بسم الله الرحمن الرحيم
خلافت کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے
عمران خان کی حکومت کے خلاف غم و غصہ اور اس کی مخالفت اب معاشرے کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی عمران حکومت کی مخالفت کررہے ہیں جو پہلے اس کے حمایتی تھے اور اس سے کافی امیدیں رکھتے تھے، مگراب وہ بھی اس سے مایوس ہوگئے ہیں۔ لوگ عمران خان حکومت کو اس وجہ سے مسترد نہیں کررہے کہ اپوزیشن پران کا اعتماد بڑھ گیا ہے بلکہ یہ عمران خان کی اپنی بدترین کارکردگی کی بنا پر ہے۔ حکومت کی ناکامی صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ نااہل ہے بلکہ اس کی ناکامی کی وجہ اپنے استعماری سرپرستوں کے مطالبات کو پورا کرنا ہے۔ استعماری اداروں، قوانین اور نظاموں کے ساتھ ڈھٹائی کے ساتھ چمٹے رہنے کا فیصلہ کرکے عمران خان نے پاکستان کی خوشحالی اور تحفظ دونوں کو ہی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
جہاں تک سیکیورٹی کا معاملہ ہے تو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے جیسے ان کے متعلق یہ موقف کبھی تھا ہی نہیں کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں، کجا یہ کہ اس امر کو باور کیا جائے کہ کشمیر کے مسلمان اسلامی بھائی چارے کے نہ ٹوٹنے والے بندھن سے پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان حکومت نے مودی کی جانب سے ہمارے جسم کے ایک حصے کو کاٹ ڈالنے کے عمل کو یکسرنظر اند از کردیا ہے اور ہمیں دھوکہ دینے کے لیے توجہ محض ٹویٹس، مظاہروں، نعروں اور تقریروں پر مرکوز کررکھی ہے ۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ہمارے شہری بھارت کے مسلسل حملوں سے شہید ہو رہے ہیں جبکہ بھارت کی گردن توڑ دینے کے لیے تیار ہماری افواج کو "تحمل" کی پالیسی کے تحت ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ ڈھٹائی کے ساتھ خطے میں امریکہ کی پالیسی کو تسلیم کرنے کی بھاری قیمت ہے جو ہم چکا رہے ہیں ، اور وہ پالیسی یہ ہے کہ پاکستان بھارت کو مضبوط علاقائی طاقت بنانے میں مدد فراہم کرے تاکہ بھارت چین کے سامنے کھڑا ہو سکے۔
جہاں تک معیشت کا تعلق ہے توخوشحالی کے کسی بھی امکان کو ختم کرنے کے لیے جانتے بوجھتےمعیشت کو تباہ و برباد کیا گیا جس کے نتیجے میں کاروبار بند ہورہے ہیں ،بے روزگاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے اور تعلیم و صحت کی سہولیات اورتوانائی کا حصول عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکا ہے۔ عمران خان نے ہماری معیشت کو تباہ برباد کرنے کے لیے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ہِٹمین(hit-men ) کو تعینات کیا ،جنہوں نے واشنگٹن اتفاقِ رائے(Washington Consensus) کی شرائط کو نافذ کیا۔ ہم ان استعماری معاشی آلہ کاروں کے ساتھ ڈھٹائی کے ساتھ وابستگی کا خمیازہ مقامی کرنسی کی قدر میں کمی، غریب اور کمزور کی کمر توڑنے کے لیے ہر چیز پر ٹیکس اور مزید سودی قرضوں کے جال کی صورت میں ادا کررہے ہیں ۔
تبدیلی کا مطلب تبدیلی ہوتا ہے جبکہ عمران خان حکومت کے آغاز سے ہی کوئی تبدیلی متوقع نہیں تھی۔ موجودہ اپوزیشن کی طرح عمران خان بھی استعماری سیاسی اور معاشی ورلڈآڈر سے مکمل طور پر وفادار ہے۔ اورموجودہ اپوزیشن کی طرح اسے بھی استعمار سے اس کی وفاداری کی وجہ سے امت کی طرف سے وسیع پیمانے پر مسترد کردیا گیا ہے ۔ عمران خان کو ہٹانے سے یا صدارتی نظام لانے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ پارلیمانی اور صدارتی جمہوریت میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں ہی استعمار کے سیاسی و معاشی ورلڈآڈر کی وفادار ہیں۔ اس بات کا ثبوت خود پاکستان کی سات دہائیوں پر مشتمل تاریخ ہے جہاں چہروں کی تبدیلی کے ساتھ صدارتی اور پارلیمانی، دونوں طرح کی جمہوریت کو نافذ کیا جاچکا ہے اور کسی بھی دور میں استعماری سیاسی و معاشی آڈر کی مخالفت نہیں کی گئی ۔ لہٰذا اگر ہم بار بار اسی بنیادی غلطی کو دہرائیں گے تو مختلف نتیجے کی امید کیسے لگاسکتے ہیں؟
اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آسکتی جب تک وہ تبدیلی بنیادی اور ہمہ گیر نہ ہو۔ مسلمانوں کو صرف ایک ہی انقلابی تبدیلی لانے کی اجازت ہے اور وہ ہے اسلام اور اس کے نظامِ خلافت کے ذریعے اسلام کی حکمرانی کا قیام۔ آج جب مسلمان خلافت کے خاتمے کے ایک سو ہجری سال مکمل ہونے کی یاد میں اظہارِ افسوس کر رہے ہیں، جسے رجب 1342 ہجری بمطابق مارچ 1924 میں ختم کیا گیا تھا، یہ بات تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہے کہ تبدیلی کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ یقیناً خلافت سیاسی و معاشی آڈر میں حقیقی تبدیلی کا نام ہے کیونکہ وہ اسلام کے احکامات کو نافذ کرتی ہے۔ اسلام مسلمانوں کو ایک ریاستِ خلافت میں یکجا کرنےکو لازمی قرار دیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے تحفظ و دفاع اور فوجی صلاحیت میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ اسلام مسلمانوں پر حملے کرنے، ان کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور ان کے خلاف منصوبہ بندیاں کرنے والی ریاستوں کے ساتھ فوجی اتحاد سے منع کرتا ہے اوران کے ساتھ صرف عارضی معاہدوں کی اجازت دیتا ہے یہاں تک کہ ان کے ساتھ لڑائی کی تیاری کرلی جائے۔ معاشی محاذ پر خلافت ایک زبردست معیشت تھی اور دنیا اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ اس کی کرنسی سونا اور چاندی تھی جس کی وجہ سے قیمتیں مستحکم رہتی تھیں۔ مقروض،غریب اور وہ جو اپنی بنیادی ضروریات پوری نہ کرسکتا ہو اس پر کوئی ٹیکس نہیں ہوتا تھا ،اور انہیں بلاسود قرض اور امداد کی فراہم کی جاتی تھی۔یہ سبق کہ خلافت کے قیام کے بغیر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی، بہت تکلیفیں اٹھانے کے بعد سمجھا گیا ۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے تحریر کیا گیا
مصعب عمیر - پاکستان