الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خبر اور تبصرہ

 امریکی موجودگی ہی پاکستان اور خطے میں عدم استحکام کی وجہ ہے

 

خبر:  بروز جمعہ17فروری 2017 کو چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن  سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور افغانستان سے مسلسل پاکستان میں کی جانے والی  "دہشت گردی" پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا،یہ بیان آئی۔ ایس۔ پی۔آر نے  جاری کیا۔  جنرل باجوہ نے امریکی جنرل جان نکولسن کو بتایا کہ، "پاکستان میں ہونے والے زیادہ تر سانحات کی ذمہ داری ان تنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی ہے جن کی قیادت افغانستان میں چھپی ہوئی ہے۔ آئی۔ ایس۔پی۔آر نے مزید بتایا کہ،"چیف آف آرمی سٹاف نے کہا کہ اس قسم کی دہشت گردی کی سرگرمیوں اور ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنے کے ذریعے سرحد پار تحمل کی ہماری پالیسی کا امتحان لیا جارہا ہے"۔       

 

تبصرہ:    پورے ملک میں محض پانچ دنوں میں ہونے والے آٹھ حملوں نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا  جس میں 100 سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ حملوں میں اس اچانک  زبردست اضافے نے پوری قوم کو حیران کردیا کیونکہ سیاسی و فوجی قیادت  نے 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے وحشیانہ حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے نام پر قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز، شہری و دیہاتی علاقوں میں کومبنگ آپریشنز اور سکیڑوں لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے "دہشت گرد" گروپوں کی کمر توڑ دی ہے اور اب وہ بھاگ رہے ہیں۔  لیکن  کراچی سے لاہور اور کوئٹہ سے  پشاور  تک پانچ دنوں میں  شہریوں اور سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے آٹھ حملوں نے ان کے اس دعوے پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا۔  اپنی جانب اٹھنے والے سوالات کا رخ موڑنے کے لیے ، انہوں نے سہون شریف، سندھ میں ہونے والے مبینہ خودکش دھماکے کے فوراً بعد، جس میں 88 افراد جاں بحق ہوئے ،ملک بھر میں چھاپے مارنے شروع کردیے  اور یہ دعویٰ کیا کہ ایک رات میں مختلف فرقہ پرست  اور کلعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 100 دہشت گردمار دیے ہیں۔

 

میڈیا میں موجود کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سہون حملے کے بعد  محض ایک ہی دن میں حکومت کو اتنے سارے "دہشت گردوں" کے متعلق  آگاہی حاصل ہوجائے؟ اور اگر حکمران ان کے متعلق پہلے سے جانتے تھے تو پھر انہوں نے ان کو ختم کرنے کے لیے ایک عظیم سانحے کا انتظار کیوں کیا؟  اس کے علاوہ حکومت نے  کھل کر اور پوری طاقت سے یہ الزام لگایا کہ  افغان حکومت ان گروپوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا رہی جو افغان سرزمین کو پاکستان پر حملے کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔  انہوں نے پاکستان اور افغانستان پر واقع طورخم  پوسٹ سمیت  مختلف گزرگاہوں کو بند کردیا۔ افغان سفارت خانے کے اہلکاروں کو راولپنڈی میں واقع آرمی کے جنرل ہیڈکواٹر بلوایا گیا جہاں انہیں ان دہشت گردوں کی فہرست فراہم کی گئی جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف "دہشت گردی" کررہے ہیں۔ اس مطالبے کے چند ہی گھنٹوں بعد 17 فروری کی رات افغان سرحد کے پار مبینہ "دہشت گرد" گروپوں کے اڈوں پر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے بمباری کی۔

 

یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ ان حملوں سے قبل حکومت کے لیے فوجی عدالتوں کی بحالی  تقریباً ناممکن ہدف بن گیا تھا لیکن ان حملوں کے بعد فوجی عدالتوں کی بحالی کی  مہم نے زور پکڑ لیا اور اب وہ کام جو چند دن قبل تک ناممکن نظر آرہا تھا  ممکن نظر آنے لگا ہے۔ اس کے علاوہ خوف و دہشت کے اس ماحول میں کوئی حکومت سے یہ سوال نہیں کرسکتا کہ جن مبینہ "دہشت گردوں" کو مارا گیا ہے کیا وہ واقعی "دہشت گرد" ہی تھے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ حکومت نے خود کو مکمل آزادی کے ساتھ قتل عام کا پروانہ جاری کردیا ہے۔

 

ماضی میں بھی ہم اس قسم کا ماحول دیکھ چکے ہیں جب پشاور آرمی پبلک اسکول میں قتل عام ہوا تھا۔ حکومت نے "دہشت گردی" اور "انتہا پسندی" کو ختم کرنے کا وعدہ کیا  لیکن اس کے پردے میں ان مخلص مجاہدین کو نشانہ بنایا جو افغانستان میں صلیبی امریکی افواج اور مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج سے لڑتے ہیں یا ان سیاست دانوں اور سیاسی کارکنان کو نشانہ بنایا جو ملک میں اسلام کے نفاذ اور خلافت کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔  پچھلے دو سالوں کے دوران پاکستان میں حزب التحریر کے شباب  کو اغوا، قید اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب نیشنل ایکشن پلان پورے زور و شور سے جاری تھا۔ لہٰذا موجودہ خوف کا ماحول، فوجی عدالتوں کی بحالی  اور اسلام کے خلاف قوانین کو مزید سخت بنانے کے عمل کو پاکستان میں اسلام کی آوازوں کو کچلنے کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا جو کہ امریکہ کا مطالبہ ہے تا کہ خطے میں اس کی موجودگی کو مستحکم کیا جاسکے۔  اور حکمران واشنگٹن کے احکامات کی اندھی تقلید کررہے ہیں بجائے اس کے کہ پاکستان اور خطے میں عدم استحکام کی وجہ امریکی موجودگی کو ختم کریں۔

 

چونکہ پاکستان کے مسلمان کبھی  بھی نہ تو اسلام سے دستبردار ہوں گے اور نہ امریکی بالادستی کو قبول کریں گے لہٰذا ان کے خلاف حملے ہوتے رہیں گے ، جن کی منصوبہ بندی امریکی ایجنسیاں اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کرتے ہیں تا کہ حکمران نام نہاد "دہشت گردی" کو جواز بنا کر پاکستان میں اسلام کی پکار کو کچلیں۔ موجودہ تکلیف دہ صورتحال سے نکلنے کا واحد رستہ امریکی موجودگی کا خاتمہ ہے لیکن موجودہ حکمران یہ کرنے کی ہمت کبھی نہیں کریں گے۔ ایسا بہادرانہ عمل صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت  ہی  کرے گی۔    

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Last modified onمنگل, 21 فروری 2017 18:41

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک