بسم الله الرحمن الرحيم
حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً
"۔۔۔یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا"(الاحقاف:15)
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ شام سے افغانستان تک مسلم امت کے خلاف جارحیت میں اضافہ کرتی جارہی ہے تو دوسری جانب مسلمان اہل قوت میں موجود اپنے بھائیوں کی جانب توجہ بھی بڑھاتے چلے جارہے ہیں تا کہ مسلم دنیا میں جس تبدیلی کا ایک عرصے سے انتظار ہے اسے حقیقت کا روپ دے دیا جائے۔ ایسا ہونا متوقع ہے کیونکہ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں جب مسلمانوں نے اپنے اسلام کی وجہ سے انتہائی شدید مظالم کا سامنا کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اور دین اسلام کے لیے نصرۃ تلاش کرنا شروع کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی پکار پر لبیک کہا ان میں سے اکثر 40 سال کی عمر سے بڑے اور اپنی نوجوانی کی حدود سے نکل چکے تھے۔ جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جو اپنی جوانی اسلام کی خدمت میں گزارتا ہے اس کی بہت تعریف کی گئی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو 40 کی عمر سے آگے نکل جاتا ہے اس میں اب دین کے لیے کچھ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور صرف دنیا وی کاموں کے لیے ہی رہ جاتا ہے۔
وہ چالیس سال کی عمر سے بڑے افراد تھے جو اسلام کی معاونت کے لیے آگے آئے اور اس کا مشاہدہ امت کے ہر دور ہر نسل میں کیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں رسول اللہ ﷺ کی نقل کی جنہوں نے چالیس کی عمر کے بعد اسلام کی ریاست کے قیام کے لیے نصرۃ کے حصول کے دوران شدید جسمانی تشدد برداشت کیا، تپتے سورج کے نیچے ہاتھوں میں بھاری بھاری تلواریں لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں لڑے، لوگوں کے امور کی دیکھ بحال میں دن رات ایک کردیے اور دین حق پر ایک واحد امت تشکیل دے کر قوموں کی تاریخ بدل ڈالی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی نگاہیں، ارادہ اور دین کے لیے آگے سے آگے بڑھنے کی لگن ، دنیا میں مستقبل بنانے، بچے پالنے اور گھرداری کی لگن سے کہیں بلند ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور اپنے ایک ایک انگ کی طاقت کو اس امت اور اس دین کی سربلندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح ہیں جو چالیس کے عمر کے بعد مسلمانوں کے خلیفہ بنے ، جنہوں نے محض 27 مہینوں میں مرتدین کی بغاوتوں کو کچل دیا، میسوپوٹامیا میں ساسانی سلطنت اور شام میں بازنطینی سلطنت کے خلاف فوجیں بھیجیں اور امت کی شاندار تاریخ کی بنیاد ڈالی۔ اور چالیس کے عمر کے بعد ہی عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوسرے خلیفہ راشد بنے اور فارس اور روم کی عظیم اور طاقتور ریاستوں کو ہلا کررکھ دیا اور ان کے علاقے اسلام کی روشنی سے منور کرنے کے لیے کھول دیے۔
پھر بعد کی نسلوں میں ہم نے صلاح الدین ایوبی ؒکو دیکھا جس نے مسجد الاقصی کو آزاد کرانے سے کچھ عرصے قبل حطین میں صلیبیوں کی مشترکہ قوت کا سامنا کیا اور انہیں تاوان کی ادائیگی پر مجبور کر کے پُرامن طریقے سے جانے کی اجازت دے دی۔ چالیس کی عمر گزرنے کے بعد ہی محمد شہاب الدین غوری نے دہلی کو اسلام کے لیے کھول دیا، اسے ہندو حکمرانی کے اندھیروں سے نکالا اور برصغیر پاک و ہند میں اسلام کو مضبوطی سے قائم کردیا ۔ اور ہم نے عظیم مغل مسلم حکمران اورنگزیب کو دیکھا جس نے چٹاگانگ کو موجودہ میانمار (برما) کے ظالم حکمرانوں کے بدھسٹ آباؤاجداد کے قبضے سے آزاد کرایا اور ان پر ایسا کاٹ دار حملہ کیا کہ پھر وہ کبھی سنبھل ہی نہ سکے اور ان کا اقتدار زوال پزیر ہوگیا۔
اور آج کی موجودہ نسل میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے امت کی منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے کا تعین چالیس کی عمر گزرجانے کے بعد کیا ۔ چالیس سال کی عمر کے بعد شیخ تقی الدین نے حزب التحریر قائم کی اور زبردست خلافت کے منصوبے کا بیج بویا جس کو ہم آج ایک تن آور درخت کی صورت میں دیکھتے ہیں اور اس دوران شدید تشدد کا سامنا کیا۔ چالیس سال کی عمر کے بعد ہی حزب التحریر کے دوسرے امیر شیخ عبدالقدیم زلوم نے خلافت کی دعوت کو اس قدر وسعت دی کہ وہ وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا تک پہنچ گئی اورحزب التحریر خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ اور چالیس کی عمر کے بعد ہی حزب التحریر کے موجودہ امیر ، شیخ عطا ءبن خلیل ابو الرشتہ خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے درکار نصرۃ کے حصول کے لیےدعائیں اور سخت محنت کررہے ہیں اور اسلام کی ایک نئی صبح کے آغاز کے لیے اللہ کے خوف کے سوا کسی بھی خوف سے بے پروا ہو کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
چالیس سال کی عمر کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً"۔۔۔یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا"(الاحقاف:15)۔
ابن کثیر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ، تناهى عقله وكمل فهمه وحلمه. ويقال: إنه لا يتغير غالبا عما يكون عليه ابن الأربعين "مطلب ہے،: ذہانت، سمجھ اور صبر بلوغت کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے جب کوئی چالیس کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس میں تبدیلی نہیں آتی "۔ اما قرطبی نے کہا ، فَفِي الْأَرْبَعِينَ تَنَاهِي الْعَقْلِ، وَمَا قَبْلَ ذَلِكَ وَمَا بَعْدَهُ مُنْتَقَصٌ عَنْهُ "چالیس کی عمر میں دماغ بلوغت کی انتہا ء پر پہنچ جاتا ہے اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کم ہوتا ہے"۔ اور الطبری نے کہا ، الأشدّ جمع شدّ، وأنه تناهي قوّته واستوائه " ۔۔'پو ری طاقت' جمع ہے 'طاقت' کی اور یہ اس کی طاقت اور اس سے جڑی دیگر چیزوں کی بلوغت ہے " ۔
مسلمانوں یہ چالیس سال قمری لحاظ سے ہیں ، شمسی کلینڈر کے حساب سے یہ 38 سال بنتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غلاموں کی زندگی میں یہ ایک مبارک دور ہوتا ہے اور یہ ریٹائرمنٹ کی زندگی سے بہت دور ہوتا ہے کیونکہ ابھی تو ہر چیز مکمل بالغ ہوئی ہے۔ وہ لوگ جو چالیس کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں وہ اپنی صلاحیتوں میں بالغ ہو جاتے ہیں اور اپنی طاقت اور صلاحیتوں کی انتہاء پر ہوتے ہیں کہ معاشرے میں تبدیلی لاسکیں۔ قانون کے پیشے میں اس عمر کے لوگ جونئیر جج ہوتے ہیں، صحافت میں ایڈیٹرز اور کالم نگار ہوتے ہیں، سیاست میں عوام میں اچھا مقام رکھتے ہیں، علماء میں فتوی دینے والے اور مضبوط رائے رکھنے والے ہوتے ہیں جبکہ افواج میں سینئر افسران ہوتے ہیں۔
وہ جو چالیس کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں بالغ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی بھی انتہاء پر ہوتے ہیں۔ اس عمر میں وہ اپنے بڑھتے بچوں اور اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذرائع آمدن میں بالغ ہوجاتے ہیں اور اپنے گھر بنانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنی ان صلاحیتوں کے ساتھ وہ دنیا میں کھو سکتے ہیں اگر انہوں نے عمر کے اس انتہائی اہم دور میں اپنی ترجیحات کا تعین دین کی بنیاد پر نہ کیا ہو۔ قرطبی نے اس آیت پر مزید تبصرۃ کرتے ہوئے کہا،
وَقَالَ مَالِكٌ: أَدْرَكْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا وَهُمْ يَطْلُبُونَ الدُّنْيَا وَالْعِلْمَ وَيُخَالِطُونَ النَّاسَ، حَتَّى يَأْتِيَ لِأَحَدِهِمْ أَرْبَعُونَ سَنَةً، فَإِذَا أَتَتْ عَلَيْهِمُ اعْتَزَلُوا النَّاسَ وَاشْتَغَلُوا بِالْقِيَامَةِ حَتَّى يَأْتِيَهُمُ الْمَوْتُ
"مالک نے کہا کہ میں نے اپنے علاقے میں صاحب علم لوگوں کو دیکھا کہ وہ دنیا اور علم کے پیچھے جاتے ہیں اور لوگوں سے گھلتے ملتے ہیں یہاں تک کہ چالیس کی عمر کو پہنچ جائیں۔ جب یہ عمر آجاتی ہے تو وہ لوگوں سے دور ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ میں مصروف ہوجاتے ہیں یہاں تک کے ان تک موت پہنچ جاتی ہے "۔
اس کے علاوہ اس آیت کے تسلسل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایک دعا بتاتے ہیں جو اس شخص نے کی ہے جو چالیس کی عمر کو پہنچ گیا ہے تا کہ ترجیحات پر استقامت کے ساتھ مضبوطی سے قائم رہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا
،قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِى أَنْ أَشكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِى أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَى وَلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَـلِحاً تَرْضَـهُ وَأَصْلِحْ لِى فِى ذُرِّيَّتِى إِنَّى تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ الْمُسْلِمِينَ
"تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کرو جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں "(الاحقاف:15)۔
اس دنیا میں چالیس سال کا بندہ اپنے رب سے تقاضا کرتا ہے کہ اس کی طاقت اور صلاحیتیں اچھے اعمال میں استعمال ہوں تا کہ وہ اس سے خوش ہو جائیں اور وہ اپنے رب سے معافی مانگتا ہے۔ یقیناً اس آیت میں ہر اس بندے کے لیے حکم ہے جو چالیس کی عمر کو پہنچ جاتا ہے کہ اپنے اعمال پر نظر ڈالے اور اللہ کی جانب پوری مضبوطی سے متوجہ ہوجائے۔ اگر اس نے اپنی جوانی دنیا کے پیچھے برباد بھی کردی ہو تو بھی وہ مایوس نہ ہو بلکہ معافی مانگے اور پوری استقامت کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرے اور اپنے دین کے تقاضوں کو پورا کرے۔
لہٰذا، اے اہل قوت، انعام اس پر کیا گیا جس نے خود کو مسلم دنیا میں اثرورسوخ رکھنے والے حلقوں میں بیٹھنے کے باوجود موجود کرپٹ ماحول سے دور رکھا۔ یہ وہ ہے جو خود کو ترغیبات اور امتیازات سے بلند رکھتا ہے جو اسے موجودہ ظالم حکمران رشوت کے طور پر پیش کرتے ہیں تا کہ اس کے ظلم کی حمایت کریں۔ یہ وہ جج ہوتا ہے جو اپنی عدالت میں پیش ہونے والے خلافت کے داعی کو سزا دینے کے دباؤ کے سامنے نہیں جھکتا ۔ یہ وہ صحافی ہوتا ہے جو حکومت کے غنڈوں کی دھمکیوں کی پروا نہیں کرتا اور آگے بڑھ کر خلافت کے داعیوں کی سرگرمیوں اور دعوت کو عوام تک پہنچاتا ہے۔ یہ وہ سینئر بیوروکریٹ ہوتا ہے جو خلافت کے داعیوں کی راہ میں کھڑی کی جانے والے رکاوٹوں کو ہٹانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ قابل سیاست دان ہوتا ہے جو حزب التحریر کے پلیٹ فارم کا حصہ بن جاتا ہے، اخلاص کے ساتھ اسلام کا مطالع کرتا ہے اور سیاست میں اسلام کو واحد پیمانے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ وہ بہادر عالم ہوتا ہے جو کھل کر اپنے خطبے میں خلافت کے لیے کام کرنے کی فرضیت کا اعلان کرتا ہے اور جمہوری نظام کا حصہ بننے کو گناہ قرار دیتا ہے۔ اور یہ وہ فوج کا آفسر ہے جو اس انتظار میں ہے کہ جب اسے موقع ملے تو نبوت کے طریقے پر دوسری خلافت کے قیام کے لیے نصرہ فراہم کرے۔
یقیناً یہ وہی ہیں جو چالیس کی عمر کو پہنچ گئے ہیں جو اپنی کوتاہیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے دین پر ایمان کا اعادہ کرتا ہیں جو عظیم ترین کامیابی کی بشارت دیتا ہے ۔ اسی آیت کے فوراً بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُواْ وَنَتَجَاوَزُ عَن سَيْئَـتِهِمْ فِى أَصْحَـبِ الْجَنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِى كَانُواْ يُوعَدُونَ
"یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرمالیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں، (یہ) جنتی لوگ ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا ہے"(الاحقاف:16) ۔
اہل قوت اور اثرورسوخ رکھنے والے مرد و خواتین کے لیے سٹیج لگ چکا ہے کہ وہ دنیا پر اپنا اثر چھوڑ جائیں، کہ وہ اس دنیا کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی سے منور کردیں۔ یہ صرف وہی کرسکتے ہیں جو خود کو دنیا کی زنجیروں سے آزاد کرا لیتے ہیں، جو وہ کردار ادا کرتے ہیں جو آخرت میں حقیقی فخر ، عزت اور کامیابی کا باعث بن جائے گا ،جو کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں، مقام اور طاقت کو صحیح استعمال کیا۔ لہٰذا تمہاری امت کی جانب سے ، جو ایک عرصے سے شدید مصائب اور مشکلات کی شکار ہے، حزب التحریر آپ کو پکارتی ہے ، ۔۔۔۔۔۔لہٰذا اس پکار کا جواب دیں۔