بسم الله الرحمن الرحيم
باجوہ-عمران حکومت کا بین الاقوامی ڈھانچوں کی ناکامی کو تسلیم کرنے کے باوجود کشمیر کی آزادی کے لیے انہی ڈھانچوں پر انحصار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے دستبردار ہو گئی ہے
خبر:
17 اگست 2020 کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت سے نمٹنے کے لیے حکومت کی چار جہتی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس بدلتی دنیا میں بین الاقوامی ڈھانچوں کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنی قومی طاقت پر زیادہ انحصار کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا "موجودہ دنیا زیادہ غیر یقینی ہو چکی ہے، جس میں پہلے سے اندازہ لگانا مشکل اور شاید اس کا نظام مزید ناکارہ ہو چکا ہے"۔
تبصرہ:
اب بین الاقوامی ڈھانچوں کا متعصب چہرہ اس قدر واضح ہو چکا ہے کہ یہ حکومت بھی اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی ہے، جس کا اظہار وزیر خارجہ نے یہ کہہ کرکیا کہ "ایک نئی دنیا ہے، بہادر بنو یا بھگتو، یہ صورتحال ہم پر مسلط ہے اور ہمیں اسی حالات کے ساتھ رہنا ہے"۔ لہٰذا پاکستان کے حکمرانوں نے بلا آخر عوامی سطح پر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا کہ کشمیر کا منصفانہ حل امریکا، اقوام متحدہ، بین الاقوامی برادری اور بین الاقوامی قانون پر انحصار کر کے ممکن نہیں ہے۔ یہ بات عوام، بااثر افراد اور افواج میں موجودہ باخبر اور مخلص لوگوں کے لیے کوئی نئی خبر نہیں ہے، جنہوں نے ابتداء سے ہی بین الاقوامی تنظیموں اور بین الاقوامی قانون پر انحصار کرنے کی پالیسی کو مسترد کردیا تھا۔ بین الاقوامی ڈھانچوں نے کبھی انصاف نہیں کیا اور ناہی آئندہ کریں گے کیونکہ وہاں پر عالمی طاقتوں کی بالادستی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے عمومی طور پر دشمن ہیں ، اور خصوصاً امریکا ، جس کے مفادات بھارت کے ساتھ ملتے ہیں۔
تاہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود حکومت بھارتی جارحیت کے خلاف اب بھی "تحمل"(Restraint) کی پالیسی پر چل رہی ہے، اور اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری پر انحصار کررہی ہے کہ وہ بھارت کو کشمیر میں استصواب رائے منعقد کروانےکے لیے مجبور کریں گے۔ بھارتی جارحیت کے خلاف حکومتی پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حکومت اب بھی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے درکار ضروری قدم نہیں اٹھا رہی ۔ بھارت سے نمٹنے کے لیے جس چار جہتی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے وہ کوئی نئی پالیسی نہیں ہے۔ یہ پرانی پالیسی کا ہی تسلسل ہے ، لیکن اسے نئےسرورق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ چار جہتی پالیسی کے نکات یہ ہیں:نئی دہلی کے شیطانی ارادوں کا سامنا کرتے ہوئے انھیں بے نقاب کرنا، فوجی تیاری کے ذریعے انھیں روکنا، بھارتی اقدامات کی وجہ سے اپنے ایجنڈے سےخلفشار کا شکار نہ ہونا اور سی پیک، شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) اور اقتصادی تعاون تنظیم(ای سی او) کے ذریعے علاقائی انضمام کے منصوبوں میں شمولیت جاری رکھنا۔
پاکستان میں پچھلے 73 سال میں آنے والی ہر حکومت نے انہی چار جہتی نکات کو استعمال کیا ہے۔ ان کی اس ناکام پالیسی نے بھارت کو فائدہ پہنچایا کیونکہ اس حکمت عملی سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے بہت وقت مل گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اپنی فوجی ڈاکٹرائن کو محض آزاد کشمیر اور پاکستان پر بھارت کے حملے کا کامیاب دفاع کرنے تک محدود رکھا جبکہ اس ڈاکٹرائن میں مقبوضہ کشمیر کوبھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کی حکمت عملی بھی شامل ہونی چاہیے۔ اسی طرح علاقائی انضمام کے منصوبوں میں شرکت کر کے چین نے زیادہ فائدہ اٹھایا جس نے خطے میں اپنی طاقت و اثرورسوخ کو بڑھایا ، اور یہ بات اب سب پر واضح ہو چکی ہے کہ چین بھی اسلام سے شدید نفرت کرتا ہے اور مشرقی ترکستان میں رہنے والے ایغور مسلمانوں پر بدترین مظالم کررہا ہے تا کہ وہ اپنی اسلامی شناخت سے دستبردار ہوجائیں۔ یقیناً اس نام نہاد چار جہتی پالیسی سے مسلمان صرف ناکامیاں ہی سمیٹ رہے ہیں۔
یہ چار جہتی حکمت عملی ہمیں موجودہ موافق صورتحال سے فائدہ اٹھانے سے روک رہی ہے ۔ اس وقت بھارت فوجی لحاظ سے کمزور ہے کیونکہ اسے دو مشکل محاذوں ، چین اور پاکستان، کا سامنا ہے۔ بھارت کی فضائیہ اور ائیر ڈیفنس سسٹم پاکستان کی فضائیہ اور اس کے میزائل سسٹم کےمقابلے میں کمزور ہے۔ ان کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے بھارت فرانس سے ڈیزالٹ رافیل ملٹی رول جنگی طیارے اور روس سے ایس-400 ائر ڈیفنس سسٹم خرید رہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکمت عملی بھارت کو اپنی ان کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے وقت فراہم کررہی ہے۔ اس سے پہلے کہ بھارت خود کو مکمل طور پر کیل کانٹے سے لیس کرلے، وقت کا تقاضا ہے کہ جارحانہ حکمت عملی اپنائی جائےاور لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی افواج کو حرکت میں آنے کا حکم دیا جائے۔ لیکن باجوہ-عمران حکومت ایسی جارحانہ حکمت عملی کبھی اختیار نہیں کرے گی کیونکہ وہ امریکا کی وفادار ہے جس کا پاکستان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ بھارتی جارحیت کے سامنے تحمل کا مظاہرہ جاری رکھے تا کہ بھارت چین اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کے تحریکوں کے مدمقابل کھڑا ہوسکے۔ صرف جلد قائم ہونے والی خلافت علیٰ منہٰج نبوت ہی درکار جارحانہ اقدامات اٹھائے گی کیونکہ خلیفہ راشد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس صورتحال میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے،
(وَاقۡتُلُوۡهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡهُمۡ وَاَخۡرِجُوۡهُمۡ مِّنۡ حَيۡثُ اَخۡرَجُوۡكُمۡ)
" اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہےوہاں سے تم بھی ان کو نکال دو"(البقرۃ۔ 2:191)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے انجینئر شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