بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز20اکتوبر2017
۔ لوگوں کو اغوا کر کے زبردستی غائب کردینے کی ذمہ دار جمہوریت ہے
- امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے کے لیےپاکستان کے حکمران اس کی بھر پور مدد کررہے ہیں
- کرپشن کا اہرام جمہوریت کا پھل ہے لہٰذا اس کے خاتمے کے لیے خلافت قائم کریں
تفصیلات:
لوگوں کو اغوا کر کے زبردستی غائب کردینے کی ذمہ دار جمہوریت ہے
12 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ "بدھ کے دن پارلیمانی کمیٹی نے یہ کہا کہ زبردستی غائب کیے گئے لوگوں کے حوالے سے بنایا گیا کمیشن اس جرم کے ذمہ دار افراد اور اداروں کا تعین کرنے میں ناکام رہاہے۔ جن کو بازیاب کرانے کا دعوی کیا گیا وہ لاشیں تھیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پوچھا کہ کیا کمیشن نے کوئی تفتیش اور مقدمہ اس جرم میں ملوث اہلکاروں کے خلاف شروع کیا ہے"۔
پاکستان میں ریاستی اداروں کی جانب سے لوگوں کو اغوا کر کے زبردستی غائب کردینا "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کا ایک معمول بن گیا ہے۔ اس امریکی منصوبے میں پاکستان کے حکمرانوں نے اسلام سے محبت کرنے والے مسلمانوں کے خلاف کالے قوانین بنا کر یا انہیں اغوا کر کے سخت ترین اقدامات اٹھائے ہیں ۔ ان تمام اقدامات کا مقصد مسلمانوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا ہے تا کہ اسلام کی پکار کو کچل دیاجائے۔ اس حوالے سے کئی کام کیے گئے ہیں جن میں اسلامی جماعتوں، جن میں حزب التحریر بھی شامل ہے، کے خلاف مظالم، درجنوں مدارس کی بندش، گرفتاریاں، اغوا، ہزاروں مسلمانوں پر تشدد،یونیورسٹیوں میں اسلامی اجتماعات کے انعقاد میں رکاوٹیں کھڑی کرنااور سیکولر ازم کو قوت کے زور پر نافذ کرنا شامل ہے۔ اغوا کرکے زبردستی غائب کیے گئے افراد میں حزب التحریر ولایہ پاکستان کے ترجمان نوید بٹ بھی شامل ہیں جنہیں مئی 2012 میں اغوا کیا گیا تھا اور آج کے دن تک ان کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
جمہوریت حکمرانوں کو قوانین بنانے کا حق دیتی ہے ، لہٰذا وہ ایسے قوانین بنا سکتے ہیں جو ان کے امریکی آقاوں کے مفادات کے حصول کے لیے معاون ثابت ہوں۔ کوئی بھی کمیشن کیسے انصاف فراہم کرسکتا ہے جب وہ جمہوریت کے زیر نگرانی قائم کیا گیا ہو جو امریکی اہداف کے حصول کو یقینی بناتا ہے؟ ایسا کوئی بھی کمیشن کیسے حکمرانوں کا احتساب کرسکتا ہے جب حکمران ریاستی اداروں کو لوگوں کو اغوا کرنے کا کھلا لائیسنس دیتے ہوں اور انہیں حکمرانوں نے یہ کمیشن بھی قائم کیاہو؟لہٰذا یہ بات قطعی حیران کُن نہیں کہ اس قسم کے کمیشن مظلوموں کی آواز نہیں بنتے بلکہ اس کے ذریعے ریاست مظالم کو جاری رکھنے کے لیے مزید وقت حاصل کرلیتی ہے۔
اسلام کے خلاف ریاست کا جبر اور ظلم نہ صرف ریاست کے فکری دیوالیہ پن کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ جلد ہی گرنے والی ہے کیونکہ وہ صدیوں پرمحیط اسلامی تصورات اور جذبات و احساسات سے ٹکرا رہی ہے۔ یقیناً مسلمانوں پر قائم کوئی بھی حکومت برقرار نہیں رہ سکتی جب وہ بیرونی احکامات پر اسلام کو کچلنے کی راہ پر چل پڑے اور اس زبردست رائے عامہ کو ختم کرنے کی کوشش کرے جس سے مسلمان جڑے ہوئے ہیں۔ اسلام کی حکمرانی میں ملزم اس وقت تک معصوم ہے جب تک اس پر الزام ثابت نہ ہوجائے، لہٰذا شک و شبہ کی بنیاد پر اسے اغوا یا گرفتار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ریاستِ خلافت کوئی پولیس اسٹیٹ نہیں ہوتی جہاں زور زبردستی کی بنیاد پر حکمرانی کی جاتی ہو اور اپنے ہی شہریوں کو اغوا اور تشدد کا نشانہ بنایا جائے جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مخصوص حقوق عطا کررکھے ہیں۔خلافت ہر نافذ کیے جانے والے قانون کی قرآن و سنت سے دلیل پیش کرتی ہے اور اس طرح اسلام کے نفاذ کے ذریعے ریاست اپنے شہریوں کی وفاداری کو یقینی بناتی ہے۔ حزب التحریر نے نبوت کے طریقے پر آنے والی خلافت کے مقدمہ دستور کی شق 13میں لکھا ہے:"بری الذمہ ہونا اصل ہے، عدالتی حکم کے بغیر کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی، کسی بھی شخص پر کسی قسم کا تشدد جائز نہیں، جو اس کا ارتکاب کرے گا اس کو سزا دی جائے گی"۔
امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے کے لیےپاکستان کے حکمران اس کی بھر پور مدد کررہے ہیں
16اکتوبر 2017 کو مسقط میں پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ کے نمائندگان جمع ہوئے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے چار فریقی رابطہ گروپ (کیو سی جی) کا اجلاس ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ دوبارہ شروع کیا۔ اس اجلاس کا مقصد چار فریقی رابطہ گروپ کو ایک بار پھر بحال کرنا ہے جو تقریباً ایک سال سے غیر فعال تھا۔ پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ الیس ویلز اور افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی۔ واشنگٹن میں موجود سفارتی حلقوں کے مطابق چار فریقی مذاکرات کی بحالی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے بنائے گئے طریقہ کار کو بحال کرنا چاہتا ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے غیر فعال ہے۔ ایک سفارت کار نے ڈان اخبار کو بتایا کہ "اس عمل کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کر کے، جس کا مقصد طالبان کے ساتھ بات چیت کو بحال کرنا ہے، ٹرمپ انتظامیہ یہ اشارہ دے رہی ہے کہ اس کی تمام تر توجہ فوجی حل پر نہیں ہے"۔ امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈیفورڈ نے حال ہی میں امریکی کانگریس کو بتایا کہ "اسی ہفتے جنرل باجوہ کے دورہ افغانستان سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔۔۔۔ ان کی افغان قیادت کے ساتھ بہت اچھی ملاقاتیں رہی۔ ہماری قیادت بھی ان ملاقاتوں میں شامل تھی"۔
افغانستان، جو کہ سلطنتوں کا قبرستان ہے، میں امریکہ کا بھی اب تک وہی حشر ہوچکا ہوتا جو سوویت روس کا ہوا تھا یعنی کہ زبردست ذلت و روسائی، اگر پاکستان کے حکمرانوں نے مداخلت کر کے امریکی کی مدد نہ کی ہوتی۔ جب قابض امریکی افواج نے قبائلی جنگجوؤں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا شروع کیا تو پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان میں قبائلی جنگجوؤں کے خلاف دوسرا محاذ کھول دیا اور ایک فتنے کے جنگ شروع ہو گئی جس کا مقصد صلیبیوں کے خلاف جہاد کو کمزور کرنا تھا۔ پھر جب امریکہ نے جہاد کو ختم کرنے کے لیے افغانستان کے دروازے بھارت کے لیے کھول دیے تو پاکستان کے حکمرانوں نے افغانستان میں صرف بھارت کی موجودگی کو نشانہ بنایا ، خود کو صرف بیان بازی کومحدود رکھا تا کہ اپنے متعلق امریکی غلاموں کے تاثر کو دور اور عوام میں اپنے متعلق قائم منفی تاثر کو بہتر بنایا جائے لیکن افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے کوئی عملی قدم بالکل بھی نہیں اٹھایا۔ اور اب جب امریکہ ، جس کی معیشت مفلوج اور افواج دل شکستہ ہیں، افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سیاسی حل حاصل کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کے حکمران طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور انہیں اس جال میں پھنسانے کے لیے متحرک ہوگئے ہیں۔ اور ہم اس میں مزید یہ اضافہ کرتے ہیں کہ سوویت روس کے برخلاف جو کہ ایک علاقائی طاقت ہے امریکہ تو افغانستان میں داخل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اگر پاکستان کے حکمران اسے اڈے فراہم نہ کرتے۔
امریکہ کے ساتھ اتحاد ایک یکطرفہ تعلق ہے جس میں امریکہ پاکستان کا آقا ہے۔ پاکستان کے وسائل اور صلاحیت کو مسلسل امریکی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت اور سیکیورٹی بھاری نقصان اٹھا رہی ہیں۔ جارح طاقتوں سے اتحاد کا خاتمہ ، ان کے اثرو رسوخ سے نکلنا اور ان کے بتائے ہوئے مشوروں کو رد کر کے کچھ اور حل سوچنا حقیقی "گیم چینچر"ہے۔ اس حقیقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے کہ موجودہ مسلم ریاستیں ایک امت کا حصہ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے امت کے لیے ایک ریاست قائم کی تھی جس کی ایک کرنسی، خزانہ اور فوج تھی۔ اس کا قیام دنیا میں اسلام کے پیغام کو دعوت و جہاد کے ذریعے پھیلانے کے لیے ہوتا ہے اور اس کے علاقوں کے درمیان کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ یہی خلافت راشدہ کی بنیادیں تھیں جو تین براعظموں تک وسعت اختیار کرگئی تھی۔ اور یہی بعد میں بھی خلافت کی بنیادیں رہیں جو چھ صدیوں تک دنیا کے سب بڑی اور طاقتور ریاست رہی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے معاملات کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ یہ وقت کفار جارح ریاستوں کے ساتھ اتحاد کرنے کا نہیں ہے بلکہ خلافت کے دوبارہ قیام کا ہے۔
کرپشن کا اہرام جمہوریت کا پھل ہے لہٰذا اس کے خاتمے کے لیے خلافت قائم کریں
18 اکتوبر 2017 کو قومی احتساب بیورو کی ٹیم لندن پہنچی۔ نیب کی ٹیم کے دورے کا مقصد کچھ "اہم گواہوں" کے بیانات قلم بند کرنا اور ایون فیلڈ میں شریف خاندان کی جائداد کے متعلق ثبوت جمع کرنا ہے۔ نیب کے ایک اہلکار کے مطابق ٹیم میں بیورو کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی شامل ہے جس نے نااہل وزیر اعظم، ان کے بیٹوں حسن اور حسین ، بیٹی مریم اور داماد کیپٹن محمد صفدر کے خلاف چار کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات بنائیں ہیں جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کا ایک مقدمہ بھی بنایا ہے۔
جمہوریت میں کرپشن کے اہرام کاسربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر امیدوار صرف انتخاب جیتنے کی ہی آرزو نہیں رکھتا بلکہ وہ کوئی نہ کوئی وزارت بھی حاصل کرنا چاہتا ہے، خصوصاً وہ وزارتیں جہاں کرپشن کے مواقع ہوں جیسا کہ پانی، بجلی، زراعت، صحت، ریلویز اور جنگلات وغیرہ۔ لہٰذا انتخاب جیتنے کے بعد حکمران جماعت کے اراکین وفاق اور صبوں میں منافع بخش وزارتوں کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے مد مقابل آجاتے ہیں۔ کوئی بھی پالیسی وزارت کے سطح پر نافذ کی جاتی ہے اور اس وزارت کی سربراہی وزیر کرتا ہے۔ اگر وفاق کی سطح پر کوئی بہت بڑا (میگا) منصوبہ منظور ہوتا ہے ، تووزیر اس منصونے سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں سے اس منصونے کو مکمل کروانے کے لیے رابطہ کرتا ہے۔ اس وقت یہ کمپنیاں پوری کوشش کرتی ہیں کہ متعلقہ وزیر کو خوش کیا جائے کیونکہ بڑا منصوبہ ملنے کا مطلب ہے بڑا منافع۔ لہٰذا مختلف ٹینڈرز کی منظوری کے لیے وزیر کو رشوت اور حصہ دینے کی پیشکش کی جاتی ہےجو کرپشن کے اہرام کی تعمیر کرتی ہے۔
جمہوریت کے برعکس اسلامی خلافت میں عوامی نمائندگان کے پاس نہ تو وزارتیں ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے ترقیاتی فنڈز ہوتے ہیں کیونکہ سڑکوں، شاہراوں کو روشن رکھنے کے لیے برقی آلات، پانی، نکاسی آب اور پارکوں کی تعمیر اور مرمت کی ذمہ داری عوامی سہولیات کے ادارے کی ہوتی ہے۔ والیوں (صوبے کا سربراہ) اور عاملوں(شہر کا حاکم) کی یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ موجود وسائل اور اپنے علاقے کی ضروریات سے آگاہ ہوں اور وہ مجلس ولایہ کی معاونت سے بغیر کسی تاخیر کے ان ضروریات کی فراہمی کو بروقت پورا کریں۔ خلافت راشدہ ہم مسلمانوں کے لیے ایک اعلیٰ پیمانہ اور مثال ہے۔ حکمرانوں کی دولت کے احتساب کے لیے اسلام کے احکامات بہت سخت ہیں۔ اگر حکمران کے اثاثے اس کی جائز ذرائع آمدن سے زائد ہو تو اس کے مال کو ضبط کرنے کے لیے اتنا ثبوت ہی کافی ہے اور مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عمربن خطاب والی کےمنصب پر کسی کو فائز کرتے وقت اور منصب سے ہٹائے جانے کے بعد اس کے مال کی گنتی کراتے تھے۔ اگر ان کے کسی والی کے پاس اس کی آمدن سے زائد اثاثے نکلتے تھے تو وہ اس کے زائد مال کو ضبط کر لیتے تھے۔ وہ اس ضبط شدہ مال کو یا تو لوگوں میں تقسیم کردیتے تھے یا بیت المال میں جمع کرادیتے تھے۔ عبدالرحمن بن عبداللہ ابو قاسم المصری نے اپنی کتاب "مصر اور مراکش کی فتوحات" میں لکھا ہے کہ امیرالمؤمنین عمر نے محمد بن مسلمہ کو عمرو بن العاص کے پاس یہ لکھ کر بھیجا کہ "میں نے محمد بن مسلمہ کو تمہارے پاس بھیجا ہے تا کہ جو مال تمہارے ذرائع آمدن سےزائد ہے اسے تقسیم کردے، لہٰذا اپنے مال کو پیش کرو، تم پر اللہ کی امان اور رحمت ہو"۔ پھر عمرو بن العاص نے اپنی دولت پیش کردی اور محمد بن مسلمہ زائد دولت تقسیم کر کے واپس آگئے۔