بسم الله الرحمن الرحيم
خبر اور تبصرہ
- بجلی کا بحران صرف اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جب اسے
- اسلام کے حکم کے مطابق عوامی ملکیت قرار دیا جائے
خبر:
17اپریل 2018، بروز منگل نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کے-الیکٹرک کو کراچی میں بجلی کے بحران کاذمہ دار قرار دیا اور حکومت سے کہا کہ وہ اس کے گیس کے کوٹے میں اضافہ کرے تا کہ لوگوں کی مشکلات کو ختم کیا جاسکے۔ نیپرا نے تفتیشی رپورٹ کامطالعہ کیا اور فیصلہ کیا کہ کے-الیکٹرک کے خلاف مختلف ذمہ داریوں کے حوالے سے غفلت برتنے پر ، جس میں استعداد کے مطابق بجلی پیدانہ کرنا بھی شامل ہے، کارروائی کی جائے۔
تبصرہ:
جب سے اپریل کامہینہ شروع ہوا ہے کراچی کے لوگ دہری مشکل کا شکار ہیں۔ ایک مشکل تو قدرت کی جانب سے شدید گرمی کے صورت میں ہے جس میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور دوسری مشکل کراچی الیکٹرک کمپنی کی جانب سے ہے جسے کے-الیکٹرک کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کے –الیکٹرک جو کراچی کے لیے بجلی کی پیداوار اور ترسیل کی ذمہ دار ہے ، پچھلے کچھ ہفتوں سے بڑھتی لوڈ شیڈنگ کی ذمہ دار ہے۔ مختلف علا قوںمیں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 3 سے 12 گھنٹے تک ہے۔ بجلی کے اس بحران پر عوامی غصے سے بچنے کے لیے کے-الیکٹرک نےاس بحران کی ذمہ داری سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) پر یہ کہہ کر ڈال دی کہ ایس ایس جی سی نے بجلی کے طلب کو پورا کرنے کے لیے گیس کی سپلائی 90 ایم ایم سی ایف ڈی سے بڑھا کر 190 ایم ایم سی ایف ڈی نہیں کی۔ ایس ایس جی سی نےکے-الیکٹرک کے مطالبے کو یہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیا کہ پہلے وہ اپنے پچھلے بقایا جات ادا کرے جو تقریباً 80 ارب روپے بنتے ہیں۔ اس تنازعے میں کراچی کے لوگ اور اس کی صنعت اور تجارت بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں۔ کے-الیکٹرک ایک نجی کمپنی ہے اور ایس ایس جی سی اگرچہ حکومتی کمپنی ہے لیکن اسے ایک کارپریٹ ادارے کی طرح چلایا جاتا ہے لہٰذا حکومت کو کے-الیکٹرک پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور ایس ایس جی سی پر بھی حکومت زیادہ دباؤ نہیں ڈالتی ہے۔ لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ کے-الیکٹرک جانتے بوجھتے بجلی کم پیدا کررہی ہے کیونکہ جو بجلی گھر بند پڑے ہیں وہ فرنس آئل سے چلتے ہیں اور چونکہ فرنس آئل گیس سے مہنگی پڑتی ہے تو اس لیے کمپنی گیس کی سپلائی بڑھانے پر اصرار کررہی ہے تا کہ اپنی پیداواری لاگت کوکم رکھ سکے اور منافع میں اضافے کو ممکن بنا سکے۔
نیپرا کی رپورٹ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ بجلی اور گیس کی نجکاری عام آدمی کے مفاد اور معیشت کو سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ آج کی دنیا میں بجلی اور گیس دو بنیادی عناصر ہیں جس پر صنعتوں اور عوام کی بہت بڑی تعداد کا انحصار ہوتا ہے ۔ جب ان وسائل کونجی مالکان کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے تو ان کے مالکوں کاسب سے اہم مفاد اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہوتا ہے اور لوگوں فلاح و بہبود اور معیشت کافائدہ ان کا مفاد نہیں ہوتا۔ لہٰذا عوامی سہولیات کونجی مالکان کے نفع سے منسلک کردیا جاتا ہے اور اگر نجی کمپنیاں منافع نہیں کما پاتیں تو عوامی سہولیات کی ترسیل میں کمی یا انہیں روک دیا جاتا ہے جس کا مظاہرہ ہم اس و قت کراچی میں دیکھ رہےہیں جہاں لوگ اس وجہ سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ کراچی میں بجلی کے بحران کی وجہ کمزور انتظامیہ یا مالیاتی نظم و ضبط نہیں ہے ، بجلی کے بحران کی وجہ توانائی کے وسائل کی نجکاری کا غلط تصور ہے جو عوامی سہولیات کی فراہمی کو سرمایہ دار کے پیسے کی ہوس سے منسلک کردیتی ہے۔ سرمایہ داریت کو لوگوں کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور اس کا واضح اظہار اس و قت کراچی میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
اسلام لازمی قرار دیتا ہے کہ توانائی کے وسائل کو عوامی ملکیت قرار دیا جائے اور اس بات کا حکم دیتا ہے کہ ان سے حاصل ہونے والے فوائد کو ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچایا جائے۔ کیونکہ اسلام نے توانائی کے وسائل کوعوامی ملکیت قرار دیا ہے اس لیے یہ ریاست لوگوں کے وکیل کی حیثیت سے ان کا نظم و ضبط سنبھالتی ہے اور ریاست ان کی کبھی بھی کسی بھی جواز کی بنا پر نجکاری نہیں کرسکتی۔ تو جب خلافت قائم ہوجائے گی تو خلیفہ راشد توانائی کےوسائل بشمول بجلی کو عوامی ملکیت قرار دے گا اور بجلی و توانائی کے بحران کی بنیادی کو ہی ختم کردے گا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاَثٍ فِي الْمَاءِ وَالْكَلإِ وَالنَّارِ
“مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ(توانائی)”(ابو داود)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان