بسم الله الرحمن الرحيم
سلطان اورنگزیب عالمگیر رحمتہ اللہ - خلفائے راشدین کی سنت کا پیروکار
یقیناً مسلمانوں کے ہاتھوں سے اُندلس کے نکلنے پر دل خون کے آنسوروتا ہے،مگر اللہ کی قسم اُندلس تومسلم ہندوستان کے ایک چھوٹے سے صوبے یا شہر کی طرح تھا، جہاں سلطان کاگورنر حکومت کرتاہو۔بے شک مسلمانوں نے اندلس میں مسجد قرطبہ کی عظیم یادگار چھوڑی ہے،لیکن لاہور کی بادشاہی مسجد یادہلی کی جامع مسجداپنی مثال آپ ہے جوتخلیق ،جدت ،انفرادیت اورمسلم ہندوستان کی تہذیب کی شان وشوکت اورحسن وجمال کی یاد دلاتی ہیں ۔اندلس میں مسلمانوں نے قصرالحمراء اورقصبہ جیسی محیرالعقول یادگاریں چھوڑیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آگرہ کاقلعہ آج بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے جس کی دلکشی ودلفریبی اور عمدگی ورعنائی کے سامنے زبان وقلم کی طاقت ماند پڑجاتی ہے ۔ یقیناًاندلس نے ایسے زبردست لوگ پیدا کیے جنہوں نے اپنے علم سے دنیاکو بھردیا لیکن ہندوستان کے علماء کے بارے میں اگرآپ کسی طالب علم سے پوچھیں اوروہ ان علماء کے نام گنناشروع کرے تو آپ اُن کے نام سنتے سنتے تھک جائیں۔یہ صحیح ہے کہ اندلس سے بڑے بڑے حکمران خلفاء اوردوسرے عظیم لوگ نکلے ،مگراس حوالے سے ہندوستانی حکمرانوں میں سے محمود بن سبکتگین (محمود غزنوی) اور سلطان اورنگزیب عالمگیر کااپناایک مقام ہے ۔
ولادت اورپرورش :
سلطان اورنگزیب ہندوستان کے ضلع گجرات کے شہر دوحد میں15ذی قعدہ1028ہجری مطابق24اکتوبر 1616 کو پیداہوئے۔آپ کی پرورش وتربیت ایک معزز ،باوقار اور خوشحال گھرانے میں ہوئی۔آپ کے والد'' سلطان شاہ جہان '' ہندوستان کی مغلیہ ریاست کے عظیم حکمرانوں میں سے تھے۔انھوں نے ''تاج محل ''کا مقبرہ تعمیر کروایا، جس کا شمار دنیا کے سات عجوبوں میں کیاجاتا ہے ۔اس کی تعمیر20 سالوں میں مکمل ہوئی اوراس میں 21ہزار سے زائد آدمیوں نے کام کیا۔ اپنے آخری دنوں میں آپ کے والد نے اپنی ساری محنت اور جدوجہد اپنی اہلیہ کے مقبرے کوبنانے میں صرف کردی اور اس کی یاد میں وہ برابر غم زدہ رہے جس کی وجہ سے سلطنت کمزورپڑگئی اورفتنوں اوربغاوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ،جس کی وجہ سے اورنگزیب اپنے والد سے حکومت چھین لینے پر مجبور ہوئے ۔جیساکہ ہم آگے بیان کریں گے، انھوں نے اپنے والد کے نام سے ہی حکومت کوچلایا اوراسلام کے عدل وانصاف اورحق کو قائم کیا۔
اورنگزیب کے اندر بچپن سے ہی بزرگی اورسعادت وخوش قسمتی کی علامات دکھائی دیتی تھیں ۔ وہ بچپن ہی سے دیندار تھے اورعیش وعشرت اختیار کرنے سے دوردوررہتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہادر شہسوار بھی تھے ۔اس حوالے سے ایک قصہ روایت کیاگیا ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنے والد شاہجہان کے پاس کسی تقریب میں شریک تھے ۔اس تقریب میں کشتی لڑنے کا میدان بھی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ جنگی ہاتھی بھی تھے۔اس دورا ن ایک ہاتھی اورنگزیب کی طرف بھاگ آیا ،ان دنوں اورنگزیب کی عمر14سال تھی ۔ جس گھوڑے پر اورنگزیب سوار تھے،ہاتھی نے اس پر اپنے سونڈ کے ساتھ حملہ کیا ۔اورنگزیب زمین پر گرے،ہاتھی ان کی طرف بڑھا مگراورنگزیب اپنے جگہ جمے رہے ۔ادھر لوگ حواس باختگی کے عالم میں اس منظر کو دیکھ رہے تھے ۔وہ اس چھوٹے امیر کی دلیری پر محوِحیرت تھے ۔وہ اپنے ہتھیار کے ساتھ مسلسل ہاتھی سے لڑتے رہے یہاں تک کہ محافظوں نے پہنچ کراس ہاتھی کوبھگا دیا۔
آپ کی تربیت اس طرح ہوئی کہ آپ علم اوردین کے ساتھ محبت کرتے تھے ۔آپ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فقہ کوسیکھا چنانچہ آپ کی تربیت وپرورش خالص اسلامی خطوط پر ہوئی جس میں کسی اورچیز کی ادنیٰ سی آمیزش نہیں تھی ۔آپ کے پر دادا''جلال الدین اکبر'' نے آخری عمر میں لوگوں کو'' دین جدید'' کو اپنانے پرمجبورکیا جوہندودہرم اوراسلام کامرکب تھا ۔ولاحول ولاقوة الاباللہ ۔ جلال الدین اکبر نے ہندوؤں اورغیرمسلموں سے جزیہ لینے پر پابندی عائد کردی اور وہ کام کیے جواس سے پہلے کسی مسلم حکمران نے نہیں کیے تھے۔ کوئی شخص اس حکمران کے مقابلے میں کھڑا نہ ہوسکا۔یہ حالت اسی طرح برقراررہی لیکن اللہ کواپنے نور کی تکمیل منظورتھی چنانچہ ایک نحیف ونزار آدمی شیخ احمد سرہندی نے اس کام کے لیے کمرکس لی۔ وہ امراء اور عسکری قائدین کودعوت دینے لگے۔ان کواللہ کی یاد دلائی ،ان کے دلوں میں دینی غیرت کوزندہ کرکے ان کوجھنجھوڑا۔جب اکبر کی وفات ہوئی تو اس کے بعد جہانگیر نے سلطنت کے معاملات سنبھالے ۔ پھر شیخ احمد سرہندی کے فرزند ارجمند شیخ محمد معصوم نے ایک بچے کی تربیت کی اور اس پراپنی بھرپور توجہ دی چنانچہ اس بچے کی تربیت دین کی بنیاد پر ہوئی ۔اس نے قرآن کوتجوید کے ساتھ پڑھا ،فقہ حنفی کو سیکھااوراس میں برتری حاصل کی ۔خوشخطی میں مہارت حاصل کی ،اورگھوڑسواری اورجنگ کی تربیت حاصل کی ۔یہ بچہ اورنگزیب عالمگیر تھا ۔آپ شعرو شاعری سے محبت کرتے تھے اور خود بھی شاعر تھے ۔خوشخطی سے محبت تھی اس لئے ایک باکمال خطاط کے طور پر ابھرے ۔عربی ،فارسی اورترکی زبانوں کوسیکھا۔ اس طرح اورنگزیب کے اندر بچپن ہی سے بڑے بادشاہوں کی صفات موجود تھیں۔
اورنگزیب بحیثیت امیر:
اورنگزیب کے دوبھائی تھے ،ایک بھائی کانام شجاع اور دوسرے کا مراد بخش تھا۔ شجاع نے بنگال کی ،مراد بخش نے گجرات کی اور اورنگزیب نے ہندوستان کے وسط میں دکن کی امارت اپنے ہاتھ میں لے لی۔لہٰذا اورنگزیب نے ولایہ کے امور کے انتظام کاعلم حاصل کیا ،اس میں مہارت حاصل کی اور اس کی گہرائیوں کو جانا،چنانچہ وہ اِن چند گنے چنے مسلمان حکمرانوں میں سے ہیں جنھیں ولایہ کےانتظامی صلاحیتوں میں فوقیت اور برتری حاصل تھی ۔اس کے ساتھ انھوں نے اپنے والد کے عہد میں بذات ِخود افواج کی قیادت کی ، بغاوتوں کوکچلا،ملک کوبدامنی سے پاک کیااورعدل کوپھیلایا ۔ان کے اندر سلاطین کا دبدبہ اور وقار تھا ۔انہی حالات میں آپ کی والدہ'' ممتاز محل''کی وفات ہوئی اور یہ والد کیلئے شدید صدمہ تھا ۔سلطان شاہجہاں نے ایک ایسا مقبرہ تیار کروایاجو اس کی زوجہ کی یاد گار ہو ۔ اس پر مال کثیر خرچ کیااور لوگوں کو اس کے لیے سخت محنت پر مجبور کیا ۔یوں ولایہ کے امور سے غفلت برتی گئی چنانچہ فسادات اور بغاوتیں پھوٹ پڑیں جبکہ سلطان کاان دنوں اگر کوئی کام تھا تویہ کہ صرف اپنی اہلیہ کی قبرپر نظریں جمائے بیٹھا ہوتاتھا۔اس نے اہلیہ کی قبر کے بالمقابل اپنے لئے بھی کالے رنگ کی ایک اور قبر بنانے کا حکم دیا ۔اورنگزیب کے بڑے بھائی نے اس وقت یہ کیا کہ اپنے والد کی حکومت پر جھپٹا ،جس کاجھکاؤدنیاکی طرف تھا اور جو ہندوستان کو اپنے پردادا''جلال الدین اکبر ''کے زمانے والے حالات کی طرف لوٹاناچاہتاتھا،اس کے دوسرے بھائی نے بھی اس کاساتھ دیا ۔ متقی اور پرہیزگار مسلمان اورنگزیب نے اس کی مخالفت کی اور وہ اس قابل ہوا کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے اور بھائیوں کی طرف سے کھڑے کیے گئے انقلابات کی سرکوبی کرے ۔پھر اورنگزیب نے اعلان کیا کہ وہ ولایہ کاحکمران ہے ۔اس وقت آپ کی عمر 40 سال تھی ۔آپ نے عدل اور حق کے دور کاآغاز کیا۔اب مسلمانوں کوموقع ملاکہ وہ حضرت ابوبکر و عمر ،عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کی صفات وکردارکواورنگ زیب عالمگیرکی شخصیت کی آئینہ میں دیکھ سکیں۔
اورنگزیب بحیثیت حکمران:
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اور نگزیب مسند اقتدار سنبھالتے ہی عبادت اور گوشہ نشینی اور آرام وراحت کی طرف مائل ہوگئے بالخصوص جبکہ وہ ایک دینی ذہن کے آدمی تھے ۔ نہیں ! ایسانہیں تھا۔ہمارے آباؤاجداد کے نزدیک دیندار ی کاتصوریہ نہیں تھا ۔دینداری تو یہ ہے کہ اللہ کابول بالاہو اورکفرکابول دب جائے اوراس کے لیے جہاد کیا جائے ۔اور نگزیب نے بھی اسی بنیاد پر حکمرانی کی جس میں وہ عدل کرتے تھے اور انتہائی ہوشیاری سے ہرقدم اٹھاتے تھے ۔
اورنگ زیب کبھی بھی آرام وراحت کی طرف نہیں جھکے ۔انھوں نے تو پوری زندگی سامان جنگ سے لیس ہوکرگزاری اور 52 سال تک جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ برصغیر ہند، ہمالیہ کی پہاڑیوں سے لے کر سمندر تک اور بنگلہ دیش سے لے کر ایران کی حددود تک مکمل طورپران کے سامنے سرنگوں ہوئے ۔انھوں نے ہرطرح کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ،سوائے یہ کہ ولایہ کانام اپنے والد کے نام پر رکھا۔
اور نگزیب کی فوجی کوششوں کی بدولت ہندوستان کی مغل اسلامی شہنشاہیت آپ کے عہد سلطنت (1658-1707م)میں بہت زیادہ پھیل گئی حتی ٰ کہ ہندوستان کے تمام صوبے اس کے اقتدار کے نیچے آگئے ،اس طرح اورنگ زیب برصغیر ہند کو مغلیہ اسلامی ولایہ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے مشرق کومغرب اورشمال کو جنوب کے ساتھ ایک ہی قیادت تلے جوڑا گیا تھا۔آپ کے عہد سلطنت میں مسلمانوں نے 30سے زائد معرکے لڑے جن میں سے 11میں خود سپہ سالار رہے ۔ اورنگ زیب نے 80ٹیکسوں کو منسوخ کردیا اور غیرمسلموں پردوبارہ جزیے کااجراء کیاجسے آپ کے آباؤاجداد نے منسوخ کردیا تھا ۔مساجد ،حمام ،خانقاہیں ،مدارس اور ہسپتال قائم کیے ۔راستوں کی مرمت کی اورباغات بنائے ۔آپ کے زمانے میں دہلی دنیاکا جدید اور آباد شہر بن گیا ۔آپ نے قاضیوں کومقرر کیا ،ہر ولایہ (صوبہ)میں اپنانائب بھیجا اور یہ اعلان کروایاکہ سلطان کی طرف کسی کاکوئی حق ہو تو وہ اس نائب کو اطلاع دے تاکہ وہ سلطان کو پہنچائے ۔
