الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

رسول اللہ ﷺ کی پیاری امت کی فکر کرنا اور اس کا خیال رکھنا  

تحریر: مصعب عمیر، پاکستان

امت اور اس کے مفادات کا خیال رکھنا وہ اہم ترین ذمہ داری ہے اسلام جس کی ادائیگی  کا احساس ہر ایک مسلمان میں پیدا کرتا ہے۔ امت کا خیال رکھنے کا احساس ہر اس شخص کو، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خوف رکھتا ہے، مجبور کرتا ہے کہ وہ امت کی بہتری کی خاطر  اپنے ذاتی مفادات اور ضروریات کو قربان کرے۔ یہ احساسِ ذمہ داری مسلمانوں کو روز مرہ کی معمول  کی ذمہ داریوں ، جیسا کہ رزقِ حلال کمانا اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کرنا، سے بڑھ کر مزید ذمہ داریاں اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔  یہ احساس اس کے زندگی کے متعلق نقطہ نظر کو  وسیع اور بلند کردیتا ہے، جو کہ دیگر صورتوں میں محض اپنے گھر کی چار دیواری میں ملنے والے آرام،سفرکومزید آرام دہ بنانے، آسائشوں اور دولت کو جمع کرنے تک محدود ہوتا ہے۔ یہ احساس اسے  امت کی صورتحال کو سمجھنے، امت کی صلاحیتوں اور اس کے مستقبل کے متعلق سوچنے پرمجبور کردیتا ہے۔  اس کا دماغ امت کے مفادات کی نگہبانی ، امت کو نقصان سے محفوظ رکھنے اور امت میں موجود خیر کومزید بڑھانے کے خیالات سے پُر رہتا ہے۔ اس کا دل امت کی تکلیف پر دکھ اور اس کی کامیابی پر خوشی سے لبریز ہوجاتا ہے۔ ہر دن اس کے ہر  عمل اور کوشش کا مقصد  امت کے مفادات کو آگے بڑھانا ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ اپنا وقت، توانائی اور مال ہر چیز خرچ کرتا ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو ہر وقت اس میں جلتی رہتی ہے، ایمان کو جِلا بخشتی ہے  اور اس کے تھکے ماندے جسم کو حرکت میں رہنے کے لیے توانائی مہیا کرتی ہے۔

 

یقیناً  یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو وہ امت کی فکر نہ کرتا ہو جبکہ رسول اللہﷺنے فرمایا،

 

قَتْلُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَ

"اللہ کی نظر میں ایک ایمان والے کا قتل پوری دنیا کے خاتمے سے بڑھ کر ہے "(النسائی)

 

اور وہ شخص جو رسول اللہﷺ سے حقیقی محبت کرتا ہو کیسے امت کی فکر سے آزاد ہوسکتا ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

"تمہارے پاس ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہی ہیں ،جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے،جو تمہاری منفعت کےبڑے خواہش مند رہتے ہیں ، ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں"(التوبہ:128)

 

ایک مسلمان اسلامی امت کی فکر کرنے پر مجبور ہے کیونکہ وہ اس کے ساتھ سب سے مضبوط بندھن کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور وہ بندھن ایمان کاہے۔ مسلمان کا امت کے ساتھ یہ رشتہ اس کے اپنے خاندان کے ساتھ رشتے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے اوریہ ایک بھائی چارے کا رشتہ ہےکیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

إِنَّمَا ٱلۡمُؤۡمِنُونَ إِخۡوَةٌ۬

"سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں"(الحجرات:10)۔

 

یقیناً اسلام کا رشتہ خون کے رشتے پر مقدم ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ،

"اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے دوستی رکھے گا سو وہی ظالم ہے"(التوبہ:23)۔ 

 

ایمان کا رشتہ اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اجتماعی خیر کی جستجو کی جائے  اور یہ بات ذاتی خواہشات پر غالب آجاتی ہے۔ ایمان کا رشتہ مسلمانوں کو اس طرح جوڑتا ہے جیسے کہ وہ ایک ہی جسم کے حصے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ خون کی شریانوں اور اعصاب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اور پھر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف پورے جسم میں تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَوَاصُلِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ، إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمَّى وَالسَّهَر

"ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے کے لیے رحم اور شفقت کے حوالے سے ایسی ہے جیسا کہ ایک جسم: جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو پورا جسم بخار اور بے آرامی میں مبتلا ہوجاتا ہے "(مسلم)۔

 

ایمان والا خود کو امت کا ایک ایسا حصہ سمجھتا ہے جو اس سے الگ نہیں ہوسکتا  اور اس کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے تا   کہ امت ایک مضبوط قلعہ کی مانند بن جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا

"ایک ایمان والا دوسرے ایمان والے کے لیے ایسے ہے جیسا کہ ایک عمارت جس کے مختلف حصے ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں" پھر رسول اللہﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دکھایا(بخاری)۔

 

مسلمانوں کی فکر کرنے کا مطلب ہے کہ مسلمان اپنی یہ ذمہ داری سمجھے کہ جب کسی مسلمان کو اس کی ضرورت ہے تو وہ اس کی پکار کا جواب دے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ،

 

الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُه

"مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے تنہا چھوڑتا ہے"۔

 

وہ مسلمانوں کی فکر کرنے کو ایک مقدس فریضہ سمجھتا ہے کیونکہ اس کا اجر سب سے بہترین ہے اور وہ یہ کہ قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے بوجھ کو اٹھا لیں گے جبکہ یہ وہ دن ہوگا جب ہر شخص اپنے انجام کے حوالے سے اس قدر سخت دہشت زدہ ہوگا کہ وہ کسی دوسرے کا بوجھ اٹھانے کا سوچے کا بھی نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ اَلدُّنْيَا, نَفَّسَمَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ فِي الدُّنْيَا يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ فِي الدُّنْيَا سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ ‏

"جو کوئی دنیا کے بوجھ میں سے کسی بوجھ سے مسلمان کوآسانی فراہم کرتا ہے تو اللہ قیامت کے دن کے بوجھ  سے اسے نجات دیں گے۔ اور جو کوئی دنیا کی مشکل میں آسانی فراہم کرتا ہے تو اللہ اسے دنیا اور آخرت کی مشکل سے آسانی فراہم کریں گے۔ اور جو کوئی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرتا ہے ، اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کریں گے۔  اور اللہ اس وقت تک عبادت کرنے والے کی مدد میں مصروف رہتے ہیں جب تک عبادت کرنے والا اپنے بھائی کی مددکرنے میں مصروف رہتا ہے  "(ترمذی)۔

 

مسلمانوں کا خیال رکھنے کامطلب ہے کہ بغیر کسی ہچکچاہت کے دوسرے مسلمانوں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھنا کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ وَمَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ

"اگر کوئی اللہ کے نام پر تحفظ مانگتا ہے، تو اسے تحفظ دے دو؛  اگر کوئی اللہ کے نام پر سوال کرتا ہے تو اسے کچھ دو؛ اگر تمہیں کوئی دعوت دے تو اسے قبول کرلو؛ اور اگر کوئی تمہارے ساتھ رحم دلی سے پیش آئے تو اس کا بدلا ادا کرو؛ لیکن اگر تمہارے پاس ایسا کرنے کے لیے وسائل میسر نہیں تو اس کے لیے اس وقت تک دعا کرو کہ تمہیں یہ محسوس ہونے لگے کہ تم نے اس کا بدلا چکا دیا ہے"(ابو داؤد)۔

 

یقیناً مسلمانوں کا خیال رکھنا اس قدر اہم ہے کہ اسلام نے اس شخص کی بھی تعریف کی جو صرف مسلمانوں کے لیے دعا کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

 

إِذَا دَعَاإِذَا دَعَا الرَّجُلُ لأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ

"جب مسلمان اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں: آمین، اور تمہیں بھی یہی ملے"(ابو داود)۔

 

مسلمانوں کے مفادات  اور ان کی جان و مال کا خیال رکھنے کے احساس نے ہی ایسی اسلامی سیاسی قیادت پیدا کی تھی جسے کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود پوری دنیا میں  یاد رکھا گیا ہے۔ مسلم حکمران جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرتے تھے اپنی اس ذمہ داری سے پوری طرح آگاہ تھے کیونکہ رسول اللہﷺ نے خبردار فرمایا،

 

اَللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا, فَشَقَّ عَلَيْهِ, فَاشْقُقْ عَلَيْهِ

"اے اللہ! جس کسی کو میرے لوگوں پر کسی بھی قسم کا اختیار ہو اور وہ انہیں تکلیف پہنچائے تو تُو بھی اسے تکلیف میں مبتلا فرما"(مسلم)۔ 

 

امت کے خیال ہی کی اتنی فکر تھی کہ رسول اللہﷺ اس امت کے لیے روئے اور قیامت تک آنے والی امت کی نسلوں کے لیے دعا کی۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جس نے ابو بکر صدیق کو مسلمانوں کے حقوق پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کرنے پر مجبور رکھا۔ اوریہ وہ ذمہ داری ہے کہ جس کی وجہ سے عمر اپنی نیند کو قربان کرکے رات کو مدینہ کی گلیوں میں گشت کرتےتھے  تا کہ مسلمانوں کے حقوق ادا کیے جاسکیں۔

مسلمانوں کے مفادات  اور ان کی جان و مال کا خیال رکھنے کے احساس نے ہی ایسی اسلامی فوجی قیادت پیدا کی تھی جس نے مظلوموں کی پکار کا جواب دینے کو بوجھ تصور نہیں کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ

"اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پرمدد کرنا ضروری ہے"(الانفال:72)۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا

"بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کو چھٹکارا دلانے کے لیے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہیں ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا(النساء:75)۔

 

یہ امت کی فکر کا ہی جذبہ اور احساس تھا جس نے دور بیٹھے صلاح الدین ایوبی کو شام کے مسلمانوں کو صلیبیوں کے قبضے سے آزادی دلانے کے لیے حرکت میں آنے پر مجبور کیا۔ امت کی فکر کا ہی جذبہ اور احساس تھا جس نے دور بیٹھے  محمد بن قاسم کو   برصغیر ہند میں قید مسلمانوں کو راجہ داہر کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے حرکت میں آنے پر مجبور کیا۔ امت کی فکر کا ہی جذبہ اور احساس تھا جس نے سلطان اورنگ زیب عالمگیر کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ مظلوم مسلمانوں کی پکار کا جواب دے اور موجودہ میانمار کےمشرک بدھسٹ  کے آباؤاجداد  کی زبردست ریاست رخائن ماروڈرز کو نیست و نابود کردےجس نے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا تھا۔

 

اللہ کا شکر ہے کہ امت مسلمہ کی موجودہ نسل میں بھی امت کی فکر کا  جذبہ اور احساس مضبوط ہے۔ اس کی مثالیں ہم دیکھتے ہیں جب مسلمان شام، فلسطین، مقبوضہ کشمیر اور برما کے مسلمانوں کا خیال رکھتے اور ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ یہ احساس و جذبہ امت میں مضبوط ہے جبکہ  امت  پر مسلط حکمران اپنے ذاتی مفادات کے اسیر ہیں اور امت کے زخموں پر مرہم رکھنا تو درکنار بلکہ اس پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ یہ احساس و جذبہ مضبوط ہے اور اسے مزید مضبوط تر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ وہ چند قدم جلد از جلد اٹھا لیے جائیں جس کے بعد ہمیں ایسے حکمران میسر آئیں گے جو امت ہی طرح ہوں گے۔ ان اقدامات میں یہ شامل ہے کہ خلافت کے داعی  اپنے اردگرد لوگوں کو جمع کریں  اور انہیں قرآن و سنت کی بنیاد پر حکمرانی کی بحالی کے لیے حرکت میں لائیں۔ اور جہاں تک افواج کے افسران کی جانب سے اقدامات کی بات ہے تو انہیں نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے فوری نصرۃ فراہم کرنی چاہیے تا کہ بالآخر مظلوم مسلمانوں کی پکار کا جواب دینے کے لیے انہیں حرکت میں لایا جائے۔

Last modified onجمعہ, 20 اکتوبر 2017 23:48

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک