الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

رَبِّ ابْنِ لِى عِنْدَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ

"اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں گھر بنا دیجئے"(التحریم:11)

 

تحریر: مصعب بن عمیر،پاکستان

 

یہ اللہ ہی ہے جو انسان میں جنت کے حصول کی خواہش کو جگا سکتاہے اور اُسے اِس قابل کر سکتا ہے کہ اس کی نگاہیں اس دنیاکی زندگی کی لذتوں اور آسائشوں سے آگے اُس دنیا کو دیکھ سکیں جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور جس کی لذتیں اور آسائشیں بھی نہ ختم ہونے والی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے سمجھنے کے لیے ایسی مثال بیان کرتے ہیں کہ انسانی ذہن اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اس کا دل اُسے پانے کی خواہش سے لبریز ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں اُسے دیکھنے کی تمنا میں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں ،

وَضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا لِّلَّـذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ ۢ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِىْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِى الْجَنَّـةِ وَنَجِّنِىْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِـهٖ وَنَجِّنِىْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ

"اور اللہ نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی، جب اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں گھربنا دیجئے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا لیجئے اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دےدیجئے"(التحریم:11)

 

سبحان اللہ! کس قدر طاقتور مثال ہے فرعون کی بیوی، حضرت آسیہ بنت مزاحم کی! ان کی شادی اس گھر میں ہوئی تھی جہاں دولت کی اس قدر فراوانی  تھی اور وہ  گھر ایسی زبردست طاقت کا حامل تھا کہ اپنی پوری زندگی لگا  دینے کے  باوجود دنیا کے کچھ ہی لوگ  ایسی دولت اور طاقت حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ ایک نرم دل ، شفیق اور خیال رکھنے والی ماں تھیں اور انہیں ان سے بہت لگاؤ جن کی انہوں نے پرورش کی تھی ، اوروہ اپنے ان پیاروں کی جدائی پر غم ناک تھیں۔ لیکن اپنے ایمان کی خاطر انھوں نے اپنی نگاہیں اس جانب مرکوز کردیں جو اس بات کی زیادہ حقدار تھی یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جنت۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ "زمین پر بسنے والے لوگوں میں فرعون سب سے زیادہ جابر اور ایمان کی دولت سے محروم تھا۔ اللہ کی قسم! اس کی زوجہ اس کے کفر سے متاثر نہیں ہوئیں کیونکہ اس کی زوجہ (آسیہ) نے  اپنے رب کی تابعدار ی کی تھی"۔ یہ اللہ کی تیار کردہ جنت کی طرف  نگاہیں مرکوز کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایک نازک اور کمزور عورت نے فولاد جیسے مضبوط ارادے کا مظاہرہ کیا۔ ایسا مضبوط ارادہ کہ جسے انسانی تاریخ  کا جابر ترین شخص نہ توڑ سکا! ابنِ جریر طبری روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے بیان کیا کہ " فرعون کی بیوی پر سورج کی تپش میں تشدد کیاجاتا۔ جب فرعون اپنے تشدد کے سلسلے کو روکتا تو فرشتے اپنے پروں سے ان پر سایہ کردیتے۔ انھیں جنت میں ان کا گھر دکھایا گیا"۔ ابنِ جریر طبری بیان کرتے ہیں کہ القاسم بن ابی بازح نے بیان کیا کہ " فرعون کی بیوی نے پوچھا، 'کون غالب رہا'۔ جب ان سے کہا گیا: موسٰی اور ہارون، تو انہوں نے فرمایا:' میں ایمان رکھتی ہوں موسٰی اور ہارون کے رب پر "۔

 

