بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت
الوعی میگزین شمارہ 146 سے ترجمہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
( اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)
"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور بہترین انداز سے ان کے ساتھ بحث کیجئے بے شک آپ ﷺکا رب ہی اس بات کا زیادہ علم رکھتا ہے کہ کون راہِ راست سے بھٹک گیا ہے اور وہی ہدایت پانے والوں کو بھی جانتاہے"(النحل :125 )۔
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتےہیں:
(وَلاَ تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ)
"اور اہلِ کتاب سے صرف بہترین انداز سے بحث کرو سوائے ان میں سے ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے ظلم کیا"(العنکبوت:46 )۔
اور اللہ تعالی نے موسیؑ اور ہارونؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
(اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىفَقُولاَ لَهُ قَوْلاً لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشی)
"آپ دونوں فرعون کے پاس جاؤ،بے شک وہ سرکش بن چکا ہے اس کے ساتھ نرمی سے بات کرو کہ شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا (اللہ سے) ڈرجائے"( طہ 43: 44 )۔
یہ آیات اللہ کی طرف دعوت دینے کی کیفیت کو بیان کرتی ہیں، یہ دعوت شروع سے ہی،کسی بھی چیز سے پہلے اللہ کی طرف دعوت ہے۔ یہ کسی شخص کسی قوم یا کسی پارٹی کی طرف دعوت نہیں۔ دعوت کا علمبردار اللہ کی طرف سے فرض کی گئی ایک ذمہ داری کو ادا کرتاہے۔ وہ اس کام کواس دعوت یا اس کے ہاتھوں ہدایت پانے والوں کی خاطر نہیں کرتا بلکہ اس کا اجر صرف اللہ کے پاس ہے۔ اس لیے لوگوں کا اس کی بات کو قبول نہ کرنا اس کو غمزدہ نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اپنے اور اپنی دعوت کے خلاف لوگوں کی سازشوں سے تنگ دل ہوتا ہے، کیونکہ ہدایت اور گمراہی صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
(لَيْسَ عَلَيْكَ هُدٰٮهُمْ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ )
" (اے محمد ﷺ)ان کی ہدایت آپ کی ذمہ داری نہیں مگر اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے"(البقرۃ:272)۔
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
( وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِىْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ)
"آپ ان کے لیے غمزدہ مت ہوں اور نہ ہی ان کی سازشوں سے تنگ دل ہوں"(النحل:127)۔اور اچھا انجام صرف متقیوں کیلئے ہے،( اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ)" بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور یہی لوگ احسان کرنے والے ہیں"(النحل:128)۔
دعوت کے دو حصے ہیں:
پہلا حصہ غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا ہے، اس کو افراد ہر حال میں کریں گے، ریاست اس کو عملی طریقے سے ادا کرے گی جو کہ غیر مسلموں پر اسلام کے قوانین اور نظام کے ذریعے حکمرانی کرنا ہے تاکہ وہ اسلام کے نور اور وسعت قلبی کو دیکھ لیں،اور اس کے نتیجے میں اسلام میں فوج در فوج داخل ہو جائیں؛دوسرا حصہ مسلمانوں کو اسلام کے نفاذ اوراس کے لیے جدوجہد کرنے کی دعوت دینا ہے۔ اسلامی احکامات کو نافذ کرنے والی حکومت کی غیر موجودگی میں اسلام کے لیے جدوجہد سلطان اور قرآن کو یکجا کرنے کی جدوجہد ہے، یعنی قرآن کے لیے ایسی اتھارٹی کو وجود میں لانا جو اس کے احکامات کو نافذ کرے، یعنی اس اتھارٹی کو وجود میں لانا جس کا مرجع ایک ہی ہو: یعنی اسلام۔یہ امر تقاضا کرتاہے کہ یہ عمل اجتماعی ہو یعنی ایک جماعت کے ذریعے ادا ہو۔
دعوت کے یہ دونوں حصے طریقہ کے احکامات میں سے ہیں جن کو محسوس نتائج کے حصول کےلیے انجام دینا واجب ہے۔ان کو انجام دینا محض واجب کو ادا کرنے یا "رب کے سامنے عذر" پیش کرنے کے طور پر نہیں ہوتا، بلکہ ان کی انجام دہی سے محسوس کامیابی مقصود ہوتی ہے، جیسے کوئی شخص یا کئی اشخاص عملی طور پر اسلام قبول کریں، یا کسی شخص یا اشخاص کے تصورات تبدیل ہو جائیں، یا اللہ کی راہ میں جہاد کی صورت میں کوئی قلعہ فتح ہوجائے یا دشمن کو قتل کیا جائے یا دشمن کی زمین کے کسی حصے پر قبضہ کیا جائے۔ یہ ارادہ کرناطریقے کے اعمال میں سے ہے جسے اس عمل کی انجام دہی کے وقت ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
دعوت کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے تین انداز ہیں:
اول: حکمت کے ساتھ دعوت،یعنی عقلی دلائل کے ساتھ جو لا جواب کردینے والے اور حتمی ہوں اورغلط فکر کے مقابلے میں درست فکر پر قائل کرنے والے ہوں۔یہ طریقہ کار سوچنے سمجھنے والے لوگوں کیلئے فائدہ مند ہے جس وجہ سے کفار اور ملحد اس سے ڈرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے بھٹکے ہوئے اور دوسروں کو بھٹکانے والے اس سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ باطل کی کج روی کو بے نقاب کرتا ہے اور حق کو واضح کرتاہے، کیونکہ یہ فساد کو جلانے والی آگ اور اصلاح کی راہ دکھانے والا نور ہے۔ قرآن کریم نے قطعی دلائل اورلاجواب حجتوں سے اذہان کو مخاطب کیا تاکہ وہ زمین اور آسمان غور پرکریں اور اس تدبر سے اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
أَفَلاَ يَنْظُرُونَ إِلَى الإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْوَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتوَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَإِلَى الأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَت
"کیا یہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ اس کو کیسے پیدا کیا گیا اور اور آسمان کو نہیں دیکھتے اس کو کیسے بلند کیا گیا اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے جن کو کیسے نصب کیا گیا اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ یہ کیسے بچھائی گئی"(الغاشیہ:20-17)۔
اور اللہ تعالی فرماتاہے:
(وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ)
"اور وہی ذات اپنی(باران) رحمت سے پہلے خوشخبری کے طور پر ہوائیں بھیجتا ہے یہاں تک کہ وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھاتی ہیں تو ہم ان بادلوں کو کسی مردہ (خشک) زمین کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں پھر ان بادلوں سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل اگاتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرلو"(الاعراف:57)۔
ہاں میں ہاں ملانا، چاپلوسی کرنا، پسپائی اختیار کرلینا اورسمجھوتہ کرنا حکمت نہیں، نہ ہی یہ احتیاط ہے اور نہ ہی یہ میانہ روی یا ڈپلومیسی ہے، یہ سب یا ان میں سے کوئی ایک بھی حکمت کے معنی میں داخل نہیں۔حکمت معاملے کو اس کی جگہ پر رکھنے کا نام ہے یا اس کے معنی حجت اور برہان ہیں، آیت میں معاملے کو اس کی جگہ پر رکھنے کی بات نہیں ہورہی اس لیے اس کا معنی لازمی طور پر حجت اور برہان ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی طرف دعوت میں اہل مکہ کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی، نہ ہی ان کی چاپلوسی کی اور نہ ہی ان سے سمجھوتہ کیا بلکہ وہ ان کے سامنے اللہ کے اس قول کی تلاوت کرتے تھے،
(اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَـنَّمَؕ اَنْـتُمْ لَهَا وَارِدُوْنَ)
"بے شک تم اور جن چیزوں کی تم اللہ کے سواعبادت کرتے ہو وہ جہنم کے ایندھن ہیں جس میں تم داخل ہونے والے ہو"(الانبیاء:98)۔
اسی طرح اللہ کے اس فرمان کی،( تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِىْ لَهَبٍ وَّتَبَّؕ) " ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو"(لھب:1)۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی کے اس قول کی،(وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ* هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۢ بِنَمِيْمٍۙ* مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍۙ* عُتُلٍّ ۢ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍۙ)" ہر قسم کھانے والے ذلیل کی بات مت سنو جو اشارے کرنے والا چغل خور ہے خیر کی راہ میں رکاوٹ ،حد سے تجاوز کرنے والا گنہگار ہے بدخو اور بد ذات ہے"(القلم:13-10)۔
دوسرا: مَوْعِظَةِ حَسَنَةِ، جو کہ اچھے انداز سے نصیحت ہے، یعنی عقل کو مخاطب کرتے ہوئے جذبات کو ابھارنا اور احساسات کو مخاطب کرتے ہوئے افکار کو ابھارنا۔اس کے ذریعے دعوت نرمی سے دلوں میں جذب ہوگی اور نرمی سے احساسات گہرے ہوجائیں گے،بے شک بات میں نرمی سے بہت سارے باغی دل ہدایت پا لیتے ہیں اور سخت دل نرم ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے رسولﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
(فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى الْاَمْرِۚ)
"اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم خو ہیں، اگر آپ ترش رو اور سنگدل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے چلے جاتے، ان سے درگزر کیا کریں ،ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کریں"(آلِ عمران:159)۔
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے موسیؑ اور ہارون ؑکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
( اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۖۚفَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰ)
"دونوں فرعون کے پاس جاو وہ سرکش ہوگیا ہے اس کے ساتھ نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا (اللہ سے)ڈرے"(طہ:44-43)۔
قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے احساسات کو مخاطب کیا گیا ہے، تاکہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کرے اور جس چیز کے بارے میں عقل قائل ہوجائے تو وہ اس پر عمل کرنے میں منہمک ہوجائے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنْ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لاَ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ)
"ہم نے بہت سارے جنات اور انسانوں کو (گویا)جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے جن کے دل ودماغ تو ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں، جن کی آنکھیں تو ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں جن کے کان تو ہیں مگر وہ سنتے نہیں یہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ یہ زیادہ گمراہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں"(الاعراف:179)۔
تیسرا:(وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ)"ان سےبہترین انداز سے بحث کرو"،یعنی بحث کرنے کا بہترین انداز اختیار کرو، جس میں گفتگو کا موضوع فکری ہوتاہے، اس سے تجاوز کرکے ذاتی معاملات یا ادھر ادھر کی باتوں کو نہیں چھیڑاجاتا۔ سچے دلائل پیش کرنے اور باطل دلائل رد کرنے سے بحث اختلاف اور تضاد کوظاہر کرنے کا کردار ادا کرتی ہے جس میں حق تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے،
( لَوْ كَانَ فِيْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَـفَسَدَتَاۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ)
"اگر زمین وآسمان میں ایک اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہوتا تو یہ دونوں برباد ہوجاتے، عرش کا رب اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس سے پاک ہے جویہ کہتے ہیں"(الانبیاء:22)،
اللہ حکمت والا یہ بھی فرماتا ہے،
( وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا)
" اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سارے اختلاف پاتے"(النساء:82)۔
کسی متعین شخص تک دعوت کو پہنچانے کے مقصد کا تعین ہمیشہ موجود ہونا چاہیے اور دعوت کو قبول کرنے کی صورت میں اس شخص کو کس حدتک لے جانا ہے، اس بات کا بھی تعین ہونا چاہیے۔لہٰذا اولاً ایک شخص سے بحث آپ اس کو اپنے فکر پر لانے کی امید سے کرتے ہیں کہ وہ اس فکر کا علمبردار بنے گا اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت دے گا، دوسرے، اس شخص سے بحث آپ اس لیے کرتے ہیں کہ اس کے تصورات کو تبدیل کریں تاکہ وہ حق کو قبول کر لے،تیسرے، اس شخص سے بحث اس لیے کرتے ہیں کہ وہ متعین افکار کو اپنے ارد گرد اور اپنی مجالس تک پہنچائے،چوتھے، آپ اس سے امید کرتے ہیں کہ وہ آپ کی حمایت اور مدد کرے۔ اس حد کا تعین نہ کرنا جہاں تک اپنے مخاطب کو پہنچانا ہو، ایک داعی کو ملال اور ناامیدی کا شکار کر سکتا ہے۔ یہ دونوں نشانیاں درست نہیں۔
دعوت پہنچانے کا مقصد ہرگز گفتگو میں اپنی برتری دکھانا یا بحث جیتنا نہیں بلکہ قائل کرنا اور حق تک پہنچانا ہے۔ انسانی نفس کی خصوصیات اور عادات ہیں۔ اس کے لیے شکست کا اعتراف کرنا یا اپنی اس رائے سے پیچھے ہٹنا ،جس کا وہ دفاع کر رہا ہو، آسان نہیں۔ اس لیے جس سے خطاب کیا جارہا ہے اس کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس کی ذات محفوظ ہے اور اس کا وقار مجروح نہیں ہورہا ہے، اس کو زیر نہیں کیا جارہا ہے اور اس کا فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے، اس کو جاہل نہیں سمجھا جارہا ہے اور اس کو برا اور ذلیل قرار نہیں دیا جارہا ہے۔ کیونکہ گفتگو کا مقصد اس کا دل جیتنا ہے اس کی دشمنی جیتنا نہیں۔ اس لیے بات چیت کے اسالیب میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کو آپ کے اور اپنے درمیان فاصلے کا احساس نہ ہو، یعنی یہ کہ وہ کوئی غیر نہیں۔ اسی طرح اس کے پاس دعوت لے جاتے وقت نفسیاتی حالت کا بھی لحاظ رکھا جائے، مناسب وقت کا انتخاب کیا جائے ، مناسب الفاظ کا چناؤ کیا جائے، جیسا کہ کہا جاتا ہےکہ" ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے"۔ اگر مخاطب کا دل مائل نہ ہورہا ہو تو اس کا ذہن بھی نہیں کھلے گا، عقل کی راہ دل سے گزرتی ہے ،اس لیے دلوں کو نرم کرنا عقل کو مخاطب کرنے کیلئے ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب بنی عبد اللہ کی جماعت کو مخاطب کیا تو ان سے فرمایا:( إن الله قد أحسن اسم أبيكم) " بے شک اللہ نے تمہارے باپ کا بہترین نام رکھا ہے"، کیونکہ ان کے باپ کا نام عبد اللات یا عبد العزیٰ نہیں تھا۔ اسی نے ان کے دلوں میں نرمی پیدا کی تاکہ وہ آپ ﷺ کی بات توجہ سے سنیں اور آپ کی بات پر لبیک کہیں ۔
ہر حال میں حق بات کرنی چاہیے، آزمائش پر صبر کرنا چاہیے،لیکن باعمل مسلمانوں کی طرح ،نہ کہ گھٹنے ٹیکنے والوں اور جھکنے والوں کی طرح ۔ بخاری نے عبادہ بن صامتؓ سے روایت کیا ہے کہ
(بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ وَأَنْ نَقُومَ أَوْ نَقُولَ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنَّا لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ)
"ہم نے پسند اور ناپسند میں سننے اور اطاعت کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی، اوریہ کہ ہم اہلِ امر سے تنازعہ نہیں کریں گے، ہم جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے اور حق پر ڈٹیں گے اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے"۔
باطل ادیان کو گالی دینے کا حکم:
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
(وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)
"اللہ کے علاوہ جن کو پکارا جاتا ہے ان کو گالی مت دو کیونکہ پھر وہ بھی دشمنی اور جہالت میں اللہ کو گالیاں دیں گے۔ اسی طرح ہی ہم نے ہر امت کے لیے اس کے اعمال کو مزین کیا ہوا ہے۔ پھر ان کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے جو ان کو ان کے اعمال کے بارے میں بتا دے گا"( الانعام: 108 )
اسلام اپنے پیرو کاروں کو کفار کے معبودوں کو گالیاں دینے سے منع کرتا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ سبحانہ وتعالی کو گالی نہ دیں۔ کفر ،شرک ، جعلی معبودوں ،جن کی اللہ کی جگہ عبادت کی جاتی ہے،ان کو گالی دینا اصلاً مباح امر ہے لیکن اگر یہ گالی ان کو اشتعال دلانے اور رد عمل میں اللہ سبحانہ وتعالی یا اسلام کے مقدسات میں سے کسی کو گالی دینے کا سبب بن سکتا ہےتو پھر ایسی صورت میں کفار کے معبودوں کو گالی دینا جائز نہیں۔
اسی آیت سے اصول کےعلماء نے (الْوَسِيلَة إِلَى الْحَرَام حَرَام)"حرام کا وسیلہ بھی حرام ہے" کا قاعدہ اخذ کیا ہے۔یعنی کوئی بھی مباح عمل جس کے بارے میں غالب گمان ہوجائے کہ یہ حرام تک پہنچائے گا تووہ حرام ہوجائے گا، جب تک اس میں یہ گمان ہو۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بخاری و مسلم میں ہے(مِنْ اَلْكَبَائِرِ شَتْمُ اَلرَّجُلِ وَالِدَيْهِ)"اپنے والد کو گالی دینا کبائر میں سے ہے" ۔پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا کوئی اپنے باپ کو گالی دے سکتا ہے؟ فرمایا(نَعَمْ. يَسُبُّ أَبَا اَلرَّجُلِ, فَيَسُبُّ أَبَاهُ, وَيَسُبُّ أُمَّهُ, فَيَسُبُّ أُمَّهُ) "ہاں۔وہ کسی کے باپ کو گالی دے توجواب میں وہ اس کے باپ کوگالی دے اوروہ کسی کی ماں کو گالی دے تو جواب میں وہ اس کی ماں کو گالی دے "۔
اس سے ملتا جلتا اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان بھی ہے،
( وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۖ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِىْۤ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَاِلٰهُـنَا وَاِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ)
" اہل کتاب سے بحث بہترین انداز سے ہی کرو سوائے ان میں سے ظلم کرنے والوں کے اور کہو کہ ہم اس پر ایمان لائے جو ہم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو تم پر نازل کیا گیا اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے ہم اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں"(العنکبوت:46)۔
ابنِ جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے اللہ تعالی کے اس قول کے حوالے سے ابن عباس سے روایت کی ہے (وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ)"اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنے والوں کو گالی مت دو" ،کہ انہوں نے کہا:(يا محمد لتنتهِيَنَّ عن سبّكَ آلهتنا أو لنهجوَنَّ ربك) "اے محمد! تم ہمارے معبودوں کو گالی دینے سے لازما باز آؤ گے ورنہ ہم تمہارے رب کا مذاق اڑائیں گے" ، اس پر اللہ نے مسلمانوں کو کفار کے بتوں کو گالیاں دینے سے منع کیا کہ کہیں وہ جہالت اور دشمنی میں اللہ کو گالی نہ دیں۔
آیت میں یہ واضح کیا گیا کہ ہر امت کے لیے اس کے عمل اور دین کو مزین کیا گیا ہے، وہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کے دین کو گالی دے۔ اللہ تعالی نے لوگوں کے حساب کتاب کو اپنے پاس رکھااور یہ کام رسولوں کو بھی نہیں دیا۔ رسولوں کا کام بھی صرف واضح تبلیغ اور حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ دعوت ہے۔
اس کا مطلب سمجھوتہ، نفاق اور حق گوئی ترک کرنا نہیں، بلکہ گالی گلوچ ،اشتعال دلانے ،تحقیر اور اہانت سے باز رہنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے موسیؑ اور ہارونؑ کو فرعون کی طرف بھیجا توان سے فرمایا:
( اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۖۚفَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰ)
"فرعون کے پاس جاؤ، وہ سرکش ہوگیا ہے اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا (اللہ سے)ڈرجائے" (طہ:44-43)۔
اسی نرم گفتگو میں سے فرعون کو واضح انداز میں ڈرانا بھی تھا، جب فرمایا:
( اِنَّا قَدْ اُوْحِىَ اِلَـيْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى)
"ہماری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جھٹلانے اور منہ موڑنے والے کو عذاب دیا جائے گا"(طہ:48)۔
لہٰذا اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم غلط عقائد والوں کو برا بھلا کہہ کر اشتعال نہ دلائیں اگرچہ ان کےباطل عقائد اس کے مستحق بھی ہوں کیونکہ یہ چیز عقل کے نور کو ختم کرتی ہے اور نفس میں موجود جبلت دفاع کو ابھارتی ہے اور دعوت قبول کرنے کے لیے دروازے کو بند کرتی ہے۔ ساتھ ہی اسلام ہمیں عقائد کی گمراہی ،ان کے جھوٹ اور ایسے عقائد کے حاملین کے برے انجام کو مضبوط دلیل سے بیان کرنے کا حکم بھی دیتاہے۔