بسم الله الرحمن الرحيم
خلافت کی فرضیت اور اہمیت سے متعلق علماء کے اقوال
هشام البنزرتي
(عربی سے ترجمہ)
27 رجب 1342 ہجری ،مطابق 3مارچ 1924 ء کو مسلمانوں کی تاریخ کا ہولناک ترین حادثہ رونما ہوا ، یہ اسلامی ریاستِ خلافت کے سقوط کا حادثہ تھا ، اوریہ اس کافر مغرب کی سازشوں نتیجہ تھا جس کا سرغنہ برطانیہ تھا، جس میں اُس کےایجنٹوں نے اُس کی مدد کی اور ان میں سرِفہرست مصطفیٰ کمال اتاترک تھا۔یہ بھیانک جُرم اُمت کے حق میں ایک مصیبت ثابت ہوا، خلافت کا خاتمہ کیا ہوا ،کہ مسائل کا بند ہی ٹوٹ گیا۔ سقوط خلافت پر امت ایسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر تتر بتر ہو گئی،جہاں اسلام بیزار حکومتیں قائم کی گئیں۔ اس دن سے لے کر آج تک یکے بعد دیگرے مسلم علاقے کھو جانے ، انتشار ، تباہی وزوال اور ذلت و رسوائی کا مرحلہ شروع ہوا ، زبوں حالی کے ایسے بد ترین اور روح فرسا مناظر اُمت مسلمہ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے،نہ ہی آج کی طرح کی کمزوری اور پستی کی حالت کا کبھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
خلافت کی فرضیت اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لیے میں یہاں کچھ علمائے امت کے چند اقوال کاذکر کرتا ہوں، تاکہ لوگ ان پرغور کریں ، اُمید ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ بند دلوں کو کھول دے گا ، اور ان کے ذریعہ تاریک اذہان کو روشن کردے گا:
ابو المعالی عبد الملک الجوینی نےغِیاثُ الاُمَممیں کہا ہے: الإمامة: رياسة عامة، وزعامة تامة، تتعلق بالخاصة والعامة في مهمات اولدين والدنيا، متضمنها حفظ الحوزة ورعاية الرعية، وإقامة الدعوة بالحجة والسيف، وكف الجنف والحيف، والانتصاف للمظلومين من الظالمين، واستيفاء الحقوق من الممتنعين وإيفاؤها على المستحقين... فإذا تقرر وجوب نصب الإمام فالذي صار إليه جماهير الأئمة أن وجوب النصب مستفاد من الشرع المنقول..."اِمامت(خلافت) ایک عمومی سربراہی اور مکمل قیادت ہے ،جس کا عوام و خواص دونوں کے دینی اور دنیاوی اُمور کے ساتھ بنیادی تعلق ہے ، یہ سرحدوں کے تحفظ ،رعایا کی دیکھ بھال ،دلیل اور تلوار کے ساتھ دعوت کو پیش کرنے،ظلم و نا انصافی اور کج روی کے خاتمے، مظلوموں کو ظالموں سے حق دلوانے ،اور حقداروں کو ان کا حق چھیننے والوں سے حق دلوانے کی ضمانت دیتی ہے۔ تو جب مذکورہ تمام اُمور کو انجام دینے کے لیے امام کی تقرری کی ضرورت اور فرضیت ثابت ہے ،لہٰذاآئمہ اور فقہاء کی اکثریت کا مذہب یہ ہےکہ خلافت کی فرضیت شرعی حوالہ سے ہی ثابت ہے(نہ کہ محض عقلی دلیل کی بنا پر)"۔
ابنِ حزم نے الفصل فی الملل والاھواء و النحلمیں کہا:اتفق جميع أهل السنة وجميع الشيعة، وجميع الخوارج (ماعدا النجدات منهم) على وجوب الإمامة."تمام اہلِ سنت، تمام شیعہ اور تمام خارجی (سوائے بعض خارجیوں کے) سب امامت کی فرضیت پر متفق ہیں"۔
امام الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں) کہا: وَعَقْدُهَا لِمَنْ يَقُومُ بِهَا فِي الْأُمَّةِ وَاجِبٌ بِالْإِجْمَاعِ وَإِنْ شَذَّ عَنْهُمْ الْأَصَمُّ" اہل شخص کے لیے خلافت کا انعقاد(علماء کے) اجماع سے واجب ہے ، اگرچہ اعصم کا قول اس کے خلاف ہے"۔
ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں کہا: وقال النووي وغيره: أجمعوا على انعقاد الخلافة بالاستخلاف وعلى انعقادها بعقد أهل الحل والعقد لإنسان حيث لا يكون هناك استخلاف غيره وعلى جواز جعل الخليفة الأمر شورى بين عدد محصور أو غيره وأجمعوا على انه يجب نصب خليفة وعلى أن وجوبه بالشرع لا بالعقل"النووی اور دیگر علماء نے کہا ہے:"اہل حل و عقد کی بیعت کے ذریعے(یعنی بغیر جانشینی کے)معاہدۂ خلافت ہو نے پر(علماء کا) اجماع ہے اوراس بات کے جواز پر بھی اجماع ہے کہ مخصوص یا غیر مخصوص تعداد کی مشاورت سے خلیفہ مقرر کیا جائے ۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ خلیفہ کی تقرری فرض ہے ،اس پر بھی اجماع ہے کہ یہ فرض ہونا شرعی ہے نہ کہ عقلی۔ "
ابنِ حجرھیثمی نےالصواعق المحرقۃ میں کہا: اعلم أيضا أن الصحابة رقضوان الله عليهم أجمعوا على أن نصب الإمام بعد انقراض زمن النبوة واجب بل جعلوه أهم الواجبات حيث اشتغلوا به عن دفن رسول الله صلى الله عليه وسلم"اس طرح یہ بھی جان لیں کہ صحابہ کرامؓ نے اس پر اجماع کیا کہ زمانۂ نبوت کے ختم ہونے کے بعد امام کی تنصیب فرض ہے ، بلکہ انہوں نے اس کو سب سے اہم فرض سمجھا ،کیونکہ انہوں نے خلیفہ کے انتخاب میں مشغولیت کی خاطر رسول اللہ ﷺ کی تدفین کو مؤخر کیا"۔
ابن خُلدُون نے مقدمہمیں کہا: إن نصب الإمام واجب قد عرف وجوبه في الشرع بإجماع الصحابة والتابعين؛ لأن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عند وفاته بادروا إلى بيعة أبي بكر رضي الله عنه وتسليم النظر إليه في أمورهم، وكذا في كل عصر من بعد ذلك ولم يترك الناس فوضى في عصر من الأعصار، واستقر ذلك إجماعا دالا على وجوب نصب الإمام"امام کی تقرری واجب ہے ،شریعت میں اس کا وجوب صحابہؓ اور تابعین کےاجماع سے ثابت ہے ، کیوں کہ صحابہؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر جلدہی ابوبکرؓ کی بیعت کی اور اپنے معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے سپرد کر دی۔ اسی طرح بعد کے تمام ادوار میں یہی ہوتا رہا ،لوگوں کو کسی بھی زمانے میں فتنے کی حالت میں نہیں رہنے دیا گیا۔ چنانچہ یہ امام کی تقرری کی فرضیت پر ایک اجماع بن کر ٹھہر گیا"۔
النسفی نے العقائد میں کہا: والمسلمون لا بد لهم من إمام يقوم بتنفيذ أحكامهم وإقامة حدودهم وسدّ ثغورهم وتجهيز جيوشهم وأخذ صدقاتهم وقهر المتغلبة المتلصصة وقطاع الطريق وإقامة الجمع والأعياد وقبول الشهادات القائمة على الحقوق وتزويج الصغار والصغيرات الذين لا أولياء لهم وقسمة الغنائم"مسلمانوں کا ایک ایسا امام ہونا ضروری ہے جو ان پر احکامِ شریعت نافذ کرے ، اسلامی حدود قائم کرے ، ان کی سرحدوں کی حفاظت کرے ،فوج تیار کرے ،زکوٰۃ و عشر اکٹھا کرے ،اور باغیوں ، چوروں اور ڈاکوؤں کو کچلے،جمعہ و عیدین کو قائم کرے ،حقوق پر شہادتوں کو قبول کرے ،لاوارث چھوٹے بچوں او ر بچیوں کی شادی کرائے جن کا کوئی سرپرست نہیں ہوتا ہے ، اور اموالِ غنیمت تقسیم کرے"۔
جمال الدین الغزنوی نے اصول الدین میں کہا ہے:لا بد للمسلمين من إمام يقوم بمصالحهم من تنفيذ أحكامهم وإقامة حدودهم وتجهيز جيوشهم وأخذ صدقاتهم وصرفها إلى مستحقيهم لأنه لو لم يكن لهم إمام فإنه يؤدي إلى إظهار الفساد في الأرض"مسلمانوں کے لیے امام کی موجودگی لازم ہے ،جو ان کے مفادات کی نگہداشت کرے ، مثلاً احکام کو نافذ کرے ، حدود و قصاص قائم کرے ، افواج کو تیار کرے ، مسلمانوں سے صدقات وصول کرے اور ان کو مستحق لوگوں پر خرچ کرے، کیونکہ اگر ان کا کوئی امام نہ ہو ، تو اس سے زمین میں فسادو بگاڑ پیداہوجائے گا۔"
عزالدین ایجی نے المواقف میں کہا : نصب الإمام عندنا واجب علينا سمعا... وأما وجوبه علينا سمعا فلوجهين: الأول إنه تواتر إجماع المسلمين في الصدر الأول بعد وفاة النبي امتناع خلو الوقت عن إمام حتى قال أبو بكر رضي الله عنه في خطبته ألا إن محمدا قد مات ولا بد لهذا الدين ممن يقوم به فبادر الكل إلى قبوله وتركوا له أهم الأشياء وهو دفن رسول الله ولم يزل الناس على ذلك في كل عصر إلى زماننا هذا من نصب إمام متبع في كل عصر... الثاني إنه فيه دفع ضرر مظنون وإنه واجب إجماعا. بيانه إنا نعلم علما يقارب الضرورة أن مقصود الشارع فيما شرع من المعاملات والمناكحات والجهاد والحدود والمقاصات وإظهار شعار الشرع في الأعياد والجمعات إنما هو مصالح عائدة إلى الخلق معاشا ومعادا وذلك لا يتم إلا بإمام يكون من قبل الشارع يرجعون إليه فيما يعن لهم"ہمارے نزدیک امام کو مقرر کرنا واجب ہے ... جہاں تک نقل کی بنیاد پر ہم پر اس کی فرضیت کی بات ہے تو اس کی دو وجوہات ہیں ،پہلا: نبی ﷺ کے رحلت فرمانے کے بعد دورِ اول میں تواتر کے ساتھ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ثابت ہے کہ مسلمانوں کا لمحہ بھر کے لیے امام کے بغیر رہنا جائز نہیں،یہاں تک کہ ابوبکر ؓنے اپنے مشہور خطبے میں کہا تھا : سنو!محمدﷺ فوت ہوگئے ہیں ، اور اس دین کے لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اس دین کا کام کرے۔چنانچہ سب ان کی بات پر عمل کے لیے دوڑے اور اس کام کے لیے سب سے اہم چیز یعنی رسول اللہ ﷺ کی تدفین چھوڑ دی ۔ ہر زمانے میں لوگ اسی پر چلتے آئے ہیں،کہ وہ اپنا امام مقرر کرتے تھے۔ دوسرا: اس میں ایک ممکنہ نقصان سے بچاؤ ہے جو کہ اجماع کی وجہ سے واجب ہے ، کیونکہ معاملات ، شادی بیاہ ، جہاد ، حدود، قصاص اور عیدین و جمعہ میں شرعی رسومات کا مظاہرہ وغیرہ جو شارع نے مقرر کیے ہیں،ان کا مقصدبندوں کے لیے دنیا و آخرت میں بھلائی اور فائدہ ہے اور یہ سب صرف امام کے ہوتے ہوئے حاصل کیے جاسکتے ہیں جس کی اطاعت اس شارع کی وجہ سےہوتی ہے جس کی طرف سب نے لوٹ کر جانا ہے"۔
امام قرطبی نےاپنی تفسیر میں کہا: هذه الآية أصلٌ في نصب إمامٍ وخليفةٍ يُسمعُ له ويطاعُ؛ لتجتمع به الكلمةُ؛ وتنفذ به أحكامُ الخليفة. ولا خلافَ في وجوب ذلك بين الأُمة ولا بين الأئمَّة إلا ما روي عن الأصَمِّ- أبو بكرٍ الأصم من كبارِ المعتزلة- حيث كان عن الشريعة أصمَّ؛ وكذلك كلُّ مَن قال بقولهِ واتبعه على رأيهِ ومذهبهِ، قال: إنَّها غيرُ واجبةٍ في الدِّين بل يسوَّغ ذلك، وأن الأمةَ متى أقاموا حَجَّهُم وجهادَهم، وتناصفوا فيما بينهم، وبذلوا الحقَّ من أنفسهم، وقسَمُوا الغنائمَ والفيء والصدقات على أهلها، وأقاموا الحدودَ على مَن وجبت عليه، أجزأَهم ذلك، ولا يجبُ عليهم أن ينصِّبوا إماماً يتولَّى ذلك. ودليلُنا قَوْلُ اللهِ تَعَالَى: (إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيْفَةً) وقَوْلُهُ تَعَالَى: (يَا دَاوودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الاَرْضِ) وقال: (وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الأرض) أي يجعلُ منهم خلفاءَ، إلى غيرِ ذلك من الآيِ"یہ آیت امام اور خلیفہ کے کی تقرری کی دلیل ہے جس کی بات سنی اورمانی جاتی ہو ،تاکہ امت کے درمیان اتفاق و اتحاد قائم رہے ،ان کی بات ایک ہو اور ان کے ذریعے احکام کو نافذ کیا جائے ۔ امت اور آئمہ میں اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ،سوائے جو معتزلہ کے بڑے الاصم سےروایت کیا گیا ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں شریعت سے بہرہ تھا،(الاصم کے معنی بہرہ کے ہیں)اورجنہوں نے اس کے مذہب اور رائے کی پیروی کی،وہ بھی انہی کی طرح تھے۔ ان کے بقول دین میں خلافت واجب نہیں البتہ جائز ہے۔ اور یہ کہ جب امت حج ادا کرے ، جہادکرے ، آپس میں انصاف کرے ، اور مال غنیمت ، مال فئے تقسیم کرے، حقداروں کو صدقات دے ، حدود قائم کرے ، تو یہ سب ان کے لیے جائزہے ،ان پر یہ واجب نہیں کہ مذکورہ ذمہ داریاں سنبھالنے والے کسی امام کو نصب کرے کیونکہ انھیں اس سب سے فائدہ حاصل ہو چکا۔ ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا قول ہے: (إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيْفَةً)"میں زمین میں خلیفہ پیدا کروں گا۔" اور فرمایا: (يَا دَاوودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الاَرْضِ)"اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنادیا ہے۔" اور فرمایا(وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الأرض) " اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں ضرور خلافت عطاکردے گا۔" ، اور اس جیسی ہی دیگر آیات۔
ابنِ تیمیہ نےالسیاسۃ الشرعیۃ میں کہا: يَجِبُ أَنْ يُعْرَفَ أَنَّ وِلَايَةَ أَمْرِ النَّاسِ مِنْ أَعْظَمِ وَاجِبَاتِ الدِّينِ؛ بَلْ لَا قِيَامَ لِلدِّينِ وَلَا لِلدُّنْيَا إلَّا بِهَا. فَإِنَّ بَنِي آدَمَ لَا تَتِمُّ مَصْلَحَتُهُمْ إلَّا بِالِاجْتِمَاعِ لِحَاجَةِ بَعْضِهِمْ إلَى بَعْضٍ وَلَا بُدَّ لَهُمْ عِنْدَ الِاجْتِمَاعِ مِنْ رَأْسٍ حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم -: ((إذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُد مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ... وَلِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَوْجَبَ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنْ الْمُنْكَرِ وَلَا يَتِمُّ ذَلِكَ إلَّا بِقُوَّةِ وَإِمَارَةٍ.."یہ جاننا چاہئے کہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال دین کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ بلکہ دین کا قیام صرف اسی کے ذریعے ممکن ہے۔ کیونکہ انسانوں کے مفادات صرف اجتماعی صورت میں پورے ہوسکتے ہیں ،کیونکہ تمام انسان ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ اور اجتماعی زندگی کے لیے ایک سربراہ کا ہونا ضروری ہے ،حتی کہ نبی ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا:((إذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ)). " جب تین آدمی سفر پر نکلے تو کسی ایک کو اپنا امیر بنائیں۔" ... یہ حدیث ابوداؤد نے ابو سعید اور ابوہریرہ ؓسے روایت کی اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے کو واجب کیا ہے"۔
امام شوکانی نے السیل الجرار میں کہا: فصل يجب على المسلمين نصب إمام: أقول قد أطال أهل العلم الكلام على هذه المسألة في الأصول والفروع واختلفوا في وجوب نصب الإمام هل هو قطعي أو ظني وهل هو شرعي فقط أو شرعي وعقلي وجاءوا بحجج ساقطة وأدلة خارجة عن محل النزاع والحاصل أنهم أطالوا في غير طائل ويغني عن هذا كله أن هذه الإمامة قد ثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم الإرشاد إليها والإشارة إلى منصبها كما في قوله الأئمة من قريش وثبت كتابا وسنة الأمر بطاعة الأئمة ثم أرشد صلى الله عليه وسلم إلى الاستنان بسنة الخلفاء الراشدين فقال عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين الهادين وهو حديث صحيح وكذلك قوله الخلافة بعدي ثلاثون عاما ثم يكون ملكا عضوضا ووقعت منه الإشارة إلى من سيقوم بعده ثم إن الصحابة لما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم قدموا أمر الإمامة ومبايعة الإمام على كل شيء حتى إنهم اشتغلوا بذلك عن تجهيزه صلى الله عليه وسلم ثم لما مات أبو بكر عهد إلى عمر ثم عهد عمر إلى النفر المعروفين ثم لما قتل عثمان بايعوا عليا وبعده الحسن ثم استمر المسلمون على هذه الطريقة حيث كان السلطان واحدا وأمر الأمة مجتمعا ثم لما اتسعت أقطار الإسلام ووقع الاختلاف بين أهله واستولى على كل قطر من الأقطار سلطان اتفق أهله على أنه إذا مات بادروا بنصب من يقوم مقامه وهذا معلوم لا يخالف فيه أحد بل هو إجماع المسلمين أجمعين منذ قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى هذه الغاية فما هو مرتبط بالسلطان من مصالح الدين والدنيا ولو لم يكن منها إلا جمعهم على جهاد عدوهم وتأمين سبلهم وإنصاف مظلومهم من ظالمه وأمرهم بما أمرهم الله به ونهيهم عما نهاهم الله عنه ونشر السنن وإماتة البدع وإقامة حدود الله فمشروعية نصب السلطان هي من هذه الحيثية ودع عنك ما وقع في المسألة من الخبط والخلط والدعاوي الطويلة العريضة التي لا مستند لها إلا مجرد القيل والقال أو الإتكال على الخيال الذي هو كسراب بقيعة يحسبه الظمآن ماء حتى إذا جاءه لم يجده شيئا. ثم من أعظم الأدلة على وجوب نصب الأئمة وبذل البيعة لهم ما أخرجه أحمد والترمذي وابن خزيمة وابن حبان في صحيحه من حديث الحارث الأشعري بلفظ من مات وليس عليه إمام جماعة فإن موتته موتة جاهلية ورواه الحاكم من حديث ابن عمر ومن حديث معاوية ورواه البزار من حديث ابن عباس"مسلمانوں کا ایک امام ہونا چاہئے" کے باب میں:میں کہتا ہوں کہ علمائے کرام نے اس مسئلے کے اصول و فروع میں طویل بحث کی ہے اور امام کو مقرر کرنے کی ضرورت میں اختلاف کیا ہے، کہ یہ وجوب قطعی ہے یا ظنی ،نیز شرعی ہے یا عقلی۔انہوں نے اس پر غیر معتبر اور خارج از بحث دلائل بیان کیے ہیں ۔انھوں نے غلط ، غیر مؤثر، موضوع سے غیر متعلق دلائل پیش کیے اور بحث کو فضول میں طویل کر دیا، ان بحثوں کا کوئی فائدہ نہیں، ان تمام دلائل کی جگہ یہ دلیل کافی ہے کہ امامت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے رہنمائی سے ثابت ہے اور اس کے منصب کی نشاندہی ثابت ہے ،جیساکہ حدیث میں ہے کہ )الأئمة من قريش ( " حکمران قریش میں سے ہوں گے،" کتاب و سنت سے آئمہ یعنی وقت کے حکمرانوں کی اطاعت کا حکم ثابت ہے ، پھر آپﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت اپنانے کی طرف رہنمائی کی ،چنانچہ فرمایا (عليكم بسُنَّتي وسُنَّةِ الخلفاءِ الراشِدين الهادِين):" تم میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازمی پکڑو۔" یہ صحیح حدیث ہے ، نیز آپ ﷺ کا یہ ارشاد:(الخلافۃ بعدی ثلاثون عاما ثم تکون ملکا عضوضا)"میرے بعد تیس سال تک خلافت رہے گی ، پھر چمٹے رہنے والی بادشاہی ہوگی"،آپ ﷺ نے یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ آپ ﷺ کے بعد کون اس کا م کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا ، پھر جب آپ ﷺ کی وفات ہوئی تو صحابہ کرام ؓ نے امامت اور امام کو بیعت دینے کے معاملے کو ہر چیز پر مقدم کیا ،یہاں تک کہ انہوں نے اس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی تدفین کو بھی چھوڑ دیا تھااور اسی میں مشغول ہوگئے تھے۔ پھر جب ابوبکرؓکا انتقال ہوا، تو انہوں نے حضرت عمرؓ کو مقرر کیا، پھر عمرؓ نے معروف گروہ کے سپرد کیا ، پھر جب عثمانؓ کو قتل کیا گیا تو انہوں نے علیؓ کو بیعت دی ، اور اس کے بعد حسنؓ خلیفہ بنے۔ مسلمان برابر اسی طریقہ پر چلتے آئے کہ ایک سلطان ہوتا تھا اور امت کی حالت مجتمع تھی ۔ پھر جب اسلامی علاقے وسیع ہوگئے اور اہل اسلام میں پھوٹ پڑ گئی،ہر علاقے کا اپنا اپنا سلطان بن بیٹھا ،تب انہوں نے متفقہ طور پر یہ کام کیا کہ اس کی وفات پر اس کی جگہ کسی اور کو بٹھانے میں پہل کرتے ، اور یہ بات معلوم ہے کسی کا اس میں اختلاف نہیں، بلکہ جب سے رسول اللہ ﷺ رحلت فرماچکے تب سے آج تک یہی سلسلہ چلا آرہا ہے،اور اسی پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔تو جن امور کا سلطان کے ساتھ تعلق ہے ، اگر اس کے سوا کچھ اور نہ بھی ہوتا کہ سلطان ان کو اپنے دشمن سے لڑنے کے لیے متفق رکھتاہے، ان کی راستوں کو پر امن اور محفوظ بناتا ہے،مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلاتا ہے ، اور انھیں وہی حکم دیتا ہے جو اللہ نے ان کو حکم دیا ہے،ان باتوں سے انہیں روکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ممنوع قرار دی ہیں ، سنتوں کو پھیلاتا ہے ، بدعتوں کو ختم کرتا ہے ، اور اللہ کی حدود کو قائم کرتا ہے ، تو یہ سب کچھ سلطان کی اہمیت و ضرورت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، کیونکہ سلطان نصب کرنے کا جواز انہی مقاصد کے لیے ہے ۔ باقی اس مسئلہ میں جو خبط اور خلط ملط واقع ہوئی اور لمبے چوڑےدعوےکیے گئے جن کا سہارا صرف قیل وقال پر ہےیا پھر محض تخیلات پر ہے ، ان پر توجہ نہ دیں ،یہ سب ایک سراب کی طرح ہیں جسے پیاسے لوگ پانی سمجھتے ہیں ،کہ جب وہ اس کے پاس آجاتے ہیں ، انہیں کچھ بھی نہیں ملتا ۔ پھر اماموں کے قیام اور ان سے بیعت کرنے کی ضرورت کے سب سے بڑے دلائل میں سے وہ حدیث ہے جوامام احمد، ترمذی ، ابنِ خزیمہ اور ابنِ حبان نے اپنے صحیح میں حارث اشعری سے نقل کی ہے، الفاظ یہ ہیں کہ من مات و لیس علیہ امام جماعۃ فان موتتہ جاھلیۃ"جو شخص فوت ہو گیا اور اس پر امام نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرا"،حاکم نے یہ حدیث ابنِ عمر اور معاویہ سے نقل کی ہے ،اور بزار نے ابنِ عباس سے روایت کی۔
شمس الدین رملی نے غایۃ البیان میں کہا: يجب على الناس نصب إمام يقوم بمصالحهم، كتنفيذ أحكامهم وإقامة حدودهم وسد ثغورهم وتجهيز جيوشهم وأخذ صدقاتهم أن دفعوها وقهر المتغلبة والمتلصصة وقطاع الطريق وقطع المنازعات الواقعة بين الخصوم وقسمة الغنائم وغير ذلك، لإجماع الصحابة بعد وفاته صلى الله عليه وآله وسلم على نصبه حتى جعلوه أهم الواجبات، وقدموه على دفنه صلى الله عليه وآله وسلم ولم تزل الناس في كل عصر على ذلك"لوگوں پر ایک ایسا امام کھڑا کرنا واجب ہے جو ان کے مفادات کو پورا کرے ، جیسے احکام کا نفاذ اور عمل درآمد ، حدود قائم کرنا ، سرحدوں کی حفاظت کرنا، فوج تیار کرنا ، ان سے صدقات لینا ، زبردستی غلبے کی کوشش کرنے والوں اور چوروں ڈاکوؤں کی سرکوبی کرنا ، اور مخالف فریقوں کے مابین تنازعات کا خاتمہ کرنا ، مال غنیمت تقسیم کرنا ، وغیرہ۔ کیونکہ اسی پر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد صحابہؓ کا اجماع ہوا ،یہاں تک کہ انہوں نے اس کو سب سے اہم فریضہ قرار دیا ، اور اس کو آپ ﷺ کی تدفین پر مقدم کیا ،تمام زمانوں میں لوگ اسی نہج پر کاربند رہے"۔
شیخ طاہر بن عاشور نے"اسلام کے معاشرتی نظام کے اصول" میں کہا: فإقامة حكومة عامة وخاصة للمسلمين أصل من أصول التشريع الإسلامي ثبت ذلك بدلائل كثيرة من الكتاب والسنة بلغت مبلغ التواتر المعنوي. مما دعا الصحابة بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم إلى الإسراع بالتجمع والتفاوض لإقامة خلف عن الرسول في رعاية الأمة الإسلامية، فأجمع المهاجرون والأنصار يوم السقيفة على إقامة أبي بكر الصديق خليفة عن رسول الله للمسلمين. ولم يختلف المسلمون بعد ذلك في وجوب إقامة خليفة إلا شذوذا لا يعبأ بهم من بعض الخوارج وبعض المعتزلة نقضوا الإجماع فلم تلتفت لهم الأبصار ولم تصغ لهم الأسماع. ولمكانة الخلافة في أصول الشريعة ألحقها علماء أصول الدين بمسائله، فكان من أبوابه الإمامة. قال إمام الحرمين [أبو المعالي الجويني] في الإرشاد: (الكلام في الإمامة ليس من أصول الاعتقاد، والخطر على من يزل فيه يربى على الخطر على من يجهل أصلا من أصول الدين" پس مسلمانوں کے لیے سرکاری اور نجی حکومت کا قیام اسلامی قانون سازی کی ایک اصل ہے، جو کتاب و سنت کے اتنے زیادہ دلائل سے ثابت ہے جو معنوی تواتر تک پہنچتے ہیں ۔ انہی دلائل کی وجہ سے نبی ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ اجتماعیت پر مجبور ہوئے اور امت مسلمہ کی نگہداشت کے لیے رسول ﷺ کے جانشین کو مقرر کرنے میں پہل کی ، لہٰذا مہاجرین اور انصار نے سقیفہ کے دن ابو بکر صدیقؓ کو مسلمانوں کے لیے رسول اللہ ﷺکا جانشین بنانے کے لیے یکجا ہوکر بیعت دی۔ مسلمانوں نے اس کے بعد نصب خلیفہ کے وجوب میں کبھی اختلاف نہیں کیا، سوائے چند ایک خوارج اور بعض معتزلہ کے جن کے قول کا کوئی اعتبار نہیں، ان لوگوں نے اجماع کو توڑا مگر ان کی طرف کوئی آنکھ اُٹھی، نہ کان متوجہ ہوئے۔ اصولِ شریعت میں خلافت کے مقام و مرتبے کی بنیاد پر اصولِ دین(عقائد) کے علماء نے اس کو عقائد کے مسائل میں رکھا،یہی وجہ ہے کہ عقائد کے مسائل میں امامت کا باب بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ امام الحرمین ابو معالی جوینی نے الارشاد میں کہا ہے : امامت کے بارے میں کلام عقائد کے اصول میں سے نہیں، البتہ جو امامت کے باب میں پھسل جائے اور اس حوالے سے غلط ثقافت میں رنگ جائے اس کے لیے زیادہ خطرہ ہے بنسبت اس آدمی کے جو دین کے کسی اور اصل سے ناواقف ہو۔
امام جزیری نےالفقہ علی المذاھب الاربعۃ میں فرمایا: اتفق الأئمة رحمهم الله تعالى على أن الإمامة فرض وأنه لا بد للمسلمين من إمام يقيم شعائر الدين وينصف المظلومين من الظالمين وعلى أنه لا يجوز أن يكون على المسلمين في وقت واحد في جميع الدنيا إمامان لا متفقان ولا مفترقان... "آئمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امامت (خلافت) فرض ہے اور مسلمانوں کے ایک امام (خلیفہ) کا ہونا ضروری ہے جو دین کی رسومات قائم کرے اور ظالموں سے مظلوموں کو انصاف دلائے۔ اس پر بھی ان آئمہ کا اجماع ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہی وقت میں دو اماموں کا ہونا جائز نہیں۔ وہ دونوں مسلمانوں کے متفقہ امام ہوں یا عدم اتفاق کی بنا پر ہوں۔ یہ چند اقوال جمع کرسکا ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ امت مُسلمہ کی جلدی مدد کرے ، تاکہ ایک دفعہ پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت واپس لوٹ کر آجائے۔"