بسم الله الرحمن الرحيم
1857 کی بغاوت ِہند اور تحریکِ خلافت کا جائزہ
افضل بن قمر، پاکستان
1947 کے بعد پاک بھارت سرحد کی دونوں اطراف کے مؤرخین نے 1857 کی بغاوتِ ہند کا نام بدل کر جنگ ِآزادی رکھ دیا۔ تاہم نام کی اس تبدیلی میں اس اسلامی جذبہ پر توجہ نہیں دی گئی جو اس بغاوت کے پیچھے اصل محرک تھا ۔ بلکہ اس جدوجہد کوقومیتی ردِ عمل کے طور پر پیش گیا،وہ قومیتی ردِ عمل جسے برطانوی استعمارنے پروان چڑھایا تھا ،اور جو آگے چل کر پاکستان کے قیام اور بھارت کی آزادی پر منتج ہوا۔ یہبغاوت انگریزوں کے خلاف تھی ، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ غیر ملکی تھے ، بلکہ اس لیے کہ وہ کافر تھے جن کی مسلمان آبادی پر حکومت ہرگزجائز نہ تھی۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :
﴿وَ لَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا ﴾
" اور اللہ کافروں کو مومنوں پر کبھی اختیار(غلبہ) نہیں دے گا"(سورہ النساء4:141)
اب سوال یہ ہے کہ اس بغاوت میں ہندو فوجیں کیوں شامل ہوئیں؟ اس کی متعدد ٹھوس وجوہات تھیں جیسے جانوروں (گائے اور سور)کی چربی والے نئے کارتوسوں کو استعمال کے لیے دانتوں سے کاٹنے کی ضرورت اور ذات پات کی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونِ ملک مہمات کا امکان ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغل امارت کی بحالی کےلیے اپنے مسلمان ساتھی فوجیوں کی کوششوں میں شامل ہونے کی خواہش بھی تھی۔جہاں مسلمانوں کے لیے اس بغاوت کا مطلب یہ تھا کہ کافروں کی جگہ مسلمان حکومت میں واپس آئیں گے ،وہاں ہندوؤں کے لیے اس کا مطلب اس اسلامی حکمرانی کی واپسی تھا، جس کے تحت کئی صدیوں سے ذمی شہری ہونے کے ناطے انہیں اپنے حقوق کی ضمانت حاصل تھی۔
اس بغاوت کی ایک حیرت انگیز خصوصیت یہ تھی کہ بغاوت کرنے والے فوجی،چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سےتھا ، نظریاتی تائید کےلیے مسلمانوں کی جانب ہی دیکھتے تھے۔ سب سے پہلے یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ بغاوت کو جوازکے طور پر پیش کرنے کے لیے ایک نظریے کا تیار کیا جانا ضروری ہے، جو فوجیوں کو ان کے افسروں کے خلاف کھڑا ہونے کی اجازت دیتا ہو اور ان طاقتوں کے خلاف ہی لڑنے کا جواز فراہم کرتا ہو،جنھوں نے انہیں (فوج کی شکل میں)اجتماعی وجود بخشا تھا۔ ابتداء میں بغاوت کا آغاز کرنے والے میرٹھ کے باغیوں نے مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے اپنے خیالات حاصل کیے۔
چونکہ ابتدائی محرک مغل امارت کی بحالی تھا ، چنانچہ باغیوں نے نسبتاً کم فاصلہ طے کیا اور لال قلعہ ، دہلی میں ڈیرے ڈال لیے۔بہادر شاہ ظفر نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کے دو بیٹے ، مرزا مغل اور مرزا خضر سلطان فوج کی کمانڈ کریں۔ اگرچہ مغل حکمران طبقہ ایک طویل عرصے سے اقتدار سے باہر تھا اور مغل حکمران محض ایسٹ انڈیا کمپنی کے وظیفوں پر تھے لیکن مغل حکمرانی کی طرف لوٹنے کا مطلب سابقہ قانونی نظام کی جانب پلٹنا تھا ، جوکہ اسلامی شریعت کا قانون تھا۔
اگرچہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا ، لیکن ان کے خلاف کافی شکوک و شبہات کی وجہ سےانہیں بھاگنا پڑا ، ان کی املاک ضبط کر لی گئی اور پھر قابض انگریزوں نے اس کی نیلامی کردی۔وہ بمبئی سے سوار ہوئے اور یمن کےعلاقے موچھا میں اترے اور وہاں سے مہینوں کا پیدل سفر کیا تاکہ مکہ مکرمہ میں پناہ لے سکیں جو اس وقت خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت تھا۔ مکہ مکرمہ میں رہائش کے دوران ، کیرانوی نے وہاں ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی جس کا نام مدرسہ صولتیہ تھا۔ اس کی سب سے بڑی معاون ،کلکتہ کی صولت النساء نامی ایک مسلمان خاتون تھیں ، جن کے نام پر مدرسے کا نام رکھا گیا تھا۔ رحمت اللہ کیرانوی کو شیخ العلماء ،شیخ احمد دہلان الشافعی کی جانب سے مسجد ِحرام میں لیکچرار مقرر کیا گیا ۔انہوں نےحرم میں ایک مضبوط تعلیمی حلقہ قائم کیا۔ جدہ میں موجود برطانوی قونصل خانے کے حکام ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔اس سے خلافتِ عثمانیہ کے حکام کی توجہ بھی ان کی جانب مبذول ہو گئی ، جنھوں نے اس بارے میں استنبول اطلاع دی ، جس کی وجہ سے مولانا کو سلطان سے ملنے کی دعوت دی گئی۔
اس طرح خلافتِ عثمانیہ کے سلطان جن کی،برصغیر کے مسلمانوں کے حالات میں دلچسپی مشہور و معروف تھی،نے ہندوستان میں اٹھنے والی اس بغاوت کے متعلق مولانا کیرالوی سے براہِ راست آگاہی حاصل کی۔ ہندوستانی مسلمانوں یا مغلوں کے مستقبل کے معاملے کے علاوہ ، سلطان کو دنیا کی ایک بڑی دشمن طاقت برطانیہ کی مداخلت کا بھی سامنا تھا ۔ مولانا کیرانوی نے مکہ مکرمہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بھی واقفیت قائم کی ، جنہوں نے بغاوت سے قبل کچھ سال مکہ مکرمہ میں گزارے تھے ، جوپھراپنی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد مکہ واپس آگئے تھے۔
صدیق حسن خان کا معاملہ کچھ مختلف تھا ، حالانکہ وہ ایک بڑے عالم تھے ، لیکن انہوں نے جلاوطنی اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم ان کے باغی عناصر کے ساتھ ممکنہ تعلقات کی وجہ سے، ان کی بھوپال کی بیگم سے شادی اور تعیناتی کے تیرہ سال بعد،1885 میں برطانوی راج نے انہیں معزول کر دیا ۔ دوسری طرف مولانا جعفر تھانیثری کو بغاوت میں کردار ادا کرنے پر دور دراز کے علاقے میں قیدکرنے کی سزا سنائی گئی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ متعدد افراد جنہوں نے بغاوت میں حصہ لیا تھا یا جو انگریزوں کو اس کے لیےمطلوب تھے، مکہ مکرمہ ، استنبول اور قاہرہ میں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ مکہ مکرمہ میں ان ہندوستانی مسلمانوں پر مشتمل ایک چھوٹی کالونی بن گئی تھی جو بغاوت کے بعد فرار ہوئے تھے۔ اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ریاستِ عثمانیہ نے ہی انہیں پناہ دی تھی۔ریاستِ عثمانیہ نے اس حقیقت کے باوجود ایسا کیا کہ ان مہاجرین پر ایک بڑی طاقت،برطانیہ کے خلاف بغاوت میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔ اوریہ ایک معمولی بات نہ تھی۔ آج اس وقت بیٹھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ بغاوت کی صورتِ حال برطانیہ کے دل و دماغ پر کس قدر چھائی ہوئی تھی، اور جولوگ بغاوت کی وجہ بنے، برطانیہ ان کے متعلق کتنافکرمند تھا۔
انگریزوں نے 1857 کے اس تجربے کی وجہ سے بعد میں اٹھنے والی تحریک ِخلافت پر بہت ہی شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ برطانوی راج ہندوستان کے عام مسلمانوں کے اٹھنے کے امکان سے اتنا خوفزدہ نہیں تھا ، جتنا کہ فوج کے مسلمان حصے میں بغاوت کے امکان کی وجہ سے خوفزدہ تھا۔ اگرچہ 1857ء کے بعد ،ہندوستانی فوج میں مستقبل میں اٹھنے والے کسی بھی بغاوت کو روکنے کے لیے بہت زیادہ اصلاحات کی گئیں، لیکن پھر بھی فوج کی وفاداری میں دراڑ پڑنے کا ایک حقیقی خوف موجود تھا۔
یہ خوف اس احساس پر مبنی تھا کہ برطانیہ برصغیر کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا ،سوائے یہ کہ ایک بڑی فوج کو استعمال کیا جائے۔ درحقیقت برطانیہ نے اس فوج کے ذریعہ ہی برصغیر کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔ اورچونکہ برطانیہ کے پاس آبادی کے لحاظ سے اتنی تعداد میں لوگ موجود نہیں تھے کہ وہ ایک بڑی فوج تیار کر سکے ، اور اس کے ساتھ ساتھ آب و ہوا اور ثقافتی تبدیلی کی وجہ سے بھی برطانیہ کے لیے اپنی فوج کی بڑی تعداد کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیاتھا،اس وجہ سے انگریزوں کے لیے مقامی آبادی میں سے بھرتی ہونے والی فوجوں پر انحصار کرنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ یعنی ہندوستان میں قائم پورےنوآبادیاتی ڈھانچے کا انحصاران مقامی فوجیوں کی وفاداری پرتھا۔لہذا ایسی کوئی بھی چیز جوان کی وفاداری کو متاثر کرے اوربرطانیہ کے ساتھ ان کی وفاداری سے ٹکراتی ہو، کا سدِ باب کرنا ضروری تھا، جیسےکہ تحریکِ خلافت ۔
در اصل خلافت کا پورا تصور ہی ایک ایسی چیز تھی جسے سنبھالنا انگریزوں کے لیے مشکل ہو گیا ، خاص طور پر بغاوتِ ہند کے بعد۔ بغاوت کے بعد انگریزوں نےمسلمان دستوں پر انحصار کو تبدیل کیا ، چنانچہ 1857 کے بعد کی جانے والی اصلاحات میں اترپردیش ، جوکہ برطانوی قبضے کے خلاف سرگرم مرکز تھا ، سے فوجی بھرتی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی، اور اسے شمالی پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبہ (خیبر پختون خواہ) سے بھرتی کرنے کے ساتھ بدل دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پنجابی مسلمان برطانوی ہندوستانی فوج کا بنیادی ستون بن گیا۔اس کے ساتھ ہی دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ برصغیر میں عثمانی خلیفہ کے کردار میں اضافہ ہو گیا۔انہیں تمام مسلمانوں کا خلیفہ سمجھا جاتا تھا اور جمعہ کے خطبوں میں ان کا نام لیاجاتا تھا ۔ممکنہ مسئلہ اس وقت ظاہر ہوا جب پہلی جنگ عظیم کے دوران ،مشرق وسطیٰ میں خلافتِ عثمانیہ کی افواج کے خلاف اور جنگ کے بعد قابض فوجی دستوں کی حیثیت سے ہندوستانی فوجیوں کا استعمال ہونا تھا۔ جب مولانا محمد علی جوہر نے امت کے خلیفہ کے خلاف برسرپیکار مسلمان فوجیوں کی شرعی پوزیشن کوبیان کرنے والے پمفلٹ تقسیم کرنے کی کوشش کی تو انگریزوں نے سخت رد عمل دیا اور ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔
کچھ فوجیوں نے واقعتاً انگریزوں کے خلاف بغاوت کی۔ پہلی جنگ عظیم (1914 - 1918) کے آغاز کے ساتھ ہی بمبئی میں دسویں بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نےاُن برطانوی افسروں کو گولی مار دی جو خلافت کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے بیرون ملک جانے والے تھے۔راولپنڈی اور لاہور میں فوجی یونٹ انگریزوں کے خلاف متحرک ہوگئے۔ فرانس میں پہنچنے والی ایک فوج کے مسلمان سپاہیوں نے، خلافت کےمسلمانوں کا ساتھ دیتے ہوئے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ جنوری 1915 میں رنگون میں موجود 130 ویں بلوچ رجمنٹ نے میسوپوٹیمیا میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف لڑنے سے انکار کردیا۔سنگاپور میں تعینات پانچویں لائٹ انفنٹری کے مسلمان فوجیوں نے آٹھ برطانوی افسروں کو گولی مار دی اور انگریزوں سے لڑنا شروع کر دیا۔ 1916 کے اوائل میں ، 15 ویں لانسر کی آفریدی یونٹوں نے بصرہ میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف مارچ کرنے سے انکار کردیا اور انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
اسی پس منظر میں ہی سرسید احمد خان نے اپنا مشہور پمفلٹ "اسبابِ بغاوتِ ہند" لکھا تھا۔یہ دراصل مسلمانوں کی طرف سے معذرت نامہ تھا، اور اس کا مقصد مسلمانوں پر لگائے گئے الزامات کو ختم کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ اس نے برطانوی راج میں موجود ایسے ماحول کی عکاسی کی جس نے مسلمانوں کو بغاوت کا ذمہ دار ٹھہرایا ، اور اس کے پیچھے ایک خاص منطق تھی ، کیونکہ اس بغاوت نے ایک مسلم خاندان کو دوبارہ ہندوستان کے حکمرانوں کی حیثیت سےواپس لانے کی کوشش کی۔ انگریزوں کے خلاف نظریات کی اس جنگ میں ہندوؤں کا کوئی حصہ نہیں تھا ، اور اس طرح اس تاثر کو تقویت ملی کہ یہ سب بغاوت ہندوؤں کی سوچ نہیں تھی۔ ہندو فوجیوں کی طرف سے ایک مسلم مقصد کی حمایت میں اپنے برطانوی افسروں کے خلاف بغاوت کرنے پر رضامندی نے بظاہراً انگریزوں کو اس بات پر قائل کیا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں ایک دراڑ پیدا کرناضروری ہے۔
یہ ہندو مسلم تقسیم کا پس منظر تھا۔ یہ مقصد ایک طرف 1885ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کی تشکیل کے ذریعے ، اور دوسری طرف 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل کے ذریعے حاصل کیا گیا ۔آخرالذکر میں سرسید کا کردار مشہور ہے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سرسید انگریزوں کے منظورِ نظر اصلاح پسند تھے۔برطانوی راج کی بیوروکریسی میں ایک اعلیٰ نوکری کے بعد ، 1857 میں انہوں نے ایک انگریز افسر کوباغیوں سے بچایا تھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ہندوؤں سے علیحدہ ہونے کی سوچ کا سہرا ان کے سر ہے۔ یہ ایک نئی سوچ تھی ، کیونکہ اگرچہ مسلم حکمران ہندووں اور مسلمانوں میں مذہبی اختلافات کی موجودگی کوتسلیم کرتے تھے ، لیکن سیاسی طور پر وہ اسلام کے احکامات کے مطابق ان دونوں سے ایک ہی رعایا کی طور پر پیش آتے تھے۔
یہ وہ لوک یاداشت تھی جس کی وجہ سے ہندو فوجیوں نے ایک مسلم سلطنت کے لیےاپنے مسلمان ساتھیوں کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیا۔ Johnny companyکے خلاف ان کا صبر بھی ختم ہو گیا تھا۔