بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 28 جولائی 2017
- براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ پاکستان پر مغرب کے کنٹرول کی نشان دہی کرتا ہے
- اے پاکستان کے حکمرانوں! مقبوضہ مسلم علاقوں کے لیے ایک ہی بار "ڈو مور" کر کے انہیں آزاد کراؤ
- فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کے ساتھ حقیقی اظہار یکجہتی ہماری افواج کو حرکت میں لانے کا تقاضا کرتا ہے
تفصیلات:
براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ پاکستان پر مغرب کے کنٹرول کی نشان دہی کرتا ہے
17 جولائی 2017 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کچھ اعدادو شمار جاری کیے جس کے مطابق 17-2016 میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں 4.6 فیصد ہوا۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام ملکیت کی آزادی کے تصور پر کھڑا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں کا ایک مخصوص گروہ ،جس کے پاس بہت زیادہ سرمایہ ہوتا ہے، دنیا کے وسائل کے ایک بڑے حصے پر اجارہ داری رکھتا ہے۔ سرمایہ داریت "آزادی" کو بہت مقدس قرار دیتا ہے اور کسی بھی فرد پر سرمائے یا اشیاء کی ملکیت کی کوئی حد مقرر نہیں کرتا۔ سرمایہ داریت اس بات میں بھی کوئی تفریق نہیں کرتی کہ انسانوں کی کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں اور باقی ضروریات عیش و آرام کے زمرے میں آتی ہیں جس کے نتیجے میں وسائل کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا جو حل سرمایہ داریت کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے وہ یہ کہ غیر محدود ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے۔حقیقت میں بنیادی ضروریات غیر محدود نہیں ہیں البتہ عیش و آرام کی ضروریات غیر محدود ہیں۔ اس لیے وسائل کی تقسیم کوہدف بنانے کی جگہ پیداوار کو ہدف بنانے سے طاقتور اور کمزور کے درمیان وسائل تک رسائی کی غیر منصفانہ دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مغرب میں وسائل کا شدید ارتکاز پیدا ہوگیا ہے کہ چند لوگوں کے پاس تقریباً تمام وسائل جمع ہوگئے ہیں۔ سرمایہ داریت کی وجہ سے تیسری دنیا کی صورتحال مغرب سے بھی بد ترین ہوگئی ہے۔ مغربی استعماری تیسری دنیا کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ زیادہ آبادی اور محدود وسائل کے مسائل کا شکار ہے۔ لہٰذا مغربی استعماری طاقتیں اپنے استعماری اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو "محدود" وسائل کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کسی بھی ملک کی حقیقی استعداد گھٹ جاتی ہے جبکہ استعماری طاقتوں کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔
باجوہ-نواز حکومت فکری دیوالیہ ہے جس میں اس کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی شامل ہے۔ سرمایہ داریت کی خرابیوں اور استعماری طاقتوں کے شیطانی عزائم کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس سے معیشت بہتر ہوگی جبکہ حقیقت میں اس طرح مقامی پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے، منافع زر مبادلہ کی صورت میں ملک سے باہر جاتا ہے اور انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹس کے تحت ٹیکنالوجی کا فرق برقرار رہتا ہے۔
اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ استعماری اداروں کو ملک کی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے موافق حالات فراہم کیے جائیں۔ اسلام وسائل کی تقسیم کو معاشی مسئلہ قرار دیتا ہے نا کہ ان کی پیداوار کو۔ لہٰذا معیشت کے حوالے سے جو احکام اسلام دیتا ہے ان کی بنیاد تین اصولوں پر ہے: ملکیت حاصل کا طریقہ کار، ملکیت کو خرچ یا استعمال کرنا اور لوگوں کے درمیان وسائل کی تقسیم۔ یہ وہ نقطہ نظر تھا جس نے مسلم علاقوں کو اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق بغیر کسی بیرونی مداخلت کے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ یہی وہ نقطہ نظر تھا جس نے امت کو افراط زر کے مسئلے سے محفوظ رکھا اور معاشی استحکام پیدا کیا۔ یہی وہ نقطہ نظر تھا جس نے قحط سالی کے دور میں بھی انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ صرف نبوت کے طریقے پر خلافت کی واپسی ہی ایک بار پھر دنیا کی اقوام کے لیے دوبارہ مثال قائم کرے گی جو مغرنی استعماریت کا شکار ہیں۔
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَ تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
" اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا"(القصص:77)
اے پاکستان کے حکمرانوں! مقبوضہ مسلم علاقوں کے لیے ایک ہی بار
"ڈو مور" کر کے انہیں آزاد کراؤ
24 جولائی 2017 کو لاہور کے فیروز پور روڈ پر عرفہ کریم ٹاور کے پاس ایک خوفناک بم دھماکہ ہوا جس میں 9 پولیس والوں سمیت 26 افراد جاں بحق جبکہ 58 افراد زخمی ہوگئے۔ یہ بات اب کوئی حیران کُن امر نہیں رہی کہ جب بھی امریکہ کا کوئی سیاسی و فوجی اہلکار پاکستان کے دورے پر آتا ہے یا امریکہ بیان کے ذریعے کوئی مطالبہ کرتا ہے تو اس قسم کا خوفناک حادثہ بھی ضرور ہوتا ہے۔ اس بار لاہور میں ہونے والا یہ بم دھماکہ اس وقت ہوا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ افغانستان میں امریکی افواج اور ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل جون ڈبلیو نیکولسن سے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کی نگرانی میں ملاقات کررہے تھے۔ ڈیوڈ ہیل اسرائیل ، مصر اور لیونٹ کے لیے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ جبکہ اسرائیل – فلسطین معاملات کے لیے ڈائریکٹر رہا ہے۔ امریکہ کے "ڈومور" کے مطالبے پر باجوہ نے غلامانہ اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واشنگٹن کو یقین دلایا کہ "پاکستان مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کرتا رہے گا"۔
عزت و وقار مضبوط موقف اور استقامت پر ملتا ہے جبکہ دشمنوں کے سامنے "تحمل" اور خود سپردگی کامظاہرہ کرنا ذلت و رسوائی کا باعث ہوتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ پاکستان آرمی افغانستان میں امریکی افواج کو زبردست قبائلی مزاحمت سے بچانے کے لیے امریکی "ڈومور" کے مطالبات سے نفرت کرتی ہے۔ کئی افسران نے احکامات کو مسترد کیا ہے اور جلد ریٹائر منٹ اور ایسی تعیناتی کا مطالبہ کیا جہاں وہ اس گناہ سے بچ سکیں۔ جہاں تک ایک خاص وقت مقررہ پر بم دھماکوں کا تعلق ہے تو افواج پاکستان جانتی ہیں کہ یہ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اور کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کی کارستانی ہے کیونکہ ایسے دھماکوں میں ہمیشہ مسلمانوں کا خون بہتا ہے اور اور "ڈومور" کے مطالبات بھی ساتھ ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بے شرم باجوہ-نواز حکومت مسلسل "ڈومور" کے احکامات پر عمل کررہی ہے جبکہ دشمن کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کررہی جس کی ابتداء امریکی و بھارتی سفارت کاروں سے ہوتی ہے جو اپنے خفیہ ماسٹر مائینڈز اور کرائے کے قاتلوں سے ہماری شاہراہوں کو ہمارے ہی خون سے نہلا رہے ہیں۔
-
بہادر اور با صلاحیت افواج کوصرف ایک ہی چیز کی کمی ہے اور وہ ہے مخلص اور فیصلہ لینے والی قیادت کا۔ ایک مخلص قیادت صرف پاکستان، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر ہی کی نہیں بلکہ تمام مسلم علاقو ں کے تحفظ کے لیے "ڈو مور" کرے گی جس میں مقدس الاقصیٰ اور بیت المقدس بھی شامل ہے۔ افواج کو موجودہ حکمرانوں کو ہٹا کر ایک خلیفہ راشد کو آگے لانا چاہیے جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرے ، ہمارے دشمنوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرے اور امت کو ایک ریاست تلے جمع ہونے کے لیے پکارے۔ اس وقت تک ہم پر ایسے لعنتی حکمران مسلط ہوتے رہیں گے جو ہمارے دشمنون کو گلے لگائیں گے جبکہ ہمارے علاقے فتنے کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنْ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ "اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہیے اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے"(التوبۃ:123)
فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کے ساتھ حقیقی اظہار یکجہتی
ہماری افواج کو حرکت میں لانے کا تقاضا کرتا ہے
مسجد الاقصیٰ اور فلسطین کے مسلمانوں کی شدید بے حرمتی پر یہودی وجود کے خلاف پاکستان کے مسلمانوں کے شدید غم و غصے کے باوجود باجوہ-نواز حکومت نے خود کو صرف بیانات کی حد تک محدود رکھا جبکہ یہ وقت بھر پور اور مضبوط عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ 25جولائی 2017 کو وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ "حکومت پاکستان فلسطین کے عوام اور حکومت کے انصاف پرمبنی بنیادی حقوق اور عزت کے مطالبے پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہے"۔ باجوہ-نواز حکومت کس اظہار یکجہتی کے بات کررہی ہے؟ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کے مسلمان اللہ کی راہ میں مسجد الاقصیٰ کی آزادی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں تو حقیقی اظہار یکجہتی ہماری افواج کو حرکت میں لانے کا تقاضا کرتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے وائس چیف آف آرمی اسٹاف لیٹیننٹ جنرل سراتھ چند نے پاکستان کی دفاعی صنعت کی تعریف کرتے ہوئے 25 جولائی کو یہ کہا "جہاں تک دفاعی پیداوار کا تعلق ہے تو شاید پاکستان کی صلاحیت ہمارے ملک سے بہتر ہے"، تو حقیقی یکجہتی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے ہتھیار فلسطین کی حمایت میں استعمال کریں۔ حقیقی اظہار یکجہتی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہودی وجود کو ختم کردیا جائے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ
"اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرنا ضروری ہے"(الانفال:72) ۔
موجودہ صورتحال میں جبکہ مسلمانوں پر مسلط حکمرانوں نے انہیں ذلت و رسوائی کی گہری کھائیوں میں گرا دیا ہے کہ پاکستان آرمی، جو دنیا کی بہترین آرمی ہے، کے لیے وقت آنہیں گیا کہ وہ اللہ کے دین کی حمایت اور فلسطین کے مسلمانوں اور مسجد الاقصیٰ کی حمایت میں حرکت میں آئے جس کی دن رات بے حرمتی کی جاتی ہے یہاں تک کہ اس میں نماز پڑھنے سے روک دیا جاتا ہے؟ کیا پاکستان آرمی کے لیے وقت نہیں آگیا کہ وہ فلسطین ،پاکستان اور پوری امت مسلمہ کی پکار کا جواب دے؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ وہ حرکت میں آئیں اور مسجد الاقصیٰ کو آزاد کرائیں اور یہودی وجود کا پورے فلسطین سے خاتمہ کردیں ؟!
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
"اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جبکہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں۔ اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بلاشبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے"(الانفال:24)