الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

قرآن کریم، اللہ سبحانہ وتعالی کا دائمی معجزہ(اعجاز اور چیلنج)

 

الوعی میگزین شمارہ231

محمد حسن الحسن

 

قرآنِ کریم   اسلام کے پیغام کی سچائی کے ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے اعجاز(معجزہ)کو ختم کرنےکا مطلب اسلام کے قلعے کو مکمل مسمار کرنا ہے، وہ قلعہ جس نے اپنے ظہور کے وقت سے ہی مشرق اور مغرب کو چیلنج کیا ہوا ہے۔ اعجاز کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل میں جائے بغیر ،جن کا احاطہ قرآنی علوم میں تحقیق کرنے والوں نے کیاہے،میں اعجاز کے سب سے سیدھے سادے، سب سے طاقتور اور لوگوں کے فہم کے سب سے قریب پہلو پراختصار کروں گا، جو اس حوالے سے قرآن کے واضح اور براہِ راست خطاب سے میل کھاتا ہے۔  موضوع کا آغاز کرنے سے قبل ان تصورات کی اساس کو پیش کرنا لازمی ہے جو اس موضوع کی بنیاد ہیں۔

 

     فطرت کے محسوس عناصر پر نظر ڈالی جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ان کے محدود ہونے کا ادراک کرتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ان کا وجود اور ان کی تنظیم  موتیوں کے کسی ہار میں پروئے گئے موتیوں کی طرح ہے جو ایک بڑی قوت کی محتاج ہیں، ایک ایسی قوت جو اشیاء کوعدم سے وجود میں لانے ،انتہائی دقیق انداز میں اشیاء کو کنٹرول کرنے اورکائنات کو باریکی بینی سے منظم کرنے کی قدرت رکھتی ہو۔ وہ خود کسی بھی حال میں اس فطرت کا حصہ نہ ہو،پس جس نظام کے مطابق کائنات چل رہی ہے اس کےلیے ایسی حکمت اور قوانین کی ضرورت ہے جن میں غفلت ممکن نہیں اور نہ ہی اس کا انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہ تمام ایک مدبر اور حکیم خالق کے محتاج ہیں۔

 

  عقلی قدرت اورارادے میں اختیار رکھنے کی بنیاد پرانسان کو سابقہ قاعدے سے مستثنیٰ کرنا ممکن نہیں کیونکہ وہ کائنات کےاٹل قوانین کے سامنے اپنے محدود اور عاجز ہونے کا اعتراف کرتا ہے، جب وہ ان قوانین کو سمجھنے کی کوشش اور جدوجہد کرتاہے،چاہے وہ کچھ نیا ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔ جب اس انسان کا یہ حال ہے جس نے اس دنیا کو آباد کیا اور خلاء کو تسخیر کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے توباقی مخلوقات جو انسان کی سمجھ کے مطابق اس سے کمتر ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ عاجز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت کے قوانین کو وضع کرنے والا اور اس کے فیصلے کرنے والا خالق لازمی طور پر کائنات اور مخلوقات کے دائرے سے باہر ہے۔فلسفیوں اور مفکرین نے اس لا محدود قدرت کے مالک اور انسان اور کائنات کو وجود میں لانے والے خالق کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ ذات ہے جس کا موجود ہونا لازم ہے، یعنی وہ واجب الوجود ہے، یعنی وہ ازلی خالق ، تمام مخلوقات اپنی تخلیق کیلئے جس کی محتاج ہیں۔

 

جب   انسان اپنے آس پاس دیکھتا ہے توکئی چیزیں اس کو زندگی میں اپنے کردار کو سمجھنے پر اُبھارتی ہیں، وہ اس دنیا کی حقیقت کے بارے میں کئی سوالات کے جوابات چاہتا ہے، جہاں وہ اپنی مرضی سے نہیں آیا ،نہ ہی اس کی بہت سی تفصیلات میں اس کا کوئی اختیار ہے، نہ ہی وہ یہاں اپنی زندگی کو ہمیشہ کیلئے جاری رکھنے کی قدرت رکھتا ہے۔ انسان ایسا فلسفہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو اس کو اس کے سوالات کا جواب دے، تاہم وہ راحت محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی کبھی اس کا دل مطمئن ہوتاہے بلکہ ہمیشہ پریشان اور تشویش میں مبتلا رہتاہے، جب تک وہ اختیار کیا ہوا فلسفہ ایک روشن فکر سے اس کے وجود اور اس دنیا سے جبری اور دائمی رخصتی کے اسباب کے بارے میں اس کو کوئی ایسا حل نہ دے جو اس کی عقل کو قائل کرے اوراس کی فطرت کے مطابق ہو۔

 

  واجب الوجود اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں میں سے  منتخب(رسولوں)پر وحی اترتی ہے تاکہ انسان کو اس کی تخلیق کا مقصد بتایا جائے، اس کے لیے زندگی میں اس کے فطری کردارکا تعین کیا جائے،  جس پر چلنے کے لیے اس کے لیے طریقہ کار مقرر کیا جائے، تا کہ انسان دوسری مخلوقات سے بلند درجہ ہو کر  اس فضل اور شرف کو حاصل کرے جس کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ یہاں اس رسالت کے مصدرکے ثبوت و توثیق کی ضرورت پڑتی ہے،یہ لازم ہے کہ  اس رسالت کو لانے والا ایسی دلیل فراہم کرےجو یہ ثابت کرے کہ وہ جوکچھ لے کر آیا ہے وہ حق ہے اور یہ صرف ایک دعویٰ نہیں، ورنہ کوئی بھی نبوت کا دعوی کر بیٹھے گا اور لوگ حیران وپریشان ہوکر گمراہ ہوجائیں گے۔

 

  دلیل(معجزہ) بھی اس رسالت کے شایان شان ہونا چاہیے جو اہل زمین کوخالق اللہ سبحانہ وتعالی سے جوڑ دے  اور وہ دلیل فطرت کے ان رائج  قوانین توڑنے کی وجہ سے انسان کو بے بس کردے جن پر اختیار صرف خالق کا ہے۔ یوں یہ دلیل ایسا چیلنج پیش کرے کہ انسانوں کی انفرادی اوراجتماعی حیثیت اس کی مثال لانے سے عاجز ہوں، جو حق کے حامل کی نبوت کی سچائی کی تصدیق ہو، اور یہ دلیل کفر اور ایمان کے درمیان جدائی کرنے والی ایک واضح اور قطعی دلیل ہو۔

 

جیسے آگ کے جلانے کا قانون زائل کر دیا گیا  اور آگ ابراھیم علیہ السلام کو ایذا نہ دے سکی۔ موسی کلیم اللہ علیہ السلام کا عصا اژدھے میں تبدیل کر دیا گیا اورعیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتےتھے۔ اللہ کی مرضی فطرت کے قوانین میں مداخلت کرکے ان نبیوں پر اثرانداز ہوئی، تاکہ یہ شواہد ان کو دیکھنے والوں کے لیے معجزہ ہوں اورہر دیکھنے والے اور خبردار ہونے والے کے لیے ان کی نبوت کی سچائی کی توثیق کرے۔ مگر ان تمام معجزات کی حجت کسی خاص زمانے اور خاص اقوام کے لیے تھی۔ ہم ان کی سچائی کی توثیق اور ان پر ایمان اس لیے رکھتے ہیں کیونکہ ان کا ذکر اللہ کی کتاب میں ہے،  جو کہ ایسا دائمی معجزہ ہے جس کی حجیت کسی خاص زمانے اور خاص قوم تک محدود نہیں۔

 

  قرآن کریم نبی کریم محمد ﷺ پر نازل ہوا۔ آپ ﷺ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ قرآن ان کی طرف سے ہے، اگرپھر بھی ایسا فرض کر بھی لیا جائے تو آپ ﷺکے زمانے میں یا آپﷺ کے بعد کوئی اس سے بہتر کلام لانا تو درکنار، اس جیسا  کلام بھی نہیں لا سکا، اور ایسا کبھی نہیں ہوسکا۔ اسی طرح کسی دوسرے شخص نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ قرآن اس کی طرف سے ہے، اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا تو اس پر بھی یہی حکم صادق آتا، یعنی اگر یہ قرآن ایک انسان کی طرف سے ہوتا توکوئی اور بھی اس جیسا یا اس سے بہتر لے آتا، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا، ایسا ہونے کے محال ہونے پر ہم تفصیل سے بات کریں گے تاکہ اس کی دلیل ثابت ہو جائے کہ قرآن اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے ہے۔

  قرآن  اپنے قواعد اور معارف کے لحاظ سے خالص عربی زبان میں ہے جو لغت کے حروف "الف" سے "یا" تک پر مشتمل ہے۔ قرآن تیس الگ الگ اجزاء پر مشتمل ہے جس میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں، جن میں چھ ہزار دو سو چھتیس آیات ہیں، جس کی بیشتر آیات اس کی سب سے چھوٹی سورتوں سے بڑی ہیں۔

 

  نبی کریم ﷺ نے اپنے ان مخالفین کو چیلنج کیا جو عربی زبان کے ماہر تھے اورجو شعر اور نثرپر اس طرح عبور رکھتے تھے کہ اس میں انتہائی اعلیٰ درجے کو پہنچ چکے تھے، بالکل اس طرح جیسے فرعون کے جادو گر جادو میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے یا عیسیٰ علیہ السلام کے دور کے لوگ طب میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے ان کو چیلنج کیا کہ قرآن جیسا کوئی کلام لا کر دکھائیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا

"کہہ دیجئے کہ اس قرآن  کا مثل لانے کے لیے  انس و جن اکھٹے بھی ہوجائیں اس کی مثل نہیں لا سکتے چاہے وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں"(الإسراء :88)۔

 

اس چیلنج کو مزید نمایاں اور اس کی قوت کا اظہار کرنے کے لیے ان سے کم از کم چند  سورتیں ہی لانے کا کہا گیا:

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِين

"یا کیا یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنے پاس سے یہ قرآن لے آئے  ہیں، کہہ دیجئے کہ تو تم بھی اپنے پاس سے دس سورتیں ہی لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو بلا سکو بلا لو، اگر تم سچے ہو"( هود: 13)۔

 

پھر ان سے مزید چھوٹے چیلنج کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ایک ہی سورت لے آؤ؛

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

" یا کیا یہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے پاس سے یہ قرآن لے آئے  ہیں کہہ دو کہ تم بھی اس جیسی ایک سورت اپنے پاس سے لاؤ،  اگر سچے ہو تو اللہ کے علاوہ جس کو چاہو پکارو" (يونس: 38)۔

 

پھر اسی چیلنج کو دوہرایا؛

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

"ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ نازل کیا ہے اس کے بارے میں اگر تمہیں کوئی شک ہے  تو تم بھی اس جیسی ایک سورت لے آؤاور اللہ کے علاوہ اپنے گواہوں کو بھی بلاؤ اگر تم سچے ہو" (البقرة:23)

 

  قریش کے لیے اس چیلنج کو کسی حال میں بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ قرآن، محمد ﷺ کی نبوت کا ثبوت اور اسلام کے پیغام کی سچائی ثابت کرنے کا بنیادی ستون ہے۔ یہ ان عقائد اور قوانین پر مشتمل ہے جو زندگی گزانے کا ایک بالکل نیا طریقہ بتاتے ہیں جو زمانہ جاہلیت کے معاشرے کی بنیادی بناوٹ سے ہی متصادم ہے، جس پرقرآن نے کاری ضرب لگا کر اس قدر متاثر کیا کہ صورت حال کو نظریاتی، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے یکسر بدل کر رکھ دیا ۔ مکہ کے سرداروں نے چیلنج کا جواب دینے کی لا حاصل کوشش کی اور ناکام رہے، جس کے نتیجے میں زبانی حجت بازی کو ترک کرکے اسلام کو روکنے کے لیے ایذا رسانی اور شدید مزاہمت کا راستہ اختیار کیا۔

 

انھوں نے اسلام کی دعوت کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کی ،قتل وغارت کا بازار گرم کیا،دعوت کا راستہ روکنے کے لیے تشدد، جلاوطنی اور محاصرے کی راہ اپنائی ۔دعوت تیرہ سال تک کلمہ حق بلند کرنے اور زبانی چیلنج تک محدود رہی جس میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی اسلحہ نہیں تھا، کوئی انقلاب اور تشدد نہیں تھا۔ یوں قرآن کے پروقار کلمات نے ان کو زیر کردیا حالانکہ یہ انہی حروف تہجی سے عبارت تھے اور اسی لغت میں سےتھے جس کو وہ سمجھتے تھے۔وہ قرآن کی عظمت کے قائل تھے ،اس کے مرتبے کے معترف تھے ، اس کے حسن سے واقف تھے ، یہاں تک کہ اس کے الفاظ و مرکبات کو کعبہ کے اندر لٹکاتے تھے۔ اسلامی دعوت مضبوط ہوتی رہی اور نئے حمایتی حاصل کرتی رہی، یہاں تک کہ مکہ کے جابروں کے غصے میں اضافہ ہوا اور انھوں نے اپنے ظلم میں اضافہ کر دیا۔انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف سازش کی اور آپ ﷺ کو(معاذ اللہ) قتل کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا۔ آپﷺ کے پیروکاروں پر تشدد میں اضافہ کیا حالانکہ صرف ایک سورت لے آنا ان کے لیے کافی تھا، اگر وہ یہ کرسکتے تو اسلام کو ہمیشہ کے لیے روک دیتے، مگر وہ یہ کہاں کرسکتے تھے؛

تَنزِيلُ ٱلْكِتَٰبِ مِنَ ٱللَّهِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ

"یہ اللہ غالب اور حکمت والے کی نازل کی ہوئی کتاب ہے"( احقاف:2)

 

  انتہائی سادہ بات ہے کہ اسلام کی دعوت کو ختم کرنے کے لیے قرآن میں موجود سورتوں جیسی ایک ہی سورت لانی تھی ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چیلنج قبول کرنے والے کے لیے سورہ بقرۃ جیسی سورت لانے کی ضرورت نہیں جس میں 6144 الفاظ ہیں بلکہ سورۃ کوثر جیسی سورت بھی کافی ہے جس میں تین آیات اور صرف دس الفاظ ہیں۔ جی ہاں! ایک ہی جملہ، ایک سطر سے بھی کم ،اس دین کے دشمنوں میں موجود شعراء اور نثرنگاروں کی طرف سے اسلام کے صفحے کو ہمیشہ کےلیے الٹنے کے لیے کافی تھا اور آج بھی ہے۔

 

  مگر ایک بنیادی وجہ سے ایسا نہیں ہوا اورنہ کبھی ہوگا اور وہ وجہ یہ ہے قرآن انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا کلام ہے، پھر اس کے نظم کے موتیوں کو منفرداوربے مثال انداز سے پرودیا گیا ہے، جس نے رسول اللہ ﷺ کے سخت ترین دشمن ولید بن مغیرہ کو بھی یہ کہنے پر مجبور کیا:"اللہ کی قسم ابھی ابھی میں نے محمد سے ایسا کلام سنا ہے جو کسی انسان یا جن کا کلام نہیں ،جس میں مٹھاس  اور خوبصورتی ہے ،جس کے اوپر کا حصہ پھل دار اور اندر سے میٹھا ہے، وہ اعلیٰ ترین ہے جس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکے گا"۔

 

    ممکن ہے کوئی کہنے والا یہ اعتراض کرے کہ: اگر ہم یہ فرض کریں کہ قرآن واقعی معجزہ ہے  تو اس کو سمجھ تو صرف عرب ہی سکتے ہیں کیونکہ وہی اس کی لغت اور اس کی مٹھاس کو محسوس کرسکتے ہیں، وہی اس کے ذریعے قرآن کے اعجاز کا ادراک کرسکتے ہیں، یہ تو غیر عرب پر لاگو نہیں ہوتا، تو پھر کیسے قرآن کو اسلام قبول کرنے کے لیے تمام انسانیت کے لیے حجت قرار دیا جائے؟! 

 

   اس قسم کا اعتراض کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ قرآن پر ایمان اور اسلام قبول کرنے کے لیے عربی لغت کے علوم میں فضیلت و مہارت شرط نہیں ۔ بیشتر مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتے کیونکہ ان کی اکثریت عربی زبان نہیں جانتی۔علاوہ ازیں  عربی میں اس قدر مہارت حاصل کرنا کہ قرآن کی مٹھاس کو چکھ سکیں اور اس کے موتیوں سے لطف اندوز ہو سکیں، یہ موجودہ دور کے بیشتر عربوں میں بھی موجود نہیں ۔ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرنے والے کو بس اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ قرآن کا یہ اعجاز اس بات پر قائم ہے اور اس کا چیلنج اس بات پر موجود ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان قرآن کی سورتوں جیسی ایک بھی سورت نہیں لا سکتا۔مختصر یہ کہ  قرآن پوری انسانیت کو چیلنج کرتاہے کہ وہ قرآن کی چھوٹی سی چھوٹی سورت جو کہ دس کلمات پر مشتمل ہے، اس کی مثل لائیں جو کہ ایک سطر سے زیادہ نہیں ، تاکہ قرآن کے معجزے کو ختم کر کے اسلام کے پیغام کو باطل کیا جا سکے۔  اب تک کوئی انسان یہ نہیں کرسکا جبکہ عربی سیکھنا کوئی مشکل نہیں، عربی زبان کو اور اس کے قواعد کو سینکڑوں کروڑوں انسان بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن انسان کے خالق ،اللہ  سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہے۔

 

  جس بات کے ادراک کی ضرورت ہے اور مسلمان ،چاہے عرب ہوں یا عجم ،یہ بات جانتے ہیں کہ تمام اقوام اجتماعی اور انفرادی طور پر افراد اور جماعتوں کی شکل میں قرآن کریم کی ایک سورت کی مثل بھی لانے میں ناکام ہو چکی ہیں۔مسلمانوں کو اس بات کا ادراک ہونا کہ غیر مسلموں میں عربی زبان کی تمام تک قابلیت اور اس چیلنچ کو قبول کرنے کے تمام ذرائع موجود ہونے کے باوجود کسی بھی زمانے میں قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کا مثل بھی نہ لا سکنے کی وجہ سے، قرآن کریم اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ایک معجزہ ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ مسلمان عربی لغت  میں مہارت رکھتے ہیں۔

 

  بعض اعتراض کرنے والے اس سوال کو دوسرے انداز سے دہراتے ہیں، کہ غیر عرب جو غیر مسلم ہیں اور عربی نہیں سمجھتے، وہ قرآن کے اعجاز کو کو معلوم کرنے کے لیے اس کی چھان بین نہیں کر سکتے، پھر ان سے قرآن کی حجیت اور اعجاز کو سمجھنے کا مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟!

 

  ہم پھر وہی کہیں گے کہ ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ پوری  انسانیت قرآن کریم کی چھوٹی سے چھوٹی سورت ، چاہے دس الفاظ پر مشتمل جملہ ہو، اس کی مثل لانے میں بھی ناکام ہوچکی کیونکہ یہ چیلنج پوری انسانیت کے لیے ہے اور کسی نے کبھی یہ چیلنچ پورا نہیں کیا۔لہٰذا قرآن کی یہ حتمی دلیل ان تمام کیلئے  حجت ہے جو اس معجزے کو قرآن کے اس دعوے کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔

 

  مزید الجھن کو رفع کرنے کے لیے ہم یہ کہیں گے کہ یہ بات درست ہے کہ سورت کی مثل کو عربی زبان میں ہی لایا جاسکتاہے، اس لیے چیلنج کو قبول کرنے اور کوشش کرنے کے لیے عربی زبان  میں مہارت ضروری ہے ۔مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ عربی زبان میں انتہائی مہارت رکھتے تھے ،ان کی مادری زبان ہی عربی تھی اوروہ اس کے بے تاج بادشاہ تھے،  اور آج بھی جو ایسے لوگ موجود ہیں جن کو عربی پر عبور ہے اور وہ اسلام کو ناکام بنانے کی سرتوڑ کوشش بھی کررہے ہیں ،وہ تمام بھی اس میں ناکام ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے معجزے کی تصدیق اور اس پر یقین قطعی ہے۔

 

علاوہ ازیں، اس چیلنج کا دروازہ بدستور کھلا ہے۔ اسلام کا معاملہ دنیا میں بڑھتا جارہا ہے اور اس کو ناکام بنانے کی کوشش بڑی ریاستوں اور بڑی اقوام کا مشن ہے۔ جس کے لیے بھی اس چیلنچ کا جواب دینا اہم ہے اس کے لیے عربی سیکھنا بھی اہم ہے۔ تو پھر یہ کیوں ممکن نہیں ہو پا رہا، جبکہ  دیگر زبانیں سیکھنا تو پرانے زمانے سے ہی معمول رہا ہے بلکہ بعض لوگ تو بیک وقت کئی کئی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ درست تو یہ ہے کہ جو لوگ ایک سے زیادہ زبانوں میں ماہر ہوتے ہیں وہ قرآن کے اعجاز کے زیادہ قائل ہوتے ہیں، کیونکہ وہ دوسروں کی نسبت ایک سطر میں ایک ہی جملے کو صرف چند کلمات سے مختلف پیرائے میں ادا کیے جانے کو بہتر انداز میں جانتے ہیں۔

  ہمارا موضوع یہ ہے کہ اسلام دشمنوں کیلئے لغت میں مہارت قرآن کے معجزے کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اس کے باوجود اسلام کو ختم کرنے کے لیے  پے درپے مہم ہمیشہ جاری رہی مگر یہ ان کی بدبختی اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔یہ صلیبی جنگوں کے دوران صدیوں تک جاری رہی، تہذیبوں کے خونخوار تصادم کے دوران جاری رہی  اور "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے اسلام کے خلاف جنگ کے دوران بھی یہ کوشش کوئی نئی نہیں، اسلام نے صدیوں سے اس قسم کے تصادم کا مقابلہ کیا ہے اور یہ جاری رہے گا۔بڑی ریاستوں اور سلطنتوں نے ہمیشہ اس مہم کو جاری رکھا، کیونکہ اسلام کی طرف سے یہ خطرہ اور چیلنج نئے نہیں اور ان سے غفلت ممکن نہیں، اسلام نے ہمیشہ مشرق اور مغرب کے سیاسی ناخداؤں کی نیندیں حرام کیے رکھیں ہیں۔

 

  اسلام کے دشمنوں نے امت مسلمہ کے خلاف اپنی جدوجہد میں دین کو پس پشت ڈالنے کے لیے بھر پور کوشش کی ،خاص کر ہم نے حالیہ برسوں میں مغرب کی جانب سے اس کا مشاہدہ کیا۔ جب مشتشرقین کی سرگرمیاں بہت تیز ہوگئیں اور وہ مختلف طریقوں سے اسلام پر حملہ آور ہوئے، اسلام کے احکامات کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرنے اور غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں کیں۔ یہ گمان درست نہیں کہ انھوں نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ قرآن کی جانب سے دس کلمات پر مشتمل ایک ہی آیت کے مثل لانے کے چیلنج کا جواب دینا ہی ان کے لیے اسلام کو بنیاد سے ختم کرنے کیلئے کافی ہے۔

 

اس کے علاوہ مغرب کے پاس ان کے تدریسی مراکز میں اسلام اور عربی میں خاص مہارت رکھنے والے ایسے محققین اور ماہرین موجود ہیں جن کو اس معاملے کی باریک ترین تفصیلات کا بھی علم ہے، یہ سب کو معلوم ہے کہ اس میں ان کو دسترس حاصل ہے اور ان کی ہزاروں تحقیقات موجود ہیں۔ اگر کوئی لندن، ماسکو، واشنگٹن اور پیرس کے خصوصی اداروں کا دورہ کرے گا تو وہ یہ جان لے گا کہ ایسے غیر مسلم محققین اور علماء موجود ہیں جن کو عربی پر مکمل عبور ہے، بعض دفعہ تو ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ تو امام شافعی اور ابو اسود الدولی کے ہم عصر ہیں۔ تاہم یہ ماہرین قرآن کے اعجاز کو غلط ثابت کرنے میں ناکام رہے ، حالانکہ ان کے پاس تمام ضروری وسائل دستیاب ہیں،ایسا کرنے کی  شدید غرض بھی موجود ہےاوران کو ایسا کرنے سے روکنے والی کوئی چیز بھی موجود نہیں۔اس تمام سے قرآن کریم کے عظیم مقام کا ثبوت ملتا ہے جو اس کے اعجاز اور اسلام کے پیغام کے حق ہونے کی دلیل ہے۔

 

  قرآن کے اعجاز کی قوت اور طاقت میں مزید اضافہ اس بات سے ہوتا ہے کہ  اس کے دشمن کے پاس لغت سے متعلق ہر قسم کے وسائل اور تمام مطلوبہ ضروریا ت دستیاب ہونے کے باوجود قرآن کے چیلنج کا دروازہ بدستور کھلا ہے اور قیامت تک کھلا رہے گا، اس کے بند ہونے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔  یوں یہ قرآنی چیلنج پوری انسانیت کے سامنے ہے کہ وہ اسلام کو غلط ثابت کریں جو کہ ایک محال امر ہے کیونکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالی کا کلام ہے جو قیامت کے دن تک محفوظ ہے۔ یوں قرآن ایک مستقل اور دائمی معجزہ ہے جو اسلام کے پیغام اور محمد ﷺ جو کہ اس پیغام کے علمبردار اور اللہ کی طرف سے اس کو پہنچانے والے ہیں،ان پر ایمان لانے کو لازم کرتا ہے۔  

   

الوعی میگزین شمارہ231

 

ربيع الثاني 1427هــ ــ مئی 2006م

Last modified onمنگل, 08 جون 2021 20:23

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک