بسم الله الرحمن الرحيم
ما بعدجدیدیت
(Postmodernism)
شایان سہیل
(Postmodernism) یعنی ما بعد جدیدیت کی ایک مفروضے کے طور پر تعریف، اکثر مختلف وجوہات کی بنا پر ایک مخمصہ ہی رہی ہے : اس کے مفکرین نے دانستہ طور پر کوشش کی یہ تعریف واضح نہ ہو سکے۔ بظاہراً اس کا غیر متعلق موضوعات پر وسیع تر اطلاق کیا جاتا ہے جیساکہ علمی و نظریاتی موضوعات مثلاً سیاسیات ، تنظیمی نظریہ ، ثقافتی علوم ، فلسفہ سائنس ، اقتصادیات ، لسانیات ، فن تعمیر ، حقوقِ نسواں کانظریہ اور ادبی تنقید ، نیز ادب اور موسیقی جیسے شعبوں میں فنون پر بھی اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ بظاہر مختلف اور بعض اوقات متضاد تعریفیں، وقت کے ساتھ ساتھ مختلف سطح پر اختلاف رائے کے ساتھ، مابعد جدیدیت (Postmodernism) کے دانشوروں کے مابین استعمال ہوتی رہی ہیں۔ اس کے "تعریف کے قابل نہ ہونے کو" ایک حقیقت مانتے ہوئے ، اسٹینفورڈ انسائیکلوپیڈیا (Postmodernism) مابعد جدیدیت کی تعریف یوں کرتا ہے:
"a set of critical, strategic and rhetorical practices employing concepts such as difference, repetition, the trace, the simulacrum, and hyper reality to destabilize other concepts such as presence, identity, historical progress, epistemic certainty, and the univocity of meaning.”[1]
عام طور پر یہ کہا جا تا ہے کہ مابعد جدیدیت (Postmodernism) کا خاصہ یہ رہا ہے کہ وہ معاشرے کے Status quoکوحقارت ، خود پسندی ، عدم احساس ، خود غرضی اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے ۔ فلسفے کے میدان میں اس کا اظہار post-structuralism،anti-foundationalism، pragmatism، decline of metaphysicsکے طور پر ہوتا ہے اور یہ برطانیہ و امریکہ کی Analytical philosophyاور جرمنی و فرانس کی continental philosophyکے درمیان تقسیم کو ظاہر کرتی ہے۔ سیاست میں اس کا اظہار Identity politcs ، anarchism, political correctnessکی بحثوں میں ہوتا ہے ۔ اور مابعد جدیدیت کی سوچ عالمگیری بیانیوں کی وحدت کے خلاف ہے اور انہیں مختلف علاقوں میں مختلف الانواع کے بیانیوں سے تبدیل کرنے کی بات کرتی ہے ۔ تنقیدی تناظر میں یہ سوچ اس بات پر زور دیتی ہے کہ بیانیوں کو deconstruct کیا جائے ، اور یہ relativism اور power dynamicsکی بات کرتی ہے،اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ جدیدیت سے قبل اور جدیدیت کے شروع کے دور کی روایات کو ان شناختوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے کہ جنہیں تاریخی طور پر کونے میں دھکیل دیا گیا اور جو جدیدیت کے مخالف تھیں۔ اسی طرح مابعد جدیدیت کی سوچ کا اطلاق فنون لطیفہ کے کئی میدانوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ اورمتعدد دوسرے شعبوں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جہاں مابعد جدیدیت کا اطلاق ہوتا ہے۔
مابعد جدیدیت کی فکر کی شروعات 1970 کے عشرے میں ہوئی ، بنیادی طور پر براعظم یورپ خصوصاً فرانس سے اس کا آغاز ہوا ، اسی وجہ سے اسے فرانسیسی نظریہ بھی گردانا جاتا ہے۔ مابعدجدیدیت کے مفکرین جیسے، جیک ڈیریڈا ، مائیکل فوکالٹ ، جین فرانسوئس لیوٹارڈ ، جین باڈ رلارڈ ، اور دیگر نے روایتی اینگلو امریکن Academic discourse کو چیلنج کیا جس نے روشن خیال دور کے جدید اصولوں سے جنم لیا تھااور اس سوچ کو ترویج دی کہ فلسفے مذہب اور دیگر ہر قسم کے غالب بیانیوں کونئی نظر سے پڑھنے کی ضرورت ہے، اپنی تئیں ان کی یہ کوشش تھی کہ حقیقت کا ایسا فہم حاصل ہو جو زیادہ تفصیلی اورباریک بین ہو اور ظلم کا سبب نہ بنے۔ اگرچہ مابعدجدیدیت کے مفکرین ایک متفقہ رائے تشکیل نہیں دے پائے ،لیکن وہ حقیقت کا ادراک کرنے کے اس تنقیدی رویہ پر متفق تھے جواس مفروضہ سے پھوٹتاہے کہ تمام علم جزوی اور مقامی ہے، اور ان کا تصور یہ تھا کہ معاشرے میں رائج و غالب بیانیہ اشرافیہ نے تشکیل دیا ہے اور ان کے اقتدارکے مفادات کی خدمت کرتا ہے ۔ نطشے(Nietzsche) ، کیرک گارڈ(Kierkegaard) اور ہیڈگر(Heidegger)اگرچہ خود مابعدجدیدیت کے دور میںنہیں تھے مگر مابعدجدیدت کے مفکرین متفقہ طور پر ان کی سوچ سے متاثر ہوئے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈیرریڈا ، فوکالٹ ، لیوٹارڈ سبھی نے اپنے علمی کیریئر کا آغاز مارکسسٹ کے طورپر کیا۔
مابعد جدیدیت (Postmodernism) کے عروج کو ، خاص طور پر فرانس میں، اس تاریخی پس منظر میں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں یہ پروان چڑھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانسیسی دانشوروں کو متعدد تاریخی صدموں کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ فرانس کا زوال ، کالونیوں پرقبضے فرانس پر شدید تنقید، سرد جنگ اور ایٹمی دور کی existential غیر یقینی کی صورتحال ، انڈوچائنا میں ذلت آمیز شکست اور الجزائر میں استعماری نظام کے خلاف بغاوت جس نے چوتھی جمہوریہ کے خاتمے کا آغاز کیا اور قوم کو خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچایا؛ اس میں شامل ہیں۔ ان برسوں کے دوران فرانس نے جن معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا وہ بھی اتنی ہی زود اثر تھیں۔ فرانس زیادہ تر دیہی سے بنیادی طور پر شہری معاشرے میں تبدیل ہوگیا۔ روایتی ثقافتی اقدار کو بڑے پیمانے پربڑھتی ہوئی ثقافت سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ فرانس جو کہ اس سے پہلے یورپ کی بڑی طاقتوں میں سے تھا اب عالمی سیاست کے اسٹیج پر قدرے چھوٹے پلیئر کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک نئے کردار کے مطابق ڈھلنے پر مجبور ہوگیا[2]۔ ان تباہ کاریوں نے اس تصوراتی ڈھانچے کو تباہ کر دیا جس کے تحت فرانسیسی دانشور کام کرتے تھے اور اس نے ایک نئی فلسفیانہمایوسی (nihilism) کو جنم دیا جو بالآخر ،مغربی لبرل تہذیب اور روشن خیال دور کے ہربنیادی تصور پر عدم اعتماد کی صورت میں تبدیل ہو گئی ، خاص طور پرلسانیات ، ثقافت اور منطق جیسے اہم اور بنیادی ترین تصورات ۔
پس شروع میں مابعد جدیدیت مغربی لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور نازیوں ، فاشسٹوں ، سوویتوں کی غاصبانہ وحشت، دونوں کے خلاف ایک رد عمل کے طور پر ظاہر ہوا۔ جب 70 کی دہائی کے وسط میں مابعدجدیدیت کو تقویت ملی ، تو اس کو اس طرح سمجھا گیا کہ یہ '68 کی مایوس انقلابی نسل اور اس کے ممبران کا professional اور managerial 'نئے متوسط طبقے' میں شمولیتکی عکاسی کرتا ہے ،اور سیاسی مایوس کن ناکامی اور social mobilityکی علامت ہے[3]۔ تاہم موجودہ دور کے مابعدجدید مفکرین کے لئے یہ اپنے آپ میں ایک اہم فکری یا ثقافتی مظہر کے طور پر تیار ہوا ہے۔
(Postmodernism)کی اصطلاح 1979 میں جین فرانسوائس لیوٹارڈ کی "The Postmodern Condition" کی اشاعت کے ساتھ ہی فلسفیانہ لغت میں داخل ہوئی۔ اس کتاب میں لیوٹارڈ نے مابعد جدیدیت کی تعریف یوں بیان کی کہ وہ 'metanarratives کی طرف غیر یقینی' کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ metanarrativeسے مراد ایسا نظریہ ہے جو عالمگیر(universal) سچائی یا عالمگیر اقدار کی دلیل پر مبنی مختلف تاریخی واقعات ، تجربات اور معاشرتی و ثقافتی مظاہر کو مجموعی اور جامع وضاحت دینے کی کوشش کرتی ہے[4]۔ سادہ الفاظ میں مابعد جدیدیت کی فکر ہر اس نظریے یا عقیدے کی طرف ایک شدید شکوک و شبہات کا رویہ اپناتی ہے جو دنیا کے مسائل کی ٹھوس وجوہات بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک ایسا طریقہ پیش کرتا ہے جس کے ذریعے ضروری اصلاحات ہوسکتی ہیں،جیسا کہ مذہب ، مارکسزم ، فرائیڈیانزم وغیرہ۔ اسی طرح مابعد جدیدیت کی فکر عالمگیرنوعیت کے تمام افکار بشمول عقل کا استعمال ، فطرتِ انسانی ، معاشرتی ترقی ، معروضی (objective) سچائی اور معروضی (objective)حقیقت کے تصورات کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
