الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سرمایہ دارانہ طاقتوں کے مالیاتی ہتھکنڈے

 

ڈاکٹر الاسد العجلی

 

الوعی شمارہ 421، ستمبر 2021- صفر 1443

(عربی سے ترجمہ)

 

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا شمار ان اہم مالیاتی ہتھکنڈوں میں ہوتا ہے، جنہیں بڑی سرمایہ دار طاقتیں عالمی معیشت پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان کے ذریعے دوسرے ممالک کو مسلسل قرضوں میں دھکیلا جاتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ معاشی طور پر محتاج رہیں۔ اس طرح ان مالیاتی اداروں کی طرف سے پیش کیے جانے والے قرضے اصل میں ان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ قرض دینے والی قوموں کے ہاتھوں میں سیاسی ہتھیار کا کام کرتے ہیں، جن کے ذریعے وہ قرض لینے والی قوموں پر اپنی پالیسیاں اور نظام مسلط کرتے ہیں۔ لہذا ایسے میں کوئی بھی دھچکا جو مقروض قوموں کے ترقیاتی منصوبوں کو پہنچتا ہے، وہ ان کو نافذ کرنے والے نظام کے لیے بھی دھچکا ثابت ہوتا ہے۔

 

ان مالیاتی اداروں کی طرف سے مقروض ممالک پر مسلط کیے گئے مالیاتی اور معاشی اصلاحات کے پروگرام حقیقت میں وہ مہلک خوراک ہے، جو قوموں کی معیشت کو تباہ کر دیتی ہے اور انہیں قرض دینے والے اداروں کا محتاج اور ماتحت بنا دیتی ہے۔ مزید برآں، قوموں کی مالی صلاحیت معلوم کرنے اور ان کے معاشی رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے پہلے ماہرین بھیجے جاتے ہیں اور پھر مخصوص منصوبے منوانے اور شرائط لگانے کے بعد ہی قرضے دیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر منصوبے صرف عوامی خدمات کے ہوتے ہیں جن سے صنعتی پیداوار کبھی ترقی نہیں کرتی۔

 

آئی ایم ایف کی جانب سے قرضوں کے لیے جو شرائط مقرر کی گئی ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل نکات میں کیا گیا ہے:

ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی۔ یہ دو طرح سے نقصان کا باعث بنتی ہے: پہلا: مقامی کرنسی کی قیمت خرید میں کمی اور پیداوار کی لاگت میں اضافے کی وجہ سے مقامی اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ۔ دوسرا: کرنسی کی قدر میں کمی ملکی پیداوار کو، بین الاقوامی منڈیوں میں دیگر اشیا کے لیے، قرض دینے والے ممالک کی برآمدات کے مقابلے میں برآمد کرنے کیلئے کمزور کر دیتی ہے، جس کا نتیجہ برآمدی قیمتوں میں کمی کے طور پر نکلتا ہے۔ یہ سب کمزور قوم کی توانائیوں اور وسائل کا کم قیمت پر فروخت ہونے کا باعث بنتا ہے ۔

 

بجٹ کا بوجھ اٹھانے کے لیے ریاست کے اخراجات کو کم کرنا۔ یہ مفادِ عامہ کے شعبےمیں اجرتوں میں کمی، اخراجات، حکومت کی طرف سے بنیادی ضروریات جیسے رہائش، کپڑے اور خوراک کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسی ضروریات کے شعبوں میں فراہم کردہ وظیفوں اور سبسڈی کو کم یا منسوخ کر کے کیا جاتا ہے۔ اس سے افراد کے لیے رہن سہن کے اخراجات بڑھ جاتے ہے جبکہ ناخواندگی، بیماری اور غربت ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں نقل و حمل کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جو آخر کار مہنگائی، معاشی انحطاط اور افراط ِزر کا باعث بنتا ہے۔

 

بجٹ کے وسائل میں اضافے کیلئے ظالمانہ ٹیکسوں جیسے سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، کیپٹل گین ٹیکس اور لیبر ٹیکس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جس سے صارف اور پروڈیوسر (producer)دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس سے اجناس کی مانگ کم ہو جاتی ہے جس سے پروڈیوسر یا ایکسپورٹر کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس طرح عوام پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے کیونکہ حکومت اپنے شہریوں کا خون چوسنا شروع کر دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِن من أعظم الخيانة أن يتاجر الراعي في رعيته»

"سب سے بُری خیانت اس سرپرستکی ہے جو اپنی رعایا پر تجارت کرے

 

نجکاری: یہ خزانہ بھرنے کے لیے عوامی اداروں کو نجی شعبے کو فروخت کرنا ہے۔ یہ استعماریآئی ایم ایف کی طرف سے مقروض ممالک پر مسلط کی گئی سب سے اہم اور خطرناک پالیسیوں میں سے ایک ہے جس کے ذریعے وہ عوام کی صلاحیتوں کو ہڑپ کرتا ہے۔

کفایت شعاری کے اقدامات جن کی ریاست  پابند ہے۔ ان میں شرح سود میں اضافہ، ٹیکسوں میں اضافہ اور کئی اشیاء  پر کسٹم ٹیکس میں اضافہ جن میں خوراک اور ضروری اشیاء شامل ہیں، اور اخراجات کو کم کرنا شامل ہے۔ یہ عوام پر ان کی صلاحیتوں سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔

 

آئی ایم ایف کی طرف سے اختیار کی جانے والی ان پالیسیوں کا مقصد مقروض ممالک کو سرمایہ دار ممالک کی زیادہ قیمتوں والی اشیا کے تبادلے کے لیے کھلی منڈیوں میں تبدیل کرنا ہے، جس سے معیشت کو بدلنے کے لیے مقصود حالات پیدا کیے جاسکیں۔ یہ اقدامات سرمایہ دارانہ منڈیوں کی معیشت میں منصوبہ بندی اور مرکزی رہنمائی پر مبنی ہیں۔ یہ وحشی سرمایہ داریت کی ہیرا پھیری ہے جس کی بنیاد صرف لالچ اور زیادہ منافع  ہے۔

 

اس طرح آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کردہ شرائط درحقیقت ایک تباہ کن پیکج ہوتا ہے جو بالآخر عوام کے بھوک سے مرنے اور قوم کے گھٹنے ٹیکنے کا باعث بنتا ہے۔

 

جہاں تک بین الاقوامی بینک یعنی ورلڈ بینک کا تعلق ہے، اس کا انحصار نام نہاد "انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ"(Infrastructure Development) کی حمایت پر ہے۔ یہ سرمایہ کاری کے لیے خودمختار دولت پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے۔ تاہم، منتخب شدہ منصوبے ریاست کیلئے منافع نہیں لاتے۔ اس میں ورثے کے تحفظ کے منصوبے، ماحولیاتی منصوبے، سیاحت کے منصوبے، تولیدی صحت کے منصوبے (آبادی میں اضافے کو کم کرنے کے لیے)، تعلیم میں اصلاحات اور دیگر شامل ہیں۔ جہاں تک بڑے اور سٹریٹجک منصوبوں کا تعلق ہے، تو عالمی بینک صرف اس وقت سرمایہ کاری کرتا ہے جب اس منصوبے کو مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے شروع کیا ہو۔ اس طرح عالمی بنک ریاست کو قرضوں میں غرق کر دیتا ہے، ترقی کے پہیے میں خلل ڈال دیتا ہے، اور امت کی دولت کو لوٹ لیتا ہے۔

ان دونوں اداروں کی طرف سے فراہم کردہ قرضے دو قسم کے ہیں: قلیل مدتی قرضے اور طویل مدتی قرضے۔ جہاں تک قلیل مدتی قرضوں کا تعلق ہے، اس کا مقصد قوموں کی کرنسی پر حملہ کرنا ہے تاکہ افرا تفری پیدا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادائیگی صرف غیر ملکی کرنسی کے طور پر قبول کی جاتی ہے۔ قومیں ان کرنسیوں کی کمی کی وجہ سے ادائیگی کرنے سے قاصر رہتی ہیں یا اس وجہ سے کہ انھیں بین الاقوامی تجارت کے لیے ایسی کرنسیوں کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ انہیں ایسی کرنسیوں کو زیادہ قیمت پر خریدنے پر مجبور کرتا ہے اور اس طرح ان کی اپنی کرنسی کی قدر گرتی ہے، جس سے وہ آئی ایم ایف کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کی کرنسیوں کو امریکہ کی طرف سے مقرر کردہ پالیسی کے مطابق کنٹرول کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ  اور عالمی بینک کو کنٹرول کرتا ہے، کیونکہ ان میں اس کا حصہ سب سے بڑا ہے۔

جہاں تک طویل مدتی قرضوں کا تعلق ہے، ان کی مدت لمبی ہوتی ہے۔ ایسے قرضوں کی ذاتی کھاتوں میں منتقلی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ادائیگی مقررہ تاریخ سے زیادہ بھی برداشت کی جاتی ہے، اس طرح کہ قرض جمع ہو کر بڑی رقم بن جاتے ہیں، جسے قوم ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اس طرح مقروض قوم کے معاملات میں براہ راست یا قرض دینے کے لیے استعمال ہونے والے اداروں کے ذریعے مداخلت شروع ہو جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی معاشی اصلاحات کا ایک پروگرام مسلط کیا جاتا ہے جس میں مہلک شرائط شامل ہوتی ہیں جیسے کرنسی کی قدر میں کمی، حکومتی اخراجات میں کمی، عوامی منصوبوں کی نجکاری، بہت سی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، ایندھن، پانی اور بجلی جیسی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس بڑھانا، نئے ٹیکس لگانا، اور دوسرے اقدامات جو کسی بھی ملک کی معیشت اور اس کی مالیاتی پالیسی کو قرض دینے والی قوموں کے مکمل کنٹرول میں کر دیتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے علاوہ ہے کہ عالمی بینک یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض لینے والے ملک کی طرف سے حاصل کیے گئے قرضوں کا ایک بڑا حصہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔

 

ان بین الاقوامی اداروں سے قرضے لینے سے معاشی بحالی کبھی نہیں ہو گی۔ معیشت کو جو چیز ٹھیک کرے گی وہ امت کے عقیدے سے نکلنے والی نظریاتی قانون سازی ہے جو اس کے رب سبحانہ وتعالی کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے نکلتی ہے نہ کہ سرمایہ دارانہ نظریے اور کافروں کی زندگی کے طریقہ سے۔ مزید برآں، یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک، دونوں ادارے ان بڑی طاقتوں کے استعماری ادارے ہیں جو عالمی اقوام کے معاملات میں مداخلت کرتی ہیں، انہیں مسلسل قرضوں میں ڈبو کر ان پر معاشی محتاجی مسلط کرتی ہیں۔ ان سے غربت میں ہمیشہ اضافہ ہوا ہے اور مسائل کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان، ایران، ترکی، مصر، تیونس اور اردن جیسی اقوام اس حوالے سے بہترین گواہ ہیں، جنھوں نے ان دونوں اداروں کے ساتھ کئی دہائیوں تک مسلسل لین دین کیا ہے۔ اس حقیقت نے بعض ممتاز بین الاقوامی مبصرین کو ان دونوں اداروں کے خاتمے یا اقوام کے ملکی اور غیر ملکی معاملات میں ان کی مداخلت پر پابندی لگانے کے مطالبے پر بھی اکسایا ہے۔ لیکن امریکی اور یورپی ممالک اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے دونوں اداروں کو بغیر کسی روک ٹوک کے، ابھی تک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

 

سود خور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کام کرنے والے ان اداروں سے قرض لینا مسلمانوں کے علاقوں کو مزید غربت اور محتاجی کی طرف لے جائے گا۔ اس کے بے شمار ثبوت دنیا کے تمام حصوں میں موجود ہیں ۔ مزید یہ کہ یہ تمام انسانیت کے رب کے غضب کا سبب بنے گا کیونکہ یہ سود کا لین دین ہے جسے شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿يَمۡحَقُ ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٰاْ وَيُرۡبِي ٱلصَّدَقَٰتِۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ﴾

"خدا سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی کافر گنہگار کو دوست نہیں رکھتا" (سورہ البقرہ- 2:276)۔

 

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:

وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ

"اور اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے"( سورہ البقرہ- 2:275)۔

 

صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

«لَعَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ الرِّبَا وَمُوَكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَهُ»

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، لکھنے والے اور اس کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی"(مسلم)۔

 

لہٰذا معیشت کبھی بھی حرام سے بحال نہیں ہوئی اور نہ ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شاندار شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِي فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةٗ ضَنكٗا﴾

"اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے"(سورہ طٰہٰ-20:124)۔

 

جو بھی استعماری اداروں کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ دراصل بیماری ہی کے ذریعے علاج کی تلاش میں ہے،جو امت کو بڑی طاقتوں اور ان کے اداروں کی مزید لوٹ مار کا شکار بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ امت کے لیے معیشت کو صحیح طریقے سے بحال کرنے کے لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے فریم ورک کے اندر، اسلامی معاشی نظام کے کسی بھی حصے کو چھوڑے بغیر اس کو مکمل طور پر نافذ کریں۔ درحقیقت اسلام کے احکامات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے ان کو کسی صورت الگ یا تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ یہ کسی صورت بھی جائز نہیں۔امت کے احیاء کی قیادت صرف اسلامی ریاست کے فریم ورک کے اندر شریعت کے مکمل نفاذ سے کی جائے گی جو کہ صرف خلافت کے ذریعے ممکن ہے۔

 

﴿وَلَوۡ أَنَّ أَهۡلَ ٱلۡقُرَىٰٓ ءَامَنُواْ وَٱتَّقَوۡاْ لَفَتَحۡنَا عَلَيۡهِم بَرَكَٰتٖ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلَٰكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذۡنَٰهُم بِمَا كَانُواْ يَكۡسِبُونَ﴾

اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے۔ تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔ سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا"(سورہ الاعراف- 7:96)

Last modified onپیر, 13 دسمبر 2021 20:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک