بسم الله الرحمن الرحيم
ذاتی دولت میں اضافے کے لئے ہماری کوششیں کہیں ہمیں
امت کے دکھوں کا مداوا بننے سے روک نہ دیں
تحریر: مصعب عمیر،پاکستان
اس وقت کہ جب مسلمانوں کے دشمنوں نے اپنی جارحیت میں اضافہ کر دیا ہے اوردوسری طرف اس جارحیت کے خلاف مسجد اقصیٰ، شام ، مقبوضہ کشمیر اور افغانستان کے مسلمان مزید سینہ سپر ہو چکے ہیں،ہماری مسلح افواج کے ہر آفیسر کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے دل کو ٹٹولے۔ اسے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ وہی امت کی نشاۃِ ثانیہ میں رکاوٹ دور کرسکتا ہےکیونکہ وہ قوت کا حامل اورنصرۃ فراہم کرنے کے قابل ہے۔ وہ اوراُس جیسے دوسرے لوگ جمود کی موجودہ صورتحال کو بدل سکتے ہیں ۔ وہ امت کو اس کے دشمنوں کی غلامی سے نکال کر اسے اپنے دشمنوں کے خلاف بالادست بنا سکتا ہے۔ تو اسے سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کیا بات ہے جس نے اس کو ماضی میں حرکت میں آنے سے روکے رکھا اور آج بھی ااس کے پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہے۔ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اُسے اِس ماحول کو اچھی طرح سے سمجھنا ہےجو آج فوج میں بنایا گیا ہے جس کا مقصدیہ ہےکہ تبدیلی اور حقیقی آزادی کے لیے حرکت میں آنے سے روکا جائے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین سے رہنمائی حاصل کرے تا کہ وہ امت اور ظالم استعماری قوتوں کے درمیان جاری شدید کشمکش کے دوران محض خاموش تماشائی ہی نہ بنا رہے۔ صرف اسی صورت میں ایک فوجی آفیسر ایسےمخلص محافظ کی طرح آگے بڑھ سکتا ہے جو اپنی امت کو شاندار کامیابی دلاتا ہے۔
آفیسرکو چاہئے کہ وہ اس حقیقت پر غور کرے کہ موجودہ گھٹن زدہ ظالمانہ ماحول خود سے پیدا نہیں ہوا ۔ اس وقت پوری دنیا پر مادہ پرست سرمایہ دارانہ آئیڈیا لوجی کا راج ہے جس نے زندگی میں دنیا وی مال ومتاع کے حصول کو زندگی کا اہم ترین مقصد بنا دیا ہے۔ دوستیاں مادی فائدے کے لیے کی اور توڑی جاتی ہیں، مادی فائدے کے لیے ہی تعلقات قائم اورختم کیے جاتے ہیں اور اسی کی خاطرکسی ذمہ داری کو ادا کیا جاتا ہے یا اُس سے کوتاہی برتی جاتی ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی کی عدم موجودگی کی وجہ سے دولت معاشرے میں کامیابی اور عزت کا معیار بن گئی ہے۔ اشرافیہ بالخصوص افواج اپنے وقت کا بیشتر حصہ جائیدادیں اوربینک بیلنس بنانے پر صرف کرنے لگے ہیں۔
پاکستان کہ جس کی فوج مسلم دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوج ہے،کے گالف کلبوں، خصوصی اجازت والے کلبوں اور جم خانہ کلبوں میں ہر سُو دنیاوی مال و دولت میں ایک دوسرے سےمقابلہ بازی کا کلچر پھیلا ہوا ہے۔ بات چیت میں یہی موضوعات چھائے رہتے ہیں کہ کس کا گھر زیادہ بڑا اور پُر آسائش ہے ، کس کے پاس کون سے گاڑی ہے ، بچے کون سے اداروں میں پڑھتے ہیں، کس کی شادی زیادہ شاندار تھی ،کس نے کتنا بینک بیلنس بنایا ہے اور کون سےکاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے۔ غیر ملکی فوجی تربیت کے دوران اور اس نوعیت کے تمام غیر ملکیوں رابطوں میں مغربی لوگ ہر آفیسر کی خواہشات کو جاننے اور اس میں مادی خواہشات کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اسی کے ذریعے پھر وہ ہمارے فوجی افسران کو کنٹرول کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ افواج میں موجودکئی آفسران، خصوصاً وہ جو سینئر سطح پر ہیں، کے پاس اتنی دولت ہے کہ ان کی کئی نسلیں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں، اور پھر یہ چیز ان کے جونیئر افسران کے لیے بھی ایک معیار بن جاتی ہے۔ پانامہ پیپرز اور قومی احتساب بیورو کے مقدمات نے اس بات سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ اشرافیہ کے پاس دولت کے کتنے بڑے انبار موجود ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اس دولت کو غیر قانونی جبکہ دوسرے قانونی قرار دیتے ہیں، لیکن کوئی اس بات سےانکار نہیں کرسکتا کہ اس کی وجہ سے ایک کرپٹ ما حول پیدا ہوگیا ہے۔
اگر ہم امت کی اچھے وقتوں پر نظر ڈالیں، خلافت اور جہاد کے دور پر، تو ہمیں اپنی موجودہ صورتحال کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ آخر کس طرح ہم کئی صدیوں تک اپنے سے کئی گنا بڑےدشمنوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کرتے رہے جبکہ آج ایسا نہیں ہے؟ اُس وقت ہماری افواج میں مقابلہ بازی اس چیز کے لیے ہوتی تھی کہ کون کتنے زیادہ علاقے اسلام کے نفاذ کے لیے فتح کرتا ہے اور وہ شہادت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی لیے دشمنوں کی طاقت اور تعداد بہت زیادہ ہونے کے باوجود امت نے اپنے دشمنوں پر بالادستی حاصل کی۔ گذشتہ ادوار کے مسلمانوں نے دولت کو صرف ایک وسیلے کے طور پر دیکھا جبکہ ان کے لیے زندگی کا مقصد اور اس میں کامیابی کامعیار دین کا نفاذ اور اسے پوری دنیا تک پہنچانا ہوتا تھا۔ آرمی افسران اس بات پر غور کریں کہ حزب التحریر نے آنے والی خلافت کے لیے جو آئین تیار کیا ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ فوجی تعلیم و تربیت میں اسلامی پہلو بہت نمایاں ہوگا۔ حزب التحریر نے اُس آئین کی دفعہ 76 میں لکھا ہے کہ ،”فوج کے لئے انتہائی اعلیٰ سطح کی عسکری تعلیم کا بندوبست کرنا فرض ہے اور جہاں تک ممکن ہو فوج کو فکری لحاظ سے بھی بلند رکھا جائے گا۔ فوج کے ہر ہر فرد کو اسلامی ثقافت سے مزین کیا جائے گا تا کہ وہ اسلام کے بارے میں کم از کم ایک عمومی آگاہی رکھتاہو”۔ آج مسلم افسران کو اپنے دلوں کو ٹٹولنا ہے،اور اپنے دین کو زندگی کے لیے معیار بنانا ہے تاکہ وہ دنیا وی آسائشوں اور عہدوں کی لالچ و ہوس سے بچ سکیں اور ایک ایسے وقت پر اپنی امت کی مدد کے لیے کھڑے ہوجائیں جب امت کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
وہ حضرات جو خواہشات کے اس شکنجے کو توڑنا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ دولت کی ہوس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کے انتباہ سے سبق لیں۔ کعب بن عیاض نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،
إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ
“یقیناً ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہے، اور میری امت کا فتنہ دولت ہے”(ترمذی)
ابن کعب بن مالک الانصاری نے اپنے والد سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلاَ فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ
“بھیڑوں کے ریوڑ پر دو بھوکے بھیڑیوں کو چھوڑ دینا اتنی تباہی نہیں لاتا جتنا انسان کی دولت اور ناموری کی خواہش اس کے دین کو برباد کرتی ہے”(ترمذی)۔
تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اپنی آنکھوں کے سامنے امت کو تباہ ہوتادیکھےمگر دنیاوی دولت کی خواہش کی وجہ سےوہ خاموش تماشائی بنا رہے؟ اگر دنیاکامال و متاع جمع کرنے کی دُھن اس کے پاؤں کی زنجیربنی رہے گی تو وہ اس عزت و مقام کوحاصل کرنے کا موقع کھو دے گاجو اسے آخرت میں اپنے دین کی حمایت کے بدلے میں مل سکتا ہے!
اُسے یہ غور کرنا چاہیے کہ بے شک دولت کی خواہش انسانی فطرت کا حصہ ہے، اس کا تعلق اس کی جبلت بقاء سے ہے، اور یہ ایک شدیدخواہش ہے۔ کسی بھی ایسی چیز کی طرح، جس پر ہم قابو پانا چاہتے ہیں، ہمیں دولت کی خواہش کو بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ایک شخص جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے،اسے اِس خواہش کے تباہ کن اثرات سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ انس بن مالک ؓنے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لَوْ كَانَ لاِبْنِ آدَمَ وَادٍ مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ أَنَّ لَهُ وَادِيًا آخَرَ وَلَنْ يَمْلأَ فَاهُ إِلاَّ التُّرَابُ وَاللَّهُ يَتُوبُ عَلَى مَنْ تَابَ
“اگر بنی آدم کو سونے کی دو وادیاں بھی دے دیں جائیں تو وہ ایک اور کی خواہش کرے گا،اس کے منہ کو صرف (قبر کی)مٹی ہی بھر سکتی ہے، اور جو اپنی غلطی کو تسلیم کرکے توبہ کرتا ہےاللہ اُسے معاف کردیتا ہے”(مسلم)۔
حتیٰ کہ ایک شخص عمر رسیدہ ہو جاتا ہے اور ادارے میں سینئر عہدوں پر پہنچ جاتا ہے تب بھی اس میں دولت کی خواہش پنجہ جمائے رکھتی ہےحالانکہ اتنی عمر گزرنے کے بعد وہ اپنی موت کے قریب آچکا ہوتا ہے۔ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ الْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ وَالْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ
“انسان بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن دو چیزیں اس میں جوان ہی رہتی ہیں: زندگی اور دولت کی خواہش”(ترمذی)۔
تاہم اسلام نے اس خواہش کا بہترین علاج کیا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان اور دولت دونوں کو تخلیق کیا ہے۔ اگرصرف ہم ذراغور کریں اور اللہ کی وحی میں موجود پیغام کو سمجھیں اور خود کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہوں تو ہم اس مختصر دنیاوی زندگی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گے اور حقیر دنیا کی خاطر ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت کو برباد ہونے سے بچا لیں گے۔
اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ جو دولت انسان کوآخرت میں فائدہ دے گی وہ وہ نہیں جو انسان جمع کرتا ہے اور پھر اپنے ورثا کے لیے پیچھے چھوڑ جاتا ہے، بلکہ وہی دولت اسے نفع دے گی جو اس نے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے خرچ کردی۔ مطرف نے اپنے والدحضرت عبد اللہ بن شخیرؓسے روایت کی کہ: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ ﷺ تلاوت فرمارہے تھے:
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ
“بہتات کی حرص نے تمہیں غافل کردیا”(التکاثر:1)۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِي مَالِي
“آدم کا بیٹا کہتاہے: میرا مال ، میرمال”۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِكَ إِلاَّ مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ
“اے آدم کے بیٹے!تیرے مال میں سے تیرے لیے صرف وہی ہے جو تو نے کھا کرفنا کردیا،یا پہن کر پُرانا کردیا،یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا”(مسلم)۔
اس جیسی ایک اور حدیث میں ابوہریرہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِي مَالِي إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلاَثٌ مَا أَكَلَ فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ
“بندہ کہتا ہے ، میرا مال ،میرا مال ، لیکن اُس کے مال میں سے صرف تین چیزیں ہی اُس کی ہیں: جو کچھ وہ کھاتا ہے اور اس کا استعمال کرتا ہے یا جو کپڑےوہ پہنتا ہے اور وہ بوسیدہ ہو جاتے ہیں یا جووہ خیرات میں دیتا ہے، اور یہی ہے جو اس نے اپنی (آخرت کے ) لیے بچالیا ہے، اور جو اس کے علاوہ ہے(تو اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں)وہ اس مال کو دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے”(مسلم)۔
اور انس بن مالک نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثَةٌ، فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ: يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ، فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ، وَيَبْقَى عَمَلُه
” مرنے والے کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں ، دو چیزیں واپس جاتی ہیں جبکہ ایک چیزساتھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے گھر والے،اس کا مال اور اس کا عمل چلتا ہے اس کے گھروالے اور مال تو واپس آجاتے ہیںاوراس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے”(بخاری)۔
تو سینئر ترین عہدوں پر بیٹھے افسران اس بات پر غور کریں کہ اگر انہیں پتہ چلے کہ کل انہیں مر جانا ہے ،تو کچھ دوست احباب یہ کہیں گے کہ وہ جلدی ہی فوت ہو گئے،لیکن انہیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ پھر اس دولت کا کیا فائدہ کہ جس کے اندر وہ سکون و آرام تلاش کرتے رہے؟ ایسی دولت کیا فائدہ دیتی ہے سوائے اس کے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے وارثین اس سے فائدہ اٹھائیں گے ؟ ایسی دولت کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ اس وقت کچھ کام نہیں آئے گی جب اللہ تعالیٰ اس سے اس کی صلاحیت کے متعلق سوال کرے گا اور یہ کہ اُس نے امت کی ذلت و تنزلی کے اِس دور میں کیا کیا؟ اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس ارشاد پر غور کرنا چاہیے،
يَوْمَ لا يَنْفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ * إِلاَّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
“جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ لیکن فائدے میں وہی رہے گا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے قلبِ سلیم لے کر جائے”(الشعراء:89-88)۔
اور آفیسر کو یہ جان لینا چاہیے کہ دولت کی خواہش کو کسی بھی وقت اورکسی بھی صورت میں اچھے اعمال کی کوشش پر حاوی نہیں ہونا چاہیے، خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب اس کے اچھے اعمال اس پیاری امت کی صورتحال کو مکمل طور پر بدل سکتے ہوں اور اس کو تباہی و بربادی سے نکال کر امن و خوشحالی کے دور میں لے جاسکتے ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا
“مال و اولاد تو دنیا ہی کی زینت ہے، البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کی نزدیک ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں”(الکھف:46) ۔
ابن عباس نے فرمایا،
هي ذكر الله ، قول : لا إله إلا الله ، والله أكبر ، وسبحان الله ، والحمد لله ، وتبارك الله ، ولا حول ولا قوة إلا بالله ، وأستغفر الله ، وصلى الله على رسول الله ، والصيام ، والصلاة ، والحج ، والصدقة ، والعتق ، والجهاد ، والصلة ، وجميع أعمال الحسنات . وهن الباقيات الصالحات ، التي تبقى لأهلها في الجنة ، ما دامت السموات والأرض
“یہ اللہ کی یاد ہے اورلا إله إلا الله ، اورالله أكبر ، اورسبحان الله ، اورالحمد لله ، اورتبارك الله ، اورلا حول ولا قوة إلا بالله، اورأستغفر الله، اورصلى الله على رسول الله کہنا اور روزہ رکھنا، نماز پڑھنا، حج کرنا، صدقہ دینا، غلام آزاد کرنا، جہاد کرنا، خونی رشتوں سے تعلق جوڑناہے اور تمام اچھے اعمال۔ یہ ہیں وہ اچھے اعمال جو باقی رہتے ہیں، اور جنہوں نے یہ اعمال کیے، ان کے لیے یہ اعمال اس وقت تک جنت میں رہیں گے جب تک زمین و آسمان باقی ہیں”۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا،
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَآ أَمْوَلُكُمْ وَأَوْلَـدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ
“اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے۔ اور اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا بھاری اجر ہے”(الانفال:28)۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبردار کیا،
يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تُلْهِكُمْ أَمْوَلُكُمْ وَلاَ أَوْلَـدُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْخَـسِرُونَ
“اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں۔ اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی گھاٹے والے لوگ ہیں”(منافقون:9)۔
وہ آفیسر جو عظیم انصار کے نقش قدم پرچلنا چاہتا ہے، جنہوں نے ماضی میں اسلام کے لیے نُصرہ فراہم کی تھی،وہ یہ جان لے اور اپنے دل میں اسےمضبوطی سے بٹھا لےکہ حقیقی کامیابی اور رتبہ دولت کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا۔ ابو ہریرہ نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ
“یقیناً اللہ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور تمہارے اعمال کودیکھتا ہے”(مسلم)۔
سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (سورۃ حجرات کی آیت نمبر 13 کے متعلق ارشاد) فرمایا،
الْحَسَبُ الْمَالُ وَالْكَرَمُ التَّقْوَى
“حسب مال ہے اور عزت و شرف متقی ہونا ہے”(ابنِ ماجہ)۔
تو آفیسر کو چاہے کہ وہ خود کو کرپٹ اثرو رسوخ سے پاک و صاف کرے اور اس امت کے محافظ اور مسیحا کے طور پر کھڑا ہو۔اسے اب بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آگے آنا چاہیے،اور اپنےمعززبھائی سعد بن معاذ جیسا بن جانا چاہیے جنہوں نے ماضی میں اسلام کی ریاست و حکمرانی کے قیام کے لئے نُصرہ فراہم کی تھی ۔ جب سعد بن معاذ کا وصال ہوا اور ان کی والدہ رونے لگیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا،
ليرقأ (لينقطع) دمعك، ويذهب حزنك، فإن ابنك أول من ضحك الله له واهتز له العرش
“آپ کے آنسو رک جائیں گے اور آپ کا غم ہلکا ہوجائے گا اگر آپ یہ جان لیں کہ آپ کا بیٹا وہ پہلا شخص ہے جس کے لیے اللہ مسکرایا اور اس کا تخت ہل گیا”(طبرانی)۔
تو آج کے آرمی آفیسر کو چاہیے کہ وہ جنت کے بدلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے اپنی روح اور مال کا نذرانہ پیش کرے کیونکہ اس سے بہتر تجارت ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
“بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کے لیے جنت ہے۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں۔ اس بات کاسچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں۔ اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے؟ تو تم لوگ اپنے اس سودے (عہد) پر جس کا تم نے معاملہ طے کیا ہے خوشی مناؤ، اور یہ بڑی کامیابی ہے “(التوبۃ:111)۔