الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

نوید بٹ - ہمارے ماموں!

عمران يوسفزئي ، پاکستان

 

سبھی انھیں ماموں کہتے تھے، اسی لئے نوید بٹ کہنا اچھا نہیں لگا۔ اس میں نام کی اپنائیت تو تھی ہی، لیکن وہ تو ویسے بھی ہمارے اپنے تھے۔ بلکہ ہر ایک کو لگتا تھا کہ انہی کے اپنے ہیں۔ میں نے تو ان کے نائب کے طور پر 7 سال کام کیا، اس لئے میں تو ان کی شفقتوں کا شائد بہت زیادہ حصہ سمیٹ چکا ہوں۔ مجھ پر تو ان کے اتنے احسانات ہیں کہ میں اور میری فیملی تو ہمیشہ جیسے اُن احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ میری اور میری بیگم کی ہر دعا کا تو وہ حصہ ہیں ہی، میرے تو بچے جب بولنا سیکھتے ہیں اور ہم انھیں دعا سکھاتے ہیں تو "یا اللہ ہمیں بخش دے، یا اللہ ہمارے والدین کو بخش دے، یا اللہ ماموں کو رہائی دلوا دے۔۔۔" سے ہی وہ دعائیں سیکھنا شروع کرتے ہیں۔ دل پر جیسے ایک پتھر پڑا ہوا ہے جب تک وہ رہا نہ ہو جائیں۔ حزب کے میڈیا آفس میں ان کی رہنمائی میں کام کرتے ہوئے صرف ان سے دعوت اور علم ہی نہیں سیکھا، بلکہ ان سے زندگی کے ہر مسئلے میں رہنمائی لی، شادی، بچوں کی تربیت، دوا و علاج، کاروباری پارٹنر شپ، بنیادی اخلاق، فیملی سے تعلق غرض ہر معاملے میں۔ ابھی بھی افسوس ہے کہ اپنی کمزوریوں کے باعث ان سے بھرپور استفادہ حاصل نہیں کر سکا۔

 

میں  نے انہیں کمزور مالی حالات میں بھی دیکھا لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی جگہ انہوں  نے مجھے پیسے دینے کی اجازت دی ہو، بلکہ انھوں نے ہمیں کبھی یہ احساس بھی نہیں دلایا کہ ان کی مالی حالت کمزور ہے۔ اور جب ان کے پاس وراثت کی جائیداد سے کچھ پیسے آئے، تو اس میں سے خطیر رقم کمزور مالی حالات والے شباب کو صدقات اور قرضوں میں دے دی۔ اور میرے علم میں نہیں کہ کبھی انہوں نے کسی سے قرض کے پیسے واپس مانگے ہوں۔ ان کے ساتھ میڈیا کے افراد کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ پارٹی پر پابندیوں کے باعث انٹرویو وغیرہ کے مواقع بہت کم ملتے تھے۔ ایک بار راولپنڈی میں ایک اخبار کے ساتھ انٹرویو کا وقت فکس ہو گیا، جو کہ بہت بڑی اچیومنٹ تھی۔ میں اور ماموں راستے میں تھے کہ دیکھا کہ ایک شخص کی گاڑی خراب تھی اور گاڑی میں اس کی فیملی ساتھ تھی۔ ماموں نے چیک کیا تو ان کی گاڑی میں سی این جی ختم ہو گئی تھی اور اسے رسی سے کھنچنے کی ضرورت تھی۔ میں نے ماموں سے کہا کہ ماموں انٹرویو بہت ضروری ہے، کوئی اور ان کی مدد کر  لے گا۔ لیکن انھوں  نے ان کی گاڑی اپنی "کھٹارہ" گاڑی کے ساتھ رسی سے کھینچ کر سی این جی اسٹیشن تک پہنچا کر ہی دم لیا۔

 

وہ ایسے زبردست داعی تھے کہ 24/7/365 ان کی دعوت چلتی رہتی تھی۔ ان کو میڈیا کے سامنے کبھی لاجواب ہوتے نہیں دیکھا۔ آج جنہیں بڑے بڑے اینکر کہا جاتا ہے، ان کے سخت سے سخت سوالات پر ماموں ان پر پانچ منٹ میں اسلام کے نظریات کی وہ فکری گہرائی ثابت کر دیتے، جن سوالات پر دیگر اسلامی رہنما آئیں بائیں شائیں کرتے رہتے۔ اے آر وائی ٹی وی کے ایک بڑے اینکر  نے انہیں کہا کہ آپ خلافت میں عورتوں کو زبردستی پردہ کروائیں گے؟ ماموں نے سکون سے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جناب مجھے بتائیں کہ امریکہ، فرانس، انگلینڈ جیسے ممالک میں پبلک میں لباس کی کم از کم حد ہے کہ نہیں؟ کیا کوئی مکمل برہنہ پھر سکتا ہے؟ اور اگر وہاں حد موجود ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کامل آزادی ناممکن ہے۔ پس مسئلہ یہ نہیں کہ حد موجود ہے کیونکہ وہ تو ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جس پر آپ کو اعتراض نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ حد طے کرنے کا اختیار کس کے پاس ہونا چائیے؟ جمہوریت سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ کو، جبکہ بطور مسلمان ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اختیار رب الکائنات کا ہے۔ اینکر اس پر کوئی مزید سوال نہ اٹھا سکا۔

 

ایک دوسرے نامور اینکر جو اب یوٹیوب پر منتقل ہو چکے ہیں، صرف دو منٹ میں اتنا متاثر ہوئے کہ انہیں اپنے ساتھ پروگرام میں آنے کی دعوت دی، ماموں  نے انہیں کہا کہ آخر کب تک آپ لوگوں کو ایک محدود "جمہوریت اور آمریت " کے تقابلی جائزوں کی بحث میں الجھا کر رکھیں گے، مجھے بتائیں کہ جمہوریت اور آمریت دونوں میں ایک ہی عدالتی نظام نہیں ہوتا؟ دونوں نظاموں میں وہی پولیس، وہی  بیوروکریسی، وہی برابریوں پر مبنی لبرل معاشرتی نظام نہیں؟ اگر مشرف دور میں مجاہدین بیچے گئے تو نواز دور میں ایمل کانسی کو امریکہ اٹھا کر نہیں لے گیا؟ کیا دونوں نظاموں میں "قومی مفادات" کے نام پر امریکہ کی چاکری نہیں کی جاتی؟ دونوں نظام نیوکلونیل آرڈر کے تحت نہیں چلتے؟ دونوں نظام سرمایہ دارانہ معاشی نظام نافذ نہیں کرتے؟ مجھے بتائیں عوام کو ان دونوں نظاموں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم سرمایہ دارانہ نظام کی متبادل آئیڈیالوجی پر کب بات کریں گے جیسے کہ پہلے کمیونزم اور کیپٹلزم پر کیا کرتے تھے؟ 

 

لیکن وہ پروگرام کبھی ریکارڈ نہیں ہو سکا، شائد ایک فون کال ان اینکر کو اپنی بات سے واپس پھرنے پر مجبور کر گئی۔ 

ایک دوسرے اینکر  نے ٹی وی سے جس دن استعفیٰ دے کر جانا تھا، انہوں نے آخری پروگرام میں ماموں کو بھرپور موقع دیا، کہ وہ کھل کر اپنی بات بیان کریں۔ یہ بات ان میڈیا والوں کی اسلام سے محبت کی عکاسی کرتی ہے، جس کا ثمر یقیناً ماموں کے کھاتے میں جائے گا۔

ماموں  نے ماڈرنسٹ سوچ اور کمپرومائز کے زیر اثر پھیلے ہوئے اسلامی افکار کے رد پر کثیر تعداد میں آرٹیکلز لکھے اور آج بھی وہ آرٹیکلز سادہ اردو میں لکھے ہوئے ان افکار کا بہترین رد ہیں۔ انہوں نے اسلام کے معاشی، تعلیمی، حکومتی، عدالتی نظاموں سمیت خارجہ و تعلیمی پالیسی پر بہترین پریزنٹیشنز  بنائیں تاکہ امت کا اسلامی نظام پر اعتماد بحال کیا جا سکے۔ ان کی لکھی پریس ریلیزیں نشتر کی طرح جابروں کے سینوں میں پیوست ہوتی تھیں۔ ان کے الفاظ کی کاٹ برداشت کرنا حکمرانوں کیلئے کبھی آسان نہیں تھا۔

 

ماموں اور ان کے ساتھیوں  نے حزب کیلئے کارکن نہیں بنائے بلکہ قطار در قطار اپنے جیسے لیڈر بنائے۔ یقیناً وہ اکثر شباب کے استادوں کے استاد ہیں، لیکن ان شاء اللہ جب وہ واپس آئیں گے تو انہیں یہ افسوس نہیں ہو گا کہ ان کے جبری اغوا کے دوران ان کے جانشینوں نے اس دعوت کی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اور بہت ممکن ہے کہ جب وہ واپس آئیں تو وہ اس حالت میں آئیں کہ جابروں کو گردن سے دبوچا جا چکا ہو، استعمار کا کھیل ختم ہو چکا ہو، اور تکبیر کے نعروں کے ساتھ وہ شباب کے کندھوں پر سوار اس دین کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ذمہ داریوں کا طوق اٹھا رہے ہوں۔

 

#FreeNaveedButt

#KnowNaveedButt

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک