو واضح ہونا چاہئے۔  یہ دعوت کے علمبرداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو ایک قابل اوراہل قیادت کے طور پر تیار کرتے ہوئے نہایت وضاحت سے اِن افکار کو  پیش کریں اور امت کے سب سے زیادہ اثر رکھنے والے لوگوں پر اثر انداز ہوں۔

 

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمْ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لاَ يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا
"وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اورانہوں نے نیک اعمال اختیار کئے ہیں، اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں لازماً حکمرانی عطاکرے گا، جیسا کے اُس نے اُن کو حکمرانی عطا کی تھی جو ان سے قبل تھے، اور اُن کے لئے لازماً ان کے اِس دین کو محکم کر کے جما دے گا، جسے اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے، اور ضرور اُن کی حالت کو امن و بے خوفی سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے "(سورۃ النور 24:55)

 

Last modified onاتوار, 25 دسمبر 2016 01:20

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک