بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 27 اکتوبر 2017
- امریکہ سے اتحاد کا خاتمہ کرو تا کہ وہ اپنی جنگوں میں شکست کا مزہ چکھے
- ٹیلرسن نے باجوہ کو ٹرمپ کے فتنے کی جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اس کے احکامات پہنچائے
-پاکستان کے وزیر خارجہ "قابل عمل انٹیلی جنس" کی اصطلاح امریکی غلامی کو چھپانے کے لیے استعمال کررہے ہیں
تفصیلات:
امریکہ سے اتحاد کا خاتمہ کرو تا کہ وہ اپنی جنگوں میں شکست کا مزہ چکھے
امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن نے 23 اکتوبر 2017 کو افغانستان کے دورے کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان کو کھلی دھمکی دی، "ہمیں طالبان کے خلاف جنگ جاری رکھنی ہے تا کہ وہ یہ جان لیں کہ وہ کبھی فوجی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔۔۔۔ اس کا انحصار اس بات پرہے کہ کیا وہ ایسے اعمال اختیار کرتے ہیں جنہیں ہم دونوں معاملات، افغانستان میں مفاہمت اور امن بلکہ پاکستان کے مستحکم مستقبل، کو آگے بڑھانے کے لیےضروری سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دہشت گرد تنظیموں کی صورتحال کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لےجنہیں پاکستان میں محفوظ ٹھکانے میسر ہیں اور جن کا وہ سامنا کررہا ہے۔ تو زیادہ مستحکم اور محفوظ پاکستان کے لیے ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں"۔
اگر حکمرانوں میں عزت و غیرت ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ہوتی تو وہ 24 اکتوبر 2017 کو ٹیلرسن کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ اس کے مغرور چہرے پر پاکستان کا دروازہ بند کردیتے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ امریکہ اپنی جنگیں خود اپنے زور بازو پر جیتنے سے یکسر قاصر ہے اور وہ فوجی اتحادوں کے ذریعے مسلمانوں کے موجودہ حکمرانوں کی معاونت پر انحصار کررہا ہے۔ مشرف نے پاکستان کے فضائی اڈے اور انٹیلی جنس امریکہ کو فراہم کیں تا کہ سات سمندر پار بیٹھا امریکہ افغانستان پر حملہ کرسکے۔ مشرف نے نجی امریکی فوجی تنظیموں اور انٹیلی جنس ڈھانچے کے قیام کے اجازت دی جس نے پاکستان میں "فالس فلیگ" آپریشنز کیے جن کے ذریعے امریکہ اپنے "فوجی اتحادیوں " کو اپنی جنگوں میں مصروف رکھتا ہے۔ کیانی اور راحیل نے پھر پاکستان کی افواج کو بزدل امریکی فوجیوں کو افغان مزاحمت کاروں سے بچانے کے لیے استعمال کیا۔ اور اب باجوہ فوجی دباؤ برقرار رکھ کر افغان طالبان کو اسلحہ رکھ کر کاغذ و قلم اٹھانے پر مجبور کررہا ہے تا کہ وہ نام نہاد امن معاہدےکے لیے امریکی احکامات لکھیں جس کے ذریعے وہ افغانستان میں اپنی مستقل موجودگی کو یقینی بنائے گا۔
یہ وہی کہانی ہے جواس سے پہلے بھی کئی مقامات پر دہرائی جاچکی ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے مسلم ریاستوں کے ساتھ فوجی اتحاد وں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ اتحاد کبھی بھی برابری کی بنیاد پرنہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ آقا اور غلام کے اتحاد ہوتے ہیں جس میں مسلم ریاستوں کے وسائل کو امریکہ کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور مسلم ریاستوں کو ہونے والے نقصانات کی پروا نہیں کی جاتی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
لا تستضيئوا بنار المشركين=
"مشرکین کی نار (آگ )سے روشنی مت حاصل کرو"(احمد)۔
عربی میں "نار" (آگ ) جنگ کی جانب اشارہ ہے کیونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ،
أوقَدْ نار الحرب
"اس نے جنگ کی نار ( آگ) لگائی"۔
مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ مسلمانوں کے دشمنوں سے اتحاد کر کے نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ اس طرح ہوگا کہ تمام مسلم علاقوں کو ایک ریاست خلافت اور ایک خلیفہ راشد کی قیادت میں یکجا کیا جائے جس کے بعد مسلمانوں کی تمام افواج ایک طاقتور فوج بن جائے گی۔
ٹیلرسن نے باجوہ کو ٹرمپ کے فتنے کی جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اس کے احکامات پہنچائے
24اکتوبر 2017 کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے امریکی سیکریٹری خارجہ کی جنرل باجوہ اور وزیر اعظم عباسی کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں یہ کہا گیا کہ،"سیکریٹری نے صدر ٹرمپ کا پیغام دہرایا کہ پاکستان ملک سے عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے خاتمہ کے لیے اپنی کوششوں میں 'لازمی اضافہ'(Must Increase) کرے" ۔ تو اب امریکہ کے مطالبات کےلیے ادا کیا جانے والی اصطلاح "ڈو مور" ، جس کا بہت مذاق اڑایا جاتا ہے، سے تبدیل ہو کر "مسٹ انکریز" (لازمی اضافہ) ہو گیا ہے۔ اس کا بھی وہی مطلب ہے جو یہ ہے کہ پاکستان آرمی فوجی امداد کے بدلے لازمی واشنگٹن کی جنگ لڑے ، جبکہ یہ امداد 16 سال سےامریکہ کے لیے لڑی جانے والی فتنے کی جنگ میں پاکستان کو ہونے والے جانی و مالی نقصان کے مقابلے میں مونگ پھلی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے۔
واشنگٹن کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے باجو نے بھی مشرف دور کی اصطلاح "ہاٹ پرسویٹ" (گرم تعاقب) کو تبدیل کردیا ہے۔ مشرف امریکہ کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر افغان جنگجوؤں کے "گرم تعاقب" کے خطرے کو استعمال کر کے ہماری افواج کو امریکہ کی جانب سے قبائلی جنگجوؤں سے لڑنے کے لیے بھیجتا تھا۔ بالکل ویسے ہی باجوہ "ایکشن ایبل انٹیلی جنس" (قابل عمل انٹیلی جنس) کی اصطلاح استعمال کررہا ہے تا کہ ٹرمپ کے نئے احکامات پر امریکی ڈرون حملوں کی جگہ ہماری افواج کو استعمال کیا جائے۔ اورکزئی ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے ٹہکانے پر ہونے والے ڈرون حملے پراپنے رد عمل میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 14 جون 2017 کو کہا تھا کہ "یکطرفہ حملے جیسا کہ ڈرون حملہ۔۔۔۔اگر کوئی ایکشن ایبل (قابل عمل) انٹیلی جنس کا تبادلہ کیا جاتا ہے تو پاکستان آرمی پر اثر قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے"۔
یقیناً پاکستان آرمی باصلاحیت ہے لیکن اس کی صلاحیتوں کو امریکی احکامات اور "قابل عمل انٹیلی جنس" کے نام پر کرائے کے فوجیوں کے طرح کیوں استعمال کیا جائے؟ کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ ہماری باصلاحیت آرمی کو امریکی راج کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جائے؟ ایک مخلص اسلامی قیادت اس بات کو یقینی بناتی کہ پاکستان آرمی امریکہ کی تباہ کُن موجودگی کا خاتمہ کرے۔ وہ امریکہ کی نجی فوج اور انٹیلی جنس کو گرفتار کر لیتی جو قبائلی مسلمانوں میں سرائیت کر کے ہماری فوج پر حملے کراتی ہے تا کہ پھر ہماری فوج قبائلی مسلمانوں سے لڑے اور پاکستان فتنے کی آگ میں جلتا رہے۔ وہ ہمارے شہروں میں موجود امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں کو گھیر لیتی جو سفارت کاری کی روپ میں درحقیقت دہشت گردی کے لیے وسائل اور انٹیلی جنس فراہم کرنے کے اڈے ہیں۔ وہ افغانستان میں امریکی صلیبیوں کی سپلائی لائن کاٹ ڈالتی جو پورے پاکستان سے گزر تی ہے۔ اور وہ صلیبیوں کے خلاف اپنے قبائلی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی جب تک کہ انہیں نکال باہر نہ کریں۔ اور وہ یہ سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس حکم کو پورا کرنے کے لیے کرتے،
وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ
"اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے وہاں سے تم بھی ان کونکال دو، اور فساد قتل و خونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے"(البقرۃ:191)
