بسم الله الرحمن الرحيم
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ: اسلام اور مسلمانوں کے پشت پناہ
تحریر: بلال المہاجر، پاکستان
یقیناً معاشروں کی تبدیلی کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قوانین لاگو کررکھے ہیں۔ یہ وہ قوانین ہیں جن سے ٹکرایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے، اور ان قوانین میں ایک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ قانون ہے،
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ
"کسی قوم کی حالت اللہ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے"(الرعد:11)۔
لہٰذا لوگوں کی صورتحال کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں کو تبدیل کریں جو ان میں موجود ہیں جو کہ ان کے افکار، احساسات اور وہ نظام ہے جس کے تحت ان کے درمیان معاملات طے پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ لازم کردیا ہے کہ وہ اُس بات پر عمل کریں جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُن پر فرض کردیا ہے تا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں کامیابی عطا فرمائیں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
"اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا"(محمد:7)۔
تو اگرچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس بات پر مکمل قدرت رکھتے ہیں کہ لوگوں کی جانب سے انگلی بھی ہلائے بغیر اُن کی صورتحال کوتبدیل اور ان کی کامیابی کو یقینی بنادیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانیت پر یہ فرض کیا ہے کہ وہ عملی اقدامات اٹھائے جس کے عملی نتائج نکلتے ہوں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ فرض قرار دیا ہے کہ اسلامی ریاست و معاشرت کے ذریعے اسلام کی حکمرانی ہو۔ یہ ہدف کوئی ایک فرد یا چند لوگ حاصل نہیں کرسکتے بلکہ اس کے لیے تمام لوگوں کی کوشش ضروری ہے جو اپنے دین سے مخلص ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا اور امت کی نشاط ثانیہ چاہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہما دین اسلام میں داخل ہوئے جو معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام میں داخل ہونے والوں میں وہ بھی تھے جو معزز و مشہور تھے، جن کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مکّہ میں مسلمانوں اور اسلام کو حوصلہ اور تقویت ملی۔ اور اِن معززین میں جو سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو مضبوطی سے کھڑا کرنے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے قبل بھی قریش کے معززین میں شمار ہوتے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل آپ رضی اللہ عنہ حجاج کی ضروریات کا خیال کرتے تھے اور لوگوں کی مہمان نوازی کرتے تھے۔ لوگ اپنی مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے آپ رضی اللہ عنہ سے رجوع کرتے تھے۔ وہ لوگوں میں اپنے اچھے کردار کی وجہ سے بہت مشہور تھے اور لوگ ان سے محبت اور ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی سخاوت اور لوگوں پر کھلا خرچ کرنے کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ انہوں نے کبھی کسی بُت کے سامنے سجدہ نہیں کیا تھا کیونکہ ان کے روشن فکر دماغ نے انہیں ایسا کرنے سے روکا اور اسی طرح اسلام لانے سے قبل بھی وہ شراب نہیں پیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو "الصدیق" کا لقب دیا گیا جس کا مطلب ہے"وہ جو سچا ہے" کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی سچائی کی تصدیق تھی اور ان کی تصدیق اس حد تک گئی کہ معراج کی رات جب اُن سے یہ کہا گیا:"تمہارا دوست راتوں رات کے سفر کا دعوی کرتا ہے"، تو انہوں نے جواب دیا: اگر انہوں نے (آپ ﷺ) نے یہ کہا ہے تو وہ سچے ہیں! اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں سچا کہا جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَالَّذِي جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
"اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس تصدیق کی ، یہی لوگ پارسا ہیں"(الزمر:33)۔
یقیناً ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں میں ایک معزز ہونے کے ناطے اسلام کی حمایت اور اس کی مضبوطی کے لیے کام کیا۔ جس کسی کو بھی اپنی صورتحال میں اس قسم کے وصف سے نوازا جاتا ہے تو اس کی رائے اہمیت رکھتی ہے اور لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ کسی بھی تصور پر اُس کا ایمان لوگوں کے لیے اُس تصور کی سچائی اور درستگی کا پیمانہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا ، پھر اپنے قبیلے غفار کی جانب لوٹنا اور انہیں اسلام کی دعوت دینا، اور اُن کے قبیلے کا اسلام قبول کرنا ، ایسا اس لیے ہوا کیونکہ وہ اُن کے معززین میں سے تھے، اُن کے لوگ اُن سے بہت متاثر تھے اور جب انہوں نے اپنے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو وہ اس دعوت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اس حد تک متاثر ہوئے کہ پورا قبیلہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ لہٰذا معززین کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے اور اپنے معاشرے کی قیادت ہونے کے ناطے اُن پر اللہ کے قوانین کے ذریعے معاشرے کی تبدیلی کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ ذمہ داری ایک عام آدمی کے مقابلے میں اُن پر کہیں زیادہ ہوتی ہے جس کا معاشرے پر اثرو رسوخ بہت ہی محدود ہوتا ہے یا صرف اپنے خاندان تک ہی ہوتا ہے۔ اگر ایسے لوگ امت کی نشاط ثانیہ کے لیے کام نہیں کرتے تو ایسا کرنے کا گناہ ایک عام مسلمان کے گناہ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وہ عظیم صحابہ رضی اللہ عنہما جو ان صفات کے حامل تھے ، انہوں نے اس ذمہ داری کو سمجھا اور اسلام میں ابو بکر، عمر بن خطاب، حمزہ ابن ابی طالب، عثمان بن عفان اور عبدالرحمان بن عوف کا داخل ہونا صرف مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کا باعث نہیں بنا بلکہ اسلام کی مضبوطی اور حمایت کا باعث بھی بنا۔
رسول اللہ ﷺ کے ہر صحابی نے اسلام میں داخل ہونے کے بعد ایسا کام کیا جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔ ابو بکر صدیق کا امیتاز یہ تھا کہ وہ اسلام کی دعوت اور اس کی حکمرانی کے قیام کی دعوت میں ہر وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ قبائل کے شجرہ نسب اوراُن کے معززین کو جانتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کی اس خاصیت نے رسول اللہ ﷺ کی بہت معاونت کی کہ کس قبیلے سے رابطہ کیا جائے اور انہیں اسلام کی دعوت دی جائے اور ان سے اسلام کے لیے نصرۃ طلب کی جائے تا کہ اسلام کی حکمرانی ایک ریاست کی شکل میں قائم ہو۔ ابو ابن تغلیب نے عکرامہ سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی: علی ابن ابی طالب نے مجھے بتایا: جب اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ قبائل عرب کے سامنے اپنے آپ کو پیش کریں تو آپ ﷺ میرے اور ابو بکر کے ساتھ منٰی کی طرف روانہ ہوئے جہاں عربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ان سے ملے ، وہ اچھے اعمال کرنے اور عربوں کے شجرہ نسب جاننے کی وجہ سے مشہور تھے۔۔۔۔ تب پھر ہم ایک اور مجلس کی جانب بڑھے جو کہ اچھے اور معزز لوگوں کی مجلس تھی۔ ابو بکر آگے بڑھے اور ان سے ملے اور کہا: "آپ کون ہیں؟"، انہوں نے کہا:"بنی شعبان ابن ثعلبہ"۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی جانب مڑے اور کہا:" میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ یہ بہترین لوگ ہیں"۔
لہٰذا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ صرف اس بات سے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں گئے تھے کہ وہ تو مسلمان ہو گئے ہیں جیسا کہ آج کے دور میں اکثر معززین کا رویہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور حج و عمرہ کے لیے جاتے ہیں لیکن اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت دنیا کے حصول اور اپنے بیوی بچوں کے "مستقبل" کو محفوظ بنانے میں لگا دیتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا سب کچھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے لگا دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لیے اپنی دولت میں سے کچھ نہیں رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کئی صحابہ کی رہائی کے لیے تاوان ادا کیے جن کو ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے قریش کے مظالم کا سامنا تھا۔ انہوں نے ایسے خرچ کیا کہ جب ان کی موت واقع ہوئی تو انہوں نے کوئی درہم و دینار نہیں چھوڑا تھا جبکہ وہ اس وقت خلیفہ رسول ﷺ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ فرمان لاگو ہوتا ہے،
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
"اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہ نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے"(القصص:77)
یقیناً معاشرے کے متعلق آگاہی اور معلومات اور معاشرے میں ان کی عزت انہیں اُس معاشرے کا حقیقی معنوں میں اثرو رسوخ رکھنے والا بنا دیتا ہے۔ اسلام کی بنیاد پر رائے عامہ بنانا اُن کی استعداد میں ہوتا ہے۔ لہٰذا معززین کا یہ کردار ہونا چاہیے کہ وہ کرپٹ نظام کو اسلام کے طرز زندگی سے تبدیل کرنے کے لئے رائے عامہ بنائیں جو انتہائی ضروری ہے اور اُس ریاست کو قائم کریں جہاں اسلام کی بنیاد پر حکمرانی ہو۔ یہ معززین کی ذمہ داریوں میں سے پہلی ذمہ داری ہے کیونکہ اگر وہ لوگوں کو پکاریں گے تو لوگ اُن کی سنیں گے اور اُن کی پیروی کریں گے۔ اس کے علاوہ معززین کے پاس یہ صلاحیت بھی ہوتی ہے کہ وہ اہل قوت تک رسائی حاصل کریں اور انہیں متاثر کریں جو ظالم حکمرانوں سے اقتدار چھین کر نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے خلافت کے سچے داعیوں کے حوالے کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اگرچہ وہ اہل نصرۃ میں سے نہیں ہوتے لیکن انہیں اہل نصرۃ پر اثرو رسوخ حاصل ہوتا ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت کی پیروی کریں کہ وہ اہل نصرۃ کو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے والے داعیوں کی حمایت کے لیے راضی اور مجبور کریں ۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی نہیں کرتے تو وہ گناہگار ہوں گے کیونکہ اسلام کے لیےنصرۃ طلب کرنا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے جیسا ہے، بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ یہ نصرۃ اسلام اور اس کی ریاست کے قیام کے لیے مانگی جاتی ہے جو صرف اللہ کی راہ میں جہاد کی ادائیگی کی ہی ذمہ دار نہیں ہوتی بلکہ اسلام کے تمام فرائض کی ادائیگی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ان معززین کا یہ ذمہ داری ادا نہ کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی سے ہٹ کر ہونے والی حکمرانی اور اس کے نتیجے میں امت کے زوال پر مطمئن ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس کوتاہی میں ان لوگوں پر سخت گناہ ہے جو شریعت کے نفاذ میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور ان کے کردار ادا نہ کرنے کی وجہ سے امت پر تباہی و بربادی مسلط رہتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللَّهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ وَكَانَ عَهْدُ اللَّهِ مَسْئُولًا
"اس سے پہلے تو انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھیرے گے اور اللہ سے کیے وعدے کی باز پرس ضرور ہوگی"(الاحزاب:15)
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ* وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
"اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دوبدو مقابل ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا۔ اور جو شخص اِن سے اُس وقت پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنٰی ہے۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا ، وہ بہت ہی بری جگہ ہے"(الانفال:16-15)