بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 18 اگست 2017
۔ جمہوریت کے ذریعے انسانی قوانین کا مذاق بہت ہوگیا، مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر دوسری خلافت کی ضرورت ہے!
- صرف بیرونی مالیاتی امداد کو ہی نہیں بلکہ غیر ملکی ستعماری طاقتوں سے تعلق کو روکو
- اسلام نے اپنے شہریوں کی مذہبی آزادیوں کو اس طرح محفوط بنایا ہے جس کا مغرب نہ کبھی مقابلہ کرسکا اور نہ کرکسے گا
تفصیلات:
جمہوریت کے ذریعے انسانی قوانین کا مذاق بہت ہوگیا،
مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر دوسری خلافت کی ضرورت ہے!
ملک کے 71 ویں یوم آزادی کے موقع پر 14 اگست 2017 کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں پرچم لہرانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے صدرمملکت نے کہا، "یہ تاریخ کا جبر ہے کہ ہمارے مزاج سے مطابقت رکھنے والا نظام پورے طور پر برگ و بار نہ ہوسکا "۔ انہوں نے مزیدکہا کہ،" قیام پاکستان سے اب تک ہم مختلف نظام ہائے حکومت کا تجربہ کرچکے ہیں لیکن کیا سبب ہے کہ اس کے باوجود ان معاملات میں یکسوئی حاصل نہیں ہوسکی؟ "۔ انہوں نے کہا "ان دنوں بعض حلقوں کی جانب سے موجودہ نظامِ حکومت کی موزونیت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں، قومی معاملات پر غوروفکر قابل تحسین ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے ضروری ہے کہ معاملات کو درست تناظر میں دیکھا جائے"۔
ہمیشہ کی طرح صدر مملکت نے ایک مسئلے کی نشاندہی کی لیکن اس کا کوئی حل بیان نہیں کیا۔ وہ کیسے حل بیان کرسکتے ہیں جبکہ وہ خود اس مسئلے یعنی جمہوریت کی ساتھ وفادار اور اس کی دعوت دیتے ہیں؟ اس بات میں کوئی حیرانگی نہیں کہ "ہمارے مزاج سے مطابقت رکھنے والا نظام " موجود نہیں ہے۔ یہ استعماریوں کامنصوبہ تھا اور انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلامی امت کبھی بھی اسلام کی حکمرانی میں زندگی نہ گزارسکیں۔ 1857 کے جہاد کے بعد برطانوی استعمار اس بات سے شدید خوفزدہ تھا کہ مسلمان ہندوؤں کی حمایت سے برصغیر پر ایک بار پھر صدیوں طویل اسلام کی حکمرانی بحال کرلیں گے۔ لہٰذا برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت فرقہ واریت کی چنگاری سلگائی اور اسے ہوادی۔ پھر جب مسلمانوں نے عظیم قربانیوں کے بعد اپنا کچھ علاقہ ایک ریاست کی صورت میں واپس حاصل کر لیا ، جس کا قیام 1947 میں اسلام کی بنیاد پر لایا گیا تھا، تو استعماریوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہم کبھی بھی اسلام کی حکمرانی میں زندگی بسر نہ کرسکیں اور اس دن سے ہم پر انسانوں کے بنائے جمہوری قوانین کا طوق ڈال دیا گیا ہے جو آج کے دن تک ہماری گردنوں میں پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے معاملات میں یکسوئی حاصل نہیں کرسکےکیونکہ جس چیز ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ ،کو ہم اپنے دل کے قریب رکھتے ہیں، وہ ان قوانین سے ٹکراتے ہیں جو جمہوریت کے ذریعے بنائے اور ہم پر نافذ کیے جاتے ہیں۔
چاہے بنیادی جمہوریت ہو یا حقیقی یا سچی جمہوریت، یہ اکثریت کی رائے کی حکمرانی کا نام ہے۔ چاہے بنیادی جمہوریت ہو یا حقیقی یا سچی جمہوریت، اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے بنائے قوانین قرآن و سنت کے اوامر و نواہی سے ٹکراتے ہیں۔ جمہوریت صرف ہماری مشکلات اور مصائب میں تو اضافہ کرسکتی ہے جس سے ہمیں دنیا و آخرت میں خسارے کا سامنا ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى "جو میرے ذکر(قرآن) سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کے دن بھی ہم اس کو اندھا کرکے اٹھائیں گے"(طہ:124)۔ تو اس بات پر حیرانگی کیوں ہے کہ " بعض حلقوں کی جانب سے موجودہ نظامِ حکومت کی موزونیت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں"؟ اس کے علاوہ صدرمملکت یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ صرف"کچھ حلقے" یہ بات کررہے ہیں۔ خلافت کے داعی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان کے مسلمان مجموعی طور پر جمہوریت سے منہ موڑ رہے ہیں اور زوال ، جس کا سامنا ہم ستر سال سے کررہے ہیں ،سے نکلنے کے لیے وہ اسلام کو ایک ریاست و آئین کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔
صرف بیرونی مالیاتی امداد کو ہی نہیں بلکہ غیر ملکی ستعماری طاقتوں سے تعلق کو روکو
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 16 اگست 2017 کو پاکستان تحریک انصاف کی اس اپیل کو خارج کردیا جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن پارٹی کے لیےبیرون ملک سے حاصل ہونے والے پیسوں کی تفتیش پر کارروائی روک دے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو "آخری وقع" دیا کہ وہ 7 ستمبر تک اپنا مکمل مالیاتی ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے۔
کئی دہائیوں سے مقامی سیاسی جماعتوں پر غیر ملکی اثرورسوخ کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ غیر ملکی امداد ضمیر خرید لیتی ہے اور اس طرح سیاسی فیصلے غیر ملکی طاقتوں کی مرضی کے مطابق ہونے لگتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس مسئلے کو اس کے مکمل تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مسئلہ صرف سیاسی جماعتوں کے غیر ملکی طاقتوں سے روابط کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ سیاسی و فوجی حکمرانوں کا استعماری طاقتوں کے نمائندگان سے روابط اور تعلقات کا ہیں۔ صرف ہاتھ ملانے ، مسکراہٹوں کے تبادلے یا تصویر کشی کے ذریعے ہمارے معاملات پر غیر ملکی استعماری طاقتوں کو اثرورسوخ حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ غیر ملکی اثرورسوخ ہی ہے جس نے ستر سالوں سے پاکستان کو استعماری مفادات کا غلام بنایا ہوا ہے۔ شروع میں استعمار نے مقبوضہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک مملکت کے قیام کو برداشت کیا کیونکہ ان کے نقطہ نظر سے ایک چھوٹی ریاست پر اثرورسوخ حاصل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایوب خان کے زمانے سے امریکہ نے اس اثرورسوخ کے ذریعے پاکستان کو بھارت کے خلاف استعمال کیا تا کہ بھارت کو امریکہ اپنے کیمپ میں آنے پر مجبور کرسکے۔ بھارت کو اپنے کیمپ میں لانے کے لیے امریکہ نے پاکستان و بھارت کے درمیان محدود جنگیں، جن کے نتائج پہلے سے طے شدہ تھے، کروائیں یہاں تک کہ 1971 میں پاکستان کی تقسیم کو قبول کرلیا۔ اس کے بعد امریکہ نے سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے پاکستان کو استعمال کیا۔ اور پھر جب بھارت میں امریکہ مخالف کانگریس کی جگہ امریکہ پسند بے جے پی کی حکومت قائم ہو گئی تو امریکہ نے پاکستان کو مختلف طریقے سے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اب امریکہ افغانستان میں امریکہ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی مخالفت کرنے والی مسلم مزاحمت کو کچلنے کے لیے پاکستان کو استعمال کررہا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ ہمارے سیاسی و فوجی حکمرانوں کے غیر ملکی حکام سے روابط ہوتے ہیں چاہے وہ امریکی کانگریس مین ، سینیٹر، پینٹاگون اور دفتر خارجہ کے نمائندگان یا امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرلز ہی کیوں نہ ہوں۔
اصل مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے پاس نبوت کے طریقے پر ریاست خلافت نہیں ہے۔ حزب التحریر نے آنے والی ریاست خلافت کے آئین کی دفعہ 189 میں تحریر کیا ہے کہ "وہ ریاستیں جن کے ساتھ ہمارے کوئی معاملات نہیں یا استعماری ممالک جیسے برطانیہ، امریکہ اور فرانس یا وہ ممالک جو ہمارے علاقوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں جیسے روس۔ یہ ریاستیں ہمارے ساتھ حکماً متحارب(جنگی حالت میں) ہیں۔ ان کے حوالے سے ہر طرح کی احتیاط برتی جائے گی۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات استوار کرنا صحیح نہیں ہوگا"۔ اور اس دفعہ کی شق 4 میں لکھا ہے کہ "وہ ریاستیں جو ہمارے ساتھ عملاً حالت جنگ میں ہوں جیسے اسرائیل، ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے گا گویا ہماری اور ان کی جنگ ہورہی ہے اگرچہ ہمارے اور ان کے درمیان جنگ بندی ہو، اور ان کا کوئی شہری ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہوسکتا"۔
اسلام نے اپنے شہریوں کی مذہبی آزادیوں کو اس طرح محفوط بنایا ہے
جس کا مغرب نہ کبھی مقابلہ کرسکا اور نہ کرکسے گا
امریکہ کے سیکریٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن نے 16 اگست 2017 کو یہ الزام لگایا کہ پاکستان میں مذہبی آزادی جارحیت کا شکار ہے،جہاں توہین کی وجہ سے دو درجن سے زائد افراد سزائے موت کے منتظر ہیں یا عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ حکومت پاکستان نے احمدیوں (قایانیوں) کو محدود اور انہیں مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کیاہے۔ سیکریٹری ٹیلرسن نے 2016 کے لیے مذہبی آزادی کے حوالے سے امریکہ کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا، "پاکستان کے نئے وزیر اعظم سے بین المذاہب ہم آہنگی بڑھانے کی امید ہے۔امید ہے کہ نئے وزیر اعظم اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کام کریں گے"۔
مغرب قطعی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ مسلمانوں کو اُن لوگوں کے حوالے سے نصیحتیں کریں جو ریاست کی بنیادوں کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کی شہریت کو اختیار کرتے ہیں۔ اس بات کے باجود کہ اسلام اسلامی امت کے تصور کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے لیکن وہ اسلامی ریاست کی شہریت کے لیے اس کو بنیاد نہیں بناتا۔ لہٰذا سیکولر ریاست کے برخلاف اسلام ریاست کی شہریت کے حصول کے لیے یہ شرط نہیں لگاتا کہ ایک شخص ریاست کے عقیدے پر ایمان لائے بلکہ صرف ایک شرط لگاتا ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفادار رہے گا۔ ہر وہ شخص اسلامی ریاست کی شہریت رکھتا ہے جو اسلامی ریاست میں مستقل رہائش پزیر ہو چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ جو بھی شہریت رکھتا ہے وہ اسلامی ریاست کی رعایا ہے اور یہ وہ ہیں جن کے درمیان ریاست معاملات اور ان کے امور کی دیکھ بحال پر حکم جاری کرتے ہوئے کسی قسم کاامتیاز روا نہیں رکھتی۔ اسی وجہ سے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست سے باہر رہتے ہیں ان کے حقوق وہ نہیں ہوتے جو اسلامی ریاست کے مسلم یا غیر مسلم شہری کے ہوتے ہیں۔ اس کا اطلاق عیسائیوں، یہودیوں، مشرکین اور مرتدین جیسا کہ قادیانیوں (احمدی) پر ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ
"اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اپنی جائے امن تک پہنچ جائے۔ یہ اس لیے کہ یہ لوگ بے علم ہیں"(التوبۃ:6)۔
برصغیر پاک و ہند سے لے کر افریقہ تک اسلامی ریاست کا غیر مسلموں کے ساتھ سلوک کا امریکہ میں بسنے والی اصل مقامی لوگوں (ریڈ انڈینز) کے ساتھ مغرب کے سلوک کا موازنہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کس نے قتل عام کیا اور زندہ بچ جانے والوں کو انہیں کی زمین پر "محفوظ پناگاہوں" میں قید کردیا۔
اسکے علاوہ اسلام مذہب پر عمل کرنے کا موقع اس طرح فراہم کرتا ہے جس کا مظاہرہ سیکولر مغرب نے کبھی نہیں کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ
''دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں،یقیناً ہدایت گمراہی کے مقابلے میں واضح ہوچکی ہے"(البقرۃ:256)۔
جرمن مستشرق Sigrid Hunke نے اپنی کتاب 'عربوں کا سورج مغرب پر چمکتا ہے'میں کہا کہ، "عربوں نے مفتوح لوگوں کو اسلام قبول کرنےپر مجبور نہیں کیا تھا اور یہی رویہ عیسائیوں، پارسیوں اور یہودیوں کے ساتھ تھا جنہیں اسلام سے قبل بدترین اور خوفناک قسم کی مذہبی نفرت اور غیر رواداری کا سامنا تھا۔انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت تھی۔ مسلمانوں نے انہیں معمولی سا بھی نقصان پہنچائے بغیر اپنے گھر وں، عبادت خانوں میں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ کیا یہ مذہبی رواداری کے سب سے اعلیٰ مثال نہیں ہے؟ کیا تاریخ نے ان اعمال کو بیان کیا ہے؟ اور تاریخ میں ایسا کب ہوا ہے؟ "۔ اس کے مقابلے میں آج مغرب میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے سلوک کا موازنہ کریں جنہیں حجاب لینے، داڑھی بڑھانے، نماز پڑھنے اور روزے رکھنے سے روکا جارہا ہے۔