پاکستان کے وزیر خارجہ "قابل عمل انٹیلی جنس" کی اصطلاح
امریکی غلامی کو چھپانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
25 اکتوبر 2017 کو پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پاکستان کی سینٹ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکہ نے 75 اہداف کی فہرست دی ہے جس میں حقانی نیٹ ورک سب سے پہلے ہے۔ اس کے بعد بظاہر امریکہ مخالف بیان دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت اس فہرست پر عمل کرے گی اگر اسے "قابل عمل انٹیلی جنس" فراہم کی گئی۔ امریکہ کی جانب سے فراہم کی گئی کوئی بھی فہرست پاکستان کے لیے قابل عمل نہیں ہو سکتی چاہے کتنی ہی نام نہاد "انٹیلی جنس" اس کے ساتھ فراہم کر دی جائے بلکہ ایسی فہرست پر"سوالیہ نشانات" ہیں اور وہ کبھی "قابل عمل" نہیں ہوسکتی کیونکہ دنیا امریکہ کی جانب سے عراق کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کےنام نہاد "ثبوت" فراہم کیے جانے کی شاہد ہے اور اسے بھولی نہیں ہے۔ اگر کوئی مخلص قیادت ہوتی تو وہ ٹیلرسن کی منہ پر اس فہرست کو پھاڑ ڈالتی۔
امریکہ ایک دشمن ریاست ہےجو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور اس کی "انٹیلی جنس" اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہوتی ہے۔ اپنی صلیبی جنگ کے ذریعے، جسے وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کہتا ہے، امریکہ نے براہ راست افغانستان سے عراق تک لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ اس کی انٹیلی جنس اور نجی فوج نے پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے اور ہماری افواج کو کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑانے کے لیے کئی "فالس فلیگ" حملے کروائے ہیں۔ سولہ سال تک مسلسل اپنی بزدل افواج کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی زبردست کوشش کے باوجود امریکہ عمومی طور پر افغان طالبان اور خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے عزم اور حوصلے کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔امریکہ زخموں سے چور چوراور جس کا افغان صدر کابل کے مئیر سے زیادہ اوقات نہیں رکھتا، ایک بار پھر افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے پاکستان کی جانب متوجہ ہوا ہے اور اسے ایک فہرست تھما دی ہے۔
پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت عوام اور افواج پاکستان میں موجود شدید امریکہ مخالف جذبات کو دھوکہ دینے کے لیے "قابل عمل انٹیلی جنس"کی اصطلاح کو ایک پردے کو طور پر استعمال کررہی ہے۔ لیکن خواجہ آصف نے سینیٹ میں خود اپنی تقریرمیں اس بات کی نشاندہی کی امریکہ کی مدد کرکے پاکستان نے ہمیشہ مصیبت ہی مول لی ہے۔ اس نے سویت حملے کے خلاف امریکہ کو پاکستان کی مدد کا ذکر کیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ 11/9 کے بعد امریکہ کو پاکستان کی مدد کی وجہ سے ہم امریکہ کے لیے ایک شکار گاہ بن گئے۔ لیکن یہ تمام امریکہ مخالف بیانات ایک دھوکہ ہیں تا کہ امریکہ کی غلامی جاری رکھی جاسکے۔
پاکستان نقصانات اٹھاتا رہے گا جب تک اس پر ایسے لوگ حکمرانی کرتے رہیں گے جو امریکی کفار کو ہمارے معاملات میں اختیار دیتے ہیں۔ ایجنٹ حکمران "قومی مفاد"، "اصولی موقف"، "خودمختاری کی حفاظت اور "قابل عمل انٹیلی جنس" جیسی اصطلاحات استعمال کرکے امریکہ کی غلامی کرتے رہیں گے جب تک کہ انہیں حکمرانی سے ہٹا نہ دیا جائے۔ یہی وقت ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے جارح حربی کفار (جو ہمارے ساتھ عملاً حالت جنگ میں ہیں) کے حوالے سے واضح احکامات پر عمل کرے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
"اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہر گز راہ نہ دے گا"(النساء:141)