بسم الله الرحمن الرحيم
کشمیر کی آزادی کے لیے نئے سیاسی نقشے کی نہیں
بلکہ افواج پاکستان کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہے
انجینئر معیز، پاکستان
الراعیہ میگزین، شمارہ:300
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نیم آزاد حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کے ٹھیک ایک سال پورا ہو نے سے ایک دن قبل پاکستان کے وزیر اعظم، عمران خان ، نے پاکستان کا "نیا سیاسی نقشہ" قوم کے سامنے پیش کیا۔ 5 اگست 2019 کو جب مودی نے کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کیا تو اُس وقت سے پاکستان کی ہائبرڈ (hybrid)سیاسی وفوجی حکومت سخت عوامی دباؤ کا شکار ہے کہ وہ بھارتی جارحیت کا جواب دے۔ حکومت نے اس عوامی مطالبے کا جواب چند نمائشی اقدامات کے ذریعے دینے کی کوشش کی جیسا کہ: 5اگست کے دن کو" یوم استحصال "کے طور پر منانا، کشمیر کے حوالے سے آگاہی مہم جس میں کشمیر کے مسلمانوں کو درپیش مصائب کو اجاگر کرنا، ہندو ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کو کم کرنا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کہ وہ کشمیر کے حوالے سے بھارت پر دباؤ ڈالے اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے اپیل کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کا انتظام کروائے تا کہ کشمیر کے مسلمان بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکیں۔یعنی وہ حل جو برصغیر کی نامکمل تقسیم کے تناظر میں پاکستان کی حکومت پیش کرتی ہے۔
ان تمام نمائشی اقدامات کو پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت نے مسترد کردیا۔ پاکستان کے مسلمان سیاسی طور پر باخبر ہیں اور پوری مسلم دنیا میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کی لہر نے پاکستان کے معاشرے کو زبردست طریقے سے متاثر کیا ہے۔ پاکستان کا معاشرہ اپنے زیادہ تر مفادات اور مسائل کو اسلامی آئیڈیالوجی کی عینک سے دیکھتا ہے اور اسلام کی جانب سے دیے جانے واے حل کی تلاش میں رہتا ہے۔ پاکستان کے غدار حکمرانوں کے مسائل میں اضافے کا باعث بنے والی چیز پاکستان کے مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والی کشمیر کی خصوصی اور بے انتہا محبت ہے۔ آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ ہر لحاظ سے منسلک ہے جس کے باعث مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مشکلات اور مصائب کا احساس پاکستان کے مسلمانوں کو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں نے کشمیر کے لیے خون بہایا ہے، 1990 کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جہاد کے لیے خوشی خوشی اپنے بیٹوں کو پیش کرچکے ہیں اور وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں۔ کشمیر کو جہاد کے ذریعے آزاد کرانے کا خیال پاکستان کے معاشرے میں بہت مضبوطی کےساتھ موجود ہے۔ جب سے مودی نے کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کیا ہے، پاکستان کے معاشرے نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حکومت کی بے عملی کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ پاکستان کی مشہور شخصیات نے کشمیر کی آزادی کے لیے فوجی قوت کے استعمال کی حمایت کی ہے۔
کشمیر کے مسئلہ کو افواج پاکستان میں بھی ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے جو بھارت کو ایک مشرک دشمن کے طور پر دیکھتی ہیں اور اسے ایک ایسی قوم کا ازلی دشمن تصور کرتی ہیں جو توحید کے عقیدے کی حامل ہے۔ کئی دہائیوں پر محیط اس دشمنی نے کشمیر کاز کو افواج پاکستان کے دلوں میں پیوست کردیا ہے جو افواج پاکستان کے لیے ہندو ریاست سے دشمنی کا میدان جنگ ہے۔ افواج پاکستان کے لیے کشمیر جہاں ایک اسلامی مسئلہ ہے کیونکہ ایک اسلامی سرزمین پر کافر طاقت قابض ہے وہیں پاکستان کی افواج کے لیے یہ عزت و غیرت کا معاملہ بھی ہے۔ 5 اگست 2019 کو مودی کا کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنا اور باجوہ-عمران حکومت کی بے عملی اور ہندو ریاست کی جارحیت کا فوجی سطح پر جواب دینے سے انکار نے پاکستان کی افواج کو شدید بے چین اور غصے کا شکار کردیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُس دشمن نے ان کی بے عزتی کی ہےجس سے وہ شدید نفرت کرتے ہیں۔ یہ غصہ ختم نہیں ہوا ہے اور پاکستان کی حکومت اس غصے کو ختم کرنے اور پاکستان کے مسلمانوں اور ان کی افواج کو کشمیر کے حوالے سے دھوکہ دینے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کررہی ہے۔
پاکستان کی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والا نیا سیاسی نقشہ بھی ایک ایسی کوشش ہے جس کے ذریعے حکومت خود کو کشمیر کاز کے سپاہی کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔ جب نیپال کی پارلیمنٹ نے ایک نئے نقشے کی منظور دی تو اس پر بھارت میں جنم لینے والے غصے اور بے عزتی کے احساس کا مشاہدہ کر کے پاکستان کی حکومت نے بھی نیپالی حکومت کی نقل اس امید پر کی کہ اس طرح عوام کشمیر کے حوالے سے ان کے اخلاص کے دھوکے میں آجائیں گے اور وہ عوامی غصے سے محفوظ ہو جائیں گے۔ نیپالی پارلیمنٹ کے عمل نے علاقائی سطح پر ایک ہلچل اس لیےپیدا کی کیونکہ روایتی طور پر نیپال کو ایک کمزور ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو بھارت کے سامنے کھڑا نہیں ہوتا اور ہمیشہ بھارت کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا جب چین کی حمایت سے نیپالی حکومت نے نیا سیاسی نقشہ جاری کر کے بھارتی حکومت کو سیاسی طور پر چیلنج کیا تو اُس کے اس عمل کو ایسے دیکھا گیا کہ اس نے ماضی کی روایت کو توڑتے ہوئے چین کی حمایت سے بھارت کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس واقع کو ایک انتہائی اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ چین، نیپال اور بھارت تینوں متنازعہ سرحد کے فریق ہیں اور نیپال کے اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ چین کی حمایت سے اپنے مفادات کو محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ نیپال کے برخلاف تاریخی طور پاکستان ایک علاقائی طاقت اور بھارت کا برابر تصور کیا جاتاہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ایک ایٹمی طاقت ہے اور جس کی بھارت کے ساتھ فوجی تنازعات کی ایک تاریخ بھی ہے۔ لہٰذا جب پاکستان کی حکومت نے نیا سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ دیکھایا گیا ، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ واضح طور پر اعلان بھی کردیا گیاکہ پاکستانی حکومت اپنے علاقے کو دشمن سے چھڑانے کے لیے فوجی قوت استعمال نہیں کرے گی تو حکومت ایک مذاق بن گئی۔ لوگوں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ حقیقی اقدامات کی جگہ نمائشی اقدامات کررہی ہے جس کے نتیجے میں زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوں گے اور نہ ہی علاقائی توازن میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ یہ ہے پاکستان کے معاشرے کی سوچ کی شفافیت کہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے افواج پاکستان کے جہاد کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی حکومت کی جانب سے نیا سیاسی نقشہ جاری کرنا اور پاکستان کے مسلمانوں کو اس کو مسترد کردینا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے معاشرے اور اس کے حکمرانوں کے درمیان فاصلے اپنی انتہا پر ہیں۔ پاکستان کے مسلمان اسلام سے شدید محبت کرتے ہیں اور شریعت کے نظام کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ اسلام کی ریاست، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام، دیکھنا چاہتے ہیں، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کے ذریعے حکمرانی کرے گی، ہمارے مسائل کا اسلامی حل نافذ کرے گی اور کشمیر و فلسطین کی آزادی کے لیے ہماری افواج کو حرکت میں لائے گی۔
فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ
"تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے سو قریب ہے کہ اللہ فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے) پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو چھپایا کرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائیں گے"(المائدہ، 5:52)۔