الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

  • اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ہماری کامیابی کا وعدہ اور
  • رسول اللہﷺ کی طرف سے ہماری بالادستی کی بشارت 

تحریر: مصعب عمیر، پاکستان

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے فتح و کامیابی کا وعدہ پچھلے چودہ سو سالوں کے دوران امتِ محمدﷺ کی ہمت بڑھانے اور اسے متحرک کرنے کا ایک انتہائی طاقتور ذریعہ رہا ہے۔ خلافت کی تباہی سے قبل اسلام کے نفاذ کے دور میں جب مسلم حکمران اور قائدین اسلام کو دیگر تمام ادیان، طرزِ زندگی اور نظریہ ہائے حیات پر بالادستی دلانے کی جدوجہد کرتے تھے ، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے فتح وکامیابی کا وعدہ ان کی ہمت بڑھانے کا سبب ہوتا تھا  اور وہ بھر پور کوشش کرتے تھے اوردشمن کی طاقت سے مرعوب ہوئے بغیر اسلام کے لیے نئے علاقے کھولتے چلے جاتے تھے۔ ماضی میں خلافت کی تباہی سے قبل کے ادوار میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے کامیابی کا وعدہ میدانِ جنگ میں مسلمان سپاہیوںکی ہمت افزائی کا باعث ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمنوں کے خلاف ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل کرتے چلے جاتے تھے  یہاں تک کہ دشمن یہ گمان کرنے  لگے کہ مسلمانوں کو شکست دینا ممکنات میں سے نہیں۔ 

خلافت کے خاتمے کے بعد آج کے دور میں کہ جب خلافت کی دوبارہ واپسی یقینی دکھائی دے رہی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے کامیابی کے وعدے پر کامل یقین انتہائی ضروری ہے۔  یہ اللہ کی طرف سے فتح و کامیابی کا وعدہ ہی ہے کہ جومجاہدین کے حوصلے بلند رکھتا  ہے اور انہیں متحرک کرتا ہے کہ وہ غیر ملکی قابضین کے خلاف ڈٹے رہیں اور ان کے قبضے کو مستحکم نہ ہونے دیں، اور ان کے اس طرزِعمل نے ہمارے دشمنوں کواضطرب،مایوسی اور پریشانی سے دوچار کر رکھاہے جس کاعملی مظاہرہ ہم اس وقت افغانستان اور کشمیر میں دیکھ رہے ہیں۔  یہ اللہ کاوعدہ ہی ہے جونبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام  کی دعوت دینے والوں کے جوش اور ولولے کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیتا  اور وہ تندہی سے استعماری طاقتوں کی سازشوں اورمنصوبوں کو بے نقاب کرتے ہیں اور اسلام کے نظامِ زندگی کو تمام مسلمانوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہی ہے جو افواج کے افسران کی ہمت بڑھاتا ہے کہ وہ  اسلام کو  ایک ریاست کی صورت میں کھڑا کرنے کےلیے بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ  کے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وعدے پر کامل یقین کے ساتھ نُصرۃ (عسکری مدد)  فراہم کریں، کہ جب امت کو درکار تبدیلی لانے کے لیے انہیں  اپنے بازؤں کی طاقت کو استعمال کرنے کا وقت آئے گا تو وہ فوراًقدم اٹھائیں  گے۔ 

ہمارے دور کے مسلمانوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان سے روشنی لینی چاہیے کہ،

 

إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آَمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

"ہم اپنے پیغمبروں کی اور جو ایمان والے ہیں،اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں"(غافر:51) ۔

 

یقیناً اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وعدہ کسی مخلوق کے وعدے کی طرح نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وعدہ کبھی  ٹوٹتا نہیں اور کبھی جھوٹاثابت نہیں ہوتا۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ

"بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا"(آل عمران: 9)

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا

 "اور اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے"(النساء:122)۔

 

ہمارے دور کی اس نسل کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وعدے پر کامل یقین قائم کرنا ہے  تا کہ مسلمانوں میں وہی ایمانی جذبہ پیدا ہوجائے اوروہ  صالح اعمال سرانجام دیں اوردنیا کی قیادت ان کے ہاتھ میں آ جائے اوروہ انسانیت کے رہنما اور حکمران بن جائیں اورانسانیت کو خوف کی صورتحال سے نکال کر امن و تحفظ فراہم کریں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

"اللہ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں وعدہ فرماچکا ہے کہ انہیں ضرورزمین میں حکمران بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے وہ ان کے لیے پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو امن و امان سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گےاور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کفر  کریں وہ یقیناً فاسق ہیں"(النور:55)۔

 

ہمارے دور کے مسلمانوں کو اس بات سے آگاہی حاصل کرنی ہے کہ کس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے   اسلامی امت کی پہلی اور سب سے بہترین نسل کے ساتھ اپنے  وعدے کو پورا کیا تھا۔ اُس نسل نے اسلام کے احکامات پر کامل یقین کے ساتھ عمل کیا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں دوسری اقوام پرفتح وکامیابی  عطا فرمائی۔ اسلام کی پہلی نسل ظالم جابروں کے سائے میں زندگی گزار رہی تھی، ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے  جارہے تھے اور ان کے سامنے ایک کے بعد دوسرا مسئلہ جنم لے رہا تھا۔ وہ ایسے دشمنوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے جن کی تعداد اور مادی وسائل اُن سے  بہت زیادہ تھے۔ لیکن چونکہ  انہیں اس بات پر پورا اعتماد تھا کہ کامیابی کی کنجی صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے  لہٰذا اُس پہلی نسل نے تمام تر رکاوٹوں کے باوجوداسلام کولوگوں سے تک پہنچانے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں صَرف کردیں۔  اور چونکہ انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وعدے پر مکمل اعتماد تھا اسی لیے انصار کے جنگجوؤں نے رسول اللہﷺ کو نُصرۃ (عسکری مدد) فراہم کرکے اسلامی ریاست کے قیام میں اپنی ذمہ داری پوری کی۔

 

لہٰذا اُس دور کے مسلمانوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مکہ، خیبر، بحرین،یمن اور پورے جزیرہ نما عرب پر کامیابی عطا فرمائی۔ انہوں نے حجر کے آتش پرستوں اور شام کی سرحد پرواقع قبائل پر حاوی ہو کران سے جزیہ وصول کیا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق کی قیادت میں اُس پہلی نسل نے  پورے جزیرہ نما عرب کے معاملات  اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور اسلامی افواج کو فارس،شام اور مصر  کی جانب سے بھیجا تا کہ یہ علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بن جائیں ۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق کے دور میں مسلمانوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پورے شام اور مصر اور ایران کے زیادہ تر حصے پر کامیابی عطا فرمائی۔ کسریٰ کو بدترین شکست ہوئی اور وہ شدید ذلیل و رسوا ہوا اور وہ اپنی ریاست کے سب سے آخری کونے کی جانب پسپا ہوگیا۔ قیصر کی عظیم الشان طاقت کو دھول چٹا دی گئی، شام پر اس کے اقتدار کا خاتمہ کردیا گیا اور وہ قسطنطنیہ (موجودہ استنبول)کی جانب پسپا ہوگیا۔  اس کے بعد حضرت عثمان کے دور میں اسلام کی بالادستی مشرق و مغرب دونوں جانب پھیل گئی۔ مغرب میں قبرص اور اسپین تک فتوحات ہوئیں اور مشرق میں مسلمان چین تک پہنچ گئے۔ کسریٰ کو قتل کردیا گیا ، اس کی ریاست تباہ برباد ہوگئی اور عراق کے شہر خراسان اور الاحواز پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔    

 

یقیناً اسلام کی پہلی نسل نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے کامیابی کے وعدے کو پورا ہوتے دیکھا۔ انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی مکمل اطاعت کی اور انہوں نے دوسری اقوام پرمسلمانوں کی بالادستی کے متعلق رسول اللہﷺ کی بشارت کو بھی پورا ہوتے دیکھا۔ رسول اللہﷺنے فرمایا،

 

وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لاَ يَخَافُ إِلاَّ اللَّهَ أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ

" اللہ کی قسم یہ امر (اسلام)ضرور کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقامِ صنعاء سے حَضر موت تک سفر کرے گا لیکن اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔ یا صرف بھیڑئیے کا خوف ہو گا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو"(بخاری)۔ 

 

رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو پورے جزیرہ نما عرب اور ایران سے آگے تک اسلام کی بالادستی کی بشارت دی تھی۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُتِمَّنَّ اللهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى تَخْرُجَ الظَّعِينَةُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْبَيْتِ فِي غَيْرِ جِوَارِ أَحَدٍ، وَلَتَفْتَحُنَّ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ

" اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اللہ اس معاملے (اسلام) کو غالب کرے گا یہاں  تک کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور مکہ پہنچ کرکعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔ اور ہرمز کے بیٹے کسریٰ کے خزانےتمہیں حاصل ہو ں گے ۔ میں نے حیرت سے کہا ' کسریٰ بن ہرمز' "۔

آپﷺنے فرمایا،  

نَعَمْ، كِسْرَى بْنُ هُرْمُزَ، وَلَيُبْذَلَنَّ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ

" ہاں کسریٰ بن ہرمز! اور ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا لیکن اسے کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو اسے(زکوٰۃ) قبول کر لے"۔ 

عدی بن حاتم نے فرمایا:"اب وہ ہورہا ہے کہ ایک عورت اونٹ پر سوارحیرہ سے آتی ہے اور  بغیر کسی کے تحفظ کے اللہ کے گھر کا طواف کرتی ہے، اور میں اُن لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے ہرمز کے بیٹے کسریٰ کےخزانے کو (مالِ غنیمت کے طور پر)حاصل کیا تھا "۔

 

جہاں تک ہمارے دور اورہماری  نسل کا تعلق ہے تو ہمارے لیے بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے کامیابی اور رسول اللہﷺ کی جانب سے اقوامِ عالم پر بالادستی کی بشارت موجود ہے۔ یہ وہ وعدے اور بشارتیں ہیں جن کامشاہدہ پچھلی نسلوں نے نہیں کیا۔ ہمارے لیے یہ موقع ہے  کہ ان وعدوں کی تکمیل اور بشارتوں سے فیضیاب ہونے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں۔

 

لہٰذا مسلمانوں پر مسلط موجودہ حکمرانوں کی جانب سے کیے جانے والے شدید مظالم کے باوجودہماری نسل کو اسلام کے مکمل نفاذ کے لیے بھر پور جدوجہد کرنی چاہیے تا کہ ہم قیامت سے قبل ظلم کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد خلافت کی واپسی کی بشارت کو دیکھنے کے حقدار بن جائیں۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا،  

ثُمّ تكونُ مُلْكاً جَبريَّةً، فتكونُ ما شاءَ الله أنْ تكون، ثُمّ يرفعُها إذا شاءَ أنْ يرفعَها. ثُمّ تكونُ خِلافةً على مِنهاج النُّبُوَّة، ثم سكت

"اس کے بعد ظلم  کی حکمرانی ہوگی، اور اس  وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے، اور پھر جب اللہ چاہیں گے اسے اٹھا لیں گے۔ اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت کا دَور ہو گا"(احمد) ۔

 

یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کومعمول پرلانے کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے آج کی نسل کو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے دن رات ایک کردینے چاہییں تا کہ  یہودی قبضے کو ختم کرنے کے لیے ہماری افواج کو حرکت میں لایا جاسکے جس کے بعد یہودی اس قدر خوفزدہ ہوجائیں گے کہ انہیں لگے گاکہ درخت اور پتھر بھی ان کے خلاف مخبری کر رہے ہیں۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

  لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ ‏.‏ إِلاَّ الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ

"آخری وقت(قیامت) اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کریں اور مسلمان یہودیوں کو قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرے گا اور درخت یا پتھر یہ کہےگا: مسلمانو، اللہ کے غلامو، اِدھر میرے پیچھے ہے یہودی؛ آؤ اور  اسے قتل کرو؛ سوائےغرقد کے درخت کے کہ وہ یہود کا درخت ہے "(مسلم)۔

 

بھارت کے سامنے موجودہ حکمرانوں کی "تحمل" کی کمزور پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے ہماری موجودہ نسل کو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے دن رات ایک کردینے چاہییں تا کہ ہماری افواج پورے بھارت پر اسلام کی بالادستی کو یقینی بنائیں ۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ،

وَعَدَنا رسولُ اللّـهِ (ص) غزوةَ الهند، فإنْ أدركتُها أُنْفِقْ نفسي ومالي، وإنْ قُتِلْتُ كنتُ أفضلَ الشهداء، وإنْ رجعتُ فأنا أبو هريرة الـمُحَرَّرُ

 "اللہ کے رسولﷺ نے ہم سے ہند کی فتح کا وعدہ کیا۔ اگر میرے ہوتے ہوئے ایسا ہوا تو میں اپنے جان اور مال دونوں اس میں لگا دوں گا۔ اگر میں مارا گیا تو میں بہترین شہداء کی رفاقت میں  ہوں گا، اور اگر میں زندہ واپس لوٹ آیا تو میں ابو ہریرہ (گناہوں سے) آزاد ہوں گا"(احمد، نسائی، حاکم)۔

اور ثوبانؓ نے روایت کی کہ

عِصابتان من أُمّتي أَحْرَزَهُما اللّـهُ من النار: عِصابةٌ تغزو الهندَ، وعِصابةٌ تكون مع عيسى ابن مريم عليهما السلام

"میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ کردیا ہے: ایک وہ جو ہند فتح کرے گا اور دوسرا وہ جو عیسی ابنِ مریمؑ کے ساتھ ہوگا"

(احمد، نسائی)۔

 

اور دنیا پر استعماری طاقتوں کی بالادستی کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ہماری موجودہ نسل کو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے دن رات ایک کردینے چاہییں تا کہ مسلمان مشرق و مغرب میں اسلام کی بالادستی کے متعلق رسول اللہﷺ کی بشارت کا مشاہدہ کرسکیں۔

رسول اللہﷺنے فرمایا،

إِنَّ اللهَ زَوَى لِيَ الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَسَيَبْلُغُ مُلْكُ أُمَّتِي مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا

"اللہ نے مجھے زمین دکھائی اور میں  نےمشرق اور مغرب کی جانب دیکھا۔جہاں تک مجھے زمین دکھائی گئی وہاں تک  میری امت کی بالادستی ہوگی "۔ 

بخاری نے روایت کیا کہ ابوہریرہ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے کہا،

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ المَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ خَيْرًا لَهُمْ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، مریم کے بیٹے (عیسیؑ) جلد ہی تم میں حکمران کے طور پر آئیں گے، اور صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو قتل اور جزیہ ختم کردیں گے۔ پھر دولت کی فراوانی ہو گی اور کوئی صدقہ وصول نہیں کرے گا۔ اور اُس وقت  ایک سجدہ  مسلمانوں کے لیے اس زندگی اور میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہوگا"۔  

 

موجودہ دور کے مسلمانوں آگے بڑھو اور قیصرکے شہرروم کی فتح کی رسول اللہﷺ کی بشارت کوپورا کرنے کے لیے خلافت قائم کرو   جس طرح خلافت کے پچھلے دور کے مسلمانوں نے ہرکولیس کے شہر قسطنطنیہ کو فتح کر کے رسول اللہﷺ کی بشارت کو پایا  تھا۔

امام احمدنے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ عبد اللہ بن العاث نے بتایا،

 

بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكْتُبُ ، إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا:قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا ) ، يَعْنِي : قُسْطَنْطِينِيَّةَ

"ہم رسول اللہﷺکے گر دبیٹھے  لکھ رہے تھے کہ ا ُن سے پوچھا گیا، 'قسطنطنیہ یا روم میں کون سا شہر پہلے فتح ہوگا؟' آپ ﷺ نے جواب دیا، 'ہرکولیس کا شہر پہلے فتح ہوگا !"۔

 

Last modified onبدھ, 28 فروری 2018 00:25

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک