الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے

 4 دسمبر 2021

 

یورپی یونین نے چائنہ کیBRI کا مقابلہ کرنے کے لیے گلوبل گیٹ وےکی فنڈنگ کا اعلان کر دیا

اس ہفتےیورپی کمیشن کی صدرUrsula von der Leyen نے گلوبل گیٹ وے پروگرام کی فنڈنگ کے لیے 300 ارب یورو کا اعلان کیا ہےجو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مقابلے میں یورپی یونین کا جواب ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر نے کہا، "ہم معیاری تعمیرات میں سمارٹ سرمایہ کاری کی حمایت کریں گےجو کہ ماحول اور معاشرے کے اعلیٰ ترین معیارکو ملحوظِ خاطر رکھ کر کی جائیں گی جو کہ یورپی یونین کی جمہوری اقدار اور بین الاقوامی طور طریقے اور معیارات کے عین مطابق ہوں گی۔گلوبل گیٹ وے حکمتِ عملی ایک نمونہ ہے کہ یورپ دنیا کے ساتھ کیسےمضبوط روابط تعمیر کرسکتا ہے۔"اس سال امریکہ نے بھیBuild Back Better World کے نام سے ایک بین الاقوامی تعمیراتی منصوبے کا اعلان کیا تھا مگرابھی تک اس کے متعلق ٹھوس تفصیلات یا مالیاتی التزامات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ چائنہ کی وسیع BRI سکیم کا اعلان 2013 میں کیا گیا تھا  جس کے تحت  70 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں میں ایک کھرب ڈالر تک تعمیراتی سرمایہ کاری کی جائے گی اور تب سےیہ سکیم مسلسل پھیل رہی ہے۔یورپی یونین کا منصوبہ اس کے مقابلے میں چھوٹا اورکم توقعات کا حامل ہے۔The Economist کے مطابق، '300 بلین یورو کا مجموعہ موجودہ التزامات، قرضوں اور Clubکی جانب سے حقیقی نئی سرمایہ کاری کے بجائےنجی سرمایہ کاری کواکٹھا کرنے کے بےباک مفروضوں پر مشتمل ہے۔'

 

مغرب چین کی بے پناہ اقتصادی صلاحیت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو اختیار کرکے مغرب نے خود اپنی اقتصادی صلاحیت کوتباہ کر ڈالا ہے۔جب سرمایہ داریت کو شروع میں نافذ کیا جاتا ہے تو اس سے بےپناہ معاشی پیداوار ہوتی ہےکیونکہ کاروباری لوگوں اور صنعتکاروں کو دولت پیدا کرنے کے رستے میں حائل رکاوٹوں سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ مگر دولت کو صحیح معنوں میں تقسیم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے سرمایہ دارانہ اقتصادیات اس معاشرے کو غربت اور بھوک کا شکار کر دیتی ہے جو اس کو نافذ کرتا ہے۔دولت صرف امیر اور طاقتور لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے اور صرف انہی کے درمیان گردش کرتی رہتی ہےجس سے ایک متوازی معیشت جنم لیتی ہےجو کہ مصنوعی مالیاتی آلات اور عیاشی کی چیزوں اور سہولیات پر مشتمل ہوتی ہےجبکہ عام عوام مقامی صنعتوں اور پیداوار کے لیےدرکارسرمائے کی اشد ضرورت کے باوجوداس سے محروم رہتے ہیں۔ اگر مغربی معاشرہ باقی دنیا سے زیادہ امیر دکھائی دیتا ہے تو یہ اس کی اپنی مقامی اقتصادی پیداوار کی وجہ سے  نہیں بلکہ دنیا کے وسائل اور دولت کے سامراجانہ استحصال کی وجہ سے ہے ۔درحقیقت، امریکہ چین کی پیداوار سے چوکنا نہیں بلکہ وہ ا س کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہےویسے ہی جیسے امریکہ نے اس سے قبل جرمنی اور جاپان کی اقتصادی پیداوار کا فائدہ اٹھایا۔اگر امریکہ چین سے خائف ہے تووہ اس کی معیشت سے نہیں بلکہ اس کی سیاست اور بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے ہےجو کہ جرمنی اور جاپان سےمختلف ہے جن کی فوجی طاقت کوامریکہ نےجنگ عظیم دوئم کے بعدان پر قابض ہو کر ٹھنڈا کیے رکھا۔

 

اگر مسلمان حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو یہ مغرب کے افکار اور ان کے طور طریقوں کو اپنانے سے نہیں آئے گی جو کہ آخرکاراپنے ہی ہاتھوں شکست پرمنتج ہو گی۔مسلم امت کے پاس دنیا کی ہدایت کے لیے ایک بہت ہی اعلیٰ ذخیرہ موجود ہے جو کہ قرآن شریف اور سنت اور ان سے نکلنے والے افکار، قوانین اور نظام ہیں جنہوں نے ایک ہزار سال تک مسلمانوں کو دنیا پر حاوی کیے رکھا۔اگر ہم نے یہ مقام کھو دیا تو یہ ہمارے اسلام پرچلنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کو صحیح معنوں میں اختیار نہ کرنے کی وجہ سےہوا۔بہرکیف اللہ کے اذن سے مسلم امت اب دوبارہ دین کی طرف لوٹ رہی ہےاور جلد ہی نبوت کے نقشِ قدم پر اسلامی خلافتِ راشدہ کا قیام عمل میں لانے والی ہےجو کہ تمام مسلم علاقوں کو اکٹھا کرے گی، مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروائے گی، اسلامی شریعت کو نافذ کرے گی، اسلامی طرزِ حیات کو بحال کرے گی اور اسلامی کی دعوت کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرے گی۔

 

مغربی افتصادی سامراجیت اور افغان خواتین

مغرب کی اقتصادی سامراجیت کو دوام دینے کی کوششوں کا مظاہرہ افغانستان میں کیا جا رہا ہے۔اگرچہ امریکہ افغانستان سے وسیع تر جغرافیائی عوامل کی وجہ سےنکلنے پر مجبور ہوامگر پھر بھی مغرب دیگر تمام ممکنہ ذرائع استعمال میں لاکر اس زمین پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے۔افغانستان کے لوگ دہائیوں سے جنگ میں مصروف رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ بیرونی حمایت کے بغیر اپنی معاشی سرگرمیوں کو کس طرح جاری رکھنا ہے۔ مزید برآں افغانستان وسائل کی دولت سے مالا مال ہےاور یہ مغربی، وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سنگھم پر واقع ایک اہم تجارتی گزرگاہ ہے۔ بہرحال، مغرب شہروں میں آباد ان لوگوں کی مشکلات دکھا رہا ہےجو قبضہ کے دوران کسی نہ کسی وجہ سے مغربی فنڈنگ پر انحصار کرتے تھےجبکہ ساتھ ہی افغانستان کی حکومت کی بیرونی فنڈز تک رسائی کو کاٹ رہا ہے۔اس ہفتے، اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں افغانستان کی معیشت کو اس کے خواتین کے ساتھ سلوک کے ساتھ جوڑا گیا ہےجو کہ مغربی تنقید کا پسندیدہ موضوع ہے۔Bloomberg کی رپورٹ کے مطابق، "طالبان کا خواتین کو کام سے روکنے کے فیصلے سے افغان معیشت کو فوری طور پر ایک ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہےجو کہ کُل ملکی پیداوار(جی ڈی پی)کا 5 فیصد ہے۔ یہ کہنا ہے UNDP کی ایک رپورٹ کاجبکہ مسلح گروپ گھمبیر ہوتے ہوئے بحران کو روکنے کے لیے عالمی مدد مانگ رہا ہے"۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ، "UN کی رپورٹ نے افغانستان کی معیشت کی ایک تشویش ناک منظرکشی کی ہےجو کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور موجودہ کرنسی کی کمی کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔خواتین ملک کی کام کرنے والی آبادی کا 20 فیصد ہیں اور ا ن کو کام سے روکناگھریلو اخراجات میں سے آدھے ارب ڈالرکی کمی واقع کر دے گا، اس میں کہا گیا"۔

 

اسلام خواتین کوکام کرنے اور معاشی اور تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی مکمل اجازت دیتا ہے۔ مگر یہ جی ڈی پیکو بڑھانے کے لیے نہیں جو کہ کسی ملک کی معاشی سرگرمی کو جانچنے کا ایک خام، ناقص اورگمراہ کن پیمانہ ہے۔اسلام اعمال میں قدر پیدا کرنے کے لیےان کو صرف اجرت کمانے تک محدود نہیں کرتا۔خواتین کو کام کرنے پر مجبور کرکے مغرب نےخاندانوں اور گھرانوں کو شدید کمزور کر دیا ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی اور معاشرتی محتاجی پیدا ہوگئی ہےجس نے مغربی حکومتوں پر دباؤ کو بڑھا دیا ہےجو کہ بیش بہا سوشل ویلفئر اخراجات اور وسیع تر تعلیم اورصحت کی سہولیات کے باوجودتمام لوگوں کی مناسب نگہداشت کرنے سے قاصر ہیں۔اس کے بر خلاف اسلام میں اس سے بہت محدود حکومتی انتظام ایک بہت ہی منصفانہ اور خوشحال معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہواجس کی وجہ مضبوط خاندان اورمحلے تھے جن کے مرکز میں خواتین کا مضبوط کردار تھا اور یہ اُن کے بغیرممکن نہیں ہو سکتا۔ایسی خدمات کی مسلم معاشرے میں بھر پور تعریف کی جاتی ہے اور ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق، ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا اور کہا، " اے اللہ کے رسول ﷺ! میں جانا چاہتا ہوں تاکہ جہاد میں حصہ لے سکوں اور میں آپ سے نصیحت لینے آیا ہوں"۔آپ ﷺ نے فرمایا، " کیا تمہاری ماں تمہارے پاس ہے؟"۔ اس نے کہا، "ہاں"۔رسول ﷺ نے کہا، "تو اس کے پاس رُکے رہوکیونکہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے"۔ (نسائی)

 

اللہ کے اذن سے، افغانستان جلد ہی دوبارہ قائم ہونے والی اسلامی خلافت کے ساتھ انضمام کی بدولت مضبوط ہوجائے گا ۔ یہ ریاست اپنے آغاز سے ہی دنیا کی بڑی طاقتوں کی صفوں میں شامل ہو جائے گی جس کی وجہ اس کی کثیر آبادی، وسائل، جغرافیائی سیاست اور آئیڈیالوجی ہیں۔ پس یہ اس بات پر مکمل قادر ہو جائے گی کہ مسلم زمینوں پر مغربی سامراجیت کو روک سکےچاہے وہ معاشی ہو یا کسی بھی اور شکل میں ہو ۔

Last modified onپیر, 13 دسمبر 2021 20:18

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک