بسم الله الرحمن الرحيم
- دُور اور قریب کے مسلمانوں کا شام کے عوام کو تنہا چھوڑ دینا
- جابر بشارُالاسد کے سامنے اُن کی فتح کو تاخیر میں بدل گیا
تحریر: بلال المہاجر- پاکستان
جب 1978 میں سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت بجانے کے لئے سوویت فوج کے ذریعےمداخلت کی، جو کہ بعد میں امریکا کے ساتھ ہتھیاروں کی ایک پوری دوڑ میں بدل گئی ، تو اُس وقت امت مشرق اور مغرب سے دوڑتی ہوئی سوویت فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے پہنچ گئی۔ ملحدوں کی اس فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ کے راہ میں جہاد کرنےکے لئے ایک عوامی پکار تھی۔ پاکستان سے سعودی عرب سے لیبیا اور سےمراکش اور شام تک جنگجوؤں کو اپنے ممالک کی حکومتوں کی ہر طرح سے حمایت حاصل تھی،اور جوکھل کر حمایت نہیں کررہے تھے تو انہوں نے صرفِ نظر سے کام لیا ۔ان جنگجوؤں نے روسی فوج کو افغانستان سے نکل جانے پر مجبور کردیا،روس نے مجاہدین کے ہاتھوں اپنی شکست کا اعلان کیا، جس میں اس نےتقریباً دس سال کے مقابلےکے بعدبہت سے فوجیوں اور ہتھیاروں کا نقصان اُٹھای اتھا، کیونکہ افغانستان میں روسی فوج کے خلاف ان مجاہدین کو دنیا بھر سے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد حاصل تھی۔
یہ مثال موجودہ دور میں اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر امت اپنے مسائل کو یوں اپنائے جیسے کہ اپنانے کا حق ہے، تویہ اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو امت مسلمہ اپنے آباؤ اجداد کی طرح کامیاب ہوجائے گی۔یہ کہا جاتا ہےکہ خالد بن ولید نے ایران کے شہنشاہ خسرو کو خط لکھا تھا کہ جس میں انہوں نے لکھا کہ ،أسلم تسلَم، والا جئتك برجال يصرّون على الموت كما تصرون أنتم على الحياة ،"اسلام کو تسلیم کرواور محفوظ ہوجاؤ، ورنہ میں تمہارے پاس ایسے لوگ لے کر آؤں گا جو موت سے اس طرح محبت کرتے ہیں کہ جس طرح تم سب زندگی سے محبت کرتے ہوں"۔ خط پڑھنے کے بعدخسرو نے چین کے شہنشاہ سے امداد کی درخواست کی۔ چین کے شہنشاہ نے اس کو جواب دیا، "اے خسرو! میں ایسے افراد کا سامنا نہیں کر سکتا جو پہاڑوں کو اکھاڑ سکتے ہیں اگروہ اس چیز کا ارادہ کرچکے ہیں "۔
شام کے لوگ اپنے بھائیوں کو پکارتے رہے یہاں تک کہ ان کی زبان، گلے اور منہ خشک ہوگئے! شام کے لوگوں نے جابر کے خلاف اپنے انقلاب کے شروع کے دنوں ہی سے اپنے بھائیوں یعنی اس امت کے بیٹوں سے مدد طلب کی۔مگر امت کے بیٹوں میں سےچندہی ان کی مدد کو پہنچ سکے کیونکہ زیادہ تر عالمی طاقتوں اورمسلم ممالک میں ان کے ایجنٹ حکمرانوں نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ مظلوموں کی حمایت کرنے کے بجائے ان ممالک نےبین الاقوامی اتحاد قائم کرکے امت کے خلاف صلیبیوں کی مدد کی۔ شام کے جابر نے شام کے مخلص جنگجوؤں کے خلاف ہر طرح کی طاقت کا استعمال کیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں،پچاس لاکھ سے زائد لوگ اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بن گئے ہیں،ساٹھ لاکھ سے زائد افراد دوسرے ملکوں میں مہاجر بن چکے ہیں،جبکہ دس لاکھ سے زائد لوگ شام کے اُن علاقوں میں پھنسے ہوئےہیں جو محاصرے میں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک لاکھ سے زائد افراد گمشدہ ہیں جو ظالم بشار الاسد کی جیلوں میں قید ہیں جن پر ذہنی اورجسمانی زیادتیوں کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کا ایساتشدد کیا گیا ہے جو کہ ہسپانوی قبضے کے دوران بھی نہیں دیکھا گیا تھاکہ جس سے جنگل کے جنگلی جانوربھی شرمائےجائیں۔
شام کے عوام اپنی معمولی استعداد پر بھروسہ کرتے ہوئے حکومت اور بین الاقوامی اتحاد کے خلاف انقلاب آگے بڑھاتے رہے۔جان اورمال میں شدید نقصانات اُٹھانے کی وجہ سے، "ان کے پاس اب کھونے کے لئے کچھ بھی باقی نہیں ہے"۔ اس کے باوجود، وہ انقلاب کو جاری رکھنے اورجابرکی حکومت کو گرانےاور اسے ایک ایسے نظام، جس سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو، سے بدلنےٍ کا مقصدحیرت انگیز طور پران کے ذہن میں واضح رہا اوروہ استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔اگر دور اور قریب کے لوگوں کی سازشیں،اور مسلمان بھائیوں کا انہیں تنہا چھوڑ دینا نہ ہوتا تو یہ لوگ جابر بشار الاسد کی حکومت کو کب کاگرا چکے ہوتے۔یقیناً اُن کا ادارک اور معاملہ فہمی اپنے افغان بھائیوں سے زیادہ ہے۔ اگر ان کی جگہ کسی اور نے اتنی اموات اور ذلت ورسوائی کا سامنا کیا ہوتا …تو اُن میں سے ایک بھی ان مظالم کے آگے نہ ٹھہر سکا ہوتا،بلکہ کب کامجرمانہ بین الاقوامی موقف اور دمشق میں اُن کی نمائندہ نُصیری حکومت کو قبول کرچکا ہوتا۔لہٰذا حکومت کےشدیدکفر اور نا انصافیوں نے شام کے عوام بشمول مزاحمت کاروں اور باغیوں کے لیے کوئی رستہ نہیں چھوڑا سوائے اس کے کہ وہ آخری دم تک طارق بن زیاد کی طرح استقامت کا مظاہرہ کریں کہ جب دشمن نے اُس کی افواج کی کشتیاں جلادیں اور پھر دشمن اُس کی فوج کے سامنے آگیا تھا۔ اب پیچھے سمندر اور سامنے دشمن تھا اور طارق کے پاس آخری دم تک یا فتح و کامیابی تک لڑنے کے سواکوئی دوسری صورت نہیں تھی۔
شام کے مسلمانوں کی اس ظلم کی آندھی کے سامنے استقامت دیکھانا، باقی امت کو یہ بہانہ فراہم نہیں کرتا کہ وہ ان کی مدد نہ کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کاارشاد ہے،
﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِي ﴾
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے حقیقی دوست ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے (مگر) انہوں نے (اللہ کے لئے) گھر بار نہ چھوڑے تو تمہیں ان کی دوستی سے کوئی سروکار نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین (کے معاملات) میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر (ان کی) مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلے میں (مدد نہ کرنا) کہ جن کے ساتھ تمہار ا (صلح و امن کا) معاہدہ ہو، اور اللہ ان کاموں کو جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے"
( الانفال :72 )۔
یہ بات یقینی ہے کہ شام کی حکومت کمزور اورتھکی ہوئی ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تھوڑی ہی کو شش کے ساتھ شام کے عوام کو فتح دلائی جا سکتی ہے۔ اسلامی دنیا میں سے کسی بھی ریاست کو اگر مسلمانوں کی مدد سے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی فکر ہے تو اُسے چاہئے کہ وہ شام کےانقلاب کو آگے بڑھانے کے لئے ہتھیار اور افراد فراہم کرے۔مثال کے طور پر پاکستان اپنے کچھ کمانڈوز بہترین ہتھیاروں، جیسے کہ کندھےسے استعمال ہونے والی طیارہ شکن بندوقوں، کے ساتھ بھیج سکتا ہے،جو کہ روسی، ترک،امریکی اور اتحادی افواج کی فضائی قوت کو غیرفعال کرسکتے ہیں،کیونکہ اُن کی فضائی برتری وہ چیز ہے کہ جو جنگجوؤں سے پہلے عام شہریوں کو ہلاک کرتی ہے۔ جس سے طاقت کا توازن اتحادی افواج کے حق میں نہیں رہے گا اور جابر بشالاسد کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ لیکن، یہ سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلامی دنیا کی حکومتیں بشمول پاکستان کی حکومت اور اُس کی موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت، ایسی حکومتیں اورحکمران ہیں جو مغربی ایجنٹ ہیں جن کو مسلمانوں کے گردنوں پر مسلط کیا گیا ہے۔ یہ جابر بشارکی حکومت کےمقابلے میں کم مجرم نہیں ہیں۔ تو ان سےیہ توقع کرنا کہ وہ شام کے انقلاب کی حمایت کریں گے،بیکار ہے۔اس کے بجائے یہ حکومتیں ترکی کی طرح، اتحادی افواج کی میزبانی و مددکریں گی اور بشار الاسد، روس، امریکہ اور ایران کے ساتھ مل کر مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل اور تباہی میں ایسےحصہ لیں گی کہ جس سے پتھر اور درخت بھی نہ بچ سکیں.... تاکہ انقلاب ختم ہو جائے اور عوام امریکی ایجنٹ جابر بشارکی حکمرانی کو قبول کرنے کے لئے مجبور ہوجائیں۔
جی ہاں، اسلامی امت سب اقوام سے الگ امت واحدہ ہے۔ جب تک کہ یہ امت اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک جسمِ واحد کی طرح کھڑی نہیں ہوگی، یہ اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرپائے گی۔ رسول اللہﷺنے فرمایا،
«الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ يَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ»
" مسلمانوں کے خون برابر ہیں،ان میں سے ادنیٰ ٰشخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہو گی، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے(گرچہ اس سے نزدیک والا موجود ہو) اور وہ اپنے مخالفوں کے لیے ایک ہاتھ کی طرح ہیں ،جس کی سواریاں زور آور اور تیز رو ہوں وہ(غنیمت کے مال میں)اس کے برابر ہو گا جس کی سواریاں کمزور ہیں، اور لشکر میں سے کوئی سریہ نکل کر مال غنیمت حاصل کرے تو لشکر کے باقی لوگوں کو بھی اس میں شریک کرے، کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ذمی کو"(سنن ابی داود)۔
اور چونکہ اسلامی دنیاکی یہ حکومتیں شام میں اپنے بھائیوں اور فوجوں کے لئے رکاوٹ ہیں، اس لئے ان کو ہٹانا ایک فرض کام ہے،کیونکہ اسلامی اصول ہے
مالا يتم الواجب إلا به فهو واجب
"وہ امر جو کسی فرض کی ادائیگی کیلئے درکار ہے، وہ امربھی فرض ہو جاتا ہے"۔
اور ان حکومتوں کو ہٹانے کے لئے امت کا کردار یہ ہے کہ وہ فوج میں موجود مخلص اہلِ قوت افراد کو یہ تلقین کریں کہ وہ موجودہ ایجنٹ حکمرانوں اور رہنماؤں کوہٹا کرامت کی قیادت، نبوت کے طرز پرخلافت کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے والے حزب التحریر کے داعیوں کو سونپ دیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«مَا مِنْ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ، وَمَا مِنْ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلَّا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ»
"جو کسی مسلمان شخص کو کسی جگہ میں ذلیل کرے گا، جہاں اس کی بے عزتی کی جا رہی ہواوراس کی آبرو پر حملہ ہو رہا ہو تو اللہ اسے ایسی جگہ ذلیل کرے گا، جہاں وہ اس کی مدد چاہے گا، اور جو کسی مسلمان کی ایسی جگہ میں مدد کرے گا جہاں اس کی عزت میں کمی آ رہی ہو اور اس کی آبرو جا رہی ہو تو اللہ بھی اس کی ایسی جگہ پر مدد کرے گا، جہاں وہ یہ پسند کرے کہ اللہ اس کی مدد کرے"(سنن ابی داؤد)۔
شام کے باغی مسلمانوں کی مدد کرنے کافرض اُس فرض سےالگ نہیں ہے کہ جومسلمانوں کاان کے دین میں مدد کا ہے۔اس کے علاوہ، اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھنے والوں کے لئے یہ پہلیترجیح ہے۔ایمان کے کمزور ترین درجہ کی سمجھ کے ساتھ،شام یا شام کے باہر کےمظلوموں کے لئے رونا اور ہمدردی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ کمزور ایمان صرف اُس سے قبول کیا جاتا ہے کہ جوطاقت نہیں رکھتا ہو،نہ کہ اس سے جو اس کےقابل ہے۔بلاشبہ مسلمان ، پاکستان کے عوام سمیت، شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے قابل ہیں،اگروہ ایک مخلص حکمران و فوجی کمانڈر ، یعنی مسلمانوں کے معزز خلیفہ کو مقرر کریں ، جو اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت پرمبنی قوانین کے ذریعے حکومت کرے ۔