الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

امت صلاحیت اور قابلیت سے مالا مال ہے،
اسے صرف ایک نگہبان ریاست خلافت کی ضرورت ہے جو اس کی صلاحیت اور قابلیت کو انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال کرے

 

خبر:

         چند دن قبل امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا (NASA) نے خلائی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جب اس نے مریخ کی سطح پر ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر کو کامیابی سے پرواز کرایا ۔ یہ  بجلی کی مدد سے  ہونے والی پہلی اڑان تھی جسے 225 ملین کلومیٹر دور کسی دوسرے سیارے سے کنٹرول کیا جارہا تھا۔ انجینئر لوئے الباسیؤنی (Loay Elbasyouni) نے اس عظیم سائنسی پیشرفت میں کردار ادا کیا جو فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں پل بڑھ کر جوان ہوئے اور پھر یونیورسٹی کی تعلیم کے حصول کے لیے امریکا گئے۔  انہوں نے ایروسپیس کمپنی، انجنیوٹی (Ingenuity) میں ملازمت اختیار کی جس نے انہیں ناسا کےایک تجرباتی منصوبے کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی جس کے تحت مریخ پر پرواز کرنے کے لیے ایک طیارہ بنانا تھا۔ یہ ہیلی کاپٹر لوئے اور اس کے ساتھیوں کے خیالات ، تصوراتی دستاویزات اور تعمیراتی کوششوں سے تیار ہوا۔   لوئے نے انجنیوٹی کے الیکٹریکل اور پاور الیکٹرانکس لیڈ کے طور پر کام کیا ، جس میں پروپلشن سسٹم کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اس میں موٹر کنٹرولر ، انورٹر ، سروو کنٹرولر ، موٹر، اور سگنلنگ سسٹم کی ڈیزائننگ شامل تھی۔

 

         اسی تناظر میں ، مشہور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طلباء کی ایک ٹیم نے ایروناٹکس اینڈ ایسٹورنوٹکس میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) اور اسٹین فورڈ کو شکست دی۔ ان طلباء نے دونوں انسٹی ٹیوٹ کے طلباء کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے بھی طیاروں اور فلائٹ ڈیزائن اور تعمیر کے مقابلے میں ایم آئی ٹی (MIT) اور اسٹینفورڈ کے خلاف عمدہ کارکردگی پر ان طلباء کی تعریف کی۔

 

تبصرہ:

         دنیا نے ہیلی کاپٹر کی خبر میں بہت دلچسپی لی جسے ناسا نے مریخ پر بڑے جوش و خروش سے لانچ کیا تھا۔ ناسا نے اسے مریخ کے منصوبے میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ یہ بات جلد ہی واضح ہوگئی کہ ہیلی کاپٹر کے پیچھے تخلیقی ذہن اسلامی امت کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا تھا جس کا تعلق یہودی وجود کے زیر قبضہ علاقے سے ہے۔ امریکا خطرناک ہتھیاروں کے ذریعے یہودی وجود کی حمایت اور سرپرستی کرتا ہے جسے اس موجد (لوئے)کے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مغربی دنیا، جس کی سربراہی امریکا کررہا ہے،  کے مختلف اداروں میں انڈسٹری ، ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ اور طب کے شعبوں میں مسلمانوں کے انتہائی قابل بیٹوں اور بیٹیوں نے یونیورسٹیوں میں اپنےتحقیقی کاموں کے ذریعے ہزاروں کارنامے انجام دیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ، بدلے میں مغرب نے نہ صرف مسلمانوں کو برا بنا کر پیش کیا ہے ، بلکہ وہ پوری دنیا میں ان پر حملہ آور ہے اور انہیں قتل کرتا ہے۔

 

         اسلامی تہذیب صحیح نظریے اور وحی پر مبنی قانون سازی پر قائم ہے، جو انسانیت کو زندہ کرتی ہے ، اور انھیں انسانی نظریات(آئیڈیالوجی)کے اندھیروں سے نکالتے ہوئے ، جو تکلیف کا باعث ہیں، اسلام کی روشنی میں لاتی ہے ۔

 

         ماضی میں ہیولٹ پیکارڈ (HP) کی سی ای او فیورینا نے 2001 میں تبصرہ کیا تھا ، "ایک زمانے میں ایک ایسی تہذیب تھی جو دنیا کی سب سے عظیم تہذیب تھی۔۔۔ اور کسی بھی اور چیز کے مقابلے میں ایجادات اس تہذیب کو آگے لے کر گئیں ۔ اس کے معماروں نے ایسی عمارتیں ڈیزائن کیں جو کشش ثقل  کے اثر سے آزاد تھیں ۔ اس کے ریاضی دانوں نے الجبرا اور الگورتھم تخلیق کیے جو کمپیوٹر کی تعمیر  اور انکرپشن (Encryption)کا باعث بنے ۔ اس کے ڈاکٹروں نے انسانی جسم کا معائنہ کیا ، اور بیماری کے نئے علاج ڈھونڈے۔ اس کے ماہر فلکیات نے آسمانوں کی طرف دیکھا ، ستاروں کو نام دیا ، اور خلائی سفر اور تلاش کی راہ ہموار کردی۔۔۔، جس تہذیب کی میں بات کر رہی ہوں وہ 800 سے 1600  عیسوی تک کی اسلامی دنیا تھی ، جس میں سلطنت عثمانیہ اور بغداد، دمشق اور قاہرہ کی عدالتیں  اور سلیمان عظیم جیسے روشن خیال حکمران شامل تھے ۔ "

 

         بلند افکار ، صلاحیتوں اور تجربے کے ساتھ ، عالم اسلام کو مغرب کی طرف سے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ، سوائے اس کے کہ مسلم دنیا کے خلاف مغرب کی برائی کا خاتمہ کیا جائے۔ مغرب کی اللہ سبحانہ وتعالی کے دین کےخلاف مہم اور اس دین کی بحیثیت ریاست واپسی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششوں کے خاتمے کی ضرورت ہے ، جس کے بعد اسلامی دنیا مغربی دنیا کی سائنسی ترقی کے ہم پلہ ہوجائے گی اور پھر  اس کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ مغرب کو بھی امت اسلامیہ اور اس کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے ، جیسا کہ آج اور کچھ وقت سے ہورہا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے مغرب کا دارومدار امت کے قدرتی وسائل پر ہے ، اسی طرح اسے بھی مسلمانوں کے ذہنوں اور تخلیقی صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہے۔

 

         انجینئر ، لوئے البیسیوانی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے طلباء کی ٹیم ، لاکھوں میں سے محض صرف دو مثالیں ہیں۔ اس کا خلاصہ فرانس کے جنوبی شہر مارسیل کے ایک طبی مرکز کے دورے کے موقع پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دشمن میکرون کی حیرت سے کیا جاسکتا ہے۔ جب میکرون نے مرکز کی لیبارٹریوں میں ڈاکٹروں سے ان علاقوں کے بارے میں پوچھا جہاں سے وہ آئے ہیں تو وہ متعدد ماہرین کے جوابات سے حیران رہ گیا جنہوں نے کہا: "میں الجزائر سے ہوں" ، "میں تیونس سے ہوں" ، "میں لبنان سے ہوں "اور" میں فلاں علاقے سے ہوں"۔۔۔

 

         امت کی قابلیت اور صلاحیتیں منکشف ہیں۔ امت کو صرف ایک ریاست کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کی وسیع قابلیت کو امت مسلمہ اور ساری انسانیت کے حق میں استعمال کرے۔ لہٰذا نبوت کے نقش قدم پر خلافت  قائم کرنے کا کام ، کسی بھی مادی ایجاد سے بڑا عمل ہے۔ صرف خلافت کے ذریعہ ، ان صلاحیتوں کو ایک ایسی اسلامی ریاست کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جو خلائی تحقیق کے میدان  میں داخل ہو ، تمام انسانیت کے رب ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو راضی کرے اور لوگوں کی زندگی کو راحت بخشتے ہوئے اسے محفوظ بنا کر لوگوں کو مطمئن  کرے۔ لہٰذا ، اس مقصد کے حصول کے لئے کوششیں کریں تاکہ امت کی نہ تو صلاحیتیں ضائع ہوں اور نہ ہی ہنر مند مسلمان اس مغربی تہذیب کے مفاد کے لئے استعمال ہوں جو انسانیت کو تکلیف پہنچاتی ہے۔

 

بلال المہاجر، پاکستان

Last modified onجمعہ, 30 اپریل 2021 03:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک