بسم الله الرحمن الرحيم
عربی زبان کوہدف بنانا اسلامی عقیدہ پر حملہ ہے
1. عربی زبان پر جان بوجھ کر یہ شیطانی حملہ کیوں؟
عربی قرآن کی زبان ہے، یہ سب سے بہتر شریعت (قانون) ہےجو کہ اللہ رحمن و رحیم کی طرف سے نازل کردہ ہے۔یہ دین ِ اسلام کی زبان ہے اور تمام انسانیت کےلیے مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلی ہوئی ایک خوشخبری ہے ۔ یہ وہ زبان ہے جس نے قرآن کے استعار ے ، اس کی بلاغت اور فصاحت کو بیان کیا ،جس سے اس کا معجزہ ظاہر ہوا اور یوں اس زبان نے اس کے ماہر لوگوں کو عاجز کردیا کہ وہ قرآن جیسا کچھ لا سکیں ۔
﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾
"کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے، آپ فرما د یجئے : پھر تم اس کی مثل کوئی (ایک) سورت لے آؤ (اور اپنی مدد کے لئے) اللہ کے سوا جنہیں تم بلاسکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو"(سورۃ یونس :38)
مسلمانوں نے عربی زبان کی اعلیٰ حیثیت اور اس کےمتبرک ہونے کی وجہ سے اس کا بہت خیال رکھا ؛ وہ لوگ اس کو اپنے دین کے قوانین کو سمجھنے کے لیے اور اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کے اقوال کو سمجھنے میں تمام مشکلات کو دور کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور اس کی یہی بلند حیثیت اور دین ِاسلام کو سمجھنے میں اس کی اہمیت کی وجہ سے، یہ دشمنوں کے تیروں سے بچ نہیں سکی جو مسلسل اس پر حملے اور اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ لوگ اس کی سمجھ بوجھ سے محروم ہوجائیں ، اور اس کو مشکل ، پرانا اور ناپسندیدہ سمجھنے لگیں۔
مغرب نے ہمیشہ عربوں کو مسلمانوں میں شمار کیا ہے،اور یہ کہ اسلام مغربی تہذیب کے لئے ایک حقیقی خطرہ ہے اور اس کی واپسی ان کے اختتام کا اشارہ ہے۔ لہٰذا، وہ کام کرتے ہیں اور ابھی بھی کسی بھی طریقے سے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کام کررہے ہیں جس میں عربی زبان پر حملے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سب سے بہترین اور مؤثر ذرائع میں سے ایک ہے۔ سیموئیل ہنٹنگٹن(Samuel Huntington) نے کہا،"جب تک' اسلام' اسلام رہتا ہے اور اس کے بارے میں ذرا بھی شک نہیں ہے ،اور جب تک 'مغرب' مغرب رہتا ہے، ان کے درمیان یہ چودہ صدیوں سےجو تنازعہ چل رہا ہے، چلتا رہے گا اور کوئی بھی مغرب کےمشرق بن جانے کی امید نہیں رکھتا ہے "۔
زندگی کے معاملات سے اسلام کو خارج کرنے کے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لئے، مغرب عربی زبان (اسلام کے قوانین کو سمجھنے کا ذریعہ) کو تباہ کرنے کا کام کررہا ہے اورعلاقائی و مختلف لہجوں پر مبنی روز مرہ بول چال کی ترقی و نفاذ کا مطالبہ کررہا ہے جس کے لیے ولیم اسپیٹا ( Wilhelm Spita) اور ڈفرن ( Dufferin) جیسے مستشرقین (اورینٹالسٹس) اور دوسروں کی خدمات حاصل کی گئیں ،تاکہ عربی زبان کو ترک اور اس کی جگہ علاقائی لہجوں پر مبنی روز مرہ بول چال کو ترقی اور ا ِس کا نفاذ کرسکیں۔
ریاست خلافت میں جب مسلمان ایک خلیفہ کے کمان میں تھے تو عربی زبان ریاست کی سرکاری زبان تھی،دوسرےممالک کے ساتھ ریاست خلافت کےمعاہدےاور معاملات عربی زبان میں ہوتے تھے۔عربی زبان کا اعلیٰ مقام ریاست خلافت کی طرح اعلیٰ تھا جو کہ اس کی حفاظت کر رہی تھی۔مگر خلافت کے انہدام کے بعد ،اور دشمنوں کے ہاتھوں اس کے کنٹرول،اور اِس کی تقسیم،یہاں تک کے قابض استعمار کا شکاریوں کی طرح سے خلافت پر قابو پانے کی وجہ سے۔۔۔ یہ عربی زبان کمزور پڑ گئی۔استعمار نے اسلامی نظریے کو سمجھنے کے لئے اس زبان کو بہترین آلے کے طور استعمال کرتےہوئےاس سے استفادہ کیا اورپھر اس کو کنارے پر لگانے اور مسترد کرنے پر کام کیا۔ اس کے برعکس،استعمار نے اپنی زبانوں کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں سرکاری زبانوں کے طور پر نافذکیا اور یوں بعد میں آنے والی نسلیں اس طرح پروان چڑھیں کہ اُن کا اپنی زبان سے کوئی تعلق ہی نہ رہا اور وہ اپنے دین کی زبان سے نابلد ہوگئے۔ استعمار نے اپنی زبانوں کو بَزورِ طاقت نافذ کیا یہاں تک کہ آنے والی نسلیں ان زبانوں سے بےتحاشہ متاثر ہوگئیں اور پھر ان زبانوں کو اس طرح اعلیٰ دکھانے کی کوشش کی گئ کہ جو افراد ان میں قابلیت رکھتے انہیں عصرحاضر کے دانشور اور ترقی یافتہ افراد کے طور پر دیکھایا جاتا ۔استعماریوں نے عربی زبان کو قید کرنے، اس سے جڑی امت کی عظمت اور فتح کو دفن کرنے کی زبردست کو شش کی اور اسے مسلمانوں کے ذہنوں سے مٹانے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے امت کی امیدوں اور خوابوں کو دنیا کی زندگی کے متعلق اپنے نقطہ نظر میں قید کرلیا اور ایسی نسلیں پیدا کیں جو ان سے جڑی ہوئی تھیں، جنہوں نے ان کے قوانین نافذ کیے، ان کے تصورات کی پیروی کی اور اپنی شخصیت کو ان کے تصورات کے مطابق ڈھال لیا۔ اور اس طرح انہوں نے مغرب کی ہر طرح سے پیروی کی۔
2- عربی زبان کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی شناخت کو ختم کرنے کا عمل
کسی چیز کی شناخت کی تعریف اس چیز کی حقیقت کا نچوڑ ہوتا ہے ۔ جب ہم کسی قوم کی شناخت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب اس قوم کی صلاحیتیں ہوتی ہیں جو اُس کے اعلیٰ وصف کی وجہ سے اُسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ لہٰذا شناخت کا معاملہ کسی بھی قوم کی بقاء کو یقینی بنانے اور اس کے وجودکو برقرار رکھنے کے لئے ایک بنیادی اور مرکزی معاملہ ہے،اور اس کے بغیر کوئی بھی قوم ہو، وہ کمزور معمولی، اور دوسروں کی ماتحت بن جاتی ہے ۔ اِسی لیے جب مغرب نے ریاست خلافت کو ختم کیا ،تو اس کے بعد ہی امت کی شناخت تباہ کرنے کے لیے براہ راست اس کو نشانہ بنایا ،تاکہ وہ اس کی ثقافت کو ختم کرنے اور زندگی سے اس کو خارج کرنے کے قابل ہو جائیں،اور جب امت اپنی شناخت کھودے تو وہ اپنے سرمایہ دارانہ نظریے کو ان پر تھوپ سکیں اور مسلمانوں کو اس میں غرق کردیں۔
پہلے تو ،انہوں نے اپنی سوچ کے تیروں کا نشانہ اسلامی عقیدے کو بنایا تا کہ اسے عدم استحکام سے دوچار کردیں کیونکہ اسلام زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں نقطہ نظر فراہم کرتا ہے،اور انسانوں کو زندگی کا ایک واضح نقطہ نظر دیتا ہے،اور مسلمان اسلام کی فراہم کی ہوئی اس روشنی کی پیروی کرتے ہیں،اور ان کے تمام تصورات اور ان کا طرز عمل اسلام کے ہی مطابق ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ، وہ اسلام کے ان تصورات کو بیان کرنے کےاہم ذریعے یعنی عربی زبان کو ختم کرنے میں مصروف رہے اور اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا تا کہ اسے اپنی زبان سے بدل دیں۔ اور تیسرا یہ کہ،انہوں نے امت کی اعلیٰ تاریخ پر سوالات اٹھا دیے اور اس کو مشکوک بناکر پیش کیا اور اپنی تہذیب وتمدن کی تاریخ زبردستی مسلط کردی۔
انہوں نے ان پہلوؤں کو نشانہ بنایا اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اسلامی امت کی شناخت کو مشکوک بناکر پیش کیا ، اور اس کی شان و شوکت اور خوشحال زندگی کومنہدم کرنےمیں کامیاب ہو گئے۔ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن (Richard Nixon)نے اپنی کتاب "سیز دا مومنٹ" (Seize the Moment ) ،میں کہا ہے،"ہم ایک جوہری(nuclear) حملے سے نہیں ڈرتے،لیکن ہم اسلام سے ڈرتے ہیں اور اس کی نظریاتی جنگ سے جو مغرب کی شناخت کو تباہ کر سکتی ہے"۔مغرب کو یہ احساس ہو گیا کہ مسلمان اپنی شان و شوکت اور فتح کو بحال کرنے کے قابل ہیں،اگروہ اپنی کھوئی اور چھینی ہوئی شناخت واپس حاصل کر لیں۔۔۔ اگر وہ زندگی کو صحیح نقطہ نظر سے دیکھنے لگیں جو کہ انہیں اپنی سوچ میں بلند کردے گی، جس سے وہ دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے اور بنی نوع انسان کے لئے لائی گئی ایک بہترین امت کی طرف لوٹ آ ئیں گے ، اور اس طرح وہ اپنے پروردگار کی عطا ء کی ہوئی روشنی اور اس کے پیغمبر کی ہدایت کے ساتھ دنیا کو سیدھے راستے پہ چلا ئیں گے۔مگرمغرب نے امت کی شناخت کوتباہ و برباد کرنے کے لئے ہمارے ساتھی مسلمانوں میں سے ہی کچھ کو اپنے گھٹیا منصوبے کوانجام دینے کے کام پر لگایا تاکہ امت کی شناخت کو بگاڑ ا جاسکے۔ ایسے ہی لوگوں کوشیخ جاد الحق علی جاد ؒ ، جو کہ مسجد الازہر کے سابق شیخ ہیں ،نےغدار اور مجرم قرار دیا ، اور فرمایا"امت اسلامیہ کی ایک اور شناخت کی تلاش غداری، اورنہایت سنگین جرم ہے"۔
اس فہرست میں سب سے اوپر مصطفی کمال ہے ، یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے خلافت اور شرعی عدالتوں کا خاتمے کیا اور عربی حروف تہجی کی جگہ لاطینی حروف تہجی کے استعمال کو جبری نافذ کیا۔ا ُس کےان جرائم کےپیچھے ریاست خلافت کی شناخت مٹانا اور امت کے دشمنوں کو با اختیار و طاقتور بنانے کا مقصد کارفرما تھا ،تا کہ امتِ اسلامیہ کوشکست دینا ، اسے کمزور کرنا اور اس کے الگ اور منفرد اسلامی تشخص کو مٹانا آسان ہوجائے ،اور اسی راستےکی پیروی طحہ حسین نے بھی کی، جوکہ مغربیت پھلانے والے ادارے کا سربراہ تھا ۔انہوں نے زندگی کے ہرشعبے اورمعاملے میں مغرب کی پیروی کا درس دیا ،چاہے یہ اسلام سے متصادم ہی کیوں نہ ہو،اورکہا :" اگردین اسلام ہم اور ہماری فرعونیت کے درمیان ایک رکاوٹ کے طور پر کھڑا ہوتا ہے تو ہم اس کو رد کردیں گے"۔ اس طرح کی اندھی پیروی اپنے پیروکاروں کو نچلے ترین درجےتک گرا دیتی ہے۔یہ مغرب کو خوش کرنے اور غیر متعلق تصورات کو مضبوط بنانے کی ایک دوڑ ہے تاکہ امت کی اسلامی شناخت مٹ جائے ، تفرقہ،قوم پرستی بڑھے اور امت کو مضبوط بنانےوالا تعلق ختم ہو اور اتحاد پارہ پارہ ہوسکے۔۔۔ یہ امت ،اس کی فلاح و بہبود ،اس کی قیادت اور اس کی خودمختاری کےلئے ناقابل قبول ہے کہ کچھ لوگ دشمنی کی وجہ سے اسلام سے نکلی ہوئی ہر شناخت کے خلاف اپنی آواز اوٹھائیں ۔لہٰذا،احمد لطفی السید کو آئین کی ایک شق میں اسلام کو سرکاری مذہب مقرر ہونے کو " دھمکی آمیز متن" کے طور پر بیان کرتے ہوئے شرم نہیں آئی ۔یہاں ایسےبہت سےلوگ ہیں جنہوں نے اسلامی شناخت مٹانے کے لیے مغرب کی خدمت کی اور اسلامی ریاست کے خاتمے کے لیے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا تاکہ بدلے میں انہیں کوئی خطاب یا پھر مٹھی بھر پیسے مل جائیں۔
اگر ایسےلوگوں نے کام کیا ہے ،اور اب بھی کر رہے ہیں کہ امت کا شیرازہ بکھر جائے اور اس کے دشمن مضبوط ہوں تاکہ مسلم امت کمزور ہوجائے،اپنی شناخت کھودے،مغربیت، سیکولرئزیشن کی لہروں کا شکار ہوجائے اورسرمایہ دارانہ نظام کے بوسیدہ تصورات میں ڈوب جائے تو پھر امت کےمخلص بیٹے اور وہ لوگ بھی بہت سے ہیں جو امت اور اس کی شناخت کے دفاع کے لئے کام کررہے ہیں،اور اپنےاو پر پھینکے گئےتیروں کو واپس لوٹانےاور اپنی شناخت کےاحیا ءکی کوشش،اور اس کا دفاع کرنے میں لگے ہوئے ہیں؛اور اس فہرست میں سب سے اوپر تھے،ابن تیمیہ،ارفعی ،محمود شاکر اور بہت سے دوسرےبھی۔
آج مسلمان ایک شش و پنج کی زندگی جی رہے ہیں کہ کیا ہونا چاہئے اور یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔لہٰذا،انہیں اپنی زندگی اُن قوانین کے مطابق بسر کرنی چاہیے جو کہ اسلامی عقیدے سے نکلتے ہوں تاکہ وہ آرام دہ ،پرسکون اور ایک متوازن زندگی گزاریں اور اپنی اسلامی شناخت پر خوشی محسوس کرسکیں۔۔۔ لیکن چونکہ ان کی شناخت تباہ کردی گئی ہےاور ایسی شناختوں سے بدل دی گئی ہے جو کہ ان کے اپنے عقیدے سے بہت دور ہیں، لہٰذایہ ایک قابل نفرت اور تکلیف دہ بیگانگی بن جائی گی۔
کسی بھی معاشرے کی شناخت اُس کے ارکان کے لئے ایک قلعہ کی مانند ہوتی ہےجو کے اُنہیں پناہ دیتی ہے اور ان کی حفاظت کرتی ہے ،اور عدم استحکام اور نقصان سے بچنے کے لئے ان کی مدد کرتی ہے اور اور ان کو تحفظ اور فخر کا احساس دلاتی ہے اور ان میں اعتماد اور طاقت بھرتی ہے۔اگرتشخص کھوجائے تو،معاشرے کھو جاتا ہےاور تنازعات اور تضادات سے بھر جاتا ہیں اور ہم آہنگی اور آپس کےتعلق سے مبرا ہو جاتا ہے۔اگرمعاشرہ اپنے تشخص کی حفاظت نہ کرے تووہ ختم ہو کے دوسری شناختوں میں ضم ہوجائیں گی اور اس کی خصوصیات اور فوائد ختم ہو جائیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰنے ارشاد فرمایا :
﴿ وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّاراً حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ ﴾
"بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بیشک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے"(سورة البقرة: 109)
وہ رات اور دن مسلمانوں کی شناخت مٹانے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔
آج ہمیں اپنی امت کے نوجوانوں کی حالت دیکھ کے تکلیف محسوس ہوتی ہے: ان کی اپنی مادری زبان سے ناواقفیت ، یہاں تک کہ وہ کس طرح سےا ُس کو دیکھتے ہیں ،ا ُس کی بے توقیری کرتے ہیں ؛ اور کس طرح وہ دوسری زبانیں سیکھنے کےلئے اُ ن کی طرف دوڑتے ہیں تاکہ ا ُنہیں مہذب سمجھا جائے جو کے تہذیب اور ترقی سےآراستہ ہیں، اور کلاسیک (فصاح) عربی کے استعمال سے شرماتے ہیں کہ ان کا مذاق اڑایا جائے گا! ا ُن کا اعتماد ا ُن کی اپنی زبان پر کمزور اور اپنی شناخت متزلزل ہوچکی ہے ۔اوراس ہی صورتحال کا اندازہ مغرب نے لگایا تھا تاکہ ان مضبوط جذبات کو اپنے حق میں جس طرح چاہیں ڈھال لیں: امت کے نوجوانوں کا اپنی شناخت سے تعلق منقطع ہو گیا ہے ، وہ مغربی تہذیب میں ڈوبے ہوئے ہیں،اس سے مرعوب ہو چکے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ ا ُن کے تصورات کو ترقی دے رہے ہیں۔
مغرب اپنی شناخت ، اور اس کو لاحق ہر قسم کے خطرات سے اس کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے؛ مگر دوسری طرف وہ امت ِ مسلمہ کو ختم کرنے ،اور اس کی انفرادیت کی ایک خصوصیت ، یعنی عربی زبان کو دھندلانے میں مصروف ہے۔ جس سے مسلسل لڑا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی منفرد پہچان کھودے اور رد کی جاسکے کہ یہ ایک پسماندہ زبان ہے جو زمانے اور موجودہ تہذیب اور ترقی کے ساتھ اپنی رفتار برقرار نہیں رکھ سکتی۔مغرب کو یقین ہے کہ اسلام کا خاتمہ صرف عربی زبان کے خاتمے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
3-عربی زبان کےاخراج اور اس کی جگہ علاقائی لہجوں پر مبنی روز مرہ بول چال کے نفاذ کا مطالبہ
اپنی گرفت مضبوط اور اپنے شکارکو پکڑنے کے لئے، مغرب نےاسلامی ریاست- خلافت کے خاتمے اور اسے چھوٹی چھوٹی بکھری ہوئی قومی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے بعد- کلاسیک(فصاح)عربی زبان پر ایک مسلسل جنگ مسلط کردی ہے اورعلاقائی بولیوں پر مبنی روز مرہ بول چال کی حیثیت کو بلند کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ قوم پرستی پروان چڑھے جس سے امت کی وحدت اور تشخص جو ا ُسےمنفرد بناتا ہے ختم کرنے میں آسانی ہو۔اسلامی ریاست کی تقسیم اور سائیکس - پیکوٹSykes) Picot) کی مسلط کی ہوئی سرحدیں ا ُن کے جرائم کا اختتام نہیں تھا ، بلکہ یہ جرائم اس سے بھی آ گے لسانی اور تاریخی تقسیم تک پہنچ گئے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر ملک دوسرے سے الگ تھلگ رہے ، اور امت کی تقسیم برقرار رہے۔
جو کچھ ان دانشوروں نے مغرب اور اس کی تہذیب سے متاثر ہوکر کیاہے وہ انتہائی افسوس کی بات اور ایک شرم ناک داغ ہے جو کہ ان کی پیشانیوں سے مٹ نہیں سکے گا۔ وہ مغرب کو خوش کرنے کےلئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے اپنے ہی تشخص اور عربی زبان کو زخمی کرتے رہے ۔سب سے پہلےعام روز مرہ بول چال کے نفاذ کامطالبہ رافا الطهطاوي نے کیا،ا ُس نے زور دیا کہ،" جو زبان بولی جاتی ہے ا ُسے عام بول چال کہا جاتا ہے،یہ لین دین کو سمجھنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے،یہ قابل قبول ہے ، اس کے اصول آسان ہیں اور عوامی اشیاء اور گھریلو معاملات کی کتابوں میں استعمال ہو سکتی ہیں"۔ رافا الطهطاوي یہ ایسے کہہ رہا تھا کہ جیسے مسلمان بھائیوں اور اورمستشرکین (اورینٹالسٹس) کا اجلاس امت کے اہم اجزاء کو مسلسل نقصان پہنچانے کے لئے ناگزیر ہے ! مادری زبان کو نشانہ بنانے کے لئے اور مقامی روز مرہ بول چال کے استعمال کی حوصلہ افزائی کےعلاوہ مغرب کے وفد نے جو نقصان دہ خدمات فراہمی کیں، وہ یہ کہ مستشرکین (اورینٹالسٹس )نے عام زبان کے استعمال کی بھرپور حمایت کی اور اس کی اشاعت میں ایک اہم کردار ادا کیا،جیسے کہ مصری نیشنل لائبریری کے ڈائریکٹر ولحیم اسپیٹا (Wilhelm Spita)نے کیا، اس نے ایک کتاب ،" مصر میں مقامی زبان کی گرامر" کے نام سے لکھی۔
مغرب نے عربی زبان پر ایک جنگ مسلط کی ہوئی ہے ،اور قوم پرستی اور روز مرہ بول چال کو بہت سے ممالک میں دوبارہ زندہ کیا تاکہ امت کو،اور جو چیز اسے اپنے دین، زبان، زمین،اور تاریخ سے جوڑتی ہے، اسے تباہ کیا جاسکے ۔مراکش اس تباہی میں پیش پیش رہا ؛ وہاں عربی دوسرے درجے کی ، جبکہ سامراج زبان – فرانسیسی پہلے درجے کی زبان بن گئی ۔مراکشی فرانسیسی ورکس کمیٹی کی طرف سے ایک رپورٹ تیار کی گئی جس میں کہا گیا : " ہماری یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ شمالی افریقہ میں مقامی بولیوں اور عام بول چال کی زبانے بحال کر کے عربی زبان کی اہمیت کو کم کریں اور لوگوں کو اس سے دور کریں"۔
استعماری مستشرکین سائنسدانوں نے ا مازغ زبان(Tamazight) کے لہجوں کے قوانین میں بھی کتابیں تصنیف کی تاکہ عربی زبان کوغیر ضروری قوانین سے بوجھل کر دیا جائے ۔ اور اس کی تفصیل Khori Shehadeh نے اپنی تحریروں میں یوں بیان کی ہے ، "جب استعماریوں نے سر زمین الجز ائر میں عربی زبان کو اکھاڑ پھینکنے اوراس کی جگہ فرانسیسی کو نافذ کرنا ناممکن محسوس کیا ، تو دوسرے طریقوں کا سہارا لیا جس میں انھوں نے الجز ائر کے بیٹوں کی بڑی تعدادکو بتایاکہ عربی زبان الجز ائر کی اصل زبان نہیں ہے ،بلکہ الجز ائر کےلوگوں کی اصل زبان ا مازغ ہے جو کہ بربروں کی زبان ہے ۔ اور فرانسیسیوں نےاس کے لئے ایک الگ رسم الخط لکھنے کی پیشکش کی تاکہ ا مازغ زبان لکھی اور پڑھی جا سکے "۔
مستشرکین نے بڑی بد دیانتی اور چلاکی سے اصل مقصد کو چھپاتے ہوئےوضاحتیں دیں اور اپنی بد دیانتی کو اس طرح پیش کیا کے لوگوں کو لگے کہ وہ ا ُن کے لئے اچھا سوچ رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ا ُ ن کی یہ کوششیں امت مسلمہ کی زبان ، اس کے خیالات اور تصورات کے کوزے کے لیےایک مضر زہر ہے، یہاں تک کے وہ چاہتے ہیں کہ اس کوزے کو توڑ دیں تاکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ ختم ہو جائے، اور امت ختم اور غائب ہو جائے ۔ا ُن ہی میں سے ایک نے ہرزہ سرائی کی :" مصریوں کو ایجادات میں جو چیز رکاوٹ ڈالتی ہے، وہ ہے کلاسیکل عربی لکھائی۔۔۔۔ میرا یہ موقف صرف اور صرف انسانیت کی خدمت کی محبت میں اور علم پھیلانے کی خواہش کے لئے ہے !! " موصوف نے اپنے بغض کو چھپانے کے لیے اپنے لیکچر کے آخر میں عربی بول چال میں بیان بازی کے مقابلے کا اعلان کیا ،اور وعدہ کیا کہ جس نے اچھی تقریر کی اسے چار پونڈ انعام دیا جائے گا !
یہ ہے فصح عربی زبان کی صورتحال اس کے دشمنوں کے سامنے، وہ اس کے اثرات اور اس کے وقار کوجانتے ہیں ؛ اسی لئے انہوں نے اس کے ہٹانے اور اس کی جگہ عام عربی بول چال کو نافذ کرنے پر کام کیا ۔جبکہ ہمیشہ کی طرح، ہمارے ہی ساتھی مسلمان –جو کےخود کو تعلیم یافتہ طبقہ کہتے ہیں،وہ مغربی تصورات سےسیراب ہوئے اور اس کے سمندر میں غرق ہو گئے-جیسے کہ سلامہ موسی اور عراقی شاعر جميل صدقي الزهاوي اس زہر کو فروغ دے رہے ہیں اور نعرےلگا تے ہوئے وہ کہہ ر ہے ہیں : "میں نے مسلمانوں کے زوال کی وجوہات کافی عرصہ تلاشی کیں اور میں نے صرف دو وجوہات پائیں : پہلی حجاب، جس کے نقصانات میں نے اپنے پہلے مضمون میں درج کیے ہیں !!! اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان، خاص طور پر عرب جس زبان میں لکھتے ہیں وہ ا ُس سے الگ ہےکہ جس میں وہ بات کرتے ہیں "۔ کچھ نفرت کرنے والے تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے فصح عربی کو مسترد کرنے کا اعلان کردیا اوراس بات پر زور دیا کہ ملک کی عام روز مرہ بول چال کی عربی زبان کو ہی ملک کی واحد زبان ہونا چا ہیئے: " یہ عقل مندی ہوگی اگر عام روز مرہ بول چال کی زبان کے خلاف تمام غلط فیصلےایک طرف رکھ دئیے جائیں ، اور ملک کی واحد زبان کے طور پر اسے قبول کرلیا جائے" (Sildan Welmore, The Local Arabic in Egypt).
فصح عربی زبان کی جگہ روز مرہ بول چال کو نافذ کرنے کی جنگ میں جن اسباب کا استعمال کیا گیا، ا ُن میں اخبارات، رسائل اور کتابوں کا روز مرہ بول چال میں اجراء اور تھیٹر میں کلاسیک عربی کے بجائے عام روز مرہ بول چال کی عربی کا استعمال شامل ہے۔ مستشرکین مل کے روز مرہ بول چال کی زبانوں کےمطالعہ کوپیش کرنے کی طرف دوڑے، جیسا کہ مراکش اور تیونس میں روز مرہ بول چال پر اسٹنکووسکی (Stankovski ) نےمطالعہ پیش کیا ، جبکہ نےلینو (Nallino) نے مصر اور دوسرےعلاقوں کے لئے روز مرہ بول چال پرمطالعہ پیش کیا۔۔۔
قرآن کی زبان کے دشمن صرف روز مرہ بول چال کےنفاذ کے مطالبہ پر ہی خاموش نہیں رہے،بلکہ ا ُنہوں نے اپنی اوقات اور حد سے بڑھ کر یہ مطالبہ بھی کرڈالا کہ عربی حروف تہجی کے بجائے لاطینی حروف تہجی کا استعمال کیا جائے۔ اے امت ِمسلمہ کس شرمناک صورتحال کا آپ شکار ہیں ، کہ آپ کے دشمن آپ کے ساتھ یہ سلوک کررہے ہیں ؟کس ذلت میں آپ گھرے ہوئے ہیں ،اے بنی نوع انسان کے لئے ا ُ تاری گئی بہترین امت ،کیا آپ کی صورت حال اس توہین ، بےعزتی اور ذلت کے درجے تک گر گئی !
4- لاطینی حروف تہجی کا استعمال : عربی زبان پر مسلسل جنگ مسلط ہے
امت کی بحالی چاہنے والوں کی طرف سے مسلسل اور بار بار اس کی وکالت کی جارہی ہے،حالانکہ درحقیقت وہ اس کی کمزوری اور زوال کے لئے کام کر رہے ہیں اور بدنیتی پر مبنی گھٹیا منصوبوں پر عمل کر رہے ہیں۔یہ لوگ عربی زبان کے خلاف کیسی دشمنی رکھتے ہیں کہ اسے لاطینی حروفوں میں لکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں ؟ کیسی نفرت ا ِس ناشکری نسل کی طرف سے کہ وہ اپنی مادری زبان پر ایسے زہریلے تیروں کی بارش کر رہے ہیں ؟
عبدالعزیز فہمی، ان ہی لوگوں میں سے ایک ہے جنہوں نے 1913 میں لاطینی حروف تہجی کے استعمال سےعربی لکھنے کامطالبہ کیا اور ایک کتاب بھی شائع کی، اس کتاب کے ناشر نے کہا :"ترکی میں یہ تجربہ کامیاب رہا ،اور وہ ترکی زبان کو لاطینی حروف میں پڑھتے ہیں ،لیکن خوفناک رائے رکھنے والے اسے توہین آمیز اور غلط راہ قرار دے رہے ہیں "۔اس گھٹیا مطالبے کی انیس فریحہ الخوری نےبھی طرف داری کی جس نے روز مرہ بول چال کےلہجوں کو اپنانےپر زور دیا اور ان کو لاطینی حروف تہجی میں لکھنے کا مطالبہ بھی کیا تاکہ یہ عربوں کی ایک سرکاری زبان بن جائے ، کیونکہ ان کے دعوی کے مطابق - عربی حروف تہجی - روز مرہ بولیاں لکھنے کے لئے موزوں نہیں ہیں۔
قریب اور دور کےدشمن اس زبان کے گرد جمع ہوگئے ہیں، جوصدیوں سے چلی آرہی ہے اور پہلی زبان تھی، اور کیوں نہ ہوتی ،کہ یہ ا ُس طاقتور ریاست کی زبان ہے کہ جس نے دنیا کی قیادت کی۔ یہ اس کے (عربی زبان ) کےخلاف جمع ہوگئے ہیں، ویسے ہی جیسے یہ اسلامی ریاست کے خلاف جمع ہوئے تھےاور اُسے ختم کر دیا اورجس میں امت کے ناشکرے مجرم افراد نے مدد فراہم کی تھی۔وہ پیار، محبت، اور وفاداری دیکھاتے رہے، جبکہ اپنے تیروں اور ہتھیاروں کو پیچھے چھپائے موقع ملتے ہی امت کے جسم ، اس کی شناخت اور زبان پرحملہ کردیتے۔ یہ ایک عظیم بغض اور غداری ہے کہ عربی لینگوج اکیڈمی جسے اس زبان کے تحفظ کے لئے ایک آنکھ کا کام کرنا چاہیئے اور اس زبان پر ہونے والے کسی بھی حملے کے خلاف ایک محافظ ہونا چاہیئے- وہ ہی تین سالوں تک اس تجویز کے مطالعے میں مصروف رہی کہ کس طرح لاطینی حروف میں عربی لکھی جائے تاکہ اکیڈمی کے کچھ ارکان کو مطمئن کیا جاسکے جو کہ اس (عربی زبان) سے نفرت کرتے ہیں ۔ اور یہ اس لئے حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ یہ اکیڈمی 20 ارکان سے قائم کی گئی تھی،جس کے نصف ارکان مصری ہیں (طہٰ حسین، احمد لطفی السید) ۔۔۔ ،جبکہ باقی نصف دوسرے عرب اور اور مستشرکین ہیں۔
اس زبان کے دشمنوں بلکہ اسلام کے دشمنوں کی طرف سے اس طرح کی مسلسل کوششیں اس لئے ہیں کہ لوگوں کا اس زبان پر اعتماد ختم ہو جائے اور مسلمانوں کی زندگیوں سے یہ نکل جائے اور ہمشہ کے لئے غائب ہو جائے ؛ اور یہ کہ اس کی سمجھ ختم ہو جائے اور اس کا استعمال محدود ہو جائے ،جس کی وجہ سےامت جمود اور گراوٹ سے قریب تر ہو جائے بجائے تحریک، ترقی اور خوشحالی کے قریب ہو، اور اسی کی وجہ سے بہت سے لوگ اس زبان کو جدید دور کے تقاضوں کے لئے ناموزوں ۔۔۔۔ ایک پرانی ، ٹوٹی ، فرسودہ اور دھول سےاٹی زباں سمجھتے ہیں ،جوکہ دوسری زبانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
5-کیا قرآن کریم کی زبان انسانی سائنس کے ارتقاء کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں ہے؟!؟!
امت اسلامیہ کے دشمن یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام اور عربی زبان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم صلاحیتوں کا کردار ادا کرتے ہیں،اور یہ دو نو ں امت کی عمارت کے دو اہم ستون ہیں۔ لہٰذا ،انہوں نے ، ان دو صلاحیتوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے پر کام شروع کیا ، اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کا خاتمہ کیا ،اس کی جگہ انسانی قوانین کا نفاذ کیا اور عربی زبان کی جگہ اپنی زبانیں مسلط کردیں۔اس طرح انہوں نے امت کے بیٹوں کو خسارے میں مبتلا کردیا تاکہ ان پر اپنی گرفت مضبوط کرسکیں ،اور جب اور جہاں چاہیں انہیں موڑ سکیں ۔اور یہ کہ ان کے عقیدے اور زبان پر ان کا اعتماد متزلزل کر سکیں، جسےانہوں نے پہلے ہی نا کام اور جدید علوم سے ہم آہنگ ہونے کےلئے ناکافی قرار دے دیا ہے، کیونکہ ان کے دعوی کےمطابق، " عربی ایک قدیم غیر لچکدار زبان ہے، جو آگے بڑھنے کی بجائے ماضی کی طرف دیکھتی رہتی ہے "۔
عربی زبان کو کونے میں کر کے خاص طور پر سائنس ، طب، انجینئرنگ اور تقریباً ہر چیز سے خارج کردیا گیا ہے ،اور الزام یہ لگایا گیا ہے کہ عربی ان علوم کے اظہار کے قابل نہیں ، جس کی وجہ سے نئی نسل نے عربی اور اسلامی شناخت کوچھوڑ دیا اور دوسری قوموں کی زبانوں سے متاثر ہو کر ان زبانوں کے سمندر میں غرق ہو گئے۔ ان نسلوں کے سامنےعربی زبان ایک مردہ زبان بن گئی اور یوں یہ نسل مغرب سے آنے والی ہر چیز سے متاثر ہونے لگی :ان کی ثقافت اور ان کی زبان سے جس نے سائنسی علوم کے اظہار کے قابل ہونے کی برتری کا تاج سجائے اپنے امتیازی ہونے کا اعلان کر کےدنیا کو بہت متاثر کیا ۔
یہ الزام اس زبان پر ایک جھوٹ اور ربہتان ہے کہ جس کے ذخیرہ الفاظ اور انداز ِ بیاں نے عرب سائنسی علوم کو اپنےصحیح اظہار کے لئےجگہ دی۔وہ سائنسی علوم ،جس میں عرب سائنسدانوں نے شاندار کارکردگی دیکھائی،اور تاریخ میں ایک انتہائی اہم جگہ بنائی اور پوری دنیا نے صدیوں تک ان کا فائدہ اٹھایا۔ شیخ البشیر ابراہیمی کا کہنا ہے کہ: "۔۔۔۔عربی زبان نےدنیا ئے طب کی اصطلاحات کو جنم دیا جس کی وجہ سےعربوں نے شاندار ترقی کی، ماسوائے چند یونانی یا فارسی کے الفاظ جو کہ الفارابی اور ابن سینا نے فارسی سے ورثے میں لئے ہیں "۔یہ ہے عربی زبان :کہ جیسےکوئی بڑا کٹورا جو بھرنے پر اور زیادہ پھیل اور کھل جائے تاکہ مزید ذخیرہ الفاظ اور معانی کے اظہار کی جگہ بنائے ۔ایک ایسی زبان جو دوسری زبانوں کی محتاج نہیں، اپنے لئے خود کافی ہے ،مکمل ہے اور اعلیٰ تعلق کی طرف نسبت شدہ ہے : سب سےاعلیٰ زبان ہے جو اللہ الرحمن و الرحیمنے دنیا پر نازل کی ہے۔زبان دانی کے جرمن ماہر کارل بروکل مین(Carl Brockelmann) نے کہا کہ عربی زبان نے قرآن کی وجہ سے اتنی وسعت پائی کہ جو بمشکل دنیا کی کسی بھی دوسری زبان نے پائی ہو ۔
"صدیوں تک،عربی زبان اعلیٰ مقام پر فائز رہی ہے جو اس کی صلاحیت کا ثبوت ہے کہ یہ سائنسی علوم کے اظہار کی بھرپور قابلیت رکھتی ہےاورتاریخ کی کتابیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔مسلمان علماء کے نام ،ان کی تحقیق ، کامیابیوں اور ایجادات ان کتابوں میں گہرائی سےملتی ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ عربی زبان ایک قابل عمل اور ترقی کی منزلیں چڑھتی ہوئی زبان ہے ،جو وسعت اور پھیلنے کی صلاحیت رکھتی۔کہ عربی زبان وہ ہے کہ جس نے مغرب میں اظہار رائے کا سائنسی طریقہ پیش کیا ،اور یہ کہ عربی سب زبانوں میں خالص ترین زبان ہے،یہ سائنسی اور فنکارانہ اظہار کے طریقوں میں منفرد تھی ،یہ ایک وسیع اور بھرپور زبان ہے جو جامعیت اور صلاحیت رکھتی ہے !!" (فرانسیسی کیتھولک عالم- لوئس میسگنون)۔
6- عالمگیریت (globalization) اور عربی زبان کے اخراج میں اس کا کردار
عالمگیریت (globalization)یا دوسرے لفظو ںمیں جدید استعماریت جس نے مغرب کا دوسری اقوام پر تسلط قائم رکھنے کا نوآبادیاتی انداز بدل دیا ہے، خاص طور پر امت ِاسلامی پر، جو ریاست خلافت کے ختم اور شناخت کو کھو دینے کے بعد سے کمزور ہو گئی ہے اور اب آگے بڑھنے ، ترقی کرنے اور اپنی اعظمت ِ رفتہ بحال کرنے کا نعرہ بلند کر رہی ہے۔ عالمگیریت کثیر جہتی یلغار ہے،یعنی سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی یلغار ؛ جوکہ امت کی شناخت اور تہذیب کو مٹانے کے لیے برپا کی گئی تھی۔ یہ یلغار خاص طور پر امریکی بالادستی مسلط کرنے ، یعنی دنیا کی امریکنائزیشن کہ جس میں امریکی دنیا کو اپنے طریقے یعنی امریکن پالیسیوں کے مطابق چلائیں اور دنیا پر اپنی زبان ، ثقافت اور مغربی سرمایہ دارانہ تہذیب مسلط کرسکیں اور لوگوں کو اپنے جھوٹے وعدوں اور ترغیب کے ذریعے یا دھمکی اور خوف کےذریعے سے قابو کرسکیں۔
سب سے خطرناک قسم کی سیکولرائیزیشن(secularization) زبان کی عالمگیریت ہے جس کا مقصد انگریزی زبان کا نفاذ ، اور اس کی دیگر زبانوں پر بالا دستی ہے ، تاکہ یہ دنیا کی مرکزی زبان بن جائے اور ترقی اور جدیدیت کی چیمپئن کہلائے ۔
چونکہ زبان تصورات کا ایک ذریعہ ہے اور ریاستوں کو اس کی بہت زیادہ تشویش رہتی ہے،اور وہ اپنی زبان کو ا ُن ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں وہ نوآباد ی بناتے ہیں۔لہٰذا، گلوبلائزیشن امریکہ کا اپنے قوانین اور سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی تسلط مسلط کرنے کا طریقہ تھا۔ فرانس اور وہ ممالک جو اس کی زبان استعمال کرتے ہیں فرانکوفون(فرانسیسی زبان) اندا ز اپنائے ہوئےہیں،لہٰذا، انہوں نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہوئے اس زبان کو پھیلانے کی کوشش کی ،اور اس بات کو یقینی بنایا کہ فرانسیسی زبان افریقی ممالک میں ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کرے جس کی وجہ سے یہ ممالک دنیا سے کٹ کے اس زبان سے جڑ گئے،کیونکہ عربی زبان ایسا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ فرانسیسی ان ممالک کے بہترین حلیف بن گئے تاکہ یہ ممالک دنیا میں تنہائی کا شکار نہ ہوں۔
بدھ،25 مئی1994 میں، انیس منصور نے احرم اخبار میں لکھا : "فرانسیسیوں کو اپنی خوبصورت زبان پر بہت فخر ہے،یہ فلسفہ، ادب اور سائنس میں سب کچھ واضح بیان کرنے کے قابل ہے؛ لہٰذاانہوں نے اپنے اظہار کے لئے امریکی عبارت یا انگریزی نام استعمال کرنے سے انکار کردیا ،کیونکہ ان کے خیال میں یہ فرانسیسی زبان کے لئے ایک جرم ہے۔ فرانسیسی چیزوں کو مسترد کرنے اور ان کی مذمت کرنے میں اتنا آگے بڑھے کہ،ا ُن پر پابندیاں عائد کردیں جو ایسا کرتا تھا ( یعنی اپنی دکانوں یا اسٹور کے ناموں اور اشتہاری مکالموں میں انگریزی اور امریکی الفاظ استعمال کرتا )،یعنی ان لوگوں پرجو اس زبان کی توہین کرتے۔۔۔ ریاست کسی بھی دکان یا کمپنی یا ادارے کو لائسنس جاری نہیں کرتی جو فرانسیسی نام استعمال نہیں کرتا تھا"۔
یہ ایک ایسی جنگ ہیں کہ جس میں عربی زبان کو گمنامی کے گڑھے میں پھینک دیا جائے اور ا ُس پر اپنی نفرت اور توہین آمیز رویہ کی وجہ سے اِشتہار لگایا جاسکے کہ یہ ایک کمزور اور فرسودہ زبان ہے جوآج کے دور میں انسانی رویوں کے اظہار کےقابل نہیں۔ اصل میں یہ ایک دوڑ ہے کہ جس میں انگریزی (امریکی) ، یا فرانسیسی (فرانکوفون) یا دوسری زبانوں کو مسلط کیا جاسکے...مغربی ممالک کی طرف سے ایک بھر پور کاوش ہے کہ جس میں وہ اپنی زبان اور ثقافت مسلط کرنا چاہتے ہیں تاکہ ا ُن کی شناخت کا تحفظ اور ان کا سیاسی اور اقتصادی تسلط برقرار رہ سکے۔۔۔لہٰذا ، سوال یہ ہے کہ ان سب حا لات میں امت مسلمہ کہاں ہے؟کہاں ہے امت جبکہ کافر اِن شیطانی کاموں میں مصروف تھے - اور اب بھی ہیں– کہ اپنی زبان مسلط کرسکیں اور امت کی زبان کو کمزور اور خارج کرسکیں؟
یہ اسی کام کی بدولت ہے کہ کافر امت کی شناخت اور دین کو کھرچنے اور اس کی جگہ اپنے تصورات اور ثقافت مسلط کر نے کا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ
اپنی بقا کو یقینی بناسکیں... یہ اپنی بقا ، خود مختاری اور قیادت کے لئے ایک تہذیب کی دوسری تہذیب کے خلاف شدیدجدوجہد ہے !!!
7- میڈیا اورعربی زبان کو کمزور بنانے میں اس کی شراکت داری
ہر کوئی میڈیا کی اہمیت سے آگاہ ہے کہ وہ کس طرح لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور ان کے ذہنوں کو تبدیل کرتا ہے۔۔۔لہٰذا آپ اندازہ لگا ئیں کہ کیا ہوگا اگریہ میڈیا مغربی تہذیب کا ترجمان بن جائے ؟ کیا اگر یہی میڈیا لوگوں کے ان رحجانات کو یقینی بنانے کے لئے سب سے زیادہ مددگار بن جاتا ہے کہ لوگ صرف مغر بی تہذیب کے مدار ہی میں گھومتے رہیں ؟
یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے جو کچھ اسلام کے دشمن اور عربی زبان کے دشمن کر رہے ہیں :یعنی اس میڈیا کے ذریعے مسلمانوں میں زہر گھول رہے ہیں تاکہ امت کا اپنے عقیدے پراعتمادمتزلزل ہو جائےاور اس کی انفرادیت اور عظمت ختم ہوجائے ، اور یہاں تک کہ اسلامی عقیدے کو تشدد (اور دہشت گردی) اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں،اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پامالی سے ملانے پر زور ڈال رہے ہیں ۔۔۔ یہ ان خطرناک سازوں کے ذریعےاس گھٹیا منصوبے پرعمل پیراں ہیں کہ دین کو زندگی کے معاملات سے خارج کرسکیں اور صرف کچھ عبادت تک محدود کردیں ۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر ایسے پروگرام پیش کیے جارہے ہیں جن میں سیکولرازم کو انسانیت کو درپیش مسائل کے بہترین حل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، شہری زندگی کی کامیابی کےحل طور پر ،ترقی اور ارتقاء کےطور پر ، جبکہ دوسری طرف یہ پروگرام ہر اُ س چیز پر حملہ آور ہیں جواسلام کی طرف ترغیب دیتے ہیں، چاہے یہ حجاب، داڑھی ، بچوں کی قرآنی تعلیم ہو یا نصاب-کہ جس میں باوقار طریقے سے- اسلامی ثقافت کے مطلق کوئی چھوٹی سی ہی عبارت ہو۔یہ تمام باتیں اس چیز کی عکاس ہیں کہ ایک جنگ ہےکہ جو شروع کردی گئی ہے اور میڈیا اس میں ایک ذریعہ ہے جومغرب کی بالادستی اور ا ُس کی تہذیب مسلط ،جبکہ اسلامی تہذیب کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے،وہ اسلامی تہذیب جس نے صدیوں سے کافروں کی طاقت اور استقامت کوکھچاؤ میں مبتلا رکھا ہے۔۔۔
عربی زبان ہر طرف سے تباہ کرنے دینے والی اس جنگ سے بچ نہیں سکی ،اور میڈیا کا اس میں سب سے بڑا حصہ تھا جس نے اشتہارات کے ذریعے جو سیٹلائٹ چینلز سےبلا روک ٹوک نشر ہورہے تھے عربی زبان کو کنارہ کش کردیا ۔ یہ اشتہارات - سرمایہ دارانہ تہذیب کا نتیجہ – دراصل اپنے اندر بہت کشش رکھتے ہیں اور ان چینلز کے مالکان کو ایک بڑا منافع فراہم کرتے ہیں ۔مغرب نے اپنے نقصان دہ میڈیا آؤٹ لیٹ کے ذریعے اپنی ثقافت پھیلا ئی ، باوجود اس کے کہ مغربی اور اسلامی دونوں تہذیبوں کے درمیان بہت بڑا فرق اور وسیع فاصلہ ہے :یہ اشتہارات اسلامی معاشروں تک پہنچ چکے ہیں ،ان میں سرائیت کر چکے ہیں حا لانکہ یہ اشتہارات اپنی مخصوص مغربی خصوصیات اور اقدار رکھتے ہیں۔ تقریباً کوئی بھی صحافتی ادارہ ان اشتہارات کوشائع کرنے سے مبرا نہیں رہ سکا اور اپنی مخصوص مصنوعات کو فروغ دینے کے لئے بچوں اور نوجوانوں میں اس حد تک کشش پیدا کرتا ہے ،کہ یہ لوگ ان اشتہارات میں موجود مشہور اداکاروں یا گلوکاروں کی حرکات و سکنات کی نقالی کرتے ہیں ،یہاں تک کہ ایسے جملے دہراتے ہیں کہ جن کا دور دور تک فصح عربی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہےاور ایسی بیرونی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو اخلاقیات کےخلاف ہوں۔
اشتہارات، ایک ایسی سرگرمی ہے جو معاشرے کے ارکان کے لئے دیکھنے اورسنے والے پیغامات پیش کرتے ہیں تاکہ ، لوگ جال میں پھنس کر بدلے میں پیش کی جانے والی چیز خریدلیں یا سروس حاصل کرلیں ،اور یہ ان خریدنے والوں کی توجہ پر قبضہ کرنے کے لئے ایک کامیاب طریقہ کار ہے تاکہ انہیں مصنوئی طلب پر اکسایا جا سکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ میڈیا روز مرا بول چال کی زبان کے استعمال پر اس بہانے بضد ہے کہ یہ رواں ، آسان اور اس قابل ہےکہ خریدنے والوں تک رسائی کرسکتی ہے۔اور اب یہ اس کےاستعمال میں ا ُ ن مصنوعات کےلئے کہ جسے یہ پیش کرتے ہیں زرہ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ، تاکہ لوگوں کے کان اس روز مرہ بول چال کے عادی ہوجائیں اور مزاج اسے قبول کرلے۔
اس کے بجائے کہ یہ اشتہارات لوگوں کی موجودہ زبان جس میں تاثیر ختم اور کمزوری سرائیت کرگئی ہے، معیار کی بلندیوں تک لےجاتے اورصحیح اور اعلیٰ جملوں کا استعمال کرتے ،مگر ہم انہیں بکھری ہوئی زبان اپناتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔مزید یہ کہ جان بوجھ کر ایسے لہجے اور اصطلاحات پھیلائی جارہی ہیں جو لوگوں کے ذوق کے خلاف اور ان کے معیار اور منفرد تہذیب کی توہین کے مترادف ہیں ۔لہٰذا یہاں سرمایہ دارانہ نظام منافع بنانے اور فائدے ا ُٹھانے کےسوا کچھ حاصل نہیں کرنا چاہتا۔اپنی تیزی اور چالاکی کے ساتھ کام کرتے ہوئےمیڈیا اس ذریعے کو "ایک تیر سے کئی شکار" کرنے کےلئے استعمال کرتا ہیں ؛یہ (سرمایہ دارانہ نظام) اپنی مصنوعات کو فروغ دیتا ہے،اپنی مارکیٹیں کھولتا ہے اور امت کو اس پر انحصار کی رسی سے باند ھ دیتا ہے،تاکہ امت صرف ان کی پیش کردہ مصنوعات کے صارفین ہوکر رہ جائیں ۔اس کے بعد انہوں نے عربی زبان کے خاتمے کے لیے روز مرہ بول چال اور دیگر زبانوں کو ترقی دی اور اس بات کی کوشش کی کہ عربی زبان جوکےان کی شناخت کی نشانی ہے، ان کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے ان کی دنیا میں گم ہوجائیں۔۔۔۔اور یوں، انہوں نے عربی زبان کو ختم کردیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ عربی لوٹ کراپنی چوری شدہ عظمت کی بحالی کے لیے کام نہ کر سکے ،جبکہ دوسری طرف اپنی بقاء ، خودمختاری اور قیادت کو یقینی بنایا ۔
ایسی ترجمہ کی ہوئی ٹی وی سیریز کہ جس کی زنجیروں میں لوگ قید ہو گئے ہیں اور ان کے لئے خود کو ان زنجیروں سے آزاد کرانا مشکل ہو گیا ہے۔۔۔یہ سیٹلائیٹ اور ٹیلی ویژن چینلز آپس میں ایک مقابلے میں مبتلا ہیں کہ کون نشر کرنے میں سبقت لےجاتا ہے ، تاکہ وہ عربی زبان کے بجائے مقامی زبان جو ترجمے کی زبان تھی اس میں ان ٹی وی سیریز کو پیش کریں ۔ یہ سیریز مسلمانوں کی زندگیوں سے عربی کو نکالنےاور علیحدہ کرنے میں ملوث ہیں اور یوں اس زبان کی مخصوص خصوصیات کو مٹانے کے عمل کو ترقی دے رہی ہیں- یہ لوگ ان سیریز کے ذریعےامت مسلمہ کی ایک جامع اور متحدہ زبان کو بکھری ہوئی اور تقسیم کرنے والی زبانوں سے بدلنا چاہتے ہیں جو رکاوٹیں ڈال کے اور سرحدیں کھینچ کر امت واحدہ کو ایک سے زیادہ بکھری قوموں میں بانٹ دیں،جس میں ہر قوم کی اپنی زبان، تہذیب اور ثقافتی ورثہ ہو۔
8- عربی زبان ا مت مسلمہ کے وقار کی علامت ہے :
"جب بھی کسی قوم کی زبان کی توہین کی جاتی ہے،تو درحقیقت یہ ا ُس قوم کی بھی توہین ہوتی ہیں،اور جب بھی یہ زبان زوال پذیر ہوتی ہے تو معاملات میں اس کا عمل دخل گھٹنے لگتا ہے اور آخر کار اس کا وجود ختم ہو جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ استعمار زبردستی اپنی زبان غلام قوم پر مسلط کردیتا ہے، ان پر حملہ آورہوتا ہے اور اپنی زبان پر ان محکوم لوگوں کو اپنی عظمت محسوس کرواتا ہے اور اس کے ذریعے ان کے علاقوں کو ضم کرلیتا ہے۔اور یوں یہ استعمار ایک ہی عمل کے ذریعےان پر تین طریقوں سے حکمرا نی کرتا ہے :پہلا یہ کہ اس قوم کی زبان کو قائم رہنے کےلئے استعمار کی زبان کا سہارا لینا پڑ ے،دوسرا یہ کہ اس قوم کے ماضی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ختم کردینا کہ جیسے ا ُسے سزائے موت دے دی گئی ہو ،اور تیسرا یہ کہ ان کو مستقبل کو زنجیروں میں جکڑدینا ،تاکہ اس قوم کے معاملات ان کےاستعمار کے معاملات کے تابع رہیں۔ "(وحي القلام: مصطفى صادق رفیع ، رحیم اللہ )
امت مسلمہ کی تضحیک ، توہین ،اور ظلم ایسی چیزیں ہیں کہ جن کوبرداشت کر نا ایک مشکل معاملہ ہے،اور استعمار کے وہ حربے کہ جس کی وجہ سے اس کی شناخت مٹ جائے اور زبان کمزور پڑ جائے، نہایت سنجیدہ بات ہے... یہ ایک تجدید شدہ پرانی نفرت ہے جو ا ُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ زمین پر ان لوگوں کا فیصلہ نہ کردیں۔۔۔یعنی سرمایہ دارانہ تہذیب اور اسلامی تہذیب کے درمیان ہونے والی جدوجہد کا۔۔۔یہ مغربی تہذیب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں،اور دنیا پر اپنی بالادستی اورتسلط کو قائم رکھنے کی کوشش کررہی ہے ،کیونکہ استعمار نےقابض ہونے کا لطف ، پیسہ اور عزت کا مزہ چکھ لیا ہے ۔۔۔۔ اور امت مسلمہ کہ جس کی اسلامی تہذیب، ریاست کی غیر موجودگی اور اپنی شناخت کے ختم ہونے کی وجہ سے موجود نہیں ہے،خلافت (اسلامی ریاست) کو قائم کرنے کی بے انتہا کوشش کررہی ہے تاکہ زمین پر اللہ کی حکمرانی بحال ہو ، اور بنی نوع انسان اطمینان ،سلامتی اور ذہنی سکون کی زندگی گزارسکیں۔
مسلمانوں نے اپنی شان اور اعظمت کے دنوں میں اپنی شناخت اورعربی زبان کی بھرپور حفاظت کی ،اور کبھی ان پر سمجھوتہ یا انہیں کمزور کرنے کی اجازت نہیں دی۔ابن تیمیہ،اللہ ان پر رحم فرمائے، نے کہا: " السلف الصالحین عربوں کی رسومات میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے نفرت کرتے تھے ،یہاں تک کہ لین دین بھی اگر عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں کیا جائے ،سوائےضرورت کے تحت ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد کے اجتہاد کے مطابق ۔امام مالک نے یہاں تک کہا ہے کہ: "جس شخص نے بھی ہماری مسجد میں عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں بات کی ، ا ُسے مسجد سے نکال دیا جائے گا"۔
انہیں عربی زبان کی اہمیت اور بلندمقام کا پتہ تھا ، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ عربی کو بے حیثیت کرنا اصل میں اپنے دین کو ضائع کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ یہ ایک مضبوط رشتہ ہے جو مجموعی طور پر امت مسلمہ کو یکجا کرتا ہے،سمندر سے لے کر خلیج تک،اگرچہ ان کی زمین مختلف اور الگ الگ ہیں :
ويَجمَعُنا إذا اختَلَفَت دِيارٌ *** بَيانٌ غيرُ مُختَلِفٍ ونُطْقُ (أحمد شوقي)
"اگرچہ ہمارے علاقے مختلف ہیں،مگر ہماری زبان وتلفظ ایک ہے اور یہ ہمیں متحد کرتی ہے" (أحمد شوقي)
آج،جو امت مسلمہ کی صورت حال ہے ،تو بہت سے لوگوں نے اس کی مذمت کی،اسے ناقابل قبول کہا ہے اور اس پر تنقید کی ہے،مگر کسی بھی متوقع نتیجے کے بغیر؛ عربی زبان کے علماء عربی کو بچانے کے لئے کانفرنسیں منعقد کرنے لگے ،بالکل ا ُسی طرح جیسےدنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں کی سفاکانہ کارروائیوں کے لئے بین الاقوامی نگرانی کامطالبہ کیا گیا تھا۔اور ان لوگوں نے عربی کو بچانے کے لئے شور شرابہ برپا کیا ا ُ سی طرح جیسے ماضی میں ظلم کے شکارمسلمانوں کےلئے خوراک کے تحفظ کےلئے ایک لا حاصل چیخ و پکار کی گئی تھی ،کہ جس سے ہمارےکان پک گئے تھے۔۔۔
کوئی چیز بھی مسلمانوں کی حالت زار کو تبدیل نہیں کرسکی ، چاہے وہ بین الاقوامی ،لسانی ، اور سیکیورٹی کانفرنسیں ہوں یا خوراک اورعربی زبان کے تحفظ کےلئے احتجاج ۔ حالانکہ مسلمانوں کی عزت و ناموس کو ا ُچھالا گیا ہیں، ا ُن کا خون بہایا گیا ہے، بھوک کا شکارکردیاگیا،اور اس طرح بے گھر کردیا گیا کہ لوگ مختلف ملکوں کی سرحدوں پر پھنسے ہوئے ہیں ۔جبکہ عربی زبان کو کنارہ کش اور جدید علوم سے خارج کردیا گیا ہے۔۔۔ امت مسلمہ کے ان تمام حالات کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے خلافت (اسلامی ریاست) کی غیر موجودگی ۔یعنی وہ ریاست جو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال خالق کائنات کے قوانین کے مطابق کرے گی،اور یہ وہ ریاست ہو گی کہ جو مسلمانوں کے عقیدے ، جان و مال ، زبان اور شناخت کی حفاظت کرےگی،جس سے ان کا سر اپنے دشمنوں کے سامنے بلندہو گا ، اور وہ اپنے دین کی زبان ،عظمت ،انفرادیت اور خوبصورتی کی طرف واپس لوٹینگے ۔
مشہور فرانسیسی زبان دان ، مورخ اور مصنف ارنسٹ رینان (Ernest Renan) کا کہنا ہے کہ" بنی نوع انسان کی تاریخ میں سب سے عجیب بات عربی زبان کا پھیلاؤ ہے۔یہ ایک نامعلوم زبان تھی،جواچانک نہایت مہارت ،روانی ، شان اور جامعیت کےساتھ وجود میں آئی ،اس کا نہ کوئی بچپن تھا اور نہ ہی بڑھاپہ ہے۔ایک ایسی زبان جو کہ اپنے دور کی دوسری زبانوں سے کثرت ِ ذخیرہ الفاظ، درست معنی اور ڈھانچے کےلحاظ سے اعلیٰ درجہ پر فائز ہے "۔
یہ قرآن مجید کی زبان ہے،جس کی اس کے ماننے والوں نے حفاظت ،اس کی دیکھ بھال اور اس کے دفاع کیلئے اشد کوشش کی جیسے انہوں نے اپنے دین کے دفاع کے لئے اشد کوشش کی۔۔۔تاہم، اس کے دشمن ریاست خلافت کے انہدام کے بعد اس پر غالب آگئے اور اس کو نقصان پہنچانے ، اسے کنارہ کش اور کمزور کرنے کی جستجو میں لگے رہے۔
لہٰذا اس صورتحال سے ہم تمام مسلمانوں کے لئےاپنا پیغام بھیجتے ہے اور ہم ان سے کہتے ہیں کہ: عربی زبان کا غلط استعمال نہیں کرو کیو نکہ یہ ایک مقدس زبان ہے،اور اسی عربی میں، ہمارا آئین اور ہمارا قرآن نازل کیا گیا،اور اس کے ذریعے ہم اپنے دین کے قوانین کو سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ چلیں ہم مل کر امت کے مخلص بیٹوں کے ساتھ کام کریں جو دن رات، نبوت کے طریقہ پر اور اللہ کے نازل کردہ احکامات کےمطابق خلافت کے قیام کے لئے کام کرر ہے ہیں۔ جس کے ذریعے ہی-صرف – ہم قرآن کی زبان ،اس کے جلال اور روشنی کی طرف واپس لوٹینگے۔جس کی وجہ سے زبان محفوظ ہوگی ،اور دین محفوظ ہوگا ،اور جس کی وجہ سے کمزور، بے وقوف ایجنٹ دشمن کو کچھ بھی غلط کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔۔۔ !!
ازطرف زینا اسامت
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے تحریر کیا گیا