اورنگ زیب نے اسلام اوراس کے احکامات پر بے باکی سے عمل کرنے کامظاہر کیا ،چنانچہ مشرکانہ تہواروں کی تقریبات جیسے نوروز وغیرہ کابہ یک جنبشِ قلم خاتمہ کیا ۔ اپنے سامنے زمین بوسی اور جھکنے کو بندکیا ۔دربار میں حاضری کے وقت سلطان کی خدمت میں طویل وعریض قصیدے پڑھے جاتے تھے جس پر پابندی لگادی صرف سلام کو کافی سمجھاجانے لگا ۔اسی طرح ملک کے اندر شراب کی درآمد پر پابندی لگائی ،موسیقاروں اور گویوں کو اپنے شاہی محل سے باہر کردیا ۔ ایک دفعہ جب وہ اپنے محل کے باہر تھے ، موسیقاروں اور گانے والیوں کودیکھا کہ انہوں نے سیاہ لباس پہناہوا ہے اور روتے ہوئے ایک نعش کو اٹھا کر لے جارہے ہیں ،اورنگ زیب نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ توان لوگوں نے بتایا کہ یہ موسیقی اور ڈھول باجے ہیں جنہیں ہم دفن کرنے جارہے ہیں ،آپ نے جواباً کہاکہ : اچھا اس کو اچھی طرح دفن کرو،ایسا نہ ہو کہ یہ پھر اٹھ کھڑے ہوجائیں۔ آپ نے حنفی مذہب پرفتوی ٰ دینے کے لیے قاضیوں کے لئے ایک کتاب تیار کرنے کاسوچا ،چنانچہ اپنی نگرانی میں اس کو تیارکروایا ،یہ کتاب '' الفتاویٰ الہندیہ ''یا''الفتاویٰ العالمگیریہ ''کے نام سے مشہور ہوئی ۔
کتنے زبردست انسان تھے ۔انھوں نے موجودہ پاکستان میں بادشاہی مسجد لاہورتعمیرکروائی جو آج تک مسلمانوں کے دبدبہ وشوکت کی ایک نشانی اورعظیم یادگار ہے۔آپ نے سمندر میں پرتگالیوں کاقلع قمع کیا۔ آپ کی عادت تھی کہ رمضان میں جُوکی چندروٹیوں سے ہی افطار کیاکرتے تھے اوریہ بھی اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن مجید کو فروخت کرکے اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے، مسلمانوں کے بیت المال سے نہ کھاتے ۔
آپ بیت اللہ کاحج نہ کرسکتے تھے ،تو اس کے بدلے اس نے قرآن پاک کے دو نسخے خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر ایک مکہ مکرمہ اور ایک مدینہ منورہ بھجوادیا ۔بڑے عابد انسان تھے ۔مشائخ کے سامنے انکساری سے پیش آتے، ان کے قریب رہتے اور ان کے مشوروں کو سنتے اور ان کی قدر کرتے تھا ۔آپ نے اپنے کمانڈروں کو حکم دیا تھا کہ مشائخ کے مشوروں کوخوب تواضع وانکساری کے ساتھ سنیں۔اپنے ایک نائب کے بارے میں سنا جو بنگال میں تھا کہ اپنے لئے اس نے ایک تخت بنایاہے جس پروہ بیٹھتا ہے ۔اس کی سخت سرزنش کی اور اسے حکم دیا کہ وہ عام انداز میں لوگوں کے درمیان بیٹھا کرے ۔آپ کے اس کردارسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ ہوجاتی تھی ۔
آپ ہر پیر ، جمعرات اورجمعہ کوپابندی سے روزہ رکھتے ۔آپ فرض نمازیں اپنے وقت پرصرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ جماعت کے ساتھ اداکرتے بلکہ تراویح میں خود قرآن سناتے اور رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں اعتکاف کرتے ۔اس طرح وہ اپنے زمانے کے بادشاہوں میں سب سے بڑے بادشاہ تھے ۔
آپ نے ایسے ملازمین مقرر کئے جو رعایا کے حالات قلمبند کرکے آپ کے سامنے پیش کرتے تھے ۔اپنے اسلاف کے برعکس آپ نے تحائف کی رسم کو بھی بند کردیا۔آپ دن میں تین مرتبہ لوگوں کی شکایتیں اور مسائل براہ راست سننے کے لیے بیٹھتے،اور کوئی دربان یا چوکیدار کھڑا نہیں کرتے تھے۔آپ نے دو ایسے کا م کیے جس کی توفیق آپ سے پہلے کسی مسلمان بادشاہ کو نہیں ملی۔
ایک تو یہ کہ جب کسی عالم کو کوئی ہدیہ یا وظیفہ دیتے تو کوئی کام بھی ضرور لیتے تھے ،،مثلاً کوئی کتاب تصنیف کرے یا پڑھائے تاکہ مفت خوری اور سستی کی عادت نہ پڑے ورنہ علم چھپانے کاگناہ الگ ہوتا اور ناحق مال لینے کا بھی ۔
دوسرا یہ کہ وہ پہلے شخص تھے جس نے شرعی احکامات کو ایک کتاب میں درج کیا جو قانون کے لیے ایک مرجع کے طور پراستعمال ہو ۔ چنانچہ حنفی مذہب کے مطابق فتاویٰ عالمگیری کو اپنے زیرِ نگرانی لکھوایا۔
وفات:
آپ کی وفات 28ذی قعدہ 1118 ہجری مطابق 20 فروری 1707 کوہوئی(جبکہ آپ نے 52سال حکومت کی ) ۔حددرجہ متقی شخص تھے یہاں تک کہ جب موت قریب آنے لگی تو آپ نے وصیت کی کہ مسلمانوں کے کسی نزدیک ترین قبرستان میں اسے دفن کیا جائے اور کفن کی قیمت صرف پانچ روپے ہونی چاہئے ۔سلطان کی عمر 90سال بنتی ہے اس عمر میں بھی آپ فوج کی کمان خود کرتے تھے اور تلاوت بھی کرتے تھے ۔یہ تھے ہمارے اکابر جنہوں نے راحت اورآرام کوچھوڑااور اپنی زندگیاں بس صرف اللہ کے لیے وقف کردیں تھیں۔
سلطان ابوالمظفرمحی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیرؒ کی وفات کے ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کی عظمت اورشوکت کابھی اختتام ہوا۔اس کے بعد کمزورقسم کے حکمران آئے اور اس کے ساتھ ہی برطانوی استعمار نےمضبوطی کے ساتھ ہندوستان پر قبضہ کرنا شروع کردیا،بالآخر1857میں انگریزوں کے ہاتھوںسلطان بہادرشاہ ظفرکی قیادت میں ہونے والی بغاوت کو کچل دیا گیا اور مسلمانوں کی حکومت کی بحالی کی امیدیں ختم ہو گئیں۔ تب سے ہندوستان کے اس وسیع وعریض سرزمین میں اسلام نے کوئی انگڑائی نہیں لی۔
ان باتوں کی اشاعت کا یہ مقصد ہے کہ مسلمانوں کو یاددلایاجائے کہ ان کی زمینیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں جبکہ دنیاکے نقشے پر ہندوستان(بھارت) پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک خلاپیداکرتاہے جبکہ ماضی میں یہ ساراکاسارا برصغیر مسلم حاکمیت کاحامل ایک علاقہ تھا،جس میں ہندوذمی ہوکر رہتے تھے ۔یہ یورپی کافرانگریزی استعمار ہی تھاجس نے اس کو تقسیم کیا جس سے مسلمانوں کو ہمیشہ سے شر ہی شرپہنچاہے ۔ان اسلامی علاقوں کااپنی اصل حالت کی طرف لوٹانا واجب ہے اور یہ کہ یہاں مسلمانوں کی حکومت ہو۔انشاء اللہ یہ ہوکر رہے گا ،اور اس کام کو سلطان کے بجائے خلیفہ راشد ہی سرانجام دے گا ،جوتمام امورکو اپنے پہلی حالت کی طرف لوٹادے گا۔