بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 23 جون 2017
۔ وہ دن کس قدر خوشی کا دن ہوگا جب ہم میدان جنگ میں بھارت کو بدترین شکست دے کر مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرائیں گے؟!
۔ پاک-افغان کشیدگی 'اکھنڈ بھارت' منصوبے کو تقویت فراہم کرتی ہے
۔ کشمیر کی آزادی مذاکرات کے جال کے ذریعے نہیں میدان جنگ میں حاصل ہو گی
تفصیلات:
وہ دن کس قدر خوشی کا دن ہوگا جب ہم میدان جنگ میں بھارت کو
بدترین شکست دے کر مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرائیں گے؟!
18 جون 2017 کو لندن اوول کے مقام پر پاکستان نے چیمپئن ٹرافی میں بھارت کے خلاف شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے بعد دنیا بھر میں موجود پاکستان کے مسلمانوں نے جشن منانا شروع کردیا جس میں مقبوضہ کشمیر کے ہمارے مظلوم بھائی اور بہنیں بھی شامل ہیں جو آج بھارتی ظلم و استبداد سے آزادی اور الحاق پاکستان کے جذبے سے سرشار ہیں۔ اس کامیابی نے خوشیوں کو اس لیے بھی دوبالا کردیا کہ ایک نئی، غیر تجربہ کار ٹیم جو کہ سٹار پاور سے محروم ہے، کرکٹ کے مضبوط ڈھانچے کی عدم موجودگی، کمزور مینجمنٹ، بین الاقوامی کرکٹ کا کم تجربہ اور اس مقابلے کی سب سے کم درجے کی ٹیم ہونے کے باوجود ناممکن کامیابی کو ممکن بنادیا۔ رمضان کے مہینے میں پاکستان کے مسلمانوں کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بھر پور حمد و ثنا کرنا اور اس کامیابی کے بعد ان کی ٹیم کا میدان میں باجماعت سجدہ کرنا پاکستان کے مسلمانوں میں مضبوط اور گہرے اسلامی جذبات کی نشاندہی کرتا ہے اوریہ کہ وہ ایک مضبوط اسلامی قیادت چاہتے ہیں۔
اس کامیابی کی بہت زیادہ خوشی ہماری افواج میں بھی تھی کیونکہ اس ٹیم کی جسمانی فٹنس کو بہترین بنانے کے لیے مئی 2017 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ایک کیمپ لگا یا گیا تھا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ فوج جس نے 15لڑکوں کی کرکٹ ٹیم کی جسمانی صحت کو بہتر بنا کر اُسے اِس قابل کردیا کہ انہوں نےبھارت سمیت دنیا کی طاقتور ترین ٹیموں کو شکست دی، وہ فوج مہینوں سے سرحد پر بھارت کی جارحیت کا سامنا کررہی ہے جبکہ موجودہ سیاسی و فوجی قیادت انہیں بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب نہیں بلکہ "تحمل" کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ بھارت کے خلاف شدید جذبات نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیم کو عمرہ پر بھیجنے کا اعلان کرنے پر مجبور کیا جو بھارت کے خلاف اس "تحمل" کی پالیسی کے معمار ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے آرمی چیف کے بیان سے مطلع کیا کہ، " ٹیم ورک کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، کسی بھی خطرے کے خلاف پاکستان ایک ٹیم ہے" اور ایک ٹویٹ میں اس بیان میں یہ اضافہ کیا کہ، "متحد ہو کر ہم دشمنوں کی جانب سے کھڑے کیے گئے تمام خطرات سےپاکستان کا دفاع کریں گے"۔لیکن آگر باجوہ صاحب اپنے ان الفاظ کی حرمت کا پاس رکھنے والے ہوتے تو ہماری افواج میدان جنگ میں بھارت کو کب کا بچھاڑ چکی ہوتیں۔ لیکن باجوہ صاحب تو ہمارے اسلامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بھارت "اکھنڈ بھارت" کی راہ پر آگے بڑھتا جارہا ہے اور و ہ فوج اور پوری قوم کو "تحمل" کا مظاہرہ کرنے کا درس دیتے ہیں۔
اگر کھیل کے میدان میں بھارت کو شکست دینا ہماری افواج کے لیے اس قدر خوشی کا باعث ہوتا ہے اور اس ٹیم کا کپتان اس قدر معزز ہوجاتا ہے، تو اس فوج اور اس کی قیادت کے متعلق کیا خیال ہے جو مقبوضہ کشمیر کو آزاد اور بھارت کو فتح کرے گی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام
"میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ کردیا ہے: ایک وہ جو ہندوستان کو فتح کرے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰ بن مریم کے ساتھ ہوگا"(احمد، النسائی)۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي فَإِنْ أُقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ أَرْجِعْ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ
" رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ہند کی فتح کا وعدہ کیا۔ اگر میں اس وقت موجود ہوا تو میں اپنی جان اور مال اس میں لگا دوں گا۔ اگر میں مارا گیا تو میں بہترین شہداء میں سے ہوں گا، اور اگر میں واپس آیا تو میں ابوہریرہ (گناہوں سے) آزاد ہوگا" (احمد، النسائی، الحاکم)۔
تو کیا ایسے مرد موجود ہیں جو میدان جنگ میں کامیابی و عزت کی خاطر ہماری قیادت کرنے اور"تحمل" کی زنجیروں کو کاٹ ڈالنے کے لیے راضی ہوں ، اور ایمان والوں کے دل خوشیوں سے بھر دیں؟
پاک-افغان کشیدگی 'اکھنڈ بھارت' منصوبے کو تقویت فراہم کرتی ہے
19 جون 2017 کو ایک طیارہ طبی ضروریات میں استعمال ہونے والےپودوں کو لے کر افغانستان سے بھارت روانہ ہوا۔ اس سامان کا وزن 60 ٹن تھا۔ اس پرواز کے ذریعے بھارت اور افغانستان کے درمیان ہوائی راستہ کھول دیا گیا۔ یہ ہوائی راستہ پاکستان کی فضائی حدود سے تو گزرتا ہے لیکن زمینی رستےکے اوپر سے نہیں گزرتاجو اکثر سیاسی کشیدگی کا شکار رہتا ہے۔ افغانستان اپنی بیرونی تجارت کے لیے پاکستان کی کراچی بندرگاہ پر انحصار کرتا ہے اور بھارت سامان بھیجنے کے لیے پاکستان کا راستہ استعمال تو کرسکتا ہے لیکن اس کے ذریعے محدود پیمانے پر سامان بھارت بھیج سکتا ہے اور بھارت سے کوئی سامان اس زمینی راستے سے درآمد نہیں کرسکتا۔ سرحدی گزرگاہیں اکثر بند ہوجاتی ہیں جب پاکستان اور افغان فورسز کا سرحدوں کے تعین پر ٹکراؤ ہوجاتا ہے اور افغان کاشتکار اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ سامان بھیجنے کا کوئی اور طریقہ نہ ہونے کہ وجہ سے ان کے پھل خراب جاتے ہیں۔
موجودہ پاک افغان کشیدگی کا فائدہ بھارتی حکمرانوں کو پہنچ رہا ہے جن کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ کابل میں شمالی اتحاد پر مشتمل حکومت کے مزید قریب ہوجائیں۔ مسلمانوں کے درمیان اختلافات نے ہمیشہ کفار کو فائدہ پہنچایا ہے۔ لوگ استعماری طاقتوں کے "تقسیم کرو اور حکمرانی کرو" پالیسی کے خطرات سے آگاہ ہیں۔ موجودہ کرپٹ اور غیر اسلامی حکومتوں میں بھی اگر مسلمان کسی بھی اچھے مقصد کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔ جب پاکستان و افغانستان کے مسلمانوں نے مل کر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف جدوجہد کی تو وہ نہ صرف سوویت یونین کو واپس جانے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہے بلکہ انہوں نے اس کامیابی کے ذریعے بھارت کو بھی یہ پیغام بھیجا کہ وہ اپنی شرارتوں سے باز رہے۔ لیکن اب افغانستان و پاکستان میں موجود امریکی ایجنٹ حکومتوں نے کشیدگی کو ہوا دی ہے اور امریکی صلیبی افواج کو سکون کا سانس ملا ہے اور بھارت نے اپنی جارحانہ کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔
صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو پاش پاش کردے گی۔ اپنے قیام کے پہلے دن سے خلافت مسلمانوں کو تقسیم کرنے والی استعماریوں کی بنائی سرحدوں کو ختم کرنے کے لیے کام کرے گی۔ خلافت اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرے گی اور مسلمانوں کو ایک خلیفہ کی حکومت کے نیچے جمع ہونے کے لیے پکارے گی۔ وہ مستقل اور استقامت کے ساتھ پوری امت مسلمہ کو اکٹھا کرنے کے لیے کام کرتی رہے گی یہاں تک کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی اور باوسائل ریاست بن جائیں۔ ایک امت بن کے رہنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے،
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ
"اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کرمضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو"(آل عمران:103)
اور تقسیم ہونا بہت بڑا گناہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ سزا دیتے ہیں،
وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ"
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ نزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی"(الانفال:46)
کشمیر کی آزادی مذاکرات کے جال کے ذریعے نہیں میدان جنگ میں حاصل ہو گی
بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے 21 جون 2017 کو بھارت میں شائع ہونے والے ایک انٹرویومیں کہا کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے لوگوں کے امن اور خوشحالی کے لیے کشمیر کے بنیادی مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرکٹ کے تعلقات چلتے رہنے چاہیے۔ جناب عبدالباسط نے کہا کہ، "میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کرکٹ اور دوسرے کھیل کھیلتے رہنا چاہیے۔۔۔ اگر ہم کھیلوں کے تمام تعلقات اُس وقت تک منقطع کردیں جب تک ہم اپنے مسائل حل نہ کرلیں تو یہ عقلمندانہ بات نہیں ہو گی۔ یہ مواقع بہتر ماحول کو پیدا کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور ہمیں ان کی ضرورت ہے"۔
باجوہ-نواز حکومت کشمیر پر مذاکرات کی بات کررہی ہے جبکہ محض پاکستان کی جیت کی خوشی منانے کی الزام میں کئی لوگوں کی گرفتاری اس بات کی یاددہانی ہے کہ ہندو پاکستان اور مسلمانوں سے کس قدر نفرت کرتا ہے۔ باجوہ-نواز حکومت اس وقت امن کی بھیک مانگ رہی ہے جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو قتل اور زخمی کررہا ہے، لائن آف کنٹرول پر ہمارے علاقوں پر بمباری کررہا ہے، دریاوں کے پانی کو روکنے کی دھمکی دے رہا ہے اور کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کے ذریعے ہمارے ملک میں افراتفری پیدا کررہا ہے۔ باجوہ-نواز حکومت مذاکرات کی بھیک مانگ رہی ہے جبکہ ہندو کی جانب سے ہم نے امن کا مظاہرہ صرف اسی وقت دیکھا ہے جب صدیوں تک وہ اسلام کی حکمرانی میں رہے۔ اور باجوہ-نواز حکومت ہندو ریاست پر اعتماد کررہی ہے جس نے تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کے قتل عام اور عصمت دریوں کو یقینی بنایا، 1992 میں بابری مسجد کو شہید کیا اور 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا
"یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے"(المائدہ:82)۔
ہندو مشرکین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اورایسا کرنا ہمارے لیے نقصان کا باعث ہی ہوگا کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے۔ جب وہ امن کی بات کررہے ہوتے ہیں تو اسی دوران خنجر بھی چھپائے بیٹھے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اسی لیے تو ان کے متعلق کہا جاتا ہے، "بغل میں چھری اور منہ سے رام رام"۔ اگر وہ اعتبار کے لائق ہوتے تو ہمارے آباؤاجداد کیوں پاکستان کے قیام کے لیے عظیم الشان قربانیاں دیتے؟ اور کیوں ستر سال کی براہ راست ہندو حکمرانی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اب بھی یہی نعرے لگا رہے ہیں:"کشمیر بنے گا پاکستان"۔ یقیناً ہم کشمیر کو ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے اگر ان کے ساتھ مذاکرات کے جال میں پھنسے۔ اور یقیناً مسلم علاقوں کی آزادی صرف اور صرف ہماری افواج کے جہاد کے ذریعے سے ہی ممکن ہے اور اس جہادی امت کی تاریخ میں ایسا ہی ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے۔