بسم الله الرحمن الرحيم
ان شاء اللہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت عنقریب قائم ہو گی
بلال المہاجر، پاکستان
آج دنیا سیاسی، معاشی، سماجی اور صحت کی سہولیات کے بحرانوں کا شکا ر ہے، جو وقت کے ساتھ بہت گہرے ہو چکے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی قوم، مشرق سے مغرب تک، بشمول عالم اسلام کی اقوام یا مغرب کی اقوام کے، اس کے نتیجے میں آنے والے انتشار سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ پوری دنیا نے مشترکہ حیثیت سے ان بحرانوں کے سامنے اپنی نااہلی کا اعلان کر دیا ہے جو کہ غالب تہذیب یعنی سیکولر سرمایہ دار مغربی تہذیب کے دیوالیہ پن کی نشاندہی کر تا ہے۔ اس صورت حال نے دنیا بھر کے لوگوں بالخصوص اسلامی دنیا کے انقلابی عوام میں شدید غصہ پیدا کر دیا ہے، جس سے دنیا میں ایک عظیم سیاسی اورتہذیبی خلاء پیدا ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود نظریات دو قسموں میں بٹے ہوئے ہیں: انسانی نظریہ جو اس وقت سوشلزم اور سرمایہ داریت ہے اور الہامی نظریہ جو کہ صرف اسلام ہے۔ انسانی نظریہ ناکام ہو چکا ہے۔ انسانیت کو مصائب کی کھائی میں دھکیلنے کے بعد اس نے فکری دیوالیہ کا اعلان کر دیا ہے۔ سوشلزم نے پہلے ہی اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کی خامیاں دہائیوں پہلے ہی عیاں ہو چکی ہیں۔ اب سرمایہ داریت اس عظیم دیوالیہ کو آگے بڑھا رہی ہے۔ یہی باطل نظریہ تہذیبوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر اب یہ کہنا درست ہے کہ اسلام ہی اس خلاء کو پر کرنے کا واحد امیدوار ہے۔ صرف اسلام میں ہی وہ بنیادی تہذیبی عناصر ہیں جن کا مقابلہ کوئی انسانی نظریہ نہیں کر سکتا۔ اسلام کے پاس ہی وہ مبنی بر عقل عقیدہ ہے جو ذہن کو قائل کرتا ہے اور دل کو سکون سے بھر دیتا ہے۔ صرف اس کے پاس زندگی کو منظم کرنے کا نظام ہے جو جامع اور منصفانہ ہے، کہ کوئی باطل اس تک نہ پہنچ سکے، نہ آگے سے اور نہ پیچھے سے۔
تاہم، اسلام دنیا کے تہذیبی خلاء کو ایک سیاسی وجود کے ذریعے ہی پر کر سکتا ہے جو اسلامی افکار، تصورات، معیارات اور اعتقادات کے مجموعے سے حکمرانی کرے، یعنی وہ سیاسی اکائی جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ تمام احکامات کے مطابق حکومت کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔ یہ وجود ریاست خلافت میں مجسم ہے جس کے قائم ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ درحقیقت اس کا قیام اب کبھی بھی ہو سکتا ہےاور یہ ادراک دو پہلوؤں پر مبنی ہے: نظریاتی پہلو اور سیاسی پہلو۔
جہاں تک نظریاتی پہلو کا تعلق ہے تو خلافت کا قیام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے عمل میں آئے گا جس کی تصدیق دو حقیقتوں سے ہوتی ہے:
اول: اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے زمین پر پے در پے جانشینی کا وعدہ کیا، جیسا کہ اس سے پہلے ان کے اگلے لوگوں کو جانشینی دی گئی تھی۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا،
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں۔‘‘ سورۃ النور [24:55 [
دوئم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظالمانہ حکومت کے بعد جس کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں، نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ کی واپسی کی بشارت دی ہے۔ ایک صحیح حدیث میں، جیسا کہ احمد نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً عَاضّاً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ
"تم میں نبوت رہے گی، جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا، پھر نبوت کی طرز پر خلافت قائم ہو گی، پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے رکھے گا، پھر جب اللہ چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا، پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہو گی، جب تک اللہ چاہے گا اسے رکھے گا پھر جب اللہ چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا، پھر جابرانہ حکومت کا دور ہو گا، جب تک اللہ چاہے گا اسے رکھے گا پھر جب اللہ چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا، پھر نبوت کی طرز پر خلافت کا دور ہوگا اس کے بعد نبیﷺ خاموش ہوگئے" (مشکوٰۃ شريف جلد نمبر سوم حدیث نمبر 1309)۔
جہاں تک دوسرے پہلو کا تعلق ہے، یعنی سیاسی زاویے سے، یہ اسلام کی تیاری اور تہذیبی خلاء کو پر کرنے کی صلاحیت سے متعلق ہے۔ اور یہ دو عوامل کی وجہ سے ہے:
اول: امت زندہ اور متحرک ہے، خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد میں حصہ ڈال رہی ہے اور اس کے لیے کئے جانے والے کاموں کی حمایت کرتی ہے، یہاں تک کہ اللہ عزوجل کا وعدہ پورا ہو جائے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کی خلافت اور اس کے حامیوں کی آمد پر اسے قبول کرنے کی واضح آمادگی بھی ثابت ہے۔ اس طرح امت تیزی سے اپنے اصل راستے کی طرف بڑھ رہی ہے جس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلم امت کو تعینات کیا۔ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں،
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں میں سے اٹھائے گئے ہوکیونکہ تم نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"[ سورہ آل عمران 3:110]۔
دؤم: وہ حزب جو اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخلص ہے، اللہ کے وعدے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کو پورا کرنے کے لیے دن رات مسلسل اس راستے پر چل رہی ہے اور اس کام میں وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خاطر ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہی ڈرتی۔ ان شاءاللہ اس کی پیش قدمی سست نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کا عزم کمزور پڑے گا، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ پورا کر دے۔ حزب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر پورا اترتی ہے جو مسلم نے ثوبان سے روایت کی ہے:
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَذَلِكَ...
"میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ جو شخص اُن کو رسوا کرنا چاہے گا وہ اُن کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ وہ اسی طرح ثابت قدم رہیں گے حتیٰ کہ اللہ اپنا فیصلہ پورا کر دے۔"
لہذا اآج کے دور میں مادی مدد (نصر) اور تبدیلی کے عناصر حاصل کرنا بالکل ممکن ہے ۔ امت زندہ ہے اور انقلابی ہے، جبکہ حزب زبردست صلاحیتوں کے ساتھ مضبوط ہے۔ اور دشمن نہ صرف کمزور ہے، بلکہ اپنے کمزور ترین مقام پر ہے، جب کہ عالمی سطح پر تہذیبی خلاء موجود ہے… اس لیے ہمیں اپنے دین پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ وہ واحد نظریہ ہے جو تہذیبی خلاء کو پر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمیں اپنی امت پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ تمام امتوں میں سے بہترین امت ہے جو تمام اقوام کے خالق کی گواہی دیتی ہے۔ ہمیں امت کی قیادت، حزب التحریر، پر بھروسہ کرنا چاہیے جو کہ فقیہ، سیاست دان اور مفکر ہے، جو اللہ کے حکم سے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے شرعی احکامات کے مطابق حکومت کرنے اور انتظام چلانے کی اہلیت رکھتی ہے تا کہ بحرانوں کو حل کیا جا سکے اور چیلنجوں پر قابو پایا جا سکے۔
معاملہ اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اس کی تکمیل صرف اہلِ نصرۃ پر منحصر ہے۔ یہ مسلم افواج کی نصرت پر منحصر ہے، ان انصار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصرۃ عطا کی تھی۔ پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی مدد کی اور ان کو کمزوری کے بعد طاقت و اختیار دیا اور ان کو ذلت کے بعد عزت بخشی۔ بہر حال، اسلام کے لیے نصرۃ صرف وہی لوگ دے سکتے ہیں جو مخلص، متقی اور پاکیزہ ہوں۔ وہ ثابت قدم لوگوں میں سے متحرک آدمی ہوں گے۔ اور اسلام کے لیے نصرۃ دینا بہت بڑا اعزاز ہے، اس کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو اہلِ اقتدار اور اہلِ نصرۃ میں سے پاک ہوں۔ یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو جنت کی فتح کے مستحق ہیں، جس طرح پہلے انصار تھے۔ اور اسلام کو دنیا میں جانشینی عطا کرتے ہوئے، اپنی خوشبودار سوانح عمری لکھ کر انہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ملاقات کا موقع ملے گا، جب کہ امت ان کے لیے خیر کی دعا کرتی رہے گی۔
آج کی دنیا ایک بحری جہاز کی مانند ہے جو گہرے سمندر میں ہر طرف سے لہروں سے ٹکرا رہا ہے۔ اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کی مستحکم بندرگاہ پر کنارے لگنے کا فیصلہ کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ دنیا کو اسلام کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے۔ یہ دنیا کے لوگوں کی رہنمائی اور ان کے معاملات کو ترتیب دینے کا واحد ذریعہ ہے۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ ہم صحیح راستے پر ہیں جو ہمیں محفوظ منزل تک لے جائے گا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم صرف اہلِ نصرۃ کے انتظار میں ہیں۔ اس کے بجائے ہم کہتے ہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں اور اللہ سے دعا کر رہے ہیں کہ وہ اہلِ نصرۃ کو دین کی خاطر نصرۃ دینے کے لیے تیار کر دے، تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی عزت واپس آ جائے، اور کفر اور اس کے ماننے والے ذلیل ہوں۔
ابو داؤد نے روایت کیا:
عَنْ خَبَّابٍ قَالَ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: "أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا"، فَجَلَسَ مُحْمَرًّا وَجْهُهُ، فَقَالَ: "قَدْ كَانَ مَنْ قَبْلَكُمْ يُؤْخَذُ الرَّجُلُ فَيُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ يُؤْتَى بِالْمِنْشَارِ فَيُجْعَلُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُجْعَلُ فِرْقَتَيْنِ، مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عَظْمِهِ مِنْ لَحْمٍ وَعَصَبٍ، مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَحَضْرَمُوتَ مَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ تَعَالَى وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَعْجَلُونَ
"خباب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے جب آپ ﷺ اپنی ایک چادر پر ٹیک دیئے کعبہ کے سائے میں آرام فرما رہے تھے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، 'آپﷺ ہمارے لیے اللہ سے مدد کیوں نہیں طلب فرماتے؟ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیوں نہیں مانگتے؟' آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے اور ان کا چہرہ (غصے سے) سرخ ہو گیا، فرمایا 'تم سے پہلے (کے زمانے کی امتوں میں) ایک شخص کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں ڈال دیا جاتا۔ پھر اس کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیئے جاتے، پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے پھر بھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتے۔ اللہ کی قسم! اللہ اپنا یہ امر (اسلام) مکمل کرے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقام صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اسے اپنے لیے اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں ہو گا، یا صرف بھیڑئیے کا خوف ہو گا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے، لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو"۔