مابعد جدیدیت استدلال کرتی ہے کہ روشن خیال دَوریعنی Era of Enlightenment کا منصوبہ انسانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہے، اور اس ناکامی کا ثبوت دو عالمی جنگیں ، ایٹمی تباہی کا خطرہ اور ماحولیاتی مسائل ہیں۔ اگرچہ روشن خیال دَور کے مفکرین یہ سمجھتے تھے کہ ہر مسئلے کو عقل کے ذریعے واضح کیا جاسکتا ہے اور اس کا حل نکالا جاسکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ایسے نظریاتی روایات تشکیل پائیں جو مثالی زندگی سے متصادم تصورات پیش کرتی ہیں ، مثال کے طور پر ، لبرل ازم اور مارکسزم ، اور ان کی ناکامی نے عقل سے پیدا ہونے والے ایسے تمام metanarratives پر عوامی اعتماد کو مجروح کر دیا ہے۔ اس کے برعکس مابعدجدید معاشرے جو کہ ، postindustrial، consumer driven، media dominated، globalized معاشرہ ہے،میں رہنے والے لوگ اب کسی metanarrativeکے ساتھ اپنی شناخت منسوب نہیں کرنا چاہتے ، اور اس کی بجائے وہ معاشرے کی fragmentationاور تنّوع کو ترجیح دیتے ہیں ،تاکہ تمام اقدار کو قابل قدر اور مساوی سمجھا جائے۔
مابعد جدیدیت کے دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ یہ نظریہ بڑے اور جدید شہروں میں وقت کے ساتھ ساتھ فہم و تفہیم کے مختلف طریقوں سے آگاہی اور بڑھتے ہوئے شعور کی وجہ سے تشکیل پایا۔اس طرح مابعدجدیدیت post industrial نظام سے جڑی ہوئی ہے ،یعنی کہمعاشرے کی ترقی اب پیداواری صنعت کی محتاج نہیں ، بلکہ اس کا زیادہ انحصار علم اور مواصلات پر ہے۔ ایسے معلومات سے آگاہی رکھنے والے معاشروں میں ، طبقاتی ، مذہبی اور نسلی وفاداریوں کی جگہ انفرادیت لے لیتی ہے۔
لیوٹارڈ کا دعوٰی ہے کہ مواصلات ، ماس میڈیا اور کمپیوٹر سائنس کے شعبوں میں تکنیکی ترقی کی وجہ سے metanarratives"اپنی ساکھ کھو چکے ہیں"۔ پھر وہ یہ تھیوری پیش کرتا ہے کہmetanarrativesکی مطلق العنانیت(totalitarianism) کی جگہ متعدد چھوٹے اور مقامی narratives کوترجیح دینی چاہیے۔ پس ، مخصوص مقامی پس منظر اور انسانی تجربات کے وسیع تنوع کو نظر میں رکھتے ہوئے مابعدجدیدیت ‘multiplicity of theoretical standpoints’ یا پھر ‘epistemological relativism’ کی بات کرتا ہے، یعنی کہ علم اور سچائی ہر فرد یا مقام کے لئے فرق ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ post modern معاشرے میں مقامی حقیقتوں کی بےربطگی کے باعث, متعدد غیر متوازی اور متضاد micronarrativesجنم لیتے ہیں اور یوں شناختی سیاست(identity politics)کا ظہور ہوتا ہے۔
جیک ڈیرریڈا (1939-2004) ، مابعدجدید نظریہ نگار وں میں سے ایک ، نے بھی اس تصور کو برقرار رکھا کہ کوئی معروضی یا مطلق سچائی موجود نہیں ہے اور حقیقت کے بارے میں غالب بیانیہ تو اشرافیہ کا تشکیل کردہ ہے۔ اس کا مشہور جملہ "متن سے باہر کچھ بھی نہیں" (nothing outside the text)اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حقیقتیں صرف مخصوص پس منظر کے مطابق ہوتی ہیں اور ان کا اطلاق عالمگیرنوعیت کا نہیں ہوتا۔عالمگیر نوعیت کے کے غالب بیانیے کا مقصد محض اشرافیہ کے اقتدار کے مفاد کو پورا کرنا ہے ، اور اقلیتوں (یا 'دوسروں') پر ظلم اور جبر کرنا ہے۔ڈیریڈا کے مطابق ، زبان حقیقت کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔ زبانوں کے semiotic determinants ہی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ان کے ذریعے حقیقت کی ایک معروضی نمائندگی کی جاسکے۔ چونکہ زبان حقیقت سے ایک مقامی اور وقتی دوری(spatial and temporal distance) پہ ہوتی ہے ، اس لئے اس کا مفہوم کبھی بھی 'موجود' نہیں ہوتا ہے ، بلکہ یہ دوسرے اشاروں سے موخر ہوتا ہے ، چنانچہ اس طرح لسانوی بنیاد پر حقیقت سے متعلق تمام دعوے ثانوی اور ماخوذ ہیں۔ ڈیریڈا نے اس کے لئے 'Différance' کی اصطلاح استعمال کی جس کے دوہرے معنی ہیں یعنی 'مختلف کرنا' اور 'موخر کرنا' ہیں۔ اس کے دلائل میں ، ڈیرریڈا فرڈینینڈ ڈی سوسور Ferdinand de Saussure کے مندرجہ ذیل دو دعوؤں پر انحصار کرتا ہے (1) کہ لسانی نظام اندرونی اختلافات کے ایک تسلسل کے ذریعہ تشکیل پاتے ہیں جن کا حقیقت کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور (2) کہ گفتگو میں استعمال ہونے والے مظاہر یا اشارے صوابدیدی ہوتے ہیں یعنی معنیٰ کے اعتبار سے قطعی نہیں ہوتے۔ لہذا ، اگر 'موجودگی' (presence)سے پہلے 'فرق'(difference) ہے ، اور لسانی اشارے محض صوابدیدی ہیں تو ، حقیقت کا منظم ادراک لسانی طور پر ناممکن ہے۔ نیز ، ڈیریڈا نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ کلاسیکی فلسفیانہ مخالفت میں پرامن باہمی اختلاف نہیں ہوتا بلکہ ایک جابرانہhierarchy وقوع پذیر ہوتی ہے: دو اصطلاحات میں سے ایک دوسری پر حاوی ہوتی ہے یا اس پر حاکم بن جاتی ہے مثال کے طور پر ، signified over signifier، intelligible over sensible، speech over writing۔ ڈیرریڈا نے پھر تجویز پیش کی کہ تحریر کو لازمی طور پر deconstruct کیا جائے، یعنی اس کو واپس ان اجزاء میں تبدیل کیا جائے جن سے اس کی تشکیل ہوئی ہے اور پھر نئے انداز میں اس کے معنی کا اظہار کیا جائے ، تاکہ متن کے اندر موجود تضاد واضح ہوں اور جابرانہ hierarchyکو الٹ دیا جائے ۔ پُر اثر ہونے کے لئے deconstuction کے لئے ضروری ہے کہ نئی اصطلاحات ایجاد کی جائیں جن کو اس بائنری تضاد میں نہیں شامل کیا جا سکتا ۔ ڈیریڈا نے ان اصطلاحات کو undecidables کا نام دیا۔
میشیل فوکالٹ نے بھی اسی طرح عقل کے خلاف اپنا کیس بنایا۔ فوکالٹ کے لئے ، سچ نہ تو غیرجانبدار ہے اور نہ ہی غیر امتیازی ، بلکہ یہ طاقت سے جڑا ہوتا ہے اور جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ ‘Truth and Power’ میں فوکالٹ دعوٰی کرتا ہے کہ "سچائی اس دنیا کی ایک چیز ہے" اور اس کو "بیانات کی پیداوار ، ضابطہ ، تقسیم ، گردش اور عمل کے لئے ترتیب شدہ طریقہ کار کے نظام کے طور پر " سمجھنا ضروری ہے۔ لہذا ، حقیقت "طاقت کے نظام کے ساتھ ایک گردشی (circular) رشتے میں جڑ جاتی ہے جو اسے پیدا کرتا ہے اور اسی کو برقرار رکھتا ہے ، اور طاقت کے اثرات کے ساتھ بھی ایسے ہی جڑ جاتی ہےکہ ان اثرات کو پیدا کرتی ہے اور وہ اثرات اس کی مزید توسیع کرتے ہیں۔" فوکالٹ کے نزدیک ، سچائی ایک خطرناک تصور ہے کیونکہ خود ایک معروضی حیثیت اختیار کرتے ہوئے یہ انتہائی منظم طریقے سے اپنے اندر کے تعصب ، جانبداری اور امتیازات کو چھپا دیتی ہے۔ پس ، طاقت ہی سچائی کے بھیس میں بدل جاتی ہے ، اور اسی وجہ سے فوکالڈین لفظ ‘power-knowledge’ ایجاد ہوا۔ فوکالٹ کے لئے علم کے حصول کی تاریخی تجزیے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ "تمام علم ناانصافی پر مبنی ہے، اور یہ کہ کچھ بھی صحیح نہیں ہے ، حتٰی کہ علم جاننے کے عمل میں بھی ،کوئی سچائی یا کسی قسم کی سچائی کی کوئی بنیاد نہیں۔ اور یہ کہ حق کی جبلت ہی بدنیتی پر مبنی ہے (جیسے کوئی قاتلانہ چیز ہو ، انسانیت کی خوشی کے خلاف)۔ یہاں یہ واضح رہے کہ فوکالٹ علم کے صرف کچھ خاص مظاہر کی مذمت نہیں کررہا ، بلکہ ہر طرح کے علم کا خاصہ بیان کر رہا ہے کہ یہ ’’ کوئی قاتلانہ چیز ‘‘ ہے اور نا انصافی کی بنیاد پر تعمیر ہے۔ فوکالٹ کےلئے 'حق' یا 'انصاف'کے تمام دعوے طاقت کے دعوے کے تحت ہی دائر ہوتے ہیں۔ طاقت ہی ہر چیز کی استعاراتی بنیادی اساس(metaphysical fundamental basis) ہے ،جو ہمیشہہر جگہموجود ہے۔ بہرحال ، ’طاقت ہی ہر جگہ مجسم ہے‘ اور یہ مختلف discourses، علم اور ‘regimes of truth’ کے پردے میں چھپی ہے۔
پس واضح ہے کہ مابعدجدیدیت چار اہم اصولوں پر مبنی ایک antimetanarrative نظریہ ہے۔(1)نسبتی رویہ (relativism) ،یعنی کہ سچائی ( سائنسی، تاریخی، نفسیاتی، مزاجی، قدرتی وغیرہ ) سماجی تعمیرات ہیں جن کا انحصار طاقت پر ہےجو کہ خصوصاً نسل،طبقہ ، جنس اور جنسی رجحان، کے اختلافات میں ظاہر ہوتی ہے؛ (2) شکوک و شبہات کا رویہ ، یعنی کہ کسی بھی قسم کا معروضی علم Objective knowledgeحاصل کرنا ناممکن ہے (اور زبان خود سے باہر کی حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کرتی ) ؛(3) logocentrismکی مذمت کرنا ، یعنی کہ عقل ایک ایسا آلہ ہے جسے بااختیار گروہ مظلوموں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں؛ (4) اور آزادی ، جس کو حاصل کرنے کے لئے ان metanarratives اور categories کو deconstruct کرنا ہوگا جو اہلِ طاقت استعمال کرتے ہیں۔اور اس کے ساتھ authenticity کی قدر کرنا ہوگی یعنی مظلوم گروہوں کے جذبات اور تجربات کو عقلی دلائل پر ترجیح دینا ہوگا ۔ امبرٹو ایکو Umberto Eco کے مطابق مابعد جدیدیت درحقیقت"یہ احساس ہے کہ ماضی ہم پر پابندیاں عائد کر رہا ہے ، ہم پر حاوی ہو رہا ہے ، ہمیں بلیک میل کر رہا ہے"۔
مغربی علمی حلقوں میں مابعد جدیدیت نے بہت سے تنازعات کو جنم دیا ، کیونکہ اس نے تمام تر روایتی مغربی ہرمینیٹک ماڈل hermeneutic model یا تجربات کو سمجھنے کے لئے طریقہ کار پر شک پیدا کر دیا۔ کلاسیکل لبرلز مابعد جدیدیتپر بےجا اور لامحدود نسبتی رویہ (relativism) اپنانے کا الزام لگاتے ہیں ، جیسا کہ یہ سمجھنا کہ سائنس بھی کسی معتبر طریقے سے سچائی کو جھوٹ سے ممتاز کرنے کے قابل نہیں۔ ایک امریکی عقلیت پسند فلسفی کے مطابق مابعدجدیدیت کے دانشور: "... اس عقلی خبطکے ذمہ دار ہیں جس نے سچ اور سچائی کےمتعلق مشکوک و مذموم ہونے کو معتبر بنا دیا ہے"[5]۔ روایتی مارکسسٹ مابعد جدیدیت پر ایک طرح کی قدامت پسندی کا الزام لگاتے ہیں ، کیونکہ یہ ایک ایسے سیاسی موقف کی بات کرتا ہے جو کسی قسم کی بنیاد کو نہ تواپناتا ہے اورنہ ہی کوئی ایسا نقطہ نظر پیش کرتا ہے جس سے موجودہ نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاسکے ، اور نہ ہی کسی متبادل معاشرتی نظام کی تعمیر کی کوئی تجویز پیش کرنے کے قابل ہے۔ مارکسسٹس کے نزدیک ،پرولیتاری طبقہ کی مزید تقسیم کے ذریعے مابعدجدیدیت روایتی طبقاتی جدوجہد کو مجروح کرتی ہے اور یوں درحقیقت لبرل status quo کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
مبہم زبان کے استعمال کی وجہ سے بھی مغربی علمی حلقوں میں مابعد جدیدیت پر حملہ کیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق مابعدجدیدیت کے دانشوروں کا منطق پر الفاظ کو ترجیح دینے کے نتیجے میں ایک ایسا نظریہ پیداہوا ہے جو فلسفیانہ سے زیادہ ادبی ہے اور شاید ہی کبھی کسی عقلی نتیجہ پر یا سائنسی طور پر ثابت کیے جاسکتے نتیجہ پر پہنچا جاتا ہے،صرف اسی وجہ سے کہ یقینی طور پر یہ سمجھنا ہی اتنا مشکل ہےکہ اصل میں کیا کہا گیا ہے، اسکے لٹریچر کی اتنی متنوع قسم کی تشریحات سامنے آئیں ہیں اور یوں دلائل میں غیر معقولیت اور منطقی تضاد مزید پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ فطری طور پر اس کے نتیجے میں کسی بھی بات پر تنقید کرنے میں زبردست دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکی فلسفی جان سیرل John Searleکے مطابق: "میشیل فوکالٹ نے ایک بار مجھ سے ڈیریڈا کے نثر کے طرز کو ‘obscurantisme terroriste’کہا۔ متن اتنے غیر واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ آپ یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ مقالہ کیا ہے (لہذا غیر واضح انداز obscurantisme) اور پھر جب کوئی اس پر تنقید کرتا ہے تو مصنف کا کہنا ہے کہ ، Vousm’avez mal compris; vousêtes idiot (لہذا دہشت گردterroriste )[6]۔
مابعد جدیدیت سے متاثر ہونے والے تمام مضامین میں بھی یہی مسئلہ اجاگر ہوا ہے۔ جوڈتھ بٹلر Judith Butler، تیسری نسل کی ماہر نسواں ، جو ذاتی طور پر 'مابعد جدیدیت' کی اصطلاح کو معنی خیز نہ سمجھنے کی وجہ سے خودکے لئے استعمال نہیں کرتی ، کا مندرجہ ذیل جملہ مابعد جدیدیت کے مبہم ہونے کی بالکل واضح منظر کشی ہے:
“The move from a structuralist account in which capital is understood to structure social relations in relatively homologous ways to a view of hegemony in which power relations are subject to repetition, convergence, and rearticulation brought the question of temporality into the thinking of structure, and marked a shift from a form of Althusserian theory that takes structural tonalities as theoretical objects to one in which the insights into the contingent possibility of structure inaugurate a renewed conception of hegemony as bound up with the contingent sites and strategies of the rearticulation of power.”[7]
مہذب اور بے ہودگی کے درمیان فرق نہ صرف دوسرے لوگوں کےلئے بلکہ مابعد جدیدیت کے اپنے لوگوں کے لئے بھی مشکلات کا باعث بنا ہے ، جیسا کہ 1996 میں فزکس کے پروفیسر ، ایلن سوکل Alan Sokal کے ‘Sokal hoax’ نے واضح کیا تھا۔ انہوں نے "حدود سے تجاوز : کوانٹم کشش ثقل کی Hermeneutics کی تبدیلی کی طرف " کے عنوان سے ایک مضمون Social Textمیں پیش کیا، جو کہ مابعدجدید ثقافتی مطالعے کا ایک معروف تعلیمی جریدہ ہے۔ کسی بھی معمولی ثبوت یا دلیل کے بغیر سوکل نے مضمون میں یہ دعویٰ کیا کہ ’مادی حقیقت‘ ،مادی حقیقت کےمطابق ہمارے فلسفیات نہیں ، بلکہ حقیقت خود ایک معاشرتی اور لسانی تعمیر کے طور پر تھی۔ انہوں نے مزید دعوی کیا کہ کوانٹم کشش ثقل میں ترقی پسند سیاسی مضمرات پائے جاتے ہیں ، اور یہ کہ ’ morphogenetic field‘ کوانٹم کشش ثقل کا ایک درست نظریہ ہوسکتا ہے۔ مضمون شائع ہوا ، اور تین ہفتوں بعد ہی سوکل نے انکشاف کیا کہ یہ ایک مذاق اور دھوکہ ہے۔ اس کے بعد سوکل نے کہا کہ 'جو بھی شخص یہ مانتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین محض معاشرتی تعمیرات ہیں وہ آئے اور میرے اپارٹمنٹ کی کھڑکیوں سے ان تعمیرات سے تجاوز کرنے کی کوشش کرے ، میں اکیسویں منزل پر رہتا ہوں[8]۔ 'حالیہ برسوں میں ، سوکل اسٹائل کے جعلی مضامین کامیابی کے ساتھ کئیpeer review تعلیمی جرائد میں شائع ہوئے ہیں، جس سے یہ واضح ہوچکا ہےکہ یہ علمی حلقات دھوکہ بازوں کے لئے کھیل کے میدان بن چکے ہیں اور ایسی کسی بھی قسم کی کوئی بات نہیں ہے جس کا ان جرائد میں بغیر ثبوت دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ ایڈیٹرز کے اپنائےہوئے نظریات سے مطابقت رکھتے ہوں اور اسی طرح کی مبہم ، غیر واضح زبان استعمال کریں جیسے ممتاز 'دانشور' کرتے ہیں۔
اس مختصر خلاصہ سے یہ واضح ہوتاہے کہ مابعد جدیدیتایک غیرمنطقی ، غیرعقلی اور سائنسی بنیادوں پرایک کمزور عقیدہ ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر ہی اسلامی عقیدہ سے متصادم ہے ۔ یہ نظریہ روشن خیال دور Era of Enlightenmentکے اقدار کے نقاد کے طور پر ابھرا ، لیکن روشن خیال دور کے مفکرین کی غلطیوں کو سمجھنے اور کسی بھی طرح کے درست نتائج پر پہنچنے میں ناکام رہا۔
اس کے ساتھ ہی ، لیوٹارڈ کے ’ metanarratives کی طرف غیر یقینی‘ کو خود ایک metanarrative کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ فرض کرنے سے کہ مابعدجدیدیت میں metanarratives کے بارے میں ہمیشہ ایک شک و شبہ کا رویہ پایا جاتا ہے ، ’عالمگیری شکوک و شبہات‘ خود ہی ایک ہم عصر metanarrative میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مابعد جدیدیتکے نظریے نےخود بہت سارے 'افکار' کو تسلیم کیا ہوا ہے ، مثال کے طور پر ، سائنس ، پدرانہ اقتدار (patriarchy)، طاقت کے تعلقات ، جنسیات وغیرہ کے بارے میں نقطہ ہائے نظر ، اور یہ سب مل کرایک metanarrative کو تشکیل دیتے ہیں ، پس مابعدجدیدیت کا metanarratives پر تنقید کرنا خود اپنے آپ میں ہی متضاد ہے( یوں ، مابعدجدیدیت "نظریوں کو مسترد کرنے کا نظریہ ہے") اسی طرح ، اگر کسی کو 'سچ' ، 'علم' ، 'صحیح' ، یا 'غلط' جیسے عالمگیری تصورات میں ہی شک ہے تو ، لیوٹارڈ کے اس 'سچ' کو قبول کرنے کی بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی کہ تکنیکی ترقی کی وجہ سے metanarratives کمزور ہوچکے ہیں۔ یہ مابعدجدیدیت کی منطقی بےضابطگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک اور منطقی تضاد یہ ہے کہ جہاں مابعدجدیدیت تمام metanarratives کے متعلق عالمگیری شکوک و شبہات کا رویہ اختیار کرتی ہے ، وہیں اسکے مفکرین کم و بیش اپنے خیالات میں مارکس کے تصورات سے ہدایت حاصل کرتے رہے ہیں۔ مابعد جدیدیتکے theoretical inspirationکے لئے ذمہ دار زیادہ تر فرانسیسی مفکرین (ڈیریڈا ، فوکالٹ ، لیوٹارڈ ، بارتس وغیرہ) بنیادی طور پر مارکسسٹ مفروضوں کے تحت کام کرتے رہے۔ان فرانسیسی دانشوروں کے لئے ، جو کہ مارکس ، اسٹالن اور ماؤ کے پرجوش حامی تھے ، collectivisation منصوبوں کی ہولناکیوں کے آشکار ہونے کے بعد اور یہ واضح ہونے کے بعد کہ مارکسسٹ نظریہ بذات خود ہی ایک مسئلہ ہے نہ کہ نا اہل بیوروکریسی کے ذریعے اس پر عمل درآمد ہونا، مارکسزم کو مابعدجدیدیت میں بدلنا ضروری ہوگیا تھا۔ اس طرح ، اس بےایمان تدبیر کے ذریعے مارکسزم اپنے نظریات کے ہولناک نتائج کے لئے جوابدہ ٹھہرائے جانے کی بجائے فکری و علمی حلقوں میں اپنا وقار برقرار رکھنےمیں کامیاب ہو سکے۔مارکسی تصورات ، اگرچہ ناقابل فہم زبان میں چھپائے گئے ہیں،مابعد جدیدیت کے لٹریچر میں کثرت سے موجود ہیں ، اور مارکسٹ مخالف ہونے کا دعوٰی کرنے والے مابعدجدید مفکرین کا مارکسزم پرمحض بیانات داغنا، ایک صریحا غلط circular دلیل ہے۔
یہ مارکسسٹ مفروضے ہی لیوٹارڈ کے اس 'سچ ' کی غیر منطقیت کا سبب ہیں کہ تکنیکی ترقی کی وجہ سے metanarratives کمزور ہوچکے ہیں ، کیونکہ یہ دعویٰ کرنے میں وہ معاشرے کے متعین اجزاء کوصحیح طرح سمجھنے میں ناکام رہاہے ، اور معاشرے کے دو مکمل طور پر مختلف پہلوؤں کو اکٹھے جوڑ دیتا ہے: یعنی،مادیت پرستی کا پہلو اور نظریاتی پہلو۔ معاشرے کے اجزاء دراصل وہ بنیادیں ہیں جن پر افراد کے مابین مستقل تعلقات استوار ہوتے ہیں اور وہ عوامل ہیں جو ان تعلقات کو منظم کرتے ہیں۔ اس طرح ، معاشرے کی تشکیل اس کےافکار پر منحصر ہوتی ہے یعنی کہ اس میں خیالات اور تصورات کے لحاظ سے کیا پایا جاتا ہے ، اور ان سےکیسے جذبات و اقدار پھوٹتے ہیں۔ اس سے متصل ان باتوں کا علم ہونا ضروری ہےجواس معاشرے میں موجود رشتوں کو نظام اور قوانین کے لحاظ سے منظم کرتے ہیں۔پس یہ واضح ہے کہ معاشرے کی مادی ترقی کا معاشرے کی تشکیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا معاشرے کی سائنسی اور تکنیکی ترقی پر مبنی مادی ترقی کو معاشرے کے اندر پائے جانے والے افکار اور تصورات کی بنیاد پر عمل پیرا نظاموں سے علیحدہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔تمام تاریخی اور عصری معاشروں کی حقیقت یہی ہے کہ بیرونی عوامل ، یعنی سائنسی اور تکنیکی ترقی پر مبنی مادی ترقی ، لوگوں پر لاگو ہونے والے نظاموں کا تعین نہیں کرتی ہے۔ اور پس ، دو معاشروں کے مابین بنیادی فرق ، ان معاشروں کے مابین مادی ترقی کے فرق پر منحصر نہیں ہے، بلکہ ان تصورات اور نظریات پرمنحصر ہے جوان معاشروں میں لوگ اختیار کرتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ، کسی بھی metanarrative کے اختیار کردہ ظاہری means and styles میں تو وقت کے ساتھ تبدیلی آسکتی ہے ، لیکن خیالات ، تصورات اور اس کے نتیجے میں ، نظام اور قوانین ایک آزادانہ طور پر بدستور جاری رہتے ہیں۔
مزید یہ کہ اگر مابعد جدیددورکو ایک نئے دور کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ،یہ مفروضہ ،کہ تکنیکی ترقی metanarratives کی طرف شکوک و شبہات کا باعث بنتی ہے، عالمی سطح پر اٹھنے والی اس پکارسے غلط ثابت ہوجاتا ہے جو کہ نہ صرف مسلم ممالک میں ، بلکہ مادی طور پر انتہائی ترقی یافتہ شمالی امریکہ اور مغربی یورپی ممالک میں بھی، بڑھتے ہوئے مسلمانوں کی تعدادنے اپنا لی ہے یعنی کہ ایک واحد ، متحد ، نظریاتی اسلامی ریاست کے قیام کی پکار ۔ اسی طرح ، انتہائی دائیں بازو کی قدامت پسند عیسائی تحریکوں کا اُٹھنا ، ٹرمپ ، اوربن اور جانسن کی الیکشن 'کامیابیاں، اور بریگزٹ Brexitکا ووٹ لیوٹارڈ کے اس مفروضہ کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
جہاں تک مابعدجدیدیت کے اس دعوٰی کا تعلق ہے کہ عالمگیری حقائق کا کوئی وجود نہیں ، اس طرح کے حقائق کا علم تعصب پر مبنی ہے ، اور یہ کہ ایسے حقائق محض subjective ، تخلیق کردہ اور مخصوص سیاق و سباق کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں ، تو یہ دعویٰ منطقی ، سائنسی اور عقلی اعتبار سے متصادم ہے۔ یہ دعویٰ پیش کرتے ہوئے کہ لوگوں کا metanarratives پر سے اعتماد اس لئے بھی اٹھ رہا ہے کیونکہ یہ metanarratives اقلیتوں کو اہمیت نہیں دیتے ، لیوٹارڈ ضمنی طور پر انصاف کے متعلق لوگوں میں ایک عالمگیری اعتقاد کے تصور کو قبول کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ متعدد عالمگیری حقائق وجود رکھتے ہیں اس سے قطع نظر کہ ان کی وضاحت کے لئے کسی قسم کی زبان کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ایک عالمگیری حقیقت یہ ہے کہ صرف حیاتیاتی خواتین ہی بچے کو پیدائش دینےکے قابل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ، زبان کا حقیقت کو بائنری تضاد میں پیش کرنا-حیاتیاتی خواتین بمقابلہ حیاتیاتی مرد ، یا مشرق بمقابلہ مغرب - کسی بھی طرح ان دونوں دعووں کی صداقت کو کم نہیں کرتا ۔ مثال کے طور پر ، اگر ہم تمام سائنسی علم کو نظرانداز کرتے ہوئے ، مابعدجدیدیت کے اس مفروضے کو اپنا بھی لیں کہ دونوں انتہائی حیاتیاتی حقائق کے مابین لاتعداد جنس ہیں ، یعنی ایک fluid gender spectrum، توبھی یہ دونوں انتہائوں کے وجود کی نفی کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ، دن بمقابلہ رات کی مثال پر غور کریں: حالانکہ یہ سچ ہے کہ دن آہستہ آہستہ رات میں ضم ہوجاتا ہے ، اور یہ بھی سچ ہے کہ رات کا دن میں منتقلی کا عین وقت غیر معین ہے ، یہ اس حقیقت کی نفی نہیں کرتا ہے کہ 'دن' 'رات' سے فرق اور متضاد ہے۔ subjectiveدعووں کا استعمال کرتے ہوئے دن اور رات کے درمیان فرق کو deconstructکرنا ، یا دن اور رات کو محض معاشرتی تعمیرات کے طور پرظاہر کرکے ان کے فرق کو مسترد کرنا منطقی غلط فہمی اور غیر معقولیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مزید یہ کہ یہ دعوٰی بھی غلط ہےکہ بائنری طرز پر سوچنے سے جو تقسیم پیدا ہوتی ہے اس کے نتیجے میں لازمی طور پر ایک value hierarchy وجود میں آجاتی ہے ۔ ایک انتہا کو تسلیم کرلینا، جیسے کہ 'دن'، کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری انتہا کو کمتر پیش کیا جارہا ہے، جیسا کہ ،' رات'۔ اسی طرح ، 'امن' کے تصور کو پیچاننے کا یہ مطلب نہیں کہ جنگ بذات خود اب غیراخلاقی تصور بن گیا ہے۔بلکہ اقدار تو لوگوں کے ان افکار سے پھوٹتے ہیں جو وہ رکھتے ہیں، اور جبکہ امن بعض اوقات میں چاہئے ہوتا ہے وہیں جنگ کی بھی دوسرے اوقات میں ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اسلامی ریاست جہاں ایک دور میں پرامن تجارتی تعلقات استوار کر سکتی ہے تو وہیں دونوں تصورات کی یکساں اہمیت سمجھتے ہوئے دوسرے دور میں جنگ کا اعلان بھی کرسکتی ہے ۔
بنیادی مسئلہ ، جس کی وجہ سے مابعد جدیدیت ہر طرح کے معروضی علم کو مسترد کرتی ہے ، حقیقت اور حقیقت پر فیصلہ کےدرمیان فرق نہ کرنے کی ناکامی ہے۔ کسی بھی صورتحال کی حقیقت لوگوں کے مابین اختلاف رائے نہیں پیدا کرتی ، خاص طور پر اگر حقیقت کا تعلق حواس سے ہو کیونکہ مختلف لوگ جواس صورتحال یا شے کا حواس کے ذریعے تعین کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ اس صورتحال یا شے کی معروضی حقیقت کا علم حاصل کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔تاہم ، حقیقت کے بارے میں فیصلے لوگوں کے نقطہ نظر کے مطابق مختلف ہوں گے۔ جہاں کسی خاص نقطہ نظر سے حالات یا اشیاء کو دیکھنا ان پرفیصلہ دینے کے متعلق ہے ، وہاں حقائق کو دیکھنا ،جس حال میں وہ ہیں، کا تعلق حواس اور فہم سے ہے۔ لہٰذا ، کسی حقیقت پر انفرادی ، ثقافتی یا نظریاتی نقطہ نظر کو برقرار رکھنے کے باوجود افراد کا اس حقیقت کے متعلق معروضی علم تک پہنچنا ممکن ہے۔
ڈیریڈا کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ حقیقت کے متعلق فیصلوں یا حقیقت کی تشریحات کی درجہ بندی کرنے سےایک تصور تو ممتاز اور اہم سمجھا جاتا ہے لیکن باقی تمام تصورات کی اہمیت کو نظرانداز کرکے marginalize کر دیا جاتا ہے۔مابعدجدید بحث یہ ہے کہ چونکہ حقیقت کی لاتعداد تشریحات کی جاسکتی ہیں اس لئے جابر گروہ ان تشریحات کی درجہ بندی ہی اس انداز میں کرتے ہیں کہ صرف ان بیانیوں کو منتخب کریں جو مزید ظلم و جبر میں ان کی مدد کر سکیں اور باقی تمام تشریحات کو marginalize کردیتے ہیں۔اس دعوے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ چاہے تشریحات کی ایک لامحدود تعداد موجود ہوسکتی ہے اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ تشریحات کی اتنی ہی لامحدود تعداد درست اور جوازبخش بھی ہوں۔پس دیگر وجوہات کے علاوہ ، حقیقت کی تشریحات اس وجہ سے بھی محدود ہوتی ہیں کہ آیا وہ مخصوص مدت میں مطلوبہ نتائج کو یقینی بنا سکتے ہیں اور کیا وہ طویل عرصوں پرایک ایسے پس منظر میں ان نتائج کا تکرار برقرار رکھ سکتے ہیں جس کا تعین ایک فرد، اس کا خاندان، کمیونٹی اور معاشرہ کرتا ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے ،جو کہ فوکالٹ کی سب سے بڑی غلطی ہے ، کہ چونکہ مابعدجدید بیانیہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کا ہے ، اس لئے یہ ہر انسانی عمل کو طاقت کے حصول تک محدود کر دیتا ہے۔ یہ غلطی ان اقدار کی نامکمل سمجھ سے پیدا ہوئی ہے جو انسانی رویوں کو متحرک کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ لوگ اقتدار کا حصول چاہتے ہیں ، لیکن یہ بھی اتنا ہی صحیح ہے کہ لوگ اخلاقی ، روحانی یا انسانی اقدار کے حصول میں بھی اقدامات اٹھاتے ہیں۔ لہذا ، بیانیات اور تشریحات کی درجہ بندی کے متعلق اور اس کے نتیجے میں ہونے والی marginalizing کے متعلق مابعدجدیدیت کی یہ سوچ غلط ہے ، کہ یہ صرف طاقت کے حصول کو مستحکم کرنے کا کام دیتی ہے۔
مزید برآں ، ادھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مابعدجدیدیت جب ہر چیز کی درجہ بندی ایک ایسی power game میں کرتی ہے جو رنگ، نسل، طبقے، صنف اور جنسی رجحان پر کھیلی جاتی ہے تو پھر ایسا کرنے میں یہ خود کن چیزوں کو marginalize اور نظرانداز کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ مابعدجدید بیانیہ دیگر کئی تصورات کے ساتھ ساتھ اہلیت، حقیقی تنوّع ، معقول discourse، باہمی تعاون، اور اخلاقی، روحانی و انسانی قدروں کو بےمعنی قرار دے دیتی ہے اورانہیں marginalizeکر دیتی ہے۔
اسی طرح ، یہ دعویٰ بھی ، کہ طاقت خالصتاً subjective ہےاور زبان اور تصورات پر مبنی ہوتی ہے ، اور یہ کہ بااختیارلوگ زبان کو بطور آلہ استعمال کرتے ہوئے حقائق کو تشکیل دیتے ہیں ، مکمل طور پر عقلی جانچ کے سامنے جمتانہیں ۔ اس دعوے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستان پر یورپی استعمار کا قائم ہونا ، یا trans-atlanticغلاموں کی تجارت کو محض زبان کے استعمال کے ذریعہ انجام دیا گیا تھا۔ ان ادوار کا محض سطحی جائزہ لینے سے ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ ایسا دعویٰ کرنا استعماری طاقت کے تعلقات کی نوعیت کی ایک نامکمل سمجھ کی وجہ سے ہے جو کہ بنیادی طور پر فوجی ، نظریاتی ، سیاسی ، معاشی طاقت کے معیار میں فرق پر مبنی تھے۔ یہ سمجھنا بھی جہالت ہوگا کہ محض انگریزوں کے غالب بیانیے کو deconstructکرنے سے اور ان کے 'مشرقی-مغربی' (Oriental-Occident) کی بائنری اصطلاحات کے متبادل کوئی نئی non-binary اصطلاح کا تعرف کروا کر ان کو ہندوستان سے نکالا جاسکتا تھا۔ ادبی اور فلسفیانہ کاموں کے حلقہ سے باہر deconstruction کی انہی کمزوریوں کی بنا پر سیاسی میدان میں 'ثقافتی علوم' کے پراڈئم اور فوکالٹ سے متاثر 'نئی تاریخ سازی' اس پر سبقت لے گئے(جو کہ تمام اعمال کو محض power relations تک محدود کرنے کی بنا پر غلط ہے)۔ بعد میں ، ڈیریڈا نے انصاف ، اخلاقیات اور سیاست کے امور پر وسیع پیمانے پر لکھ کر اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی۔ یہاں اگر ہم فرض کربھی لیں کہ یہ محض الفاظ کا آزادانہ گھماؤ پھیراؤ نہیں ہے(جو کہ ڈیریڈا کے نزدیک زبان کا استعمال ہونا چاہئے)، تب بھی یہ بات واضح ہے کہ 'سیاست' سے متعلق یہ تجریدی مفروضے 'عملی' سیاست سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔
مزید ، ڈیریڈاکا یہ دعویٰ کہ حقائق سے متعلق لسانی اعتبار سے کئے جانے والے تمام دعوے ثانوی اور ماخوذ ہوتے ہیں منطقی طور پر خود متضاد ہے۔ حقیقت اور حقیقت کی نمائندگی کے مابین تعلقات کا ایک متبادل نظریہ پیش کرنے کی کوشش میں ، ڈیریڈا ، کم از کم ضمنی طور پر ، یہ استدلال کرتا ہے کہ اس کا زاویہ خیال چیزوں سے اسی طرح مطابقت رکھتا ہے جیسا کہ وہ حقیقت میں واقعتاً موجود ہیں اور اس کے برعکس دوسرے ہم عصر تصورات حقیقت کی اس طرح نمائندگی نہیں کر سکتے۔ اس طرح ڈیریڈا ، جس کا فلسفہ مغربی metaphysics کی آخری باقیات کو آشکار کرنے ، مسخ کرنے اور اسے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے ، کو بھی در حقیقت اسی کا عملی پیروکار سمجھا جاسکتا ہے۔
مابعد جدیدیت کا ایک بھیانک چہرا یہ بھی ہے کہ جب لامحدود شکوک و شبہات کو معمول سمجھا جائے تو یہ ممکن ہے کہ یہ ان شدید اور ناقابل برداشت تکالیف کی حقیقت کو غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کردیا جائے جو کہ قدرتی آفات یا جابرانہ ، غاصب حکومتوں کے نتیجے میں انسانیت پر ڈھا ئی گئی ہیں۔ سمندری و زمینی طوفانوں اور زلزلوں کے ذریعہ ہونے والی تباہیوں کی حقیقت بلاشبہ ناقابل تردید ہے ، اور اسی طرح نازی حراستی کیمپوں ، سوویت gulags اور گوانتانامو بے جیل کی ہولناکیاں ناقابل تردید ہیں۔ اس پہلو سے ، درد، شاید سیاسی میدان کے سب سے بنیادی معروضی حقائق میں سے ایک ہے۔
اگرچہ مابعدجدیدیتحقائق کی مکمل عدم موجودگی پر اصرار کرتی ہے، لیکن یہ ایک تجریدی مفروضہ یعنی Theoretical Abstractionسے زیادہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ کسی بھی فرد کے لئے زندگی کے تمام پہلوؤں کی طرف مستقل طور پر نسبتی رویہ(stance of relativism) اپنانا ناممکن ہے۔بہرحال ، ان کے مادی اجسام متعدد ناقابل تردید حقائق کی حدود کو قبول کرتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ حیاتیاتی حقائق کا انکار کسی بھی صورت میں اس بنیادی ترین حیاتیاتی سچائی سے تجاوز کوممکن نہیں بناتا کہ"ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے"[9]۔اسی طرح ، یہ تجویز کرنے سے کہ فطری قوانین کے متعلق تجرباتی مشاہدات کی بنیاد پر کی جانے والی نظریاتی وضاحتیں محضsubjective ہیں ،سے شبہ کرنے والا ان میں سے بنیادی ترین قوانین سے تجاوز نہیں کرسکتا، مثال کے طور پر ، زمین کی کشش ِثقل۔
مزید یہ کہ مابعدجدیدیت کا یہ استدلال ،کہ عقل اور منطق محض ظلم و جبر کا ایک آلہ ہے ، منافقانہ ہے ، کیوں کہ اسکے مفکرین اپنے مؤقف کی حمایت میں دلائل دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہر قسم کا discourse دراصل ظلم و جبر کا ایک نہ ختم ہونے والا کھیل ہی ہے تو پھر، مابعدجدیدیت خود بھی ظلم وجبر کا ایک آلہ بن جاتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اگرعقل کو محض ظلم و زیادتی کے آلے کے طور پر سمجھا جاتا ہے ، تو پھر دو افراد یا گروہ جن میں کسی قسم کا اختلاف ہو جائے، ان کواپنے اختلافات کے حل کے لئے کوئی مشترکہ بنیاد نہیں ملے گی-آخر کار کوئی معروضی حقیقت تو موجود ہی نہیں جس کے متعلق وہ صحیح یا غلط ہوبھی سکیں۔ لیوٹارڈ نے "اتفاق رائے" کو "دہشت گردی" سے مناسبت دے کر اس نکتہ کو اجاگر کیا۔ لیوٹارڈ کے نزدیک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جبر کا استعمال کئے بغیر صرف عقل کی بنیاد پر معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔Nietzsche کے الفاظ میں ، "جہاں کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، وہاں صرف طاقت ہوتی ہے"۔ یہ انتہائی اہم نکتہ ہے اور مابعدجدیدیت کی power relations کے ساتھ بےجاجنون کے متعلق ایک اہم بصیرت پر روشنی ڈالتا ہے۔ تمام تر انسانی محرکات کو طاقت کے حصول تک محدود کرنے میں دراصل مابعدجدیدیت اپنے لئے طاقت کے استعمال کا جواز پیدا کرتی ہے۔ ایک صحیح معنوں میں مابعدجدید معاشرہ متعدد مسابقتی ، بیانیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا ، اور چونکہ حقیقت پر متفق ہونے کا کوئی طریقہ تو ہے نہیں ، لہذا ، ظاہر یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں کسی بھی قسم کے توازن کو قائم کرنے کے لئے واحد راستہ طاقت کا سفاکانہ مظاہرہ ہی ہوگا۔یہ بات بھی عیاں ہے کہ مابعدجدیدیت بہت حد تک فریڈرک Nietzsche ، مارٹن ہائڈِگر ، ماریس بلانکوٹ ، اور پال ڈی مین ،کے افکار سے متاثر ہوا ہے اور یہ سب وہ مفکرین یا تو فاشزم میں ایک دلکشی محسوس کرتے تھے یااس سے متاثر تھے۔
مابعدجدیدیت کا سیاسی اظہار، بطور شناختی سیاست(identity politics)، شدید گمراہ کن ، غلط اور خود متضاد ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ، یہ فکر metanarratives کو ختم کرنے اور ان کے متبادل مقامی subjectiveبیانیوں کے استعمال کی وجہ سے ابھرتی ہے ، پس سیاسی پوزیشن ان سماجی گروہوں کے مفادات اور نقطہ نظر کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں جن کے ساتھ لوگ اپنی شناخت کرتے ہیں یعنی نسل ، جنس ، شناخت ، تہذیب ، قومیت ، جنسی رجحان ، معذوری ، مذہب ، ثقافت ، زبان اور بولی۔ یہ 20ویں صدی میں Civil Rights Movement کے دوران منظرعام پر آئے اور خاص طور پر 1980 کی دہائی میں ان کو تقویت حاصل ہوئی۔
شناختی سیاست کا وہ وصف جو اسے defineکرتا ہے،اس کا علم حاصل کرنے کے subjective طریقہ (subjectivist/standpoint epistemology)کو عقلی یا سائنسی علم حاصل کرنے کے طریقوں پر ترجیح دینا ہے کیونکہ عقل اور سائنس تو محض نہ ختم ہونے والے ظلم و ستم کے ارتکاب میں استعمال ہونے والے آلہ کار ہیں۔ یہ اس مارکسسٹ فریم ورک کو بھی واضح کرتا ہے جس کے تحت مابعدجدیدیت کام کرتی ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ حقیقت کا دماغ پر محض ایک عکس ہی جھلکتا ہے تو ، یہ فطری طور پر ہو گا کہ پیدا ہونے والے تمام مسائل سے نمٹنے کے لئے صرف ایک subjective نکتہ نظر ہی اپنانا چاہئے۔ تاہم جس طرح مارکس نے معاشرے کو بورژوازی (bourgeoisie) اور پرولتاری (proletariat) کے مابین تقسیم کیا ہے، اسی طرح مابعدجدیدیت نے زندگی کے تجربات کی بنیاد پر معاشرے کو کئی مختلف طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔
معاشرے کی ایسی تقسیم بہت گھمبیر مسئلہ ہے کیونکہ یہ کسی بھی مسئلے پر وسیع تر یکجہتی حاصل کرنے کو ناممکن بناتی ہے۔ مثال کے طور پر ، مسلم ممالک میں جن اہم معاملات سے نمٹنا ضروری ہے وہ موجودہ حکومتوں کا خاتمہ اور اسلامی خلافت کی بحالی ہے۔ تاہم ، اگر معاشرے متعدد گروہوں میں تقسیم ہوں ،ہر ایک عملی طور پر دوسرے کے خلاف رخنہ ڈالے تو ، خلافت کے پیغام کے لئے وسیع بنیاد پر عوامی حمایت حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا اور اس کا نتیجہ سیاسی بے عملی کی صورت میں نکلے گا ۔
مزید یہ کہ ، ایک subjective نکتہ نظر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ صرف ایک خاص شناخت سے تعلق رکھنے والے افراد - ان گروپ(In-group)- ، اپنی زندگی کے تجربات کی بنا پر ، اپنے معاملات کے بارے میں بات کرنے کے مجاز ہیں ، اور یہ کہ دوسرے – آؤٹ گروپ(Out-group)- ان کے مسائل کو کبھی نہیں سمجھ سکتے ۔ یہ نکتہ نظر غلط اور فطری طور پر متضاد ہے۔ اگر آؤٹ گروپ ، جیسے کہ مرد ، اٹھیں اور خواتین کے مسائل پر بات کریں تو ان پر خواتین کی آزادی ضبط کرلینے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ دوسری طرف ، اگر مرد خواتین کے معاملات کو نظرانداز کرتے ہیں تو ان پر خواتین کو marginalize کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس طرح کی شناختی سیاست شدید قسم کی انا پرستی پر مبنی ہوتی ہے اور مختلف شناختوں کو ایک دوسرے سے مزید کاٹنے اور دور کرنے کا کردار ادا کرتی ہے۔
شناختی سیاست کے فریم ورک کے اندر سب سے گہرا تضاد، essentialism vs nonessentialismکا مسئلہ ہے۔ مابعدجدیدیت کے مطابق ظالم اور مظلوم کے مابین تعلقات ہی دراصل مختلف شناختیں بننے کی وجہ ہیں، جیسے سفید فام بمقابلہ سیاہ فام ، متفاوت جنس پرستبمقابلہ ہم جنس پرست،مرد بمقابلہ خواتین،اور اس وجہ سے یہ شناختیں دراصلessentialised دقیانوسی معاشرتی تعمیرات ہیں۔تاہم ، شناخت پر مبنی سیاسی یا معاشرتی گروہ تشکیل دینے میں – (بائنری کے تضاد کو واضح کرتے ہوئے تاکہ ظلم ختم ہو سکے)-مابعدجدیدیتخود ہی essentialismکا شکار ہوجاتی ہے۔ لہذا ، شناختی سیاست اصل میں خود وہی تصور ہے جس کو یہ ختم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ Intersectionalityکی تحریک کو شناختی سیاست میں اس خامی کا احساس ہوگیا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ ہر فرد کے لئے متعدد کئی شناختیں تجویز کرتی ہے ۔ تاہم، ایک nonessential نکتہ نظر اپنانا کسی بھی طرح معنی خیز سیاست کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ لہذا intersectionality کی تحریک نے جو حاصل کیا وہ محض مختلف گروہوں کے درمیان ایک اَناپرستانہ مقابلہ ہے کہ کون زیادہ مظلوم ہے۔ اور جو جتنا مظلوم ہے وہ اتنا ہی بہتر بھی ہے یعنی سیاہ فام مرد کے مقابلے میں سیاہ فام عورت زیادہ مظلوم ہے کیونکہ وہ رنگ اور جنس دونوں میں مظلوم گروہ میں شامل ہوتی ہے اور اسی وجہ سے وہ زیادہ بہتر بھی ہے۔
سب کچھ کو ظالم بمقابلہ مظلوم فریم ورک میں محدود کر دینے کا مزید ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو مابعدجدیدیت کے metanarrative کو تسلیم نہیں کرتے ان پر فورا 'ظالم' کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ 'ظالم' کا لیبل لگ جائے تو پھر سمجھا جاتا ہے کہ اب ان کی کوئی بھی بات سننے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی تمام باتیں ظلم ہی کی حمایت میں ہونگی۔ اس میں کوئی حیران کن بات نہیں کہ اس طرح کے فریم ورک کے نتیجے میں جب مسلسل گروہوں کی مختلف شناختوں کو اجاگر کیا جائے گا اور 'ظالم' لوگوں کو مسلسل ٹارگٹ کیا جائے گا توپھر وہ بھی شناختی سیاست اپنا لیں گے، مثال کے طور پر، سیاسی میدان کے تناظر میں سفید فام شناختی سیاست کا تقویت حاصل کرنا یا پھر نسلی علیحدگی پسندی کے جواز کے طور پر European New Right کا ‘right to difference’ کا مطالبہ۔
پس، یہ واضح ہے کہ مابعدجدیدیتکا حقائق ، معروضی علم اورعقل کو مسترد کرنا محض ایک تخیلاتی اورمفروضاتی چیز ہی ہے اور یہ سیاسی عمل کے لئے موزوں نہیں ہے۔ آخرکار، اگر ٖفوکالٹ کے مطابق، کہ آزادی کا تصور بھی ‘govermentality’ کی طاقتوں کا پچھایا گیا جال ہے جو کہ ‘subject’ کو ‘power-knowledge’ کے چنگل میں مزید پھنسا دیتی ہے تو پھر اس قسم کی طاقت جو ہر طرف موجود ہے،کا مقابلہ کرنے کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ۔
عقل کو مسترد کرنا، مابعد جدیدیت کی اس سمجھ کی وجہ سے ہے کہ روشن خیال دور ہی دراصل انسانی مباحثوں میں عقل کو متعارف کرانے کا ذمہ دار تھا۔ تاہم ، روشن خیال دور کی بنیادی غلطی عقل کو متعارف کرانانہیں ہے ، بلکہ ان معاملات میں اس کا غلط استعمال ہے جو ویسے ہی عقل کے دائرے سے باہر ہیں۔ بنیادی غلطی کو پہچاننے میں اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ خود ہی ماڈرنزم کے اس مقبول بیانیے سے گمراہ ہو گئے کہ روشن خیال دور نے لوگوں کو ماضی کی دقیانوسی روایات اور توہم پرستی سے آزاد کرتے ہوئے ایک نئے عہد کا آغاز کیا تھا۔ ذہن میں روشن خیال دور کی اس تعریف کے ساتھ ، یہ فطری بات تھی کہ مابعدجدید مفکرین عقل کے استعمال پر تنقید کریں بلکہ اس حد تک تنقید کریں کہ عقل کے استعمال کو دور جدیدکے تمام مسائل کا سبب سمجھنے لگے۔تاہم، یہ ایک انتہائی اناپرستانہ اور Euro-centrist دعویٰ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ روشن خیال دور سے قبل کی تمام ثقافتیں محض غیر منطقی عقائد ، خرافات اور توہم پرستی پر مبنی تھیں۔ یہ انسانی تاریخ کے متعلق ایک انتہائی غلط فیصلہ ہے کیونکہ انسان ہمیشہ ایک عاقل مخلوق رہا ہے۔
اصل غلطی، یعنی عقل کا ان معاملات میں غلط استعمال جو دراصل اس کے دائرے سے باہر ہیں ، روشن خیال دور کے مفکرین کے ان اعلانیوں میں ظاہر ہوتا ہے کہ حاکمیت لوگوں کی ہے اور انہیں کسی دوسرے کی خودمختاری کے تابع ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی جدید مغربی تہذیب کا سنگ بنیاد ہے اور اس کے تمام مسائل کی اصل جڑہے کیونکہ لوگ خود اپنے حاکم ہونے کے اہل نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ حاکمیت ِاعلیٰ اسی کے ساتھ رہنی چاہئے جس نے لوگوں کو پیدا کیا کیونکہ صرف وہ ان کی تخلیق کا مقصد جانتا ہے ، اورصرف وہ اکیلا ہی انسانی فطرت کا کامل علم رکھتا ہے۔ چونکہ انسان محدود ہے ،اس لیے اپنے وجود کے مقصد کی نامکمل سمجھ کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی فطرتکے متعلق سمجھ بھی نامکمل ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو عقلی انداز میں یہ دریافت کرنا چاہئے کہ ، کس نے انہیں پیدا کیا ، اور پھر انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنے خالق کی حاکمیت کو تسلیم کرنا چاہئے ۔ لہذا ، ایک خالق کے وجود کا تعین کرنے کے لئے ، اور پھر ان احکامات کو سمجھنے کے لئے جو ہمیں اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ دیے ہیں ، عقل و دانش کو بروئے کار لانا چاہئے۔ پس مابعدجدید مفکرین ، روشن خیال دور کی اصل اقدار کو سمجھنے میں ہی ناکام رہے ، کجا یہ کہ ان اقدار سے پیدا ہونے والے مسائل کا مؤثر حل پیش کرسکیں ۔
جب مابعدجدیدیتکا گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ پر فریب کیوں ہے اور اسے غیر قطعی زبان کی حاجت کیوں ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی شخص جو حق کو جانتا ہو وہ اس کو اس حد تک واضح انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرے گا جتنا ممکن ہو سکے۔ مبہم الفاظ کے ذریعے خیالات کو غیر واضح کرنا ایک علمی خیانت ہے۔ تاہم ، مابعدجدید مفکرین نے دانستہ طور پر اپنی عبارتوں میں ناقابل فہم زبان استعمال کی ہے جو کسی بھی ایسے شخص کو بمشکل ہی سمجھ آ سکتی ہے جو کہ ان کے فکری ادب سے مکمل طور پر آشنا نہ ہو۔ اس سے دو بڑے مقاصد حاصل ہوتے ہیں : پہلا ، اس قسم کی ایک نجی زبان بظاہر ان مفکرین کو ایک فرضی قسم کا وقار عطا کرتی ہے۔ دوسرا ، یہ مابعدجدیدیت کے لٹریچر کو بیرونی جانچ پڑتال سے بچانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ لہذا ، مابعدجدید مفکرین اس طرح کی زبان کو استعمال کرتے ہوئے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اکثر نظریات یا تو غیر عقلی ، غیر منطقی ، غیر سائنسی ہوتے ہیں اور اگر کبھی درست ہوں بھی تو محض بنیادی common sense سے زیادہ کچھ نہیں۔
اسلامی معروضی نقطہ نظر سے دیکھنے پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مابعدجدیدیت ایک ناقص اور غلط تصور ہے۔ اسلام ایک مکمل آئیڈیالوجی (یا metanarrative ) ہے ، اور ہردور اور زمانے کے لئے اسلام کا موزوں ہونا ہر مسلمان کے عقیدہ کا حصہ ہے۔ چونکہ اسلام تمام انسانوں کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا مقرر کردہ حتمی دین ہے ، لہٰذا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کے کسی بھی زمانے میں اسلام کی حقانیت کے انکار کا مطلب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بطور قانون ساز انکار ہے۔ کسی بھی وجہ سے ایسا انکار ایک شخص کو اسلام کے دائرے سے ہی خارج کر دیتا ہے کیونکہ نہ صرف یہ اسلام کی روح کی خلاف ورزی ہے ، جو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہر لحاظ سے عبادت کرنا ہے، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھی ایک قید لگادینے کے مترادف ہے جبکہ وہ ہر دور اورزمانے کے لئے واحد قانون ساز ہے ۔
اسلام تسلیم کرتا ہے کہ عالمگیر حقائق موجود ہیں ، اور ہم ان سچائیوں کے بارے میں معروضی (objective)علم حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ اسلام حق کے پیغام کو پھیلانے کے ایک ذریعہ کے طور پر عقلی مباحثوں کو بھی قبول کرتا ہے۔ اس کی عکاسی اس سے ہوتی ہے کہ اسلام نے اپنے عقیدہ کی عقلی قبولیت کو ہی اسلام میں داخل ہونے کی شرط بنا دیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے تمام انبیاء نے عقلی شواہد کی بنیاد پر ایک ہی خالق کے وجود کو تسلیم کرنے کی دعوت دی ، اور دوسروں کو حق کی طرف بلانے کے لئے انہی عقلی شواہد کا استعمال کیا۔ اس کا ثبوت ابراہیمؑ کی کہانی میں ملتا ہے جب انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور اسے اپنے رب کے طور پر لیا ، لیکن جب ستارہ غائب ہوگیا تو انہیں احساس ہوا کہ ستارہ ان کا رب نہیں ہوسکتا ۔ اس کے بعد انہوں نے چاند دیکھا ، اور اسے اپنے رب کےطور پر لیا ، لیکن جب چاند غائب ہوا تو انہیں احساس ہوا کہ چاند اُن کا رب نہیں ہوسکتا۔ پھر انہوں نے سورج کو اپنے رب کے طور پر لیا ، لیکن جب سورج غائب ہو گیا تو انہیں احساس ہوا کہ سورج بھی اُن کا رب نہیں ہوسکتا۔ اس سے انہیں یہ سمجھ آئی کہ ستارہ ، چاند اور سورج محدود اور محتاج ہیں جبکہ حقیقی خالق نہ تو محدود ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی کا محتاج۔ تب انہوں نے پہچانا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ستارے ، چاند ، سورج اور کائنات کے اندر موجود ہر چیز کا خالق ہے ، اور یہ کہ وہابدی اور غیر محتاج ہے۔ قرآن مجید بھی خالق کے وجود کے تعین کے لئے ایسے ہی عقلی نقطہ نظر کو علم حاصل کرنے کے لئے(rational epistemology) استعمال کرتا ہے : "دیکھو! آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور دن و رات کے بدلنے میں اہل عقل کے لئے کھلی نشانیاں ہیں[10]"۔ ابراہیمؑ نے دوسروں کو بھی دعوت حق دینے کے لئے عالمگیر حقائق کو استعمال کیا تاکہ مشترکہ معروضی عقلی بنیادوں کا فیصلہ ہوسکے اور ان بنیادوں پر دعوت کے پیغام کو کھڑا کیا جاسکے: "کیا آپ نے اس شخص پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے اپنے رب کے بارے میں [محض] اس وجہ سے بحث کی تھی کہ اللہ نے اسے بادشاہت عطا کی تھی؟ جب ابراہیم نے کہا ، "میرا رب وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے ،" اس نے کہا ، "میں زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔" ابراہیم نے کہا ، بیشک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو لہذا اسے مغرب سے لے کر آؤ۔ تو کافر مغلوب ہوگیا (حیرانی سے) اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے "[11]۔ یہ اسلام کے اعلیٰ طریقہ کار کی بھی مثال ہے ، کہ یہ ان لوگوں کو ،جومبہم اور فریبی زبان کے کھیل کے ذریعےحقیقت کے متعلق غلط بیانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حقیقت سے ایک بالکل واضح، قطعی اور سادہ فہم جواب دیتا ہے ۔
اسلام identity politics کو بھی مسترد کرتا ہے کیونکہ رنگ ، نسل ، زبان وغیرہ کی بنیاد پر کئے جانے والے امتیازات غلط ہیں ، اور تمام مسلمان ایک ہی نظریہ سے جُڑے ایک واحد متحد امت سمجھے جاتے ہیں۔ خلافت کے اندر سیاسی جماعتیں الگ الگ ’شناخت‘ نہیں رکھیں گی بلکہ ایسی تمام جماعتیں صرف اور صرف اسلامی عقیدہ پر مبنی ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قیام کا ثبوت ہی جماعتوں کے اہداف کی وضاحت کرتا ہے۔ “اور تم میں ایک ایسی جماعت ( گروہ) ضرور ہونی چاہئے جو [سب کو] خیر وبھلائی کی طرف دعوت دے ، اور برائی (شر) سے منع کرے اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے [12]"۔ لہذا ، سیاسی جماعتوں کو لازمی طور پر معروف کا حکم دینا چاہئے اور منکر سے روکنا چاہئے۔ ایسی جماعتوں کا قیام ممنوع ہے ،جو ممنوعہ اعمال انجام دیتے ہوں جیسے کہ غیر اسلامی نظریات کا پھیلاؤ، اور ریاست کی طرف سے ان کی روک تھام کی جائے گی۔
مختلف ثقافتوں کی طرف subjective مابعدجدید نکتہ نظرکو بھی اسلام نے مسترد کیا ہے ، کیونکہ اسلام ایک عالمگیر پیغام ہے۔ "(اے محمدﷺ) کہہ دو: اے لوگو ! بے شک ، میں تم سب کی طرف اللہ کے رسول کی حیثیت سے بھیجا گیا ہوں – اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے [13]''۔ اورفرمایا ، "ہر نبی کو صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا تھا لیکن مجھے تمام انسانوں کے لئے بھیجا گیا ہے"[14]۔ علم حاصل کرنے کاsubjective طریقہ کار یہ بھی سمجھتا ہے کہ حقیقت کی مختلف تشریحات کرنے میں ہر گروہ اپنی اپنی جگہ درست ہے۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ اسلام حق اور باطل کے مابین واضح امتیاز رکھتا ہے ، اور مسلمانوں کو لازمی یہ فرق قبول کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ جہاں اسلام ذّمیوں کو اپنے مذاہب کی پیروی کرنے کی اجازت دیتا ہے ، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام مسلمانوں کو دوسرے عالمی نظریات کو دوسرے لوگوں کے لئے بھیدرست سمجھنے کی اجازت دے۔
پس مابعدجدیدیتایک اور غلط فلسفہ ہے جو مغربی مفکرین کی طرف سے دین کو دنیا سے جدا کر دینے کے بعد پیش کیا گیا ہے۔یہ واضح ہے کہ مابعدجدیدیت اپنے بنیادی اور مرکزی تصورات میں ہی غلط ہے۔ اس کو مکمل طور پر مسترد کر دینا چاہئے ، ان تمام تصورات سمیت جو اس کی طرز سوچ اور فکری اساس سے نکلتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی روشن خیال دور کی اقدار بھی ترک اور مسترد کر دینی چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں معاشرہ خالصتاً خالق کے احکامات کے مطابق ہو نہ کہ جاہل لوگوں کے اختیار کردہ خود متضاد اور بےتکے فلسفوں کے مطابق اور پھر وہ پوری دنیا کو فکری جہالت سے نکال کر اسلام کے نور کی طرف لائے۔
[1] Postmodernism (Stanford Encyclopedia of Philosophy)
[2] Richard Wolin, The Seduction of Unreason – The Intellectual Romance with Fascism from Nietzsche to Postmodernism, Princeton University Press (2004)
[3]Alex Callinicos, Against Postmodernism: A Marxist Critique
[4]Metanarrative - New World Encyclopedia
[5]Daniel Dennett: ‘I begrudge every hour I have to spend worrying about politics’ | Daniel Dennett | The Guardian
[6]New York Review of Books, 27 October 1983
[7]Judith Butler, ‘Further reflections on conversations of our time’, Diacritics, vol. 27, no. 1, Spring 1997
[8] The paper was unpublished but has been attached as an appendix to Alan Sokal and Jean Bricmont’s book Fashionable Nonsense.
[9] Quran 3:185
[10]Quran 3:190
[11] Quran 2:258
[12] Quran 3:104
[13] Quran 7:158
[14] Recorded by Al-Bukhari, Kitabut-Tayammum, hadith no. 335 from the narration of Jabir bin 'Abdullah Al-Ansary, and by Muslim, Kitabul-Masajid hadith no. 521. According to the latter's version, the Prophet (peace be upon him) said, "Every Prophet used to be sent to his nation only but I have been sent to every (one with) a red or black (complexion) (i.e., to all races)."