یہ اُس جنت کے حصول کی شدید خواہش تھی کہ جس نے حضرت آسیہ کو جابر اور اس کے جبر کے سامنے ثابت قدم رکھا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان سے اس قدر خوش ہوئے کہ انھیں اُس موت سے محفوظ رکھا جو جابر انھیں دینا چاہتا تھا ۔  اس کے مارنے سے قبل ہی ان کی روح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس پہنچ گئی۔ فرعون نے اپنے ساتھی ان کی طرف بھیجے ،اس حکم کے ساتھ کہ سب سے بڑا پتھر تلاش کرنا اور اگر وہ اپنے ایمان پر اصرار کرے تو پتھرسے اس کا سر کچل دینا ، ورنہ وہ میری بیوی ہے۔ جب فرعون کے ساتھی حضرت بی بی آسیہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے آسمان کی جانب دیکھا اور جنت میں موجود اپنے گھر کو دیکھا۔ انھوں نے بدستور اپنے ایمان پر اصرار کیا اور پھر اللہ کے حکم سے ان کی روح قبض کرلی گئی۔ وہ پتھرکہ جس کے ذریعے فرعون نے انہیں مارنے کا حکم دیا تھا، وہ ان کے بے جان جسم پر ہی پھینکا گیا۔ یہ مثال ہر اس مرد اور عورت کے لئے ہے جو اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کی رضا کے لئے حق پر قائم رہتااور جابر کے سامنے ڈٹا رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پاکیزہ روح کے متعلق فرمایا،

أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ: خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْن

"جنت کی خواتین میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم بنت عمران اورفرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم ہیں"۔

 

آج اس دَور کے مسلمانوں کے لئے حضرت آسیہ کی انتہائی طاقتور مثال موجودہے کہ جو انھیں اُبھارے اوراس بات کی  تحریک دے کہ وہ آج کے دور کے جابروں،شام کے بشارالاسد، ازبکستان کے کریموف اور ان جیسوں کے   سامنے استقامت کے ساتھ کھڑے ہو سکیں، جو مسلمانوں پر کفر نافذ کرتے ہیں۔ ہمیں کسی صورت پیچھے نہیں ہٹنا خواہ کوئی جان سے مارنے کی دھمکیاں دے یا ہمیں جان سے مارنے کی کوشش کرے۔ اس دنیا کی زندگی اور اس میں پیش آنے والی تکالیف کا جنت کی ہمیشہ ہمیشہ کی راحت سے کیا مقابلہ ہے؟

إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ وَأَخْبَتُواْ إِلَى رَبِّهِمْ أُوْلَـئِكَ أَصْحَـبُ الجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ

"ٓیقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے کام بھی نیک کیے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں"(ھود:23)۔

 

ہمیں کسی صورت جبر کو ختم کرنے کی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹنا،چاہےزندانوں میں چلے جانے کی وجہ سے یا  جابروں کے غنڈوں سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے گھر ہی کیوں نہ چھوڑنے  پڑیں اور اس کے نتیجے میں ہم ان لوگوں سے ہی کیوں نہ جدا ہوجائیں جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ بے شک اگر ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں  اور بوڑھے والدین سے جدا ہونا پڑے تو دل غم سے بوجھل ہوجاتا ہے لیکن اگر اس کا تقابل ہمیشہ ہمیشہ کی جنت کی زندگی سے کیا جائے جہاں ہمیں پھر اپنے پیاروں سے ملا دیا جائے گا اور پھر کوئی کبھی بھی ہمیں ان سے جدا نہ کرسکے گا تو دنیا کی جدائی اس کے سامنے بہت مختصر ہے۔ اللہ سبحانہ  و تعالیٰ فرماتے ہیں،

جَنَّـتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ ءَابَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ

"ہمیشہ رہنے کے باغات، جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے"(الرعد:23)۔

 

لہٰذا اللہ انھیں ان کے پیاروں کے ساتھ اکٹھا کرے گا جو ان کے باپوں ، خاندان اور اولادوں میں سے ہونگے اور نیکو کار بھی ہونگے اور اس بات کے حقدار ہونگے کہ وہ جنت  میں داخل ہوں تا کہ انھیں دیکھ کر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ جدائی کے بعد یہ کیا ہی خوشیوں والا ملاپہوگا!

ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَجُكُمْ تُحْبَرُونَ - يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَـفٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَبٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاٌّنْفُسُ وَتَلَذُّ الاٌّعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ - وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ - لَكُمْ فِيهَا فَـكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ

"تم اور تمھاری بیویاں ہشاش بشاش(راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ۔ ان پر ہرطرف سے سونے کی رکابیوں اور سونے کے گلاسوں کا دَور چلایا جائے گا۔ ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ یہی وہ جنت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو۔ یہاں تمھارے لئے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے "(الزخرف:73-70)۔

 

وہ لوگ جنہیں ان کے پیاروں سے جدا کردیا گیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ صبر کریں اور اپنی اس صورتحال پر افسوس نہ کریں اور نہ ہی غم زدہ ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جنت میں ان لوگوں کے درجات کو بھی بلند فرمائیں گے جن کے درجات بلند نہیں ہوں گے اور انہیں بلند درجوں والوں تک بلند کریں گے  اور ایسا کرنے سے بلند درجوں والوں کے درجات کم نہ ہوں گے اور یہ اللہ کی خاص مہربانی ہو گی۔ عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ، 

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمْ يَلْحَقْ بِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ

"ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! اس آدمی کے متعلق آپﷺ کیا فرماتے ہیں جو لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان کے درجات کو نہیں پہنچ پاتا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی اسی   کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے"(بخاری:5703)۔

 

بزار نے حسن اسناد کے ساتھ  عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی کہ  اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَحَبَّ رَجُلا لِلَّهِ ، فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّكَ لِلَّهِ ، فَدَخَلا الْجَنَّةَ ، فَكَانَ الَّذِي أَحَبَّ أَرْفَعُ مَنْزِلَةً مِنَ الآخَرِ، الْحَقُّ بِالَّذِي أَحَبَّ لِلَّهِ

"جو شخص بھی اللہ کی خاطر کسی سے محبت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے تم سے اللہ کے واسطے محبت کی، اور پھر ان دونوں کو جنت میں داخل کردیا گیا، تو اگران میں سے ایک کا درجہ دوسرے سے بلند ہوا تودوسرے کو پہلے والے کے ساتھ ملا دیا جائے گا"(بزار: 2439)۔

 

تو ہمیں جابروں کے سامنے ثابت قدم رہنا ہے ، اسلام کی چوکیوں کی حفاظت کرنی ہے ،یوں مسلمانوں کو مصائب سے بچانا ہے اور بلند درجات کوحاصل کرنا ہے کہ یہی جنت کا راستہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

هَلْ تَدْرُونَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ؟"کیا تم جانتے ہوں کی اللہ کی مخلوقات میں سے کون سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا؟

أوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلَائِكَتِهِ: ائْتُوهُمْ فَحَيُّوهُمْ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ، وَخِيرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَأْتِي هؤُلَاءِ وَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَتُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً قَالَ : فَتَأْتِيهِمُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ فَيَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَاب

"اللہ کی مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونےوا لے غریب مہاجرین ہوں گے کہ جن کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہو ئی ہوگی اور مشکلات سے بچاؤ ہوا ہوگا۔ ان میں سےکوئی اس حال  میں مرا ہو گاکہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ خود اپنی اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا تھا۔پس اللہ اپنے فرشتوں میں سے جن  کو چاہے گا کہے گا کہ ان کے پاس جاؤ ،ان کا استقبال کرو اور انہیں سلام کہو۔ فرشتے کہیں گے کہ ہم آپ کی جنت میں رہنے والے ہیں اور آپ کی تخلیقات میں سے سب سے بہترین ہیں ، تو کیا آپ ہمیں یہ حکم دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس جائیں، ان کا استقبال کریں اور انہیں سلام کہیں۔ اللہ فرمائیں گے، یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میری عبادت کی اور کسی شخص یا چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا،ان کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہوئی اور مشکلات کا سدِ باب ہوا۔ ان میں سے کوئی اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ اس کو حاصل نہیں کرسکتا تھا،  پس فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور ہر دروازے سے ان کی طرف آئیں گے"۔

 

جابروں کو ہٹانے اور جنت کے حصول کی راہ میں آنے والی مشکلات اور مصائب سے ہم نے کسی صورت نہ تو گھبرانا ہے اور نہ ہی اس پر افسوس کرنا ہے۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ َالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ

"کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے، انھیں سختیاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے"(البقرۃ:214)۔

 

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَـهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّـبِرِينَ

" کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں"(آل عمران:143)۔

 

ہمیں اس زمین پر اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی ہے اور یہ جدوجہد ایسی شاندار ہونی چاہیے کہ جابر خوفزدہ ہوجائیں، ان کا اقتدار لڑکھڑائے اور زمین بوس ہو جائے اور ان کا جبر ہمارے ایمان کی مضبوطی اور ثابت قدمی کے باعث پاش پاش ہوجائے!

 

Last modified onبدھ, 27 جنوری 2021 10:07

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک