الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان  نیوز ہیڈ لائنز 4 اگست 2017

 

۔ نبوت کے طریقے پر خلافت کے علاوہ کوئی حقیقی تبدیلی نہیں ہے

- مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جبکہ دشمنوں کے لیے سرحدیں کھولی  جارہی ہیں

- ہندو ریاست ، جو چھوٹے چھوٹے مجاہد گروہوں سے سخت خوفزدہ ہے، کا کیا حال ہوگا جب وہ مسلم افواج کا سامنا کرے گی؟

 

تفصیلات:

نبوت کے طریقے پر خلافت کے علاوہ کوئی حقیقی تبدیلی نہیں ہے

 

یکم اگست 2017 کو پاکستان مسلم لیگ-ن کے شاہد خاقان عباسی نے ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے عباسی صاحب  سے حلف لیا۔ اس سے پہلے اُسی دن قومی اسمبلی کے اراکین نے شاہد خاقان عباسی کو نااہل کیے گئے وزیر اعظم نواز شریف  کی جگہ 221 ووٹوں  سے نیا وزیر اعظم پاکستان منتخب کیا تھا۔

 

مسلمانوں نے ایک بار پھر اس جمہوریت کا مشاہدہ کیا جس میں ایک کرپٹ حکمران کو دوسرے کرپٹ حکمران سے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ یقیناً پاکستان میں نافذ ہونے والا قانونی نظام برطانوی راج کی چھوڑی ہوئی نشانی ہے  جو کہ حقیقی انصاف  فراہم نہیں کرتا بلکہ عوامی رائے عامہ کو تبدیل یا منظم  کرنےیا  دو گروہوں کے درمیان معاملات کو ختم کرنے کے لیےجرگے کی طرح کام کرتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی اس عدالتی و قانونی نظام نے ایک ایسا فیصلہ دیا ہے  جس کے ذریعے ادارے کی ساکھ کو کسی حد تک برقرار رکھنے اور عوامی رائے عامہ اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی خواہشات کو کسی حد تک مطمئن کرنے  کی کوشش کی گئی ہے جبکہ اسی فیصلے کے ذریعے نواز شریف کو یہ موقع بھی دیا گیا ہے کہ وہ آنے والے مہینوں میں نیب میں   شروع ہونے والے مقدمات میں خود کو بے گناہ ثابت کرے اور اسی دوران اپنے بااعتماد ساتھی عباسی کو اپنی کرسی پر برجمان کرادے۔  اس کے علاوہ اس فیصلے میں لندن کے پارک لین فلیٹس  کی ملکیت یا پانامہ پیپرز کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا بلکہ مبینہ املاک کا ذکر کیا گیا ہے۔  موجودہ نظام نے نواز شریف کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے علاوہ کسی بھی دوسرے حوالے سے   سیاسی کردار ادا کرتا رہے جیسے کہ سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنا، جماعت کے اجلاسوں میں شرکت کرنا اور پاکستان مسلم لیگ-ن کو پردے کے پیچھے رہتے ہوئے ایک" گاڈ فادر" کی طرح چلانا شامل ہے۔

 

جمہوریت کے ذریعے حقیقی تبدیلی کی امیدیں ہر بار مایوسی وناامیدی پر ہی ختم ہوتی ہیں۔ یقیناً جمہوریت میں کسی تحریک یا ہنگامے کے ذریعےتبدیلی لانے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ اُبلتے پانی سے پیاس بجھانے کی کوشش کرنا ،بے شک ابلتے پانی کاشورتو بہت ہوتا ہےلیکن پیاسا اس سے اپنی پیاس نہیں بجھا سکتا ۔  آخر جمہوریت  کیسےحقیقی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہےجو کہ بذاتِ خودمالیاتی کرپشن سمیت ہر قسم کی کرپشن کی وجہ ہےاور اِس کا کرپشن کی وجہ ہونا اگست 1947 میں قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک کی ستر سالہ تاریخ سے واضح طور پر ثابت ہے؟  جمہوریت کا پرچار کرنے والے ہمیں دلاسا دینے  کے لیے اس نظام سے ہی  امیدیں دلاتے رہتے ہیں لیکن ہم ہر بار ان کے ہاتھوں ڈسےجاتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ پوری مسلم دنیا میں ، مراکش سے شروع کر کے ترکی سے ہوتے ہوئے  مشرق میں انڈونیشیا تک یہی صورتِ حال ہے ؟

 

ہم ہمیشہ ہی اُن لوگوں سے ڈسے جائیں گے جو جمہوریت کی طرف بلاتے ہیں چاہے ان کا تعلق حکمران جماعت سے ہو یا اس جماعت سے جو موجودہ حکمرانوں کی جگہ حکمران بننےکی خواہش رکھتی ہے۔ جو بھی جمہوریت کے ذریعے حکمرانی کرتا ہے وہ اپنے رب اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی نافرمانی کر کے زمین پر کرپشن اور فسادپھیلارہا ہے۔ جب جمہوریت کے آئین اور قانون کے ذریعے حکمرانی کی جاتی ہےتو حکمران ہمیشہ متکبرانہ انداز میں اُن احکامات کونظر اندازکردیتے ہیں جن کے کرنے کا اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور کھلم کھلا وہ اعمال کرتے ہیں جن کو اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کے لیے کوئی حقیقی تبدیلی آ ہی نہیں سکتی چاہے ہم پاکستان میں مزید ستر سال  بھی جمہوریت کو وقت دے دیں ۔ نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا میں کہیں بھی جمہوریت کے ذریعے کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی۔ یقیناً اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے یہ کہہ کرہمیں خبردار کیا ہے کہ،

 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ

 "اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں"(البقرۃ:11) 

 

مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں

جبکہ دشمنوں کے لیے سرحدیں کھولی جارہی ہیں

 

دواگست 2017 کو پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان میں افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سیکیورٹی کی صورتحال اور بارڈر مینجمنٹ کے موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب کہ دومسلم ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہیں جس کی وجہ سے کئی خوفناک جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔  یہ ملاقات راولپنڈی میں 11 مئی کو پاکستان اور افغانستان کی افواج کے آپریشنز چیفس کی ملاقات کا تسلسل تھی۔   افغانستان پر مشرف کے "یو ٹرن" سے قبل پاکستان و افغانستان کے مسلمانوں کے درمیان مضبوط تعلقات تھے۔ یہ تعلقات اور معاونت افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کو ختم کرنے  اور علاقائی معاملات میں بھارتی بالادستی کی خواہش کو محدود رکھنے میں نہایت اہم تھے۔ لیکن مشرف کے "یو ٹرن" کے بعد امریکہ اور بھارت مسلمانوں کے درمیان موجود کشیدگی سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ امریکہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری افواج  امریکی قبضے کے خلاف کھڑی ہونے والی قبائلی مزاحمت سے لڑیں  جبکہ اسی دوران وہ پاکستان و افغانستان کے درمیان کشیدگی کو بڑھا رہاہے اور مسلمانوں کے درمیان موجود سرحدوں کو مضبوط کررہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ بھارت و افغانستان کے درمیان مضبوط تعلقات کے قیام کے لیے بھر پور معاونت فراہم کررہا ہے جبکہ پاکستان کو  "نارملائیزیشن" کی پالیسی پر چلاکر  بھارت کوآگے بڑھنے کا موقع بھی مہیا کررہا ہے۔  اس طرح بھارت خطے کی بالادست قوت بن سکتا ہے تا مسلمانوں اور چین دونوں پر نگاہ رکھ سکے۔

 

جب مسلمانوں کا خون مسلمانوں کے ہی ہاتھوں بہتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے جبکہ یہ خون صرف اور صرف افغانستان میں امریکہ و بھارت کی موجودگی کے خاتمے میں کامیابی کے حصول یا شہادت کی راہ میں ہی بہنا چاہیے۔ اس وقت پاکستان، افغانستان کی افواج کے ہتھیار اور استعمار کی قائم کی ہوئی  ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب موجود قبائلی جنگجوؤں کے ہتھیار ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہورہے ہیں جبکہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں یہ ہتھیار موجود ہیں ان پر لازم ہے کہ انہیں صلیبیوں اور ہندو مشرکین کے خلاف استعمال کریں جو 2001 سے مسلمانوں کی حرمات کو مسلسل پامال کررہے ہیں۔  آج فتنے کی آگ بھڑک رہی ہے جبکہ ابو ہریرہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

مَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ لَعَنَتْهُ الْمَلاَئِكَةُ

"جس کسی نے اپنے بھائی کی جانب ہتھیار اٹھایا تواس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں"(ترمذی)۔

 

  اور یہ فتنہ اس لیے پھیل رہا ہے کیونکہ پاکستان و افغانستان کے ظالم و جابر حکمران دن رات منکر کا حکم دیتے ہیں، خیر کے کاموں سے روکتے ہیں، اسلام کی حکمرانی کو مسترد کرتے ہیں اور ان لوگوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہیں جو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

كَلاَّ، وَاللَّه لَتَأْمُرُنَّ بالْمعْرُوفِ، وَلَتَنْهوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، ولَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدِ الظَّالِمِ، ولَتَأْطِرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْراً، ولَتقْصُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ قَصْراً، أَوْ لَيَضْرِبَنَّ اللَّه بقُلُوبِ بَعْضِكُمْ عَلَى بَعْضٍ، ثُمَّ لَيَلْعَنكُمْ كَمَا لَعَنَهُمْ

" اللہ کی قسم  یا تو تم امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر  کرو گے اور ظالم کا ہاتھ پکڑو گے اور اسے انصاف کی راہ پر چلنے اور سچائی پر جمے رہنے پر مجبور کرو گے ورنہ اللہ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا دے گا  اور تم پر لعنت فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان پر (بنی اسرائیل) لعنت کی تھی " (ابو داود ، ترمذی)۔

 

ہندو ریاست، جو چھوٹے چھوٹے مجاہد گروہوں سے سخت خوفزدہ ہے،

کا کیا حال ہوگا جب وہ مسلم افواج کا سامنا کرے گی؟

 

2 اگست 2017 کو ہزاروں  بھارتی پولیس اور افواج نے مقبوضہ کشمیر کے کچھ علاقوں کی ناقہ بندی کی۔ یہ ناقہ بندی  مجاہدین کے ایک کمانڈر اور دو شہریوں کی شہادت کے بعد کی گئی تا کہ مظاہروں کو روکا جاسکے۔ اس کے بعد  3 اگست 2017کو ہونے والی ایک جھڑپ میں دو بھارتی سپاہی ہلاک اور دو مبینہ مجاہدین شہید ہوگئے،جس کے بعد کشیدگی میں  بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔  پرانے سرینگرمیں رہنے والوں کو یہ حکم دیاگیا کہ وہ گھروں کے اندر رہیں اور کرفیو کی خلاف ورزی نہ کریں جبکہ اس دوران حکومتی فورسز  نے سڑکوں پر گشت کیا جنہیں لوہے کی ریزر باڑ سے بند کردیا گیا تھا۔ ایک مکینک گلزار احمد نے  سری نگر میں اپنے گھر سے فون کر کے یہ بتایا کہ "مجھے سپاہیوں نے کام پر جانے کی اجازت نہیں دی، وہ میرے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے"۔مزید مظاہروں کے خوف سے  حکام نے پرانے سر ینگر میں کرفیو نافذ کیا اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی تا کہ سیاسی کارکنوں کو بھارت کے خلاف مظاہرے منظم کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال سے روکا جاسکے۔

 

ایک سال قبل برہان وانی کی شہادت کے بعد سے ہندو ریاست کے ظلم و جبر سے آزادی کے حصول کے لیے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے خون سے  قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔  صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مسلم افواج ان  کی مدد کے لیے حرکت میں آئیں لیکن ابھی تک عام شہری اور چند مجاہد گروہ بھارتی افواج کا سامنا کررہے ہیں۔ آج مقبوضہ کشمیر کے پُرعزم مسلمانوں نے بزدل بھارتی افواج کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس بات کے لیے راہ ہموار کردی ہے کہ پاکستان کی افواج ان کی آزادی کے لیے حرکت میں آئیں۔  لیکن پاکستان میں آنے والی ہر سیاسی و فوجی قیادت نے مقبوضہ کشمیر کی ہندو ریاست سے آزادی کے لیے افواج پاکستان کو حرکت میں لانے کے مطالبے سے ہمیشہ منہ موڑا ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،

 

وَإِنِ ٱسْتَنصَرُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ فَعَلَيْكُمُ

"جب وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد طلب کریں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے"(الانفال:72)۔

 

 ہم مسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ اگر ہندو ریاست چند مجاہدین کے ہاتھوں سخت خوفزدہ ہے تو پھر اس کا کیا حال ہوگا جب کل خلیفہ راشد کی قیادت میں مسلم افواج کا وہ سامان کرے گی؟

Last modified onجمعہ, 11 اگست 2017 04:41

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک