بسم الله الرحمن الرحيم
اے طالبان بھائیو! اپنا رخ کافر بین الاقوامی برادری کے بجائےاسلامی امت کی جانب کرلو
خبر:
"طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل(21 ستمبر 2021) کو ایک نیوز کانفرنس میں کابینہ میں تازہ ترین تعیناتیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس میں نسلی اقلیتوں کے افراد شامل ہیں ، جیسے ہزارہ ، اور خواتین کو بعد میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مجاہد نے (طالبان حکومت کو ) تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی شرائط پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ" اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری حکومت کو تسلیم کرے(اور) دوسرے ممالک، بشمول یورپی ، ایشیائی اور اسلامی ممالک، ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات قائم رکھیں۔ انہوں نے طالبان کی نگران حکومت میں وزراء اور نائب وزراء سمیت کئی تقرریوں کا اعلان بھی کیا۔ تقرریوں میں پنج شیر اور بغلان کے افراد بھی شامل تھے۔ پنج شیر قومی مزاحمتی محاذ کا مسکن ہے ، جو کہ پورے ملک پر طالبان کے قبضےکو روکنے کے لیے واحد بڑے پیمانے پر کوشش ہے۔"(aljazeera.com)
تبصرہ:
کچھ عرصے سے ، امت اس انتظار میں ہے کہ طالبان اسلامی ریاست یا ریاستِ خلافت کے قیام کا اعلان کریں گے ، وہ ریاست جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبیﷺ کی سنت کے مطابق حکمرانی کرتی ہے۔ تاہم ، اس کے برعکس طالبان نے ایسی ریاست کی نوعیت ، تفصیلات اور ساخت کو واضح کیے بغیر اچانک وزرا پر مبنی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ طالبان نے ایسا کیا ، جبکہ انہیں فوری طور پر صرف قرآن اور مبارک سنت سے ماخوذ ریاست کے اصولوں اور آئین کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے تحریک نے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اچھے تعلقات کی یقین دہانی شروع کر دی۔ طالبان نے پڑوسی ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا اعلان کیا، وہ ریاستیں جو ان کے مخالف ہیں ، کیونکہ وہ بین الاقوامی برادری کی اتحادی ہیں۔ یہ سب دوحہ میں امریکہ کے ساتھ ان کے معاہدے کے مطابق ہورہا ہے۔ لہٰذا ، طالبان تحریک بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ ان کی وزارتی حکومت کو تسلیم کرے۔ اس طرح ذبیح اللہ مجاہد نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی برادری نئی افغان حکومت کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ بین الاقوامی قواعد کے مطابق معاملہ کرے ،مجاہد نےافغانستان میں داعش (دولت اسلامیہ خراسان) کے وجود سے بھی انکار کیا۔
اس مطالبے کے جواب میں ، امریکی سیکریٹری خارجہ انتھونی بلنکن نے جمعرات 23 ستمبر کو اعلان کیا کہ ،"میں سمجھتا ہوں کہ(بین الاقوامی برادری کا طالبان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں) ایک مشترکہ نقطہ نظرہے، اور سب کا مقصد مشترکہ ہے ۔۔۔ایک بار پھر ، طالبان کا کہنا ہے کہ وہ قانونی جواز چاہتے ہیں ، جو کہ وہ عالمی برادری سے چاہتے ہیں۔بین الاقوامی برادری ان کے عملی اقدامات کا جائزہ لے گی (نہ کہ زبانی اعلانات) ۔ یہی ہم دیکھ رہے ہیں۔ "(وائس آف امریکا)
یقیناً ، "دین نصیحت ہے" ، اس لیے ہم طالبان میں اپنے بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنا رخ اسلامی امت کی جانب موڑ لیں نہ کہ کافر بین الاقوامی برادری کی جانب ، جس میں اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت کرنے والے دشمنوں کا غلبہ ہے۔ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ جب وہ دیگر ممالک سے معاملات طےکریں تو وہ ان میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھیں ، کیونکہ ہندوستان ، چین ، روس اور امریکہ جیسی ریاستیں کافر دنیا میں برائی کے ایک ہی محور کا حصہ ہیں۔ اسی طرح ، اسلامی دنیا میں موجودہ جابرانہ حکومتیں ہیں ، جنہوں نے مسلمانوں کے اختیار کو غصب کیا ہے۔اسلام اور مسلمانوں سے ان کی نفرت اور دشمنی برائی کے محور ممالک (ہندوستان، روس، امریکا، چین وغیرہ) سے کم نہیں ہے۔ بلکہ یہ حکمران وہ ایجنٹ ہیں جنہیں بڑی طاقتیں اسلامی دنیا میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں ، اور یہ ایجنٹ اسلام کو حکمرانی ، گورننس اور ریاستی معاملات کیجانب واپس لَوٹنے سے روکنے کے لیے مسلمانوں سے لڑتے ہیں۔
پس ایک جانب پاکستان ، ترکی ، ایران اور قطر جیسے ممالک ہوں یا دوسری جانب امریکہ ، جو کفر کا سربراہ ہے، کے درمیان کوئی عملی فرق نہیں ہے ۔طالبان تحریک کو بے اصول حقیقت پسندی (Pragmatism) کی سوچ اختیار نہیں کرنی چاہیےکہ وہ زمینی حقائق کے نام پر وہ کام کریں جو ان کی محدودنظر میں ممکنات کے کھیل میں ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کے بجائے ہر چیز کو چھوڑ کر ، قول و فعل میں سیاست کا واحد حوالہ شرعی قانونی احکامات ہیں ۔ کسی کو یہ کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ شرعی قانونی احکامات کی خلاف ورزی کر کے اور انہیں چھوڑ کر ، کمزور اور محدود انسانی ذہنوں سے نکلنے والی سیاسی چالوں کے ذریعے نجات اور حفاظت حاصل کر سکتا ہے۔ کیا رسول اللہﷺنے روم اور فارس سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ مدینہ منورہ میں ان کی ریاست کو تسلیم کریں؟ کیا آپﷺ نے اُن کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے ایلچی نہیں بھیجے تھے ، حالانکہ انہوں (روم وفارس)نے نہ تو آپﷺ سے لڑائی کی تھی اور نہ ہی آپﷺ سے لڑنے کے لیے اتحاد بنایا تھا؟!کیا آپﷺ نے قریش سے انسانیت کے نام پر امداد مانگی تھی یا قریش نے مہاجرین کی جس دولت پر قبضہ کرلیا تھا ، کیا آپﷺ نے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا ؟ کیا آپﷺ نے مکّہ فتح کے لیے ان سے لڑنے اور ان کے قلعے مسمار کرنے کے لیے ہتھیار اور فوجی طاقت تیار نہیں کی تھی؟ کیا آپﷺ نے قریش کے اُن لوگوں کو معاف کیا جو اسلام سے شدید دشمنی رکھتے تھے اور اپنی حکومت بنانے کے لیے اُن سے مشورہ کیا تھا؟ کیا آپﷺ نے بدر اور اُحد کی لڑائیوں کے ساتھ ساتھ مکّہ کی فتح کے بعد اسلام سے شدید نفرت کرنے والوں کو قتل نہیں کیا تھا ؟!
ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ افغانوں میں ہزاروں مخلص مجاہد اپنے وعدے میں سچے تھے جو انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کیا تھا ، کہ وہ اعلیٰ کلمۃ اللہ کیلئے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خلافت کے لیے فضا کو فروغ دیں گے ، چاہے وہ اسلام آباد میں قائم ہو یا کابل میں۔انہوں نے اقوام متحدہ کی منافقت کی نشست کے لیے اپنی جانیں قربان نہیں کی اور نہ ہی بین الاقوامی برادری کو خوش کرنے کے لیے جن کے تیر ایک ہی کمان سے نکل کرانہیں نشانہ بنا رہے ہیں، ان کو شہید، ان کی عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنا رہے ہیں۔
چونکہ یہ تحریک طالبان پر واضح ہے کہ ان کے پاس خلافت راشدہ کے قیام کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ، اور نہ ہی اُن میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہے ، اس لیے طالبان کے بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اُن بھائیوں کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھیں جو اخلاص کے ساتھ نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ لہٰذا وہ حزب التحریر کو اپنی نصرہ دیں ، وہ جماعت جس کے پاس اسلامی ریاست کا مکمل منصوبہ ہے اور اس کے پاس ریاست کو قائم کرنے اور چلانے کی، سیاسی و قانونی دونوں میدانوں میں صلاحیت بھی موجود ہے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسلامی ریاست کو قائم کیا تھا اور چلایا تھا۔
یقیناً، حزب نے اسلامی ریاست کے لیے مکمل طور پر نبوت کے طریقے پر تیاری کی ہے، نہ کہ فرقہ وارانہ رہنماؤں کی امارتوں کے طریقہ کار پر ، جو مسلمانوں کے آخری ادوار میں موجود تھیں۔ درحقیقت حزب اقتدار کی لالچ نہیں رکھتی ، لیکن وہ اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرنے کی ذمہ داری سے نہیں کتراتی۔ اسی طرح جب حزب حکمرانی مانگتی ہے تو وہ مادی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے لیے حکمرانی قائم کرنے کیلئے مانگتی ہے۔ وہ لوگ جو حکمرانی کے قابل ہیں ، ان پر اسلام حکمرانی کی شرعی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ حکمرانی کے قابل لوگوں کیلئے حکمرانی کی ذمہ داری سے بھاگنا جائز نہیں بلکل ویسے جیسے ان لوگوں کے لیے حکمرانی جائز نہیں جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کی اہلیت نہیں رکھتے، اور وہ ذاتی مفادات کی خاطر حکمرانی حاصل کرنا چاہتے ہو۔ مسلم نے ابو ذر ؓسے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے کہا، يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ تَسْتَعْمِلُنِي" اے اللہ کے رسول، کیا آپ مجھے استعمال نہیں کریں گے( یعنی کوئی حکومتی عہدہ نہیں دیں گے)؟" آپﷺ نے میرے کندھے پر اپنے ہاتھ سے چوٹ لگائی اور فرمایا،
يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ ضَعِيفٌ وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْىٌ وَنَدَامَةٌ إِلاَّ مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا
"ابو ذر ، آپ کمزور ہیں، جبکہ حکمرانی ایک امانت ہےاور قیامت کے دن رسوائی، ندامت اور شرمندگی کا باعث ہے مگر جو اس کا حق ادا کرے اور اس کی ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کرے۔ "
بلال المہاجر، پاکستان
مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا گیا