بسم الله الرحمن الرحيم
حقیقی آزادی کے لیے سیاست کی از سر نو تعمیر
مصعب عمیر، پاکستان
پاکستان کے یوم آزادی، 14 اگست ،کے موقع پر ملک گیر بحث نے پاکستان کے آئین اور سیاست کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ ایک بنیادی بحث ہے، جو تبدیلی لانے کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کی کوششوں کی سمت کا تعین کرے گی جو ایک عرصے سے مشکلات و مصائب کا شکار ہیں۔ حقیقی آزادی صرف چہروں کی تبدیلی یا امریکہ مخالف بیان بازی سے نہیں ملے گی۔ حقیقی آزادی مغربی سیکولرازم، اس کی سرمایہ داریت، اس کی جمہوریت اور اس کے عالمی سیاسی نظام سے آزادی ہے۔ حقیقی آزادی کلمہ سے مکمل وابستگی ہے، جیسا کہ مشہور نعرے میں کہا گیا ہے، "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔"
فی الحال، پاکستان میں سیاست، باقی مسلم دنیا کی طرح، مغربی تہذیب کے مطابق کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ سیاست لوگوں کی ان کے معاملات میں دیکھ بھال اور نمائندگی ہے، لیکن یہ دیکھ بھال ایک ایسے زاویے سے ہے جو اپنی بنیاد اور تفصیلات، دونوں حوالوں سے، اسلام سے متصادم ہے۔ یہ سیاست ایک سیکولر سیاست ہے، جہاں مذہب اور دین کا کوئی کردار نہیں ہے۔ مذہب خالصتاً ذاتی معاملہ ہے اور اس کا سیاست اور حکمرانی میں کوئی کردار نہیں ہے۔ چنانچہ مغرب میں عیسائیت ریاست کا مذہب ہے لیکن ریاست کے آئین، پالیسیوں اور قوانین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح مسلم دنیا میں بھی اسلام ریاست کا مذہب ہے، لیکن اس کا آئین، قوانین اور پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مغرب نے سیکولر سیاست کو اپنا کر ترقی حاصل کی، لیکن مسلم دنیا میں یہ راہترقی کا باعث نہیں بنی۔ سیکولر سیاست استعمار کے لیے مسلم دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا ایک مؤثرچور دروازہ ہے۔ مقامی سیاسی اشرافیہ استعمار کے مفادات کی تکمیل کے لیے سیاست، قوانین اور آئین میں تبدیلیاں کرتی ہے۔ لہٰذا، مسلم دنیا کی سیاسی قیادت ایسی ہے جس نے اپنی فیصلہ سازی غیر ملکیوں کے حوالے کر دی ہے۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا، کیونکہ مسلم دنیاکے پاس اس کی روک تھام کے لیے اسلام کی کسوٹی نہیں ہے۔
مسلم دنیا میں سیاست کی از سر نو تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔ مسلمان کے لیے کسی معاملے کی بھی اصلاح دین اسلام کے معیار کے مطابق ہونی چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ"بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے ۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا،جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، بلکہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔"پھر رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا، فَمَا تَأْمُرُنَا"آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟" آپﷺ نے فرمایا، فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ"تم ایک کے بعد دوسرے (خلیفہ)کی بیعت کو پوراکرو اور انہیں اُن کا حق اداکرو۔ اور اللہ تعالیٰ اُن سے اُن کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اُس نے انہیں دی۔"(بخاری و مسلم)
امام نووی رحمۃ اللہ اس حدیثِ نبوی کی شرح میں فرماتے ہیں، يَتَوَلَّوْنَ أُمُورهمْ كَمَا تَفْعَل الْأُمَرَاء وَالْوُلَاة بِالرَّعِيَّةِ "وہ انبیاء ان (عوام)کے معاملات میں ان کے اس طرح نگہبان تھے جیسے اسلامی امیر اور والی (گورنرز) ہوتے ہیں"۔پس جس طرح انبیاء علیہم السلام نے وحی الٰہی کے ذریعہ معاملات کی تصحیح کی تھی اسی طرح اسلامی امیروں اور والیوں کو بھی ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ،وَالسِّيَاسَة الْقِيَام عَلَى الشَّيْء بِمَا يُصْلِحهُ "سیاست: کسی معاملے کے حوالے سے ہونے والےفیصلے پر عملدرآمدہے، کہ اس کے ذریعے اس (معاملے) کی اصلاح ہو۔"اصلاح صرف اسلام سے ہے اور اس کے سوا کسی اور چیز کے ذریعے اصلاح نہیں ہوتی۔ چنانچہ مسلمانوں کی نمائندگی خلیفہ کرتا ہے، جسے مسلمان بغیر کسی جبر کے منتخب کرتے ہیں اور اسے بیعت دیتے ہیں ۔ پھر وہ مسلمانوں کا اُن کے معاملات میں اسلام کے نقطہ نظرکے مطابق ولی (سرپرست، نگہبان) بن جاتا ہے۔ لہٰذا آئین، قوانین اور پالیسیاں سب صرف اور صرف قرآن اور سنت نبوی ﷺ سے اخذ کیے جانے چاہئیں۔ یہی وہ چیز ہے جو استعمار کی مداخلت کے دروازے بند کرتی ہے اور سیاسی فیصلہ سازی میں حقیقی آزادی کی طرف لے جاتی ہے۔
اس طرح یہ خلافت ہی ہے جو استعماری اثرورسوخ سے مکمل آزادی کو یقینی بنائے گی۔ یہ خلافت ہی ہے جو استعمار کی کھینچی ہوئی سرحدوں کو ہٹا کر مسلم دنیا کو ایک ریاست کے طور پر یکجا کرے گی۔ یہ خلافت ہی ہے جو استعماری سیاسی نظام کی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ مسلم سرزمینوں کو آزاد کرائے گی۔ اور یہ خلافت ہی ہے جو پوری دنیا کو اسلام کی دعوت کے لیے کھول دے گی، جہاد کے ذریعے مادی رکاوٹوں کو دور کرے گی، یہاں تک کہ ان شاء اللہ پوری دنیا پر اسلام کی حکومت ہو گی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عملی طور پر مسلم دنیا کی اس سیاسی اصلاح کی قیادت کون کرے گا، تو حزب التحریر کو اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے دیکھا جانا چاہیے ۔ حزب التحریر نے 191 دفعات پر مشتمل ایک جامع آئین تیار کیا ہے جس میں اسلامی ریاستِ خلافت کا وسیع وژن پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اس نے کتابوں کا ایک ذخیرہ تیار کر رکھا ہے، جو اس موضوع پر لکھی گئی اسلامی فقہ کی تفصیلات بیان کرتی ہیں، جنہیں اسلام کے مطابق حکمرانی اور سیاست کے لیے مسلمانوں نے صدیوں کے دوران مرتب کیا۔ اس نے انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان، مردوں اور عورتوں کی ایک فوج تیار کی ہے، جسے اسلام کے زاویے سے سیاست کرنے کی تعلیم اور تربیت دی گئی ہے۔ پس پاکستان کے مسلمانوں کو، اس حقیقت کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے،اس مشترکہ نوحے، "قیادت کا خلا ہے"، کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی کوئی قیادت موجود نہیں ہے؟! اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ راضی ہوا تو حزب التحریر ہمیں حقیقی آزادی کی طرف لے جائے گی جس کے لیے ہم سب دعا کرتے ہیں۔