السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

افغانستان: کیا مغربی پسپائی مسلمانوں کو اپنی واحدطاقتور ریاست خلافت کے قیام کے لیے متحرک کر سکتی ہے؟

تحریر: عبد المجید بھٹی

 

افغانستان سے امریکہ کے اچانک انخلاء پر تبصرہ کرتے ہوئے  سابق برطانوی وزیر ٹونی بلئیر نے مغرب کے متعلق سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس نے کہا،"قلیل مدتی سیاسی لوازمات کے دباؤ نے لبرل آزاد معاشروں کے اتحادی اور دشمنوں، سب کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہمارا دور ختم ہو گیا ہے۔"(1)۔  افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے امریکہ اور دیگر مغربی اقوام کے خلاف صرف اکیلا بلئیر ہی تنقید نہیں کررہا۔ " سرمایہ دارانہ نظام کا ترجمان اکانومسٹ میگزین لکھتا ہے، "افغانستان میں امریکی جنگ عبرتناک شکست پر منتج (ختم) ہو رہی ہے۔"(2)۔ جبکہ  کنورسیشن (The Conversation)میگزین کا یہ کہنا تھا کہ "مغربی طاقتوں کو شکست کو قبول کرنی چاہیے اور طالبان سے حقیقت پسندانہ طور پر نمٹنا چاہیے"(3)۔

 

افغانستان میں مغرب کے زوال کے بارے میں اس طرح کی تنقیدی سوچ  بچار بھی امریکہ کی تکلیف اور تباہی کی حقیقی حد کو ظاہر کرنے میں ناکام ہے، جو کہ دیگر تمام مغربی ممالک سے زیادہ ہے۔ امریکہ کی بیس سالہ جنگ کی لاگت کا تخمینہ 2.26 ٹریلین ڈالر ہے ، جو کہ یومیہ 300 ملین ڈالر یا افغانستان کے 40 ملین افراد میں سے ہر ایک کے لیے 50ہزار ڈالر کے برابر ہے۔(4) جبکہ انسانی قیمت تو بہت ہی زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2500 امریکیوں نے اپنی جانیں گنوائیں ، جبکہ افغان اموات کی مجموعی تعداد 167000 تھی - اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور شاید کبھی معلوم بھی نہ ہو۔(5)۔ لیکن اصل نقصان دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ کی ساکھ کو ہوا ہے۔75 ہزار ہلکے ہتھیاروں سےمسلح طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں شکست افغانستان میں انگریزوں اور سوویت یونین کی شکست سے بھی بدتر ہے۔ امریکہ کے اتحادی اب نہیں جانتے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ، جبکہ روس اور چین جیسی طاقتیں امریکہ کی ناکامیوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔

 

یورپ کا سیکیورٹی کی فراہمی کے حوالے سے امریکہ پر اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ یورپی یونین اپنے سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ریپڈ ری ایکشن فورس قائم کرنے کی کوششوں کو تیز کر رہی ہے۔امریکہ کی جانب سے  یورپ اور روس کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی بار بار کی کوششوں نے یورپ کو روسی خطرے کے بارے میں بے چین کر رکھا ہے۔ افریقہ اور شام سے بہت دور ، امریکی پالیسی نے تارکین وطن اور یورپی ساحلوں کی طرف جانے والے عسکریت پسندوں کی شکل میں سلامتی کے تازہ چیلنجزپیدا کیے ہیں۔ یورپی یونین اب افغانستان سے نکلنے والے تارکین وطن کی ایک اور لہر سے گھبرائی ہوئی ہے۔ جرمنی کے قدامت پسند امیدوار، ارمین لاشیٹ (Armin Laschet)، جو اینجلا مرکل کے بعد چانسلر کا عہدہ حاصل کرنے والے ہیں ، نے یورپی باشندوں کے اس وقت کے مزاج کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے کہ"ہمیں یورپ کو مضبوط بنانا چاہیے تاکہ ہمیں اسے کبھی امریکیوں پر نہ چھوڑنا پڑے۔"(6)۔

 

اسی طرح ، چین کےہمسایہ ممالک امریکہ کے اتحادی ، جو اپنی سلامتی کے لیے امریکی پر انحصار کرتے ہیں ، کو واشنگٹن کی جانب سے سلامتی فراہم کرنے کے معاملے پر گہرے تحفظات پیدا ہوگئے ہیں ۔ بائیڈن کا افغانستان سے تیزی سے انخلا ، اور ٹرمپ کی جانب سے جنوبی کوریا اور جاپان جیسے دیرینہ اسٹریٹجک شراکت داروں پر یہ دباؤ کہ وہ امریکی سکیورٹی کے لیے ادائیگیاں کریں ، نے کچھ نفرت اور پریشانی کو ہوا دی ہے۔  جنوبی کوریا میں قدامت پسندوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ شمالی کوریا اور چین کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جزیرہ نما کوریا سے بھی نکل سکتا ہے۔

 

روس اور چین امریکی کمزوری پر جتنا مرضی خوش ہو لیں لیکن اس بات میں شک ہے کہ یہ دونوں ممالک امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ افغانستان میں عدم استحکام پھیلنے کا امکان ہے اور اس سے وسطی ایشیائی ریاستوں میں اتار چڑھاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے روس کی توجہ یورپ سے ہٹ جائے گی ۔ اسی طرح چین کی افغانستان کے ساتھ سرحد پر سنکیانگ میں بغاوت تیز ہو سکتی ہے۔ یہ چیز چین کی توجہ کو اپنے مشرقی محاذ پر مرکوز کرنے سے روکے گی۔

 

مزید برآں ، یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یہ دونوں ممالک افغانستان پر حملہ کر کے کسی بھی قسم کی طویل بدامنی کو روک سکتے ہیں۔ روسیوں کے پاس نہ صرف اپنی سرحدوں کے باہر قبضے کو برقرار رکھنے کا ناقص ریکارڈ ہے ، بلکہ آخری بار جب انہوں نے ایسی کوشش کی تو انہوں نے افغانستان کوکمزور اور ذلت کا سامنا کرکے چھوڑا تھا۔ چین اپنی عسکری برتری کے باوجود اپنی تاریخ میں کبھی بھی اپنی سرحد کے مغرب میں مقیم ممالک پر قبضہ نہیں کرسکا۔ مزید یہ کہ ، پیپلز لبریشن آرمی دوسری بڑی طاقتوں کی فوجوں کے مقابلے میں ناتجربہ کار اور ناآزمودہ ہے جو افغانستان میں لڑے اور ہارے ہیں۔

 

پس اگر مغرب پیچھے ہٹ رہا ہے اور دوسری  نئی ابھرتی ہوئی طاقتیں مسلم علاقوں میں مداخلت سے خوفزدہ ہیں تو پھر طالبان کے افغانستان پر قبضے سے فائدہ اٹھانے والا کون ہوگا؟ ٹونی بلیئر کے مطابق جہادیوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ازم مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔(7)۔ لیکن اسلام اسی وقت مغرب کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن سکتا ہے جب وہ ایک طاقتور ریاست کی شکل میں موجود ہو اور شریعت کو مکمل اور جامع طور پر نافذ کرے۔ طالبان کا مغربی معیارات پر مبنی عبوری حکومت کا اعلان اور اسلامی فقہ پر مبنی ایک جامع آئین کو بیان کرنے میں ان کی ناکامی انہیں اسلامی نظام کے قیام کےدعویداروں کی فہرست سےباہر کرچکی ہے۔

 

اگر افغانستان کی پڑوسی مسلم ریاستیں اس تاریخی جغرافیائی سیاسی موقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں تاکہ وہ خود کو غیر ملکی طاقتوں سے مستقل طور پر آزاد کر لیں اور ایک متحد ریاست کے قیام کے لیے افغانستان کے ساتھ مل جائیں تو اس سے مغربی تسلط ختم ہو جائے گا۔ اس سے مغرب کی بالادستی کو ختم کرنے کی خواہش رکھنے والی نئی ابھرتی طاقتوں، روس و چین، کی خواہشات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ کوئی دور کی کوڑی نہیں ہے جیسا کہ پہلی بار اس کے بارے میں سوچنے سے لگتا ہے۔ اموی خلافت کے تحت یہ علاقہ بڑے پیمانے پر متحد تھا۔ بعد میں عباسیوں ، سلجوقوں ، غزنویوں ، غوریوں اور درانی سلطنتوں کے دور میں ہمارا یہ خطہ مختلف اقسام کے اتحاد کی شکل میں موجود رہا ، اگرچہ مستقلاً یہاں اسلام کے تحت ہی حکمرانی رہی۔ آج خطے کے مظلوم مسلمانوں کو اپنے افغان مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر نبوت کے نقش قدم پر خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کی کوششوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔

 

حوالہ جات:

 

[1] The Guardian, (2021).  Islamism remains first-order security threat to west, says Tony Blair.  The Guardian. Available at: https://www.theguardian.com/politics/2021/sep/06/islamism-remains-first-order-security-threat-to-west-says-tony-blair

[2] Economist, (2021).  The Longest War: America’s war in Afghanistan is ending in crushing defeat.  Economist. Available at: https://www.economist.com/leaders/2021/07/10/americas-longest-war-is-ending-in-crushing-defeat

[3] The Conversation, (2021).  Afghanistan: western powers must accept defeat and deal realistically with the Taliban.  The Conversation. Available at: https://theconversation.com/afghanistan-western-powers-must-accept-defeat-and-deal-realistically-with-the-taliban-166588

[4, 5] Forbes, (2021).  The War In Afghanistan Cost America $300 Million Per Day For 20 Years, With Big Bills Yet To Come.  Forbes. Available at: https://www.forbes.com/sites/hanktucker/2021/08/16/the-war-in-afghanistan-cost-america-300-million-per-day-for-20-years-with-big-bills-yet-to-come/?sh=644fc7227f8d

[6] Reuters, (2021).  Analysis: Afghanistan pullout spurs EU to revive rapid reaction force.  Reuters. Available at: https://www.reuters.com/world/afghanistan-pullout-spurs-eu-revive-rapid-reaction-force-2021-09-01/

[7] The Guardian, (2021).  Islamism remains first-order security threat to west, says Tony Blair.  The Guardian. Available at: https://www.theguardian.com/politics/2021/sep/06/islamism-remains-first-order-security-threat-to-west-says-tony-blair

Last modified onمنگل, 14 ستمبر 2021 22:06

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک