بسم الله الرحمن الرحيم
اداریہ: شام میں مغربی وفود کا تانتا اور سابقہ نظام حکومت کی نقل تیار کرنے کی کوشش۔
(ترجمہ)
استاد ناصر شیخ عبدالحی کی تحریر
آلِ اسد کی حکومت کے خاتمے کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران شام میں بین الاقوامی سرکاری وفود کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ اردن، اٹلی اور دیگر ممالک میں بھی شامی صورتحال پر بین الاقوامی ملاقاتیں اور اجلاس ہوئے جن کے مقاصد، نتائج اور وعدوں میں فرق تھا۔ کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے کھلے احکامات جاری کیے جیسے کہ انہوں نے اپنے آپ کو شام کا حاکم مقرر کر رکھا ہے خصوصاً امریکہ، فرانس اور جرمنی کے وفود۔
ذیل میں ہم ان اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کے نتیجے میں سامنے آنے والے ذلت آمیز احکامات اور شرائط کا ذکر کرتے ہیں جو مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے رکھی گئیں۔
15 دسمبر 2024 کو شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن نے دورہ کیا اور کہا کہ "وہ شام میں کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں چاہتے۔"
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے 10 دسمبر 2024 کو نئی شامی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے چار بنیادی اصولوں پر عمل کرنے کی شرط عائد کی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا: "اس منتقلی کے عمل کے نتیجے میں ایک قابل اعتماد، جامع اور غیر فرقہ وارانہ حکومت ہونی چاہیے جو شفافیت اور احتساب کے بین الاقوامی معیاروں پر پورا اترے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔" اس کے علاوہ، "اقلیتوں کے حقوق کا مکمل احترام کیا جائے، شام کو دہشت گردی کے اڈے یا اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرے کے طور پر استعمال ہونے سے روکا جائے، اور کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کے ذخائر کو محفوظ بنایا جائے اور انہیں بحفاظت تباہ کیا جائے۔"
3 جنوری 2025 کو جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک اور ان کے فرانسیسی ہم منصب جان نوئیل بارو نے دمشق کا مشترکہ دورہ کیا۔ ملاقات کے بعد بیربوک نے کہا کہ انہوں نے نئی شامی انتظامیہ کے سربراہ کو بتایا ہے کہ یورپ "نئے اسلامی ڈھانچے" کے لیے رقم فراہم نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعمیر نو کے عمل میں تمام گروہوں کو شامل کیا جانا چاہیے، کردوں کے لیے قابل اعتماد سیکورٹی کی ضمانت کی ضرورت پر زور دیا اور مطالبہ کیا کہ عدلیہ یا تعلیم کے نظام کو "اسلامیانے کی کسی بھی کوشش سے گریز کیا جائے۔" فرانسیسی وزیر خارجہ جان نوئیل بارو نے کہا: "ہم نے نئی شامی انتظامیہ کو نئے آئین کی تشکیل کے عمل میں تکنیکی اور قانونی مدد کی پیشکش کی ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "ہم شامیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور ان کے نئے مستقبل کی تشکیل میں ان کی مدد کریں گے۔"
ہالینڈ کے وزیر خارجہ نے کہا: "شام میں استحکام کو فروغ دینا ہمارے مفاد میں ہے، بشمول دہشت گردی کے مقابلے اور پناہ گزینوں کی واپسی کے۔" اردن کے وزیر خارجہ نے بھی کہا: "ہم شام میں دہشت گردی کی واپسی کو مسترد کرتے ہیں۔"
اسی طرح، اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے دمشق کا دورہ کیا، جنہوں نے اطالوی پارلیمنٹ میں کہا کہ "شامی سرزمین کی سلامتی کو برقرار رکھنا اور اسے دہشت گرد تنظیموں اور مخالف فریقوں کے ذریعے استعمال ہونے سے روکنا ضروری ہے۔" اس دورے کے بعد لبنان کے نگران وزیراعظم نجیب میقاتی نے دورہ کیا، اس سے پہلے قطر، عمان، اردن، عراق، بحرین اور سعودی عرب کے وفود نے بھی دورے کیے تھے۔ سعودی وفد نے "نئی انتظامیہ کے وعدوں پر عمل درآمد" پر تبادلہ خیال کیا، جس سے مراد "مسلح گروہوں کو ختم کرنا اور شام کو اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ بننے سے روکنا" تھا۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ "نئی شامی انتظامیہ نے بین الاقوامی برادری کے جائز مطالبات کو قبول کرنے میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔"
گزشتہ جمعرات کو امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے روم میں ایک اجلاس کے دوران شام میں استحکام لانے اور تنازعہ کو روکنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ "وزراء اس بات پر متفق ہیں کہ شام میں مذہبی اقلیتوں کا تحفظ ضروری ہے، اور انہوں نے تمام گروہوں سے انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔" ملر نے مزید کہا کہ وزراء نے اس بات کو بھی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا کہ شام اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ بنے اور نہ ہی "دہشت گردی کا اڈہ" ہو۔ مذاکرات میں دمشق پر عائد پابندیوں میں نرمی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ اس دوران "قسد" فورسز کے کمانڈر مظلوم عبدی نے دمشق میں نئی حکومت کے ساتھ "کسی بھی تقسیم کے منصوبے" کو مسترد کرنے پر اتفاق کیا جو شام کے اتحاد کو خطرے میں ڈال سکتا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں دونوں فریقوں کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات "مثبت" رہی۔
اس سے قبل احمد الشرع نے بی بی سی کے بین الاقوامی ایڈیٹر جیریمی بوون کے ساتھ دمشق میں ایک انٹرویو میں شام پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ملک جنگ سے تباہ حال ہے اور اپنے پڑوسیوں یا مغرب کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "تحریر الشام کو اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کیا جانا چاہیے"۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی تنظیم کوئی دہشت گرد گروہ نہیں ہے۔ "الحدث" کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا: "سعودی عرب شام کے استحکام کے لیے خواہاں ہے... اور ہمارے لیے انقلاب ختم ہو چکا ہے اور ہم اسے شام سے باہر منتقل نہیں کریں گے۔" شام میں یہودیوں کی دراندازی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نئی انتظامیہ "(اسرائیل) کے ساتھ تنازعہ میں الجھنے کا ارادہ نہیں رکھتی، لیکن (اسرائیلی) فریق نے 1974 کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔"
مندرجہ بالا بیانات کا جائزہ لینے کے بعد، مندرجہ ذیل باتوں پر زور دینا ضروری ہے:
پہلا:یہ سب کچھ امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی سازش کی حد کو ظاہر کرتا ہے، اور شام کے لیے اسلام کے دشمنوں کے اتحاد کو اور شام کے معاملے میں ان کے خوف کو، اور شام کا خلافت کے لیے نقطہ آغاز بننے کو ظاہر کرتا ہے، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شام میں اصل تنازعہ اسلامی امت اور کافر استعمار کے درمیان ہے۔ اور سازشیوں کا ریاست کے سیکولر ہونے پر اتفاق کرنا، اور "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کی دعوت دینا، اور قومی سرحدوں اور قومی وابستگی کو مستحکم کرنا، اور حکومت میں تمام گروہوں کو شامل کرنا اس بات کی دلیل ہے۔
دوسرا:ہمارے دشمن، ایک نئے انداز میں نظام کو دوبارہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جو سابقہ نظام کی حدود اور ضوابط سے باہر نہ ہو اور جو حکمرانی کے مغربی معیاروں کا پابند ہو۔ امریکہ ایک ایسی سیکولر لبرل ریاست چاہتا ہے جس میں ترکی کے نظام کی طرح اسلامی رنگ ہو۔ شام میں حکومت کی شکل کا تعین کرنے اور اس میں اسلام کا کوئی بھی ذکر ختم کرنے کے معاملے میں امریکہ اور یورپ کی صریح مداخلت سے، اسلام کے خلاف مغرب کی نفرت کا ثبوت ملتا ہے اور اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ سیاسی خلاء کو اس چیز سے پر کرنے کے لیے کس قدر بے تاب ہیں جو مغرب کے وژن، مفادات اور نوآبادیاتی خواہشات کے لیے خطرہ نہ ہو۔
تیسرا: ان ممالک کی جانب سے تکبر کا رویہ، شرائط اور حکم نامے عائد کرنا، اور سیاسی طور پر گندی بلیک میلنگ کرنا، اور نئی حکومت کی شکل اور اس کی باریکیوں کو طے کرنے میں مغربی شرائط کی تعمیل کے بدلے پابندیاں اٹھانے اور مالی مدد فراہم کرنے کی سودے بازی کرنا، اس لیے ہے تاکہ شام خالصتا سیکولر ہو اور کسی بھی حقیقی اسلامی قوت کے اثر و رسوخ سے پاک ہو بلکہ شریعت کو نافذ کرنے کی ہر مخلصانہ دعوت کے خلاف برسر پیکار ہو۔
چوتھا: اس بات پر اصرار کہ امت کو قومی سرحدوں کے ذریعے تقسیم رکھا جائے، تاکہ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ وہ ایک امت کے فرزند ہیں اور یہ کہ ان پر ایک ریاست کے زیر سایہ رہنے کے لیے ان سرحدوں کو مسمار کرنا واجب ہے۔ اور یہ بات عراق، اردن اور لبنان کی حکومتوں نے ان سرحدوں کی حفاظت ذریعے اسمگلنگ کی کارروائیوں کو روکنے کے بہانے سے کہی۔
پانچواں: یہود کی جارحیت کو یقین دہانی اور نرم رویہ سے نہیں نمٹا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے ایک باوقار، نظریاتی موقف کی ضرورت ہے جو اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی طاقت کو ظاہر کرے، اور یہود کی بستی ایک سرطانی گانٹھ ہے جسے ختم کیا جانا چاہیے۔
چھٹا:مغربی ممالک چھوٹے نسلی گروہوں کو اسلام کے خلاف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور وہ انہیں اسلام کے منصوبے کو اندر سے نقصان پہنچانے کے لیے راغب کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اسلامی ریاست میں "اقلیتوں" کی کوئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ ریاست کے شہری ہیں جن کے حقوق ریاست کے عمومی نظام کے تحت محفوظ ہیں۔
ساتواں:سیاسی بلیک میلنگ اور احکامات کی پالیسی جو مغرب کی طرف سے کی جا رہی ہے، تو مغرب کے ساتھ کوئی تعاون، سمجھوتہ، یقین دہانی، مفاہمت یا دوسروں کے معاملات میں عدم مداخلت کا رویہ رکھنے کا کوئی دائرہ نہیں ہے۔ ان کو خوش کرنے کی کوششیں اس وقت تک کارگر نہیں ہوں گی جب تک کہ موجودہ انتظامیہ ان کے مذہب کی پیروی نہ کرے، اور شہری ریاست اور حقوق اور انصاف کی ریاست کے نعرے تو صرف باطل کو آراستہ کرنے کے لیے ہیں۔ ان کا خالق ہم سے زیادہ انہیں جانتا ہے، اور اس نے ان کے بارے میں کہا:
﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ﴾
"اور یہودی اور عیسائی ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرلیں" (سورۃ البقرۃ: آیت 120)،
اور اس نے ہمیں ان کی طرف تھوڑا سا بھی جھکاؤ رکھنے سے خبردار کیا ہے:
﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّنْ دُونِ اللهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ﴾
" ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی ( دوزخ کی ) آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا اور تمہارا مددگار نہ ہو گا اور نہ تم مدد دیئے جاؤ گے" (سورۃ ھود: آیت 113)
اللہ کی بات سے اوپر کسی کی بات نہیں ہے اور قطعی دلالت کے ساتھ نص کی موجودگی میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آخر میں:ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں ظالم کے نظام کو گرانے کا اعزاز بخشا۔ یہ شکر ایسے ادا ہونا چاہیے کہ شام کو خلافت کی ریاست کا نقطہ آغاز بنایا جائے، بغیر کسی پس و پیش اور نرم روی کے۔ جس ذات نے اسد کی حکومت گرانے میں ہماری مدد کی وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اگر ہم اس کی مدد کریں تو وہ ہماری ریاست قائم کرنے میں بھی ہماری مدد کرے۔
حزب التحریر، ولایہ شام کے میڈیا آفس کے رکن