الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 23مارچ 2018 

 

۔ سوویت روس کی طرح امریکہ بھی بہت عرصے قبل  افغانستان سے بھاگ چکا ہوتا اگر پاکستان کے حکمران اس کی مدد نہ کرتے

- راؤ انوار مقدمہ: صرف خلافت میں ہی جج عزت، و قار اور قوت سے فیصلے کریں گے

- جمہوریت اکثریت کی حکمرانی ہے اور ا قلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اس کی خصلت میں ہے

تفصیلات: 

 

سوویت روس کی طرح امریکہ بھی بہت عرصے قبل  افغانستان سے بھاگ چکا ہوتا

اگر پاکستان کے حکمران اس کی مدد نہ کرتے 

19 مارچ 2018 کو  پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ امریکی فوج قبائلی جنگجووں کا افغانستان سے پاکستان میں  تعاقب  نہیں کرے گی۔  پینٹاگون کے ترجمان لیفٹیننٹ مائیک انڈریوزنے افغان نیوز کو بتایا، "ہمیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے"۔  امریکی افواج افغان جنگجووں کے تعاقب میں پاکستان کی سرحد پار کرنے کی اجازت مانگ سکتی ہیں لیکن اس قسم  کی اجازت "معمولی نہیں  بلکہ غیر معمولی واقع ہوگا"۔

 

وقتاً فوقتاً پاکستان  کی حدود میں امریکی افواج کے داخل ہونے کی بات اچھالی جاتی ہے۔ اس قسم کی دھمکی کا اصل مقصد پاکستان کے حکمرانوں کو بہانہ فراہم کرنا ہوتا ہے  کہ اگر وہ امریکی جنگ کی حمایت نہیں  کریں گے تو امریکی افواج پاکستان کی حدود میں  فوجی آپریشن کرنے کے لیےداخل ہوجائیں گی۔ یہ دھمکی قطعی حقیقی نہیں ہے کیونکہ امریکہ تو جوش و جذبے سے بھر پور انتہائی چھوٹے اسلحے سے لیس قبائلی جنگجووں کاسامنا نہیں کرسکتا  تو پھر امریکہ کیسے ایک انتہائی قابل اور طاقتور فوج سے سامنا کرنے کی غلطی کرسکتا ہے؟ اگر امریکہ کو اس کی قسمت کے حوالے کردیا جاتا  تو سوویت روس کی طرح کب کا افغانستان سے بھاگ چکا ہوتا ۔ یقیناً امریکہ کی صورتحال تو سوویت روس سے بھی بری ہے کیونکہ  روس کے برخلاف امریکہ کی خطے میں اپنی کوئی طاقت نہیں ہے۔  امریکہ کو سات سمندر پار سے  روس و چین کی طاقت کا جواب دینے کے لیے اپنی طاقت کامظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اور امریکہ ایسا کرنے میں صرف اس وجہ سے کامیاب ہے کیونکہ مشرف کی وقت سے پاکستان کے حکمران اس کی مدد کررہے ہیں۔

 

یہ جھوٹے خطرات اس لیے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ پاکستان کے حکمران امریکہ کے سامنے لیٹ جانے کا جواز پیش کرسکیں اور افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے  ہر طرح کا تعاون فراہم کرتے رہیں۔ یہ جھوٹے خطرات اس لیے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ پاکستان کے حکمران افغانستان میں امریکی سپلائی لائن بحال رکھیں، پاکستان میں امریکی سرکاری و غیر سرکاری ایجنسیاں کام کرتی رہیں ، امریکی ڈرونز  بغیر کسی چیلنج کے پاکستان کی فضاؤں  میں اڑتے رہیں، افغانستان کی سرحد پر باڑ لگائی جائے  اور اس کے سفارت خانے چلتے رہیں جو درحقیقت جاسوسی کے اڈے ہیں۔ مسلمانوں کوچاہیے کہ  خلیفہ راشد کی تعیناتی کے لیے جدوجہد کریں جو امریکہ اور ان  کے ساتھ اتحاد کو ختم کردے گا جو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

 

إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ

"اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں" (الممتحنہ:9)

 

راؤ انوار مقدمہ: صرف خلافت میں ہی جج عزت، و قار اور قوت سے فیصلے کریں گے

21 مارچ 2018 کو سابق سپریٹنڈنٹ پولیس  راؤ انوار  کوآخر کار پولیس نے اس وقت گرفتار کرلیا جب اس نے خود کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کردیا ۔ راؤ انوار تقریباً دو ماہ قبل   ایک پشتون مسلم  نقیب اللہ کے قتل کی  پولیس تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے مفرور ہوگیا  تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ، جو اس کے پیش ہوجانے پر کافی مطمئن نظر آرہے تھے، نے کہا "یہ کورٹ کی عزت ہے جس کے سامنے وہ (راو انوار) پیش ہوئے ہیں"۔ اس سے پہلے چیف جسٹس  13 جنوری 2018 کو کراچی میں 27 سالہ محسود کے قتل کے سو موٹو مقدمے میں سند ھ پولیس کو کئی بار مفرور پولیس آفیسر کی گرفتاری کا حکم دے چکے تھے۔

 

جمہوریت میں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس "کا اصول چلتا ہے۔ جس طرح سے اس سوموٹو مقدمے کو چلایا جارہا تھا اور جس طرح راؤ انوار سپریم کورٹ  آف پاکستان آیا ، اس نے  مراعات یافتہ لوگوں کی طاقت اور  ایک مبینہ قاتل، جسے طاقتور ریاستی اداروں اور حکام کی سرپرستی حاصل ہے، کی گرفتاری  کے سلسلے میں  پوری ریاستی مشینری  بشمول اعلیٰ عدلیہ کی بے بسی پر سوالات کھڑے کردیے ہیں ۔  اس سوموٹو مقدمے کی پچھلی پیشی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے تقریباً  راؤ انوار سے درخواست  اورمنت سماجت کی تھی کہ وہ گرفتاری دے دے۔کسی بھی معاشرے میں عدلیہ کی عزت و رتبے کے حوالے سے یہ صورتحال انتہائی قابل افسوس  ہے۔  یہ صورتحال اس حوالے سے بھی انتہائی قابل افسوس ہے کہ یہی چیف جسٹس صاحب ہر کسی کو سپریم کورٹ کے احکامات پرعمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں انتہائی سخت نتائج  سے خبردار کرتے ہیں لیکن جب معاملہ جبری گمشدگی کے مقدمات  یا وہ مقدمات جن میں ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار ہوتا ہے تو انہی چیف جسٹس کا لب و لہجہ انتہائی نرم اور درخواستی ہوجاتا ہے۔

 

جمہوریت میں جج قرآن و سنت کی بنیاد پر فیصلے نہیں دیتے بلکہ انسانوں کے بنائے قوانین کی بنیاد پر فیصلے دیتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ا س ذمہ داری کومحسوس ہی نہیں کرتے کہ انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہے۔ وہ اس ذمہ داری کو ایک روز کامعمول سمجھتے ہیں   اور یہ احساس نہیں کرتے  کہ انہیں  اللہ کے سوا کسی سے نہیں  ڈرنا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ جب معاملہ انصاف کا ہو تو وہ(اللہ سبحانہ و تعالیٰ) کسی بھی دوسرے سے زیادہ ڈرے جانے کا حق رکھتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَتَخۡشَى النَّاسَ ‌ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰٮهُ ؕ

"اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے"(الاحزاب:37)۔

   

اور جمہوریت مخصوص ریاستی اداروں  کا کھلا احتساب کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے اور اس طرح  "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کے اصول پر عمل درآمد کو یقینی بناتی ہے اور یہ صورتحال پاکستان کی ستر سالہ جمہوریت میں تسلسل سے نظر آتی ہے چاہے وہ "بنیادی"ہو یا "حقیقی"، یا "سچی" ہو یا "رہنما"جمہوریت ہو۔

 

صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت میں ججز اس قابل ہوں گے کہ وہ ریاستی حکام بشمول خلیفہ  کے خلاف جرات سے  فیصلے دے سکیں کیونکہ ریاست کا آئین اور قانون قرآن و سنت ہوگا اور مخصوص افراد یا اداروں کو احتساب سےاستثنا دلانے کے لیےکوئی بھی  قانون سازی نہیں کر سکے گا جو ججز کے اختیارات کومحدود کرتی ہو۔ جج خلیفہ تک کو برطرف کرسکے گا اگر  اس کے سامنے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اسلام کی بنیاد پر حکمرانی نہیں کررہا ۔ حزب التحریر نے آنے والی خلافت کے لیے لکھے جانے والے مقدمہ دستور کی شق 90 اور 91 میں لکھا ہے کہ، "محکمہ مظالم کو ریاست کے کسی بھی حکمران یا ملازم کو برطرف کرنے کا حق حاصل ہے جیسا کہ اس کو خلیفہ کو معزول  کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ اس وقت ہو گا جب کسی ظلم کے ازالے کا تقاضا ہو" اور" محکمہ مظالم کو کسی بھی قسم کے مظالم کو دیکھنے کا اختیار حاصل ہے خواہ اس کا تعلق ریاستی اداروں کے افراد سے ہو ۔۔۔"۔

 

جمہوریت اکثریت کی حکمرانی ہے اور ا قلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اس کی خصلت میں ہے

19 مارچ 2018 کو نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے ایک رپورٹ جاری  کی جس میں یہ بتایا گیا کہ پچھلے پانچ سال کے دوران  کوئٹہ میں مختلف واقعات میں  ہزارہ  کمیونیٹی  کے 509 افراد کو قتل اور 627 افراد کو زخمی کیا گیا۔ این سی ایچ آر  رکی پورٹ کا عنوان تھا:"ہزارہ نسل کی تکالیف کو سمجھنا"۔ اس رپورٹ میں جنوری 2012 سے دسمبر 2017 تک ہزارہ کمیونیٹی  پر ہونے والے حملوں کی فہرست پیش کی گئی تھی۔ یہ فہرست بلوچستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے دینے جانے والے اعدادو شمار کی مدد سے بنائی گئی تھی ۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونیٹی کے خلاف ٹارگٹ کیلنگ ، خودکش  حملوں اور بم دھماکوں نے  ان کی روزمرہ کی زندگی، تعلیم اور کاروباری سرگرمیوں کو اس قدرمتاثر کیا ہے کہ "خوف اور  دباؤ کی وجہ سے وہ دوسرے ممالک کو ہجرت کررہے ہیں"۔

 

ہزارہ لوگوں کی تکالیف کوئی نئی بات نہیں ہے  اور ان کے تحفظ میں حکومت کی مسلسل ناکامی یہ ظاہر کرتی ہے کہ جمہوریت ہزارہ لوگوں  اور کسی بھی  اقلیتی نسل یا مذہبی اقلیت کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوگئی ہے۔ جمہوریت میں حکمران کو  ہر مخصوص مدت کے بعد انتخاب لڑنا ہوتا ہے، اس لیے وہ جانتا ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے  اسے لازمی اکثریتی لوگوں کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔  لہٰذا وہ  مجبور ہوتا ہے کہ اکثریتی طبقے کے لوگوں کو خوش رکھے چاہے اس کے لیے اسے اقلیتی گروہوں، وہ نسل کی بنیاد پر ہوں یا مذہب کی بنیاد پر، کو ان کے حقوق سے محروم ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ حکمران کے ذہن میں  اس طبقے یا طبقات کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے   جن کی آبادی زیادہ ہے بانسبت ان لوگوں کے کہ جن کی تعداد کم ہوتی ہے اور اس طرح وہ اقلیتی گروہوں کے حوالے سے غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر سینٹ کا چیرمین یا ریاست کا سربراہ  چھوٹے صوبے سے آئے تب بھی اس  حکمران کی توجہ بڑے صوبوں یا ان لوگوں کے مسائل پر رہتی ہے جن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صورتحال علاقائی  تعصب اور فرقہ واریت کی جانب لے جاتی ہے۔

 

اس کے علاوہ یہ اکثریت ہوتی ہے جو جمہوریت میں تمام معاملات پر فیصلہ کرتی ہے اور اس طرح خود بخود اکثریت کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے اور اقلیتی گروہوں کی اہمیت کم ہوتی جاتی ہے۔  اکثریت  اپنی خواہشات اور ضروریات کے مطابق قوانین بناتی ہے اور اقلیتی گروہوں کی خواہشات کا کم ہی خیال رکھتی ہے۔ قوانین تبدیل کیے جاتے ہیں جب بھی اکثریت انہیں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور اقلیتی گروہوں کو اپنے حقوق کے لیے لازمی لڑنا پڑتا ہے۔  نام نہاد "تہذیب یافتہ" مغربی معاشروں میں اکثریتی گروہ یا گروہوں کے ہاتھوں اقلیتی گروہ یا گروہوں کا استحصال ایک عام بات  بن چکی ہے     جس کی ایک مثال امریکہ میں افریقی نسل  اور ہسپانوی نسل کے لوگوں کےساتھ امتیازی سلوک ہے۔

 

لیکن خلافت میں خلیفہ ایک بار منتخب ہوتا ہے اور  اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرنے کا عہد کرتا ہے۔ دوبارہ انتخاب  کے دباؤ  کے بغیر  خلیفہ یہ جانتا ہے کہ جب تک وہ اسلام کو نافذ کرتا رہے گا ، جس کے لیے اسے یہ عہدہ دیا گیا ہے، اسے اپنی حکمرانی کے ختم ہونے کا  کوئی خوف رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے وہ اکثریتی گروہ کے کسی بھی غیر منصفانہ مطالبے کو تسلیم  اور ان کے حق میں کام کرنے کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔  اسی طرح ریاست خلافت علاقائی، رنگ، نسل، زبان کے تعصبات سے بالاتر ہوتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جمہوریت کے برخلاف خلافت میں قانون سازی کا حق لوگوں کے پاس نہیں ہوتا ،چاہے وہ اکثرتی گروہ ہو یا اقلیتی گروہ ہو، بلکہ قوانین صرف اور صرف قرآن و سنت سے ہی لیے جاتے ہیں۔ لہٰذا قوانین کو کسی اکثریتی گروہ کی "منظوری" کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی  وہ کسی اکثریتی گروہ کی "ضروریات" یا "خواہشات" کے مطابق بن سکتے ہیں۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ اکیلے تمام انسانیت  پر مقتدر ہیں  اور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا قانوی ہے اور کیا غیر قانونی ہے۔ لہٰذا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قانون سازی کا اختیار انسانوں سے لے کر اقلیتی گروہوں چاہے وہ مذہبی ہوں یا لسانی، ان کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اور انہیں یقینی بنایا ہے اور انہیں امن فراہم کیا ہے۔ لہٰذا یہ صرف خلافت ہی ہوگی جو ہزارہ لوگوں  اور تمام مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے گی۔ یہ صرف خلافت میں ہی ہوا تھا  کہ نہ صرف  مسلمان بلکہ یہودی اور عیسائی عرب قبائل  کئی نسلوں تک امن اور خوشحالی کے ساتھ رہے۔       

Last modified onپیر, 26 مارچ 2018 01:02

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک