بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان کے حکمران چین کے لیے امریکی منصوبے میں معاونت کررہے ہیں
خالد صلاح الدین ، پاکستان
حالیہ دنوں میں پاکستان کی فوجی قیادت کی جانب سے چین کے ساتھ قربت اور امریکہ سے دوری کے دعووں کا کچھ تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ اصولی طور پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد فائدے مند نہیں تھا، ورنہ امریکہ سے دوری اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ چین کے ساتھ قربت کا مطلب ہے کہ فوجی قیادت توازن کا کھیل کھیلے گی جہاں وہ خطے میں امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے خلاف چین کو ایک متبادل قوت کے طور پر استعمال کرے گی۔ اسی بات میں یہ بھی مضمر ہے کہ ہماری فوجی قیادت دل سے پاکستان کے مفاد کو عزیز رکھ رہی ہے اور سمت کی یہ تبدیلی پاکستان کے متعلق ان کی بصیرت کی عکاس ہے۔ ایشیائی بر صغیر میں چین امریکہ مخاصمت کا سرکاری طور پر اظہار اکتوبر 2011 میں "فارن پالیسی میگزین" میں شائع ہونے والے ہلری کلنٹن کی مضمون میں کیا گیا۔ یہ مخاصمت اس مضمون کے شائع ہونے سے کئی برس پہلے سے جاری تھی۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کو آشکار اب کیوں کیا گیا؟ اکتوبر 2011 میں کیوں نہیں کیا گیا جب امریکہ نے اپنی پالیسی باضابطہ طور پر جاری کی تھی؟ 2000 کے شروعات میں کیوں نہیں کیا گیا جب امریکہ کی پالیسی عملی طور پر نافذ ہوئی؟
موجودہ جیو پولیٹکل صورتحال کہیں پہلے کے واقعات کا نتیجہ ہے۔ موجودہ سمت کی تبدیلی کی شروعات اوباما کی پہلی مدت صدارت کے دوران شروع ہوئی۔ جنوری 2009 میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد صدر باراک اوباما نے افغانستان پر امریکہ کی پالیسی پر تفصیلی غور وخوص کا حکم دیا۔ 27 مارچ 2009 میں امریکہ نے "ایف-پاک" کے نام سے نئی پالیسی کا علان کیا جس کے تحت اس کی نئی پالیسی کی بنیاد اس سوچ پر رکھی گئی کہ "افغانستان کا مستقبل اس کے ہمسائے ، پاکستان، کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے"، کیونکہ افغانستان میں "دہشت گرد" عناصر امریکی جنگی آپریشنز کے خلاف محفوظ ٹھکانوں کے لیے پاکستان کی سرحد پار کرتے ہیں۔ لہٰذا نئی امریکی حکمت عملی کے تحت افغانستان اور پاکستان کو ایک ہی پالیسی کے تحت دیکھا جائے گا۔ 2009 کے اختتام تک وائٹ ہاوس نے مزید تیس ہزار افواج بھیجنے کا اعلان کیا تا کہ افغانستان میں حالات کو اپنے حق میں کیا جائے اور پھر 18 ماہ بعد امریکہ افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد کو کم اور سیکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنا شروع کردے گا۔ لہٰذا افواج کے انخلاء کا ہدف 2010 کا وسط یا 2011 کی شروعات کی تاریخوں کا رکھا گیا۔ افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی میں خطے میں مزاحمتی تحریکوں کے خلاف پاکستان کے کردار کو بہت اہمیت دی گئی اور اس کے تحت یہ ہدف رکھا گیا کہ تنازعے کے حل میں چین بھی زیادہ کردار ادا کرے۔ لہٰذا 2009 میں امریکہ کی پالیسی کے دو پہلو تھے۔
پہلا پہلو یہ تھا کہ پاکستان کی فورسز کو قبائلی علاقوں میں بھیجا جائے تا کہ خطے میں استحکام پیدا ہو ، امریکی افواج کو تحفظ فراہم ہو اوراس کے نام نہاد "انخلاء" کے منصوبے کو حمایت مل سکے۔ اس نقطے پر پچھلے مضامین میں بات کی گئی تھی لیکن مختصراً اس پر عمل درآمد کے لیے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان میں خودکش دھماکوں میں اضافہ کیا گیا تا کہ دہشت گردی کو حقیقی خطرے کے طور پر پیش کیا جاسکے، ڈرون حملوں میں زبردست اضافہ کیا گیا تا کہ پاکستان آرمی اور قبائلی علاقوں کے درمیان تنازع پیدا ہو اور پھر لازمی مشرقی سرحد سے افواج کو مغربی سرحد پر منتقل کیا جائے اور اس وقت کے آرمی چیف کیانی نے اس منصوبے کو مکمل وفاداری کے ساتھ نافذ کیا۔
اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ افغانستان کے بحران میں چین کے کردار کو بڑھایا جائے۔ اس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا معاشی بوجھ بہت زیادہ تھا خصوصاً اگر امریکہ کے سالانہ مالیاتی خسارے کو سامنے رکھا جائے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی اندرونی سیاست میں اس بات کا جواز دینادن بدن مشکل ہوتا جارہا تھا کہ افغانستان میں امریکی جانوں کی قربانی دینا امریکہ کے مفاد میں ہے۔ لہٰذا ، سیاسی طور پر اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ چین خطے میں زیادہ ذمہ داریاں اٹھانے کو قبول کرلے۔ امریکہ کے پالیسی ساز پہلے ہی اس بات پر ناراض تھے کہ قربانیاں امریکی دیں اور فائدہ چینی اٹھائیں۔ چیر مین سینٹرل ایشیا کاکاکس انسٹیٹیوٹ ، ایس فیڈرک سٹار نے کہا:"ہم بھاری جنگ لڑتے ہیں۔۔۔۔اور وہ(چین) پھل اٹھا لیتا ہے"
(http://www.huffingtonpost.com/2011/08/15/china-military-afghanistan-iraq_n_927342.html?)۔
لہٰذا خطے میں چین کی جانب سے بڑے کردار کی ادائیگی اور سیکیورٹی کی بڑی ذمہ داریوں کے اٹھانے کی پیش گوئی کی جاسکتی تھی۔ چینی خطے میں امریکی کی موجودگی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے کچھ ایسے مسائل تھے جن کی بنا پر وہ خطے میں امریکہ کی موجودگی چاہتے بھی تھے۔ افغانستان و پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی حکمت عملی خطے میں کئی چینی مفادات سے ہم آہنگ ہے۔ بنیادی طور پر چین کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر استحکام کو یقینی بنائے خصوصاً اس کے مغربی صوبے سنکیانگ میں جہاں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد رہتی ہے۔ چینی حکام ان مسلم سیاسی کارکنوں کے حوالے سے بہت عرصے سے پریشان ہیں جو زیادہ خودمختاری بلکہ آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ چینی رہنما ایسے سیاسی کارکنوں کو "انتہاپسند، علیحدگی پسند اور دہشت گرد" کہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف چین کا ایک اہم ترین ہدف ان انتہاپسند گروپوں کو روکنا ہے جو پاکستان و افغانستان میں موجود ہیں اور جو چین کی مسلم آبادی کو چین کے خلاف اکساتے ہیں۔ امریکہ سنکیانگ صوبے میں علیحدگی کی تحریک ، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اورعمومی طور پر علیحدگی کی تحریکوں کے حوالے سے چینی مشکلات و پریشانیوں سے آگاہ تھا۔
اگرچہ انخلاء کی ضرورت امریکہ کی سیاسی و معاشی مجبوری تھی لیکن اسے ایسے انجام دیا گیا کہ چین افغانستان میں زیادہ بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ افغانستان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں سیکیورٹی کی بد تر ہوتی صورتحال نے چین کو مزید پریشان کردیا۔ لہٰذا امریکہ کی سیاسی مشینری نے چین کو زیادہ وسیع کردار کی ادائیگی کے لیے رضامند کرنا شروع کردیا۔ رچرڈ ہالبروک اور دوسرے امریکی حکام باقادگی سے اپنے ہم عصر چینی حکام سے ملتے تھے اور خصوصی طور پر نئی حکمت عملی پر بات چیت کرتے تھے اور خطے میں چینی مفادات کو یقینی بنانے کی یقین دہانیاں کراتے تھے۔ 21 فروری 2009 میں ہلری کلنٹن کے دورہ چین کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس میں چینی وزیر خارجہ Yang Jiechi نے کہا ، "اور ہم نے بہترین طریقے سے انتہاپسندی کے خلاف اور افغانستان و پاکستان میں استحکام کے فروغ کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے"
(http://www.cfr.org/china/secretary-clintons-remarks-chinese-foreign-minister-yang-jiechi/p18595)
نومبر 2009 میں بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں امریکی و چینی صدر کے درمیان ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صدر اوباما نے کہا،"صدر ہو اور میں نے سیکیورٹی اور افغانستان و پاکستان میں استحکام کے باہمی مفاد پر بات چیت کی، اور کسی بھی ملک کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، اور ہم نے فیصلہ کیا کہ اس ہدف کے حصول کے لیے مزید تعاون کریں جس میں پورے جنوبی ایشیا میں زیادہ مستحکم اورپر امن تعلقات کو پیدا کرنا بھی ہے"
مئی 2010 میں چین کے دورے کے دوران امریکہ کے سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا، رابرٹ بلیک نے جنوبی ایشیا کی صورتحال پر وزارت خارجہ کے اسکالرز اور اہلکاروں سے بات چیت کی اور کہا کہ، "ان (بین الاقوامی) کاششوں کی کامیابی میں چین کا اہم مفاد پنہا ہے۔ اور ہم اس موضوع پر بات چیت کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ چین کس طرح سرمایہ کاری اور دیگر اقسام کی معاونت سے زیادہ کردار ادا کرسکتا ہے"(http://www.chinadaily.com.cn/cndy/2010-05/05/content_9809681.htm)۔
اس کے ساتھ امریکہ نے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے حوالے سے کئی سیکیورٹی اقدامات اٹھائے ۔ 27 اپریل 2009 کو پاکستان نے 9 ایغور مسلمانون کو چین کے حوالے کیا۔ مئی 2010 میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے رہنما عبدالحق الترکستانی ایک امریکی ڈرون حملے میں پاکستان میں جاں بحق ہوئے۔ عبدالحق ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کی وہ شخصیت تھے جو سرحدی علاقوں میں دوسرے عسکری گروپوں سے قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ چین نے 2008 میں آٹھ افراد پر مشتمل انتہائی مطلوب افراد کی فہرست جاری کی۔ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر عبدالشکور ترکستانی کا نام تھا جنہوں نے عبدالحق کے مارے جانے کے بعد ان کی ذمہ داریاں سنبھالی تھی۔ 24 فروری 2012 کو دو امریکی ہیل فائر میزائلوں نے پاکستان میں عبدالشکور ، فاٹا میں القائدہ فورسز کے سربراہ اور ان کے تین کمانڈروں کو قتل کردیا ۔ ان کا شمار ان لوگوں میں بھی کیا جاتا تھا جو 2008 میں بیجنگ اولمپکس کو نشانہ بنانے کی دھمکی آمیز وڈیوز جاری کرتے تھے۔ جون 2012 میں القائدہ کے چوٹی کے نظریاتی رہنما ابو یحیی اللبی، جنہوں نے چین کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا، کو شمالی وزیرستان میں قتل کردیا گیا۔ عبدالحق کے قتل کے چند دنوں کے بعد 13 ایغور اور دو ترک افراد کو افغانستان کے صوبےبادغیسمیں ایک ڈرون حملے میں قتل کردیا گیا اور یہ تما م کے تمام ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے اراکین تھے۔ جولائی 2012 میں چھ ازبک افراد کو ایک حملے میں قتل کردیا گیا جو کہ ایک چھوٹے گروہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔
بظاہر اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے ایبٹ آباد میں ہونے والے امریکی حملے کے بعد چین نے یہ کہا کہ پاکستان پر حملہ چین پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ ہماری فوجی قیادت کا جواب انتہائی عام سا تھا۔ پاکستان کی فوجی قیادت نے چین کی پیشکش کا جواب دینا تک مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہ تو پہلے سے ہی اس امریکی منصوبے، ایف-پاک پالیسی، سے وابستہ تھے جس کے تحت افغانستان میں استحکام کے قیام کے لیے چین کو افغانستان کے معاملات میں کھینچا جارہا تھا۔ ہلری کلنٹن اور چینی نائب وزیراعظم وینگ کیشان کی جانب سے جاری ہونے والی مشترکہ پریس ریلیزمیں کہا گیا:"ہم نے افغانستان میں تعاون کی اہمیت پر اتفاق کیا تا کہ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے مشترکہ اہداف پر آگے بڑھا جاسکے"
(http://beijing.usembassy-china.org.cn/sed2011.html)۔
22 جون 2011 کو ایک نشری تقریر میں صدر اوباما نے افواج کے انخلاء کا اعلان کیا: "آج رات میں آپ کو بتا سکتا ہو کہ ہم اپنا وعدہ پورا کررہے ہیں۔ وردی میں موجود ہمارے مرد و خواتین، ہمارے شہری افراد اور ہمارے کئی اتحادی ساتھیوں کی وجہ سے ہم اپنے اہداف حاصل کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اگلے ماہ کے شروع سے ہم افغانستان سے اپنی دس ہزار افواج کو سال کے آخر تک نکال لیں گے، اور اگلی بہار تک مزید 33 ہزار افواج کو واپس گھر لے آئیں گے، ویسٹ پوائنٹ پر اعلان کیے جانے والے اضافے کو مکمل واپس لے آئیں گے۔ اس شروعاتی کمی کے بعد ہماری افواج ایک خاص متوازن رفتار کے ساتھ گھر آتی رہیں گی کیونکہ افغان سیکیورٹی فورسس ان کی جگہ لیتی جائیں گی۔ ہمارا مشن لڑائی سے بدل کر صرف حمایت فراہم کرنا ہوجائے گا۔ 2014 تک یہ عبوری دور مکمل ہوجائے گا اور افغان عوام اپنی سیکیورٹی کے خود ذمہ دار ہوں گے"
(https://www.theguardian.com/world/richard-adams-blog/2011/jun/23/afghanistan-barack-obama-troop-withdrawal#block-9)۔
حال ہی میں فارن افئیرز میگزین میں شائع ہونےوالے مضمون میںEvan Feignbaum نے لکھا کہ،"علاقائی رابطے کی بات چین کی ایجاد نہیں۔۔۔ اور یہ بیجنگ نہیں بلکہ امریکی سیکریٹری خارجہ کونڈا لیزا رائس، عالمی بینک اور ایشین ڈولپمنٹ بینک تھا جنہوں نے اس صدی کی پہلے دہائی کے وسط میں وسطی اور جنوب ایشیائی سڑکوں اور پاور لائنز کی تعمیر پر زور دیا تھا"(فارن افئیرز جنوری/فروری 2017، جلد 96، شمارہ اول)۔ لہٰذا علاقائی تعلق پر زور درحقیقت علاقائی ضرورت تھی۔ جولائی 2011 میں سیکریٹری خارجہ ہلری کلنٹن نے بھارت میں وسطی ایشیائی معیشتوں کو جنوبی ایشیائی معیشتوں سے جوڑنے کے فوائد کے بارے میں بات کی جس میں افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ اس کے مطابق علاقائی معاشی تعلقات میں اضافہ مستحکم معاشی بڑھوتی کا باعث بنے گا جو کہ انتہا پسندی کو شکست دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس نے خاص طور پر کہا کہ:"چنئی میں بیٹھے ایک کاروباری کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مال کو بغیر کسی رکاوٹ کے ٹرک یا ٹرین پر ڈال کر کم خرچ میں پاکستان اور افغانستان سے ہوتے ہوئے قازقستامیں اپنے گاہک کے دروازے پر پہنچا سکے۔ ایک پاکستانی کاروباری کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی ایک شاخ بنگلور میں کھول سکے۔ ایک افغان کسان اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے انار اسلام آباد میں فروخت کرسکے اور پھر نئی دہلی کی جانب چلا جائے۔ اور جیسا کہ وزیر اعظم سنگھ نے اس کو انتہائی خوبصورتی سےبیان کیا ہے کہ،'اپنی اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے میں اُس دن کا خواب دیکھتا ہوں کہ ایک شخص ناشتہ امرتسر میں ، دوپہر کا کھانا لاہور میں اور رات کا کھانا کابل میں کھائے۔ اسی طرح ہمارے آباؤ اجداد نے زندگی گزاری تھی۔ اسی طرح سے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے بچے زندگی گزاریں'"
(http://iipdigital.usembassy.gov/st/english/texttrans/2011/07/20110720165044su0.7134014.html#axzz4aDzEyQcG)۔
لہٰذا علاقائی ڈھانچے کا خیال سب سے پہلے امریکہ نے چنئی ،بھارت میں ہلری کلنٹن کی تقریر کے ذریعے پیش کیا۔ نومبر 2011 میں ترکی نے "ہارٹ آف ایشیا کانفرنس منعقد کی۔ امریکہ و چین کی حمایت کی وجہ سے یہ تصور علاقائی تعاون کے حوالے سےاہم علامت بن گیا۔ "مسودے کی تیاری کے دوران وہ (چینی) بہت پُرجوش تھے اور انہوں نے کئی مسائل کو اٹھایا۔ آپ افغانستان کے حوالے سے کئی اجلاسوںیں شرکت کرتے ہیں اور ہمسائے خاموش رہتے ہیں، لیکن یہاں آپ انہیں آگے آگے دیکھتے ہیں اور یہی اس سب کا مقصد تھا" ، ایک دوسرے سفارت کار نے کہا۔۔۔۔چینی پہلی بار بہت جامع اور تعمیری کردار ادا کررہے تھے، آپ خطے میں بڑھے ہوئے چینی کردار کو دیکھ سکتے تھے اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ بول رہے تھے"
(http://in.reuters.com/article/idiNindia-60281020111102)
لہٰذا خلاصہ یہ ہے کہ:مئی 2011 میں امریکہ اور چین کے درمیان اسٹریٹیجک بات چیت ہوئی۔ جون 2011 میں اوباما نے افغانستان سے افواج کے انخلاء کا اعلان کیا۔ جولائی 2011 میں ہلری کلنٹن نے چنئی، بھارت میں سلک روٹ (شاہراہ ریشم)کی تجویز پیش کی۔ ستمبر 2011 میں امریکہ نے نیویارک میں نئی سلک روٹ وزارتی اجلاس بلایا اور چین نے اس کے حوالے سے گرم جوشی کا اظہار کیا۔ نومبر 2011 میں ترکی نے "ہارٹ آف ایشیا کانفرنس" منعقد کی۔
خطے میں چین نے وسیع کردار ادا کرنے کی حامی بھر لی۔ لیکن امریکہ کا منصوبہ اس کہیں زیادہ وسیع تھا۔ ہلری نے چنئی، بھارت میں جس نئے سلک روٹ کی تجویز پیش کی تھی وہ چین کے لیے ایک دانہ تھا۔ امریکہ کسی صورت معاشی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ اس منصوبے کو وسائل فراہم کرسکے لیکن چین اس پوزیشن میں تھا اور انہوں نے یہ دانہ چُگ لیا۔ چینی وزارت خارجہ میں یورپی امور کے دفتر کے ڈپٹی ڈائریکٹرShen Weizhong کے مطابق :"جب امریکہ نے اس کی شروعات کیں تو ہم سخت پریشان ہو گئے۔ ہم نے کئی راتیں جاگتے گزاریں۔ دو سال بعد صدرXi نے ہماری نئی شاہراہ ریشم کا ایک اسٹریٹجک تصور پیش کیا"
(“One Road for Many itineraries” panel, at Bucharest Forum 2014, held at the Palace of Parliament on October 2 - 4)۔
چینیوں نے کہا کہ نئی شاہراہ ریشم کا نام چین کا ہے اور "تاریخی تجارتی راہیں" امریکی تجویز کے لیے بہتر نام ہے۔ 2013 میں چینی رہنماوں نے نئی شاہراہ ریشم کا خود سے خاکہ پیش کیا: ایک خطہ ایک سڑک منصوبہ(ون بیلٹ ون روڈ) دو حصوں پر مشتمل ہے، زمینی معاشی شاہراہ ریشم اور سمندری شاہراہ ریشم۔ چینی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں حصے مل کر خطے کی جیو اسٹریٹیجک اور جیو ایکنامک شکل تبدیل کردیں گے۔ چینی وزیر اعظم Li Keqiang نے 22 سے 23 مئی 2013 کے دورہ پاکستان کے دوران چین پاکستان معاشی راہداری (سی پیک) کی تجویز پیش کی جو چین کے نیم خودمختار ایغورصوبےمیں کاشغر شہرکو پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع بندرگاہ گوادر سے ملا دے گا۔ یہ دورہ بھارت کے دورے کے فوراً بعد ہوا جس میں چین اور بھارت نے اس پر اتفاق کیا کہ بنگلادیش-چین-بھارت-میانمار کے امکان پر غور کیا جائے۔
لیکن یہ چیز طالبان کے ساتھ بات چیت میں چین کی شرکت کا بعث بن گئی۔ جون 2013 میں انڈریو سمال کے جانب سے شائع کیے جانے والے مضمون میں یہ کہا گیا:"۔۔۔بیجنگ نے خاموشی سے کوئٹہ شوری ، پاکستان میں موجود طالبان کی قیادت کی کونسل، کے ساتھ تعلق برقرار رکھا۔ ایک سابق چینی اہلکار نے دعوی کیا کہ پاکستان کے بعد صرف چین ہی وہ ملک ہے جس نے یہ رابطہ برقرار رکھا ہے۔ پچھلے 18 ماہ میں تواتر کے ساتھ آنا جانا رہا ہے اور امریکہ کے ساتھ ملاقاتوں میں چین نے اس کا اقرار بھی کیا ہے۔ اسی ذرائع نے یہ بھی کہا کہ طالبان نمائندوں نے چینی اہلکاروں کے ساتھ پاکستان اور چین میں ملاقاتیں کیں ہیں"(http://foreignpolicy.com/2013/06/21/why-is-china-talking-to-the-taliban/)۔
تو طالبان کے ساتھ تعلقات پہلے ہی شروع ہو گئے تھے اور جس کا مظاہرہ مشہور مری ملاقات میں ہوا تھا جو ملا عمر کے انتقال کی خبر کی تصدیق کے ساتھ ختم ہوگئی تھی۔ لہٰذا چین کے طالبان کے ساتھ تعلقات بھی پاکستان کی فوجی قیادت نے قائم کروائے اور ان کا یہ کرنا امریکی ضرورت کے مطابق تھا تا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔ یہ وضاحت موجودہ جیو پولیٹیکل صورتحال کو واضح کردیتی ہے۔ اب جب پاکستان کی فوجی قیادت چین کے ساتھ ایک نئے اسٹریٹیجک تعلق کی بات کرتی ہے ، تو لازم ہے کہ اِن کے اخلاص پر سوال کیا جائے۔ موجودہ سیاسی صورتحال کوامریکہ چلا رہا ہے۔ تو امریکہ سے ہٹ کر نئی سمت کہاں ہے؟
سی پیک کو پاکستان کے ایک نئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ شروعات میں چین پاکستان کو مالیاتی حمایت فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ جب زرداری حکومت نے 2008 کے معاشی بحران کے دوران چین سے کئی ارب ڈالر کے آسان قرضوں کی فراہمی کے بات کی ، تو اسے سخت انکار کی صورت میں جواب ملاتھا۔(http://www.nytimes.com/2008/10/19/world/asia/19zardari.html)۔
ڈان اخبار کے خرم حسین نے سی پیک کے معاشی پہلووں پر اچھی روشنی ڈالی ہے: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان سی پیک کی تکمیل کے بعد کچھ زیادہ حاصل نہیں کرسکے گا کیونکہ مغربی چینی صوبوں کی معیشتیں چھوٹی ہیں
(https://www.dawn.com/news/1299683)،
اور سی پیک پر کام چینی کمپنیاں کررہی ہیں جن میں سیمنٹ کے علاوہ مقامی کردار بہت کم ہے؛ اس کے علاوہ 46 ارب ڈالر کا قرضہ بھی تقریباً کمرشل شرح سود پر ملا ہے، بین الاقوامی ایجنسیوں جیسا کہ عالمی بینک سے ملنے والے کم شرح سود 1 سے 2فیصد سے زیادہ ہے
(https://www.dawn.com/news/1302328/cpec-cost-build-up)۔
اس کا مطلب ہے کہ پچھلے قرضے اتارنے کے لیے چین کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سرمائے پر ہمارا انحصار مزید بڑھ گیا ہے
(http://www.dawn.com/news/1306493/birth-of-another-dependency)،
اس کے علاوہ اس منصوبے کی سیکیورٹی لاگت بھی ہے
(http://www.dawn.com/news/1286698/hidden-costs-of-cpec))۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جون میں کہا کہ بڑی سرمایہ کاری جیسا کہ سی پیک پر دوبارہ ادائگیوں اور منافع کو باہر بھجوانے کی وجہ سے پاکستان کے درمیانی اور طویل مدتی خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کہ ملک کی بیرونی ذرائع کو پیسے بھجوانے کی ضرورت2018/2019 تک 15.1ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے جو اس مالیاتی سال 11.4ارب ڈالر ہے
(http://in.mobile.reuters.com/article/idINKBN13I1XE)۔
لیکن یہ باتیں اصل بحث یعنی چین کے ساتھ جڑنے کے حوالے سے فروعی ہیں۔ سی پیک کے معاہدے کا زیادہ دلچسپ حصہ یہ ہے کہ اس کا 24فیصد انفراسٹرکچر کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ جیو پولیٹیکل نقطہ نظر سے کیا یہ وہ بات نہیں جو ہلری کلنٹن نے چنئی، بھارت میں نئی شاہراہ ریشم کے حوالے سے اپنی تقریر میں بیان کیا تھا؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ چین کو بحیرہ عرب تک رسائی فراہم کر کے پاکستان کی فوجی قیادت نے چین سے کیا فوائد سمیٹے ہیں؟ چین کی اشیا ء کا کارواں کا گوادر پہنچنے کا چشن منانے میں پاکستان کو کیا اسٹریٹیجک فوائد حاصل ہوئے ہیں؟ معاشی فوائد آنے والے وقت میں ملیں گے لہٰذا ان کے ملنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ تو ان تعلقات کے نتیجے میں پاکستان کے کن مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے؟
چینی اشیاء کا کاشغر سے بحیرہ عرب تک پہنچنے میں جو یقینی فائدہ ہے وہ وقت اور لاگت کی بچت ہے، لیکن ہمارے لیے اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے پاکستان نے امریکہ کے مدار سے نکل کر ایک اسٹریٹیجک تبدیلی کی ہے؟ کیا چین کو ایک مختصر اور تیز فتار راستہ ملنا امریکہ کے لیے ایک منفی عمل ہے؟ بلکہ اس انفراسٹرکچر کے بننے کے بعد توانائی کے وسائل مغربی سرحد سے مشرقی سرحد کی جانب آسانی سے منتقل ہوسکیں گے جس کا اصل فائدہ بھارت کو حاصل ہوگا۔ تو پھر امریکہ کو اس منصوبے سے کیا تکلیف ہوگی؟ غور سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ چینی سرمایہ کاری امریکی منصوبے کا حصہ ہے۔ تو کیا سی پیک اس سے کوئی مختلف چیز ہے؟
پاکستان کی فوجی قیادت نے پہلے ہی یہ بات اٹھائی تھی کہ سی پیک کی تکمیل اور چین کے ساتھ جڑنے کے عمل میں بھارت رکاوٹ بن سکتا ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ موجودہ جیو پولیٹیکل صورتحال کا زیادہ فائدہ بھارت کو حاصل ہوگا ۔ وہ سی پیک کے گلگت بلتستان سے گزرنے پر بہت مطمئن ہے۔ اگر سی پیک مکمل ہوجاتا ہے تو پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو گلگت بلتستان کو ایک صوبہ قرار دینا ہوگا جس کے نتیجے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے حق کا دعویٰ بے کار ہوجائے گا اور لائن آف کنٹرول عملاً ایک سرحد بن جائے گی۔ صرف ایک مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی حقیقی فوجی تنازع پیدا ہوجائے تو پاکستان کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی طور پر اجاگر کرنے کے لیے چین کو استعمال کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی امور پر ایک ساتھ بات چیت کے دروازے کھل سکتے ہیں جس سے بھارت نفرت کرتا ہے اور اُس موقع کو چین بھارت کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔ اسی تناظر میں بھارت جہادی اڈوں کے خاتمے کا راگ مسلسل الاپ رہا ہے جیسے امریکہ "اور کرو"(ڈومور) کا راگ الاپتا رہتا ہے۔
لہٰذا بھارت کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے سے خوف کھاتا ہے نہ کہ سی پیک سے۔
ہم نے اس مضمون کے شروع میں وقت کے انتخاب کی جانب توجہ مبزول کروائی تھی، تو اس وقت ہی کیوں چین کے ساتھ جڑا جارہا ہے؟ جیو اسٹریٹیجک لحاظ سے ، 9/11 سے قبل پاکستان افغانستان میں بالادست قوت تھا اورجہاد کشمیر کے ذریعے بھارت کی صلاحیتوں کو موثر طور پر محدود کرنے کے قابل تھا۔ امریکہ کا منصوبہ اس صورتحال کو افغانستان میں پاکستان کے اثرو رسوخ اور کشمیر کے جہاد کو ختم کر کے الٹا کردینا تھا تا کہ بھارت معاشی، سیاسی اور سفارتی لحاظ سے چین کی جانب پوری توجہ سے متوجہ ہو سکے اور پاکستان کی فوج کو زبردستی کے پیدا کردہ اندرونی خطرات سے لڑنے پر لگا دیا جائے ۔ آج جو صورتحال ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان افواج ضرب عضب کے ذریعے افغان طالبان کو امریکی افواج پر حملے کرنے سے روک رہی ہیں۔ فوج کی گرین بک میں ترمیم کر کے اندرونی خطرے کو بھارتی خطرے کے برابر قرار دے دیا گیا ہے۔ پنجاب میں آپریشنز کر کے کشمیر کے جہاد کے تابوت میں آخری کیل ڈالی جارہی ہے۔
سی پیک ایک مقدس شے بن جائے گی جس پر ہر شے کو قربان کردیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے جنوبی کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کہا،"۔۔۔بھارت کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے اور پاکستان مخالف اور تخریبی کارروائیاں ختم کر کے مستقبل کے ترقیاتی ثمرات میں سے حصہ وصول کرے"
(https://tribune.com.pk/story/1269691/olive-branch-lt-gen-aamir-invites-india-join-cpec/)۔
اور اب جب پنجاب میں آپریشن بھرپور طریقے سے جاری ہے جو کہ ایک آڑ ہے جہادیوں کو گرفتار کرنے اور جہادی کارروائیاں رکنے کے لیے تا کہ ہندو قوم پرست بی جے پی اندرون ملک رائے عامہ کو جیت سکے۔ تو کیا مسلم مخالف اور امریکی حمایت یافتہ بی جے پی کو مضبوط کرنا حقیقی ہدف ہے؟
اندرونی سیاسی اور معاشی مجبوریوں نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ خطے میں چین کو آگے لائے۔ امریکہ کی فوجی طاقت بہادر افغان طالبان مجاہدین کو جھکانے میں ناکام رہی ہے۔ کیا ہماری فوجی قیادت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ امریکہ تنزلی کا شکار ہے اور معاملات کو کمزوری سے دیکھ رہا ہے؟ امریکہ نے طالبان اور قبائلی علاقوں سے درپیش خطرات چین کو ڈرانے کے لیے استعمال کیے تا کہ وہ افغانستان میں وسیع سیاسی کردار ادا کرنے پر تیار ہوسکے۔ تو ہماری فوجی قیادت میں یہ سیاسی آگاہی نہیں ہے کہ وہ اس امریکی مقصد کو جان سکے اور نہ ہی سیاسی چالاکی کہ چین کے ساتھ جڑ کر امریکی موجودگی کی مخالفت کی جائے؟
خطے میں امریکہ و چین کے درمیان مخاصمت موجود ہے اور وہ اپنی شدت اور وسعت میں بڑھ رہی ہے۔ امریکہ صدر کی حیثیت سے چین کے اپنے آخری دورے میں، صدر اوباما نے خود کو ایک ایسی صورتحال میں پایا جہاں اسے مجبور ہو کر طیارے کی پچھلی ہنگاہی سیڑھی اترنے کے لیے استعمال کرنی پڑی جب وہ چین کے صوبےGuangzhou میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچے۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ آگ لگ گئی تھی یا کوئی تکنیکی مسئلہ تھا بلکہ چینی حکام نے طیارے کے سامنے سے نکلنے کے لیے سیڑھی فراہم نہیں کی تھی۔ مشاہدہ کرنے والے سمجھتے ہیں کہ چین نے جان بوجھ کر امریکی صدر کی بے عزتی کی اور یہ واقع دونوں ممالک کے درمیان موجود اختلافات کو واضح کرتا ہے۔ ان اختلافات میں امریکہ کی جانب سے جنوبی کوریا میں میزائل شیلڈ کی تنصیب کا اعلان، جنوب چینی بحر میں چین اور فلپائن کے درمیان تنازع پر امریکی موقف اور چین کی اسٹیل مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی شامل ہیں۔
مشرف میں اخلاص اور بصارت کی کمی تھی جس کے باعث اس نے کارگل آپریشن کیا جبکہ وہ جانتا تھا کہ اب امریکہ بی جے پی اور بھارت کے ساتھ ہے تا کہ کارگل میں پاکستان کی شکست کو استعمال کر کے بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکے ۔ کیا نی میں اخلاص اور بصارت کی کمی اس قدر تھی کہ عوامی بیانات میں امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کرتا تھا جبکہ نجی طور پر ان حملوں میں اضافے کی حمایت کرتا تھا۔ اس نے اوباما کی قبائلی علاقوں کے حوالے سے پالیسی کو نافذ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے آئی ایس آئی چیف احمد شجاع باجوع نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے کام کیا۔ جہاں تک راحیل شریف کا تعلق ہے جس کی نگاہوں کے سامنے پشاور آرمی پبلک اسکول پر وحشیانہ اور شرمناک حملہ ہوا، تو اس نے ایک کُل جماعتی کانفرنس بلائی، آئین میں تبدیلی کرائی، فوجی عدالتیں بنوائیں اور اس سانح کو اچھے اور برے طالبان میں فرق کرنے کی پالیسی کو ختم کرکے تمام طالبان کو برا قرار دینے کے لیے استعمال کیا تا کہ افغان طالبان کو امن مذاکرات میں شمولیت پر مجبور کیا جائے اور یہ سب کچھ امریکی پالیسی کے مطابق تھا۔ اگست 2015 میں قصور میں معصوم بچوں سے زیادتی کا واقع سامنے آیا لیکن راحیل شریف نے اس کے مجرموں کو سزا دلوانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور جس پر بعد میں پردہ ڈال دیا گیا۔ راحیل شریف نے اس واقع پر کوئی کردار اس لیے ادا نہیں کیا کیونکہ اس سانحے کو خطے میں امریکی مفادات کو آگےبڑھانے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پشاور آرمی پبلک اسکول اور قصور کے بچوں میں کوئی فرق نہیں لیکن ان میں سے ایک سانحہ امریکی پالیسی کو استعمال کرنے کے لیے استعمال ہوسکتا تھا اور کیا گیا۔ اور دہشت گرد حملوں کے حوالےسے اس امتیازی رویے کو دیکھا جاسکتا ہے کہ انہیں فوجی آپریشنز کرنے کے لیے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا تا کہ امریکی اسٹریٹیجک اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
صرف اسلام کی قیادت ہی ہمیں نہ صرف علاقائی طاقت بلکہ عالمی طاقت میں تبدیل کرسکتی ہے۔ امریکہ یا چین کے ساتھ جڑنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان ایک اہم اسٹریٹیجک مقام پر واقع ہے، اس کے پاس ایک پیشہ ور فوج ہے، ایٹمی ہتھیار ہیں اور اتنے وسیع وسائل ہیں کہ وہ خود کو ایک عالمی طاقت کے طور پر پیش کرسکے جو عالمی امور کو تبدیل کرسکتی ہے اور اس طرح دنیا کی صف اول کی ریاست بن سکتی ہے۔ اسے صرف ایک مخلص اسلامی قیادت کی ضرورت ہے کیونکہ صرف اسلام کے ذریعے ہی صاحب بصیرت قیادت آگے آتی ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو ایک جاہل، بت پرست، بچیوں کو زندہ دفنانے والےفرد کو تبدیل کرکے ایک متحرک نظریاتی فرد میں تبدیل کر دیتا ہے جو اسلام کی دعوت کے ذریعے عالمی طاقتوں کو تہہ و بالا کردیتا ہے۔ آنے والی خلافت، جو دین حق اور خارجی اور جارح ریاستوں سے متعلق اسلام کے احکام سے مسلح ہوگی اور جس کی پشت پر اس کے اُن آباؤ اجداد کا ورثہ ہو گا جن سے موجودہ عالمی طاقتیں خوف کھاتی تھی، جلد ہی امت کو اپنے گرد جمع کرکے پوری دنیا پر اسلام کی بالادستی کے لیے چل پڑے گی اور سلام کے لیے ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل کرے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾
"اور وہی ہے جس نے اپنی رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکین کو ناگوار گزرے"(التوبۃ:33)۔
حزب التحریر کےمرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
خالد صلاح الدین - پاکستان